Tag: سبق آموز کہانی

  • بغداد کا نعل ساز

    بغداد کا نعل ساز

    بغداد میں ایک نوجوان تھا- وہ بہت خوبصورت تھا اور اس کا کام نعل سازی تھا- وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا-

    نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی "جمور” یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا- لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا-

    وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا؟

    اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے- اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی-

    اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ” یہ تو کوئی اور ہی بات ہے-” اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ؟

    اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے، اور کسی حادثے کا شکار ہو کر وہ دونوں فوت ہو گئے- اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی-

    وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے- آخر کار نہایت غم زدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی-

    اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا ” کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے-” میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے-

    میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا- میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں- میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا- میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاؤں گا وہ لڑکی چلی گئی-

    اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا-

    جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا – جو میری دسترس میں تھا-

    جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریبُ المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں- اس نے مزید کہا ” اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے-”

    وہ نوجوان کہنے لگا، میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا- میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا- اس لڑکی نے مجھے کہا کہ "میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں گی-”

    اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ "مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو-”

    یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ ” اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے – ”

    یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ ” اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے- ”

    نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی – ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا- میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں-

    (حکایت از اشفاق احمد، زاویہ)

  • چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    چیونٹی اور پیوپا (قدیم یونانی حکایت)

    ایک چمکیلی دوپہر کو ایک چیونٹی خوراک کی تلاش میں تیزی سے بھاگی جا رہی تھی کہ اس کا ٹاکرا ایک پیوپا سے ہوا جو اپنی جون بدلنے کی حالات میں تھا۔

    پیوپا نے اپنی دُم ہلائی تو چیونٹی اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے احساس ہوا کہ یہ بھی کوئی جاندار ہے۔ وہ حقارت سے بولی: ” بیچارے جانور، تمہیں دیکھ کر تو ترس آتا ہے، تمہاری قسمت کتنی خراب ہے کہ تم حرکت بھی نہیں کر سکتے، اور اپنے خول میں قید صرف دم ہلا سکتے ہو، جب کہ میں اپنی مرضی اور خوشی سے ادھر، ادھر تیزی سے دوڑ سکتی ہوں۔ اور اگر میں چاہوں تو سب سے اونچے درخت کی سب سے اوپر والی شاخ تک بھی پہنچ سکتی ہوں۔” پیوپا نے یہ سب سنا لیکن چیونٹی کو جواب دینے سے گریز کیا۔

    کچھ دنوں بعد کے جب چیونٹی کا گزر ایک بار پھر وہاں سے ہوا۔ وہاں پیوپا کا بس خول پڑا تھا۔ وہ حیران ہوئی کہ اس خول میں موجود پیوپا کہاں گیا۔ ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ اسے اپنے اوپر سائے کا احساس ہوا۔ اس نے اٹھا کر دیکھا تو اسے بڑے بڑے پروں والی ایک رنگ برنگی خوب صورت تتلی ہوا میں اڑتی نظر آئی۔

    تتلی نے چیونٹی سے کہا: "میں وہی پیوپا ہوں جسے تم نے چند روز قبل دیکھ کر اس پر ترس کھایا تھا اور اپنی برتری جتلائی تھی، اب مجھے تم پر ترس آتا ہے۔”

    یہ کہہ کر تتلی فضا میں بلند ہوئی اور موسمِ گرما کی ہوا کے دوش پر، فضا میں تیرتی، چیونٹی کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہوگئی۔

    سبق: کسی کا ظاہر دیکھ کر عجلت میں کوئی قیاس کرنا اور اس پر اپنی رائے دینا شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔

    (مشہور یونانی داستان گو ایسوپ کی ایک حکایت جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    سونے کی چڑیا (سبق آموز کہانی)

    کسی جنگل میں ایک مینا اور ایک چڑیا رہتی تھیں۔ دونوں کی آپس میں بہت دوستی تھی۔ وہ مل کر کھیلتیں اور مل کر کام کرتیں۔

    ایک دن کیا ہوا کہ چڑیا اڑتے اڑتے دور جا نکلی۔ اسے پیاس محسوس ہونے لگی تو وہ ایک پہاڑ میں سے بہتے ہوئے چشمے پر اتر گئی اور اس کا ٹھنڈا پانی پینے لگی۔ دفعتاً پہاڑ کی بلندی سے چند قطرے اس کی چونچ پر آن پڑے۔ اسے اپنی چونچ بھاری بھاری محسوس ہونے لگی اس نے ادھر ادھر اپنے سَر جھٹکا کہ جو بھی چیز ہے وہ الگ ہوجائے، مگر اسے احساس ہوا کہ چونچ پر جو وزن ہے وہ کم نہیں ہو رہا۔ اس نے پہاڑ سے سوال کیا۔ اے پہاڑ میری چونچ پر آخر اتنا وزن کیوں؟ پہاڑ بولا، ننھی چڑیا۔ میں سال میں ایک دفعہ روتا ہوں۔ میرے آنسو سونے کے ہوتے ہیں۔ جب تم نے پانی پیا۔ اتفاق سے میرے آنسوؤں کے چند قطرے تمہاری چونچ پر پڑگئے اور تمہاری چونچ کے اوپر سونے کا خول چڑھ گیا ہے۔ چڑیا گھر واپس لوٹ آئی۔

    اگلے دن سب پرندے چڑیا کو غور سے دیکھ رہے تھے۔ سونے کی چونچ کی چمک دمک ہی نرالی تھی۔ چڑیا سے سب سونے کی اس چونچ کا راز پوچھتے۔ بھولی بھالی چڑیا ان کو ساری کہانی سنا دیتی۔ جنگل میں چڑیا سونے کی چونچ والی مشہور ہو گئی۔ سب اس کی خوبصورتی کی تعریف کرنے لگے۔ باقی تمام چھوٹے پرندے بھی چڑیا سے دوستی کے خواہش مند ہو گئے۔

    اس کی دوست یعنی مینا یہ سب دیکھ کر حسد میں‌ مبتلا ہوگئی۔ اس کو یہ بات پسند نہ آئی کہ ہر پرندہ اور پرندے ہی کیا چھوٹے بڑے جانور تک چڑیا کی تعریف کرنے لگے ہیں اور اسے دیکھنے کو آتے ہیں۔ اسے چڑیا کی چونچ دیکھ دیکھ کر اپنی کالی چونچ سخت بری لگنے لگی تھی۔ وہ چپکے چپکے کئی بار اس پہاڑ پر گئی اور چشمے پر اچھلتی کودتی پھرتی رہی۔ وہ سارا دن گزار مایوس لوٹ آتی تھی، مگر اب تک نہ پہاڑ کو رونا آیا اور نہ ہی اس کے آنسو سے مینا کی چونچ سونے کی بنی۔ وہ ہر وقت اسی فکر میں رہتی کہ یا تو میری چونچ سونے کی ہو جائے یا چڑیا کی سونے کی چونچ کھو جائے۔ ادھر وہ بھولی بھالی اور نیک سیرت چڑیا اپنی دوست مینا کے دل میں اپنے لیے پلنے والی نفرت اور حسد کی اس آگ سے بے خبر تھی۔

    ایک دن مینا چڑیا کے گھر آئی اور بولی۔ چڑیا بہن کسی زمانے میں ہم دونوں میں کس قدر پیار تھا۔ مگر جب سے تمہاری چونچ سونے کی بنی ہے تم نے مجھے بھلا ہی ڈالا۔ چڑیا بولی۔ مینا کیسی باتیں کرتی ہو میری چونچ ضرور سونے کی بن گئی ہے مگر میں نہیں بدلی ہوں۔ تم دل برا مت کرو۔ مینا بولی اگر یہ بات ہے تو کل رات کا کھانا تم میرے ساتھ کھاؤ۔ مل کر خوب باتیں کریں گے، کھیلیں گے اور پیڑ کی شاخوں پر جھولا جھولیں گے چڑیا نے کہا ضرور کل میں شام کو ہی تمہارے ہاں آ جاؤں گی۔ رات کو واپسی پر جگنو خالو مجھے میرے گھونسلے تک چھوڑ دیں گے۔ مینا چڑیا سے وعدہ لے کر پھر سے اڑ گئی اور سیدھی ڈاکٹر لومڑی کے پاس جا پہنچی۔ ڈاکٹر لومڑی نے مینا کو دیکھ کر کہا آؤ مینا کیسے آنا ہوا؟ کہیں بیمار تو نہیں ہو۔ مینا بولی ڈاکٹر صاحبہ کئی دنوں سے سو نہیں سکی نجانے میری نیند کہاں کھو گئی ہے۔ مہربانی فرما کر مجھے نیند کی دوا دے دیں تاکہ ایک دو دن خوب سو سکوں۔ مینا ڈاکٹر لومڑی سے نیند کی دوا لے کر گھر پہنچی۔ دوائی کو گھونسلے کے ایک کونے میں رکھا اور خود گہری نیند سو گئی۔

    اگلے دن چڑیا کے آنے سے پہلے ہی مینا نے دو تین قسم کے اچھے کھانے چڑیا کے لیے تیار کیے۔ انہیں شیشے کی پلیٹوں میں سجایا۔ کھانے میں ڈاکٹر لومڑی کی دی ہوئی نیند کی دوائی شامل کر دی اور کام ختم کر کے چڑیا کا انتظار کرنے لگی۔ بیچاری چڑیا ندی پر جا کر خوب نہائی، پروں میں کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا اور اپنی سونے کی چمکتی ہوئی چونچ کو خوب چمکایا ا ور مینا کی طرف چل پڑی۔

    راستے میں بی بکری سے پھول لئے تو بی بکری بولی واہ چڑیا آج تو پوری ہی سونے کی لگ رہی ہو۔ کیا کسی شادی میں جا رہی ہو۔ چڑیا نے مینا کی دعوت کے بارے میں بتایا اور پھول لے کر چل دی۔ راستے میں ایک درخت پر جگنو خالو نیند کے مزے لے رہے تھے چڑیا نے ان کے کان کے پاس جا کر زور سے چوں چوں کی۔ تو وہ ایک دم سے ڈر کر جاگ گئے۔ چڑیا ہنس دی اور جگنو خالو کو تاکید کرنے لگی کہ رات کو واپسی پر مینا کے گھر سے مجھے میرے گھر تک پہنچا دینا۔ کیونکہ راستے میں اندھیرا ہو جائے گا۔ جگنو خالو نے چڑیا سے وعدہ کر لیا اور چڑیا خوشی خوشی مینا کے گھر جا پہنچی۔

    دونوں سہیلیاں بہت پیار سے ملیں۔ کافی دیر بیٹھ کر باتیں کرتی رہیں۔ پھر مینا نے چڑیا کو کھانا پیش کیا۔ چڑیا کو چاول کے دانوں کی کھیر بہت پسند آئی اور اس نے خوب جی بھر کر کھایا۔ مینا پاس بیٹھی چڑیا کو اصرار کر کر کے اور کھلاتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد چڑیا کو اپنا سر بھاری محسوس ہونے لگا۔ آنکھیں نیند سے بھرنے لگیں۔ چڑیا نے پر ہلا کر اڑنا چاہا مگر نیند کی دوائی اثر کر چکی تھی اور چڑیا بے ہوش ہو گئی۔ چڑیا کے بے ہوش ہوتے ہی مینا نے جلدی سے چڑیا کی سونے کی چونچ والا خول اتارا۔ اپنی کالی چونچ کاٹی اور اپنے منہ پر سونے کی چونچ سجا لی اور جلدی سے جنگل کی سمت اڑ گئی۔ خالو جگنو مینا کے گھونسلے کے باہر کافی دیر تک چڑیا کا انتظار کرتے رہے۔ مگر چڑیا گھونسلے سے باہر نہ آئی۔ چونکہ جگنو چڑیا سے گھر چھوڑنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ اور اب وہ اس کا انتظار کررہا تھا اور اس کی بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔

    اسی لئے وہ مینا کے گھونسلے کا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ گھونسلے کے اندر کی خاموشی سے جگنو کو کسی خطرے کی بو محسوس ہونے لگی۔ جگنو خالو گھونسلے کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا چڑیا بے ہوش پڑی ہے۔ انہوں نے جلدی سے چڑیا کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چڑیا نے تھوڑی سی حرکت کی اور آنکھیں کھول دیں۔ خالو جگنو نے پوچھا چڑیا تم کون ہو؟ چڑیا بولی۔ خالو جان آپ نے مجھے پہچانا نہیں میں سونے کی چونچ والی آپ کی بھانجی چڑیا ہوں۔ جگنو خالو بولے۔ مگر تمہاری چونچ تو سونے کی نہیں ہے۔ چڑیا نے گھبرا کر چونچ پر پنجہ مارا تو اسے اپنے ناک کے پاس باریک سی چونچ محسوس ہوئی۔ وہ بھاری بھر کم سونے کا خول غائب تھا۔ اسے ساری بات یاد آ گئی کہ کس طرح مینا نے اسے دھوکہ دیا۔ اس نے مینا کو ادھر ادھر ڈھونڈا۔ مینا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ مینا کو نہ پا کر چڑیا رونے لگی۔

    رات کی تاریکی میں چڑیا کے شور نے جنگل میں سوئے تمام پرندوں کو جگانا شروع کر دیا۔ سب چڑیا کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ چڑیا زار و قطار رو رہی تھی اور خالو جگنو سب کو بار بار مینا کے دھوکے اور چڑیا کی سونے کی چونچ کا قصہ سنانے میں مصروف تھے۔ سب پرندوں کو مینا پر شدید غصہ تھا کہ آخر مینا نے اپنی دوست چڑیا کے ساتھ ایسا دھوکہ کیوں کیا۔ مینا کو جنگل میں ہر طرف تلاش کیا گیا مگر مینا نہ ملی ہر پرندہ اور جنگل کا جانور چڑیا کو انصاف اور مینا کو سزا دلوانا چاہتا تھا۔ اسی لئے زور شور سے مینا کی تلاش جاری تھی۔

    کافی دنوں کے بعد جنگل کے آخری حصے سے مسٹر بندر کے کچھ دوست اسے ملنے آئے۔ رات کو بیٹھے تمام بندر گپ شپ لگا رہے تھے۔ طرح طرح کے قصے سنا کر ایک دوسرے کو حیران کرنے کی کوشش میں تھے ایک مہمان چھوٹے بندر نے کہا۔ میں نے جنگل میں ایک عجیب سی مینا دیکھی ہے، ہے تو وہ عام مینا ہی جیسی مگر اس کی چونچ سونے کی ہے۔ اس قدر چمکتی ہے کہ اندھیرے میں بھی روشنی ہو جاتی ہے۔ اسی درخت کی شاخ پر جگنو خالو بھی بیٹھے سوتے جاگتے بندروں کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب جگنو خالو کے کان میں سونے کی چونچ والی مینا کی بات پڑی تو وہ چونک اٹھے اور غور سے بندر کی بات سننے لگے۔ صبح ہوتے ہی وہ چڑیا کے گھر جا پہنچے اور چڑیا کو سارا قصہ کہہ سنایا۔ چڑیا نے اپنے تمام خاندان کو اکٹھا کیا اور ماموں الو اور پھوپھو گلہری کو ساتھ لیا اور بندروں کے پاس جا پہنچے۔ بندر بے چارے سوئے پڑے تھے۔ پرندوں کی شور کی آواز نے انہیں جگا دیا۔

    ان سے سونے کی چونچ والی مینا کا قصہ پوچھا۔ اس درخت کے بارے میں معلوم کیا جہاں اس نے اپنا گھر بنایا ہوا تھا۔ اب پرندوں اور چھوٹے جانوروں کی دو فوجیں تیار کی گئیں۔ مہمان بندروں کی رہنمائی میں رات کی تاریکی میں جنگل کے آخری حصے میں سب پہنچے۔ خالو جگنو اپنے سارے خاندان کے ساتھ روشنی کی سہولت پہنچاتے رہے۔ رات کو ہی اچانک حملہ کر کے سوئی ہوئی مینا کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اگلی صبح جنگل میں بہت رونق تھی، جنگل کا بادشاہ شیر بڑی شان سے دربار سجائے بیٹھا تھا۔ الو، بندر، ریچھ، ہاتھی، زرافہ، مینا، طوطے، مور اور رنگ برنگی چڑیاں سب جمع تھے۔ تتلیاں اور جگنو بھی ادھر ادھر اڑتے پھر رہے تھے۔ شیر کے سامنے دھوکے باز مینا کو پیش کیا گیا۔ الّو نے تمام قصہ سنایا۔ ڈاکٹر لومڑی نے گواہی دی کہ مینا نے اس دن اس کے کلینک سے نیند کی دوائی لی تھی اور جگنو خالو نے گواہی دی کہ مینا کے گھونسلے میں اس نے چڑیا کو بے ہوش پڑے دیکھا اور سب سے بڑا ثبوت تو مینا کی سونے کی چونچ تھی جو چمک رہی تھی۔ مینا شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھی۔ تمام پرندے شیر بادشاہ سے چڑیا کو انصاف دلانے کی درخواست کر رہے تھے۔

    شیر نے تمام گواہیاں سن کر چیتے اور ہاتھی سے مشورہ کیا اور ڈاکٹر لومڑی سے کہا کہ مینا کی سونے کی چونچ اتار کر ابھی چڑیا کو واپس لگا دو۔ ڈاکٹر لومڑی نے حکم کی تعمیل کی اور مینا کی چونچ اتار کر چڑیا کو واپس لگا دی اور مینا کو چھوڑ دیا گیا کیونکہ اس نے اپنی سزا کا بندوبست خود ہی تو کر لیا تھا جب اس نے اپنی کالی چونچ کاٹ کر سونے کی یہ چونچ لگائی تھی اب مینا پورے جنگل میں شرمندہ شرمندہ سی بغیر چونچ کے پھرتی ہے۔ نہ ٹھیک طرح سے دانہ چگ سکتی ہے اور نہ کیڑے مکوڑوں کا شکار۔ اب اسے اپنی حرکت پر بہت افسوس ہے مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئی کھیت۔

    (ادبِ اطفال سے انتخاب)

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    پانچ پاؤنڈ کا چراغ (دل چسپ کہانی)

    سَنی نے کئی بار پیسے گنے لیکن ہر بار نتیجہ ایک جیسا رہا۔ اُن پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک پاؤنڈ چونتیس پنس اور بس……!

    ”تمہیں پیسے احتیاط سے خرچ کرنے چاہییں۔“ اُس کے بھائی وکی نے کہا۔ ”پیسے جمع کیا کرو، وہ چیزیں مت خریدا کرو جن کی تمہیں ضرورت نہ ہو۔“ وکی ہمیشہ اچھی نصیحتیں کرتا تھا لیکن سَنی بھی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔

    ”مجھے دیکھو! میں بچّوں کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں، روز اسکول جانے سے پہلے لوگوں کے گھروں میں اخبار دینے جاتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں، اُنہیں جمع کرتا رہتا ہوں تاکہ کوئی ضرورت کی چیز لے سکوں۔“

    سَنی کو رقم جمع کرنا تو اچھا لگتا تھا، لیکن پیسے کمانے کا خیال اُسے پسند نہیں تھا۔ وہ سوچتا کہ کیا ممکن ہے؟ کوڑھ مغز بچّوں کو ٹیوشن پڑھانا یا صبح سویرے گرم بستر سے نکل کر باہر سردی میں اخبار دینے جانا۔ نہیں ہرگز نہیں!

    ”امّی کی سال گرہ آرہی ہے اور انھیں تحفہ دینے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“ سَنی وکی کی باتیں اَن سنی کرتے ہوئے بڑبڑایا۔ ”ظاہر ہے! پیسہ کمانے اور محفوظ رکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ محنت کرنا پڑتی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ محنت تم کرنا نہیں چاہتے۔“ وکی بولا۔

    سَنی نے ٹھنڈی سانس بھری، لیکن پھر اچانک ہی اُس کے دماغ میں ایک زبردست خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر پرانے سامان کی دکان سے وہ اپنی امّی کے لیے کوئی تحفہ لے آئے۔ ”اصل تو انسان کی نیت ہوتی ہے! سستا، مہنگا کیا ہوتا ہے۔“ اُس نے خود سے کہا۔

    پندرہ منٹ بعد وہ پرانے سامان کی دکان پر کھڑا تھا۔ یہاں اُسے پرانی میزیں، کرسیاں، تصاویر اور سامانِ آرائش نظر آیا۔ زیادہ تر چیزیں بہت ردّی حالت میں تھیں، پھر سَنی کو اچانک ایک زنگ آلود چراغ نظر آگیا: ”امّی کو نوادرات سے خاصی دل چسپی ہے اور یہ زنگ آلود چراغ بہت نادر معلوم ہوتا ہے۔“ اُس نے سوچا۔ ”یہ کتنے کا ہے؟“ سَنی نے دکان دار سے پوچھا۔

    ”ایک پاؤنڈ اور چونتیس پنس۔“ دکان دار کا جواب سن کر سَنی خوش ہوگیا۔ ”آپ ایسا کریں، یہ چراغ مجھے دے دیں۔“ اس نے فوراً اپنی کُل جمع پونجی دکان دار کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ دکان سے نکل کر اُس نے چراغ اپنی بائیک کی باسکٹ میں احتیاط سے رکھا اور روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ایک بہت بڑی کار دکان کے باہر آکر رُکی۔ ایک لمبا چوڑا شخص قیمتی سوٹ پہنے کار سے باہر آیا۔ اُس نے سن گلاسز لگائے ہوئے تھے۔

    ”میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے امیر لوگ بھی کباڑیے کی دکانوں سے خریداری کرتے ہوں گے۔“ سَنی نے حیران ہو کر سوچا، پھر اُس نے بائیک اسٹارٹ کی، لیکن فوراً ہی اُسے اپنے پیچھے کار کا ہارن سنائی دیا۔ یہ وہی بڑی کار تھی جو اُس نے دکان کے باہر دیکھی تھی۔ کار اُس سے آگے نکل گئی اور پھر اُس کا راستہ روک لیا۔ سَنی نے بڑی مشکل سے بریک لگائے۔ کار کی کھڑکی کھلی اور لمبے چوڑے شخص نے باہر جھانکا۔

    ”اس حرکت کا مطلب؟ ابھی ایکسیڈنٹ ہوتے بچا ہے۔“ سَنی نے غُصّے سے کہا۔

    ”بہت معذرت! میرا ڈرائیور بعض اوقات بہت بے احتیاطی کا مظاہرہ کرتا ہے۔“ آدمی نے مسکرا کر کہا اور دوبارہ گویا ہوا: ”مجھے اپنا تعارف کرانے دیجیے۔ میرا نام بلڈ ہاؤنڈ ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اُس کی مُسکراہٹ اور گہری ہوگئی۔

    سَنی جانتا تھا کہ اُسے اجنبیوں سے بات نہیں کرنی چاہیے اسی لیے اُس نے بائیک دوبارہ اسٹارٹ کر دی، لیکن بلڈ ہاؤنڈ نے جلدی سے کہا: ”تم یقیناً حیران ہو رہے ہوگے کہ ہم نے تمہارا راستہ کیوں روکا؟ تو سنو! میں کئی برس سے ایک خاص چیز کی تلاش میں تھا۔ آج مجھے پتا چلا کہ وہ چیز اُس دکان پر مل سکتی ہے، لیکن جب میں دکان پر آیا تو مجھے پتا چلا کہ تم وہ چیز پہلے ہی خرید چکے ہو۔“

    ”اوہ! تو یہ چراغ کا چکّر ہے مگر میں یہ چراغ نہیں دوں گا۔“ سَنی نے کندھے اچکائے۔

    ”میرے خیال میں تم میری بات سمجھے نہیں۔“ بلڈ ہاؤنڈ کی آواز سرد ہو گئی: ”پیسوں کے لحاظ سے اس چراغ کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن مجھے اس چراغ سے ایک ذاتی لگاؤ ہے اسی لیے میں تم سے یہ چراغ خریدنا چاہتا ہوں۔“

    ”بہت معذرت! میں یہ چراغ بیچنا نہیں چاہتا۔“ سَنی نے کہا۔

    ”سو پاؤنڈ میں بھی نہیں؟“ سَنی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

    ”سو پاؤنڈ!“ وہ چراغ باسکٹ سے نکال کر اُس کے حوالے کرنے ہی والا تھا کہ اُس نے بلڈ ہاؤنڈ کی آنکھوں میں لالچ کی چمک دیکھی۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔

    ”نہیں! ہوسکتا ہے، یہ چراغ سو پاؤنڈ سے زیادہ قیمتی ہو۔“ اُس نے سوچا اور پھر تیزی سے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔

    ”ایک ہزار پاؤنڈ؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے بولی لگانے والے انداز میں کہا۔ سَنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ شاید یہ کوئی انمول چراغ ہے اور پھر اس شخص کا چہرہ کس قدر سفّاک اور مکروہ لگ رہا ہے، چناں چہ اُس نے پھر نفی میں سَر ہلا دیا۔

    بلڈ ہاؤنڈ کی بھنویں تن گئیں، اپنے ڈرائیور کی طرف دیکھ کر پر چلّایا: ”بہت ہوگیا! اس لڑکے سے چراغ چھین لو!“

    ڈرائیور گاڑی سے اُترا اور اُس کی طرف لپکا۔ وہ سَنی سے بہت طاقت ور تھا لیکن جب سَنی بائیک پر سوار ہو تو اُس کی تیز رفتاری کو شکست نہیں دی جاسکتی، پھر یہی ہوا۔ جلد ہی وہ اُن کی پہنچ سے دور تھا۔ ساتھ ہی سَنی نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی۔ یقیناً وہ لوگ کار میں اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ اُس نے جلدی سے اپنی بائیک، پتلی تنگ گلیوں میں گھسا دی تاکہ کار والے اُس تک نہ پہنچ سکیں۔ آخر کار وہ کئی گلیوں سے ہوتا ہوا اپنے گھر پہنچ گیا۔

    وہ وکی کو یہ سارا واقعہ سُنانے کے لیے بے چین تھا، لیکن گھر آکر پتا چلا کہ اُس کا بھائی ٹیوشن پڑھانے جا چکا ہے۔ اُس نے چراغ میز پر رکھ دیا۔ یہ ایک عام سا چراغ لگ رہا تھا، لیکن سَنی جانتا تھا کہ یہ یقیناً بے حد قیمتی چراغ ہے جب ہی تو بلڈ ہاؤنڈ اسے ہر حالت میں حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سَنی نے دل ہی دل میں منصوبہ بندی کر لی۔ وہ پہلے اپنی امّی کو یہ چراغ بطور تحفہ دے گا، پھر وہ اسے نوادرات کے کسی ماہر کے پاس لے کر جائیں گے تاکہ چراغ کی اصل قیمت کا علم ہوسکے اور پھر…… اُف! وہ کتنے امیر ہو جائیں گے۔“ وہ خیالوں کی دنیا میں گم تھا۔

    اُس نے جھاڑن اُٹھا کر چراغ کو صاف کرنا شروع کیا، لیکن اچانک کمرے میں جیسے بجلی چمکنے لگی ہو۔ پرانی جرابوں کی تیز بدبو آئی اور پھر کمرے میں دھواں بھر گیا۔ جوں ہی دھواں چَھٹا، اُس نے دیکھا کہ وہ کمرے میں اکیلا نہیں ہے بلکہ ایک عجیب و غریب سا آدمی تھری پیس سُوٹ میں ملبوس ہاتھ میں بریف کیس لیے میز کے سامنے کھڑا ہے۔ اور اُس کا قد اتنا لمبا ہے کہ سَر چھت سے ٹکرا رہا ہے۔

    ”کیا حکم ہے میرے آقا! میں اس چراغ کا جنّ ہوں اور آج کے دن آپ کی خواہشات پوری کرنے کے لیے یہاں موجود ہوں۔“ اُس نے گونج دار آواز میں کہا۔ سَنی کچھ دیر کے لیے حیران و پریشان ہوا، لیکن وہ ڈرنے والا نہیں تھا۔ کچھ ہی لمحوں میں اُس نے اپنے اوپر قابو پالیا۔ اس سے قبل کے وہ کچھ بول پاتا، جن کہنے لگا: ”اب میں ذرا آپ کو خواہشات ظاہر کرنے کے اصول سمجھا دوں۔“

    جی نہیں شکریہ! میں اس بارے میں سب کچھ پہلے ہی جانتا ہوں۔ میں کوئی سی بھی تین خواہشات کرسکتا ہوں۔“ سَنی نے اُس کی بات کاٹ دی۔

    ”اوہو! نہیں بھئی! یہ سسٹم آج سے دو سو سال پہلے ہماری ”جن یونین“ نے ختم کردیا تھا۔ اب جونیا سسٹم آیا ہے، اُس کے مطابق چراغ کا مالک دو گھنٹے کے اندر کوئی بھی خواہش کرسکتا ہے۔ دو گھنٹے کے بعد جن دوبارہ چراغ میں واپس چلا جائے گا۔ اس کے علاوہ دیگر اُصول و قوانین کچھ یوں ہیں ……“

    ”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ سَنی نے ایک بار پھر اُس کی بات کاٹ دی۔ ”زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے پاس دو گھنٹے ہیں۔ کیا تم مجھے دس لاکھ پاؤنڈ دے سکتے ہو؟“

    ”ہاں!“ جن نے اکتاہٹ سے بھرپور لہجے میں کہتے ہوئے سرد آہ بھری اور چٹکی بجائی لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔

    ”یہ کیا بھئی……؟“ سَنی نے مایوسی سے کہا۔

    ”کیا مطلب؟ تو کیا تمہارے سامنے سونے کے سکّوں سے بھرا ہوا کوئی صندوق آجاتا ابھی؟ ہم اب ان پرانے طریقوں سے کام نہیں کرتے۔ اپنی جیب میں دیکھو!“ جن نے برا سا منہ بنایا۔

    سَنی نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو ایک کاغذ برآمد ہوا۔ یہ اُس کے بینک اکاؤنٹ کا اسٹیٹمنٹ تھا۔ ”دس لاکھ پاؤنڈ اور تین ین۔“ اُس نے باآواز بلند پڑھا۔

    ”تین ین تمہارے اکاؤنٹ میں پہلے سے موجود تھے۔“ جن نے وضاحت کی۔ سَنی نے خوشی سے ہاتھ مَلے۔ اُس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔

    جب وکی ٹیوشن پڑھا کر گھر لوٹا تو حیران و پریشان رہ گیا۔ اُس کے گھر کی جگہ سنگ مَر مَر کا ایک عالی شان محل کھڑا تھا۔ وہ ڈرتے، ڈرتے اندر داخل ہوا تو اُس کی حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ کیا وہ راستہ بھٹک کر کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہے! وہ واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہا تھا کہ اُسے کچن سے سَنی کی آواز سُنائی دی: ”ہیلو! وکی بھائی!“

    ”یہ…… یہ سب کیا ہے سَنی؟“ اُس نے کچن میں داخل ہوتے ہی پوچھا۔

    ”میرے نئے دوست سے ملو وکی!“ سَنی نے جنّ کی طرف اشارہ کیا تو وکی جنّ کو دیکھتے ہی خوف سے بے ہوش ہوگیا۔

    جب اُسے ہوش آیا تو جنّ بدستور وہاں موجود تھا۔ ”دوبارہ بے ہوش نہ ہونا! میں بتاتا ہوں، یہ کیا معاملہ ہے۔“ سَنی نے جلدی سے کہا اور ساری تفصیل وکی کو سنا دی۔

    ”لیکن کیا ہمارے پڑوسی یہ سب دیکھ کر حیران نہیں ہوئے؟“ وکی نے کہا۔

    سَنی مسکرایا۔ ”بہت آسان بات ہے۔ میں نے خواہش کی ہے کہ یہ سب تبدیلیاں ہم گھر والوں کے سوا اور کسی کو نظر نہ آئیں۔“

    ”اوہ! امّی ابّو شام کو آئیں گے تو یہ دیکھ کر کتنا حیران ہوں گے!“ وکی نے کہا۔

    ”ہاں! اور میرے بھائی! آج تمہارا خیال بھی غلط ثابت ہوگیا ہے۔ بعض دفعہ ہم بغیر محنت اور بغیر پیسے کے بھی بہت کچھ حاصل کرسکتے ہیں۔“ سَنی نے فخر سے کہا۔

    یہ سُن کر جن آہستہ سے کھنکھارا: ”کیا کہا؟ بغیر محنت اور پیسے کے؟“

    ”ہاں تو اور کیا؟“ سنی نے کہا۔

    ”تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ میں تمہیں چراغ استعمال کرنے کے سارے اُصول و ضوابط شروع میں ہی سمجھانے جا رہا تھا، لیکن تم نے میری ایک نہ سنی۔ جنّ یونین نے قوانین میں بہت ترمیم کی ہے۔ ہم نے طے کیا ہے کہ جو بھی کام کریں گے، اُس کا معاوضہ خواہش کرنے والے سے وصول کریں گے۔ ہم کیوں مفت میں دوسروں کے کام کرتے پھریں؟ دو گھنٹے پورے ہوتے ہی ہم خواہش کرنے والے کو اس کا بِل پیش کر دیتے ہیں۔“

    ”بِل؟ یعنی مجھے ان سب چیزوں کی قیمت ادا کرنا ہو گی؟“ سَنی چلّایا۔

    ”بالکل! اور یہ تو تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ محل اتنے سستے نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ سب چیزیں جو اس وقت یہاں نظر آرہی ہیں۔“ جنّ مسکرایا۔ وکی نے مایوسی سے سر ہلایا۔ اُس کا بھائی ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔

    ”اور بل کہاں ہے؟“ سنی نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ جن نے اپنی جیب سے بل نکالنا شروع کردیا جو اتنا لمبا تھا کہ کمرے کے دروازے سے باہر تک چلا گیا۔ سَنی کا رنگ زرد پڑ گیا۔

    ”اگر میں یہ خواہش کروں کہ مجھے یہ پورا بل بھرنے کے پیسے مل جائیں تو؟“ اُس نے جلدی سے پوچھا۔

    ”تو اس خواہش کے نتیجے میں جو پیسے ملیں گے، تمہیں وہ بھی لوٹانے ہوں گے۔“ جّن ایک بار پھر مسکرایا۔

    ”اوہ! اب میں کیا کروں؟ کیا اس مصیبت سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے؟“ سَنی نے سر پکڑ لیا۔ ”ایک راستہ یہ ہے کہ تم ہماری اس فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دو جہاں ہم یہ خواہشاتی محل اور دیگر سامان تیار کرتے ہیں۔ ایک منٹ!“

    یہ کہہ کر جنّ نے جیب سے کیلکولیٹر نکالا: ”تم اگر بارہ ہزار آٹھ سو ساٹھ سال اس فیکٹری میں کام کرو تو یہ بِل ادا ہوسکتا ہے۔“ اُس نے حساب لگا کر بتایا۔

    ”لیکن یہ ناممکن ہے۔“ سَنی نے رو کر کہا۔

    ”قانون تو پھر قانون ہے۔ اگر یہ بل ادا نہ کیا تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہو۔“ جّن نے کندھے اُچکائے۔ سَنی نے بے بسی سے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دو گھنٹے پورے ہونے میں صرف چالیس منٹ باقی تھے۔

    ”کیا تمہارے پاس یہ نئے قوانین کتابی شکل میں موجود ہیں؟“ وکی نے کچھ سوچ کر کہا تو جنّ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک پتلی سی کتاب نکالی اور وکی کے ہاتھ میں تھما دی۔ وکی جلدی، جلدی ورق گردانی کرنے لگا۔ بظاہر اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا لیکن پھر اچانک وکی کو ایک کام کی شِق نظر آہی گئی۔

    ”اگر چراغ کا مالک دوگھنٹے سے قبل چراغ کسی اور کے ہاتھ فروخت کر دے، لیکن یہ وہ شخص نہیں ہوسکتا جس سے اس نے چراغ خریدا ہے، تو اُس کی تمام خواہشات صِفر ہوجائیں گی اور معاہدہ ختم ہوجائے گا۔“ اُس نے باآوازِ بلند پڑھا۔

    ”اِس کا کیا مطلب ہے؟“ سَنی نے سر کھجایا۔

    ”مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے یہ چراغ دو گھنٹے سے پہلے فروخت کر دیا، تو یہ محل و دیگر سامان غائب ہو جائے گا اور تمہیں اس کا بِل ادا نہیں کرنا پڑے گا، لیکن تم اب یہ چراغ دوبارہ اس دکان پر نہیں بیچ سکتے جہاں سے خریدا تھا۔

    سوال یہ ہے کہ تم اسے بیچو گے کہاں؟ تمہارے پاس صرف بیس منٹ رہ گئے ہیں۔“ وکی نے پریشان ہو کر کہا۔ سَنی کے دماغ میں ایک جھماکا سا ہوا: ”بلڈ ہاؤنڈ! وہ اس چراغ کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ میں یہ چراغ اس کو بیچ سکتا ہوں لیکن مجھے اُس کا گھر معلوم نہیں ہے۔“ اُس نے اپنے بھائی کو جلدی، جلدی بتایا۔

    ”جنّ بھائی! کیا تم مجھے اس کے گھر لے جاسکتے ہو؟“ نہیں! ہمارے قانون کی ایک شِق کہتی ہے کہ ہم چراغ کا نیا گاہک ڈھونڈنے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے ہیں۔“ جنّ نے نفی میں سر ہلایا۔

    ”سَنی! کیا تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر یاد ہے؟“ وکی نے پوچھا۔

    ”ہاں! بی بی ایکس دو سو چھے۔“ سَنی کی یاد داشت بہت اچھی تھی۔ وکی کی بھی کم نہ تھی۔ وہ یہ نمبر سنتے ہی اچھل پڑا۔

    ”سَنی! اس گاڑی کا مالک یہاں سے چار گلیوں کے فاصلے پر جو مارکیٹ ہے، اُس کے پیچھے واقع ایک بنگلے میں رہتا ہے۔ میں اس کے برابر والے گھر میں ٹیوشن پڑھانے جاتا ہوں، یہ لو ایڈریس!“ وکی نے جلدی سے ایک کاغذ پر پتا لکھتے ہوئے کہا۔

    ”لیکن یہاں سے اس جگہ کا فاصلہ تقریباً پندرہ منٹ ہے اور اب ہمارے پاس صرف پندرہ ہی منٹ بچے ہیں۔“ وہ پریشان ہوکر بولا۔

    ”جنّ بھائی! فوراً چراغ کے اندر جاؤ۔“ سَنی چلّایا۔ جنّ یہ سنتے ہی دھواں بن کر چراغ کے اندر گھس گیا۔ سَنی باہر کی طرف دوڑا۔ اُس نے پوری زندگی میں کبھی اتنی تیز بائیک نہیں چلائی ہوگی۔ اس کی سانس پھول رہی تھی، لیکن اُس نے ہمّت نہیں ہاری۔ آخر کار وہ بلڈ ہاؤنڈ کے گھر کے دروازے پر پہنچ ہی گیا۔ آخری پانچ منٹ!! اُس نے گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور بیل پر اُنگلی رکھ دی۔ جب تک دروازہ کھل نہ گیا، اُس نے اپنی انگلی بٹن سے نہیں ہٹائی۔

    ”کون بدتمیز ہے؟“ دروازہ کھولنے والا دہاڑا، یہ بلڈ ہاؤنڈ تھا۔ اُس نے جب سَنی کو چراغ کے ساتھ دروازے پر کھڑا پاپا تو اُس کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اب صرف دومنٹ باقی تھے۔ ”میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ آپ یہ چراغ لے سکتے ہیں۔“ سَنی نے جلدی، جلدی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ لالچی تھا مگر بے وقوف نہیں۔

    ”تم نے اپنا ارادہ کیوں بدل لیا؟“ اُس نے شک بھرے لہجے میں پوچھا۔

    ”کیوں کہ…… کیوں کہ……“ سَنی کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا ”کیوں کہ اس میں ایک طرف خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی خراب ہوگیا ہے۔ میرے گھر میں یہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا۔“ وہ دل ہی دل میں کہتا جارہا تھا، ”پلیز! میری بات کا یقین کر لو! میرے پاس بالکل بھی وقت نہیں ہے۔“

    ”اور تمہیں اس چراغ میں کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوئی؟“ بلڈ ہاؤنڈ نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔“ سَنی نے فوراً کہا: ”اس چراغ میں خراش پڑی ہوئی ہے اور اس کا رنگ بھی اُترا ہوا ہے، تو اس لیے اب میں تمہیں اس کے صرف پانچ پاؤنڈ دے سکتا ہوں۔“

    ”منظور ہے۔“ سنی نے اُس کا جملہ پورا ہوتے ہی کہا۔ بلڈ ہاؤنڈ نے جیب سے پانچ پاؤنڈ کا نوٹ نکال کر سَنی کے ہاتھ پر رکھا اور چراغ چھین کر دروازہ بند کر لیا۔ سنی نے پانچ پاؤنڈ کے نوٹ کو خوشی سے لہرایا۔

    ”چراغ تمہیں مبارک ہو مسٹر بلڈ ہاؤنڈ! امّی کی سال گرہ کے تحفے کے لیے مجھے کافی پیسے مل گئے ہیں۔ اُمید ہے تم جنّ سے اتنی ہی فرمائشیں کرو گے جتنا کہ تم بِل بھر سکو۔“

    (بچّوں کے ادیب پال شپٹن کی اس کہانی کا اردو ترجمہ گل رعنا صدیقی نے کیا ہے)

  • تین بوڑھے اور کسان

    تین بوڑھے اور کسان

    کسی گاؤں میں ایک کسان کے گھر کے باہر تین پردیسی بوڑھے مرد آرام کی غرض سے بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے۔

    کسان کی بیوی نے ان کو دیکھا تو اُس کے دل میں آیا کہ یہ تینوں لمبے سفر سے آئے لگتے ہیں اور بھوکے ہوں گے۔ وہ انہیں کھانے کی دعوت دینے پہنچ گئی۔

    کسان کی بیوی نے انہیں کھانے کی دعوت دی تو ایک بوڑھا بولا ” کیا آپ کے گھر میں آپ کا شوہر یا رشتہ دار کوئی اور مرد موجود ہے؟” وہ بولی ” میرا شوہر کھیتوں میں ہل چلانے گیا ہے اور وہ شام کو واپس لوٹے گا۔” بوڑھے نے عورت کی بات سُن کر جواب دیا ” پھر ہم آپ کے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے۔”

    بوڑھے کے جواب پر کسان کی بیوی واپس گھر لوٹ آئی اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول ہو گئی۔ شام کو کسان کھیتوں سے واپس لوٹا تو اُس نے تینوں بوڑھوں کو گھر کے قریب بیٹھا پایا تو اپنی بیوی سے پُوچھا ” یہ تینوں پردیسی مہمان لگتے ہیں کیا تم نے ان سے کھانے کا پوچھا۔”

    بیوی بولی، "میں نے پوچھا تھا، وہ تینوں کسی ایسے گھر میں کھانا نہیں کھاتے جہاں کوئی مرد موجود نہ ہو۔” یہ سُن کر کسان بولا، "تم ان کو دوبارہ دعوت دو اور بتاؤ کے میرا شوہر واپس لوٹ آیا ہے۔”

    کسان کی بیوی دوبارہ تینوں کے پاس گئی اور بولی کہ گھر میں میرا شوہر لوٹ آیا ہے، اب آپ تشریف لے آئیں اور کھانے پر ہمارے مہمان بنیں۔ ایک بوڑھا بولا ” ہم تینوں اکھٹے تمہارے گھر کھانا کھانے نہیں آ سکتے، تمہیں چاہیے ہم تینوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور کھانا کھلا دو۔”

    وہ بوڑھے کے عجیب جواب کو سن کر بولی ” آپ تینوں اکٹھے تشریف کیوں نہیں لاتے”، اس بات پر بوڑھے نے جواب دیا ہم تینوں میں سے کوئی ایک جہاں موجود ہو باقی دو وہاں سے چلے جاتے ہیں، پھر اپنے ایک ساتھی کی طرف اشارہ کیا اور بولا یہ دولت ہے اور یہ جس گھر میں جاتا ہے وہاں کے افراد کو دولت کی ریل پیل ہو جاتی ہے، پھر دوسرے ساتھ کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ فتح ہے اور یہ جس گھر میں جائے اُس گھر کے افراد ہر میدان میں کام یاب ہو جاتے ہیں۔ پھر بولا میں محبت ہوں میں جہاں چلا جاؤں وہاں کے مکینوں کے دل محبت سے لبریز ہو جاتے ہیں، اس لیے تم گھر جاؤ اور مشورہ کرو کہ تمہیں ہم میں سے کس کی ضرورت ہے۔

    کسان کی بیوی گھر لوٹی اور شوہر کو بوڑھوں کے جواب سے آگاہ کیا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ ہمیں دولت کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کرنا چاہیے تاکہ ہماری پیسے کی مشکلات حل ہو جائیں۔ یہ سُن کر کسان بولا ہمیں پیسے سے زیادہ کامیابی کی ضرورت ہے، اسے لیے ہمیں فتح کو اپنے گھر بلانا چاہیے، کسان کی بیٹی جو قریب بیٹھی دونوں کی گفتگو سُن رہی تھی بولی” اگر ہم محبت کو اپنے گھر بلائیں تو وہ ہمارے دلوں میں اتنا اطمینان بھر دے گا کہ ہم کو دولت اور کامیابی کی پروا نہیں رہے گی۔” دونوں میاں بیوی بیٹی کی بات سے متفق ہو گئے اور کسان کی بیوی نے جاکرمحبت کو دعوت دے دی۔

    ایک بوڑھا اٹھا اور کسان کی بیوی کے ساتھ چل پڑا، جب وہ کسان کے گھر کے دروازے پر پہنچا تو کسان کی بیوی نے دیکھا کہ باقی بوڑھے بھی پیچھے ہی چلے آرہے ہیں۔

    اس نے پوچھا، آپ تینوں تو اکھٹے نہیں جاتے، اب کیا ہوا کہ دعوت پر اکٹھے آئے ہیں۔ بوڑھوں نے جواب دیا، فقط محبت ہم میں سے ایک ایسا فرد ہے جس کے بارے میں ہمیں حکم ہے کہ جہاں محبت جائے وہاں اُس کے پیچھے پیچھے چلے جاؤ۔

  • بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    بسترِ مرگ پر بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ کی چار بیویاں تھیں۔ یوں تو وہ سبھی سے بہت محبت کرتا تھا، مگر ہر بیوی کے ساتھ اس کا الگ رویہ اور سلوک تھا۔

    چوتھی بیوی بادشاہ کی نورِ نظر تھی۔ بادشاہ اسے اکثر بیش قیمت تحائف دیتا اور باقی بیویوں کے مقابلے میں اُس کا جھکاؤ چوتھی بیوی کی طرف زیادہ تھا۔

    بادشاہ کی تیسری بیوی انتہائی خوب صورت تھی اور بادشاہ ہمیشہ دربار میں اُس کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتا تھا۔

    دوسری بیوی سمجھدار، بُردبار، مہربان اور تحمل مزاج تھی اور بادشاہ جب بھی کسی مشکل سے دوچار ہوتا اپنی اسی بیوی سے مشورہ کرتا اور اُس کے کہنے پر عمل بھی کرتا۔

    اس بادشاہ کی پہلی بیوی انتہائی وفا شعار اور ساتھ نبھانے والی خاتون تھی۔ اسی کی ہمّت اور حوصلہ افزائی نے بادشاہ کو اس سلطنت اور تاج و تخت کا مالک بنایا تھا مگر بادشاہ اُسے نظر انداز کر دیا کرتا تھا اور کبھی اُس کے کسی کام کی تعریف نہیں کی تھی۔

    ایک روز بادشاہ بیمار پڑ گیا۔ یہ بیماری اتنی بڑھ گئی کہ بادشاہ کو محسوس ہونے لگا کہ وہ اس دنیا میں کچھ دن کا مہمان ہے۔ وہ بستر پر پڑا سوچ رہا تھا کہ "میں کیسا بادشاہ ہوں؟، میری چار بیویاں ہیں اور جب میں مروں گا تو تنہا مروں گا۔ کوئی بھی میرے ساتھ نہیں جائے گا۔” اس نے اپنی چوتھی بیوی سے کہا ” میری نُور نظر میری موت قریب ہے، میں چاہتا ہوں تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ قبر کی تنہائی میں میرا ساتھ دے سکو۔” اس نے بادشاہ کی بات سن کر منہ دوسری طرف پھیر لیا اور پھر کمرے سے باہر چلی گئی۔ بادشاہ کو بڑا ملال ہوا۔ اس نے یاد کیا کہ کیسے وہ اس بیوی کی خاطر کرتا تھا اور اس کے لیے ہر آسائش مہیا کررکھی تھی۔ اس نے اپنی تیسری بیوی کو بلایا اور اس سے یہی بات کی مگر اس نے بھی ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔

    دونوں بیویوں کی ایسی سرد مہری دیکھ کر بادشاہ کا دل ڈوبنے لگا تو اُس نے اپنی دوسری زوجہ سے ساتھ چلنے کی درخواست کی۔ دوسری والی بولی، ” بادشاہ سلامت آپ خود ہی تو فرماتے ہیں، مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا۔ لہٰذا یہ منزل آپ کو تنہا ہی پار کرنی پڑے گی۔” بادشاہ نے مایوس ہوکر اس سے منہ پھیر لیا۔

    ان تینوں بیویوں کو آزمانے کے بعد جب بادشاہ تکلیف اور بے بسی کے ساتھ چھت کی طرف دیکھے جارہا تھا تو اس کے کانوں میں چوتھی بیوی کی آواز پڑی، وہ کہہ رہی تھی ”بادشاہ سلامت! میں آپ کے ساتھ چلوں گی جہاں بھی آپ جائیں گے میں ساتھ دوں گی۔” بادشاہ نے چوتھی بیوی کی طرف دیکھا جو دراصل بادشاہ کے التفات سے محرومی اور کسی موقع پر اہمیت نہ دیے جانے کے سبب ذہنی اذیت سے گزرتی رہی تھی، اور وہ انتہائی لاغر ہوچکی تھی۔ اس کی رنگت زردی مائل نظر آرہی تھی۔ بادشاہ نے اسے قریب پاکر انتہائی رنجیدہ لہجے میں کہا ” میری حقیقی غم خوار! ہائے صد افسوس، کاش میں نے تمہارا خیال اُس وقت رکھا ہوتا جب میرے قبضۂ قدرت میں اختیار تھا۔” یہ جملہ ادا کر کے بادشاہ کا سَر ایک طرف ڈھلک گیا۔ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا تھا۔

    اس کہانی میں ایک سبق اور دنیا کی ایک حقیقت پوشیدہ ہے کہ گویا ہر انسان کی زندگی میں چار بیویاں ہوتی ہیں، چوتھی بیوی اُس کا جسم ہے جس کو توانا رکھنے کے لیے وہ ساری زندگی کوشش کرتا ہے مگر ایک دن اُسے یہ جسم چھوڑنا پڑتا ہے۔

    تیسری بیوی اس کا مال اور منصب ہے جو مرنے پر چھوٹ جاتا ہے اور دوسروں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ دوسری بیوی کو اگر ہم اس کے رشتہ دار، دوست احباب فرض کریں تو ان کا حال ایسا کہ یہ ہر انسان کے مرنے کے بعد قبر تک اُس کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر واپس اپنی عارضی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔

    پہلی بیوی کی مثال انسان کی روح جیسی ہے جس کا ہم ساری زندگی خوب صورت جسم حاصل کرنے کی چاہت، دولت، منصب و جاہ، شان و شوکت حاصل کرنے کی آرزو میں اور محفل عیش و طرب سجانے کے دوران خیال نہیں رکھ پاتے اور کوئی اہمیت نہیں دیتے، جب ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے تب تک یہ ضیف و لاغر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمیں پہلی بیوی یعنی اپنی روح اور سیرت و کردار کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے اور یہی وہ سب ہے جو ہمارے مرنے کے بعد قبر میں ہمارا مضبوط سہارا بنتا ہے۔

    (قدیم اور سبق آموز کہانیاں)

  • اصلی کون؟

    اصلی کون؟

    صدیوں پہلے ایک بادشاہ کو کیا سوجھی کہ اس نے اپنی سلطنت کے ہر خاص و عام کا امتحان لینے کی غرض سے ہیرے سے بھرا ایک بڑا تھیلا وزیر کو تھمایا اور کہا، ”اس میں چند اصلی ہیروں کے ساتھ نقلی ہیرے موجود ہیں جن میں‌ تمیز کرنا آسان نہیں‌ ہوگا۔ اصلی اور نقلی ہیروں کی پہچان کے لیے جوہریوں کو نہیں‌ عام آدمی کو بلانا، یہ کام کوئی بھی ذہین اور دانا شخص کرسکتا ہے۔”

    وزیر نے بادشاہ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اس کی سلطنت میں اعلان کروایا ”جوہریوں کے علاوہ جس شخص کو اپنی ذہانت اور قابلیت پر ناز ہو اور وہ اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان کر الگ کر دے اُسے منہ مانگا انعام دیا جائے گا لیکن اگر کوئی ناکام ہوگیا تو ہمیشہ کے لیے زندان میں پھینک دیا جائے گا۔”

    یہ اعلان سن کر کئی لوگ اپنے علم اور ذہانت کو آزمانے کے لیے بادشاہ کے محل پہنچے مگر نقلی ہیرے ظاہری طور پر اور ہر لحاظ سے اصلی ہیروں سے اس قدر قریب تھے کہ ان سے تو جوہری بھی یہ دھوکا کھا جاتے، عام آدمی کیسےکام کرتا اور یہی وجہ تھی کہ ان سب کو قید خانہ میں پھینک دیا گیا۔ کئی لوگوں کو ناکام کوشش کے بعد سزا ہو چکی تھی اور یہ دیکھ کر کوئی بھی منہ مانگے انعام کی لالچ میں آگے بڑھنے کو تیار نہ تھا۔

    ایک روز ایک عمر رسیدہ اندھا محل کے دروازے پر پہنچا اور کہا کہ وہ منادی سن کر آیا ہے اور اصلی ہیروں کو الگ کرنا چاہتا ہے۔ اسے بادشاہ تک رسائی دی جائے۔ محافظوں نے یہ سنا تو قہقہے لگانے لگے اور بوڑھے کا خوب مذاق اڑایا لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا اور تب اس کو وزیر تک پہنچا دیا گیا۔ وزیر اور اس کے ساتھیوں کو جب معلوم ہوا کہ بوڑھا نابینا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑانے لگے اور طعنے دیے۔ وزیر نے کہا بڈھے کیوں اپنی جان کا دشمن ہوا ہے، یہاں‌ تجھ سے پہلے کئی جوان اور ہر لحاظ سے صحت مند آئے مگر ان سے یہ کام نہ ہوسکا۔ اب بھی وقت ہے گھر لوٹ جا اور باقی ماندہ زندگی بینائی لوٹ آنے کی دعائیں‌ کرتے ہوئے گزار دے۔ یہ کڑوی اور دل فگار باتیں سن کر بوڑھے نے وزیر کو کہا کہ آپ کی شان سلامت رہے، میں قسمت آزمائے بغیر نہیں‌ جانا چاہتا۔ وزیر نے اسے بادشاہ تک پہنچا دیا۔

    بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا ” کیوں اپنی جان کے دشمن بنتے ہو، تم سے پہلے آنکھوں والے کئی قابل لوگ اس مقصد میں ناکام ہوکر زندان میں سڑ رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ تم اپنے اس قصد سے باز آجاؤ، میں ڈرتا ہوں کہ اس عمر کے ایک اندھے کو قید خانہ میں زندگی کے دن پورے نہ کرنا پڑ جائیں۔”

    اندھے نے ادب سے جواب دیا، ” بادشاہ سلامت میں اگر اصلی ہیرے نہ پہچان سکا تو میں آپ کی سزا کے لیے خوشی سے تیار ہوں۔ یہ میرا انتخاب ہو گا، آپ سے کوئی شکوہ کیوں کروں گا۔”

    بادشاہ نے اندھے کو ہیرے پہچاننے کی اجازت دے دی۔ وہ اندھا ہیروں کا تھیلا لے کر ایک کمرے میں چلا گیا۔ اور کچھ دیر کے بعد آکر بولا کہ اس نے اصلی اور نقلی ہیرے الگ کر لیے ہیں۔ بادشاہ نے وزیر کو اشارہ کیا۔

    وزیر نے اچھی طرح ہیروں کا معائنہ کیا اور بادشاہ سے بولا ” عالی جاہ! حیرت کا مقام ہے، ایک اندھا نقلی ہیروں کو اصلی ہیروں سے الگ کرنے میں واقعی کام یاب ہو گیا ہے۔”

    بادشاہ یہ جان کر دنگ رہ گیا۔ اس نے بے چینی سے اندھے سے پوچھا، تم نابینا ہو اس کے باوجود اصلی اور نقلی ہیروں کو پہچان لیا، ہمیں‌ یہ راز بتاؤ؟ اندھا بولا ” یہ کام بہت آسان تھا جناب۔ میں نے سارے ہیرے آگ کے قریب رکھ دیے، جو ہیرے اصلی تھے ان کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ آگ کی حدّت سے گرم نہیں ہوئے تھے اور جو نقلی تھے وہ تپنے لگے، میں ان کو الگ کرتا گیا۔”

    بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اندھے کو بہت سا انعام دیا اور جب وہ بوڑھا رخصت ہونے لگا تو بادشاہ سے بولا کہ میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں۔ بادشاہ نے اسے بخوشی اجازت دے دی۔ وہ بولا، حضور دنیا میں محنتی اور بہترین اوصاف کے مالک انسان کی پہچان بھی اسی طرح کی جاسکتی ہے کہ جو محنتی اور اعلیٰ ظرف ہوتا ہے وہ ان ہیروں جیسا ہی ہے کہ جب دنیا کی مشکلات اور تلخیاں اس پر پڑتی ہیں‌ تو وہ ان کو سہہ لیتا ہے اور دل شکنی کرنے والوں اور ان کے طنز اور طعنوں کے مقابلے میں اپنے اوصافِ‌ حمیدہ کو مٹی میں‌ نہیں ملا دیتا اور اخلاق سے نہیں گرتا بلکہ آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے شخص کی مثال اصلی ہیرے جیسی ہوتی ہے۔ مگر وہ جو ان تلخیوں پر اپنا توازن کھو بیٹھے، اور نچلی سطح تک گر جائے، وہ نقلی ہوتا ہے۔ یہ کہہ نابینا شخص دربار سے چلا جاتا ہے اور وہ تمام وزیر اور درباری شرمندہ ہو کر نظریں نیچی کر لیتے ہیں جو کچھ دیر پہلے اسے معذور اور ناتواں سمجھ کر طعنے دے رہے تھے۔

    (ایک سبق آموز قدیم کہانی)

  • سوکھے میوے کا پکھراج

    سوکھے میوے کا پکھراج

    دلّی میں ایک بازار ہے، بازار سیتا رام۔ محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں وہاں ساہو سیتا رام رہا کرتے تھے۔ ساہو سیتا محمد شاہ رنگیلے کے شاہی خزانچی تھے اور لاکھوں کروڑوں کے مالک بھی۔ انہیں کے نام پر بازارسیتا رام آباد ہوا۔

    ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہندو گھرانے میں گنڈوڑے( ایک قسم کی میٹھی ٹکیاں) بانٹنے کا چلن تھا۔ یہ چلن آج بھی ہے۔ ان دنوں جب بیٹے کی شادی ہوتی تھی تو گنڈوڑے چاندی کے کٹوروں میں بانٹے جاتے تھے، گنڈوڑوں کے اوپر کچھ لگایا جاتا تھا۔ رئیسوں میں ایک دوسرے سے بازی مار لینے کی ایک دوڑ سی لگی رہتی تھی۔

    لالہ سیتا رام جی اس سوچ میں بیٹھے تھے کہ گنڈوڑوں پر کیا لگایا جائے۔ اپنی ساکھ دیکھ کر وہ طرح طرح کی چیزوں کے متعلق سوچتے رہے۔ پھر دل میں فیصلہ کر کے وہ اپنی ماں کے پاس گئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے خاندان کے خزانے میں اضافہ کیا تھا۔ ہلکا سا فخر کا احساس بھی ان کے جسم میں سننی پیدا کر رہا تھا۔

    وہ بہت سنبھل کر بولے۔ ’’اماں سوچ رہا ہوں کہ گنڈوڑوں کے سروں پر اشرفی لگا دی جائے۔‘‘ لالہ سیتا رام کے چہرے پر فخر کی ہلکی سی سرخی دوڑ گئی۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کی ماں یہ سن کر حیران رہ جائے گی کہ اس کے بیٹے کی آج اتنی شان و شوکت ہے کہ وہ گنڈوڑوں پر اشرفیاں چپکا کر برادری میں تقسیم کرائے گا۔

    لالہ سیتا رام پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گئے، لیکن بوڑھی ماں اندر چلی گئی۔ لالہ بے قراری کے عالم میں بیٹھے یہی سوچتے رہے۔ ’’ماں اندر کیوں چلی گئی؟ کیا اسے میری بات اچھی نہیں لگی! کہیں وہ یہ تو نہیں سوچ رہی کہ گھر کی نجانے کتنی اشرفیاں گنڈوڑوں کے ساتھ بٹ جائیں گی۔ وہ ایک عجیب سی ادھیڑ بن میں بیٹھے رہے۔ تقریباً دس پندرہ منٹ بعد ان کی ماں باہر آئی۔ ہاتھ میں سونے کا ایک بڑا تھال تھا۔ جس میں پانچ چھ گنڈوڑے رکھے تھے۔ گنڈوڑے بہت پرانے تھے۔ بالکل پتھر کی طرح سخت!

    ماں نے گنڈوڑے لالہ سیتا رام کے سامنے رکھ دیے اور کہا۔ ’’ہمارے خاندان کے بزرگ اتنی طرح کے گنڈوڑے پہلے ہی تقسیم کرا چکے ہیں۔ اب کوئی نئی بات سوچی جائے تو ہم دونوں بیٹھ کر صلاح کرتے ہیں۔ لالہ سیتا رام نے پرانے گنڈوڑوں کو اٹھا کر دیکھا۔ کسی میں موتی جڑے تھے تو کسی میں دیگر جواہرات۔ چند ایک میں سونے کی پرانی اشرفیاں اور مہریں لگی تھیں۔

    ماں ٹکٹکی لگائے لالہ سیتا رام کی طرف دیکھتی رہی۔ لالہ سیتا رام کی انا کی دیوار ایک جھٹکے سے گر پڑی۔ انہیں پتہ لگا کہ خاندان میں‌ ان سے بھی بڑھ کر امیر و کبیر تھے۔ وہ سٹپٹاتے ہوئے ماں کی طرف دیکھنے لگے۔ ان کی ماں اچانک مسکرا اٹھی۔ بولی۔ ’’بیٹا! تمہیں تو کوئی ایسی چیز گنڈوڑوں پر لگانی چاہیے کہ دلّی والے ہمیشہ تمہیں یاد رکھیں۔‘‘ لالہ سیتا رام نے سوکھے گلے سے کہا۔ ’’تمہیں بتلاؤ، ماں اب کیا کیا جائے۔‘‘

    بوڑھی ماں نے قریب آکر سَر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! امیروں کی اس دوڑ میں درمیانے لوگ ناحق پس جاتے ہیں۔ ہمیں جھوٹی عزت اور کھوکھلے اہنکار کا ڈھونگ بھی کھائے جاتا ہے اور اپنی حیثیت سے باہر بھی کام کر جاتے ہیں۔ میری صلاح یہ ہے کہ تم اس بار گنڈوڑوں پر کشمش لگاؤ۔ سوکھے میوے کا پکھراج ہی تو ہے۔ چھوٹے بڑے سب دم سادھے بیٹھے ہیں کہ دیکھو اب کی بار لالہ سیتا رام گنڈوڑوں پر کیا ٹانکتے ہیں اور تمہاری آج کی کرنی ہی کل کے رواج کی لکشمن ریکھا بن جائے گی۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ ماں نے کہا۔ ’’اس میں تمہارا بڑا پن ہوگا بیٹا! آج سے یہ دوڑ بھی ختم ہوجائے گی۔ دلّی کے امیر اور غریب سب سکھ کا سانس لیں گے اور تمہاری ہمیشہ واہ واہ ہوگی۔

    لالہ سیتا رام نے گنڈوڑوں پر کشمش ہی لگوائی۔ جب گنڈوڑے بانٹے گئے تو لالہ سیتا رام نے یہ آواز بلند کہا۔ ’’میں نے گنڈوڑوں پر قدرت کا بیش قیمت جواہر لگوایا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قدرت کی گود میں چھوٹے بڑے سب برابر ہیں۔‘‘

    لالہ سیتا رام کے رواج کا آج بھی دلّی میں چلن ہے۔ امیر غریب سب گنڈوڑوں پر کشمش ہی ٹانک کر بانٹتے ہیں۔

    (سماجی اصلاح کی غرض سے لکھی گئی ایک خوب صورت کہانی)

  • استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    استاد کی شکست (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی اسکول کے طلباء ایک روز کرکٹ کے میدان میں‌ جمع تھے۔ انھیں اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے استاد کو بھی میدان میں اترنے کی دعوت دیں، کیوں کہ وہ کرکٹ کے کھیل کا بہت شوق رکھتے تھے اور انھیں کئی ملکی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کے ریکارڈ اور ان کے بارے میں بہت سی معلومات بھی تھیں۔ طلباء دیکھنا چاہتے تھے کہ ان کے استاد خود کتنے اچھّے کھلاڑی ہیں۔

    چند لڑکے اپنے استاد کے پاس گئے اور انھیں کہا، سَر آج آپ ہمارے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔ استاد نے فوراً ہامی بھر لی اور ان کے ساتھ میدان میں چلے آئے۔

    کھیل شروع ہوا تو دیگر کلاسوں کے طلباء بھی میدان میں اکٹھے ہوگئے۔ چوں کہ بچّے اپنے اساتذہ سے بہت محبّت کرتے ہیں اور اپنے درمیان ان کی موجودگی اور دوستانہ تعلق انھیں زیادہ پُرجوش اور جذباتی بنا دیتا ہے، اسی لیے آج سب کی توجہ استاد پر تھی۔ پانچ گیندوں پر استاد نے صرف دو رن بنائے اور چھٹی گیند پر کلین بولڈ ہو گئے۔ طلباء نے شور مچا کر بھرپور خوشی کا اظہار کیا۔

    دوسرے دن کلاس میں استاد نے پوچھا کون کون چاہتا تھا کہ وہ مجھے ضرور آؤٹ کرے؟

    سب بولروں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ استاد مسکرائے اور پوچھا، یہ بتاؤ میں کرکٹر کیسا ہوں..؟

    سب نے یک زباں ہوکر کہا ،بہت برے۔

    پوچھا، اچھا میں استاد کیسا ہوں۔

    جواب ملا بہت اچھے۔

    استاد نے ہنستے ہوئے کہا، صرف آپ نہیں آپ سے پہلے بھی میں نے جن بچّوں کو پڑھایا اور آج وہ عملی زندگی کا آغاز کرچکے ہیں، سب مجھے ایک اچھا استاد مانتے ہیں۔ آج میں راز کی ایک بات بتاؤں کہ میں جتنا اچھا استاد ہوں، اتنا اچھا طالبِ علم کبھی نہیں رہا۔ مجھے ہمیشہ سبق یاد کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور بات سمجھنے میں وقت لگتا تھا لیکن کیا آپ بتا سکتے ہیں اس کے باوجود مجھے اچھا استاد کیوں مانا جاتا ہے..؟

    سَر آپ بتائیں، ہمیں نہیں معلوم، طلباء نے کہا۔

    اس پر استاد نے انھیں ایک واقعہ سنانا شروع کیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ایک دن میں اپنے ٹیچر کے گھر دعوت کی تیاری میں ان کی مدد کر رہا تھا۔ فریزر سے برف نکالی، جسے توڑنے کے لیے کمرے میں کوئی چیز نہیں تھی۔ استاد کام کے لیے کمرے سے نکلے تو میں نے مکا مار کر برف توڑ دی اور استاد کے آنے سے پہلے جلدی سے ٹوٹی ہوئی برف دیوار پر بھی دے ماری…

    دوستو، آپ سوچ رہے ہوں گے کہ جب میں برف توڑ چکا تھا، تو پھر یہ حرکت کرنے کی کیا ضرورت تھی، اس کا جواب آپ کو ابھی مل جائے گا۔

    استاد کمرے میں آئے تو وہی محسوس کیا جو میں چاہتا تھا، انھوں نے دیکھا کہ میں نے برف دیوار پر مار کر توڑی ہے۔ مجھے ڈانٹنے لگے اور کہا کہ تمہیں عقل کب آئے گی، یوں برف توڑی جاتی ہے، میں نے ان کی ڈانٹ خاموشی سے سنی اور وہ دن گزر گیا۔ بعد میں انھوں نے میری اس بیوقوفی کا ذکر کئی جگہ کیا۔ لیکن یہ راز آج تک نہیں جان سکے کہ برف تو میں نے اپنی جسمانی طاقت سے ہاتھوں کا استعمال کرتے ہوئے توڑی تھی ۔

    یہ بات میں نے انھیں اس لیے نہیں بتائی کہ وہ ایک ہاتھ سے معذور تھے۔ ان کی غیر موجودگی میں، میں نے جوانی کے جوش میں مکا مار کر برف توڑ دی، لیکن جب ان کی معذوری کا خیال آیا تو سوچا کہ کہیں میرے طاقت کے مظاہرے سے انھیں احساسِ کمتری نہ ہو، اس لیے میں نے برف دیوار پر مارنے کی احمقانہ حرکت کی اور کئی سال تک ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔

    جب میں‌ آپ کے درمیان میدان میں موجود تھا اور بیٹنگ کر رہا تھا، تو میں نے غور کیا کہ آپ سب ایک دوسرے کو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ سَر کو آؤٹ کرو۔ یاد رکھو جیتنا سب کچھ نہیں ہوتا، کبھی ہارنے سے بھی زندگی میں جیت کے رستے کھلتے ہیں۔ آپ طاقت میں اپنے اساتذہ اور والدین سے بے شک آگے بڑھ جاتے ہیں، لیکن زندگی میں کبھی اپنے اساتذہ اور والدین کو ہرانے کی کوشش مت کیجیے گا۔ اللہ پاک آپ کو ہر میدان میں سرخرو کرے گا۔