Tag: ستمبر برسی

  • مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    مصوّر اور مجسمہ ساز احمد سعید ناگی کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ فائن آرٹ کے شعبہ کے چند نام ور فن کاروں میں احمد سعید ناگی کا نام بھی شامل ہے۔ احمد ناگی کو یہ اعزاز حاصل ہوا تھا کہ انھوں نے بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پورٹریٹ بنایا جب کہ اس آرٹسٹ کے میورلز بھی ہمیشہ ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔

    احمد سعید ناگی یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں عام طور پر احمد سعید ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرت سر میں احمد سعید نے آنکھ کھولی۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے انھوں نے مُوقلم سے اپنا تعلق جوڑا اور عملی میدان میں اترے۔ وہ شروع ہی سے فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ یہاں انھوں نے مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کیا۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    معروف صحافی، آرٹ نقاد اور مصنّف شفیع عقیل ان سے اپنی ملاقات کا احوال اپنی ایک کتاب میں یوں لکھتے ہیں:

    ” جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔

    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی کا ہنر شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ مصوری بالخصوص پورٹریٹ بنانے پر توجہ دی۔ ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ پیرس سے کراچی لوٹنے کے بعد احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔ احمد سعید ناگی نے خاص طور پر ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو اپنے فن کی زینت بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت میں ان کی گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے سرکاری سطح پر انھیں ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام سونپا گیا اور انھوں نے بخوبی اپنا کام انجام دیا۔ سعید ناگی نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے بھی مجسمہ سازی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    مصور و مجسمہ ساز احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ ان کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں۔ شائقین کی ستائش کے ساتھ ناگی صاحب نے ناقدینِ فن سے بھی اپنے کام پر داد پائی۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے ہیں۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام  نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد: شاعر اور نقّاد جس نے مقبولِ‌ عام نظریات سے انحراف کیا

    سلیم احمد کو اگر ادبی مفکر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے اپنی نکتہ بینی، تجزیاتی بصیرت اور قوّتِ مشاہدہ سے کام لے کر جن موضوعات پر خیال آرائی کی، وہ انھیں اس کا اہل ثابت کرتے ہیں۔ سلیم احمد نے شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار کے طور پر ادبی دنیا میں نام و مقام پایا اور بالخصوص تنقید کے میدان میں ان کا کام ان کی پہچان بنا۔ مگر ساتھ ہی ان کا ادب کی دنیا میں کئی شخصیات سے زبردست اختلاف بھی رہا اور یہ سب ادبی تاریخ کا‌ حصّہ ہے۔

    سلیم احمد یکم ستمبر 1983ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنے دور میں تنقید لکھتے ہوئے مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا اور اس پر انھیں اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی تھی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    وہ ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی تھی جس پر ان کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    آذر زوبی: معروف پاکستانی مصور اور مجسمہ ساز

    پاکستان میں فنِ مصوری اور مجسمہ سازی میں جو چند نام اپنے کام کی بدولت ممتاز ہوئے ان میں آذر زوبی کا نام بھی شامل ہے۔ آذر زوبی کی ایک وجہِ شہرت درونِ خانہ آرائش بھی ہے اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب اس کام کو بہت کم ایک شعبہ کے طور پر توجہ دی جاتی تھی۔

    پاکستان کے اس معروف مصور اور مجسمہ ساز کو فائن آرٹسٹوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں میں بھی پہچانا جاتا تھا۔ اس کی وجہ آذر زوبی کا ادبی ذوق بھی تھا۔ آذر زوبی یکم ستمبر 2001ء کو کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی تدفین کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں کی گئی۔ اشفاق احمد جیسے افسانہ نگار اور ادیب زوبی کے دوستوں میں سے تھے۔اپنے ایک مضمون میں اشفاق احمد اپنی دوستی اور آذر زوبی کے فن سے متعلق لکھتے ہیں:

    زوبی میرا دوست نہ بھی ہوتا تو بھی میں اس کو ایک بڑا فن کار ہی سمجھتا۔ حالانکہ میرے سمجھنے اور نہ سمجھنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ پھر بھی اس کو اصرار ہے کہ میں چار گواہوں کے سامنے اس امر کا اعلان کروں کہ زوبی ایک عظیم آدمی، ایک عظیم فن کار اور ایک عظیم تخلیقی قوت ہے۔ یہ بالکل زوبی کا بچپنا ہے ورنہ آپ خود دلیلِ آفتاب کے طور پر اس کے مرقعات کا جائزہ لے چکے ہیں۔ اب جب کہ ہم زندگی کے اس دور میں پہنچ چکے ہیں جہاں بس ایک جست کی کسر رہ جاتی ہے تو کچھ پرانی باتیں کہ دینے اور کر دینے میں کوئی مضایقہ نہیں۔

    میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اور روبی نے عہد کیا تھا کہ ہم اپنی اپنی لائن میں بڑے آدمی بننے اور شمالی ہندوستان کے Who’s Who میں داخل ہونے کے لیے سر توڑ کوشش کریں گے اور اگر نیا ملک پاکستان بن گیا تو اس کے دونوں حصوں کے معروف لوگوں کی صف اوّل یا زیادہ سے زیادہ صفِ دوم میں اپنا اپنا مقام ضرور حاصل کریں گے۔ میں تو خیر نوکریوں اور ملازمتوں کی ذلّتوں میں لتھڑتا رہا۔ اس لیے اس معاہدے کو پورے طور پر نبھا نہ سکا، لیکن زوبی نے اپنے زورِ عمل سے اور اپنی دن رات کی محنت سے یہ ثابت کر دیا کہ وہ شمشیر زن جس میدان کو فتح کرنے کا تہیہ کرتا ہے اس کو فتح کر کے چھوڑتا ہے۔

    زوبی بڑے غضب کا مصور ہے۔ اپنی شہرت اور ناموری کے لیے، اس نے جو تصویریں، جو مرقع اور جو مجسمے بنائے ہیں وہ آپ نے دیکھے ہیں، انھیں پسند کیا ہے، ان کی داد دی ہے۔ ان سے مسحور ہوئے ہیں، لیکن اس کی وہ تصویریں جو اس نے اپنی معصومیت کے دور میں بنائی تھیں وہ آپ کی نظر سے نہیں گزریں۔ شکوے کو آپ نے بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن یہ زوبی نہیں ہے۔ اس کا اصل وہ رنگ دار مرقعے ہیں جو وہ شہرت ناموری، جہدِ مسلسل، کوششِ پیہم اور تجویز اور پلاننگ کی سیڑھی سے اتر کر بناتا ہے اور کسی کو دکھاتا نہیں۔ کہا کرتا ہے یہ میری عبادت ہے اور عبادت کسی کو دکھا کر نہیں کیا کرتے۔ عبادت، ترقی کے لیے نہیں، سرخ روئی کے لیے کی جاتی ہے۔

    آذر زوبی کا اصل نام عنایت اللہ تھا۔ انھوں نے 28 اگست 1922ء کو قصور کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے 1943ء میں میو اسکول آف آرٹ لاہور سے فائن آرٹ کی تعلیم مکمل کی اور پھر اسکالر شپ پر اٹلی چلے گئے۔1950ء سے 1953ء تک اٹلی میں زیرِ تعلیم رہے اور 1954ء میں پاکستان لوٹے تو یہاں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فائن آرٹس میں اپنے فن پاروں کی پہلی سولو نمائش کی۔ بعد ازاں کراچی منتقل ہوگئے۔ ان کے مُو قلم نے کئی کتابوں کے سرورق، طغرا بنائے اور تزئین و آرائش بھی کی۔

    آخری ایام میں آذر زوبی نے بڑے سائز کی ڈرائنگ بنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جس کے بارے میں صحافی، آرٹ نقاد اور مضمون نگار شفیع عقیل لکھتے ہیں: ” یہ ڈرائینگیں یا اسکیچ بے لباس انداز کے تھے جو زوبی کا پسندیدہ موضوع تھا۔ وہ عورت کا بے لباس جسم بنانے میں کچھ زیادہ ہی دل چسپی لیتا تھا…. جو نیوڈ (nude) اسکیچ یا ڈرائینگیں بنا رہا تھا اور جس طرح کی بنا رہا تھا ان میں چار پانچ کا مزید اضافہ ہو جاتا تھا۔ نہ موضوع میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی، نہ اشکال میں کوئی فرق آتا تھا۔ نہ اجسام کے زاویے بدلتے تھے اور نہ خطوط میں کوئی تفریط ہوتی تھی۔ ایک عورت بیٹھی ہوتی تھی یا دو ہوتی تھیں اور چہروں کے خدوخال میں وہی یکسانیت ملتی تھی۔ اس نے یہ ڈرائینگیں سو کے لگ بھگ بنائی تھیں“ ایک اور جگہ لکھا ہے کہ ” تجریدی کام کرنے سے پہلے رئیلسٹک (realistic) میں مہارت ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اناٹمی (anatomy) سیکھنا بھی ضروری ہے الٹے سیدھے برش لگا دینے سے پینٹنگ نہیں بن جاتی۔“ انھوں نے ایک مقام اور آذر زوبی کے حوالے سے مزید لکھا: ” زوبی تجریدی آرٹ کے بہت خلاف تھا اور تجریدی کام کرنے والوں کو بے نقط سناتا رہتا تھا۔ اس سلسلے میں دل چسپ بات یہ ہے کہ خود اس کے اپنے اپنے بعض فن پارے ایسے ہیں جو تجریدی یا نیم تجریدی انداز میں بنے ہوئے ہیں۔ اس کا وہ کام جو پین ورک میں ہے، اس میں بہت سے اسکیچ اور ڈرائینگیں تجریدی (abstract) ہیں۔ خاص طور پر اس کی وہ السٹریشنز جو اس نے بعض کتابوں میں بنائی ہیں- مثلاً” جنم کنڈلی“ ، ”سرخ فیتہ“ اور ” موت سے پہلے“ وغیرہ میں۔ جب وہ تازہ تازہ اٹلی سے آیا تھا تو اس نے کئی اسکریپر ڈرائینگیں (scraper drawings ) بنائی تھیں- وہ سب تجریدی انداز کی ہیں جن میں سے بیشتر کو دیکھ کر مجسمے کا تصور اُبھرتا ہے۔“

    آذر زوبی نے کراچی میں‌ 1956ء میں شعور کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ انھوں نے کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے اسکول آف آرٹس میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیے اور اس اسکول کے پرنسپل رہے۔ 1968ء میں آذر زوبی نے اسکول آف ڈیکور کے نام سے مصوری، مجسمہ سازی اور درون خانہ آرائش کی تربیت کا ایک ادارہ قائم کیا تھا۔

    1980ء میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آذر زوبی کو صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔

  • عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک: شاعر، ادیب اور صحافی

    عبدالمجید سالک اردو کے معروف شاعر، صحافی اور اپنے وقت کے مقبول کالم نگار تھے۔ انھوں نے زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور بعد میں متعدد رسائل کی ادارت کی اور اپنے اداریوں اور فکاہیہ کالموں کی بدولت پہچانے گئے۔

    1959 میں‌ عبدالمجید سالک آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو عبدالمجید سالک نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘ اس کا پس منظر یہ کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ مولانا عبدالمجید سالکؔ خوش مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔ ان کی مزاحیہ تحریروں میں آمد کی بلندی اور دلآویزی موجود ہے جو پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ ان کے مزاح کو صاحب علم بھی سمجھ سکتا ہے اور ایک معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ ان کے کالم ’’ افکار و حوادث‘‘ کے نام سے 27 سال تک شایع ہوتے رہے۔ یہ نہ صرف صحافت میں بلکہ لطف بیان کے اعتبار سے اردو ادب میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔

    سالک صاحب کا نام عبدالمجید، اور سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر رہے جب کہ 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    صحافت کے ساتھ شعر گوئی، تنقید بھی ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

  • معروف مؤرخ اور محقق نصیر الدّین ہاشمی کا تذکرہ

    معروف مؤرخ اور محقق نصیر الدّین ہاشمی کا تذکرہ

    جہانِ علم و ادب کے کئی نام ایسے ہیں جن سے آج ہمارے نوجوان شاید واقف نہ ہوں، لیکن وہ اپنی کئی تصانیف اور بے شمار موضوعات پر تحریروں کی صورت میں اردو زبان کو مالا مال کرگئے ہیں۔ یہ ایسے نام ہیں جن کی کتابوں سے اکثر جامعات کی سطح پر طالبِ علم استفادہ کرتے ہیں۔ ہم تذکرہ کررہے ہیں نام وَر مصنّف، مؤرخ، محقق اور ماہرِ دکنیات نصیر الدّین ہاشمی کا۔ دکنی ادب و ثقافت کا شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہوگا جس پر نصیر الدّین ہاشمی نے قلم نہ اٹھایا ہو۔ دکن میں اردو اور یورپ میں دکھنی مخطوطات ان کی شاہکار تصانیف مانی جاتی ہیں۔

    دکن، شروع ہی اردو کا گہوارا رہا ہے۔ بہمنی، قطب شاہی ادوار میں اردو نے ارتقائی مراحل طے کیے تو آصف جاہی خاندان کے حکم رانوں نے اردو زبان و ادب کی خوب سرپرستی کی۔ اسی دور میں نصیر صاحب نے بھی اپنے علمی و تحقیقی کام کی بدولت شہرت پائی۔ متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان میں تاریخ و ثقافت کے مختلف موضوعات پر لکھنے پڑھنے اور تحقیق کرنے والوں نے نصیر الدّین ہاشمی کا نام سن رکھا ہوگا۔ وہ 15 مارچ 1895ء کو ریاست حیدرآباد کے محلہ ترپ بازار میں پیدا ہوئے۔ اصل نام محمد نصیر الدین عبد الباری تھا، لیکن نصیر الدین ہاشمی کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے والد مولوی عبد القادر ریاست حیدرآباد کے سرشتۂ عدالت میں منصف اور رجسٹرار بلدہ تھے۔ والد کا انتقال جب ہوا تو نصیر الدّین کی عمر بارہ برس تھی۔ قرآن و دینیات کے ساتھ اردو، فارسی، ریاضی اور خوش نویسی کی تربیت بھی لی۔ مزید تعلیم کے لیے مدرسہ دار العلوم میں داخلہ لیا اور منشی اور مولوی عالم کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ مدرسہ دار العلوم میں امجد حیدر آبادی کے شاگرد ہوئے۔ ان سے تاریخ، فلسفہ، ریاضی اور عربی کا درس لیا کرتے تھے۔ پھر خانگی طور سے مدراس یونیورسٹی سے منشی فاضل کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے انگریزی کے ساتھ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انھیں ادبی سرگرمیوں سے بھی دل چسپی تھی۔ انھیں بچپن ہی سے مطالعہ کا بے حد شوق تھا جس نے لکھنے کی جانب راغب کیا۔ ملازمت کے ساتھ قلم سے تعلق جوڑے رکھا۔ کئی اہم کتابیں ان کی یادگار ہیں جن میں خاص طور پر دکن کی تاریخ اور ثقافت پر ضخیم کتابیں شامل ہیں۔

    ہاشمی صاحب کی مطبوعہ کتابوں میں دکن میں اردو، نجم الثّاقب، رہبرِ سفرِ یورپ، یورپ میں دکنی مخطوطات، ذکرِ نبیؐ، حضرت امجد کی شاعری، مدراس میں اردو، خواتینِ دکن کی اردو خدمات، فلم نما، تذکرۂ دارُالعلوم، تاریخِ عطیاتِ آصفی، حیدر آباد کی نسوانی دنیا، عہد آصفی کی قدیم تعلیم، تذکرۂ حیات بخشی بیگم، دکھنی ہندو اور اردو، دکھنی کلچر و دیگر شامل ہیں۔ نصیر الدین ہاشمی کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔ 26 ستمبر 1964ء کو حیدرآباد( بھارت) میں وفات پائی۔

  • ونگاری ماتھائی: کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون کا تذکرہ

    ونگاری ماتھائی: کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون کا تذکرہ

    وَنگاری ماتھائی (Wangarĩ Maatha) فطرت کی دلدادہ اور قدری ماحول سے پیار کرنے والی ایسی خاتون تھیں‌ جن کو درختوں کی ماں بھی کہا جاتا ہے وہ پہلی افریقی خاتون بھی ہیں جن کو نوبیل انعام دیا گیا تحفظِ ماحول کی سرگرم کارکن ونگاری ماتھائی سرطان کے مرض میں‌ مبتلا تھیں اور 2011ء میں آج ہی کے روز چل بسی تھیں۔

    کینیا کی وَنگاری ماتھائی نے ایک پسماندہ علاقہ کے انتہائی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی لیکن تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ وہ ایک ایسے کام کی بدولت دنیا میں‌ ممتاز ہوئیں جو زمین اور انسانوں کی بقا اور بھلائی کے لیے ضروری تھا۔انھوں‌ نے تحفظِ ماحول کی غیر سرکاری تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ذریعے وہ تین دہائیوں تک درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ انھیں‌ 2004ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنے ملک میں‌ غریب عورتوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنا کر لگ بھگ تیس ملین درخت لگائے۔ وہ کمرشل بنیادوں‌ پر درختوں کی کٹائی اور سبزے کی پامالی کے جواب میں‌ ویران اور قابلِ کاشت رقبے پر درخت لگانے اور مختلف پیڑ پودوں کی افزائش میں‌ مصروف رہیں۔ انھیں‌ ماحول مخالف سرگرمیوں‌ اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کے راستے میں‌ ایک رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنی زندگی کے حالات اور اپنی جدوجہد کو اپنی کتاب ’ناقابلِ شکست‘ میں‌ رقم کیا ہے، جس سے ہم یہ پارے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں، اس کے مترجم بُش احمد ہیں۔ ونگاری ماتھائی لکھتی ہیں، میری عُمر سات آٹھ سال تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ ونگاری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘

    دیَریتُو اس وقت تیرہ سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جواب دیا، ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘

    اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا، لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہو گی کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ پرائمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن مونیکا پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیہ تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔ میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی، ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے ونگاری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مگر میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔

    میں بہت شکر گزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ فیصلہ میں خود سے نہ کر پاتی۔ اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دیَریتُو نے یہ سوال نہ پُوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے، لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دنوں ایک دن کی دیہاڑی سے ساٹھ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

    پرائمری اسکول میں میرا پہلا دن مجھے آج تک یاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی، چند اورق پر مشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن آٹھ سال کی بچّی کے لیے تین میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن میرا کزن جونوتھن جس کو سب جونو کہتے تھے وہ صبح سویرے مجھے لینے آ گیا۔ عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔ ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بُلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا۔ ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں! میں نہیں جانتی۔‘‘میں نے سر ہلاتے جواب دیا۔ ’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متأثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے لیکن میں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔

    ’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔

    ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر کریون نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میں اس کی مہارت سے بہت متأثر ہوئی۔

    اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دن میں نہیں بھولی۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ میں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا میں کبھی رکی نہیں۔ کیونکہ میں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔

    ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولھے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندّی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گَرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسُّو جیسے حشراتُ الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہو گی۔

    ونگاری ماتھائی نے 71 برس کی عمر میں‌ وفات پائی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون تھیں۔

  • محی الدین قادری زورؔ: ماہرِ لسانیات اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق

    محی الدین قادری زورؔ: ماہرِ لسانیات اور اردو زبان و ادب کے ممتاز محقق

    دکن میں اردو زبان و ادب کے گیسو سنوارنے اور اسے فروغ دینے میں جن اہلِ‌ قلم نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ بہت محنت و کاوش کی، ان میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ نمایاں ہیں۔ ڈاکٹر زورؔ نے اصولِ تنقید متعارف کرایا اور اسی لیے وہ لسانیات اور تنقید کے اوّلین علمبرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

    حیدرآباد دکن کے اس صاحب طرز ادیب، ماہر لسانیات، محقق و نقاد ڈاکٹر محی الدین قادری زور نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ علم و ادب کی خدمت میں گزارا۔ اردو کے لیے جو انھوں نے کام کیا اسے دنیائے ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔

    محی الدین قادری زور کو اپنی مٹی اور تہذیب و تمدن سے خاص لگاؤ تھا۔ ان کی تصنیفات کے بیشتر حصے دکن کی قدیم یادگاروں، دکن کی زبان، حیدرآبادی ثقافتوں اور روایتوں، ریاست اور نظام کے تذکروں سے معمور ہیں۔ وہ 25 دسمبر 1905ء کو حیدر آباد، دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدئی تعلیم مدرسہ دارالعلوم سٹی اسکول میں ہوئی۔ 1927ء میں عثمانیہ کالج سے ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور ادبی لگاؤ کو دیکھتے ہوئے فرمانروائے دکن کی جانب سے وظیفہ دیا گیا اور 1929ء میں زور صاحب لندن یونیورسٹی پی ایچ ڈی کرنے روانہ ہوئے۔ انھوں نے آریائی زبانوں پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ 1930ء میں فرانس میں لسانی تحقیق پر خصوصی تعلیم حاصل کی اور ہندوستاں لوٹے جہاں چندر گھاٹ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو کے صدر مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک کشمیر کی سری نگر یونیورسٹی میں اردو اور فارسی مطالعات کے شعبے میں خدمات انجام دیتے رہے۔ سید محی الدین قادری زور کا انتقال وہیں 25 ستمبر 1962ء کو ہوا تھا۔

    ڈاکٹر زور نے کئی کتابیں لکھیں اور خاص طور پر علمی و ادبی تحقیق میں ان کا کام یادگار ہے۔ ہندوستانی لسانیات، اردو کے اسالیب بیان، ہندوستانی صوتیات، داستان حیدرآباد، متاع سخن، بادہ سخن، سیر گولکنڈہ، گولکنڈہ کے ہیرے، حیات محمد قلی قطب شاہ، کلیات محمد قلی قطب شاہ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ ان کے علاوہ محی الدین قادری زور نے قدیم ہزاروں مخطوطات کا اشاریہ اور اس پر تذکرے لکھے جو پانچ جلدوں میں شائع ہوا۔ محی الدین قادری زورؔ ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’’میں نے اسکول کے زمانے سے ہی شاعری شروع کر دی تھی جو کالج کے زمانے میں بھی جاری رہی۔ اس وقت حیدرآباد شعر و سخن کا مرکز تھا۔ حیدرآباد کے گلی کوچوں میں شعر و سخن کا چرچا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہر شخص شاعر بن سکتا ہے لیکن ادیب، نقاد اور محقق بننا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہ تھی۔ ہمارے کالج کے استاد وحید الدین سلیم ہمیشہ اردو کی جدید ضرورتوں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے اس لیے میں نے بھی عام راستے سے ہٹ کر نئے نئے کام کرنے اور اپنی مادر جامعہ کا نام روشن کرنے کی خاطر شاعری کی جگہ نثر اور اس میں بھی تحقیق و تنقید کی طرف خاص توجہ کی۔‘‘

  • یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    یومِ وفات:‌ انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش کرنے والا آغا بابر

    اردو افسانہ نگاری میں ہی نہیں آغا بابر نے ادبی صحافت میں بھی اپنے توانا قلم اور تخلیقی صلاحیتوں کی بناء پر منفرد پہچان بنائی اور علمی و ادبی حلقوں میں نام پیدا کیا۔ آغا بابر 1998ء میں آج ہی کے روز امریکہ میں انتقال کرگئے تھے۔

    آغا بابر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری سے کیا تھا، لیکن جلد ہی نثر کی طرف مائل ہوگئے اور خاص طور پر افسانہ نگاری میں پہچان بنائی۔ وہ 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گور داس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے مشہور ہوئے۔ تقسیم کے بعد آغا بابر نے ہجرت کی اور پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے شاعری سے ہٹ کر افسانہ نگاری میں طبع آزمائی پر آمادہ کیا تو وہ کہانیاں لکھنے لگے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی زمانے میں اردو افسانہ نگاری میں دو واضح رجحانات نظر آتے تھے جس میں ایک طرف تو افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسرے افسانہ نگار خواب و خیال کی رنگینیوں، رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان کے درمیان اپنی تخلیقات کے سبب پہچان بناتے ہوئے آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بنایا اور ان کے افسانوں میں فرد کے جذبات کی عکاسی نظر آتی ہے۔ نقادوں کے مطابق آغا بابر کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” آغا بابر کا ایک یادگار افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ امریکا چلے گئے تھے اور وہیں انتقال کے بعد ان کی تدفین ہوئی۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیشِ عشق بھی شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ مہلت نہیں دی اور وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔

  • ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان: ایک نابغۂ روزگار کا تذکرہ

    ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان: ایک نابغۂ روزگار کا تذکرہ

    پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں صوبۂ سندھ سے تعلق رکھنے والے ماہرِ لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا نام بہت عزّت اور احترام سے لیا جاتا ہے انھیں ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔

    25 ستمبر 2005 کو ڈاکٹر صاحب اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید ان کا میدان رہا۔ کئی اہم موضوعات پر ان کے کام سے آج بھی تشنگانِ علم و ادب استفادہ کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں۔ 1947 میں پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ 1936 سے 1948 کے دوران وہ ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ رہے تھے۔

    قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان ہجرت کرکے کراچی آئے۔ یہاں 1950 میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبۂ اردو کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو زبان و ادب کے لیے ذمہ داریاں نبھاتے رہے۔ 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی کاموں پر انھیں پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوباتِ سیفیہ، خزینۃُ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوباتِ معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    اردو سے متعلق ان کی کتاب ’’اردو صرف و نحو‘‘ میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ انشا کی خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہے جو اردو زبان سیکھنے اور معیاری تحریر کے حوالے سے لائقِ مطالعہ کتاب ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔ وہ سندھ کے شہر حیدرآباد کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور  بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا: محبت کی نظمیں، اور بے بسی کا گیت اس شاعر کی پہچان ہیں

    پابلو نرودا لاطینی امریکا کا وہ انقلابی شاعر تھا جس نے دنیا بھر میں ایک انسان دوست اور مساوات کے پرچارک کی حیثیت سے شہرت پائی۔ اس کی شاعری کا کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور اس کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن کے ذریعے اس نے امن اور مساوات کا پیغام دیا ہے۔

    ہسپانوی زبان کے شاعر پابلو نرودا نے رومانوی اور کیف آگیں نغمات بھی لکھے جن میں جذبات و احساسات کی فراوانی ہے اور ہر عمر اور طبقۂ عوام کو متاثر کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء میں آنکھ کھولی اور اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں سیاست و سماج میں تصادم، استحصال، خوں ریزی اور خاص طور پر غریب و محنت کش عوام کو دکھی، وا ماندہ و بدحال ہی دیکھا۔ پابلو نرودا نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور یہ سب اپنی نظموں میں بیان کیا۔ 23 ستمبر 1973ء کو پابلو نرودا کی موت واقع ہوگئی۔ لیکن اسے قتل کہا جاتا ہے۔ اس شاعر کی پراسرار موت سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسے اپنے وقت کے ایک آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن اسے ثابت نہیں کیا جاسکا۔

    ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں:’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

    کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

    نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔

    مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
    اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
    اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر مروں گا
    اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
    بلند قامت صنوبروں کے قریب
    وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
    اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

    اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

    کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
    ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
    آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
    میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
    روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
    میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
    کان کن، ننھی سی لڑکی
    وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
    سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
    اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
    میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
    میں تو یہاں گانے آیا ہوں
    اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ