Tag: ستمبر برسی

  • آفتابِ علم و ادب غلام علی آزاد بلگرامی

    آفتابِ علم و ادب غلام علی آزاد بلگرامی

    غلام علی آزاد بلگرامی کو ان کے دینی ذوق و شوق، علمی و تحقیقی کام کے سبب بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ انھیں ہندوستان کی عالم فاضل بزرگ شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے جو شعر و ادب، تاریخ اور تذکرہ نگاری میں اپنی بلند پایہ تصانیف کی وجہ سے مشہور ہوئے۔

    غلام علی آزاد بلگرامی نواب ناصر جنگ والیِ حیدر آباد دکن کے استاد تھے۔ وہ بلگرام سے اورنگ آباد آئے تھے جہاں ان کے علم و فضل کے سبب انھیں دربار میں جگہ ملی اور بڑی عزّت اور پذیرائی حاصل ہوئی۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    1704ء میں پیدا ہونے والے غلام علی آزاد کا تعلق بلگرام سے تھا اور اسی نسبت ان کے نام کے ساتھ بلگرامی لکھا جاتا ہے۔ 15 ستمبر کو اورنگ آباد میں قیام کے دوران ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ 1786ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوجانے والے آزاد بلگرامی کو حسّانُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔

    حضرت غلام علی آزاد بلگرامی بیک وقت مختلف علوم و فنون میں طاق اور متعدد زبانوں پر کامل عبور رکھنے کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز رہے۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ علمی میدان میں اپنے افکار و خیالات کے لازوال نقش چھوڑ گئے۔

    ان کی نثری تالیف میں’’شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے علاوہ سبحۃ المرجان جو دراصل علمائے ہند کا تذکرہ ہے، نہایت وقیع و مستند کتاب مانی گئی۔ اسی طرح یدِ بیضا کو بھی شہرت ملی، جو عام شعرا کے تذکرے سے سجائی گئی ہے۔ خزانۂ عامرہ بھی ان کی وہ یادگار ہے جس میں اُن شعرا کا تذکرہ ہے جو صلہ یافتہ تھے جب کہ سرورِ آزاد ہندی نژاد شعرا پر غلام علی آزاد بلگرامی کی ایک نہایت معلوماتی اور مفید کتاب ہے۔ مرحوم نے اپنی ایک اور تصنیف مآثر الکرام کی بدولت بڑی عزّت اور نام پایا جو دراصل علمائے بلگرام کے تذکرے پر مبنی ہے۔ اسی طرح روضۃُ الاولیا میں انھوں‌ نے عرق ریزی سے اپنی تحقیق کے بعد اولیائے اورنگ آباد پر مستند اور جامع معلومات فراہم کی ہیں۔

    وہ فنِ شعر گوئی اور تاریخ میں‌ یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ وہ حلیم الطبع، منکسرالمزاج اور متواضع مشہور تھے۔ ان کا حافظہ نہایت قوی تھا اور کوئی واقعہ، شعر وغیرہ ایک بار پڑھ لیتے یا کسی کی زبانی سنتے تو ذہن میں رہتا اور سہولت سے دہرا دیتے تھے۔

  • صحرا کا شیر عمر مختار جس نے آزادی کی خاطر موت کو گلے لگایا

    صحرا کا شیر عمر مختار جس نے آزادی کی خاطر موت کو گلے لگایا

    1931ء میں آج ہی کے دن عمر مختار کو سرِ عام پھانسی دے دی گئی تھی۔لگ بھگ 20 ہزار افراد نے دیکھا کہ "صحرا کا شیر” ایک شانِ بے نیازی سے پھانسی گھاٹ پر آیا اور موت کو گلے لگا لیا۔ ان کا جرم اٹلی کے خلاف لیبیا کی آزادی کی جنگ لڑنا تھا۔

    مشہور شاعر فیض احمد فیض کے ایک مشہور شعر کا مصرع ہے:

    "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے…”

    عمر مختار کی زندگی کے آخری لمحات اسی مصرع کی تفسیر ہیں۔ اس مجاہدِ آزادی کی گرفتاری بھی بجائے خود ایک تاریخی موقع تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیبیا کا یہ مجاہدِ آزادی کس طرح دشمن کے ایک عرصہ تک باعثِ آزار اور ناقابلِ شکست بنا رہا، کیوں کہ اطالوی فوجیوں اور افسروں نے عمر مختار کو گرفتار کرنے کے بعد فخریہ انداز میں ان کے ساتھ تصاویر بنوائیں اور اپنے اس "کارنامے” کو تاریخ کے اوراق میں‌ لکھوا لیا، لیکن وہ ایسے بدقسمت تھے کہ شاید ہی آج انھیں کوئی یاد کرتا ہے جب کہ عمر مختار آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    لیبیا، شمالی افریقا کا ایک ملک ہے جس پر 1911ء میں اٹلی نے قبضہ کرلیا تھا۔ عمر مختار کی قیادت میں وہاں جنگِ آزادی لڑی گئی۔ 20 برس تک عمر مختار اور ان کے ساتھی محاذ پر دشمن کو خاک و خون میں نہلاتے رہے۔

    20 اگست 1858ء کو عمر مختار نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد بن فرحات تھا۔ کم سنی میں والد کا انتقال ہو گیا اور یوں ابتدائی ایّامِ زیست غربت اور افلاس میں گزرے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے عمر مختار مسجد جاتے رہے اور بعد میں ایک جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ قرآنِ پاک کے عالم اور امام بن گئے۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ ان کے سماجی شعور اور سیاسی بصیرت کے باعث انھیں‌ قبائلی تنازعات نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ بعد ازاں وہ جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے وابستہ ہوگئے۔

    اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور عثمانی سلطنت میں جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے ورنہ طرابلس اور بن غازی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ ترکوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بم باری کی اور اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔

    عمر مختار صحرائی علاقوں سے خوب واقف تھے اور جنگ کے رموز اور جغرافیائی امور کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انھیں صحرائی جنگ میں مہارت حاصل تھی، اور اٹلی کی فوج کے لیے وہ ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ بن گئے تھے۔ عمر مختار نے اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے اٹلی کی افواج پر کام یاب حملے کیے۔

    ان کے جاں نثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کرنے کے ساتھ گوریلا جنگ کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن سے دشمن فوج کو زبردست نقصان پہنچا۔ عمر مختار کو ستمبر میں ایک حملے کے بعد زخمی حالت میں دشمن نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

    لیبیا کے اس مجاہد پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ عمر مختار کو پھانسی کے بعد اٹلی کی امید اور توقعات کے برعکس مزاحمت کی تحریک کی شدت آگئی اور 1951ء میں لیبیا کو آزادی نصیب ہوئی۔

    عمر مختار کی اس جدوجہد اور شخصیت پر ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ’’عمر مختار‘‘ کا کردار اداکار انتھونی کوئن نے نبھایا تھا۔ عمر مختار صحرا کا شیر کے نام سے مشہور ہیں۔

  • ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    ایک مشہور شعر کے فراموش کردہ خالق کا تذکرہ

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    یہ شعر کتنے ہی مواقع پر کتنی ہی بار پڑھا گیا۔ تحریر سے تقریر تک مشاہیر نے اسے برتا، ہر خاص و عام نے پڑھا اور اپنی ہستی اور دنیا کی بے ثباتی پر گفتگو کو سمیٹنا چاہا تو اسی شعر کا سہارا لیا، لیکن اس زباں زدِ عام اور یادگار شعر کے خالق کا نام بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ حیرت الٰہ آبادی کا شعر ہے جو 1892ء میں‌ اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ تاہم ان کا درست سنِ وفات کسی کو معلوم نہیں اور جس طرح ان کے حالاتِ زندگی اور فن پر مفصل تحریر نہیں ملتی، اسی طرح اس معاملے میں بھی قیاس سے کام لیا گیا ہے۔

    حیرت الہ آبادی کی وفات کو ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے، لیکن یہ شعر ان کے نام کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ستم ظریفی کہیے کہ اس شعر کی شہرت اور مقبولیت کا یہ تمام عرصہ ہی شاعر کے احوال و ادبی آثار پر تحقیق اور کسی تفصیلی اور جامع مضمون سے محروم رہا ہے۔

    انیسویں صدی عیسوی کے مشہور ادبی مؤرخین، معروف تذکرہ نگاروں اور محققین نے بھی ان کے حالاتِ‌ زندگی اور فنِ شاعری پر کچھ نہ لکھا اور ناقدوں نے بھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ جہاں بھی ان کا ذکر کیا گیا، وہ اسی شعر کے ذیل میں آیا ہے اور یہ فقط ان کے نام اور وطن، جائے پیدائش اور وفات تک محدود ہے۔

    دیوانِ حیرت اور کلیاتِ‌ حیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ان کا محمد جان خاں تھا اور حیرت تخلص۔ ان کا وطن الہ آباد تھا۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں مرزا اعظم علی اعظم سے تلمذ رہا جو اپنے وقت کے مشہور اور استاد شاعر خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد تھے۔ حیرت کے دادا جہانگیر خاں فوج میں رسال دار رہے تھے جب کہ ان کے والد کا نام بازید خاں تھا جن کی عرفیت باز خاں تھی۔ حیرت جس خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، اس میں‌ کوئی شاعر نہیں تھا۔ حیرت الہ آبادی ایک صاحبِ دیوان شاعر تھے۔

    حیرت کی وہ غزل ملاحظہ کیجیے جس میں ان کا مشہور شعر شامل ہے۔

    آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
    سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

    آ جائیں رعب غیر میں ہم وہ بشر نہیں
    کچھ آپ کی طرح ہمیں لوگوں کا ڈر نہیں

    اک تو شب فراق کے صدمے ہیں جاں گداز
    اندھیر اس پہ یہ ہے کہ ہوتی سحر نہیں

    کیا کہیے اس طرح کے تلون مزاج کو
    وعدے کا ہے یہ حال ادھر ہاں ادھر نہیں

    رکھتے قدم جو وادئ الفت میں بے دھڑک
    حیرتؔ سوا تمہارے کسی کا جگر نہیں

  • مزاح گو شاعر اور نثر نگار شمسُ الدّین بلبل کا تذکرہ

    مزاح گو شاعر اور نثر نگار شمسُ الدّین بلبل کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند سے قبل سندھ دھرتی کی عالم فاضل شخصیات، مذہب و ملّت، ادب اور فنون میں ممتاز اور نامی گرامی لوگوں کا تذکرہ ہو تو ان میں شمسُ الدّین بلبل کا نام ضرور لیا جائے گا جو ادب اور صحافت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    شمسُ الدّین بلبل سے عام قارئین ہی نہیں، علم و ادب سے شغف رکھنے والے بھی شاید ہی واقف ہوں۔ آئیے ان کی زندگی اور ادبی و صحافتی خدمات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    شمس الدّین بلبل کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ ان کے ذاتی کتب خانے میں سندھی، فارسی، اردو اور عربی زبانوں میں ہزاروں کتب موجود تھیں۔

    شمسُ الدّین بلبل 21 فروری 1857ء کو میہڑ میں پیدا ہوئے تھے جو سندھ کے مشہور ضلع دادو کا علاقہ تھا۔ 1919ء ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ وہ 13 ستمبر کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ شمسُ الدّین نے اس دور کے دستور کے مطابق فارسی، عربی اور اردو زبان سیکھی۔ میہڑ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرکے 1889ء میں حسن علی آفندی جیسے نادرِ روزگار کے پاس کراچی پہنچے اور انھیں اپنی قابلیت سے متاثر کرنے میں کام یاب ہوئے اور ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جاری ہوا۔ اس اخبار کی وساطت سے جناب بلبل نے سندھ مدرسۃُ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں اور حسن علی آفندی کا دست و بازو ثابت ہوئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں انھوں نے حسن علی آفندی کی بڑی مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمین داری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوسکا تھا۔

    جب حسن علی آفندی نے اس دنیا سے منھ موڑ لیا تو شمس الدین بلبل نے کراچی چھوڑ دیا اور اپنے آبائی قصبے میہڑ آگئے جہاں وہ گھر سے اخبار کی ادارت اور تدوین کا کام انجام دینے لگے۔ بعد میں کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوگئے، لیکن وہ ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔ اسی طرح لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے مدیر رہے اور روزنامہ الحقّ، سکھر کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیے۔ بعد میں سکھر ہی کے مشہور روزنامہ آفتاب کے مستقل ایڈیٹر بنے۔

    شمس الدین بلبل نے سب سے پہلے طنز و مزاح کو سندھی شاعری میں ذریعۂ اظہار بنایا۔ وہ خوش فکر شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ طرز نثر نگار بھی تھے۔ ان کی تحریریں ظرافت آمیز اور پُرمذاق ہوتی تھیں، اور اخبار و رسائل میں ان کے مضامین پڑھنے والوں میں خاصے مقبول تھے۔ شمس الدّین بلبل نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور اپنے مضامین کے ساتھ کئی تصانیف سے سندھی ادب کو مالا مال کیا۔

    1906ء میں بلبل صاحب نے اپنے آبائی علاقہ میہڑ میں مدرسۃُ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو انھوں نے اس کی تائید میں تقریر کی جسے فصاحت و بلاغت کا بہترین نمونہ کہا گیا۔ اس تقریر پر بلبل نے ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین سے داد اور ستائش سمیٹی جب کہ نواب وقارُ الملک نے انھیں خاص طور پر داد دی اور بہت تعریف کی تھی۔

    شمس الدّین بلبل مزاح گو شاعر تھے، اور فارسی اور سندھی زبان میں کلام کہتے تھے، لیکن ان کی نثری تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ ان کی چند تصانیف میں بہارِ عشق کے نام سے دیوانِ بلبل (سندھی)، عقل اور تہذیب، مسلمان اور تعلیم، قرض جو مرض، صد پند سود مند، دیوان بلبل (فارسی)، آئینہ ظرافت اور گنجِ معرفت شامل ہیں۔

  • شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    شفیع عقیل اور ’بھوکے‘ پر فحاشی کا مقدمہ

    پیٹ بھرنے کے لیے محنت مزدوری اور بعد میں سائن بورڈ لکھنے کو ذریعۂ معاش بنانے والے شفیع پینٹر کی اوّلین تحریر ’زمیندار‘ میں شائع ہوئی جس نے انھیں شفیع عقیل بنا دیا۔ یہ 1948ء کی بات ہے، اور پھر ان کی ساری زندگی کتاب اور قلم کے ساتھ گزری۔

    شعر و ادب، صحافت اور ترجمے کے میدان میں اپنا لوہا منوانے والے شفیع عقیل آرٹ اور مصوّری کے نقّاد بھی تھے۔ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے تھے۔ منشی فاضل اور پھر ادیب فاضل کا امتحان دیا اور پھر زندگی کی آزمائشوں کا سامنا کرنے گھر سے نکل گئے۔ انھوں نے 6 ستمبر 2013ء کو وفات پائی۔

    1930ء میں لاہور کے گاؤں تھینسہ میں آنکھ کھولنے والے شفیع عقیل 20 سال کے تھے جب کراچی آئے اور یہاں ابتداً سائن بورڈ لکھنے کا کام کرنے لگے، لیکن جلد ہی اردو کے معروف مزاح نگار اور صحافی مجید لاہوری کے مشہور جریدے نمکدان سے وابستہ ہو گئے۔ اسی زمانے میں‌ وہ افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور 1952ء میں افسانوں کا پہلا مجموعہ ’بھوکے‘ کے نام سے شائع کروایا جس پر حکومت کی طرف سے فحاشی کا مقدمہ دائر کردیا گیا۔ یہ مقدمہ ڈھائی سال چلا تھا۔

    نمکدان کے بعد شفیع عقیل نے صحافتی سفر میں‌ بچّوں کے رسالے بھائی جان کی ادارت اور پھر روزنامہ جنگ اور اخبارِ جہاں میں تمام عمر کام کیا۔ مدیر کی حیثیت سے وہ مختلف صفحات پر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور انھیں‌ آگے بڑھنے کا موقع دیتے رہے اور ساتھ ہی تصنیف و تالیف اور تراجم کا سلسلہ جاری رکھا۔

    مجید لاہوری اور سلطان باہو کے فن و شخصیت پر لکھنے کے علاوہ انھوں نے سیف الملوک، سسی پنوں از ہاشم شاہ اور پنجابی کے پانچ قدیم شاعر نامی کتابیں بھی مدون کیں۔ شفیع عقیل پنجابی زبان کے شاعر تھے جن کا کلام بھی کتابی صورت میں‌ سامنے آیا۔ وہ چار مصروں کی ایک نئی صنف کے موجد بھی تھے۔ انھوں نے دیگر شعرا کے کلام کا ترجمہ بھی کیا تھا جب کہ پنجابی زبان میں ان کی جمع و تدوین کردہ لوک کہانیاں بھی ایک بڑا کام ہے جس کا انگریزی اور دوسری کئی زبانوں میں بھی ترجمہ شائع ہو چکا ہے۔ شفیع عقیل نے پنجابی کلاسیکی شاعری پر جو کام کیا وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے۔

    وہ فنونِ‌ لطیفہ کے بڑے شیدائی تھے۔ مصوّری سے شفیع عقیل کو گہری دل چسپی رہی جس کا اندازہ اردو زبان میں فنِ مصوّری اور مشہور آرٹسٹوں کے متعلق ان کی کتابوں سے ہوتا ہے۔ وہ کئی مشہور پاکستانی مصوروں کے قریب رہے اور ان کے علاوہ مجسمہ سازوں اور ادیبوں کے انٹرویو بھی کیے۔ وہ سیر و سیاحت کے بھی دلدادہ تھے اور ان کے سفر نامے بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔ حکومت نے شفیع عقیل کو تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

  • خطیب بغدادی: روایت و احادیث میں شناخت و تمیز کے ماہر اور بے مثال مؤرخ

    خطیب بغدادی: روایت و احادیث میں شناخت و تمیز کے ماہر اور بے مثال مؤرخ

    تاریخِ بغداد اسلامی دنیا میں ایک نہایت معتبر، وقیع، مستند اور جامع کتاب مانی جاتی ہے جس کے مصنّف خطیب بغدادی ہیں۔ ان کی اس مشہورِ زمانہ تصنیف کی بابت علاّمہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ اگر امام صاحب کی مزید تصانیف نہ بھی ہوتیں تو فقط یہی کتاب ان کے فضل و کمال کو کافی تھی۔ امام ابوبکر خطیب بغدادی اپنے زمانے کے ایک نہایت جیّد عالم، مؤرخ اور کئی علمی کتب کے مصنّف تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔

    مؤرخین نے ان کا نام احمد، کنیت ابوبکر اور لقب خطیب بتایا ہے۔ امام ابوبکر خطیب 1002ء میں عراق کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں بغداد کے قریب اور دریائے دجلہ کے کنارے پر آباد تھا، لیکن تحصیل علم اور تدریس و تصنیف کی غرض سے زندگی کا بڑا حصّہ اس زمانے کے علم و فنون کے مرکز بغداد میں گزارا اور اسی نسبت بغدادی مشہور ہوئے، جب کہ والد ایک خطیب تھے اور ان کی وجہ سے یہ لفظ بھی اس عالم فاضل کے نام کا جزو بن گیا۔

    امام خطیب بغدادی نے اپنے والدِ ماجد کی ترغیب و تشویق سے تحصیلِ علم کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے زمانے کے علما و آئمہ سے کسبِ فیض کیا، اس کے بعد بصرہ، کوفہ، نیشا پور، ہمدان، مکہ و مدینہ اور دمشق سے تعلیم حاصل کی اور علم و فضل میں‌ ایسے ممتاز ہوئے کہ خود ان کے کئی شاگرد علم دین و دنیا میں مشہور ہیں۔

    خطیب بغدادی حفظ و ثقاہت میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کے علمی مقام و مرتبے اور قدر و منزلت کو کئی نام ور ہستیوں اور مشہور علما نے تحریر و تقریر میں بیان کیا۔ ایک صاحبِ علم کے مطابق ’’امام دار قطنی کے بعد بغداد میں خطیب بغدادی کی مثل کوئی نہیں آیا۔‘‘ اسی طرح ابو علی بردانی فرماتے ہیں، ’’شاید خطیب نے بھی اپنے جیسا صاحبِ فن نہ دیکھا ہو۔‘‘ مشہور فقیہ ابو اسحاق شیرازی لکھتے ہیں، وہ معرفتِ حدیث اور حفظِ حدیث میں امام دار قطنی اور ان کے ہم مرتبہ لوگوں کے برابر تھے۔ مؤرخین نے ابو اسحاق شیرازی کو خطیب کے اساتذہ میں شمار کیا ہے جو اپنے اس شاگرد کے نہایت مداح و معترف تھے۔

    خطیب کی حدیث میں عظمت و بلند پائیگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے فن میں یکتا اور روایت و احادیث کی شناخت و تمیز میں ماہر تھے۔ حدیثِ رجال، جرح و تعدیل اور اصول اسناد و روایات میں ان کی کئی تصانیف موجود ہیں۔ حدیث کے متعلقہ علوم میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں انھوں نے کتاب نہ لکھی ہو۔ خطیب بغدادی کو حدیث میں ان کے علم و کمال کی وجہ سے کئی القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام ذہبی نے انھیں الحافظُ الکبیر، الامام، محدث الشّام و العراق کے القابات سے یاد کیا۔ علّامہ ابنِ کثیر نے انھیں مشاہیرِ محدثین میں شمار کیا اور اسی طرح دیگر علما و فقہا نے ان کی تصنیفات کو بیش قیمت اور پُر منفعت قرار دیا ہے۔

    حدیث کے علاوہ تذکرہ و تراجم اور تاریخ بهی امام صاحب کا خاص موضوع تھا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے سوانح نگاروں نے انھیں بلند قرار دیا ہے۔ خطیب بغدادی حدیث و تاریخ اور فقہ میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر علوم یعنی فنِ قرأت و تجوید، علومِ قرآنی اور شعر و ادب میں بھی کمال رکھتے تھے۔ حافظ ابنِ کثیر نے اپنی مشہور تصنیف ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ان کی بابت لکھا، ’’خطیب اچھی قرأت، فصیح ادائیگیِ الفاظ کے ساتھ ادب کو جاننے والے تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔‘‘ خطیب بغدادی خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔

    خطیب بغدادی کی تصانیف کی تعداد 100 کے قریب بتائی جاتی ہے جن میں اکثر کتابیں فنون حدیث کے متعلق گونا گوں مسائل و مباحث اور مفید معلومات پر مشتمل ہیں۔ صرف تاریخِ بغداد کی بات کی جائے تو اس کتاب سے امام صاحب کے علمی تبحر، وسعتِ مطالعہ اور دقتِ نظر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مصنّف اپنی اس کتاب کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ یہ مدینۃُ السّلام یعنی بغداد کی تاریخ ہے، اس میں اس کی آبادی و تعمیر کا اور یہاں کے مشاہر علما، فقہا و محدثین، اشراف اور اربابِ شعر و ادب کا تذکرہ کیا ہے۔

    5 ستمبر 1071ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوجانے والے خطیب بغدادی کی آرزو تھی کہ انھیں بابِ حرب میں بشر حافی کی قبر کے پہلو میں جگہ دی جائے اور ان کی اس خواہش کا احترام کیا گیا۔

  • منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    منفرد طرزِ نگارش اور دل نشیں پیرایۂ اظہار کے حامل مرزا ظفرُالحسن کا تذکرہ

    مرزا ظفر الحسن اردو زبان کے نام ور مصنّف، افسانہ نگار، براڈ کاسٹر، ادبی نقّاد اور ادارۂ یادگار غالب کراچی کے بانی سیکریٹری جنرل تھے جنھیں 4 ستمبر 1984 کو دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ انھوں نے اپنی یادداشتوں اور ادبی شخصیات کے تذکروں پر مبنی متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں۔

    سنگا ریڈی، ضلع میدک، حیدرآباد دکن کے ظفر الحسن کو ان کا علمی و ادبی ذوق دکن ریڈیو تک لے گیا تھا جہاں انھوں‌ نے ملازمت کے دوران اپنی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں اردو زبان و ادب کی خدمت اور فن سے متعلق سرگرمیوں‌ میں‌ مشغول ہوگئے۔

    3 جون 1916ء کو پیدا ہونے والے مرزا ظفر الحسن نے معاشیات میں ایم اے کیا۔ وہ دکن کی عالمی سطح پر پہچان رکھنے والی جامعہ عثمانیہ کے طالبِ علم تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ انجمنِ طلبۂ جامعہ عثمانیہ کے سیکریٹری بھی رہے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد نشر گاہ حیدرآباد سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی نام اور مقام بنایا۔

    پاکستان آنے کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان اور پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔ 1968ء میں کراچی میں ادارہ یادگارِ غالب کی بنیاد رکھی اور ایک مثالی کتب خانہ غالب لائبریری قائم کیا، جو اپنے قیمتی علمی ذخیرے کے ساتھ شہر میں‌ ایک ادبی و تہذیبی مرکز کے طور پر مشہور ہوا اور وہ اس ادارے کے بانی سیکریٹری جنرل رہے۔

    مرزا صاحب نے افسانہ نگاری سے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن پھر یہ مشغلہ ترک کر دیا اور کئی برس بعد لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو قارئین کو ان کے دلنشیں اسلوب اور طرزِ نگارش نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں ذکرِ یار چلے، پھر نظر میں پھول مہکے اور دکن اداس ہے یارو…ان کی یادداشتوں پر مبنی مجموعے ہیں۔ اس کے علاوہ عمرِ گذشتہ کی کتاب (مخدوم محی الدین اور فیض احمد فیض کے کلام کا تقابلی مطالعہ)، خون دل کی کشید (فیض کی شخصیت و فن)، یادِ یار مہرباں (زیڈ اے بخاری کی یادوں پر مشتمل)، وہ قربتیں وہ فاصلے (دکن کا سفرنامہ) اور محبت کی چھاؤں (افسانوں کا مجموعہ) بھی منظرِ عام پر آیا۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد کا تذکرہ

    حبیب ولی محمد کو ہم سے جدا ہوئے آٹھ سال بیت گئے ہیں، لیکن ان کی آواز میں غزلیں، کئی فلمی گیت اور ملّی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رَس گھول رہے ہیں۔ 4 ستمبر 2014ء کو وفات پانے والے حبیب ولی محمد شوقیہ گلوکار تھے جو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی بدولت پاکستان بھر میں پہچانے گئے۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کا آبائی وطن برما تھا جہاں انھوں نے شہر رنگون میں آنکھ کھولی۔ ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا اور تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے۔ حبیب ولی محمد نے طویل عرصہ علالت کے بعد امریکا میں‌ وفات پائی۔ ان کی عمر 93 سال تھی۔

    حبیب ولی محمد منفرد آواز کے مالک تھے اور ان کی وجہِ شہرت غزل گائیکی تھی۔ مشہور غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ کے علاوہ ان کی آواز میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ جیسا کلام باذوق سامعین میں بہت مقبول ہوا۔ معین احسن جذبی کی غزل ‘مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے’ نے حبیب ولی محمد کی شہرت کو گویا بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے فلمی گیت بھی گائے، لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے، لیکن ان کی آواز میں ملّی نغمات اور خاص طور پر غزلوں کے ریکارڈ بہت پسند کیے گئے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

  • مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے پہچان اور فلم ایک تھی لڑکی کے گیت لارا لپا، لارا لپا لائی رکھدا کے سبب پاکستان بھر میں‌ شہرت ملی تھی۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔

    1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والی خورشید جہاں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بمبئی سے کیا تھا۔ سہراب مودی جیسے باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر نے اپنی فلم سکندر میں مینا شوری کو ایک کردار سونپا تھا جس میں شائقین نے انھیں بہت پسند کیا اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت کے دروازے بھی اداکارہ پر کھلتے چلے گئے۔ انھیں فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی کی بدولت شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کرنے کا موقع ملا۔ ’لارا لپا، وہ گیت تھا جس نے اداکارہ کو ہندوستان بھر میں لارا لپا گرل مشہور کردیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والی مینا شوری نے یہاں سب سے بڑے شہر کراچی میں‌ قیام کیا اور پھر وہ لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اداکارہ نے 83 فلموں میں کام کیا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے 54 فلمیں کیں۔ حسین و جمیل مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔

  • یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    پسِ پردہ فلمی گلوکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے والی اور سریلی آواز کی مالک نسیم بیگم نے 29 ستمبر 1971ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، لیکن پاک وطن کی فضاؤں میں ہر سال یومِ دفاع پر جب یہ نغمہ گونجتا ہے تو گویا ان کی یاد بھی زندہ ہوجاتی ہے۔

    اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

    یہ نغمہ مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار سیف الدّین سیف نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    نسیم بیگم کی سریلی اور پُرسوز آواز میں کئی قومی نغمات اور فلمی گیت ریکارڈ ہوئے جنھیں دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان کی اس مقبول فلمی گلوکارہ نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لیا تھا۔ موسیقی اور راگ راگنی کا سے انھیں ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا۔

    نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہریار نے انھیں فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ گانے کا موقع دیا اور وہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ بنیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں سو بار چمن مہکا‘، اس بے وفا کا شہر ہے‘، چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم شامل تھے۔

    ان کے گائے ہوئے دیگر مقبول نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کی اس مقبول ترین کلاسیکی گلوکارہ نے سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کی آواز میں امر ہوجانے والے گیتوں کی مدھرتا آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔