Tag: سبق آموز کہانی

  • فقیہ کی دستار اور چور

    فقیہ کی دستار اور چور

    ایک دفعہ کسی فقیہ نے کپڑے کی بہت سے چندیاں دھوئیں اور پاک صاف کرکے انہیں اپنے سَر پر عمامے کے نیچے اس طرح‌ باندھ لیا کہ اس کا عمامہ بلند اور وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے جس کے سَر پر ایسی بھاری دستار سجی ہوئی ہے۔

    بلاشبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہوگیا، لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے پست، کم حیثیت اور بے قیمت ہی تھی۔ دراصل فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی اور پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔

    وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سَر پر باندھ کر اگلے روز صبح سویرے ایک مدرسے کی طرف چلا۔ وہ خیال کررہا تھا کہ وہاں اس کی یہ اونچی اور سجیلی دستار اس کی عزت و عظمت کا ایک سبب بنے گی۔ وہ سمجھ رہا تھاکہ عزّت اور تکریم ہی نہیں کچھ ہدیہ بھی اپنی جانب متوجہ ہونے والوں سے حاصل کر سکے گا۔

    راستے میں‌ ایک چور نے تاڑ لیا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آرہا ہے۔ جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا چور نے دستار جھپٹ لی اور بھاگا تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔

    فقیہ نے اُسے آواز دی کہ ارے بھائی! یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو بڑے شوق سے لے جا۔ میں نے تجھے عطا کی۔

    فقیہ کی یہ آواز سن کر اُچکے نے دوڑتے دوڑتے اس وزنی دستار کو کھولا اور ایک جگہ سے اس کی سلائی ادھیڑ دی۔ اس میں سے رنگ برنگی کپڑوں کی دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرنے لگیں۔ یہاں تک کہ اس کے ہاتھ میں بوسیدہ کپڑا رہ گیا جسے جھّلا کر زمین پر پھینکا اور رک کر کہنے لگا۔

    اے غریب اور فریبی انسان! تُو نے اس دغا بازی سے خواہ مخواہ میری محنت برباد کی۔ یہ کیسا فریب دیا تُو نے کہ ظاہر میں ایسی عمدہ دستار بنائی جس نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں‌ تیرے سر سے کھینچ لوں اور بازار میں بیچ کر مال بناؤں؟ تجھے ذرا حیا نہ آئی ایسا مکر کرتے ہوئے۔ وہ افسوس کرنے لگا کہ بیٹھے بٹھائے ایک گناہ کیا اور وہ بھی بے لذّت۔

    فقیہ نے اس کی بات سن لی تھی۔ اس نے چور کو جواب دیا، تُو سچ کہتا ہے کہ بے شک یہ دھوکا تھا، لیکن یہ سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کردیا کہ لے جانے سے پہلے اسے کھول کر دیکھ لے۔ اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا۔ اس لٹیرے نے فقیہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اور تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    سبق: اے عزیز! فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے اس کا بھی اس نے سب پر اظہار کر دیا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

  • ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا

    ایک تھی مینا، ایک تھا کوّا۔ مینا کا گھر موم کا تھا اور کوّے کا نون کا تھا۔

    مینا نے ایک دن کھچڑی پکائی۔ بازار بند ہوگیا تھا۔ نمک نہ ملا تو اس نے اپنے بچّے کو کوّے کے پاس بھیجا کہ اپنے گھر میں سے ذرا سا نون دے دے۔ مینا کے بچّے نے جب کوّے سے یہ بات جاکر کہی تو کوّا بہت خفا ہوا اور کہنے لگا جا، جا بڑا بچارا نمک مانگنے والا آیا، تیری ہنڈیا کی خاطر میں اپنے گھر کی دیوار توڑ دوں، تب تجھ کو نمک دوں؟ ایسے بیوقوف مینا کے محلّہ میں رہتے ہوں گے۔

    مینا کا بچہ اپنا سا منہ لے کر ماں کے پاس آگیا اور اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا کی کہ الہٰی گھمنڈ کرنے والوں کو نیچا دکھا، یہ دعا کرنی تھی کہ ایسا مینہ برسا کہ جل تھل بھر گئے۔ کوّے کا گھر تو نون کا تھا، سب بہہ گیا۔ مینا کا گھر موم کا تھا، اس کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچا۔

    جب کوّے کا گھر برباد ہوگیا تو وہ مینا کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا بی مینا رات کی رات مجھے اپنے گھر میں ٹھہرا لو۔ مینا نے جواب دیا تُو نے غرور کا کلمہ بولا تھا اور مجھ کو نمک نہ دیا تھا، خدا نے اس کا بدلہ دکھایا ہے، اب میں تجھے گھر میں کیوں ٹھہراؤں، تُو بڑا خود غرض اور خدا کا گنہگار بندہ ہے۔ کوّے نے بہت عاجزی کی تو مینا کو ترس آگیا اور اس نے خیال کیا ایسا نہ ہو خدا مجھ سے بھی ناراض ہوجائے کہ تُو نے مصیبت زدہ کی مدد کیوں نہ کی، اس واسطے اس نے دروازہ کھول دیا اور کوّے کو اندر بلا لیا۔

    کوّے نے کہا آپا مینا میں کہاں بیٹھوں۔ مینا بولی چولھے پر بیٹھ جا۔ کوّے نے کہا۔

    میں جَل مروں گا، میں جَل مروں گا۔

    مینا نے کہا اچّھا جا میری چکّی پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں پس مروں گا، میں پس مروں گا۔

    مینا نے کہا اچھا میرے چرخے پر بیٹھ جا۔

    کوّا بولا، میں کٹ مروں گا، میں کٹ مروں گا۔

    تو مینا نے کہا اچھا کوٹھری میں جا بیٹھ، وہاں میرے چنے بھرے ہوئے ہیں، ان کو نہ کھا لیجو۔ کوّے نے کہا، توبہ ہے آپا مینا، تم بھی کیسی بدگمان ہو۔ تم مجھ پر احسان کرو، گھر میں جگہ دو اور میں تمہارے ہاں چوری کروں گا۔ توبہ توبہ، اس کا تو خیال بھی نہ کرنا۔

    مینا نے کوٹھری کھول دی اور کوّا اندر جاکر بیٹھ گیا۔ آدھی رات کو مینا کی آنکھ کھلی تو کوٹھری میں کچھ کھانے کی آواز آئی۔ مینا نے پوچھا بھائی کوّے کیا کھا رہے ہو۔ بولا آپا مینا میری سسرال سے بن آئے تھے۔ وہ سردی میں چبا رہا ہوں۔

    مینا چپکی ہوئی۔ پچھلی رات کو مینا کی آنکھ پھر کھلی تو کھانے کی آواز آئی اور مینا نے پھر پوچھا تو کوّے نے وہی جواب دیا۔

    کوّا سب جانوروں سے پہلے جاگا کرتا ہے۔ مینا ابھی بچھونوں سے اٹھی بھی نہ تھی جو کوّا کوٹھری سے نکل کر بھاگ گیا۔ مینا نے اٹھ کر دیکھا تو ساری کوٹھری خالی تھی۔ کوّے نے سب چنے کھالئے تھے۔

    مینا نے کہا، بد ذات اور شریر کے ساتھ احسان کرنے کا یہ بدلہ ملتا ہے۔

    (از قلم لیلیٰ خواجہ بانو)

  • سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    سونے کی چڑیا (مشہور حکایت)

    ایران کے ایک قدیم شہر کا نام شاید آپ نے بھی سنا ہو، جو خراساں کے صوبے کا صدر مقام رہا ہے۔ یہ شہر ہے نیشا پور۔ اس شہر کے ایک سوداگر کی یہ کہانی سبق آموز ہی نہیں، دل چسپ بھی ہے۔

    نیشا پور میں ایک سوداگر رہتا تھا جو خود کو نہایت عقل مند سمجھتا تھا۔ وہ شہروں شہروں گھوم پھر کر اپنا مالِ تجارت فروخت کرتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے لے کر گھر لوٹ جاتا۔ کبھی وہ قریبی شہروں اور مضافات کا چکر لگاتا اور کبھی کئی دنوں کا سفر کرکے دور کے علاقوں‌ تک بھی چلا جاتا۔ قسمت سے وہ اچھا کمانے لگ گیا تھا۔ اسے تجارت میں‌ زبردست نفع ہوا جس نے اس کا دماغ خراب کردیا۔ وہ خود کو نہایت دانا اور عاقل سمجھنے لگا تھا اور دوسرے لوگوں کو کم عقل۔ اسی زعم میں اس نے خود کو عاقل مشہور کردیا۔ لوگ اسی نام سے اسے جاننے اور پکارنے لگے تھے۔ اس ’’عاقل‘‘ کا اصل نام نصیر الدّین تھا۔

    وہ جس شہر میں نادر و نایاب اشیاء کے بارے میں سنتا، اور مشہور ہنرمندوں یا دست کاروں کے مال کی بات اس کے کانوں میں پڑتی، کوشش کرتا کسی طرح اس تک پہنچ کر مال کا سودا کرلے اور اسے منافع کے ساتھ فروخت کرے۔ واقعی، وہ ایسی اشیاء لے کر آتا کہ دیکھنے والے فوراً متوجہ ہوتے اور منہ مانگے دام دینے کو بھی تیّار ہوجاتے تھے۔

    ایک دن وہ بازار میں بیٹھا اپنے دوست سے باتیں کررہا تھا۔ ایک چڑی مار اس کے قریب سے گزرا جو گا رہا تھا۔

    سونے کی چڑیا
    جادو کی پڑیا
    بجتا ہے گھنٹہ
    دیتی ہے انڈا

    اس نے جو یہ سنا تو اپنے دوست سے رخصت لی اور چڑی مار کے پیچھے چل دیا۔ چڑی مار کے پاس سب پنجرے خالی تھے۔ بس ایک پنجرے میں خاکی رنگ کی چڑیا اپنے پر پھڑپھڑا رہی تھی۔ سوداگر چلتے چلتے سوچنے لگا کہ سونے کی چڑیا مجھے خرید لینی چاہیے۔ اگر یہ واقعی سونے کا انڈا دیتی ہے تو پھر مجھے اتنی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔‘‘ اسے اچانک خیال آیا بچپن میں اس کی دادی اس کی ماں کو میکے جانے پر کہا کرتی تھیں۔

    ’’تم کیا سونے کی چڑیا ہو جو میکے چلی گئیں، تو میرا بیٹا غریب ہوجائے گا۔‘‘

    تو گویا سونے کی چڑیا ہوتی ہے۔ بس اس کی یہ خواہش تھی کاش اس کے پاس وہ چڑیا واقعی ہو۔ ایک مقام پر پہنچ کر سوداگر نے چڑی مار کو روکتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی کیا یہ واقعی سونے کی چڑیا ہے، یہ تو عام سی چڑیا لگ رہی ہے۔‘‘

    چڑی مار نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا اور جان گیا کہ کوئی بے وقوف شخص ہے جو امیر ہونا چاہتا ہے۔ اس نے نہایت پُراعتماد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی چڑیا نہیں جادو کی پڑیا ہے۔‘‘

    چودھویں رات کو جب دور کہیں گجر بجتا ہے، یہ سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اس چڑیا نے مجھے امیر کردیا ہے۔ میرے گھر میں اب تک دس انڈے دے چکی ہے۔ میرے ملک چلو وہاں میرے بڑے شاہانہ ٹھاٹ باٹ ہیں۔ میں اسے نہیں بیچتا، مگر یہ اپنے مالک کو صرف دس انڈے دیتی ہے اس کے بعد اگر کوئی اسے خرید لے۔ پھر اس کے پاس مزید دس انڈے اور اسی طرح دوسرے مالک کو پھر دس انڈے دے گی۔‘‘

    سوداگر چڑی مار کی باتوں میں آگیا اور چڑیا خرید لی۔ اس کے بدلے میں‌ اس نے اپنا سب سامانِ تجارت اور گھر بار کا سارا سامان تک چڑی مار کو دے دیا۔ چڑی مار اگلے روز بازار میں پھر کسی کو نظر نہ آیا۔

    سوداگر سارا مال و دولت، گھر بار ایک چڑیا کے عوض چڑی مار کو فروخت کر کے، ایک جھونپڑی میں چڑیا کا پنجرہ رکھ کر رہنے لگا۔ وہ امیر ترین شخص بننے کا خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے کچھ پُرخلوص احباب نے سمجھایا کہ ’’اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے اور دھوکہ کھایا ہے۔‘‘ مگر سوداگر کا کہنا تھا،’’ وہ بہت سمجھ دار ہے، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا، تم دیکھنا مجھے کتنا فائدہ ہوگا۔

    سوداگر کو بس چودھویں رات کا انتظار تھا۔ آخر وہ رات آگئی۔ سوداگر بہت خوش تھا کہ اس کی چڑیا آج سونے کا انڈا دے گی۔ پوری رات جاگتا رہا۔ چڑیا پنجرے میں کبھی سوتی اور کبھی پر پھڑپھڑاتی رہی۔ آخر صبح ہونے لگی گجر بجا اور سوداگر سو گیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی اور وہ پنجرے کے پاس گیا تو پنجرے میں انڈا نہیں تھا۔ چڑیا اسے بہت عام سا پرندہ لگی۔ وہ اسی طرح پنجرے میں ادھر سے ادھر اڑتی اور پھدکتی پھر رہی تھی۔ آج جانے کیوں سوداگر کو اس میں‌ کچھ بھی خاص نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بہت پچھتایا اور جان گیا کہ چڑی مار نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔

    سوداگر نے سبق سیکھا کہ غرور و تکبر اور دوسروں سے مشورہ نہ کرنے اور کسی کو خاطر میں‌ نہ لانے سے نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ کسی بڑے کام کو کرنے سے پہلے خوب سوچ لینا چاہیے اور اپنے احباب سے مشورہ کرنا چاہیے۔

    (قصّوں اور قدیم حکایات سے انتخاب)

  • بہلول کی باتیں

    بہلول کی باتیں

    کہتے ہیں ایک بار شیخ جنید بغدادی سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔ حضرتِ شیخ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔

    شیخ نے مریدوں سے پوچھا: ” تم لوگوں کو بہلول کا حال معلوم ہے۔؟”

    لوگوں نے کہا: "حضرت! وہ تو ایک دیوانہ ہے۔ آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: ” ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔” مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لیے سعادت سمجھی۔ تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کو ڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ شیخ، بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔ شیخ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا:

    "تم کون ہو؟”

    "میں ہوں جنید بغدادی۔”

    "تو اے ابوالقاسم! تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟”

    "جی ہاں، کوشش تو کرتا ہوں۔”

    "اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟”

    "کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتا ہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔”

    پھر دوبارہ کہا: "جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمدللہ کہتا ہوں۔ کھانا شروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔”

    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔ پھر ان سے کہا: "تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اور حال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے اپنا راستہ لیا۔ شیخ کے مریدوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔”

    "ہاں! دیوانہ تو ہے، مگر ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔ اس سے سچی بات سننا چاہیے۔ آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔ مجھے اس سے کام ہے۔”

    بہلول ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ شیخ بغدادی اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:

    "کون ہو تم؟”

    "میں ہوں بغدادی شیخ! جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔”

    بہلول نے کہا: "خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگو کا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟”

    شیخ نے جواب دیا: "جی ہاں جانتا تو ہوں۔”

    "تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟”

    "میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلقِ خدا کو اللہ اور رسول ﷺ کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہری علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔” اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سے متعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔

    بہلول نے کہا: ” کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔ تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔” پھر شیخ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔ مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انھوں نے کہا: "یا حضرت! یہ شخص تو دیوانہ ہے۔ آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟”

    "بھئی! مجھے تو اس سے کام ہے۔ تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔” اس کے بعد شیخ نے پھر بہلول کا پیچھا کیا۔ بہلول نے مڑ کر دیکھا اور کہا:

    "تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔ سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟”

    شیخ نے کہا: "جی ہاں! معلوم ہے۔”

    "اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟”

    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتا ہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔” یہ کہہ کر شیخ نے سونے کے وہ آداب بیان کیے جو انھیں بزرگانِ دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔

    بہلول نے کہا: "معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔”

    یہ کہہ کر بہلول نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا:

    "اے حضرت! میں نہیں جانتا۔ اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔”

    کچھ دیر بعد بہلول نے کہا: "میاں! یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہیے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش (ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کیے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کے بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔”

    شیخ جنید نے بےساختہ کہا: "جزاک اللہ خیرأً۔” (اللہ تمھارا بھلا کرے)

    پھر بہلول نے بتایا: "گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے، اللہ کی رضامندی کے لیے ہو۔ اگر کوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی، تماہرے لیے وبال بن جائے گی، اس لیے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے۔”

    پھر سونے کے متعلق بتایا: ” اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمھارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمھارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبّت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔”

    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لیے دعا کی۔ شیخ جنید کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے مں ذرا بھی نہ شرمائے۔

    حضرت جنید اور بہلول کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔ اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گم راہی میں پھنسا رہ جاتا ہے۔

    (معروف مدیر اور بچّوں کے ادیب مسعود احمد برکاتی کے قلم سے)

  • انوکھا بیج

    انوکھا بیج

    ایک تاجر اپنی مستقل مزاجی، لگن اور محنت سے کام یابی کی منازل طے کرتا چلا گیا اور ایک بہت بڑے ادارے کا مالک بن گیا۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اُس نے ادارے کے ڈائریکٹروں میں سے کسی کو اپنا کام سونپنے کی دل چسپ ترکیب نکالی۔

    اس نے ادارے کے تمام ڈائریکٹروں کا اجلاس طلب کیا اور کہا “میری صحت مجھے زیادہ دیر تک اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی اجازت نہیں دیتی، اس لیے میں آپ میں سے ایک کو اپنی ذمہ داریاں سونپنا چاہتا ہوں۔ میں آپ سب کو ایک ایک بیج دوں گا۔ اسے بونے کے ایک سال بعد آپ اس کی صورتِ حال سے مطلع کریں گے جس کی بنیاد پر میں اپنی ذمہ داریاں سونپنے کا فیصلہ کروں گا۔”

    کچھ عرصہ بعد سب ڈائریکٹر اپنے بیج سے اُگنے والے پودوں کی تعریفیں کرنے لگے سوائے زید کے جو پریشان تھا۔ وہ خاموش رہا اور اپنی خفت کو مٹانے کے لیے مزید محنت سے دفتر کا کام کرتا رہا۔ دراصل زید نے نیا گملا خرید کر اس میں نئی مٹی ڈال کر بہترین کھاد ڈالی تھی اور روزانہ پانی بھی دیتا رہا تھا مگر اس کے بیج میں سے پودا نہ نکلا۔

    ایک سال بعد ادارے کے سربراہ نے پھر سب ڈائریکٹروں کا اجلاس بلایا اور کہا کہ سب وہ گملے لے کر آئیں جن میں انہوں نے بیج بویا تھا۔ سب خوب صورت پودوں والے گملوں کے ساتھ اجلاس میں پہنچے مگر زید جس کا بیج اُگا نہیں تھا، خالی ہاتھ ہی اجلاس میں شامل ہوا اور ادارے کے سربراہ سے دور والی کرسی پر بیٹھ گیا۔

    اجلاس شروع ہوا تو سب نے اپنے بیج اور پودے کے ساتھ کی گئی محنت کا حال سنایا۔ اس اُمید پر کہ اسے ہی سربراہ بنایا جائے۔

    سب کی تقاریر سننے کے بعد سربراہ نے کہا، “ایک آدمی کم لگ رہا ہے۔” اس پر زید جو ایک اور ڈائریکٹر کے پیچھے چھپا بیٹھا تھا، کھڑا ہو کر سر جھکائے بولا، “جناب، مجھ سے جو کچھ ہو سکا میں نے کیا مگر میرے والا بیج نہیں اگا۔” اس پر کچھ ساتھی ہنسے اور کچھ نے زید کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کیا۔

    چائے کے بعد ادارے کے سربراہ نے اعلان کیا کہ اس کے بعد زید ادارے کا سربراہ ہو گا۔ اس پر کئی حاضرینِ مجلس کی حیرانی سے چیخ نکل گئی۔ ادارے کے سربراہ نے کہا “اس ادارے کو میں نے بہت محنت اور دیانت داری سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور میرے بعد بھی ایسا ہی آدمی ہونا چاہیے اور وہ زید ہے جو محنتی ہونے کے ساتھ دیانت دار بھی ہے۔

    میں نے آپ سب کو اُبلے ہوئے بیج دیے تھے جو اُگ نہیں سکتے۔ سوائے زید کے آپ سب نے بیج تبدیل کر دیے۔”

    (ماخذ: انوکھا بیج از افتخار اجمل بھوپال)

  • پُراسرار دستانے

    پُراسرار دستانے

    مصنّف: مختار احمد

    عظیم کے گھر میں بڑی گہماگہمی تھی۔ خالہ اور ممانی اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہوئی تھیں۔ بچوں کے اسکولوں میں سردیوں کی چھٹیاں ہوگئی تھیں اس لیے انہوں نے کچھ دنوں کے لیے گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا تھا۔

    عظیم کے والد بغرضِ ملازمت اس چھوٹے سے شہر میں مقیم تھے۔ یہ گاوٴں، دیہات اور ایک بڑے دریا سے ملحق بہت ہی خوب صورت اور پرسکون شہر تھا۔

    عظیم کا تو خوشی کے مارے برا حال تھا۔ اس کے اسکول اور محلے کے تو کئی دوست تھے مگرخالہ زاد اور ممانی زاد بہن بھائیوں کی تو بات ہی دوسری ہوتی ہے۔ ان کے آنے کی خبر سے وہ بہت خوش ہوا تھا۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ پرسوں اس کی چودھویں سال گرہ بھی ہے، سب لوگ ہوں گے اور خوب مزہ آئے گا۔

    چوں کہ ٹرین لیٹ ہو گئی تھی اس لیے وہ سب رات کو دیر سے گھر پہنچے تھے۔ کھانا کھاتے کھاتے اور باتیں کرتے کرتے رات کے دو بج گئے تھے۔ صبح کسی نے اسکول تو جانا نہیں تھا، اس لیے سونے کی کسی کو فکر بھی نہیں تھی۔ عظیم کی امی کو صبح جلدی اٹھنا تھا کیوں کہ اس کے ابّو کو آفس جانا تھا اور انھیں ناشتہ تیار کر کے دینا تھا، اس لیے وہ سونے کے لیے چلی گئیں۔ وہ گئیں تو یہ محفل بھی برخاست ہوگئی۔ آنے والے مہمان کافی تھکے ہوئے تھے، گھوڑے بیچ کر سو گئے۔

    عظیم کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ بہت خوش تھا اور پروگرام بنا رہا تھا کہ خالہ اور ممانی کے بچوں کے ساتھ کس طرح وقت گزارے گا۔ نیند تو خیر اس کو آگئی تھی مگر وہ صبح سویرے ہی جاگ گیا تھا۔ تھکن کی وجہ سے مہمان مزے سے سو رہے تھے۔ عظیم نے ہاتھ منہ دھویا، امی کے ساتھ نماز پڑھی۔ امی تو کچن میں مصروف ہو گئیں اس نے سوچا کہ باہر نکل کر تھوڑی سی ہوا خوری کرلے۔ ابھی پو نہیں پھٹی تھی اور کافی اندھیرا تھا۔

    وہ گھر سے قریب ایک پارک میں پہنچ گیا۔ اونچے اونچے درختوں پر بسیرا کرنے والے پرندوں کا شورسنائی دینے لگا تھا۔ ہوا میں کافی خنکی تھی، گرم سویٹر پہننے کے باوجود اسے سردی محسوس ہو رہی تھی۔ گھر سے چلتے ہوئے اس کی امی نے اسے مفلر بھی تھما دیا تھا جسے اس نے گردن کے گرد لپیٹ لیا۔

    پارک سنسان پڑا تھا لیکن جب اس نے غور سے دیکھا تو پارک میں نصب آخر والی بینچ پر اسے کوئی شخص بیٹھا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں پہلا خیال یہ ہی آیا کہ یہ کوئی بچے پکڑنے والا آدمی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہاں سے بھاگ جائے مگر ایک ایسا واقعہ ہو گیا کہ اس کے پاوٴں من من بھر کے ہوگئے، اس سے اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں گیا۔ وہ مفلر جو اس نے گردن کے گرد لپیٹ رکھا تھا اچانک اس کے گلے سے نکلا اور اڑتا ہوا اس شخص کی جانب چل دیا جو دور بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔

    ’’امی۔۔۔۔!‘‘ عظیم کے منہ سے بے اختیار خوف بھری ایک چیخ نکلی اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کی جان نکل گئی ہے۔ وہ خود کو لعنت ملامت کرنے لگا کہ اتنے اندھیرے میں گھر سے نکل کر یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ اس واقعے نے اسے اس قدر خوف زدہ کر دیا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے جسم سے جان نکل گئی ہو۔

    اس کے بعد رونما ہونے والے دوسرے واقعہ نے اس کے رگ و پے میں خوف کی سنسناہٹ دوڑا دی۔ وہ شخص اٹھ کر اسی کی طرف آنے لگا تھا۔ عظیم کا ڈر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ اس سے چیخا بھی نہیں جا رہا تھا، ایسا معلوم دیتا تھا جیسے حلق میں کوئی چیز پھنس گئی ہے۔

    ’’ماں کے لاڈلے۔ یہ لو پکڑو اپنا مفلر۔‘‘ قریب آنے والے اس شخص نے کہا۔ اب عظیم نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسی کی عمر کا ایک لڑکا تھا۔

    ’’بھائی تم کون ہو؟‘‘عظیم نے تھوک نگل کر پوچھا۔

    ’’ڈر لگ رہا ہے تو بھائی بھائی کر رہے ہو۔‘‘ وہ لڑکا بڑی خوش دلی سے ہنسا، مگر پھر فوراً ہی اداس ہوگیا: ’’میں بہت بدنصیب ہوں۔ میرے لیے اب عام لڑکوں کی طرح زندگی گزارنا ایک خواب ہی ہے۔‘‘

    اس کے دکھ بھرے لہجے سے عظیم متاثر ہو گیا ۔ کچھ پوچھنے کے لیے اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ اتنے میں ایک ننھی سی چڑیا ان کے قریب سے اڑتی ہوئی گزری، اس پراسرار لڑکے نے اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنی مٹھی کھولی، چڑیا آگے جاتے جاتے بجلی کی تیزی سے پلٹی اور اس لڑکے کی مٹھی میں آگئی۔

    یہ دیکھ کر عظیم کے جسم پر کپکی طاری ہو گئی، اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں اور پیٹ میں جیسے کوئی چیز زور زور سے گھومنے لگی۔ اس سے کھڑا رہنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ گھاس پر بیٹھ گیا اور خوف بھری نظروں سے اس لڑکے کو دیکھنے لگا۔ اس لڑکے نے ہاتھ میں پکڑی چڑیا کو فضا میں اچھال کر اسے اڑا دیا اور خود بھی عظیم کے پاس بیٹھ گیا۔

    عظیم اس سے دور ہٹتے ہوئے بولا:’’میں امی کے پاس جاوٴں گا۔‘‘

    لڑکا ہنس پڑا۔ ’’ہو تو تم میرے ہی جتنے مگر دودھ پیتے بچے بن رہے ہو۔ مجھ سے ڈرو مت، میں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاوٴں گا۔ دیکھو میں نے تمہارا مفلر بھی واپس کر دیا تھا، اگر میں چاہتا تو اس کو لے کر بھاگ بھی سکتا تھا۔‘‘

    ’’لیکن تم بہت عجیب سے ہو۔ ‘‘ عظیم نے تھوک نگل کر کہا۔ ’’تم کوئی جادوگر ہو، تم نے لڑکے کا روپ دھار رکھا ہے۔‘‘

    ’’اگر میں جادوگر ہوتا تو کسی شہزادی کو اپنے محل میں قید کر کے اس کی خوشامد کررہا ہوتا کہ وہ مجھ سے شادی کرلے۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ لڑکا ہنسا پھر اداسی سے بولا۔ ’’میرے سب دوست مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ سب لوگ مجھ سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ میں اکیلا ہی گھومتا پھرتا ہوں، سب سمجھتے ہیں کہ میں کوئی جادوگر ہوں، حالاں کہ میں ہوں نہیں۔‘‘

    ’’پھر تم یہ سب کچھ کیسے کر لیتے ہو، جادوگر ہی ایسا کر سکتے ہیں؟‘‘۔ عظیم نے کہا۔

    ’’میرا نام انعام ہے۔ ‘‘ اس لڑکے نے کہا۔ ’’کیا تم میری کہانی سننا پسند کرو گے۔ میرے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے گا۔‘‘

    انعام کی بات سن کر عظیم کا دل بھر آیا۔ ’’ہاں ہاں، میں ضرور تمہاری کہانی سنوں گا، اچھا ہے تمہارے دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔ مجھے تو تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو بس تمہاری حرکتیں ٹھیک نہیں لگتیں۔‘‘

    اس کی بات سن کر انعام خوش ہوگیا اور اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’یہ چند دن پہلے کی بات ہے۔ میں اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ بد قسمتی سے اسکول میں میری دوستی چند آوارہ لڑکوں سے ہو گئی تھی۔ ان لڑکوں نے مجھے اسکول سے بھاگنا سکھا دیا تھا۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ میں بجائے اسکول جانے کے، دریا کی جانب چل دیا۔ میں نے سوچا تھا کہ دریا پر جا کر سیر کروں گا اور چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑوں گا۔ میں دریا پر پہنچا تو مجھے وہاں ایک بوڑھا شخص ملا۔ اس کی شکل عجیب سی اور خوف ناک تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا۔

    ’’مچھلیاں پکڑنے آئے ہو لڑکے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ پھر اس نے اپنا ہاتھ دریا کی طرف کیا اور پل بھر میں اس کی ہتھیلی پر تین چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں آکر تڑپنے لگیں۔ اس نے قریب پڑی پلاسٹک کی ایک تھیلی اٹھا کر اس میں پانی بھرا اور مچھلیوں کو اس میں ڈال کر میرے حوالے کر دیا۔ یہ دیکھ کر میں تمہاری طرح خوف زدہ نہیں ہوا تھا۔ میں ایک بہادر لڑکا ہوں، ہاں یہ ضرور ہے کہ تھوڑا بے وقوف ہوں۔ میں نے بوڑھے سے پوچھا کہ وہ یہ کیسے کرتا ہے۔ اس نے جواب دیا۔ ’’یہ تو میں تمہیں نہیں بتا سکتا ، لیکن اگر تم چاہو تو میں یہ طاقت تمہیں دے سکتا ہوں۔ مجھے تم ایک اچھے لڑکے لگتے ہو۔‘‘

    اس کی چاپلوسی کی باتیں سن کر میں خوش ہوگیا اور حامی بھر لی۔ ایک بات میں نے نوٹ کی تھی وہ شخص دستانے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے مجھے دستانوں کی طرف متوجہ دیکھا تو بولا۔ ’’ان دستانوں کو تم حیرت سے دیکھ رہے ہو۔ جب یہ طاقت تمہیں مل جائے گی تو تمہیں بھی ان کی ضرورت پڑے گی۔‘‘ میں نے اس کی بات پر غور نہیں کیا، اسی سوچ میں مگن رہا کہ جب میں بھی ایسا کرنے لگوں گا تو اپنے دوستوں کو تماشا دکھا کر مرعوب کیا کروں گا۔ وہ کتنا حیران ہوں گے جب میں دور پڑی چیزوں کوایک جگہ بیٹھے بیٹھے اپنے پاس منگوا لیا کروں گا۔ اس نے مجھے قریب بلایا اور بولا۔ ’’آنکھیں بند کرو اور جو الفاظ میں کہوں تم انھیں دہراتے جاوٴ۔‘‘

    میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں اس طاقت کو اپنی مرضی سے لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘میں نے وہ الفاظ بھی دہرا دیے۔ اس نے کہا ۔ ’’اب آنکھیں کھو ل دو۔ تمہیں یہ عجیب و غریب طاقت مل گئی ہے۔‘‘

    میں نے آنکھیں کھول کر اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ میرے دونوں ہاتھ کلائیوں تک بالکل سیاہ رنگ کے ہو گئے تھے۔ اس شخص نے اپنی مکروہ آواز میں کہا ۔ ’’تم چاہو تو اس طاقت کو آزما سکتے ہو۔ ‘‘ میں نے دور زمین پر پڑی ایک شیشے کی بوتل کی طرف دیکھ کر اسے اشارہ کیا، وہ زمین سے بلند ہوئی اور میرے ہاتھ میں آگئی۔

    اس طاقت کو حاصل کرکے مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی تھی کیوں کہ اس کی وجہ سے میرے ہاتھوں کا رنگ تبدیل ہوگیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی مجھے وحشت ہونے لگی تھی کہ اب میں اپنی امی ابّا اور دوستوں کا کیسے سامنے کروں گا، ان سے اپنے کالے ہاتھوں کے بارے میں کیا کہوں گا۔

    اس بوڑھے نے اپنے ہاتھوں سے دستانے اتار کر میرے حوالے کیے اور خود ایک جانب روانہ ہوگیا۔ اس بات کو تین روز گزر گئے ہیں۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ میں ان دستانوں کو پہنے پہنے تنگ آگیا ہوں۔ ان کی وجہ سے میں کوئی کام ٹھیک طریقے سے بھی نہیں کرسکتا۔ وہ شیطان بوڑھا بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا ہے۔ اپنے دوستوں کو میں نے تماشے تو بہت دکھائے مگر مرعوب ہونے کے بجائے وہ مجھ سے خوف زدہ ہوگئے ہیں۔ وہ مجھ سے دور دور رہنے لگے ہیں اور بات چیت کرنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ اور تو اور کل میرے ابّا بھی میری امی سے چپکے چپکے کہہ رہے تھے کہ اس کو کسی سینٹر چھوڑ کر آجائیں گے، یہ ہمارا والا انعام نہیں ہے کوئی اور ہے۔ پرسوں کی بات ہے انہوں نے باہر جانا تھا، مجھ سے بولے کہ میرے جوتے اٹھا دو۔ میں نے بیٹھے بیٹھے ان کے جوتوں کی طرف اشارہ کیا، وہ میرے پاس آگئے۔ ابّا گھبرا کر کھڑے ہوگئے اور بولے۔ ’’ان جوتوں کو اب میں کبھی نہیں پہنوں گا، ان میں جادو لگ گیا ہے۔‘‘

    اس کی یہ کہانی سن کر عظیم کو بہت افسوس ہوا۔ اس نے کہا۔ ’’اس دنیا میں عجیب عجیب لوگ موجود ہیں جیسے وہ بوڑھا۔ اس نے بچہ سمجھ کر اپنی مصیبت تمہارے گلے ڈال دی ہے۔ اسی لیے تو ہمارے ماں باپ ہمیں اس بات کی نصیحت کرتے ہیں کہ اجنبیوں سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ان سے کسی قسم کی کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہیے، یہ لوگ ہمیں مصیبتوں میں پھنسا دیتے ہیں اور ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘

    انعام نے افسردگی سے کہا۔ ’’میری امی بھی مجھے بہت سمجھاتی تھیں کہ کسی بھی اجنبی شخص سے کوئی بات چیت نہ کروں۔ وہ کوئی کھانے کی چیز دے تو وہ بھی نہیں کھاوٴں، ان چیزوں میں بے ہوشی کی دوا ہوتی ہے اور اسے کھلا کر وہ لوگ بچوں کو اغوا کرلیتے ہیں اور اتنی سی چیز کھلا کر ان کے ماں باپ سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔‘‘

    اب چاروں طرف ہلکی ہلکی روشنی ہونے لگی تھی۔ عظیم نے ایک مرتبہ پھر انعام کا گہری نظروں سے جائزہ لیا اور بولا۔ ’’انعام بھائی کیا تم مجھے دریا پر اس جگہ تک لے جا سکتے ہو جہاں وہ خبیث بوڑھا تمہیں ملا تھا؟‘‘

    ’’وہ جگہ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، آؤ۔‘‘ انعام نے کہا اور دونوں چل پڑے۔ عظیم ایک ذہین لڑکا تھا۔ اس کو انعام پر بہت ترس آرہا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ انعام کو اس مصیبت سے نجات مل جائے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھ کالے ہوگئے تھے۔ وہ دعا کررہا تھا کہ وہ بوڑھا ان کو دوبارہ مل جائے۔ اور پھر اس کی دعا قبول ہو ہی گئی۔ وہ بوڑھا انھیں نظر آگیا۔ وہ دریا کے کنارے بیٹھا اس کے پانی سے گاجروں کو دھو دھو کر کھا رہا تھا۔ عظیم نے انعام کو رکنے کا اشارہ کیا اور اس کے کان میں چپکے چپکے کچھ کہنے لگا۔ اس کی بات سن کرانعام کا چہرہ جوش و مسرت سے تمتمانے لگا۔

    اس بوڑھے نے انعام کو دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ نظر آنے لگی، وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’میاں خوب مزے آرہے ہیں۔ اب تو تمہیں کوئی کام بھی نہیں کرنا پڑتا ہوگا۔ بیٹھے بیٹھے ہی سب چیزیں تمہیں مل جاتی ہوں گی۔‘‘

    انعام نے کہا۔ ’’اپنی یہ طاقت مجھ سے واپس لے لو۔ اس کی وجہ سے میرے دونوں ہاتھ بالکل سیاہ ہوگئے ہیں۔ لوگ مجھ سے ڈرنے لگے ہیں۔ میری امی تو مجھ سے اتنی خوف زدہ ہو گئی ہیں کہ انہوں نے مجھے مارنا پیٹنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وہ مجھے یہ دھمکی بھی نہیں دیتیں کہ آ لینے دے تیرے باپ کو تیری شکایت کروں گی۔ میں کسی کا سامنا بھی نہیں کرسکتا۔ رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو دونوں ہاتھ گرم ہوجاتے ہیں۔ میں ٹھیک سے سو بھی نہیں سکتا۔‘‘

    ’’ان ہی تکلیفوں کی وجہ سے تو میں نے یہ طاقت تمہیں دی تھی۔ میں خود ان باتوں سے تنگ آگیا تھا۔‘‘ اس آدمی نے لاپروائی سے کہا۔ ’’میں اب اس کو واپس نہیں لے سکتا۔ تم یہاں سے چلے جاوٴ۔ اگر زیادہ تنگ کرو گے تو میں تمہیں دریا میں دھکا دے دوں گا اور تمہارے ساتھ اس کو بھی جسے تم حمایتی بنا کرلائے ہو۔‘‘

    ’’اچھا یہ بات ہے۔ ‘‘ انعام نے دستانے اتارتے ہوئے کہا۔ ’’تو پھر میری بات بھی کان کھول کر سن لو‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور بلند آواز میں بولا۔ ’’مجھے تمھاری یہ طاقت نہیں چاہیے۔‘‘

    اس کی بات کو سن کر بوڑھے نے ایک چیخ ماری اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ عظیم اور انعام نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ انعام کے ہاتھوں کا کالا رنگ دھویں میں تبدیل ہو کر بوڑھے کی طرف پرواز کرنے لگا اور اس کے قریب پہنچ کر اس کے جسم میں داخل ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے دونوں ہاتھ کالے نظر آنے لگے۔

    ’’لو۔ یہ پکڑو اپنے دستانے۔‘‘ انعام نے دستانوں کو پوری طاقت سے بوڑھے کی طرف پھینک دیا۔ اتنی دیر میں دریا کی ایک تیز لہر آئی اور اس بوڑھے کو اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔ انعام کے دونوں ہاتھ پھر پہلے کی طرح سرخ و سفید ہو گئے تھے۔ اس نے عظیم کو گلے سے لگا لیا۔

    ’’میرے دوست۔ اگر تم وہ الفاظ مجھے نہ بتاتے جو میں نے اس بوڑھے شیطان سے کہے تھے تو مجھے کبھی بھی اس مصیبت سے نجات نہ ملتی۔‘‘

    اس کے بعد وہ دونوں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ عظیم گھر پہنچا تو سارے مہمان ناشتے میں مصروف تھے۔ اسے دیکھ کر امی نے کہا۔ ’’عظیم بیٹے۔ تم کہاں چلے گئے تھے۔ ہم ناشتے پر تمہارا انتظار کر رہے تھے۔‘‘

    عظیم نے کوئی جواب نہیں دیا، خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ناشتے کے بعد خواتین تو باتوں میں مصروف ہوگئیں۔ عظیم بچوں کو لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ وہاں اس نے انہیں یہ عجیب و غریب کہانی سنائی۔ تمام بچے یہ کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

    عظیم نے کہا۔ ’’آج سے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ ہم اسکول جاتے ہوئے اور نہ ہی اسکول سے آتے ہوئے کسی اجنبی سے کوئی بات کریں گے تاکہ کسی مصیبت میں گرفتار نہ ہوں۔‘‘

    سب بچوں نے اس بات کا وعدہ کیا۔ وہ سب عظیم کی عقل مندی سے بھی بہت متاثر تھے جس کی وجہ سے انعام کو اس مصیبت سے چھٹکارا ملا تھا۔

  • دو دوست، دو دشمن

    دو دوست، دو دشمن

    گھنے جنگل میں ایک دلدل کے قریب برسوں سے ایک چوہا اور ایک مینڈک رہتے تھے۔

    بات چیت کے دوران ایک دن مینڈک نے چوہے سے کہا، ’’اس دلدل میں میرا خاندان صدیوں سے آباد ہے اور اسی لیے یہ دلدل جو مجھے باپ دادا سے ملی ہے، میری میراث ہے۔‘‘

    چوہا اس بات پر چڑ گیا۔ اس نے کہا، ’’میرا خاندان بھی یہاں سیکڑوں سال سے آباد ہے اور مجھے بھی یہ جگہ اپنے باپ دادا سے ملی ہے اور یہ میری میراث ہے۔‘‘

    یہ سن کر مینڈک غصے میں آ گیا اور تُو تُو مَیں میں شروع ہو گئی۔ بات اتنی بڑھی کہ ان کی دوستی میں فرق آ گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے بولنا چھوڑ دیا۔

    ایک دن چوہا وہاں سے گزرا تو مینڈک نے اس پر آواز کسی جو چوہے کو بہت بری لگی۔ اس کے بعد چوہے نے یہ کیا کہ وہ گھاس میں چھپ کر بیٹھ جاتا اور جب مینڈک وہاں سے گزرتا تو اس پر حملہ کر دیتا۔

    آخر تنگ آ کر ایک دن مینڈک نے کہا، ’’اے چوہے! تو چوروں کی طرح یہ کیا چھپ چھپ کر حملہ کرتا ہے؟ مرد ہے تو سامنے میدان میں آ، تاکہ کھل کر مقابلہ ہو اور تجھے میری قوّت کا پتا چلے۔‘‘

    چوہے نے یہ بات قبول کر لی اور دوسرے دن صبح ہی صبح مقابلے کا وقت مقرر ہوا۔ مقررہ وقت پر ایک طرف سے چوہا نکلا۔ اس کے ہاتھ میں نرسل کے پودے کا ایک لمبا تنکا تھا۔

    دوسری طرف سے مینڈک آگے بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی ایسا ہی تنکا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے پر زبردست حملہ کیا اور پھر ذرا سی دیر میں دونوں گتھم گتھا ہو گئے۔

    ابھی یہ لڑائی جاری تھی کہ دور ہوا میں اڑتی ہوئی ایک چیل نے دیکھا کہ ایک چوہا اور ایک مینڈک آپس میں گتھم گتھا ہو رہے ہیں۔ وہ تیزی سے اڑتی ہوئی نیچے آئی اور ایک جھپٹے میں دونوں پہلوانوں کو اپنے تیز، نوکیلے پنجوں میں دبا کر لے گئی۔

    اب وہاں چوہا ہے نہ مینڈک۔ دلدل اب بھی موجود ہے۔

    (اس مختصر اور سبق آموز کہانی کے مترجم اردو کے معروف ادیب اور محقّق ڈاکٹر جمیل جالبی ہیں)

  • حکایت: درویش کی بے خوفی

    حکایت: درویش کی بے خوفی

    ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں اور خدمت گاروں‌ کے ساتھ جنگل میں‌ شکار کی غرض‌ سے گیا، جہاں اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی۔

    وہ فقیر گرد و پیش سے بے نیاز اور ہر قسم کے خوف سے آزاد نظر آیا۔ گھنے جنگل میں‌ موذی جانور، حشرات اور درندوں‌ سے تو ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے، مگر بادشاہ نے اس کے چہرے پر خاص اطمینان دیکھا اور اسے اس شخص کی ڈھٹائی اور بے وقوفی تصور کیا۔

    بادشاہ اور اس کے مصاحب جب اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے وزیر سے کہا کہ ایسے فقیر بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

    یاد رہے! بادشاہی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے فوری نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو، تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔

    اس پر بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت ہی کر دیجیے کہ دنیا اور آخرت دونوں‌ سنور جائیں۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ ابھی جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا اور جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    شیخ سعدیؒ سے منسوب یہ حکایت ہمیں‌ بتاتی ہے کہ حرص اور لالچ ترک کرکے ہی انسان کو قلبی سکون اور دائمی راحت حاصل ہوتی ہے۔

    مال دار اور خوش حال بھی جان لے کہ غریب کی طرح‌ وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے کفن کے سوا کچھ نہ لے جاسکے گا۔

  • پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    پاپا کسی ہنگامے کے دوران نہیں مرے تھے!

    مصنف: عبداللطیف ابوشامل

    ان کے ابُو جنھیں وہ بہت پیار سے پاپا کہتے تھے کسی ہنگامے میں تو نہیں مرے تھے، رات کو اپنی پرانی سی موٹر سائیکل پر گھر آرہے تھے کہ پیچھے سے آنے والی تیز رفتار کار انھیں کچلتی ہوئی ہوا ہوگئی اور وہ دم توڑ گئے۔
    جب وہ صبح سویرے اپنی موٹر سائیکل کو ککیں مار کر بے حال ہوکر زمین پر بیٹھ جاتے تھے تو میں ان سے کہتا تھا کب اس کھٹارے کا پیچھا چھوڑیں گے؟ تو وہ مسکرا کر کہتے تھے:
    ”بس اسٹارٹ ہونے میں ضد کرتی ہے ویسے تو فرسٹ کلاس ہے، بڑا سہارا ہے اس کا، ورنہ تو بسوں کے انتظار اور دھکوں سے ہی دم توڑ دیتا۔“
    آخر موٹر سائیکل ایک بھیانک آواز سے دم پکڑتی اور وہ مسکراتے ہوئے اپنا بیگ گلے میں ڈالتے اور پھر رخصت ہوجاتے۔
    بہت محتاط تھے وہ۔ بہت عسرت سے جیتے تھے۔ بہت سلیقہ مند بیوی ہے ان کی۔ عید پر رات گئے گھر آتے تو میں پوچھتا:
    ”آج دیر ہوگئی۔“ ”ارے یار وہ چھوٹی والی ہے نا اس کی جیولری لے رہا تھا، وہ دو دن میں خراب ہوجاتی ہے، لیکن چھوٹی ضد کرتی ہے۔“
    بس اسی طرح کی زندگی تھی ان کی۔ اور پھر ایک دن وہ روٹھ گئے۔ مرنے سے ایک دن پہلے ہی تو انھوں نے مجھ سے کہا تھا:
    ”کچھ پیسے جمع ہوگئے ہیں، سوچ رہا ہوں اپنے ”گھوڑے“ کی فرمائش بھی پوری کر دوں، کچھ پیسے مانگ رہی ہے موٹرسائیکل۔“
    بندہ فرمائشیں پوری کرتے کرتے بے حال ہو جاتا ہے، لیکن خوش بھی کتنا ہوتا ہے! اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر اپنی تھکن بھول جاتا ہے۔
    تین بیٹیاں، ایک بیٹا اور بیوہ۔ تین دن تو ٹینٹ لگا رہا اور عزیزوں کا جمگھٹا…. اور پھر زندگی کو کون روک سکا ہے! سب آہستہ آہستہ رخصت، گھر خالی، تنہائی، خدشات اور نہ جانے کیا کیا خوف۔ بیٹے نے رب کا نام لیا اور پھر ایک دفتر میں معمولی سی نوکری کرلی۔ اٹھارہ سال کا نوجوان جس نے ابھی فرسٹ ایئر کا امتحان دیا تھا۔ اور کیا کرتا! ماں نے سلائی مشین سنبھالی اور پھر زندگی سے نبرد آزما تھے وہ سب۔ بڑی بیٹی نے جیسے تیسے میٹرک کیا اور ایک گارمنٹس فیکٹری میں کام کرنے لگی۔ چھوٹی والی ٹیوشن پڑھاتی اور تیسری تو بہت چھوٹی تھی، ہنستی، کھیلتی بچی جو ہنسنا کھیلنا بھول گئی تھی۔
    بڑی بیٹی ایک دم بوڑھی ہوگئی تھی۔ ایک دن میں نے بڑی سے پوچھا:
    مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے تمہیں؟ پھر تو سیلاب تھا. ”کیا کیا بتاؤں، صبح جاتی ہوں تو عجیب عجیب آوازیں، بے ہودہ فقرے، بسوں کے دھکے، اور پھر فیکٹری میں تو کوئی انسان ہی نہیں سمجھتا، واپس آؤ تو کئی کاریں قریب آجاتی ہیں، جن میں بیٹھے لوگ نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔“
    ”جینا سیکھو“ بس میں اتنا کہہ سکا تھا۔ چھوٹی والی اسکول میں پڑھاتی تھی جس سے رجسٹر پر درج تنخواہ پر دست خط کرا کر اس سے نصف بھی نہیں دی جاتی تھی۔ باپ کے مرنے کے بعد سب کے سب زندگی سے نبرد آزما۔ کیا کیا مرحلے آئے ان پر! جی جانتا ہوں میں لیکن کیا کریں گے آپ سن کر؟
    میرا بدنصیب شہر نہ جانے کتنے جنازے دیکھ چکا ہے اور کتنے دیکھے گا، اس کی سڑکیں خون سے رنگین ہیں اور اس کے در و دیوار پر سبزہ نہیں خون ہی خون ہے۔ قبرستان بس رہے ہیں، شہر اجڑ رہا ہے۔ اب تو کوئی حساب کتاب بھی نہیں رہا کہ کتنے انسان مارے گئے۔ اور شاید یہ کوئی جاننا بھی نہیں چاہتا۔
    تحقیق و جستجو اچھی بات ہے، ضرور کیجیے۔ چاند ستاروں پر تحقیق کیجیے۔ زمین پر انسانیت کا قتل عام کیجیے اور چاند اور مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کیجیے۔
    مجھ میں تو تحقیق کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میں کوئی لکھا پڑھا آدمی ہوں۔ آپ میں تو ہے، تو کبھی اس پر بھی کوئی تحقیقی ادارہ بنا لیجیے۔ اس پر بھی اپنی محنت صرف کر لیجیے۔ ساری دنیا کو چھوڑیے، پہلے اپنی تو نبیڑ لیجیے۔ صرف اس پر تحقیق کر لیجیے کہ اس شہر ناپرساں و آزردگاں میں کتنے انسان بے گناہ مارے گئے اور اب ان کے اہل و عیال کس حال میں ہیں؟ وہ زندگی کا سامنا کیسے کرتے ہیں، ان کی نفسیاتی کیفیت کیا ہے، وہ کن مشکلات کا شکار ہیں؟ لیکن یہ کام کرے کون….؟
    اچھا ہے معصوم یتیم بچے کسی ہوٹل یا گیراج میں ”چھوٹے“ کہلائیں گے۔ ہماری جھڑکیاں سنیں گے۔ بیوہ ہمارے گھر کی ماسی بن جائے گی یا گھر گھر جاکر کپڑے لے کر انھیں سیے گی۔ جوان بہنیں دفتر یا فیکٹری کی نذر ہوجائیں گی، بھوکی نگاہیں انھیں چھیدیں گی، اور بدکردار کہلائیں گی۔ ان کے کانوں میں آوازوں کے تیر پیوست ہوتے رہیں گے۔ بوڑھا باپ کسی سگنل پر بھیک مانگے گا اور ماں دوا نہ ملنے پر کھانس کھانس کر مر جائے گی اور، اور، اور….
    اچھا ہی ہے، ہمیں چند ٹکوں میں اپنے کام کرانے کے لیے افرادی قوت میسر آجائے گی۔ اس سے بھی زیادہ اچھا یہ ہے کہ ان کا کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا۔ ہمیں کھل کھیلنے کے وسیع مواقع میسر آئیں گے اور ہم ٹھاٹ سے جیے جائیں گے۔
    پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔ اے دانش ورو، اے منبر و محراب سجانے والو! تمہارے لیکچر، تمہارے پند و نصائح اور تمہاری ”حق گوئی“ کسی ایک کا پیٹ نہیں بھر سکتی، چاہے کتنی محنت سے اپنے مقالات لکھو، چاہے کتنی قرأت سے وعظ فرمالو۔ پیٹ کا گڑھا تو روٹی مانگتا ہے یارو۔
    وہ دیکھ رہا ہے، تو بس پھر کیا ہے، خالق و مالک تو وہی ہے، ہم کیا کہیں گے اس سے کہ جب مظلوم کا خون آلود جسم مٹی چاٹ رہا تھا تب ہم کیا کر رہے تھے!
    نہیں رہے گا کوئی بھی، میں بھی اور آپ بھی، بس نام رہے گا اللہ کا۔
    فقیروں سے خوشامد کی کوئی امید مت رکھنا
    امیرِ شہر تو تم ہو‘ خوشامد تم کو کرنا ہے