Tag: ستمبر برسی

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: علم و ادب کی دنیا کا ایک بڑا نام

    متحدہ ہندوستان میں برطانوی راج کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے کراچی آگئے اور اردو ادب میں بحیثیت ماہرِ لسانیات، محقّق، نقّاد شہرت پائی۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے سربراہ بھی رہے اور کولمبیا یونیورسٹی سے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ابواللیث صدیقی 15 جون 1916ء میں آگرہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ہوئی۔ 1942ء میں انھوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی سند پائی تھی۔

    ڈاکٹر صاحب ایک باصلاحیت اور نہایت قابل قلم کار تھے۔ ان کی متعدد کتابیں‌ شایع ہوئیں جن میں ایک خود نوشت بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے اس کا مقدمہ تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے: “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانۂ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    اسی خود نوشت میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ایک تحریر بھی پڑھنے کو ملتی ہے جس میں وہ اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ ”میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدةُ المالک، ملک حمیدالدّین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدّین ہندوستان آئے اور بدایوں پہنچے۔ اس وقت بدایوں کے قاضی محلّے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدّین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: فروری 1979ء میں قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایوں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلّہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلّے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پر کبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چند ہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”

    یہ تحریر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی ایک خوش حال خاندان کے فرد تھے اور اب وہ اس کا کرب محسوس کرتے ہیں، لیکن تقسیمِ‌ ہند کے ساتھ اس دور کے ہر مہاجر خاندان کو کسی ایسے ہی المیّہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اپنے پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جب میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستانِ شاعری” مکمل کر کے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدّین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے، بہرحال زبانی امتحان کے لیے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچا دیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلائیے۔” رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں۔” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر کہا، ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”

    اردو کے اس ممتاز ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ ان کی خود نوشت کا نام رفت و بود ہے۔ ان کے مضامین پر مشتمل تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات بھی شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر صاحب کو زمانۂ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغانِ عصر اور قابل شخصیات کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا انتقال 7 ستمبر 1994ء کو ہوا۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری: مشہور فلمی موسیقار اور شاعر کا تذکرہ

    سلیل چودھری نے بطور موسیقار ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں بڑا نام و مقام پایا لیکن وہ ایک ادیب اور شاعر بھی تھے۔

    مغربی بنگال میں سلیل چودھری نے 5 ستمبر 1995 کو اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ سلیل چودھری 19 نومبر 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد آسام میں بطور ڈاکٹر تعینات تھے۔ آسام ہی میں سلیل کا بچپن گزرا تھا۔ وہیں وہ وسیقی کی جانب راغب ہوئے۔ سلیل چودھری نے کسی استاد سے موسیقی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے بڑے بھائی آرکسٹرا میں کام کرتے تھے اور ہر طرح کے آلاتِ موسیقی سے واقف تھے۔ سلیل چودھری کو بچپن سے ہی بانسری بجانے کا بہت شوق تھا۔ بعد میں انھوں نے پیانو اور وائلن بھی بجانا سیکھا۔

    کولکتہ سے گریجویشن کرنے کے بعد سلیل چودھری ہندوستانی تنظیم سے منسلک ہوگئے۔ یہ انقلابی ترانوں کی گونج اور آزادی کی ترنگ کا دور تھا۔ اسی جدوجہد میں سلیل چودھری بھی شامل ہو گئے۔ وقت کے ساتھ ان کا تخلیقی شعور اور ان کی صلاحیتیں نکھرتی چلی گئیں اور وہ ایک بہترین موسیقار ہی نہیں شاعر اور ادیب بھی کہلائے۔

    سلیل چودھری کے والد ڈاکٹر بھی تھے اور باذوق آدمی بھی۔ ان کے پاس موسیقی کا بڑا ذخیرہ تھا اور وہ اسٹیج ڈراموں میں دل چسپی رکھتے تھے۔ سلیل چودھری نے آسام میں چائے کے باغات میں لوک گیت سنے تھے۔ مرد اور عورتوں کو کام کرتے دیکھا تھا جو گنگاتے جاتے اور اپنے کام میں‌ لگے رہتے۔ اسی زمانے میں سلیل نے بانسری بجانا شروع کیا اور یہی ان کے فنی سفر کا گویا آغاز تھا۔ سلیل کے والد بھی برطانوی راج سے نفرت کرتے تھے اور چائے کے باغات کے مظلوم مزدوروں کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بڑے ہونے والے سلیل چودھری نے جلد ہی اپنی سماجی ذمہ داریوں کو سمجھ لیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے اور پرفارمنگ آرٹ کی تحریکوں سے بھی جڑے رہے۔ اسی نے ترقی پسند سیاسی سرگرمی کو ایک تخلیقی میدان تک پہنچایا۔ اس عرصے میں سلیل نے بے شمار گیت لکھے اور ان کے ذریعے دیہات اور شہروں کے عوام کو ناانصافی اور جبر کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیا۔ یہ شعور اور بیداری کے گیت تھے جو تحریکِ آزادی کا حصّہ بنے‌ اور آج بھی ان کو سنا جاتا ہے۔ سلیل کے بنگالی گانوں نے بنگالی جدید موسیقی کا رخ ہی بدل دیا تھا۔

    برطانوی راج کے زمانہ میں سلیل نے اپنے فن اور ہنر کو غیرپیشہ ورانہ انداز میں اپنے عوام کے لیے برتا۔ جب کہ ان کا پیشہ ورانہ سفر پچاس کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا۔ سلیل چودھری کو اس وقت ایک شان دار گیت نگار کے طور پر دیکھا گیا اور آزادی کے بعد وہ ایک بہت ہی پختہ اور غیر معمولی باصلاحیت موسیقار کے طور پر سامنے آئے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں فلم ‘دو بیگھہ زمین’ کے لیے سلیل بمبئی پہنچے اور موسیقی کمپوز کی۔ اس کے بعد وہ 75 سے زیادہ ہندی فلموں، 45 بنگالی اور درجنوں ملیالم، تامل، تیلگو فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دیتے رہے۔

    سلیل ہندوستانی سنیما کی دنیا کے سب سے زیادہ ورسٹائل موسیقار تھے۔ ناقدین نے انھیں غیرمعمولی ذوقِ تخلیق کا حامل فن کار کہا ہے۔ راج کپور نے ایک بار کہا تھا کہ ‘وہ تقریباً کوئی بھی آلہ بجا سکتا ہے جس پر وہ ہاتھ رکھتا ہے، طبلے سے لے کر سرود تک، پیانو سے لے کر پکولو تک’۔ سلیل کی موسیقی مشرق اور مغرب کا انوکھا امتزاج تھی۔ اس نے ایک بار کہا تھا کہ ‘میں ایک ایسا انداز بنانا چاہتا ہوں جو سرحدوں کو عبور کرے – ایک ایسی صنف جو زور دار اور چمک دار ہو، لیکن کبھی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی’۔

  • حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد: پُرسوز آواز اور منفرد طرزِ گائیکی کا مالک

    حبیب ولی محمد کی پُرسوز آواز اور مخصوص طرزِ گائیکی آج بھی ایک نسل کی سماعتوں میں تازہ ہے اور سننے والوں کو اس گلوکار کی یاد دلاتا ہے۔ حبیب ولی محمد نے غزلیں، ملّی نغمات اور فلمی گیت بھی گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ آج اس گلوکار کی برسی ہے۔

    4 ستمبر 2014ء کو حبیب ولی محمد انتقال کرگئے۔ وہ عرصہ سے امریکا میں مقیم تھے اور 93 سال کی عمر میں وہیں وفات پائی۔ حبیب ولی محمد نے گلوکاری کو بطور پیشہ نہیں اپنایا بلکہ وہ شوقیہ گاتے تھے۔ سامعین اور ناظرین کی فرمائش پر ان کی آواز میں غزلیں اور گیت ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوتے تھے۔

    گلوکار حبیب ولی محمد کا آبائی وطن برما تھا۔ انھوں نے 1921ء میں برما کے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا اور تقسیمِ ہند کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی تھے اور پاکستان میں انھوں نے کاروبار پر توجہ دینے کے ساتھ اپنے شوق کی خاطر گلوکاری کا سفر بھی جاری رکھا۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی رہی۔ بہادر شاہ ظفر، مرزا غالب اور دیگر بڑے شعرا کا کلام ان کی آواز میں بہت مقبول ہوا۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘، ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ وہ کلام ہے جو حبیب ولی محمد کی آواز میں بہت پسند کیا گیا۔ ان کے علاوہ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔

    انھیں بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ حبیب ولی محمد نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ انھیں فلم کے لیے گلوکاری پر نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ نوجوانی میں حبیب ولی محمد نے استاد لطافت حسین سے کلاسیکی موسیقی کی تربیت لی۔ وہ کالج کے زمانے میں موسیقی کی تقریبات میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے اور یہ سلسلہ آگے بڑھا۔ 1941ء میں حبیب ولی محمد نے ایک مقابلۂ گائیکی میں اوّل انعام بھی حاصل کیا تھا۔

  • سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    سلیم احمد: ادب میں روایت سے انحراف اور اختلافِ رائے کا خوگر

    اردو ادب میں سلیم احمد ایک منفرد شخصیت کے مالک ایسے تخلیق کار کے طور پر پہچانے گئے جو نکتہ بیں، لطیف مشاہدہ اور تجزیاتی دماغ رکھتے تھے۔ انھیں ادبی مفکر بھی کہا جاسکتا ہے جو بہ یک وقت شاعر، نقّاد، ڈرامہ نویس اور کالم نگار تھے۔ تنقید ان کا خاص میدان رہا جس میں انھوں نے اپنے لیے ستائش بھی سمیٹی اور ادب کی دنیا میں ان کی فکر اور نظریے سے کئی شخصیات نے اختلاف بھی کیا۔

    سلیم احمد کا یہ تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ یکم ستمبر 1983ء کو انتقال کرگئے تھے۔ سلیم احمد بلاشبہ اپنی تنقید میں معنیٰ و اسلوب کی سطح پر منفرد بھی ہیں اور مؤثر بھی۔ ان کی تنقید میں اچھوتا پن اور گہرائی ہے۔ اسی طرح ان کی شاعری بھی ندرتِ خیال اور موضوعات کی رنگارنگی سے آراستہ ہے۔ سلیم احمد نے اپنی تنقید میں‌ مقبولِ عام نظریات سے انحراف کیا جس پر ان کو اعتراضات اور نکتہ چینی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور نقّاد کے بارے میں‌ اُن کے ہم عصروں کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں کہتے ہیں: سلیم احمد کی تنقیدی تحریریں میرے لیے ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے قابلِ توجہ رہی ہیں۔ وہ ایسے نقاد ہیں جنھیں بار بار پڑھا جا سکتا ہے اور ادبی اور فکری معاملات میں ان کی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ فراقؔ اور عسکری کو ایک طرف رہنے دیں، اردو کے اور کتنے نقادوں کے بارے میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ بنیادی طور پر اُن کا اُسلوب جس میں سلیم احمد کا مکالمہ کرتا ہوا باتونی لہجہ بنیادی شناخت رکھتا ہے، انھیں قابلِ توجہ بناتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ میں اُن سوالوں کو جو سلیم احمد اپنی تنقید میں اٹھاتے ہیں، اس دور کے بنیادی فکری سوالات سمجھتا ہوں۔

    ڈاکٹر تحسین فراقی نے یوں کہا ہے: محمد حسن عسکری کے بعد اگر نگاہ کسی اردو نقاد پر ٹھہرتی ہے، جو ہمیں نو بہ نو ادبی، علمی اور تہذیبی سوالوں سے دو چار کرتی ہے اور مدرس نقاد کی پھبتی سے بچ سکتا ہے تو وہ ایک دو مستثنیات کے علاوہ سلیم احمد ہیں۔

    سلیم احمد نے ضلع بارہ بنکی کے ایک نواحی علاقے میں‌ 27 نومبر1927 کو آنکھ کھولی۔ زمانۂ طالب علمی میں قابل اور نام ور ادبی شخصیات کی رفاقت نے ان کو غور و فکر اور لکھنے پر مائل کیا۔ قیام پاکستان کے بعد سلیم احمد ہجرت کرکے کراچی آگئے اور 1950ء میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔

    انھیں‌ منفرد لب و لہجے اور مضامینِ تازہ کا شاعر تو کہا جاتا ہے، مگر شعر و سخن کی دنیا میں‌ ان کی تنقیدی بصیرت کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف باتیں‌ کی جاتی رہیں۔ اس کی ایک وجہ سلیم احمد کا بے لاگ انداز اور کڑی تنقید تھی جس نے ادبی دنیا میں‌ ان کی مخالفت بڑھائی۔

    سلیم احمد ایک بہت اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، اور پاکستان کی پہلی جاسوسی فلم ’’راز کی کہانی‘‘ بھی سلیم احمد ہی نے لکھی اور اس پر انھیں نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    سلیم احمد کے شعری مجموعوں میں بیاض، اکائی، چراغَِ نیم شب اور مشرق جب کہ تنقیدی مضامین کے مجموعوں میں ادبی اقدار، نئی نظم اور پورا آدمی، غالب کون؟ ادھوری جدیدیت، اقبال ایک شاعر، محمد حسن عسکری آدمی یا انسان شامل ہیں۔

    ان کی غزل کے دو شعر دیکھیے۔

    جانے کس نے کیا کہا تیز ہوا کے شور میں
    مجھ سے سنا نہیں گیا تیز ہوا کے شور میں
    میں بھی تجھے نہ سن سکا تُو بھی مجھے نہ سن سکا
    تجھ سے ہُوا مکالمہ تیز ہوا کے شور میں

    سلیم احمد کا یہ شعر بہت مشہور ہے

    شاید کوئی بندۂ خدا آئے
    صحرا میں اذان دے رہا ہوں

  • حمید نسیم اور ناممکن کی جستجو!

    حمید نسیم اور ناممکن کی جستجو!

    معروف شاعر و ادیب، نقّاد اور مشہور براڈ کاسٹر حمید نسیم کی فنونِ لطیفہ اور اسلامی علوم پر متعدد کتب اردو ادب میں ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی بصیرت کی یادگار ہیں۔ حمید نسیم 28 ستمبر 1998ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    حمید نسیم نے شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں 16 اکتوبر 1920ء کو آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ترقی کرتے ہوئے ریڈیو میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر پہنچے اور بعد میں انھیں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔

    حمید نسیم ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان و بیان میں ان کا جواب نہ تھا۔ فن اور تخلیق کاروں سے متعلق ان کے تنقیدی مضامین اور ادبی موضوعات پر کتابیں حمید نسیم کے علمی و ادبی ذوق و شوق اور ان کی تخلیقی ذہانت کا نمونہ ہیں، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ صرف اسلامی علوم کے مطالعے اور اسی سلسلے میں تصنیف و تالیف تک محدود ہوگئے تھے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جستِ جنوں اور گردِ ملال شامل ہیں جب کہ تنقیدی مضامین کی کتابیں "علّامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے شایع ہوئیں۔

    "ناممکن کی جستجو” کے عنوان سے حمید نسیم خود نوشت سوانح عمری بھی منظرِ عام پر آئی۔ حمید نسیم تعارفِ فرقان کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر لکھ رہے تھے، لیکن قضائے الٰہی سے وفات پاگئے اور یہ کام ادھورا رہ گیا۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • امید فاضلی: ‘خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے…’

    امید فاضلی: ‘خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے…’

    اردو زبان کے ممتاز شاعر امید فاضلی کے کئی اشعار کو ضربُ المثل کا درجہ حاصل ہوا۔ ان کا مشہور شعر ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

    امید فاضلی 1952ء میں بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ ان کا تعلق ڈبائی سے تھا جو متحدہ ہندوستان کے ضلع بلند شہر کا حصّہ تھا۔ 17 نومبر 1923ء کو پیدا ہونے والے امید فاضلی کا خاندانی نام ارشاد احمد فاضلی تھا۔ اردو ادب اور شاعری کے میدان میں ان کی پہچان امید فاضلی کے نام سے ہوئی۔ آج امید فاضلی کی برسی منائی جا رہی ہے۔

    امید فاضلی نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ کے مدارس سے مکمل کی اور اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے اور پاکستان آنے کے بعد اسی محکمے میں ملازمت اختیار کی۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل گو شاعر اور مرثیہ نگار تھے۔ انھوں‌ نے بطور شاعر طبع آزمائی کا سلسلہ 15 برس کی عمر میں شروع کیا تھا اور پہلے شکیل بدایونی اور پھر استاد شاعر نوح ناروی سے شرفِ تلمّذ حاصل رہا۔ ابتداً وہ امید ڈبائیوی کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ بعد میں امید فاضلی کا قلمی نام اختیار کیا۔ امید فاضلی کی شہرت کا سفر تو غزل گو شاعر کے طور پر شروع ہوا تھا، لیکن ان کی مذہبی شاعری ریڈیو اور پاکستان ٹیلی وژن سے نشر ہوئی تو ملک گیر شہرت ان کے حصّے میں آئی۔ امید فاضلی فنِ شاعری میں غزل اور نظم کے علاوہ سلام، نوحہ اور گیت نگاری میں بھی مشہور ہوئے۔

    امید فاضلی کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے شایع ہوا تھا۔ اس کتاب کو 1979ء میں بہترین شعری مجموعے کے لیے آدم جی انعام دیا گیا۔ امید فاضلی کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا اور تب و تابِ جاودانہ کے نام سے جب کہ حمد اور نعتیہ شاعری کی کتاب میرے آقا، منقبت کا مجموعہ مناقب کے نام سے منظرِ‌عام پر آیا۔ امید فاضلی نے قومی نغمات اور ملّی شاعری کو بھی پاکستان زندہ باد کے عنوان سے شایع کروایا۔ ان کے نعتیہ کلام پر مشتمل مجموعہ کو بھی رائٹرز گلڈ نے انعام دیا تھا۔

    ممتاز شاعر امید فاضلی کا انتقال 2005ء میں 28 اور29 ستمبر کی درمیانی شب ہوا تھا۔ وہ سخی حسن کے قبرستان میں مدفون ہیں۔

    امید فاضلی کا ایک خوب صورت شعر دیکھیے۔

    یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بوجھ
    ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے

  • پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    ہالی وڈ کی تاریخ میں پال نیومین کو ان کی بے مثال اداکاری کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھیں اکثر دنیا کا غیر معمولی انسان بھی کہا گیا ہے جس کی وجہ اُن کی انسان دوستی اور جذبۂ خدمت ہے۔ پال نیومین نے 83 سال کی عمر پائی اور 2008ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    اداکار پال نیومین نے فلم کی دنیا میں اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے خوب شہرت کمائی اور شائقین میں مقبول ہوئے۔

    پال نیومین اپنی آنکھوں کی رنگت کی وجہ سے بھی اسکرین پر اور ہر محفل مین سب سے الگ نظر آتے تھے۔ ان کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا۔ وہ ایک وجیہ صورت مرد تھے جس نے اسکرین پر اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا اور آسکر ایوارڈ یافتہ فن کاروں کی صف میں‌ شامل ہوئے۔ پال نیومین نے ہالی وڈ کی مشہور فلموں ’دی ہسلر‘، ’کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن رُوف‘ اور ’دی کلر آف منی‘ میں بے مثال اداکاری کی اور اپنے دور کے کام یاب فن کاروں کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔

    پال نیومین کا فلمی سفر پانچ دہائیوں پر محیط رہا۔ اس عرصہ میں انھوں نے لگ بھگ ساٹھ فلموں میں کام کیا۔ بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر 10 مرتبہ پال نیومین کا نام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے فہرست میں‌ شامل کیا گیا اور ’دی کلر آف منی‘ وہ فلم تھی جس میں اپنی شان دار اداکاری پر وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    پال نیومین نے 26 جنوری 1925ء کو امریکہ کے علاقے کلیولینڈ اوہائیو میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کھیلوں کے سامان کی خرید و فروخت کام کرتے تھے۔ نیومین نے ابتدا میں نیوی میں ملازمت کرنا چاہی، لیکن ان کی نیلی آنکھیں اس راستے میں رکاوٹ بن گئیں۔ دراصل نیومین بطور امیدوار ادارے کی جانب سے ایک ٹیسٹ کے دوران بعض رنگوں کی شناخت نہیں کر سکے تھے اور اسے اُن کا نقص کہہ کر ناکام قرار دے دیا گیا۔

    اداکار پال نیومین ایک نہایت متحرک اور فعال شخص تھے جس نے ہمیشہ اپنے شوق کو اہمیت دی۔ وہ 70 کی دہائی میں فلمی دنیا سے صرف اس لیے دور ہوگئے تھے کہ انھیں گاڑیوں کی ریسں کا شوق پورا کرنا تھا۔ ایک ماہر ڈرائیور کی حیثیت سے پال نیومین نے ریس کے متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا اور ایک کار ریس میں انھوں‌ نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

    ہالی وڈ میں پال نیومین نے اپنی اداکاری کی بنیاد پر کُل تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ انھوں نے اپنے فلمی سفر کے دوران شریکِ‌ حیات کے طور پر جو این ووڈورڈ کا انتخاب کیا تھا جو خود بھی اداکارہ تھیں۔ وہ پانچ بیٹیوں کے والدین بنے۔

    نیلی آنکھوں والے پال نیومین کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے، لیکن وہ جب تک زندہ رہے دوسروں کے لیے جینے اور سب کے کام آنے کو اپنا مقصدِ‌ حیات بنائے رکھا۔ پال نیومین نے اُن بچّوں کے لیے ’سمر کیمپ‘ قائم کیے تھے جو مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ اداکار کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جذبۂ خدمت کے تحت کئی خیراتی اداروں کی مالی امداد کرتے رہتے ہیں۔

  • "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت!” پابلو نرودا کی یاد دلاتا رہے گا

    "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت!” پابلو نرودا کی یاد دلاتا رہے گا

    لاطینی امریکا میں پابلو نرودا کو ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے ہی پہچان نہیں ملی بلکہ وہ اس خطّے اور دنیا بھر میں انسانیت اور مساوات کے پرچارک کے طور پر مشہور ہیں۔ پابلو نرودا کی شاعری کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں‌۔

    ہسپانوی زبان کے اس شاعر نے دنیا کو رومان پرور اور کیف آگیں نغمات ہی نہیں‌ دیے بلکہ اپنی نظموں کے ذریعے امن اور برابری کا درس بھی عام کیا۔ 1971ء میں پابلو نرودا کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا کا وطن چِلی تھا جہاں اس نے 12 جولائی 1904ء کو آنکھ کھولی اور 1973ء میں 23 ستمبر کو ابدی نیند سو رہا۔ نوبیل انعام یافتہ پابلو نرودا کی موت آج بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ انھیں آمر جنرل آگسٹو پنوشے کے حکم پر قتل کیا گیا تھا۔ لیکن یہ اب تک ثابت نہیں ہوسکا۔

    ہندوستان کے ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور اس کی فکر کے شیدائی رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں: ’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حُسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔ چِلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہرشخص اسے جانتا ہے۔

    کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بہ دیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سَر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوش بو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوش بو اس کے نغمات میں منتقل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا نے ایک نظریاتی شخصیت اور انقلاب اور رومان کے شاعر کی حیثیت سے دنیا میں نام کمایا، ادب کا نوبل انعام پایا، لیکن اس سفر میں تنگ دستی اور غربت کے ساتھ طرح طرح کی دوسری صعوبتیں اٹھانا پڑیں، روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی جھیلنے کے ساتھ وہ انقلابی نظمیں لکھتا رہا، جو غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کش اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کرتیں اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹے رہنے پر اکساتی تھیں۔ اس کی ہسپانوی زبان میں شاعری کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    پابلو نرودا نے کمیونسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ ان کے زمانے میں معاشرہ رومانوی شاعری میں بے باکی کے لیے تیّار نہ تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے انھیں شہوت انگیز اور ہیجانی شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن ان کے انسان دوست نظریات اور رومانوی شاعری کے امتزاج نے انھیں دنیا بھر میں مقبولیت دی۔

    نرودا کی شہرۂ آفاق کتاب "محبت کی نظمیں اور بے بسی کا گیت” میں رومانوی رجحانات کی واضح بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک نظم کے چند بند کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو امنِ عالم کا ایک شان دار قصیدہ ہے، اور شاعر کے جذبۂ حبُ الوطنی کو بھی سامنے لاتا ہے۔

    مجھے اپنے چھوٹے سے سرد ملک کی سرزمین سے
    اگنے والے پیڑوں کی جڑوں تک سے محبت ہے
    اگر مجھے ہزار بار مرنا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر مروں گا
    اگر مجھے ہزار بار پیدا ہونا پڑے
    تو میں اس سر زمین پر پیدا ہوں گا
    بلند قامت صنوبروں کے قریب
    وہاں جہاں جنوبی ہوائیں طوفان خیز ہیں
    اور نئی خرید ی ہوئی گھنٹیاں بج رہی ہیں

    اور پھر دیکھیے کہ یہ حبُ الوطنی ساری دنیا کی محبّت کے سمندر کی ایک لہر بن جاتی ہے۔

    کسی کو میرے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے
    ہمیں سارے کرۂ ارض کے بارے میں سوچنا ہے
    آؤ میزوں پر محبّت کے ڈھیر لگا دیں
    میں نہیں چاہتا کہ خون دوبارہ
    روٹیوں کو اور اناج کو اور موسیقی کو شرابور کر دے
    میری خواہش ہے کہ سب میرے ساتھ آئیں
    کان کن، ننھی سی لڑکی
    وکیل، ملاح، گڑیاں بنانے والے
    سب میرے ساتھ آئیں اور ہم مل کر سنیما دیکھیں
    اور سرخ سے سرخ تر شراب پییں
    میں کوئی مسئلہ حل کرنے نہیں آیا ہوں
    میں تو یہاں گانے آیا ہوں
    اور چاہتا ہوں کہ تم بھی میرے ساتھ گاؤ

  • فرانسوا برنیئر: مغل شہزادے کا معالج جس نے شاہی دربار کا آنکھوں دیکھا حال بھی رقم کیا

    فرانسوا برنیئر: مغل شہزادے کا معالج جس نے شاہی دربار کا آنکھوں دیکھا حال بھی رقم کیا

    یورپی معالج فرانسوا برنیئر کو دنیا ایک مؤرخ کی حیثیت سے بھی جانتی ہے جس نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دربار اور اس دور کے کئی واقعات کو اپنی تصنیف میں جگہ دی جو ایک مستند کتاب ہے۔ برنیئر 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پا گیا تھا۔

    فرانسوا برنیئر شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد جب اورنگزیب عالمگیر شہنشاہِ ہند بنا تب بھی برنیئر مغل دربار سے وابستہ رہا۔ فرانسوا برنیئر یورپ کے مشہور ملک فرانس کا باشندہ تھا جسے سیر و سیّاحت کا شوق تھا جب کہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک قابل طبیب تھا۔ اس نے ہندوستان میں لگ بھگ 12 برس مغلیہ عہد میں گزارے اور اس عرصے میں تاج و تخت کی خاطر سازشوں، خاندانی جھگڑوں اور درباریوں کے کئی راز اور واقعات اس کے سامنے آئے جسے اس نے قلم بند کرلیا۔

    برنیئر نے مغلیہ دور کی تاریخ ہی نہیں سائنس پر بھی لکھا اور 1684ء میں اس کی کتاب شایع ہوئی جو انسانوں کی مختلف نسلیں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی سے متعلق اس کی اہم کوشش تھی۔ اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ برنیئر کا ایک تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالمگیر کے دور کے حالات کو رقم کرنا ہے۔ اسے ایک تاریخی سفر نامہ کہا جاسکتا ہے جس میں برنیئر نے حالات و واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے اور یہ اُن معلومات پر مبنی ہے جو برنیئر تک دربار کے نمایاں اور قابلِ بھروسا لوگوں سے اس تک پہنچی تھیں۔

    فرانسوا برنیئر نے 68 سال کی عمر میں وفات پائی، اس کا انتقال پیرس میں ہوا۔

  • منصور علی خان: ایک ریاست کا نواب جو کرکٹ کے میدان کا ‘ٹائیگر’ مشہور تھا!

    منصور علی خان: ایک ریاست کا نواب جو کرکٹ کے میدان کا ‘ٹائیگر’ مشہور تھا!

    ریاست پٹودی کے نواب محمد افتخار علی خان اور اُن کے بیٹے منصور علی خان نے بطور کرکٹر انگلستان اور بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ بھارت کے دارُالحکومت دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور واقع پٹودی کو انگریز دور میں ریاست کا درجہ ملا تھا۔

    پٹودی میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور نواب خاندان مسلمان تھا۔ آج اسی خاندان کے منصور علی پٹودی کی برسی ہے جن کی ایک وجہِ شہرت کرکٹ ہے۔ ان کے بیٹے سیف علی خان اور بیٹی سوہا خان بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف چہرے ہیں جب کہ منصور علی خان پٹودی کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور بھی انڈسٹری کا مشہور نام ہیں۔ نواب منصور علی خان پٹودی 22 ستمبر 2011ء کو وفات پا گئے تھے۔

    منصور علی خان نے 5 جنوری 1941ء کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ کرکٹ کا شوق انھیں اپنے والد کو دیکھ کر ہوا جو ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ اور ہندوستان دونوں ممالک کی نمائندگی کرچکے تھے۔ منصور علی خان پٹودی 11 سال کے تھے جب پولو کھیلتے ہوئے ان کے والد کا انتقال ہوا۔ یوں کم عمری میں انھیں ریاستی امور دیکھنا پڑے جو ایک بھاری ذمہ داری تھی۔

    وقت کے ساتھ ریاست کے اس نواب کی کرکٹ میں دل چسپی بڑھتی جارہی تھی اور وہ ایک اچھے بلّے باز اور پھرتیلے فیلڈر کے طور پر مشہور ہوئے۔ انھیں لوگوں نے کرکٹ کے میدان کا ٹائیگر کہنا شروع کر دیا تھا۔ منصور علی خان پٹودی نے 16 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور اس کھیل میں سسیکس اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی نمائندگی بھی کی۔ وہ پہلے ہندوستانی کرکٹر تھے جسے کسی انگلش کاؤنٹی کا کپتان بنایا گیا۔

    نواب پٹودی 1961ء میں کار‌ کے ایک حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کا سفر جاری رکھا اور اس حادثے کے صرف ایک سال بعد ہی انھیں بھارت کی کرکٹ ٹیم کی قیادت بھی سونپی گئی۔ اس کے بعد منصور علی خان پٹودی کو مستقل کپتان بنا دیا گیا۔ منصور علی خان نے اپنے کیریئر میں 46 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 40 میچوں میں ٹیم کی قیادت بھی وہی کررہے تھے۔ ایک انٹرویو میں نواب منصور پٹودی نے بتایا تھا کہ انھوں نے کانٹیکٹ لینس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی لیکن انھیں گیند دو نظر آتی تھیں۔ پھر انھوں نے کانٹیکٹ لینس ہٹا دیا اور اپنی داہنی آنکھ پر ہیٹ گرا کر کھیلنا شروع کیا، لوگ سمجھتے کہ یہ اسٹائل ہے لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔

    نواب پٹودی موسیقی سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے اور انھیں ہارمونیم اور طبلہ بجانے کا شوق تھا۔ ان کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور کہتی ہیں کہ ’پٹودی کو طبلے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کبھی کبھی معروف سرود نواز امجد علی خان کے ساتھ طبلہ پر ان کا مقابلہ کیا کرتے۔‘ منصور علی خان نے بھارت کی سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں کئی مرتبہ مختلف شخصیات نے سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن جب راجیو گاندھی نے کہا تو وہ انھیں منع نہیں کر سکے۔ تاہم انتخابات میں نواب پٹودی کام یاب نہیں ہوسکے اور راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سیاست میں ان کو دل چسپی بھی نہیں رہی۔

    شرمیلا ٹیگور ہندی سنیما میں نام بنا چکی تھیں اور نواب پٹودی 1965ء میں اُن سے ملے تھے۔ اِنھوں نے شادی کا فیصلہ کیا جس کے لیے شرمیلا نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ رکھا۔ انھیں بھارتی حکومت نے پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

    دہلی میں وفات پانے والے نواب منصور علی خان کی عمر ستّر سال تھی۔ انھیں پٹودی میں سپردِ خاک کیا گیا۔