Tag: سبق آموز کہانیاں

  • کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    کیا آدمی سب کو خوش رکھ سکتا ہے؟ (چینی حکایت)

    مختلف ممالک کی لوک داستانیں، حکایات یا سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں پڑھنے کا شوق رکھنے والے قارئین نے شاید کبھی غور کیا ہو کہ بالخصوص حکایات نہ صرف مختصر ہوتی ہیں بلکہ مکالمہ کے بجائے ان میں زیادہ تر بیانیہ انداز اپنایا جاتا ہے۔ یہ اسی طرز کی ایک چینی حکایت ہے، جس میں زندگی کی ایک بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ایسی حقیقت جس کا ہم میں سے اکثر لوگوں کو کبھی نہ کبھی تجربہ ضرور ہوا ہو گا۔

    قارئین نے یہ بھی محسوس کیا ہوگا ہے کہ حکایتوں میں حالات و واقعات اور ان کا پس منظر بھی پڑھنے کو نہیں ملتا جس کے باعث شاید ان میں وہ لطف اور دل کشی نہیں محسوس ہوتی جو ایک کہانی یا داستان کا حصّہ ہوسکتی ہے، مگر کوئی حکایت جو رمز یا حقیقیت اجاگر کرتی ہے اور ان سے جو سبق ملتا ہے، وہ ہماری سوچ کو بدلنے اور شخصیت کو سنوارنے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    حکایت ملاحظہ کیجیے:

    یہ دراصل ایک گفتگو ہے جو شہزادہ چِن، جس نے بعد ازاں تاجِ سلطنت پہنا اور اس کے مشیر ژو، جو وقت گزرنے پر وزیرِ اعظم کے مرتبے پر فائز ہوا، کے درمیان ہوئی۔

    سبق آموز، نصیحت آمیز اور دل چسپ حکایات اور کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے

    شہزادے نے ژو سے دریافت کیا۔ “میرے تمام مشیروں میں تم سب سے زیادہ ذہین و فطین ہو، پھر بھی لوگ پیٹھ پیچھے تمہیں کثرت سے تنقید کا نشانہ کیوں بناتے ہیں؟”

    یہ سوال ایک طرح سے ژو کے فہم و تدبر کا امتحان بھی تھا۔ ژو نے مدبرانہ انداز میں جواب کچھ یوں دیا:

    “جب بہار میں بارش برستی ہے تو کسان اسے رحمت جان کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کی کھیتیاں سیراب ہوئیں، لیکن مسافر اسی بارش کو زحمت گردانتے ہیں کہ راہیں کیچڑ سے بھر جاتی ہیں۔ جب خزاں کی راتوں میں چاندنی پورے جوبن پر ہوتی ہے تو نازنین عورتیں اس کی چمک سے لطف اٹھاتی ہیں، مگر چور اسی روشنی کو کوستے ہیں کہ وہ ان کے (دوسروں کی نظروں سے) چھپنے کے راستے بے نقاب کر دیتی ہے۔

    جب قدرتِ کاملہ خود سب کو راضی نہیں کر سکتی، تو پھر ایک بندۂ دربار سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    (مترجم و حوالہ نامعلوم)

  • فریبستان آدم زاد (حکایت)

    فریبستان آدم زاد (حکایت)

    یہ ایک مشہور حکایت ہے جو مولانا رومی سے منسوب ہے۔ حکایات اور سبق آموز کہانیاں‌ ہماری اصلاح اور تربیت کرکے ہمیں سیرت و کردار کو بہتر بنانے کا موقع دیتی ہیں۔

    اس حکایت میں ایک ملک کو فریبستان کا نام دے کر اس کے چند علاقوں کے باسیوں کی اکثریت کو ہوس زدہ، لالچی اور پست ذہنیت کا بتایا گیا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں کہ ان علاقوں میں تین قسم کے آدم زاد رہتے تھے۔ ان میں سے ایک کی نظر اتنی تیز تھی کہ وہ چیونٹی کے پاؤں تک دیکھ لیتا تھا لیکن وہ دل کی آنکھوں سے اندھا تھا۔ دوسرے کی سماعت بہت تیز تھی لیکن اس کے دل و دماغ کے ”کان‘‘ بند تھے۔ تیسرا مادر زاد برہنہ تھا لیکن اس کے کپڑے کا دامن دراز تھا۔

    مولانا بیان کرتے ہیں، ایک روز اندھے نے کہا کہ ”یارو! آدمیوں کا ایک گروہ چلا آ رہا ہے، اس سے پہلے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں، کیوں نہ ہم یہاں سے بھاگ جائیں۔ بہرے نے کہا کہ ”ہاں ہاں، تُو ٹھیک کہتا ہے، میں بھی ان آدمیوں کے قدموں کی چاپ سن رہا ہوں، معلوم ہوتا ہے کہ ایک بڑا گروہ ہے۔‘‘ اب برہنہ بیٹھے شخص نے کہا ”بھائیو! مجھے خوف ہے کہ کہیں وہ میرے قیمتی کپڑے ہی نہ لے لیں۔‘‘ اندھا گویا ہوا، لو، وہ تو قریب آ گئے ہیں اور ان کے ارادے بھی اچھے نہیں لگ رہے، کہیں واقعی وہ ہمیں نقصان نہ پہنچا دیں۔‘‘ بہرے نے کہا کہ ”آواز قریب آ گئی ہے، ہوشیار رہنا۔‘‘ برہنہ بولا، ”بھاگو، بھاگو سب سے زیادہ خطرہ تو مجھ کو ہے۔‘‘ تینوں آگے پیچھے دوڑتے بھاگتے، ہانپتے ہوئے شہر سے باہر ایک گاؤں کے قریب پہنچ گئے۔ مارے بھوک کے ان کا برا حال ہو رہا تھا۔

    اندھے نے ایک موٹا تازہ مرغا دیکھا۔ بہرے نے اس کی آواز سنی اور برہنہ شخص نے اسے اپنے دامن میں چھپا لیا۔ یہ مرغ کافی عرصے سے وہاں مرا پڑا تھا بلکہ اس کے مردہ جسم پر گوشت نام کی کوئی شے نہ تھی۔ ہڈیوں پر بھی کوؤں کی چونچوں کے نشانات تھے۔

    پھر یہ تینوں ایک دیگ ڈھونڈ کر لائے جس کا پیندا تھا نہ منہ۔ اس ہوس کی دیگ کو انہوں نے چولھے پر چڑھا دیا اور اس میں مرغ کو ڈال دیا۔ پھر انہوں نے ظلم و زیادتی کی اس قدر آگ جلائی کہ مرغ کی ہڈیاں جل کر حلوہ ہو گئیں۔ البتہ ان کے ضمیر کو حرارت چھو کر بھی نہ گئی۔ وہ تینوں اس مرغ پر ٹوٹ پڑے اور کھا کھا کر ہاتھی کی طرح موٹے ہو گئے۔ مگر ذہنیت ان کی اتنی پست کہ وہ ظالم مٹاپے کے باوجود بے شرمی کے دروازے کے باریک سوراخ سے بھی گزر جاتے تھے۔

    اس علامتی اور استعاراتی زبان میں قصہ بیان کرتے ہوئے مولانا آگے لکھتے ہیں ”جھوٹی امید کی مثال بہرے کی ہے۔ جو دوسروں کے مرنے کی خبر تو رکھتا ہے مگر اپنی موت اسے یاد نہیں۔ حرص و ہوس کی مثال اندھے کی ہے جو دوسروں کے معمولی عیبوں پر تو نظر رکھتا ہے ان کی تشہیر کرتا پھرتا ہے مگر اس بدنصیب کو اپنے عیب دکھائی نہیں دیتے۔ تیسرا آدمی سب سے بڑا بے وقوف دنیا پرست ہے۔ یہ ظالم بھی بھول گیا کہ وہ دنیا میں برہنہ آیا تھا اور اسی حالت میں دنیا سے واپس جائے گا۔ تن پر اس کی مرضی کا کوئی کپڑا نہ ہو گا، اسے ساری عمر یہی ڈر رہتا ہے کہ کہیں کوئی اس کا دامن چاک نہ کر دے، کوئی اس کے عیبوں کو بیان نہ کر دے۔ مال کی محبت میں ڈوبا رہتا ہے۔ ساری زندگی چور کے خوف سے اس کی زندگی اجیرن رہتی ہے، ایسے آدمی کو موت کے وقت سب کچھ پتہ چل جائے گا، تب حب مال والا سمجھے گا کہ وہ تو بالکل ہی مفلس تھا۔ اور صاحبِ فہم کومحسوس ہو گا کہ وہ بالکل بے ہنر تھا۔

  • فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    فطرت نہیں بدلتی (حکایت)

    کسی ملک میں لٹیروں کا کوئی گروہ بڑا طاقت ور ہوگیا۔ اس میں شامل لٹیروں کے پاس بہت سے ہتھیار بھی تھے۔ وہ لوگوں سے لوٹ مار کرتے اور قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔ ہر طرف اس گروہ کی دہشت پھیل گئی تھی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگوں کی شکایات پر بادشاہ نے اپنی فوج کو ان لٹیروں کی سرکوبی کا حکم دے دیا۔ یہ چور ملک کی ایک پہاڑ کی چوٹی پر قابض تھے۔ یہی ان کی کمین گاہ تھی۔

    ایک روز فوج کے چند سپاہیوں نے علاقے کو گھیر کر لٹیروں کے خلاف کارروائی شروع کی لیکن ناکام ہوگئے۔ کیونکہ لٹیرے پہاڑی کی ایسی پوزیشن پر تھے کہ ان کو نقصان ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی بادشاہ کے سپاہیوں کو نشانہ بناتے اور خود محفوظ رہتے۔ شاہی فوج کی یہ چھوٹی سی ٹکڑی انھیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر ناکام لوٹ گئی۔ اس طرح اس گروہ کی ہمّت بڑھ گئی۔ وزیرِ دفاع نے صلاح مشورہ کے بعد ایک فیصلہ کیا اور ایک جاسوس نے جب یہ اطلاع دی کہ لٹیرے کہیں گئے ہوئے ہیں تو چند تجربہ کار، جنگ آزمودہ لوگ اس پہاڑ کی طرف نکلے اور وہاں ایک گھاٹی میں چھپ گئے۔ رات گئے ڈاکو کہیں سے لوٹ مار کے بعد واپس آئے، ہتھیار اتارے، لوٹا ہوا مال غار میں رکھا اور تھکن کی وجہ سے پڑ کر سو گئے۔ رات کا ایک حصہ گزر گیا تو وہ ماہر لڑاکا گھاٹی سے نکلے اور انھیں نیند کے عالم میں‌ پکڑ لیا۔ تیزی سے ان کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے اور صبح بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ سب جانتے تھے کہ ابھی بادشاہ کے حکم پر ان کو مار دیا جائے گا۔ ان لٹیروں میں ایک خوب صورت نوجوان بھی تھا جس کی ابھی داڑھی پھوٹ رہی تھی۔ ایک وزیر کو اس پر ترس آیا اور بادشاہ سے اس کی سفارش کی کہ اس بے چارے نے ابھی اپنی جوانی بھی نہیں دیکھی۔ میری سفارش قبول کرتے ہوئے اس کا خون معاف کیا جائے۔ یہ آپ کا اس سے زیادہ مجھ پر احسان ہوگا۔ بادشاہ یہ سن کر لال پیلا ہو گیا کیونکہ یہ بات اس کے مزاج کے خلاف تھی۔ جس کی اصل بری ہو وہ نیکوں کا سایہ بھی برداشت نہیں کرتا۔ نااہل کی تربیت کرنا ایسا ہی جیسے گنبد پر اخروٹ رکھنا۔ بادشاہ نے کہا کہ ان چوروں کی جڑ کاٹ دینا ہی بہتر ہے کیونکہ آگ کو بجھا کر چنگاری چھوڑ دینا یا سانپ کو مار دینا اور اس کے بچّے کی حفاظت کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ اگر بادل سے آبِ حیات بھی برسے تب بھی تجھے بید کی شاخ سے پھل نہ ملے گا، کمینے کے ساتھ وقت ضائع نہ کر، کیونکہ بوریے کے نرکل سے شکر نہیں ملے گی۔

    وزیر نے بادشاہ کی یہ بات سن کر بادلِ نخواستہ رضا مندی ظاہر کی اور بادشاہ کی رائے کو سراہا اور عرض کیا آپ کا فرمان بجا مگر مجھے لگتا ہے کہ یہ ان کی صحبت میں رہ کر ان جیسا ہو گیا ہے۔ اب اگر اس کو معاف کر دیا جائے تو نیکوں کی صحبت میں رہ کر ہو سکتا ہے نیک ہو جائے۔ ابھی بچّہ ہے اور ان کی صحبت کے اثر نے بھی اس کی طبیعت میں جڑ نہیں پکڑی۔ وزیر کی یہ بات سن کر دربار میں سے کچھ اور لوگ بھی اس کے ہمنوا ہوگئے۔چنانچہ بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی معاف کردیا۔ اس لڑکے کو وزیر نے اپنے ایک شاہی خادم کے سپرد کردیا۔ اور اس کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور ایک استاد نے اس کو آداب سکھائے، بات چیت کا طریقہ بتایا، شاہوں کی بارگاہ میں بیٹھنے کا سلیقہ تک سکھایا اور واقعی سب اس کو پسند کرنے لگے۔ ایک دن وزیر نے بادشاہ کے سامنے اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کر دیں کہ عقلمندوں کی کوششوں نے اس کی طبیعت پر بہتر اثر کیا ہے اور اس نے پرانی عادتیں چھوڑ دی ہیں۔

    بادشاہ نے مسکرا کر کہا!آخر کار بھیڑیے کا بچہ بھیڑیا ہی ہوتا ہے، اگرچہ انسانوں کے ساتھ تربیت پائے۔ وزیر یہ سن کر چپ ہوگیا مگر دل میں بادشاہ کی اس بات کا بڑا ملال ہوا۔ تقریباً دو سال گزرے ہوں گے کہ اس لڑکے کی چند آوارہ مزاج اور بدمعاش قسم کے لڑکوں سے دوستی ہوگئی۔ اس کا اکثر وقت ان کے ساتھ گزرنے لگا۔ وزیر کے شاہی خادم نے اس جانب توجہ نہ دی۔ اور نہ ہی وزیر سے اس کا ذکر کیا۔ ایک روز عجیب بات ہوئی۔ وہ لڑکا اور اس کے دوست کسی طرح وزیر کے گھر میں‌ گھس گئے۔ انھوں نے وزیر اور اس کے دو بیٹوں کو قتل کر کے اس کا سارا مال جمع کیا اور بھاگ گئے۔ وہ لڑکا اب اپنے انہی ساتھیوں‌ کو لے کر چوروں کی گھاٹی میں جا کر رہنے لگا۔ اس نے بغاوت کر دی تھی۔ بادشاہ کو پتہ چلا تو اس نے افسوس کرتے ہوئے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا، گھٹیا لوہے سے اچھی تلوار نہیں بن سکتی، سکھانے پڑھانے سے نالائق، لائق نہیں ہو سکتا، جس کی طبیعت میں برائی رچ بس جائے اس پر تربیت بھی اثر نہیں کرتی لہٰذا ہر وقت اس کے شر سے محتاط رہنا چاہیے۔

    (ماخوذ از سبق آموز کہانیاں اور حکایت)

  • بڑا آدمی!

    بڑا آدمی!

    ایاز بڑا آدمی بننا چاہتا تھا۔ بڑا، بہت بڑا جیسے قائد اعظم جنہوں نے پاکستان بنایا تھا۔ لیاقت علی خان، جنہوں نے پاکستان کے لئے اپنی جان قربان کر دی تھی۔ اسی طرح اور بھی بڑے لوگ تھے اور جن کے بڑے بڑے کارنامے تھے، ایاز ان ہی لوگوں کی طرح بننا چاہتا تھا۔

    اپنا نام تاریخ میں درج کرانے کے لئے وہ خوب دل لگا کر پڑھتا۔ بڑی محنت سے اپنا سبق یاد کرتا۔ ہوم ورک بڑی پابندی سے کرتا۔ سوتے جاگتے کوئی نہ کوئی کتاب اس کے ہاتھ میں دبی ہوتی۔ اس کی امی کہتیں بیٹا کھانا کھا لو۔ وہ جواب دیتا بھوک نہیں ہے، پڑھنے کے بعد کھا لوں گا۔ آپا کہتیں گڈے بھائی بازار سے سودا تو لا دو۔

    ایاز برا سا منہ بنا کر کہتا آپا! آپ دیکھ نہیں رہیں میں پڑھ رہا ہوں۔ کل میرا ٹیسٹ ہے۔ آپ کسی اور سے سودا منگوائیں۔ مجھے تو پڑھنے دیں۔ مجھے بڑا آدمی بننا ہے۔ محلے میں بھی کوئی اس سے کام کا کہتا تو وہ صاف منع کر دیتا۔

    اس کے امی ابو دیکھتے کہ ایاز راتوں کو اٹھ کر پڑھتا رہتا ہے اس کے ابو کبھی اس کو رات رات بھر جاگ کر پڑھنے سے منع کرتے تو وہ اپنے ابو سے کہتا’’ ابو جی بڑا آدمی بننے کے لئے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ قائد اعظم بھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے۔ ان کے گھر والے بھی انہیں زیادہ پڑھنے سے ٹوکتے تھے لیکن وہ گھر والوں کی باتوں کا برا نہیں مانتے تھے۔ ‘‘

    ایاز کا یہ جواب سن کر اس کے ابو جان خاموش ہو جاتے سوچتے کہ یہ لڑکا تو ہاتھ سے گیا۔

    بڑے بھیا جب شام چار بجے کرکٹ کھیلنے جاتے تو اسے پکارتے، ’’ اے کتابی کیڑے، کچھ وقت کھیل کود کے لئے بھی نکال لیا کرو۔ پڑھائی کے ساتھ کھیل کود بھی ضروری ہے۔ ‘‘ آپ کا شوق آپ ہی کو مبارک ہو۔ مجھے تو پڑھنے ہی دیں۔ ‘‘

    بڑے بھیا اپنے کاندھے پر بلا رکھ کر ایاز سے کہتے’’ منے میاں کام کے وقت کام پڑھائی کے وقت پڑھائی تازہ ہوا میں سانس لو۔ پڑھ پڑھ کے کیا حالت بنا لی تم نے اپنی؟

    بڑے بھیا کی یہ بات سن کر ایاز کہتا’’ بڑا آدمی بننے کے لئے وقت کی قدر کرنا پڑتی ہے اور جو لوگ وقت کی قدر نہیں کرتے، اپنا وقت کھیل کود میں برباد کر دیتے ہیں وہ کبھی بڑے آدمی نہیں بن سکتے۔ ‘‘

    بڑے بھیا بھی بڑے بھیا تھے، چین سے بیٹھنا ان کو آتا ہی نہ تھا، بھلا کس طرح ایاز کی بات مان لیتے، اپنا بلا ایک طرف پھینکتے اور پاؤں پسار کر اس کے پاس جا بیٹھتے اور کہتے دیکھو منے میاں، ہم وقت کی ناقدری نہیں کرتے نہ ہی کھیل کود میں اسے برباد کرتے ہیں۔ ہمارے ہر کام میں اعتدال ہوتا ہے بڑے بھیا ایک لمحے کو خاموش ہوتے پھر دوسرے ہی لمحے کہتے ’’ منے میاں ایک صحت مند جسم ہی میں ایک صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ جسم تندرست ہو گا تو دماغ توانا ہو گا اور اگر جسم ہی کمزور ہو گا تو دماغ بھلا کس طرح توانا رہ سکے گا؟‘‘

    ’’ بھیا، آپ کو معلوم ہے میں روزانہ پیدل اسکول جاتا ہوں میری اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے، پھر مجھے کھیلنے کودنے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘

    ایاز بڑے بھیا کو لاجواب کر دیتا ہے۔ ’’لگتا ہے منے میاں تم نہیں سدھرو گے۔ ‘‘ بڑے بھیا بلا اٹھاتے اور ایاز کے سر کے بال بگاڑ کر کرکٹ کھیلنے چلے جاتے۔ جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ایاز کا پڑھائی اور بڑا آدمی بننے کا شوق انتہا کو پہنچتا جا رہا تھا۔ گھر والے اس کی ہر وقت کی پڑھائی سے جھنجھلا گئے تھے۔ پڑھائی کے چکر میں ایاز گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ بازار سے سودا سلف اور سبزی وغیرہ کے لئے بھی گھر والوں کو جانا پڑتا سوئی گیس اور بجلی کا بل بھی گھر والے ہی جمع کراتے، مہمان آ جاتے تو ان کی خاطر تواضع کیلئے سامان وغیرہ بھی گھر والے ہی لاتے۔ غرضیکہ وہ گھر والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔

    امی جان ایاز کے آگے پیچھے کھانا لے کر پھرا کرتیں ’’ چاند، سہ پہر کے تین بج گئے ہیں اب تو کھانا کھا لو۔ ‘‘ ’’ کھا لوں گا امی جان ابھی بھوک نہیں ہے ابھی تو مجھے پڑھنے دیں۔ ‘‘

    وقت پر نہ کھانے اور راتوں کو جاگ کر پڑھنے کی وجہ سے ایاز کی صحت پہلے جیسی نہیں رہی وہ کمزور ہو گیا۔

    امتحانات قریب آ گئے تھے اور ایاز پڑھائی میں پوری طرح مصروف تھا۔ اپنا کمرہ بند کیے وہ پڑھائی میں مصروف رہتا، اس بات کا بھی ہوش نہیں تھا کہ چھوٹے ماموں لندن سے واپس وطن لوٹ رہے ہیں اور انہیں لینے ائیر پورٹ جانا ہے۔ ایاز پڑھائی میں مصروف رہا اور ماموں گھر والوں کے ساتھ ائیر پورٹ سے گھر آ گئے۔ گھر میں سب خوش تھے۔ کئی سالوں بعد چھوٹے ماموں لندن سے واپس آئے تھے۔ ایاز کی امی جان تو بے حد خوش تھیں کئی سالوں کی دوری کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملی تھیں۔

    چھوٹے ماموں گھر والوں کی شفقت و محبت سے بے حد متاثر ہوئے کہنے لگے۔ ’’ لندن میں تو محبت و شفقت کو ترس گیا تھا۔ پھر وطن کی یاد دل کو بے چین رکھتی تھی اور پھر مجھے اپنے بھانجے اور بھانجیوں سے ملاقات کا ہر وقت خیال رہتا تھا سو میں نے اپنا بستر بوریا گول کیا اور سیدھا یہاں چلا آیا۔ آپ لوگوں کے درمیان۔ ‘‘

    ’’ ایاز نظر نہیں آ رہا ہے، کیا کہیں گیا ہوا ہے؟‘‘ چھوٹے ماموں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ گھر میں ہی ہے۔ اپنے کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا ہے۔ ‘‘ امی جان نے اطلاع دی۔ ’’پڑھائی کر رہا ہے کیا اسے میرے آنے کی اطلاع نہیں ؟‘‘ ماموں نے پوچھا۔

    ’’ جب وہ پڑھنے بیٹھتا ہے تو اسے کھانے پینے کا ہوش نہیں رہتا۔ آپ کو بھلا وہ کس طرح یاد رکھے گا۔ ‘‘ بڑی آپا نے کہا’’ اوہ تو مسٹر پڑھا کو ہو گئے ہیں !‘‘

    ’’ موا ہر وقت پڑھتا رہتا ہے، کہتا ہے بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘ دادی جان نے جل کر کہا۔

    ’’ میاں تم ہی اسے کچھ سمجھاؤ۔ ہماری تو کوئی بات مانتا ہی نہیں !!‘‘ ابا جان نے ماموں جان سے کہا۔

    ’’ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی کہ بڑا آدمی بننے کے چکر میں وہ اپنے ماموں جان کو بھی بھول گئے ہیں !‘‘ ماموں جان مسکرا کر بولے۔ انہوں نے جیسے ہی اپنی بات مکمل کی۔ عین اسی وقت ایاز کمرے میں داخل ہوا اور دوڑ کر ماموں کے گلے لگ گیا’’ میں اپنے ماموں جان کو کیسے بھول سکتا ہوں‘‘ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے لہجے میں ہلکا سا جوش تھا۔

    چھوٹے ماموں اپنے بھانجے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے۔ ’’ منے میاں، ماشاء اللہ تم نے اچھا خاصا قد نکال لیا ہے۔ مجھ سے بھی بڑے لگ رہے ہو۔ ‘‘

    ’’ بڑا آدمی جو بننے چلے ہیں !!‘‘ باجی نے جل کر کہا’’ ہاں بھئی، یہ بڑا آدمی بننے کا کیا چکر ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو۔ گھر والوں کا کوئی کام نہیں کرتے اور کسی کھیل کود میں بھی حصہ نہیں لیتے؟‘‘

    ایاز نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا’’ سب لوگ میری پڑھائی سے جلتے ہیں۔ ‘‘

    ’’ یہ سب لوگ تمہاری پڑھائی سے نہیں جلتے بلکہ اس بات سے نالاں ہیں کہ تمہارے اندر اعتدال ختم ہو گیا ہے۔ اسی وجہ سے تمہاری گھر والے تم سے بیزار ہو گئے ہیں اور آج تو مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ سب ائیر پورٹ پر مجھے لینے آئے لیکن تم نہیں آئے۔ ‘‘

    چھوٹے ماموں جان کی یہ بات سن کر شرمندگی کے احساس سے ایاز کا سر جھک گیا۔ اسے احساس ہو رہا تھا کہ ماموں جان نے اس کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے۔

    ماموں جان نے دیکھا کہ ایاز شرمندہ ہے تو انہوں نے اس سے کہا’’ یہ بتاؤ جب ہم کہیں چلنے کا ارادہ کرتے ہیں تو کیا کرتے ہیں ؟‘‘

    ’’ چلتے ہیں !‘‘

    ’’ ٹھیک ہے، چلتے ہیں، لیکن کس طرح!‘‘

    ’’ پہلے ایک قدم آگے بڑھاتے ہیں اور پھر دوسرا۔ ‘‘

    ’’ بالکل ٹھیک، منزل تک پہنچنے کے لئے دونوں قدموں کا اٹھانا ضروری ہے اور یہ بھی کہ ہم صرف ایک قدم اٹھا لیں اور دوسرا قدم نہ اٹھائیں تو پھر کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے، تو منے میاں، بڑا آدمی بننے کے لئے آپ نے صرف اپنا ایک قدم اٹھایا ہے۔ یعنی صرف پڑھائی، دوسرا قدم آپ نے آگے نہیں بڑھایا اور آپ کو معلوم ہے دوسرا قدم کیا ہے!‘‘

    ’’ نہیں معلوم؟‘‘ ایاز ماموں جان کی باتوں سے الجھ سا گیا۔

    ’’ وہ دوسرا قدم ہے لوگوں کی دعائیں لینا، ان کے کام آنا، بندوں کی خدمت کرنا‘‘ چھوٹے ماموں ایک لمحے کو خاموش ہوئے پھر دوسرے ہی لمحے انہوں نے ایاز سے کہا’’ کیا آپ نے لوگوں کی دعائیں لیں ہیں ؟ گھر محلے سے باہر کبھی کسی کی کوئی خدمت کی ہے؟ کیا کبھی کسی نابینا شخص کو سڑک پار کروائی ہے؟ کیا کبھی کسی غریب شخص کی اخلاقی یا مالی مدد کی ہے؟ چلیں ان باتوں کو بھی چھوڑ دیں۔ آپ مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ آپ کبھی کسی کے لئے مسکرائے ہیں ؟‘‘

    ماموں کی اتنی ساری باتیں سن کر ایاز سوچوں میں پڑ گیا، ’’ میں نے تو واقعی کبھی کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی۔ نہ گھر والوں کے کسی کام آیا اور نہ ہی محلے والوں کے اور نہ ہی کبھی کسی سے مسکرا کر بات کی۔ ‘‘

    گھر کے تمام افراد کی نگاہیں ایاز پر لگی ہوئی تھیں ماموں جان نے اسے خاموش پایا تو بولے ’’ہاں منے میاں، کچھ یاد آیا، کوئی ایسا چھوٹا موٹا کام جسے کر کے آپ نے لوگوں سے دعائیں لی ہوں۔ ‘‘

    ایاز اب بھی خاموش رہا تو ماموں جان بولے’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کبھی کسی کے کام نہیں آئے۔ آپ نے کبھی کسی کی کوئی خدمت نہیں کی اور ظاہر ہے جب آپ نے کسی کی کوئی خدمت ہی نہیں کی تو پھر دعائیں آپ کو کس طرح مل سکی ہوں گی۔ ‘‘

    کچھ لمحوں تک ماموں جان خاموش رہے پھر انہوں نے ایاز سے پوچھا’’ آپ نے مشہور بادشاہ محمود غزنوی کا نام سنا ہے؟‘‘

    ’’ جی جی‘‘ وہی محمود غزنوی جس نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے تھے۔ سومنات کا مندر توڑا تھا اور تاریخ میں اپنا نام ’’ بت شکن‘‘ کی حیثیت سے درج کرایا تھا۔ ایاز نے بڑے جوش سے بتایا

    ’’ کیا آپ ان کے والد کا نام جانتے ہیں ؟‘‘

    ’’ سبکتگین‘‘ بڑے جوش سے ایاز نے بتایا

    ’’ آپ کی معلومات تو بہت اچھی ہے اچھا یہ بتائیے کہ جب سبکتگین ایک معمولی سپہ سالار تھے تو ان کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ہرنی والا واقعہ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ یاد آیا؟‘‘

    ’’ جی جی ماموں جان، وہ واقعہ مجھے اچھی طرح یاد ہے سناؤں میں آپ کو؟‘‘

    ’’ ہاں ہاں بالکل‘‘ محمود غزنوی کے والد سبکتگین کو شکار کا بے حد شوق تھا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے نکلے۔ جنگل میں پہنچے تو انہیں ہرنی اور اس کا بچہ نظر آیا۔ انہوں نے اپنا گھوڑا ہرنی کے پیچھے ڈال دیا۔ شکاری کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ہرنی ایک طرف بھاگ گئی۔ بچے سے بھاگا نہ گیا اور بچے کو سبکتگین نے گھوڑے کی پیٹھ پر بٹھا لیا۔ وہ بچے کو لے کر کچھ ہی دور چلے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچے کی محبت میں بے تاب ہو کر گھوڑے کے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ اس کو اپنی جان کا بھی کوئی خوف نہیں تھا۔

    سبکتگین ماں کی محبت دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً ہرنی کے بچے کو چھوڑ دیا۔ ہرنی کا بچہ رہائی پاتے ہی قلانچیں بھرتا ہوا ماں کے قریب جا پہنچا۔

    سبکتگین نے دیکھا کہ ہرنی نے محبت میں آ کر اپنے بچے کو چومنا شروع کر دیا۔ وہ اپنے بچے کو زبان سے چاٹتی جاتی اور سبکتگین کی طرف تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھتی جاتی جیسے شکریہ ادا کر رہی ہو اور دعا دے رہی ہو۔

    ہرنی کی دعا کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد سبکتگین معمولی سپہ سالار کے عہدے سے ترقی پا کر غزنی کے حکمران بن گئے۔

    ’’ بہت اچھے بھئی، آپ کو تو یہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے!‘‘ ماموں جان نے خوش ہو کر کہا۔

    ’’ جی ماموں جان، مجھے تو ابراہم لنکن والا واقعہ بھی اچھی طرح یاد ہے! جب انہوں نے اسکول کے زمانے میں پتھروں کے ڈھیر میں پھنسی ہوئی ایک ننھی گلہری کو آزاد کرایا اور اس کی دعا لی تھی اور ننھی گلہری کی دعا کا اثر ہی تھا کہ وہ ایک دن امریکا کے صدر بنے‘‘ واہ بھئی واہ، آپ کی معلومات تو بے حد شاندار ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ ان واقعات سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟’’ یہی کہ بڑا آدمی بننے کے لئے دعاؤں کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے‘‘ سر جھکا کر بڑے شرمندہ لہجے میں ایاز نے کہا۔

    ’’ اور آپ کو معلوم ہے دعائیں کس طرح حاصل کی جاتی ہیں ؟‘‘ ماموں جان نے پوچھا۔ ایاز سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ شرمندگی کے احساس نے اس کی زبان پر چپ کی مہر لگا دی تھی۔ چھوٹے ماموں نے اسے خاموش اور شرمندہ دیکھا تو اس کے دونوں شانے تھام کر کہا’’ بیٹا اعتدال کی راہ پر چل کر ہی دعائیں حاصل کی جاتی ہیں۔ در حقیقت بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو مسکرا کر لوگوں سے ملتا ہو، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتاہو اور ان کی خدمت کر کے ان کی دعائیں لیتا ہو۔ ‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوئی تھی کہ ایاز بول اٹھا’’ ماموں جان، آپ کی باتوں نے آج میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بڑا آدمی بننے کے لئے میں اپنی زندگی میں اعتدال اور میانہ روی کی راہ اپناؤں گا۔ لوگوں کی خدمت کروں گا۔ ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں گا اور ان کی دعائیں لوں گا۔ ‘‘

    ’’ شاباش!‘‘ ماموں جان خوشی سے نہا ل ہو گئے۔ ا سی وقت ایاز کو کچھ یاد آیا۔ وہ سائیکل لے کر باہر جانے لگا۔ ماموں جان نے پوچھا تو کہنے لگا۔ ’’ فاطمہ خالہ کا سوئی گیس اور بجلی کا بل جمع کرانا ہے۔ وہ کل سے کہہ رہی ہیں کل تو میں نے انہیں منع کر دیا تھا لیکن اب میں انہیں کبھی منع نہیں کروں گا۔ ‘‘

    ایاز باہر جانے لگا تو آپا نے پچاس کا نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا، ’’ منے میاں، بازار سے واپسی پر دو درجن گرم گرم سموسے لے آنا۔ ‘‘

    ’’ بہت بہتر آپا جانی، میں یوں گیا اور یوں آیا‘‘ بڑی خوش دلی سے ایاز نے کہا۔ جب وہ سائیکل پر باہر جانے لگا تو ماموں جان نے آواز لگائی’’ میاں، جلدی آ جانا، ہم سب تمہارے ساتھ مل کر چائے پئیں گے۔ ‘‘

    ماموں جان کے ہاتھوں ایاز کی کایا پلٹ جانے پر گھر کے تمام افراد بے حد خوش نظر آ رہے تھے۔ ماموں جان نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’ ایاز نے بڑا آدمی بننے کے لئے پہلا قدم اٹھا لیا تھا، دوسرا نہیں اٹھایا تھا۔ آج اس کا دوسرا قدم بھی اس سمت میں اٹھ چکا ہے۔ دعا کریں کہ ایک دن واقعی وہ بڑا آدمی بن جائے‘‘

    ماموں جان کی بات مکمل ہوتے ہی سب نے بڑے زور سے کہا’’ آمین‘‘

    (مصنّف: محمد طہٰ خان)

  • عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    عقاب اور مکڑی( ایک حکایت)

    ایک عقاب بادلوں کی چادروں کو چیرتا ہوا کوہ قاف کی چوٹیوں پر پہنچا اور ان کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر بیٹھ گیا۔

    وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا اس کی خوب صورتی میں وہ محو ہوگیا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی ہوئی رکھی ہے۔ کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔ کہیں پر جھیلیں اور جھیلوں کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔ کہیں پر سمندر خفگی سے اپنے ماتھے پر بل ڈالے کوّے کی طرح کالا ہو رہا ہے۔

    اے خدا عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا، ’’میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔ تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔‘‘

    ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔’’تو آخر کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتا ہے؟ کیا میں تجھ سے کچھ نیچی ہوں؟‘‘

    عقاب نے پھر کر دیکھا۔ واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تن رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔

    عقاب نے حیرت سے پوچھا ’’تو اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جب وہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے کہیں زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تو کمزور اور بے پر کیا چیز ہے۔ کیا تو رینگ کر یہاں آئی؟‘‘

    مکڑی نے جواب دیا۔ ’’نہیں ایسا تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’تو پھر یہاں کیسے آگئی؟‘‘

    ’’جب تو اڑنے لگا تھا تو میں تیری دم سے لٹک گئی اور تُو نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔ لیکن میں یہاں اب تیری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تو اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ ظاہر کر اور سمجھ لے کہ میں ہی۔۔۔‘‘

    اتنے میں ایک طرف سے ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا کر زمین پر گرا دیا۔

    میرا خیال ہے اور آپ کو بھی مجھ سے اتفاق ہوگا کہ دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی بڑے آدمی کی دم میں لٹک کر بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت بخشی ہے، مگر بات صرف یہ ہے کہ کوئی ذرا پھونک دے اور وہ اپنے جامے سمیت پھر زمین پر پہنچے ہوتے ہیں۔

    (معروف ہندوستانی اسکالر، ادیب اور ماہرِ تعلیم محمد مجیب کے قلم سے ایک حکایت)

  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    اور بی لومڑی سدھر گئیں!

    بندر میاں تو مشہور ہی اپنی نقالی اور شرارتوں کی وجہ سے تھے جس سے جنگل کے تمام جانور لطف اٹھا تے لیکن بی لومڑی کو اُن کی یہ حرکت سخت ناگوار گزرتی تھی، کیونکہ اکثر و بیشتر وہ بندر میاں کی شرارت کا نشانہ بنتی تھیں۔

    بات محض شرارت تک ہوتی تو کوئی بات نہ تھی، بندر میاں مذاق ہی مذاق میں بی لومڑی کی بے عزتی کر دیا کرتے تھے اور اپنی عزّت تو سبھی کو پیاری ہوتی ہے۔ بی لومڑی نے تہیہ کر لیا تھا کہ وہ بندر میاں سے اپنی بے عزّتی کا بدلہ ضرور لیں گی اور جلد ہی بی لومڑی کو موقع بھی مل گیا۔

    ہُوا یوں کہ بی لومڑی کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے چٹپٹی چاٹ بنائی جسے ندیدوں کی طرح جلدی جلدی کھا رہی تھیں، اپنی اُنگلیاں چاٹ چکیں تو پیالہ زبان سے چاٹنے لگیں۔ بندر میاں جو اتفاقاً وہاں آنکلے تھے، بڑے اشتیاق سے بی لومڑی کی ندیدی حرکتیں دیکھ رہے تھے اور وہ اس سے بے خبر مزے سے چٹخارے لیتی جا رہی تھیں اور کہتی جا رہی تھیں واہ مزہ آ گیا۔ کیا چا ٹ بنائی ہے میں نے، واہ بی لومڑی واہ۔“

    بندر میاں اُس وقت تو خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے، لیکن کچھ ہی دیر بعد اُنہوں نے سارے جانوروں کو جمع کیا اور بی لومڑی کی وہ نقل اُتاری کہ ہنستے ہنستے سب کا بُرا حال ہو گیا۔ دل ہی دل میں بی لومڑی بھی بندر میاں کی فن کاری کا اعتراف کر رہی تھیں، لیکن بھرے مجمع میں اپنی بے عزّتی اُنھیں بہت کھل رہی تھی۔ بی لومڑی نے اپنی بے عزّتی کا بدلہ لینے کا پکا ارادہ کر لیا۔ اُن کی فطرت تھی جب تک انتقام نہ لے لیتیں اُن کو چین نہ پڑتا تھا۔ اور بالآخر وہ دن آہی گیا جب بی لومڑی نے بندر میاں سے اپنا بدلہ لے لیا۔

    اُس روز موسم سخت گرم تھا، دھوپ بھی بہت تیزتھی، بندر میاں گرمی سے نڈھال برگد کے سائے میں مزے سے سو رہے تھے۔ اُنھیں یوں بے خبر سوتا دیکھ کر بی لومڑی کو اپنا انتقام یادآ گیا۔ وہ دبے پاؤں بندر میاں کے نزدیک گئیں اور خار دار جھاڑی پہلے بندر میاں کے چہرے اور پھر کلائی پر زور سے مار کر پَل بھر میں‌ یہ جا، وہ جا۔

    بی لومڑی اپنی چالاکی کی وجہ سے مشہور تھیں، اب یہ سوچ کر وہ بہت خوش تھیں کہ میں نے اپنا کام کر دکھایا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی، لیکن یہ اُن کی بھول تھی، کیونکہ بی لومڑی کے ستائے ہوئے ریچھ ماما اور بطخ خالہ نے بی لومڑی کی یہ حرکت اپنی آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ اب وہ بندر میاں سے جن کا چہرہ اور کلائی بُری طرح زخمی ہوگئے تھے، اُن کی تکلیف کی شدت محسوس کر کے نہ صرف ہمدردی کر رہے تھے، بلکہ جنگل کے بادشاہ شیر سے بی لومڑی کی شکایت کر کے انصاف کی درخواست پر اصرار بھی کر رہے تھے۔ پہلے تو بندر میاں نے انکار کر دیا اور پھر بطخ خالہ کے احساس دلانے پر کہ یہ خاموشی کل بی لومڑی کو اوروں پر ظلم کرنے پر اُکسائے گی بندر میاں نے جنگل کے بادشاہ سے انصاف طلب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

    بندرمیاں نے جب تمام ماجرا جنگل کے بادشاہ کو سُنایا تو اُنھوں نے فوراً تمام جانوروں کو دربار میں حاضری کا حکم دیا۔ تمام جانور بادشاہ کے دربارمیں حاضر ہو گئے۔

    بادشاہ سلامت انصاف کی کرسی پر بیٹھے تھے اور بندر میاں بی لومڑی کے ظلم کی داستان سُنا رہے تھے۔ ان کا زخمی چہرہ اور کلا ئی سے رِستا ہُوا خون بی لومڑی کے ظلم کی گواہی دے رہا تھا۔ بطخ خالہ اور ریچھ ماما نے بی لومڑی کے خلاف حلفیہ گواہی دی تھی۔ تمام جانور بی لومڑی کو لعنت ملامت کر رہے تھے۔ پہلے تو وہ انکار کرتی رہیں لیکن بندر میاں نے ثبوت پیش کر دیے۔ کوئی راہِ فرار نہ پا کر بالآخر بی لومڑی نے اقبالِ جرم کر ہی لیا۔

    جنگل کے بادشاہ شیر نے اپنی گرجدار آواز میں فیصلہ سُنایا کہ ایک ماہ تک جنگل کے تمام جانور بی لومڑی سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے اور شاہی دربار میں ہونے والے جشن میں بھی بی لومڑی شرکت نہیں کریں گی۔

    یہ فیصلہ سُنتے ہی بی لومڑی کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ اُن کی آنکھیں بھر آئیں، جنگل کے اس سالانہ جشن کی تیاری تو وہ کئی ماہ پہلے سے کر رہی تھیں۔ بی لومڑی منہ بسورے، کبھی حسرت بھری نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھتیں جن کے ساتھ مل کر انھوں نے اس جشن کی تیاریاں کی تھیں اور کبھی بادشاہ سلامت پر التجا بھری نظر ڈالتیں۔ یہ منظر دیکھ کر بندر میاں نے اپنی تکلیف بھلا کر بی لومڑی کی نقل اُتاری۔ عادت سے مجبور جو تھے۔ پھر یہ عادت اُن کی پیدائشی بھی تو تھی۔ کیسے وہ اس سے چھٹکارا پاتے؟ تمام جانورہنس رہے تھے۔ بندر میاں کی بے ساختہ اداکاری پر شیر بادشا ہ بھی مسکرا دیے۔ اپنی بھد اڑتے دیکھ کر بی لومڑی شرمندہ بھی ہُوئیں اور اُداس بھی۔

    بندر میاں کو وقتی طور پر غصہ تو آگیا تھا لیکن اب اُنھیں افسوس ہو رہا تھا کیونکہ بی لومڑی کی کافی بے عزتی ہو چُکی تھی۔ خود بندر میاں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا کہ ایسی شرارت یا مذاق نہیں کرنا چاہیے جس سے کسی کی عزّت خراب ہو یا کسی کی دل آزاری ہو۔ فطرتاً بندر میاں بہت رحم دل تھے۔ اُنھوں نے بادشاہ سے بی لومڑی کے لیے معافی کی درخواست کی تو اُن کی سفارش پر لومڑی کی سزا ختم کر دی گئی۔

    بندر میاں کی رحم دلی اور درگزر سے کام لینے کا بی لومڑی پر ایسا اثر ہُوا کہ اُس دن کے بعد سے انھوں نے کبھی بندر میاں کو کیا کسی کو بھی اپنی چالاکی سے نقصان نہیں پہنچایا۔ بی لومڑی نے بندر میاں سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ اب انھوں نے انتقام سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ دوسروں کو معاف کرنے اور درگزر سے کام لینے کا سبق بی لومڑی نے بندر میاں سے سیکھا تھا۔

    (شائستہ زرّیں کے قلم سے بچّوں کے لیے ایک سبق آموز کہانی)

  • امن کانفرنس

    امن کانفرنس

    ہم سب نے اپنے بچپن میں کہانیاں سن اور نصیحت آموز واقعات پڑھ کر بہت کچھ سیکھا ہوگا۔ ابتدائی عمر میں ہر بچّہ اپنے بڑوں کی نصیحتوں اور باتوں سے زیادہ خود اپنے ماحول، گرد و پیش سے دیکھ کر اور سُن کر سیکھتا ہے۔ اس عمر میں سیکھی گئی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں اور اچھی کہانیوں کی بات کی جائے تو یہ شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

    یہ اردو کی ممتاز فکشن رائٹر اور شاعرہ کی بچّوں کے لیے لکھی گئی ایک کہانی ہے۔ مصنّفہ نے تفریحی اور شگفتہ انداز میں بچّوں کو اپنی عمر کے مطابق اپنے طرزِ‌ عمل پر توجہ دینے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ والدین اور بڑے یہ کہانی اپنے بچّوں کو دل چسپ انداز میں‌ پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں‌ ہے:

    جب میز کے آزو بازو چار کرسیاں جمائی جا چکیں، تو رازی میاں بڑے اطمینان اور بزرگی والے انداز میں مڑ کر بولے، "جناب راشد… مسٹر ٹِلو… اور آپ محترمی پپّو! آئیے اب یہاں تشریف رکھیے اور اپنی کانفرنس کا افتتاح کیجیے۔”

    سب چاروں کرسیوں پر آ بیٹھے، اور اتفاقِ رائے سے رازی میاں کو صدر منتخب کیا گیا۔ چنانچہ جنابِ صدر کھنکارتے ہوئے بولے۔ "جیسا کہ آپ جانتے ہیں۔ یہ شکریہ وکریہ بالکل رسمی سی چیز ہے اس لیے میں معافی چاہوں گا۔ اب ہمیں یہ کرنا ہے کہ گھر میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ جیسا کہ آپ سبھی جانتے ہیں، ہمارا یہ گھر…گھر کا ہے کو ہے بوچڑ خانہ ہے، مچھلی بازار ہے، بلکہ اس قبیل کا کوئی اور لفظ ہو تو وہ بھی آپ یاد دلا دیں۔ ہاں تو آپ جانتے ہیں کہ اس شور پکار میں پڑھنا۔ میرا مطلب ہے اسٹڈی کرنا اس قدر مشکل کام ہے کہ جب کتابیں کھولتے ہیں تو حروف کی بجائے جیسے الفاظ بولتے ہیں۔

    "ایں، ایں۔۔ میرا لٹّو پٹّو لے کر بھاگ گیا۔”
    "ابے نامعقول میری گیند کس نے چھپا دی؟”
    "توبہ میرے لفافے کے اسٹامپ کس نے نوچ ڈالے۔”

    تو جناب سامعین! میرا مطلب یہ ہے کہ اس شور شرابے میں نہ صرف چھوٹے بلکہ کسی حد تک بڑے بھی شامل ہیں۔ اس لیے کوئی ایسا ٹھوس اقدام کیا جائے، ایسا ریزولیشن پاس کیا جائے کہ…” بات پوری ہونے سے پہلے ہی داد ملنے لگی۔

    "او… یس( O.YES)” پپو نے کانونٹ زون شان ماری۔

    "بالکل ٹھیک ہے۔” راشد منمناہٹ سے بولے۔

    "ہم سب چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک ایسی پُرامن فضا قائم ہو جائے کہ پرندہ پَر نہ مارے۔ یہ دوات جو اس میز پر دھری ہے، ایسا نہ ہو کہ ہمارے ادھر ادھر ہوتے ہی گُل کاری کرنے لگے۔ رات کے اندھیرے میں بھی ٹٹولیں، تو ہر چیز اپنی جگہ پر رکھی ہوئی ملے۔ اسکیل بچوں کے لیے گھوڑا گاڑی کا کام نہ دینے لگے۔”

    پپّو اس تقریر سے ذرا بور ہونے لگے تھے اور بار بار چھوٹی میز پر دھری مٹھائی اور نمکین کھاجے کی پلیٹ کو گھورتے جاتے تھے، جو کانفرنس کے سلسلے میں مہمانوں کی خاطر مدارات کے لیے سجائی گئی تھیں۔ معزز صدر نے چوٹ کی۔

    "اور ہر چند کہ یہ کانفرنس کا ایک حصہ نہیں ہے کہ لوگوں کا سدھار کیا جائے کہ وہ بھکاری پن چھوڑ دیں۔ تاہم یہ بھی ہمیں کو سوچنا ہے۔” پپّو نے ہڑبڑا کر مٹھائی پر سے نگاہیں ہٹا لیں۔

    راشد مسلسل اودی، نیلی لال لال پنسل کی تیز نوک کو تاکے جا رہے تھے۔معزّز صدر کی نگاہیں بھی کافی تیز تھیں۔ تقریر جاری رہی۔

    "اور یہ چیز انتہائی خطرناک ہے کہ بستوں میں سے نئی پنسلیں، نئی کوری کاپیاں اور کتابیں غائب ہو جائیں اور چور کا پتہ ہی نہ چلے۔ (تالیاں)
    "اخلاق سکھانا بھی ہمارا ہی فرض ہے یہ نہیں کہ گرمی کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے اگر بچّوں کے سر منڈوا دیے ہوں، تو ان بچّوں کے سر پر چاند ماری کی مشق کی جائے۔”

    ٹِلو بری طرح سراسیمہ ہوگئے، کیونکہ وہ ان گُنوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ "اور ہمیں یہ بھی چاہیے کہ آپس میں بھی اخلاق سے رہیں۔ لڑائی دنگے اور جھگڑوں سے بچیں۔ فضول گالی گلوچ نہ کریں، دوسرے الفاظ میں اس طرح مل جل کر رہیں کہ واقعی امن پسند شہری…” ذرا رک کر صاحب صدر بولے۔

    "یہ ترکیب غلط ہو گئی، اس لیے کہ ہم شہر کے لیے امن کانفرنس نہیں کر رہے۔ گھر کے اپنے مکان کے لیے کررہے ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ واقعی صحیح معنوں میں "امن پسند مکانی” بن کر دکھا دیں اور جو ذرا بھی احکام کی خلاف ورزی کرے، اس کی ایسی خبر لی جائے کہ حضرت کی نانی مر جائے۔” صاحبِ صدر کی بات منہ میں ہی تھی کہ ٹلّو ذرا چڑ کر بولے:

    "جناب صدر نے بڑی غلط زبانی سے کام لیا ہے۔ یہ اگر پوری نہیں تو آدھی گالی ضرور ہے۔”

    راشد بھی خفا ہو کر بولے۔”اس صورت میں جب کہ ہماری نانی جان بقیدِ حیات ہیں۔ یہ بات واقعی آپ نے غلط کہی ہے۔”

    پپّو موقع پا کر مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔” چراغ تلے ہی اندھیرا ہوتا ہے۔”

    "مگر جناب۔” صاحبِ صدر اپنے بچاؤ میں بولے۔”یہ تو محض ایک ترکیب ہے، گالی نہیں اور اسے تو اردو کے سب سے بڑے افسانہ نگار پریم چند نے بھی اپنے ناول میں استعمال کیا ہے۔”

    پپو مسلسل مٹھائی کو گھورتے ہوئے بولے۔ "یقیناً ان کی نانی کا انتقال پہلے ہی ہو چکا ہو گا۔” اور تائید کے لیے راشد کی طرف دیکھا۔

    راشد تاؤ کھا کر بولے۔ "جنابِ صدر! یہ ترکیب نہیں کوسنا ہے۔ آپ چاہتے ہیں کہ میری نانی مر جائیں۔ وہ ہم سے اتنی محبت کرتی ہیں۔ راتوں کو کہانیاں سناتی ہیں، دن کو مٹھائیاں کھلاتی ہیں، پپو نے سینے پر ہاتھ مارا۔” ہائے مٹھائی” اور آپ ان کے یوں لتّے لے رہے ہیں۔”

    راشد نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے منبر پر زور سے ہاتھ مارا اور جملہ حاضرین کی نظر بچا کر لال، اودی پنسل اٹھا کر نیکر کی جیب میں ڈال لی۔ راشد کو تو مطلوبہ چیز مل گئی، مگر پپّو کو مٹھائی؟ اف! یہ کیسی بات ہوئی؟ پپّو، راشد سے بھی زیادہ تاؤ کھا کر اٹھے اور مٹھائی کی پلیٹ لاکر بڑی میز پر پٹخ کر بولے۔

    "دنیا کی نانیاں مَر گئیں ، تو ایسی مٹھائیاں کون کھلائے گا۔” اور انہوں نے احسانوں کا اعتراف کرنے کی خاطر ایک رس گُلا منہ میں ڈال لیا۔

    ٹلّو نے دیدے پٹ پٹا کر دیکھا۔ اور رازی، جنابِ صدر تو اس حادثے سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ بیک وقت تین گلاب جامنیں منہ میں ٹھونس کر بق بق کرتے ہوئے بولے۔

    "کس کم بخت نے نانی کو کوسا ہے۔ وہ تو ایک ترکیب محض تھی جناب!”
    ٹلّو نے بھر ہاتھ مٹھائی اٹھا کر صفا پیٹ میں انڈیل لی اور چبانے کی بھی ضرورت نہ سمجھی۔

    راشد نے جب یہ گڑبڑ دیکھی تو باقاعدہ الجھ کر بولے۔ "صاحبِ صدر! ابھی ابھی آپ اخلاق پر درس دے رہے تھے، یہ اخلاق ہے کہ آپ بیک وقت دس دس رس گلے ایک منہ میں ڈال لیں؟”

    رازی کو جھوٹ سے سدا چڑ تھی، چڑ کر بولے۔” میں نے دس کھائے؟”

    "اور کیا ایک کھایا؟”

    "تمہیں کس نے منع کیا تھا؟”

    "یہ بات۔۔۔۔؟”

    "یہ بات۔۔۔۔!”

    پہلے اسکیل اٹھی۔ پھر دوات نے گلکاری کی پھر فریقین آپس میں الجھ پڑے۔ میز گری تو سارا سامان بھی گرا۔ کرسی گری تو صاحبِ کرسی بھی چاروں شانے چت۔ ایک وحشت، ایک ہنگامہ بپا ہوگیا۔ ساتھ ساتھ بپرا بھلا، مار دھاڑ، دھول دھپّا بھی جاری تھا۔ گالیوں اور کوسنوں کا وہ طوفان تھا کہ نانیوں کو چھوڑ کر نانیاں، سگڑھ نانیاں تک بھی مار دی گئیں۔

    چیخ پکار سن کر بازو کے کمرے سے ابّا دوڑتے آئے، ہائیں ہائیں کر کے سب کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا اور قیامت سے پہلے قیامت دیکھ کر بولے۔ ” یہ کیا سلسلہ تھا بھئی، کاہے کی گڑبڑ تھی یہ؟

    رازی سَر کھجا کر، چبا چبا کر بس اتنا ہی بول سکے۔ "جی… جی… وہ ہم ذرا امن کانفرنس کر رہے تھے کہ گھر میں امن کیسے قائم رہے!”

  • ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ”بہادر“ کی آرزو! (ایک سبق آموز کہانی)

    ٹنکو میاں سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچی تھی۔ ان کی شرارتیں بے ضرر تو تھیں، لیکن خود کو بہادر اور نڈر ثابت کرنے کی جو دُھن ٹنکو پر سوار رہتی تھی، اسے ایک قسم کی خامی شمار کیا جاسکتا تھا۔

    جب بھی موقع ملتا وہ اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے میں‌ دیر نہ لگاتے۔ کبھی سننے میں آتا کہ ٹنکو میاں گلی کے کونے پر موجود برسوں سے بند پڑے مکان کی دیوار پھاند کر وہاں سے اپنی ٹیم کی گیند واپس لانے میں‌ کام یاب ہوگئے، تو کبھی کسی کسی آوارہ کُتّے کو ڈنڈا ہاتھ میں‌ تھام کر گلی بدر کرکے چھوڑا۔ چڑیا گھر گئے تو ہاتھی پر سواری کی، اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں اور اس بھاری بھرکم اور لمبی سونڈ والے جانور سے ڈرنے والے بچّوں کے لیے مثال بن گئے۔ بہن بھائیوں سے شرط لگائی کہ وہ رات کی تاریکی میں چھت پر تنہا کچھ وقت گزار سکتے ہیں اور ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اگلے تین چار دن ٹنکو میاں گھر میں‌ فخر سے سینہ پُھلا کر گھومتے رہے۔ یہ چھوٹی عمر میں‌ ان کے بڑے کارنامے تھے۔

    اپنے ہم جماعتوں اور محلّے کے دوستوں‌ میں وہ ٹنکو بہادر مشہور ہوگئے تھے۔ یہ ایسی باتیں نہ تھیں کہ کوئی اعتراض کرتا یا ٹنکو میاں کو شرارتی کہا جاتا۔ لیکن ان کی ایک عادت بہت بُری تھی۔ سڑک عبور کرنے کے دوران بھی وہ اپنی دلیری اور پھرتی کا مظاہرہ کرنا ضروری سمجھتے تھے اور یہ خطرناک بات تھی، کیوں‌ کہ وہ ابھی چھوٹے ہی تھے۔ ان کی ناسمجھی اور ذرا سی کوتاہی انھیں کسی بڑے نقصان سے دوچار کرسکتی تھی۔

    صبح اسکول جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر دوسرے بچّے راستے میں پڑنے والی سڑک عبور کرنے کے لیے ٹریفک کے رکنے کا انتطار کرتے، اور کسی مقام پر اگر بالائی گزر گاہ یا ٹریفک سگنل کی سہولت نہ ہونے کے سبب انھیں سڑک عبور کرنا دشوار لگتا تو وہاں سے گزرنے والے کسی بڑے کی مدد لے لیتے تھے، لیکن ٹنکو میاں عجیب حرکت کرتے۔ وہ بالائی گزر گاہ کو استعمال کرنے کے بجائے سڑک پر ایک نظر ڈالتے، گاڑیوں کی تعداد اور رفتار کا اندازہ کرتے اور موقع پاتے ہی دوڑ پڑتے۔ کبھی سڑک خالی ہوتی یا کم از کم انھیں نکلنے کی جگہ ضرور مل جاتی تھی، لیکن اکثر یہ بھی ہوا کہ ان کی وجہ سے کسی ڈرائیور کو فوری بریک لگانا پڑا اور ٹائروں چرچرانے کی آوازوں نے سب کو متوجہ کر لیا۔ ڈرائیور غصّے میں ٹنکو میاں کو بُرا بھلا کہتے، آگے بڑھ گیا۔ راہ گیر ان کی یہ حرکت دیکھتے تو کوئی انھیں سمجھاتا، اور کچھ ڈانٹ بھی دیتے، مگر ٹنکو میاں نے اپنی عادت ترک نہیں‌ کی تھی۔

    کچھ عرصے سے وہ اپنے چند دوستوں کی طرح سائیکل چلانے کا شوق بھی پورا کر رہے تھے، لیکن جیب خرچ سے بچت کر کے۔ اب وہ چاہتے تھے کہ ایک عدد سائیکل کے مالک بن جائیں۔ یہ بات اپنے ابّا جان سے کہنا ان کے لیے اتنا آسان نہ تھا، مگر امّاں‌ سے سائیکل کے لیے ضد کرنا ان کا معمول بن گیا تھا۔ وہ ٹالتیں‌ تو ان کے سامنے رونے بیٹھ جاتے۔ امّاں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں، سائیکل کیسے دلاؤں؟

    ”امّاں میں پڑھائی پر پوری توجہ دوں گا۔ صرف شام کے وقت سائیکل لے کر باہر نکلوں گا اور سچّی میں کسی کے ساتھ ریس نہیں لگاﺅں گا۔“ آج پھر ٹنکو میاں‌ ضد کررہے تھے۔ ماں تو ماں‌ ہوتی ہے۔ وہ کئی دنوں سے سوچ رہی تھیں کہ کسی طرح اپنے بیٹے کی فرمائش پوری کردیں۔ اس روز انہوں نے ٹنکو سے وعدہ کیاکہ وہ ماہانہ بچت کرکے انہیں جلد ہی سائیکل دلا دیں گی۔ لیکن انھیں صبر سے کام لینا ہوگا۔ ٹنکو میاں یہ جان بہت خوش ہوئے، اور بڑی بے تابی سے اس دن کا انتظار شروع کردیا جب وہ ایک چمکتی ہوئی سائیکل کے مالک بن جاتے۔ ‌

    وہ ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی جب ٹنکو میاں اپنے پڑوسی اور ہم مکتب بچّوں کے ساتھ اسکول سے گھر کی طرف لوٹ رہے تھے۔ ‌راستے میں سڑک پڑتی تھی جسے عبور کرنے کے لیے وہاں ایک پُل بنایا گیا تھا۔ ‌حسبِ معمول بچّے اس پُل کی طرف بڑھ گئے تاکہ باحفاظت سڑک عبور کرسکیں، لیکن ٹنکو میاں نے آج ان کا ساتھ نہ دیا۔ ‌وہ ہر دوسرے تیسرے روز ایسا ہی کرتے تھے۔ ‌آج بھی انھوں نے ایک نظر میں سڑک کا جائزہ لیا اور دوڑ لگا دی۔ یکایک فضا میں عجیب سی آوازیں ابھریں جیسے کوئی گھسٹتا ہوا جارہا ہے اور پھر ایسا لگا جیسے کئی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہیں۔ لمحوں میں‌ منظر تبدیل ہو گیا اور سڑک سے گزرنے والے اور قریبی دکان دار اس طرف دوڑے جہاں ایک موٹر سائیکل سوار بڑی سی گاڑی سے ٹکرانے کے بعد زمین پر گرا ہوا تھا۔ یہ حادثہ ٹنکو میاں کے غلط طریقے سے سڑک عبور کرنے کی وجہ سے پیش آیا تھا جو پلٹ کر یہ سب دیکھ چکے تھے اور گھر کی طرف دوڑ لگانے میں ذرا دیر نہ کی تھی۔

    ٹنکو میاں گھر پہنچے اور ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ وہ خوف زدہ تو بہت تھے کہ آج ان کی اس حرکت کی وجہ سے ایک بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں‌ کریں‌ گے۔ ابھی وہ کچھ سوچ ہی رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی اور پھر انھیں‌ امّاں کی آواز سنائی دی۔

    ” کیا ہوا عادل میرے بچّے، یہ چوٹیں کیسے آئیں، کسی سے جھگڑا تو نہیں ہو گیا؟ “
    امّاں، میں ٹھیک ہوں، معمولی ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، یہ چوٹیں گرنے کی وجہ سے لگی ہیں۔ ٹنکو کو اپنے بھائی عادل کی آواز سنائی دی جو درد کے احساس کے ساتھ اپنی ایک پریشانی کا ذکر کچھ یوں کررہا تھا۔ ”امّاں آپ اسے چھوڑیں، میری ہڈی جوڑ سلامت ہیں، لیکن مجھے پانچ ہزار روپے لا کر دیں۔ دراصل ایک بچّہ غلط طریقے سے سڑک عبور کر رہا تھا، اسے بچاتے ہوئے میری موٹر سائیکل وہاں کھڑی ایک قیمتی کار سے ٹکرا گئی، اُس کا مالک بااثر آدمی ہے، مجھے اس کا نقصان پورا کرنا ہو گا۔“ بھائی کی بات سن کر ٹنکو میاں اپنی جگہ دبک گئے۔ وہی تو تھے جسے بچاتے ہوئے عادل حادثے کا شکار ہوا تھا۔ اسے خوش قسمتی کہیے یا اتفاق کہ عادل اُس بچّے کو نہیں دیکھ سکا، جس کی غلط حرکت نے اس کی جان خطرے میں‌ ڈال دی تھی۔

    ”بیٹا، میں کہاں سے لاؤں اتنے سارے پیسے، تمہیں تو معلوم ہے۔۔۔۔ ارے یاد آیا، تم رُکو میں ابھی آتی ہوں۔“ امّاں کمرے میں گھس گئیں۔

    ”یہ لو عادل، پہلے ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور پھر اُس آدمی کو یہ رقم دے کر اپنی جان چھڑاؤ، یہ پیسے میں نے تمہارے بھائی کو نئی سائیکل دلانے کے لیے جوڑے تھے۔ چند دنوں میں اُسے تمہارے ساتھ بازار بھیجنا ہی تھا تاکہ اس کی پسند سے سائیکل خرید کر لے آؤ۔ خیر، خدا کی یہی مرضی تھی۔“

    اُف خدایا! امّاں کی بات سن کر ٹنکو کا سَر چکرانے لگا تھا۔ اس نے اپنی ایک بُری حرکت کی وجہ سے زبردست نقصان اٹھایا تھا۔

    (مصنّف: عارف عزیز)

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)