Tag: ستمبر انتقال

  • رام موہن رائے: ایک روشن خیال شخصیت اور مصلحِ قوم

    رام موہن رائے: ایک روشن خیال شخصیت اور مصلحِ قوم

    رام موہن رائے ہندوستانی سماج کی ایک روشن خیال شخصیت تھے جنھوں نے ہندو دھرم اور معاشرے کے رسم و رواج میں اصلاح کی غرض سے برہمو سماج نامی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔ موہن رام رائے نے ہندو شخصیات ہی نہیں مسلمان اکابرین کو بھی اپنے خیالات سے متأثر کیا جن میں سرسیّد بھی شامل ہیں۔

    موہن رام رائے ایسے دور اندیش انسان تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں کو توہّم پرستی اور تعصّبات سے نکالنے کی عملی کوششوں‌ کے علاوہ ان میں رائج غلط رسم و رواج کی نشان دہی کی اور اس کے لیے قلم کا سہارا بھی لیا۔

    ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے بڑوں‌ نے اس بات پر غور کیا کہ وہ کون سی کمزوریاں ہیں جن سے فائدہ اٹھا کر غیر ملکی انھیں زیر کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔ ہندوستانی سماج میں اکثریت قدامت پرستی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کی روایات اور رسم و رواج مقدس ہیں اور ان میں کسی قسم کی تبدیلی ان کے وجود کو گویا مٹا دے گی۔ ان کے برعکس اس معاشرے کے روشن خیال لوگ اپنی کمزوریوں کو سمجھنا چاہتے تھے اور ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے جن سے ان کی ترقی اور اجتماعی مفاد کا راستہ مسدود ہو رہا تھا۔ یہ لوگ راجہ رام موہن کی فکر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں‌ رہ سکے اور ان کا ساتھ دیا۔

    1833ء میں‌ آج ہی کے دن رام موہن رائے انتقال کرگئے تھے۔ چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ ان کا توحید پر مبنی یہ فلسفہ ہندو سماج اور خود رام موہن رائے کے خاندان والوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا اور انھیں اپنا گھر چھوڑنا پڑگیا۔

    برہمن خاندان میں 1774ء میں آنکھ کھولنے والے رام موہن رائے نے گاؤں‌ کے ایک مکتب میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ رام موہن رائے کو ان کے والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے نے اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کا مطالعہ بھی کیا اور انھیں علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور یہی وجہ تھی کہ انھیں والد نے قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغلیہ دور کے امرا سے وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی شخص تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت مشہور تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے کے بعد جب ان کے والد کو معلوم ہوا کہ رام موہن رائے بُت پرستی کے مخالف ہوگئے ہیں تو انھیں گھر چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ انھوں نے آزادی سے ہندو مت، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ کیا اور غور و فکر کرتے رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب وہ عربی، فارسی کے عالم بھی مشہور ہوگئے تھے اور مذہب سے متعلق اپنی فکر کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنی فکر اور خیالات کو رقم کرنے کے ساتھ متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ بھی کیا۔

    رفتہ رفتہ موہن رائے ہندوؤں میں مذہب بیزار مشہور ہوگئے۔ اور ان کے خلاف باتیں کی جانے لگیں، لیکن انھیں کسی کی پروا نہ تھی۔ وہ مختلف شخصیات اور عام لوگوں سے ملتے اور اپنی فکر کا اظہار کرتے رہے۔ انھوں نے انگریز حکومت سے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا۔ انگریزوں میں‌ بھی وہ ایک مصلح اور علم دوست انسان کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور ان کی بہت عزّت تھی۔ مشہور ہے کہ جب انگریزوں نے سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو رام موہن رائے نے گورنر جنرل کو لکھا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے نے کلکتہ میں قیام کے دوران یہ سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا اور یہی وجہ تھی کہ وہ ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیتے رہے۔ انھوں نے ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی جس کے ذریعے ہندوؤں کو فضول رسموں اور توہم پرستی سے دور کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں بھی تحریک چلائی۔ ان باتوں‌ نے قدامت پرست معاشرے میں ہندوؤں کو ان کے خون کا پیاسا بنا دیا، لیکن راجہ صاحب کہتے تھے کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ راجہ صاحب کا ایک وصف دیانت داری، ان کا انکسار بھی تھا جس نے انھیں مباحث کے دوران ہمیشہ عالمانہ وقار پر قائم رکھا اور وہ اپنے مخالفین کا بھی احترام کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ تحمل سے اپنے مخالف کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔تاہم ہندوؤں کے ساتھ عیسائی مذہب پر سوالات اٹھانے کے بعد انھیں زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوستانی قوم کے دشمن مشہور ہوگئے۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہُ المؤحدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ انھوں نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے کوششوں کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں سے ایک فارسی زبان کا 1822ء کا مراۃ الاخبار ہے جس کے مالک اور مدیر رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و بااخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سر سیّد احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے رفاہِ عامّہ کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    رام موہن رائے مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن میں تھے جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔

  • میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    علی عباس حسینی اردو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ادبی تخیلقات میں ہئیت و تیکنیک میں نئے تجربات کے ساتھ اپنے اظہار کی انفرادیت اور اسلوب کی خوب صورتی کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    علی عباس حسینی نے بحیثیت ادیب اپنے متنوع موضوعات میں اردو زبان کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔ نثری ادب کی مختلف اصناف میں ان کی تحریریں اور کتب یادگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ، تاریخ اور تذکرہ نویسی کے علاوہ تنقید بھی لکھی جب کہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی ادب میں‌ اہمیت ہے۔

    اردو کے اس ادیب کا منفرد اور دل نشیں طرزِ تحریر ان کی نگارشات کی پذیرائی کا باعث رہا ہے۔ علی عباس حسینی 3 فروری 1897ء کو غازی پور، بہار میں پیدا ہوئے تھے اور لکھنؤ وہ شہر تھا جہاں‌ آج ہی کے دن 1969ء میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

    1919ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔ اے کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1924ء میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ تدریس ان کا وظیفہ رہا اور 1954ء میں حسین آباد کالج لکھنؤ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔

    علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دل چسپی تھی۔ انھوں‌ نے الف لیلی کے قصائص، فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1917ء میں ان کا پہلا افسانہ "غنچۂ ناشگفتہ” کے عنوان سے ضبظِ تحریر میں آیا۔ 1920ء میں "سر سید احمد پاشا” کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول "قاف کی پری” لکھا تھا۔ شاید کہ بہار آئی” علی عباس حسینی کا دوسرا اور آخری ناول تھا۔

    ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں رفیقِ تنہائی، باسی پھول، کانٹوں میں پھول، میلہ گھومنی وغیرہ شامل ہیں۔ "ایک ایکٹ کے ڈرامے” ان کے ڈراموں پر مشتمل کتاب ہے۔

    علی عباس حسینی نے فکشن کے نقاد کے طور پر بھی شناخت بنائی۔ ان کی کتاب "ناول کی تاریخ و تنقید” ایک مفصل اور لائقِ مطالعہ تنقید ہے۔

  • راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے کو ہندوستان میں ایک مصلح اور روشن خیال شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو برہمو سماج نامی تحریک کے بانی تھے۔

    وہ ایک مدبّر اور ایسے دور اندیش تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں میں عام توہّم پرستی اور تعصّبات کے علاوہ غلط رسم و رواج کو مٹانے کے لیے علمی مجالس بپا کیں اور قلم کا سہارا بھی لیا۔ موہن رام رائے نے اپنے افکار اور اصلاحِ سماج کے لیے اپنی کوششوں کے سبب سرسیّد جیسے مسلم اکابرین کو بھی بے حد متاثر کیا تھا۔

    1833ء میں‌ راجہ رام موہن آج کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ اس سے چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ توحید کے اسی پرچار کی وجہ سے رام موہن رائے کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

    1774ء میں راجہ رام موہن رائے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گاؤں‌ کے ایک مدرسہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ انھیں والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کے مطالعے کے ساتھ علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور گھر لوٹے تو والد نے انھیں قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغل امرا کے دربار وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے پر جب والد نے اپنے بیٹے کو بُت پرستی کا مخالف پایا تو گھر سے نکال دیا۔

    تب وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ ہندو مذہب، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ آزادی سے کیا اورغور و فکر میں‌ منہمک رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وہ عربی، فارسی کے عالم کی حیثیت سے بھی پہچانے جا رہے تھے جب کہ مذہب سے متعلق اپنے نظریات اور فلسفے کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے قلم کا سہارا لیا تو متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔

    رفتہ رفتہ ان کا نام ہندو عقائد کے مخالف کے طور پر مشہور ہونے لگا اور ان کے افکار و نظریات کا چرچا بھی۔ انھوں نے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا تھا اور انگریز سرکار بھی راجہ صاحب کو ایک مصلحِ قوم اور علم دوست انسان کے طور پر شناخت کرتی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھ کر متوجہ کیا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے کو انگریز اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران انھوں نے یہ جان لیا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا جس کے بعد انھوں‌ نے ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیا۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزار تھے اور اسی لیے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد ہندوؤں میں جو برائیاں اور کم زوریاں تھیں، ان کو مٹانا تھا۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں تحریک چلائی۔

    مذہب اور رسم و رواج پر نکتہ چینی اور اپنے نظریات کے سبب قدامت پسند ان کے شدید مخالف اور کٹّر ہندو ان کے خون کے پیاسے ہوگئے، لیکن راجہ صاحب کا اصرار تھا کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا ایک وصف دیانت داری، منکسر المزاجی بھی تھی۔ راجہ صاحب باقاعدہ مجالس منعقد کر کے اصلاحِ‌ معاشرہ کی کوشش کرنے لگے تھے۔ لیکن مباحث کے دوران انھوں نے ہمیشہ اپنے عالمانہ وقار کو ملحوظ رکھا اور اپنے مخالفین کا احترام کیا۔ وہ تحمل سے ان کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

    ہندوؤں کے علاوہ انھیں عیسائی مذہب میں تثلیث جیسے بنیادی نظریے اور عقیدے پر تنقید کے بعد سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں مغربی کلچر کا دلدادہ اور ہندوستان کا دشمن کہا جانے لگا۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے فلاح و بہبود کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    انھیں مغل بادشاہ شاہ عالم نے اپنی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے اپنا وکیل بنا کر لندن بھیجا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہیں وفات پائی۔

  • اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔

    اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔

    معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔

    اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ لکھنوی تہذیب و ثقافت کی علامت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی تصوّر کیے جاتے ہیں جسے بعد میں دبستانِ لکھنؤ کے نام سے جانا گیا۔ ان سے پہلے اودھ کا مرکز فیض آباد تھا، اور لکھنؤ ایک معمولی قصبہ تھا، تاہم 1775ء میں تخت نشینی کے بعد آصف الدّولہ نے اودھ کو دہلی سے جداگانہ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت دینے کے اقدام کیے۔ انھوں نے لکھنؤ میں علم و ادب کے بڑے ناموں اور فنون کے ماہرین کو جمع کرلیا اور اسے اہلِ‌ علم و باکمال شخصیات کے لیے شہرِ راحت بنا دیا۔ وہ یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔

    آج آصف الدّولہ کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ شہزادوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کی گئی اور اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ انھوں نے دوسرے فنون میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ وہ شروع ہی سے شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بعد میں‌ شاعر بھی مشہور ہوئے۔ امورِ سلطنت کی بات کی جائے تو انگریزوں کی کمپنی نے ایک معاہدہ کی صورت میں انھیں بے اختیار اور اپنا مطیع رکھا ہوا تھا۔

    بعض تذکروں میں آیا ہے کہ اس فرماں روا کے دور میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسے اہلِ کمال لکھنؤ آئے اور کہا جاتا ہے کہ سوز کو آصف الدّولہ نے شاعری میں اپنا استاد بنایا۔ لیکن نیاز فتح پوری جیسے بڑے ادیب اور نقّاد نے اپنے ایک مضمون میں‌ لکھا ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصفُ الدّولہ ان کے کلام کو پسند کرتا تھا اور ان کی شاگردی اختیار کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ یا یہ کہ اگر شاگردی کا سلسلہ رہا بھی تو صرف چند دن جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا کلام سوز کے رنگ کا ہے اور ممکن ہے کہ اس بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ آصفُ الدّولہ کا سارا کلام سوز ہی کا کلام ہے اور اسی لیے اب سوز کا کلام بہت کم نظر آتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کیوں کہ سوز نے جب کہا، ہمیشہ سہل زمینوں میں اور مشکل ردیف و قوافی اختیار ہی نہیں کیے۔ بَرخلاف اس کے آصفُ الدّولہ کے یہاں ایسی مشکل زمینیں نظر آتی ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے کلام میں نظر آئیں اور میرے نزدیک یہ اثر تھا مصحفی اور انشا کی صحبت کا۔

    اسی مضمون میں آگے چل کر نیاز صاحب لکھتے ہیں: بہرحال آصفُ الدّولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو، یہ بالکل یقینی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے نہایت پاکیزہ ذوقِ سخن لے کر آیا تھا اور اس میں سوز یا کسی اور کی صحبت کو دخل نہ تھا۔ آصف الدّولہ کی ماں تاریخِ اودھ کی وہ مشہور خاتون ہے جسے بہو بیگم کے نام سے آج لکھنؤ کا ہر وثیقہ دار جانتا ہے۔

    نیاز فتح پوری نے لکھا، آصف الدّولہ کی شاعری کی عمر کیا تھی یا یہ کہ کس عمر میں اس نے شاعری کی ابتدا کی، اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے ساکت ہیں۔ لیکن کلام کی کثرت کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ شوق انہیں عنفوان شباب ہی سے شروع ہو گیا ہوگا۔ ان کا جو قلمی کلیات میری نظر سے گزرا ہے، بڑی تقطیع کے سیکڑوں صفحات پر محیط ہے اور تمام اصنافِ سخن اس میں پائے جاتے ہیں۔

    آصفُ الدّولہ نے لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے تعمیر کردہ امام باڑے میں دفن ہوئے۔ 1797ء میں آج ہی کے وفات پانے والے اودھ کے اس نواب کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، علم و فنون کے قدر دان اور عظیم سرپرست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

  • سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کے دامن کو متنوع موضوعات کے ساتھ وسعتِ‌ بیان اور ہمہ گیری عطا کی تھی۔ اس تحریک نے ادب اور سماج کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن بالخصوص ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور اس کی زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا اور یہ سب سید سجاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    انھیں پاک و ہند کا نام ور ادیب، انقلابی اور مارکسی دانش ور کہا جاتا ہے جو 13 ستمبر 1973ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کا انتقال ایک ادبی تقریب کے دوران ہوا جو متحدہ روس کے شہر الماتی میں منعقد ہوئی تھی۔ اردو ادب اور ترقّی پسند تحریک کی تاریخ و تذکرہ سجاد ظہیر کے بغیر ادھورا رہے گا۔

    وہ ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور افسانہ نگاری، ڈرامہ اور ناول نگاری ان کا میدان رہاط سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ اس خاندان کا اپنے علاقے میں بڑا اثرو رسوخ اور مقام تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر میں مشہور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آمدورفت رہتی تھی جس نے سجاد ظہیر کو بھی علم و ادب اور سیاست کا شعور دیا۔ وہ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم کے بعد ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے مختلف سختیاں، جبر اور ہتھکنڈے اپنا لیے تھے جس نے ہر نوجوان کی طرح سجاد ظہیر کو بھی متاثر کیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے نے ہڑتال شروع کردی اور ملوں اور کارخانوں کے ملازم سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر نے اس کا گہرا اثر لیا۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی طور پر باشعور بنا دیا تھا۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔

    انھوں نے گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ 1928ء میں اوکسفرڈ کے اسی طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    بلاشبہ سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب کو ایک نیا عہد اور اہل قلم کو ایک نئی سمت دی جس نے اردو زبان و ادب کو بلندی اور ہر سطح پر مقبولیت بخشی۔

  • شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    پیٹ بھرنے کے لیے محنت مزدوری اور بعد میں سائن بورڈ لکھنے کو ذریعۂ معاش بنانے والے شفیع پینٹر کی اوّلین تحریر ’زمیندار‘ میں شائع ہوئی جس نے انھیں شفیع عقیل بنا دیا۔ یہ 1948ء کی بات ہے، اور پھر ان کی ساری زندگی کتاب اور قلم کے ساتھ گزری۔

    شعر و ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے شفیع عقیل آرٹ اور مصوّری کے نقّاد بھی تھے۔ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے تھے۔ منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کا امتحان دیا اور پھر زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کرنے گھر سے نکل گئے۔ انھوں نے 6 ستمبر 2013ء کو وفات پائی۔

    1930ء میں لاہور کے گاؤں تھینسہ میں آنکھ کھولنے والے شفیع عقیل 20 سال کے تھے جب کراچی آئے اور یہاں ابتداً سائن بورڈ لکھنے کا کام کرنے لگے، لیکن جلد ہی اردو کے معروف مزاح نگار اور صحافی مجید لاہوری کے مشہور جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔ اسی زمانے میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور 1952ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’بھوکے‘ کے نام سے شائع کروایا جس پر حکومت کی طرف سے فحاشی کا مقدمہ دائر کردیا گیا۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلا تھا۔

    نمکدان کے بعد شفیع عقیل نے صحافتی سفر میں‌ بچّوں کے رسالے بھائی جان کی ادارت اور پھر روزنامہ جنگ اور اخبارِ جہاں میں تمام عمر کام کیا۔ مدیر کی حیثیت سے وہ مختلف صفحات پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں‌ آگے بڑھنے کا موقع دیتے رہے اور ساتھ ہی تصنیف و تالیف اور تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    مجید لاہوری اور سلطان باہو کے فن و شخصیت پر لکھنے کے علاوہ انھوں نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر نامی کتابیں بھی مدون کیں۔ شفیع عقیل پنجابی زبان کے شاعر تھے جن کا کلام بھی کتابی صورت میں‌ سامنے آیا۔ وہ چار مصروں کی ایک نئی صنف کے موجد بھی تھے۔ انھوں نے دیگر شعرا کے کلام کا ترجمہ بھی کیا تھا جب کہ پنجابی زبان میں ان کی جمع و تدوین کردہ لوک کہانیاں بھی ایک بڑا کام ہے جس کا انگریزی اور دوسری کئی زبانوں میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ شفیع عقیل نے پنجابی کلاسیکی شاعری پر جو کام کیا وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔

    وہ فنونِ‌ لطیفہ کے بڑے شیدائی تھے۔ مصوّری سے شفیع عقیل کو گہری دل چسپی رہی جس کا اندازہ اردو زبان میں فنِ مصوّری اور مشہور آرٹسٹوں کے متعلق ان کی کتابوں سے ہوتا ہے۔ وہ کئی مشہور پاکستانی مصوروں کے قریب رہے اور ان کے علاوہ مجسمہ سازوں اور ادیبوں کے انٹرویو بھی کیے۔ وہ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے اور ان کے سفر نامے بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔ حکومت نے شفیع عقیل کو تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

  • منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    مرزا ظفر الحسن اردو زبان کے نام ور مصنّف، افسانہ نگار، براڈ کاسٹر، ادبی نقّاد اور ادارۂ یادگار غالب کراچی کے بانی سیکریٹری جنرل تھے جنھیں 4 ستمبر 1984 کو دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی شخصیات کے تذکروں پر مبنی متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

    سنگا ریڈی، ضلع میدک، حیدرآباد دکن کے ظفر الحسن کو ان کا علمی و ادبی ذوق دکن ریڈیو تک لے گیا تھا جہاں انھوں‌ نے ملازمت کے دوران اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اردو زبان و ادب کی خدمت اور فن سے متعلق سرگرمیوں‌ میں‌ مشغول ہوگئے۔

    3 جون 1916ء کو پیدا ہونے والے مرزا ظفر الحسن نے معاشیات میں ایم اے کیا۔ وہ دکن کی عالمی سطح پر پہچان رکھنے والی جامعہ عثمانیہ کے طالبِ علم تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ انجمنِ طلبۂ جامعہ عثمانیہ کے سیکریٹری بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد نشر گاہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی نام اور مقام بنایا۔

    پاکستان آنے کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ 1968ء میں کراچی میں ادارہ یادگارِ غالب کی بنیاد رکھی اور ایک مثالی کتب خانہ غالب لائبریری قائم کیا، جو اپنے قیمتی علمی ذخیرے کے ساتھ شہر میں‌ ایک ادبی و تہذیبی مرکز کے طور پر مشہور ہوا اور وہ اس ادارے کے بانی سیکریٹری جنرل رہے۔

    مرزا صاحب نے افسانہ نگاری سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن پھر یہ مشغلہ ترک کر دیا اور کئی برس بعد لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کو ان کے دلنشیں اسلوب اور طرزِ نگارش نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں ذکرِ یار چلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور دکن اداس ہے یارو…ان کی یادداشتوں پر مبنی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرِ گذشتہ کی کتاب (مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کے کلام کا تقابلی مطالعہ)، خون دل کی کشید (فیض کی شخصیت و فن)، یادِ یار مہرباں (زیڈ اے بخاری کی یادوں پر مشتمل)، وہ قربتیں وہ فاصلے (دکن کا سفرنامہ) اور محبت کی چھاؤں (افسانوں کا مجموعہ) بھی منظرِ عام پر آیا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    حبیب ولی محمد کو ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال بیت گئے ہیں، لیکن ان کی آواز میں غزلیں، کئی فلمی گیت اور ملّی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رَس گھول رہے ہیں۔ 4 ستمبر 2014ء کو وفات پانے والے حبیب ولی محمد شوقیہ گلوکار تھے جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت پاکستان بھر میں پہچانے گئے۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کا آبائی وطن برما تھا جہاں انھوں نے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا اور تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عرصہ علالت کے بعد امریکا میں‌ وفات پائی۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی تھی۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ کے علاوہ ان کی آواز میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ جیسا کلام باذوق سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو گویا بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان کی آواز میں ملّی نغمات اور خاص طور پر غزلوں کے ریکارڈ بہت پسند کیے گئے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے پہچان اور فلم ایک تھی لڑکی کے گیت لارا لپا، لارا لپا لائی رکھدا کے سبب پاکستان بھر میں‌ شہرت ملی تھی۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔

    1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والی خورشید جہاں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بمبئی سے کیا تھا۔ سہراب مودی جیسے باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر نے اپنی فلم سکندر میں مینا شوری کو ایک کردار سونپا تھا جس میں شائقین نے انھیں بہت پسند کیا اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت کے دروازے بھی اداکارہ پر کھلتے چلے گئے۔ انھیں فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی کی بدولت شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کرنے کا موقع ملا۔ ’لارا لپا، وہ گیت تھا جس نے اداکارہ کو ہندوستان بھر میں لارا لپا گرل مشہور کردیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والی مینا شوری نے یہاں سب سے بڑے شہر کراچی میں‌ قیام کیا اور پھر وہ لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اداکارہ نے 83 فلموں میں کام کیا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے 54 فلمیں کیں۔ حسین و جمیل مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی متحدہ ہندوستان کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے ممتاز ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد ابواللیث صدیقی نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    آگرہ ان کا وطن تھا جہاں 15 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942ء میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

    وہ متعدد کتب کے مصنّف تھے جب کہ ان کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل لکھتے ہیں کہ “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ رفت و بود ان کی خود نوشت ہے۔

    ان کے مضامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شایع ہوئے۔

    انھیں‌ زمانہ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغہ روزگار شخصیات اور علم و ادب کی دنیا کے قابل اور نام وَر لوگوں کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔