Tag: ستار

  • نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    پاکستان کے مشہور ستار نواز استاد کبیر خان 22 مارچ 2001ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور سازوں کی دنیا میں اپنے فن کے لیے مشہور دبستان، سینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان موسیقار تان سین کی نسبت سے مشہور ہوا جس میں پیدا ہونے والے کبیر خان کو ماہر اور باکمال ستار نواز تسلیم کیا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف سازوں میں ستار بہت مشہور ہے جسے بہت دل چسپی اور شوق سے سنا جاتا ہے۔ روایتی طرزِ موسیقی اور گائیکی کے ساتھ قدیم سازوں میں اگرچہ ستار اور اس کے بجانے والے بھی اب بہت کم ہیں، لیکن استاد کبیر کا نام ان کے فن کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔

    انھوں نے پچاس برس تک ملکی سطح پر منعقدہ مختلف تقاریب اور محافلِ موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے نہ صرف شائقین سے داد پائی بلکہ اس ساز کو بجانے اور اسے سیکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، انھیں بیرونِ ملک بھی ثقافتی وفود کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    استاد کبیر خان وہ واحد ستار نواز تھے جو اس ساز کے دو معروف اسالیب کے ماہر تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے 1989ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • پرانی کلاشنکوف سے مدھر نغمے بکھرنے لگے

    پرانی کلاشنکوف سے مدھر نغمے بکھرنے لگے

    جنگ و جدل کتابوں کہانیوں کی حد تک تو رومانوی لگتا ہے، لیکن جب یہ شروع ہوتی ہے تو ہر شخص اس سے بیزار ہو کر امن کی خواہش کرنے لگتا ہے۔

    اور پھر بغداد کا مجید عبدالنور تو ایک امن پسند شخص ہے جس نے جنگ کی نشانی کو موسیقی کے ساز میں بدل دیا۔ عراقی دارالحکومت بغداد کے رہائشی مجید عبدالنور نے اپنی پرانی کلاشنکوف کو بربط میں بدل دیا ہے جس پر وہ اکثر مدھر نغمے گنگناتا ہے۔

    مجید پیشے کے لحاظ سے استاد ہے، وہ نہ صرف خود جنگ کے دیرپا اور ناقابل تلافی نقصانات سے آگاہ ہے بلکہ نئی نسل کو بھی یہ سب بتاتا ہے، اور جانتا ہے کہ امن ہی سے دنیا کی بقا ہے۔

    مجید نے اپنی اس پرانی کلاشنکوف کو جو اس نے حفاظت کی غرض سے گھر میں رکھی تھی، بربط میں بدل دیا ہے۔ جنگ و امن، اور بربریت و فن کا یہ امتزاج نہایت عجیب معلوم ہوتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2003 میں امریکا کے عراق پر حملے سے لے کر سنہ 2011 میں امریکی فوجیوں کے انخلا تک، ایک لاکھ سے زائد عام عراقی شہری ہلاک ہوئے۔

    مجید کے خاندان کے بھی بے شمار افراد اس آگ اگلتی جنگ کا نوالہ بن گئے۔ اب جبکہ جنگ ختم ہوچکی ہے، تو مجید نے جنگ کی اس نشانی کو موسیقی کے ساز میں بدل دیا۔

    وہ بتاتا ہے کہ جب وہ اپنے ہتھیار میں تبدیلیاں کروانے کے لیے ایک ماہر کی دکان پر لے گیا تو وہ حیرت زدہ ہوگیا، ’اس نے پوچھا کہ میں آخر کرنا کیا چاہتا ہوں؟ میں نے اسے کہا کہ بس میں جو کہتا ہوں وہی کرو‘۔

    مجید کا کہنا ہے کہ عراق ایک جنگ زدہ میدان معلوم ہوتا تھا، لیکن اب وہ اس سب کو بدلنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ ہر شے سے موسیقی کی مدھر دھنیں سنائی دیں۔ ’یہ ناممکن تو ہے لیکن اس کا آغاز میں نے اپنے گھر سے ہی کردیا ہے‘۔