Tag: ستمبر برسی

  • حسن عابدی: ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک معتبر نام

    حسن عابدی: ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک معتبر نام

    آج اردو کے ترقّی پسند شاعر، ادیب اور صحافی حسن عابدی کی برسی ہے۔ وہ 2005ء میں وفات پاگئے تھے۔ حسن عابدی کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔

    حسن عابدی کا اصل نام سیّد حسن عسکری تھا۔ وہ 7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ اور الہ آباد کے تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کرنے والے حسن عابدی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آگئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوئے۔ حسن عابدی نے لاہور ہی میں 1955 میں روزنامہ آفاق سے وابستگی اختیار کرکے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا اسی زمانے میں شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کے زیرِ ادارت جریدہ لیل و نہار شایع ہوتا تھا اور حسن عابدی کو بھی اس سے منسلک ہونے کا موقع ملا۔ اس دوران انھیں کئی نام ور ادیبوں، شعراء اور اہلِ قلم کی صحبت میسر آئی اور حسن عابدی کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔ وہ کراچی منتقل ہوئے یہاں بھی صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہا اور کالم نگاری کا مشغلہ اپنایا۔

    اردو زبان و ادب سے متعلق حسن عابدی کے مضامین اور تراجم کو بھی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور ان کے کالم بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔ حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشتِ نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ اردو ادب میں آپ بیتی اور تذکرے و یادداشتیں بھی مقبول رہی ہیں اور خاص طور پر وہ شخصیات جنھوں نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہو، ان کے پاس کئی اہم اور دل چسپ واقعات، مختلف شخصیات کے تذکرے اور بہت سے قصائص ضرور ہوتے ہیں، اور حسن عابدی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے طویل عرصہ اس دشت کی سیاحی میں‌ گزارا تھا اور مشاہیر سے ان کی رفاقت رہی تھی۔ سو، جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی حسن عابدی نے رقم کیں‌۔ حسن عابدی نے ایک کتاب بھارت کا بحران کے عنوان سے ترجمہ بھی کیا تھا۔

    حسن عابدی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور کئی کہانیاں اور نظمیں ان کے قلم سے نکلیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب شریر کہیں‌ کے بھی شایع ہوئی اور ان کی کہانیاں بھی کتابی شکل میں اکٹھی کی گئیں۔ صحافت کے موضوع پر ان کی ایک نہایت عمدہ کتاب اردو جرنلزم کے عنوان سے شایع ہوئی جو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں اور تمام صحافیوں کی راہ نمائی کرتی ہے ار بالخصوص طلباء کے فہم کے پیشِ نظر فاضل مصنّف نے اس میں سادہ اور آسان زبان میں صحافت کی باریکیوں اور مسائل پر لکھا ہے۔

    اس زمانے میں جب پاکستان میں ترقی پسند ادب سے وابستہ قلم کاروں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں۔ حسن عابدی کو بھی اپنے نظریات کی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ جیل گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں حسن عابدی روزنامہ ڈان سے منسلک تھے۔

    یہاں ہم حسن عابدی کی غزل سے دو اشعار نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • پنجابی فلموں کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے وارث لدھیانوی کا تذکرہ

    پنجابی فلموں کے لیے لازوال گیت تخلیق کرنے والے وارث لدھیانوی کا تذکرہ

    وارث لدھیانوی کا نام پنجابی فلموں کے گیت نگار کی حیثیت سے ہمیشہ زندہ رہے گا۔ پاکستان کی 1959ء میں بننے والی پنجابی زبان کی سب سے بڑی فلم کرتار سنگھ کو قرار دیا جاتا ہے جس کا یہ گیت لازوال اور ایک شاہ کار ثابت ہوا: "دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا، امڑی دے دل دا سہارا نی ویر میرا گھوڑی چڑھیا۔” آج اسی گیت کے خالق وارث لدھیانوی کی برسی ہے۔

    اس لافانی گیت کی دھن سلیم اقبال صاحبان نے بنائی تھی اور گلوکارہ نسیم بیگم کے ساتھ ان کی سکھیوں نے آواز ملائی تھی۔ وارث لدھیانوی کے تحریر کردہ اردو گیت برائے نام ہی تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد جب یہاں فلمی صنعت کی بنیاد رکھی گئی تو جہاں فلم رائٹر، شاعر، اداکار اور دوسرے شعبوں میں باکمال شخصیات سامنے آئیں، وہیں فنِ موسیقی کے ایک درخشاں دور کا بھی آغاز ہوا۔ وہ زمانہ گویا ایسا نولکھا ہار تھا، جس میں ہر فن کار اپنے مقام پر ایک ہیرا تھا اور جگمگ جگمگ کرتا نظر آتا تھا۔ اسی دور میں وارث لدھیانوی پنجابی زبان میں اپنے گیتوں کی مالا کے ساتھ سرِفہرست تھے۔ انھوں نے فلم کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیے لیکن ان کی وجہِ شہرت نغمہ نگاری ہے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس گیت نگار کا اصل نام چوہدری محمد اسماعیل تھا۔ وہ 11 اپریل 1928ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز کیا تو ابتدائی دور میں عاجز تخلص کیا اور بعد میں پنجابی کے نام وَر اور عوامی شاعر استاد دامن کے شاگرد ہوگئے اور وارث تخلّص اختیار کیا۔ وارث لدھیانوی نے پنجابی فلموں کے لیے بے شمار نغمات تحریر کیے جو فلم کرتار سنگھ، مکھڑا، رنگیلا، دو رنگیلے، باؤ جی، شیر خان اور شعلے میں شامل ہوئے اور ان کی فلموں کی کام یابی کی ایک وجہ بنے۔

    وارث لدھیانوی نے دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک فلمی صنعت کے لیے گیت نگاری کی اور اپنے وقت کے مایہ ناز موسیقارو‌ں کے ساتھ کام کیا جن میں بابا جی اے چشتی، ماسٹر عنایت، رشید عطرے، صفدر حسین و دیگر شامل ہیں ان کے گیتوں کو پاکستان کے مشہور گلوکاروں نے گایا اور فلم انڈسٹری میں اپنا کریئر بنانے میں کام یاب ہوئے۔

    وارث لدھیانوی 1992ء میں آج ہی کے روز لاہور میں انتقال کرگئے تھے۔

  • شمس زبیری: اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا فراموش کردہ نام

    شمس زبیری: اردو ادب اور صحافت کی دنیا کا فراموش کردہ نام

    اردو ادب اور صحافت کی دنیا کے کئی نام ایسے ہیں جنھیں فراموش کیا جا چکا ہے۔ معروف شاعر، صحافی شمس زبیری بھی انہی میں سے ایک ہیں جو براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں زبان و بیان کی درستی اور اصلاح کے لیے مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    شمس زبیری 1999ء میں انتقال کر گئے تھے۔ ریڈیو پاکستان پر ملازمت حاصل کرنے کے بعد شمس زبیری نے اپنے زمانے کے اس مقبول میڈیم پر خبرنامہ اور اسکرپٹ پڑھنے والوں کو درست اور معیاری تلفظ کے ساتھ زبان و بیان کی باریکیاں سمجھائیں جب کہ اپنے جاری کردہ رسائل کے ذریعے بھی اردو زبان کی خدمت اور فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بھی ادبی تذکروں میں پڑھنے کو ملتا ہے جو ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں: پچاس کی دہائی کا تذکرہ ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی میں ارمؔ لکھنوی اور شمس زبیری ’’مصلح زبان‘‘ کی ملازمتوں پر فائز تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ ریڈیو پر پڑھے جانے والے الفاظ کا تلفظ درست کروائیں۔ مگر قباحت یہ تھی کہ ارمؔ لکھنوی دبستانِ لکھنو سے وابستہ تھے اور شمس زبیری دبستانِ دہلی سے۔ اس وجہ سے ان دونوں میں اکثر تکرار بھی ہو جاتی تھی۔ زیڈ اے بخاری ان دنوں ریڈیو کے ڈائریکٹر ہوا کرتے تھے۔ ایک دن اُن کو شکایت ملی کہ کل کسی لفظ کے تلفظ کی صحت پر ارمؔ لکھنوی اور شمس زبیری میں تکرار اتنی بڑھی کہ نوبت گالم گلوچ تک پہنچ گئی۔ بخاری صاحب نے ارمؔ لکھنوی کو بلایا اور وجہ پوچھی۔ ارمؔ صاحب نے کہا: ’’ایک تو زبیری صاحب کو فلاں لفظ کا صحیح تلفظ نہیں معلوم۔ پھر مجھے گالی دی تو اس کا تلفظ بھی غلط تھا۔ میں نے تو صرف ان کا تلفظ درست کرنے کے لئے وہی گالی درست تلفظ کے ساتھ دہرائی تھی۔ اب وہ کہتے ہیں کہ میں نے جوابی گالی دی۔‘‘

    شمس زبیری نے بچّوں‌ کے رسائل کی ادارت کا کام انجام دینے کے ساتھ ایک ادبی جریدہ ’’نقش‘‘ شروع کیا تھا جس میں علمی و ادبی موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب شامل ہوتا تھا۔ یہ رسالہ جلد ادبی حلقوں اور قارئین میں مقبول ہوگیا۔ ’’نقش‘‘ کے لیے شمس زبیری کو صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا تعاون بھی حاصل تھا جن کی ادارت اور تجاویز نے اسے معیاری اور مقبول رسالہ بنایا۔ اکبر روڈ پر شمس زبیری نے ’’کاشانۂ اردو‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جہاں سے بچّوں کا ایک پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ جاری ہوا کرتا تھا اور یہ بھی اپنے دور کا معیاری پرچہ تھا جس کے لیے علمی و ادبی شخصیات کے تعاون سے شمس زبیری نے بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کا اہتمام کیا۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور صحافی کا سنہ پیدائش 1917ء ہے اور وہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ ان کی آخری آرام گاہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں ہے۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر ہے۔

    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے

  • اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    پاکستان میں فنِ مصوّری کے میدان میں‌ اپنے کام کی بدولت شناخت بنانے والوں‌ میں‌ احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ یکم ستمبر 2006ء میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بانیِ پاکستان نے ان سے اپنا پورٹریٹ بنوایا۔

    وہ اے ایس ناگی کے نام سے بھی معروف تھے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند اور قیامِ پاکستان عمل میں‌ آیا اور یوں‌ 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کی مشق کی۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی اپنے فنِ مصوّری کا موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر تو تھے ہی، وہ خوش لباس شخصیت، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت کرنے والے انسان بھی مشہور تھے۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ کی گئی جہاں شائقینِ فن اور ناقدین نے ان کے کام کو بہت پسند کیا۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤسز میں‌ سجائے گئے اور موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی موجود ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان کو دنیا ایک باکمال ہدایت کار اور بہترین فلم ساز کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے، لیکن وہ ہالی وڈ میں ایک ایسے تنازع کا سبب بھی بنے تھے جس پر ردعمل تقریباً نصف صدی بعد سامنے آیا اور کازان کو فلمی ستاروں‌ کے جھرمٹ میں‌ خفّت کا سامنا کرنا پڑا۔

    1999ء تک ایلیا کازان کئی شان دار اور یادگار فلمیں‌ انڈسٹری کے نام کرچکے تھے، اور اس سال آسکر ایوارڈ کی جو تقریب سجائی گئی، اس میں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے ایلیا کازان کا نام پکارا گیا تھا، کیمرے کی آنکھ نے حاضرین کی صفوں میں‌ کشمکش اور اضطراب دیکھا۔ کچھ فن کار جو کازان کے استقبال کے لیے تالیاں بجانے لگے تھے، سینئر فن کاروں کو خاموش اور مضطرب پاکر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عجیب فضا بن گئی تھی اور جلد ہی منتظمین پر تنقید شروع ہوگئی جس سے واضح ہوگیا کہ اس محفل میں ایسے فن کار موجود ہیں جو کازان کو ‘غدار’ سمجھتے ہیں اور اس ایوارڈ کا مستحق نہیں‌ گردانتے۔

    دراصل 1950ء کے عشرے میں ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان ایسے فن کاروں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بنا تھا جس کے بعد ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، اور انھیں ‘غدار’ کہا گیا، لیکن کازان کی خوش قسمتی تھی کہ اپنی مخالفت کے باوجود انڈسٹری میں کوئی بھی ان کی کام یابیوں کا راستہ نہیں روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار کہلائے اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچان بنائی جو آج بھی قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں وہ قابلِ تقلید ہدایت کار سمجھے گئے جن کا کام دیکھ کر نوآموز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 2003ء میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خرید و فروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے متنازع بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں‌ کمیونسٹوں کی گرفت کی جارہی تھی اور ان پر شک کیا جارہا تھا۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی کمیٹی سے جو بات چیت کی تھی، اس سے فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی پر مبنی ہیں۔

  • میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    علی عباس حسینی اردو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ادبی تخیلقات میں ہئیت و تیکنیک میں نئے تجربات کے ساتھ اپنے اظہار کی انفرادیت اور اسلوب کی خوب صورتی کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    علی عباس حسینی نے بحیثیت ادیب اپنے متنوع موضوعات میں اردو زبان کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔ نثری ادب کی مختلف اصناف میں ان کی تحریریں اور کتب یادگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ، تاریخ اور تذکرہ نویسی کے علاوہ تنقید بھی لکھی جب کہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی ادب میں‌ اہمیت ہے۔

    اردو کے اس ادیب کا منفرد اور دل نشیں طرزِ تحریر ان کی نگارشات کی پذیرائی کا باعث رہا ہے۔ علی عباس حسینی 3 فروری 1897ء کو غازی پور، بہار میں پیدا ہوئے تھے اور لکھنؤ وہ شہر تھا جہاں‌ آج ہی کے دن 1969ء میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

    1919ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔ اے کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1924ء میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ تدریس ان کا وظیفہ رہا اور 1954ء میں حسین آباد کالج لکھنؤ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔

    علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دل چسپی تھی۔ انھوں‌ نے الف لیلی کے قصائص، فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1917ء میں ان کا پہلا افسانہ "غنچۂ ناشگفتہ” کے عنوان سے ضبظِ تحریر میں آیا۔ 1920ء میں "سر سید احمد پاشا” کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول "قاف کی پری” لکھا تھا۔ شاید کہ بہار آئی” علی عباس حسینی کا دوسرا اور آخری ناول تھا۔

    ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں رفیقِ تنہائی، باسی پھول، کانٹوں میں پھول، میلہ گھومنی وغیرہ شامل ہیں۔ "ایک ایکٹ کے ڈرامے” ان کے ڈراموں پر مشتمل کتاب ہے۔

    علی عباس حسینی نے فکشن کے نقاد کے طور پر بھی شناخت بنائی۔ ان کی کتاب "ناول کی تاریخ و تنقید” ایک مفصل اور لائقِ مطالعہ تنقید ہے۔

  • راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے کو ہندوستان میں ایک مصلح اور روشن خیال شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو برہمو سماج نامی تحریک کے بانی تھے۔

    وہ ایک مدبّر اور ایسے دور اندیش تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں میں عام توہّم پرستی اور تعصّبات کے علاوہ غلط رسم و رواج کو مٹانے کے لیے علمی مجالس بپا کیں اور قلم کا سہارا بھی لیا۔ موہن رام رائے نے اپنے افکار اور اصلاحِ سماج کے لیے اپنی کوششوں کے سبب سرسیّد جیسے مسلم اکابرین کو بھی بے حد متاثر کیا تھا۔

    1833ء میں‌ راجہ رام موہن آج کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ اس سے چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ توحید کے اسی پرچار کی وجہ سے رام موہن رائے کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

    1774ء میں راجہ رام موہن رائے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گاؤں‌ کے ایک مدرسہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ انھیں والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کے مطالعے کے ساتھ علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور گھر لوٹے تو والد نے انھیں قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغل امرا کے دربار وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے پر جب والد نے اپنے بیٹے کو بُت پرستی کا مخالف پایا تو گھر سے نکال دیا۔

    تب وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ ہندو مذہب، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ آزادی سے کیا اورغور و فکر میں‌ منہمک رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وہ عربی، فارسی کے عالم کی حیثیت سے بھی پہچانے جا رہے تھے جب کہ مذہب سے متعلق اپنے نظریات اور فلسفے کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے قلم کا سہارا لیا تو متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔

    رفتہ رفتہ ان کا نام ہندو عقائد کے مخالف کے طور پر مشہور ہونے لگا اور ان کے افکار و نظریات کا چرچا بھی۔ انھوں نے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا تھا اور انگریز سرکار بھی راجہ صاحب کو ایک مصلحِ قوم اور علم دوست انسان کے طور پر شناخت کرتی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھ کر متوجہ کیا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے کو انگریز اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران انھوں نے یہ جان لیا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا جس کے بعد انھوں‌ نے ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیا۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزار تھے اور اسی لیے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد ہندوؤں میں جو برائیاں اور کم زوریاں تھیں، ان کو مٹانا تھا۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں تحریک چلائی۔

    مذہب اور رسم و رواج پر نکتہ چینی اور اپنے نظریات کے سبب قدامت پسند ان کے شدید مخالف اور کٹّر ہندو ان کے خون کے پیاسے ہوگئے، لیکن راجہ صاحب کا اصرار تھا کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا ایک وصف دیانت داری، منکسر المزاجی بھی تھی۔ راجہ صاحب باقاعدہ مجالس منعقد کر کے اصلاحِ‌ معاشرہ کی کوشش کرنے لگے تھے۔ لیکن مباحث کے دوران انھوں نے ہمیشہ اپنے عالمانہ وقار کو ملحوظ رکھا اور اپنے مخالفین کا احترام کیا۔ وہ تحمل سے ان کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

    ہندوؤں کے علاوہ انھیں عیسائی مذہب میں تثلیث جیسے بنیادی نظریے اور عقیدے پر تنقید کے بعد سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں مغربی کلچر کا دلدادہ اور ہندوستان کا دشمن کہا جانے لگا۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے فلاح و بہبود کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    انھیں مغل بادشاہ شاہ عالم نے اپنی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے اپنا وکیل بنا کر لندن بھیجا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہیں وفات پائی۔

  • ونگاری ماتھائی: سیاہ فام خاتون جسے درختوں کی ماں‌ کہا جاتا ہے

    ونگاری ماتھائی: سیاہ فام خاتون جسے درختوں کی ماں‌ کہا جاتا ہے

    وَنگاری ماتھائی کو دنیا میں فطرت کی دوست اور تحفظِ ماحول کی سرگرم کارکن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انھیں درختوں‌ کی ماں بھی کہا جاتا ہے، سرطان کے مرض میں‌ مبتلا ونگاری ماتھائی 2011ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

    کینیا کی وَنگاری ماتھائی پہلی افریقی نوبیل انعام یافتہ خاتون تھیں۔ انھوں نے ایک پسماندہ ملک کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی لیکن تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ وہ ایک ایسے کام کی بدولت دنیا میں‌ ممتاز ہوئیں جو زمین اور انسانوں کی بقا اور بھلائی کے لیے ضروری تھا۔ 71 برس کی عمر میں‌ وفات پانے والی ونگاری ماتھائی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون تھیں۔ انھوں‌ نے تحفظِ ماحول کی غیر سرکاری تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ذریعے وہ تین دہائیوں تک درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ انھیں‌ 2004ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنے ملک میں‌ غریب عورتوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنا کر لگ بھگ تیس ملین درخت لگائے۔ وہ کمرشل بنیادوں‌ پر درختوں کی کٹائی اور سبزے کی پامالی کے جواب میں‌ ویران اور قابلِ کاشت رقبے پر درخت لگانے اور مختلف پیڑ پودوں کی افزائش میں‌ مصروف رہیں۔ انھیں‌ ماحول مخالف سرگرمیوں‌ اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کے راستے میں‌ ایک رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنی زندگی کے حالات اور اپنی جدوجہد کو اپنی کتاب ’ناقابلِ شکست‘ میں‌ رقم کیا ہے، جس سے ہم یہ پارے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں، اس کے مترجم بُش احمد ہیں۔

    ونگاری ماتھائی لکھتی ہیں، میری عُمر سات آٹھ سال تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ ونگاری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘

    دیَریتُو اس وقت تیرہ سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جواب دیا، ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘

    اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا، لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہو گی کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ پرائمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن مونیکا پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیہ تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔

    میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی، ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے ونگاری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مگر میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔

    میں بہت شکر گزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ فیصلہ میں خود سے نہ کر پاتی۔ اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دیَریتُو نے یہ سوال نہ پُوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے، لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دنوں ایک دن کی دیہاڑی سے ساٹھ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

    پرائمری اسکول میں میرا پہلا دن مجھے آج تک یاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی، چند اورق پر مشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن آٹھ سال کی بچّی کے لیے تین میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن میرا کزن جونوتھن جس کو سب جونو کہتے تھے وہ صبح سویرے مجھے لینے آ گیا۔ عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔

    ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بُلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا۔ ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں! میں نہیں جانتی۔‘‘میں نے سر ہلاتے جواب دیا۔ ’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متأثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے لیکن میں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔

    ’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔

    ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر کریون نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میں اس کی مہارت سے بہت متأثر ہوئی۔

    اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دن میں نہیں بھولی۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ میں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا میں کبھی رکی نہیں۔ کیونکہ میں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔

    ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولھے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندّی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گَرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسُّو جیسے حشراتُ الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہو گی۔

  • اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے نواب آصفُ الدّولہ کا تذکرہ

    نیاز فتح پوری لکھتے ہیں، نواب آصفُ الدّولہ، فرماں روایانِ اودھ میں اپنی بعض خصوصیات کی وجہ سے بہت مشہور فرماں روا ہوا ہے، لیکن یہ شاید بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کا پاکیزہ ذوقِ سخن تھا۔

    اس والیٔ اودھ کی فیاضی اور سخاوت بھی ضربُ المثل بنی اور یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ جس کو نہ دے مولا اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ یعنی مجازاً کہا جانے لگا تھاکہ جسے سرکار سے کچھ نہ مل سکے، آصف الدّولہ سے مل جاتا ہے۔ تذکرہ نویسوں نے اسے یوں بھی بیان کیا ہے؛ جس کو دے مولا، اُس کو دلائے آصفُ الدَّولہ۔ مطلب یہ کہ والیٔ اودھ اُسی کو دلواتا ہے جسے خدا دیتا ہے۔

    معروف تذکرہ نگار علی لطف بیان کرتے ہیں، آصف الدّولہ ہر روز ایک نئی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھتے تھے۔ اسی سبب لکھنؤ کے امراء اور اہلِ شہر کو بھی عمارتوں کا شوق پیدا ہوا اور لکھنؤ عالی شان عمارتوں کا شہر بن گیا۔

    اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ والیٔ اودھ کی فنِ معماری میں دل چسپی اور تعمیرات کا شوق کس قدر تھا۔ اسی کے دور میں ریاست کے دارُالحکومت لکھنؤ میں ایرانی طرز کے باغ بنوائے گئے اور شان دار عمارتوں کے ساتھ حوض، فوّارے، خوب صورت کیاریاں اور درختوں کی قطاریں بھی ان کے حسن و دل کشی کا سبب تھیں۔

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ لکھنوی تہذیب و ثقافت کی علامت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی تصوّر کیے جاتے ہیں جسے بعد میں دبستانِ لکھنؤ کے نام سے جانا گیا۔ ان سے پہلے اودھ کا مرکز فیض آباد تھا، اور لکھنؤ ایک معمولی قصبہ تھا، تاہم 1775ء میں تخت نشینی کے بعد آصف الدّولہ نے اودھ کو دہلی سے جداگانہ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی شناخت دینے کے اقدام کیے۔ انھوں نے لکھنؤ میں علم و ادب کے بڑے ناموں اور فنون کے ماہرین کو جمع کرلیا اور اسے اہلِ‌ علم و باکمال شخصیات کے لیے شہرِ راحت بنا دیا۔ وہ یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔

    آج آصف الدّولہ کا یومِ وفات ہے۔ ان کا اصل نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ شہزادوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت کی گئی اور اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ انھوں نے دوسرے فنون میں بھی دست گاہ حاصل کی۔ وہ شروع ہی سے شاعری کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بعد میں‌ شاعر بھی مشہور ہوئے۔ امورِ سلطنت کی بات کی جائے تو انگریزوں کی کمپنی نے ایک معاہدہ کی صورت میں انھیں بے اختیار اور اپنا مطیع رکھا ہوا تھا۔

    بعض تذکروں میں آیا ہے کہ اس فرماں روا کے دور میں مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسے اہلِ کمال لکھنؤ آئے اور کہا جاتا ہے کہ سوز کو آصف الدّولہ نے شاعری میں اپنا استاد بنایا۔ لیکن نیاز فتح پوری جیسے بڑے ادیب اور نقّاد نے اپنے ایک مضمون میں‌ لکھا ہے، زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آصفُ الدّولہ ان کے کلام کو پسند کرتا تھا اور ان کی شاگردی اختیار کرنے سے قبل اس کا انتقال ہو گیا۔ یا یہ کہ اگر شاگردی کا سلسلہ رہا بھی تو صرف چند دن جو نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کا کلام سوز کے رنگ کا ہے اور ممکن ہے کہ اس بنا پر کوئی شخص یہ کہے کہ آصفُ الدّولہ کا سارا کلام سوز ہی کا کلام ہے اور اسی لیے اب سوز کا کلام بہت کم نظر آتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کیوں کہ سوز نے جب کہا، ہمیشہ سہل زمینوں میں اور مشکل ردیف و قوافی اختیار ہی نہیں کیے۔ بَرخلاف اس کے آصفُ الدّولہ کے یہاں ایسی مشکل زمینیں نظر آتی ہیں کہ شاید ہی کسی اور شاعر کے کلام میں نظر آئیں اور میرے نزدیک یہ اثر تھا مصحفی اور انشا کی صحبت کا۔

    اسی مضمون میں آگے چل کر نیاز صاحب لکھتے ہیں: بہرحال آصفُ الدّولہ نے سوز کی شاگردی اختیار کی ہو یا نہ کی ہو، یہ بالکل یقینی ہے کہ وہ قدرت کی طرف سے نہایت پاکیزہ ذوقِ سخن لے کر آیا تھا اور اس میں سوز یا کسی اور کی صحبت کو دخل نہ تھا۔ آصف الدّولہ کی ماں تاریخِ اودھ کی وہ مشہور خاتون ہے جسے بہو بیگم کے نام سے آج لکھنؤ کا ہر وثیقہ دار جانتا ہے۔

    نیاز فتح پوری نے لکھا، آصف الدّولہ کی شاعری کی عمر کیا تھی یا یہ کہ کس عمر میں اس نے شاعری کی ابتدا کی، اس کے متعلق تاریخیں اور تذکرے ساکت ہیں۔ لیکن کلام کی کثرت کو دیکھ کر یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ شوق انہیں عنفوان شباب ہی سے شروع ہو گیا ہوگا۔ ان کا جو قلمی کلیات میری نظر سے گزرا ہے، بڑی تقطیع کے سیکڑوں صفحات پر محیط ہے اور تمام اصنافِ سخن اس میں پائے جاتے ہیں۔

    آصفُ الدّولہ نے لکھنؤ میں انتقال کیا اور اپنے تعمیر کردہ امام باڑے میں دفن ہوئے۔ 1797ء میں آج ہی کے وفات پانے والے اودھ کے اس نواب کو ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، علم و فنون کے قدر دان اور عظیم سرپرست کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

  • نیک سیرت اور عادل حکم راں سلطان فیروز شاہ تغلق

    نیک سیرت اور عادل حکم راں سلطان فیروز شاہ تغلق

    فیروز شاہ تغلق کو ان کے چچا زاد سلطان محمد بن تغلق کی وفات کے بعد سلطنتِ دہلی کا تاجدار قبول کیا گیا تھا۔ ان کا دورِ حکم رانی 1351ء سے 1388ء تک قائم رہا اور سلطان اس سال آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ فیروز شاہ، محمد بن تغلق کے چچا زاد بھائی تھے اور انھوں نے بیماری کے دوران سلطان محمد بن تغلق کی تیمار داری اور خوب خدمت کی، جس سے متأثر ہو کر سلطان نے انھیں اپنا جانشین نام زد کیا تھا۔ فیروز شاہ تغلق کا دور فلاحی کاموں اور رعایا کو ابتری اور بدانتظامی سے نجات دلانے کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور اقدار کے احیا و فروغ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔

    فیروز شاہ تغلق کے والد کا نام رجب تھا جو سلطان غیاث الدّین تغلق کے بھائی تھے۔ نوعمری میں‌ فیروز شاہ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوئے تو تغلق شاہ نے ہی ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی تھی۔

    مؤرخین نے فیروز شاہ کو عالم فاضل اور نیک سیرت حکم راں لکھا ہے جس کا دورِ‌ حکومت 40 سال پر محیط رہا۔ مشہور ہے کہ جب فیروز شاہ کو بادشاہ بننے کی اطلاع دی گئی تو اُس وقت وہ محمد بن تغلق کی موت پر ماتمی لباس پہنے ہوئے تھے۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ‘فیروز شاہ نے ماتمی لباس اتارنے سے انکار کردیا اور شاہی لباس اس کے اوپر پہن لیا۔ سواری کے لیے ہاتھی آیا، ہاتھی پر جب وہ سوار ہوئے تو باجوں کا شور و غل تھا اور خوشی کے مارے خلقت آپے سے باہر ہوئی جاتی تھی۔ جیسے شادی کا ماحول ہو۔ بادشاہ ہاتھی پر سوار حرم میں گئے۔ اور وہاں جاکر خداوند زادہ کے قدموں پر سَر رکھا۔ اس نے سَر کو اٹھا کر اپنے گلے لگایا اور تاج، فیروز کے سر پر رکھا۔’

    یحییٰ بن احمد سرہند اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ ’’بادشاہِ مغفور، محمد تغلق شاہ کے عہدِ سلطنت میں وجود میں آنے والی ہر طرح کی ستم گری، شقاوت، زیادتی، ملک تباہی و بربادی اور رعیّت کے اَمن و سکون اور راستوں کے امن وامان میں بدل گئی اور علماء و مشائخ کی تعداد اور فروغِ علم و فضل میں اضافہ ہوا۔‘‘

    مؤرخین کے مطابق سلطان نے باغیوں کو وحشت ناک سزائیں نہ دینے کا جواز شریعت سے پیش کیا۔ فرشتہ کے بقول فیروز شاہ کہتا تھا کہ ’’مجھ سے پہلے کے بادشاہوں کی یہ کچھ عادت سی بن گئی تھی کہ معمولی معمولی جرائم پر اپنی رعایا یا اپنے ماتحت عملہ کو سخت سے سخت اور بیہودہ سے بیہودہ سزائیں دیا کرتے تھے۔ میرے نزدیک یہ سزائیں غیر مشروع بھی ہیں اور ظالمانہ بھی، میں نے یہ سب ممنوع قرار دے دیں اور بات بات پر مسلمانوں کا خون بہانا جرم ٹھہرایا۔‘‘ یہ فیروز شاہ تغلق کا ایک امتیازی وصف ہے کہ انھوں نے تخت کے حصول یا اس کے استحکام کے نام پر قتل و غارت گری نہیں کی۔

    بعض روایات کے مطابق سلطان کے دور میں غریب والدین کی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات بھی شاہی خزانے سے ادا کیے جاتے تھے۔ تغلق خاندان کے ایک مشہور مؤرخ سراج عفیف راوی ہیں کہ 38 سال میں ہزاروں غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے نکاح اور شادی پر شاہی خزانے سے رقم خرچ کی گئی۔

    سلطان فیروز شاہ ہندوستان کی تاریخ کے وہ مسلمان بادشاہ تھے جنھوں نے رفاہِ عام کی غرض سے دریاؤں سے تیس نہریں نکالیں تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین آباد ہو۔ جامع مساجد، سرائیں تعمیر کروائیں، شفا خانے اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔ سلطان کے دور میں تقریباً دو سو شہر آباد کیے گئے جن میں جون پور، فیروز پور اور فیروز آباد بہت مشہور ہیں۔

    سلطان فیروز شاہ تغلق صوفیائے عظام، مشائخِ کرام سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے اور ان کے دور میں بعض علما اور درویشوں کو زمین وقف کرنے کے علاوہ وظائف بھی جاری کیے جاتے تھے۔

    بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں قدیم عمارتیں آج بھی اپنے دور کی یاد تازہ کریتی ہیں اور انہی میں سے ایک فیروز شاہ کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ شہر کے محلہ سپاہ میں لبِ سڑک موجود ہے۔