Tag: ستمبر برسی

  • اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب اور ثقافت کے اُس عہد کے لیے تاریخ میں محفوظ ہے جس نے اجڑتی ہوئی دلّی کے کئی نادرِ روزگار اور علم و فن میں ممتاز ہستیوں کو اپنایا۔ آصف الدّولہ کے عہد ہی میں اردو شاعری نے اُس اسلوب کو اپنایا جو دبستانِ لکھنؤ کہلاتا ہے۔

    ریاست اودھ کے آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بدحالی کا شکار تھی۔ ان حالات میں اہلِ علم نے میں لکھنؤ پہنچ کر نواب کے دربار میں جگہ پائی اور یہی نہیں بلکہ نواب صاحب نے ذاتی خرچ پر اکثر کو لکھنؤ بلایا اور بڑی تکریم کی۔

    نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔

    اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔

    معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔

    اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔

    آصفُ الدّولہ کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں کے علاوہ فنونِ لطیفہ کے سرپرست اور شاعری کا دلدادہ کہا جاتا ہے جنھوں نے ہندستان میں گنگا جمنی تہذیب کے علم بردار کے طور پر بھی شہرت پائی۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں آج ہی کے روز وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • طفیل نیازی: لوک گائیکی اور کلاسیکی موسیقی کا بڑا نام

    طفیل نیازی: لوک گائیکی اور کلاسیکی موسیقی کا بڑا نام

    طفیل نیازی کا نام اپنے فن اور طرزِ گائیکی کے ساتھ اُن لوک گیتوں کے طفیل آج بھی زندہ ہے جو قدیم روایات اور ثقافت بیان کرتے ہیں، جن کے میٹھے بول سماعتوں کو اپنا اسیر بنا لیتے ہیں۔ طفیل نیازی نے دنیائے فانی کو 1990ء میں آج ہی کے خیر باد کہہ دیا تھا۔ آج پاکستان کے اس معروف لوک گلوکار کی برسی ہے۔

    جب لاہور ٹیلی وژن سینٹر پر نشریات کا آغاز ہوا تو طفیل نیازی وہ پہلے لوک گلوکار تھے جنھیں اسکرین پر دیکھا گیا۔ لاہور مرکز سے موسیقی کا پہلا پروگرام ذکا درّانی نے پیش کیا تھا جس میں طفیل نیازی نے گیت ’’لائی بے قدراں نال یاری، تے ٹُٹ گئی تڑک کر کے‘‘ پیش کیا اور یہ گیت مقبول ہوا۔ نیازی صاحب نے 70 کی دہائی کے آغاز میں پی ٹی وی کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں بطور موسیقار اور گلوکار بھی نظر آئے۔ طفیل نیازی کے مشہور گیت ’’ساڈا چڑیاں دا چنبھا‘‘، ’’میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال‘‘، ’’دُور جا کے سجناں پیارے یاد آن گے‘‘، ’’سجناں وچھوڑا تیرا جند نہ سہار دی‘‘ آج بھی سامعین کو مسحور کر دیتے ہیں۔

    طفیل نیازی 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ ملتان آگئے اور پھر لاہور میں اقامت اختیار کی۔ ممتاز مفتی نے تقسیمِ ہند کے بعد طفیل نیازی کی پاکستان ہجرت اور یہاں ان کی زندگی اور فن کے بارے میں لکھا ہے:’’پاکستان میں اسے ملتان لے جایا گیا۔ وہ علاقہ نہ رہا، عزیز اقارب نہ رہے، پروانے نہ رہے۔ وہ ایک بیگانے شہر میں اجنبی کی حیثیت سے آ پڑا۔ جوں توں کر کے اُسے سر چھپانے کے لیے ایک مکان تو مل گیا لیکن گزارے کی صورت پیدا نہ ہوئی۔ آخر زِچ ہو کر اُس نے ملتان میں حلوائی کی دکان کھول لی اور دودھ دہی اور مٹھائی بیچ کر گزارہ کرنے لگا۔ چند ایک ماہ بعد ملتان کا ایک پولیس افسر طفیل کی دکان پر آنکلا۔ وہ طفیل کا پرانا فین تھا۔ اس نے طفیل کو پہچان لیا۔ بولا ’’طفیل دکان داری کر رہے ہو۔ نہیں، یہ نہیں ہوگا۔ بھئی اپنا کام کیوں نہیں کرتے۔ طفیل نے کہا اپنا کام کیسے کروں؟ نہ ساز ہے نہ ساتھی۔ پولیس افسر نے مال خانے سے اسے ساز دلا دیے اور اس نے گھوم پھر کر چند ساتھی تلاش کرلیے۔ اس کے بعد پولیس افسر نے ایک سنگیت محفل کا انتظام کیا اور طفیل کو شہر کے لوگوں سے متعارف کرایا۔ یوں طفیل کی سنگیت پارٹی پھر سے وجود میں آ گئی اور ملتان کے گرد و نواح میں اس کی شہرت پھیلنے لگی۔

    طفیل نیازی کو شروع ہی سے لوک موسیقی اور صوفیانہ کلام میں دل چسپی تھی، ان کا تعلق پکھاوج بجانے کے ماہر خاندان سے تھا۔ طفیل صاحب نے آٹھ سال ہی کی عمر سے گانا شروع کردیا تھا، موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد حاجی رحیم بخش سے حاصل کی۔ بعد میں کئی مقامی سنگیت کاروں کے ساتھ رہے، ان سے سیکھا اور اس فن میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ان کے بارے میں معروف ناول نگار اور صحافی انور سِن رائے لکھتے ہیں، ‘طفیل نیازی یوں تو ایک لوک گلوکار کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن انہیں کلاسیکی موسیقی پر جو دسترس تھی اس کے ہم سر بھی کم ہی ہیں۔ طفیل نیازی نے بہت کم جگہوں پر اپنے ہی گانوں کی وہ بندشیں گائی ہیں جو مقبول عام انداز کی کہلائی جا سکتی ہیں۔’

    پھر طفیل نیازی نے نوٹنکیوں میں جانا شروع کیا اور مختلف تقاریب میں گانے بجانے سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ کسی طرح ٹیلی وژن تک بھی رسائی ہو گئی۔ طفیل صاحب نے سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے لوک کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں مرکزی کردار بھی نبھائے۔ لیکن ان کا اصل میدان گلوکاری تھا۔ اس میدان میں مقامی سطح پر حوصلہ افزائی نے طفیل نیازی میں مزید آگے بڑھنے پر اکسایا اور وہ ایک سنگیت گروپ تشکیل دینے میں کام یاب ہوگئے۔

    70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے بھی وابستہ رہے اور اسی زمانے میں چند گانوں کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی۔ 1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

    لوک گلوکار طفیل نیازی اسلام آباد کے قبرستان میں مدفون ہیں۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل انھیں فالج ہوا تھا۔ کلاسیکی موسیقی اور لوک گائیکی کے اس بڑے نام کے دو بیٹے جاوید نیازی اور بابر نیازی بھی اسی فن کی بدولت پاکستان اور دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کے سینئر اداکار کمال ایرانی کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری اور ٹیلی ویژن کے سینئر اداکار کمال ایرانی کا تذکرہ

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد لاہور میں سکونت پذیر کمال ایرانی کراچی منتقل ہوگئے تھے جہاں 1989ء میں آج ہی کے روز ان کا انتقال ہوگیا۔ کراچی ان کی جائے پیدائش بھی تھا اور یہیں کمال ایرانی کو پہلی مرتبہ فلم میں کردار نبھانے کا موقع ملا تھا۔

    کمال ایرانی نے اپنے فلمی سفر کا آغاز ’چراغ جلتا رہا‘ سے کیا تھا اور یہ فلم 1961ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ فلم ’’چراغ جلتا رہا‘‘ کے فلم ساز، ہدایت کار اور مصنف فضل کریم فضلی تھے جنھوں نے کراچی میں ایک فلمی ادارہ قائم کیا، جس کا آفس ناظم آباد میں تھا، اور اسی کے بینر تلے یہ فلم بنانے کا اعلان کیا۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب اور یادگار فلم تھی جس کے تمام مرکزی کردار نئے چہرے تھے۔ کمال ایرانی کو بھی اس فلم میں پہلی بار متعارف کروایا گیا۔ ان کے علاوہ فلم ’چراغ جلتا رہا‘ نے فلمی صنعت کو محمد علی، زیبا اور دیبا جیسے مایہ ناز فن کاروں دیے۔ کمال ایرانی کی یہ کام یاب فلم 1962ء میں عیدالفطر کے روز کراچی کے نشاط سنیما میں ریلیز ہوئی اور مجموعی طور پر اسکرین ہونے کے بعد سلور جوبلی مکمل کی۔ اس کے بعد یہ لاہور اور حیدرآباد میں سنیماؤں پر چلی تھی۔ کمال ایرانی کی اس فلم کا کراچی کے نشاط سنیما میں پریمیئر شو بڑے اہتمام سے رکھا گیا، جس میں مادر ملّت محترمہ فاطمہ جناح نے شرکت کی تھی۔

    کراچی میں 5 اگست 1932ء کو پیدا ہونے والے کمال ایرانی کا اصل نام کمال الدّین صفوی تھا۔ فلم کی دنیا میں بطور اداکار قدم رکھنے کے بعد انھیں کمال ایرانی کے نام سے پہچان ملی۔ اپنے فنی سفر میں‌ نے لگ بھگ ڈھائی سو فلموں میں کام کرنے والے کمال ایرانی نے اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبانوں میں بننے والی فلمیں‌ بھی کیں اور شائقینِ سنیما کو اپنی پرفارمنس سے متاثر کیا۔

    فلم ”چراغ جلتا رہا“ کے بعد کمال ایرانی کو ”ہمیں بھی جینے دو“ اور ”دل نے تجھے مان لیا“ میں‌ کردار ادا کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے فلم بینوں کی توجہ حاصل کی۔ لیکن ان کی اصل وجہِ‌ شہرت 1964 کی فلم ”ہیرا اور پتّھر“ بنی۔

    فلم بینوں نے کمال ایرانی کو مثبت اور سنجیدہ کرداروں کے علاوہ ولن کے روپ میں بھی دیکھا اور پسند کیا۔ انھیں اپنے وقت کے مقبول ترین اداکاروں محمد علی، وحید مراد، ندیم، سدھیر، زیبا ، دیبا ، شمیم آرا اور دیگر کے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا، بعد میں کمال ایرانی نے ٹی وی کے ڈراموں میں بھی اداکاری کی اور چھوٹی اسکرین کے ناظرین کو بھی اپنی اداکاری سے محظوظ کیا۔

  • کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کنور آفتاب سنہ 2010ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ کئی یادگار ڈرامے اور دستاویزی پروگرام کنور آفتاب کا نام اس شعبے کے ایک باکمال اور بہترین فن کار کے طور پر زندہ رکھیں‌ گے۔

    پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی اس شعبے میں قدم رکھنے والے فن کاروں اور قابل و باصلاحیت پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں میں ایک کنور آفتاب بھی تھے جن کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ لاہور میں تیار ہوا، لیکن سینسر کی زد میں آگیا۔ تاہم بعد کے ادوار میں انھوں نے کئی یادگار ڈرامے پی ٹی وی کو دیے۔

    کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔

    اس فلم کی ناکامی کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے کام لے کر ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ اردو ڈرامہ کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا: ایک نظریہ ساز تخلیق کار

    ڈاکٹر وزیر آغا کا اردو ادب میں تنقید کے میدان میں نفسیاتی مباحث اور انشائیہ نگاری کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے اپنے منفرد اسلوب کے ساتھ اصنافِ ادب کو نیا آہنگ دیا۔ 7 ستمبر 2010ء کو ڈاکٹر وزیر آغا وفات پا گئے تھے۔

    سینئر صحافی، براڈ کاسٹر اور محقق عارف وقار وزیر آغا کی وفات پر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں، اُردو کے بزرگ قلم کار مولانا صلاح الدین احمد جو اپنے ادبی پرچے کے ذریعے ہندوستان بھر کے نوجوان ادیبوں کی تربیت کر رہے تھے اور کرشن چند، راجندر سنگھ بیدی، کنہیا لال کپور جیسے نثر نگاروں کے ساتھ ساتھ ن م راشد، فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی جیسے شعرا کو بھی منظرِ عام پر لا چکے تھے، اُن کی نگاہِ جوہر شناس جب وزیر آغا پر پڑی تو فوراً انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ اقتصادیات، نفسیات اور فلسفے کے جو مضامین کبھی اُردو میں زیرِ بحث نہیں آئے تھے، ان کے لیے اپنے پرچے کے صفحات کھول دیے۔

    وزیر آغا نے مسرت کی نوعیت، مسرت کی اقسام اور حصولِ مسرت کے ذرائع پر جو کچھ لکھا مولانا نے اپنے تعارفی نوٹ کے ساتھ اسے ایک کتابی شکل میں شائع بھی کرایا اور یوں نوجوان وزیر آغا کی کتاب "مسرت کی تلاش” منظرِ عام پر آئی۔ لیکن جلد ہی معلوم ہوگیا کہ یہ تو نوجوان قلم کار کی جولانیِ طبع کا صرف ایک پہلو تھا۔ اُن کا اصل جوہر اُردو شاعری کے اُن تجزیاتی مضامین میں کھلا جو "ایک مثال” کے عنوان سے ماہنامہ ادبی دنیا میں سلسلہ وار شائع ہوئے۔ 1960 میں مولانا صلاح الدین احمد نے انھیں اپنے جریدے کی مجلسِ ادارت میں شامل کر لیا اور وہ تین برس تک ساتھی مدیر کے طور پر کام کرتے رہے۔

    عارف وقار اسی مضمون میں مزید لکھتے ہیں: سن پچاس کے عشرے میں انھوں نے مسرت کے موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے دنیا بھر کے مزاحیہ ادب کا مطالعہ بھی کیا اور انھی دنوں اُن کا تحقیقی کارنامہ اردو ادب میں طنز و مزاح سامنے آیا جسے 1956 میں پنجاب یونیورسٹی نے ایک اوریجنل تحقیقی کام قرار دیتے ہوئے وزیر آغا کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری پیش کی۔

    اُردو ادب کی تاریخ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا نام دو حیثیتوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ ایک تو انھوں نے اردو ادب میں انشائیے کی صنف کو فروغ دینے کے لیے ایک تحریک کی سطح پر کام کیا اور دوسرے انھوں نے اُردو تنقید کو جدید نفسیاتی مباحث سے روشناس کرایا۔

    اوراق ڈاکٹر وزیر آغا کا ایک ادبی رسالہ تھا جسے اردو دنیا میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے متعلق عارف وقار لکھتے ہیں: انشائیے کی ترویج میں اُن کے ادبی رسالے اوراق نے انتہائی اہم خدمات سر انجام دیں۔ وزیر آغا نہ صرف خود انشائیہ لکھتے تھے بلکہ نوجوان ادیبوں کو اس کی ترغیب بھی دیتے تھے اور اُن کے معیاری انشائیے اپنے رسالے میں باقاعدگی سے شائع کرتے تھے۔ بہت سے ادیبوں کو یہ شکوہ رہا کہ وزیر آغا نے ان کی تحریر کو بطور انشائیہ قبول نہیں کیا بلکہ مزاحیہ مضمون کا عنوان دے کر شائع کیا۔

    اس سلسلے میں وزیر آغا کا موقف انتہائی واضح تھا۔ وہ ہر ہلکی پھلکی یا مزاحیہ تحریر کو انشائیہ قرار دینے پر تیار نہ تھے کیوں کہ اُن کے بقول انشائیے میں ایک خاص طرح کی” ذہانت کی چمک” ہونا ضروری تھا۔

    وزیر آغا کا تعلق سرگودھا کے علمی اور ادبی گھرانے سے تھا جہاں وہ 18 مئی 1922ء کو پیدا ہوئے۔ فارسی کی تعلیم والد سے اور پنجابی زبان اپنی والدہ سے سیکھی۔ وزیر آغا نے گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا۔ 1956ء میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے طنز و مزاح کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند لی اور ادبی صحافت کے ساتھ تحقیقی اور تخلیقی کاموں‌ میں مشغول رہے۔

    تین برس تک مشہور جریدے ’’ادبی دنیا‘‘ کے شریک مدیر کے طور پر کام کیا اور 1966 میں ’’اوراق ‘‘ کی بنیاد رکھی۔

    اردو ادب میں انشائیہ نگاری کو خاص اہمیت اور مقام دیا جاتا ہے اور یہ صنف بلندیٔ خیال، نکتہ آفرینی، اسلوب اور معیار کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے اس صنف کو خوب سنوارا اور لاجواب انشائیے تحریر کیے۔ انھوں نے انشائیے کی تعریف اور اس کے خدوخال پر بات کی۔ ان کے انشائیے اردو ادب کا بڑا سرمایہ ہیں۔

    کہا جاتا ہے کہ اردو میں مغربی انشائیوں کے خطوط پر انشائیہ کو استوار کرنے کی کوششیں اس وقت پر منظرِ عام پر آئیں جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ماہنامہ اوراق کے ذریعے انشائیوں کے فروغ کا خصوصی اہتمام کیا نیز مضامین اور انشائیہ لکھ کر اسے طنزیہ اور مزاحیہ مضمون سے الگ ایک صنف کے طور پر متعارف کروایا۔ 1950 سے 1960 کے درمیان وزیر آغا نے مغربی انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو پیشِ نظر رکھ کر نہ صرف انشائیے تحریر کیے بلکہ اسے ایک ادبی تحریک کی شکل دی۔

    انشائیہ کی تعریف وزیر آغا اس طرح بیان کرتے ہیں: ’انشائیہ اس نثری صنف کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کر تے ہوئے اشیاء و مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔‘

    مشتاق احمد یوسفی نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فنِ انشائیہ نگاری پر لکھا ہے: ” وزیر آغا کا انشائیہ ان کی رنگا رنگ شخصیت کا عکسِ جمیل ہے۔ ان کی طبیعت میں جو دل آویزی، نرمی، رچاؤ اور شائستگی ہے۔ زمین کے رشتوں کو انہوں نے جس طرح چاہا اور نبھایا ہے وہ ایک ایک سطر سے جھلکتا ہے۔“

    ڈاکٹر وزیر آغا نے تنقید اور تحقیقی مضامین کی صورت میں اردو ادب کو کئی قابلِ ذکر اور یادگار کتب دیں جن میں تنقیدی مضامین نظمِ جدید کی کروٹیں، تنقید اور احتساب، نئے مقالات، نئے تناظر، دائرے اور لکیریں، تنقید اور جدید اردو تنقید کے شامل ہیں۔ دیگر کتابوں میں اردو ادب میں طنز و مزاح، اردو شاعری کا مزاج، تخلیقی عمل، مجید امجد کی داستانِ محبّت، غالب کا ذوقِ تماشا کے نام لیے جاسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر وزیر آغا نے شاعری بھی کی اور ان کے متعدد شعری مجموعے شایع ہوئے۔ شام اور سائے، دن کا زرد پہاڑ، نرد بان، اک کتھا انوکھی، یہ آواز کیا ہے، چٹکی بھر روشنی ان کے چند شعری مجموعوں کے نام ہیں۔

    اردو کے ممتاز نقّاد، انشائیہ نگار، شاعر اور محقّق ڈاکٹر وزیر آغا کو ضلع سرگودھا میں ان کے آبائی گاؤں وزیر کوٹ کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ’’شام کی منڈیر‘‘ کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی ایک خودنوشت بھی شایع ہوچکی ہے۔

  • اشفاق احمد: باکمال افسانہ نگار اور ایک مقبول قصّہ گو

    اشفاق احمد: باکمال افسانہ نگار اور ایک مقبول قصّہ گو

    اردو اور پنجابی زبان کے نام وَر ادیب اشفاق احمد ایک افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس ہی نہیں عام لوگوں کے لیے ایک صوفی دانش وَر بھی تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کی بات کی جائے تو اشفاق احمد سے ان کا تعارف افسانوں کے ذریعے ہوا اور بعد میں وہ ایک ڈرامہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے اور پھر ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام نے ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اشفاق احمد کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔ ان میں ’گڈریا‘ کو بہت مقبولیت ملی۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں ایک صوفی دانش ور کی حیثیت سے ہر خاص و عام کو متأثر کیا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔ اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    لائم اوفلاہرٹی: اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار

    دنیا کی کئی مشہور اور اپنے شعبے میں قابل اور باصلاحیت شخصیات کی طرح لائم اوفلاہرٹی نے بھی بچپن اور نوعمری میں غربت اور معاشی مسائل دیکھے، لیکن ذہانت اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت ایک تخلیق کار کے طور پر نام و مقام بنایا۔ لائم اوفلاہرٹی اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔

    اوفلاہرٹی کو اپنی مادری زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ آئرش تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کی ترویج اس کا ایک جنون تھا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا اور اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی تخلیقات میں عام لوگوں کے نقطۂ نظر کو پیش کیا اور اس کے افسانے عام آدمی کی زندگی کے تجربات پر مبنی ہوتے تھے۔

    بیسویں صدی کا یہ نام وَر ادیب 28 اگست 1896ء کو آئرلینڈ میں پیدا ہوا اور طویل عمر پائی۔ اس کی زندگی کا سفر 7 ستمبر 1984ء کو تمام ہوا۔ اوفلاہرٹی کا بچپن غربت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کئی محرومیوں کا شکار رہا۔ وہ شروع ہی سے اپنی مادری زبان اور اپنی ثقافت کا دیوانہ تھا۔ اس نے اسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اس زمانے کے رواج کے مطابق مذہبی تعلیم بھی حاصل کی۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی پیشوا بن کر تبلیغ کا فریضہ انجام دے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1917ء میں اوفلاہرٹی کو آئرش گارڈز میں بھرتی ہونا پڑا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح اسے ایک محاذِ جنگ پر بھیج دیا گیا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جو لائم اوفلاہرٹی کے لیے خاصا پُرصعوبت اور مشکل ثابت ہوا۔ وہ محاذِ جنگ پر لڑتے ہوئے زخمی ہوگیا اور خاصا عرصہ زیرِ علاج رہا۔ اگرچہ وہ ایک فوجی جوان تھا، لیکن نہ تو وہ سخت دل تھا، نہ ہی لڑاکا۔ اس کے اندر ایک فن کار چھپا تھا۔ وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا حسّاس طبع نوجوان تھا اور یقیناً‌ جنگ اور خون ریزی اس کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ وہ مجبوراً آئرش گارڈ کا حصّہ بنا تھا۔ اس جنگ نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ 1933ء میں اسے دماغی دورہ پڑا جس کا ایک سبب جنگ اور اس میں ہونے والی وہ ہلاکتیں تھیں جو لائم اوفلاہرٹی نے دیکھی تھیں۔ تاہم جنگ کے بعد اس نے اپنا وطن آئرلینڈ چھوڑ دیا اور امریکہ منتقل ہوگیا جہاں کچھ عرصہ ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔ امریکہ ہجرت کرنا لائم اوفلاہرٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی لایا تھا۔ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے وہیں اپنی ادبی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز کیا۔

    1923 میں جب اوفلاہرٹی 27 سال تھا تو اس کی پہلی شارٹ اسٹوری اور ایک ناول شایع ہوچکا تھا۔ بعد میں امریکہ میں رہتے ہوئے اوفلاہرٹی نے انگریزی اور آئرش زبان میں ناول اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے متعدد ناول منظرِ‌عام پر آئے اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ 1950ء میں اوفلاہرٹی کی آخری تخلیق شایع ہوئی تھی۔ لائم اوفلاہرٹی نے شاعری بھی کی۔ اس کے ناولوں میں The Black Soul، The Informer ، The Assassin ، Mr. Gilhooley و دیگر شامل ہیں جن میں سے دی انفارمر سے ماخوذ کہانی کو فلمایا بھی گیا ہے۔ اوفلاہرٹی کے افسانے بھی کتابی شکل میں شایع ہوئے۔

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    برطانوی راج میں ہندوستان کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ قیامِ پاکستان ڈاکٹر صاحب ہجرت کر کے کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور یہاں علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام پیدا کیا۔ آج ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا نام ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد کے طور پر لیا جاتا ہے وہ جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے سربراہ رہے اور کولمبیا یونیورسٹی سے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔

    آگرہ کے ابواللیث صدیقی کا سنہ پیدائش 15 جون 1916ء ہے۔ ان کی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ہوئی جب کہ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی پہلی سند جاری کی۔

    ڈاکٹر صاحب ایک نہایت قابل اور باصلاحیت قلم کار تھے جن کی متعدد تصانیف اردو زبان و ادب سے متعلق ہیں۔ ابواللیث صدیقی صاحب کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کا مقدمہ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنے وقت کی اس فاضل شخصیت کی علمی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا ہے: “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانۂ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    اسی خود نوشت میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ایک تحریر بھی پڑھنے کو ملتی ہے جس میں وہ اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ ”میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدةُ المالک، ملک حمیدالدّین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدّین ہندوستان آئے اور بدایوں پہنچے۔ اس وقت بدایوں کے قاضی محلّے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدّین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: فروری 1979ء میں قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایوں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلّہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلّے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پر کبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چند ہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”

    یہ تحریر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک خوش حال خاندان کے فرد تھے اور اب وہ اپنے کو یاد کرکے کرب محسوس کرتے ہیں، لیکن تقسیمِ‌ ہند کے ساتھ اس دور کے ہر مہاجر خاندان کو کسی ایسے ہی المیّہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔

    ڈاکٹر صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جب میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستانِ شاعری” مکمل کر کے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدّین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے، بہرحال زبانی امتحان کے لیے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچا دیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلائیے۔” رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں۔” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر کہا، ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”

    اردو کے اس ممتاز ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ ان کی خود نوشت کا نام رفت و بود ہے۔ ان کے مضامین پر مشتمل تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات بھی شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر صاحب کو زمانۂ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغانِ عصر اور قابل شخصیات کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    7 ستمبر 1994ء کو ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس دارِ فانی کو خیر باد کہا۔ انھیں جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • اکیرا کورو ساوا:‌عظیم فلم ساز اور کہانی نویس

    اکیرا کورو ساوا:‌عظیم فلم ساز اور کہانی نویس

    اکیرا کورو ساوا کو جاپانی فلمی صنعت اور فن و ثقافت کے میدان کی ایک ہمہ جہت اور متأثر کن شخصیت ہیں جن کا نام سیون سمورائے جیسی فلم کی بدولت عالمی سطح‌ پر نمایاں‌ ہوا اور بعد کے برسوں میں انھوں‌ نے ایک عظیم جاپانی فلم ساز اور کہانی نویس کے طور پر شہرت پائی۔

    اکیرا کورو ساوا کا نام بعد از مرگ اُن ایشیائی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا گیا، جن کی شخصیت اور کام نے ادب و فنون اور ثقافت پر گہرے نقوش چھوڑے۔ یہ نام انگریزی زبان کے مقبول ترین جریدے ایشین ویک نے اپنی مرتب کردہ ایک فہرست میں شامل کیا ہے۔ انھیں ایشیائی ممالک میں فن و ثقافت کی ترویج اور ترقّی میں بیسویں‌ صدی کی ایک قابلِ قدر شخصیت کہا گیا۔ اکیرا کورو ساوا کو ان کی زندگی میں اعزازی طور پر اکیڈمی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    معروف فلمی ناقد، مصنّف اور مترجم خرّم سہیل اکیرا کورو ساوا کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں‌ لکھتے ہیں: انہوں نے مصوری سے اپنے فنی سفر کی ابتدا کی، آگے چل کر یہ شوق فلم سازی کے مشغلے میں بدل گیا۔ ان کی فلموں کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ فلموں میں فریم سیٹ کرنے کے بجائے منظر کو سیٹ کرتے تھے۔ ان کا بنایا ہوا فریم کوئی پینٹنگ ہی محسوس ہوتا اور یہ خوبی ان کی اکثر فلموں میں دیکھی بھی جاسکتی ہے، یہ ان کی مشہور سنیما تکنیک میں سے ایک تھی جس کے لیے وہ عالمی طور پر پہچانے جاتے ہیں۔

    اکیرا کورو ساوا کی ابتدائی زندگی اور ان کے گھر کے ماحول کے بارے میں‌ خرّم سہیل لکھتے ہیں: اکیرا کورو ساوا کو والد کی طرف سے ورثے میں ’سمورائی ثقافت‘ ملی تھی۔ والدہ اوساکا شہر کے تاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، لہٰذا ان کی ذات ٹوکیو اور اوساکا دونوں شہروں کے مزاج کا حسین امتزاج تھی۔ 8 بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے ناتے گھر میں سب کی آنکھوں کا تارا بھی تھے۔ والد کی طرف سے تربیت میں مشرقی تمدن کے ساتھ ساتھ مغربی علوم اور افکار بھی ملے، جس سے ان کی شخصیت میں ہمہ جہتی رنگ در آئے۔ خاص طور پر مغربی تھیٹر اور فلموں کو بھی ان کے لیے تعلیم کا حصہ سمجھا گیا، یوں کم عمری میں ان کی رسائی مغربی سنیما تک ہوئی جس سے ان کے فلمی ذوق کی نشو و نما ہوئی۔ یہی وہ حالات ہیں جن کی وجہ سے جاپان کو ایک ایسا عظیم فلم ساز میسر آیا۔ اسکول کے زمانے میں ان کو ایسے اساتذہ بھی میسر آئے، جنہوں نے روشن خیالی کے تحت ان کی تدریسی اور فکری تربیت کی جس کے اثرات ان کی پوری زندگی پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔

    جاپان میں 1910ء میں پیدا ہونے والے اکیرا کورو ساوا 1998ء آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    بطور ہدایت کار اکیرا کورو ساوا کا امتیاز فلموں کی عکس بندی کا نہایت متأثر کن انداز تھا۔ وہ مناظر عکس بند نہیں کرتے تھے بلکہ ایک باکمال موسیقار کی طرح خوب صورتی سے ترتیب دیا کرتے تھے۔ فلم سازی کی یہی خصوصیت انھیں اپنے ہم عصر فلم سازوں اور ہدایت کاروں سے نہ صرف منفرد بناتی ہے بلکہ اس طرح وہ فلم بینوں کو بھی کہانی کے آغاز سے انجام تک جوڑے رکھنے میں‌ کام یاب رہے۔

    1936ء میں اکیرا کورو ساوا نے فلم انڈسٹری میں اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ فلم ڈائریکٹر اور منظر نگار کی حیثیت سے ان کا یہ سفر 57 سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے 30 فلمیں بنائیں اور عالمی سطح پر پذیرائی سمیٹی۔ بطور اسکرپٹ رائٹر انھوں نے لگ بھگ 80 فلمیں لکھیں۔ 1950ء سے 1960ء کے دوران تقریباً ہر سال اکیرا کورو ساوا نے اپنی ایک فلم ضرور مکمل کی۔ اس عشرے میں راشومون، یوجیمبو، ہائی اینڈ لو، دی بیڈ سلیپ ویل اور دیگر فلمیں سامنے آئیں۔ ’سیون سمورائے‘، ’رین‘ اور ’دا ہڈن فورٹریس‘ اکیرو کی شاہ کار فلمیں تھیں۔

    وہ ایک ایسے فلم ساز تھے جو مطالعہ کو بہت اہمیت دیتے تھے، ان کا خیال تھا کہ صرف اچھا اسکرپٹ رائٹر بننے کے لیے ہی نہیں‌ ایک بہترین ہدایت کار کے لیے بھی مطالعہ کرنا اور بالخصوص روسی ادب کو پڑھنا ضروری ہے۔

    اکیرا کورو ساوا عمر کے آخری حصّے میں ایک حادثے کے سبب وہیل چیئر پر آگئے تھے اور اس معذوری نے انھیں‌ کیمرے سے دور کر دیا تھا۔

  • ایورنیو اسٹوڈیو والے آغا جی اے گُل کا تذکرہ

    ایورنیو اسٹوڈیو والے آغا جی اے گُل کا تذکرہ

    پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام اور فلم سازی کے حوالے سے چند بڑے اور نمایاں ناموں میں سے ایک نام آغا جی اے گُل ہے جنھوں نے تقسیمِ ہند کے بعد یہاں فلم اسٹوڈیو بھی قائم کیا اور اس صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

    آغا جی اے گُل کے لاہور میں قائم کردہ ایورنیو اسٹوڈیو کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور یہ ادارہ فلم سازی کے ساتھ لوگوں کو سنیما کی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنا۔ اُس زمانے میں ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی جس کے بینر تلے فنونِ لطیفہ اور سنیما کی دنیا میں قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار آغا جی اے گُل ایک عرصہ تک پشاور کے تصویر محل سنیما کے سرپرست بھی رہے۔ انھوں نے اس شعبے کے لیے پاکستان میں گراں قدر خدمات انجام دیں جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ آغا جی اے گل 1983 میں لندن میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    آغا جی اے گل نے کبھی کوئی فلم بطور ہدایت کار یا مصنّف نہیں بنائی، لیکن فلم ساز کے طور پر اپنی دو درجن فلموں کے باوجود انھیں عام طور پر فلم اسٹوڈیو اور فلم کمپنی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے قائم کردہ ادارے ‘ایورنیو پکچرز’ کے تحت بننے والی پہلی فلم مُندری تھی جو پاکستان میں 1949ء میں بننے والی دوسری پنجابی فلم تھی۔ یہ ایک رومانوی اور نغماتی فلم تھی جس کے ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے بھی ہدایت کار تھے۔

    آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا۔ 19 فروری 1913 کو پیدا ہونے والے اس فلم ساز نے اپنی اوّلین کاوش یعنی فلم مندری کے بعد پاکستانی سنیما کو اپنے ایورنیو پروڈکشنز کے تحت کئی یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں‌ تھیں اور آغا جی اے گل کے اسٹوڈیو نے کئی فن کاروں کو بھی آگے آنے کا موقع دیا۔ ان میں‌ اداکار ہی نہیں ہدایت کار اور فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں کے وہ آرٹسٹ شامل ہیں جو تقسیم سے قبل کولکتہ اور بمبئی میں کسی نہ کسی حیثیت میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے تھے اور قیامِ‌ پاکستان کے بعد یہاں آکر فلمی دنیا میں کام کی تلاش میں‌ تھے۔

    آغا جی اے گل کا ایورنیو اسٹوڈیو اپنے زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ ایسا اسٹوڈیو تھا جس نے نہ صرف پاکستانی شائقینِ سنیما کو معیاری فلمیں دیں بلکہ اس کے وسیلے سے کئی فن کاروں نے اپنے کنبے کی کفالت بھی کی۔ اس اسٹوڈیو میں‌ کئی مشہور اور کام یاب فلموں‌ کی عکس بندی کی گئی۔ یہاں فن کاروں کا میلہ لگا رہتا تھا جب کہ لاہور کے شہری بڑی تعداد میں فلم کی شوٹنگ اور اپنے پسندیدہ اداکار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے یہاں کے آیا کرتے تھے اور اسٹوڈیو کے باہر لوگوں کا رش رہتا تھا۔

    آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔