Tag: ستار طاہر

  • ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستّار طاہر ایک باکمال مصنّف، مؤلف اور شان دار مترجم تھے جنھوں نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں‌ کو منوایا اور اپنے دور کے بہترین جرائد کی ادارت کی اور ان کا وقار بڑھایا۔ اردو زبان میں‌ کئی موضوعات پر مضامین اور کتابوں‌ کے علاوہ ستار طاہر نے غیرملکی ادب کا معیاری ترجمہ اردو زبان میں کیا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کر گئے تھے۔

    اہلِ علم و ادب میں ستار طاہر اپنی صلاحیتوں، قلم کی روانی اور معیاری تراجم کے لیے مشہور تھے۔ ان کی تحریریں اور تصانیف قارئین میں بے حد پسند کی گئیں۔ ستار طاہر گورداس پور میں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور شروع ہی سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ اسی شوق نے ستار طاہر کو ادب کی طرف مائل کیا اور تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ ستار طاہر نے کالم نگاری بھی کی اور 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں کرنے کے علاوہ خاص طور پر روسی ادب کا ترجمہ کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں‌ بھی لکھیں۔ ان میں وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ستار طاہر نے ایک مضمون نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے مختلف طبقات کی زندگیوں کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور داد و تحسین پائی۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں‌ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ وہ اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی اہل علم و ادب میں نمایاں‌ پہچان رکھتے تھے۔ ستار طاہر کو جمہوریت اور بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو قلم کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے حامی و پرچارک رہے۔

    ان کی متعدد تصانیف میں‌ سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کے لیے بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ ستار طاہر لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    اردو کے کثیر التصانیف مصنّف اور ماہر مترجم ستّار طاہر نے کئی موضوعات پر دل چسپ اور معیاری کتابوں کے ساتھ اردو زبان کے قارئین کو غیرملکی ادب سے محظوظ ہونے کا موقع دیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    ستار طاہر کا وطن گورداس پور تھا جہاں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فیصل آباد منتقل ہوگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور اسی شوق نے انھیں ادب کی طرف مائل کیا جہاں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور زورِ قلم سے شہرت اور مقام پایا۔ وہ ایک ادیب، مترجم، کالم نگار، صحافی اور محقّق تھے۔

    ستّار طاہر نے 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں اور تین روسی کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کی پہچان بنیں۔ وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی مشہور فلموں کی کہانیاں بھی انہی کے قلم سے نکلی تھیں۔ انھوں نے ایک مضمون نگار، کہانی کار کی حیثیت سے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور اپنے نظریات اور افکار کے سبب بھی پہچانے گئے۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو عمر بھر جمہوریت اور اصولوں کے پرچارک رہے اور آمریت کے خلاف محاذ پر ڈٹے رہے۔

    ان کی تحریر کردہ کتب میں سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ شدہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از مرگ انھیں صدارتی اعزاز عطا کیا تھا۔ وہ لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔