Tag: ستمبر فوتیدگی

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • فن و ادب میں ممتاز خلیق ابراہیم خلیق کا تذکرہ

    فن و ادب میں ممتاز خلیق ابراہیم خلیق کا تذکرہ

    ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ خلیق ابراہیم خلیق کی زندگی کے ابتدائی 27 سال کی خود نوشت ہے۔ اس روداد کے بارے میں وہ لکھتے ہیں، ’’یہ دوسری خود نوشتوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ آپ بیتی سے زیادہ ایک تہذیب کی سرگزشت ہے۔‘‘

    خلیق ابراہیم خلیق اردو کے معروف افسانہ نگار، شاعر، نقّاد، تذکرہ نویس اور ایک باکمال فلم ساز تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 29 ستمبر 2006ء کو تمام ہوا۔

    رفیع الزّماں زبیری نے خلیق ابراہیم خلیق کی خودنوشت کے بارے اپنے مضمون میں لکھا: لکھنؤ جہاں خلیق ابراہیم خلیق نے شعورکی آنکھیں کھولیں اور نشوونما پائی وہ آزادی اور قیام پاکستان سے دس سال پہلے کا لکھنؤ تھا اور ان کی کہانی اسی لکھنؤ کی یادوں سے شروع ہوتی ہے، پھر اجمیر، الٰہ آباد، لاہور، دہلی اور بمبئی کی یادیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔

    خلیق ابراہیم حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم محمد رفیق ابراہیم نہ صرف ایک ممتاز طبیب تھے بلکہ طب کا درس بھی دیتے تھے۔ وہ پہلے کانگریس کے اشتراکی نظریات سے متاثر تھے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوکر حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں حصّہ لیا۔ شعر و ادب کا بھی شوق تھا۔ خلیق ابراہیم کی شخصیت پر باپ دادا کی شخصیت کا اثر نمایاں تھا۔

    جن احباب سے خلیق ابراہیم کا خاصا ربط و ضبط رہا، ان میں مجاز، احسن فاروقی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، ظفر انصاری، صفدر میر اور اخترُ الایمان شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم نے اپنی کتاب میں ان چند شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں ترقی پسند ادب کی تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لکھتے ہیں، ’’ترقی پسندوں کے دوست، فلسفی اور راہ نما سجاد ظہیر تھے اور پیر مغاں جوشؔ ملیح آبادی۔‘‘ جوش کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے تخیل میں جو بلندی تھی ویسی ان کے علم میں وسعت اور گہرائی ہوتی تو وہ غالب اور اقبال کے ہم پلّہ ہوتے۔ سجاد ظہیر نہایت سلجھے ہوئے ذہن کے روشن خیال اور وسیع النظر دانش ور تھے اور تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ علی سردار جعفری کے بارے میں خلیق ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جن کا علمی مرتبہ مسلّم ہے۔ ان کی نظم اور نثر دونوں میں روحِ عصر کی بھرپور نمایندگی ہے۔

    مجازؔ سے خلیق ابراہیم خلیق کی پہلی ملاقات 1939ء میں ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’ان سے اپنے نیازمندانہ تعلقات کے دوران مجھے انھیں قریب سے دیکھنے کے مواقعے ملے اور میں نے ان کی قلبی واردات اور ذہنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی زندگی اور شاعری کے اس مطالعے میں کچھ ایسی باتیں ملیں جو ایک شخص اور شاعری کی حیثیت سے ان کے مقام کے تعین میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔‘‘

    خلیق لکھتے ہیں ’’رومانیت کے سرچشمے سے نئی شاعری کے دو دھارے پھوٹے تھے۔ ان میں سے منفی اور حریفانہ عناصر والے دھارے کا راستہ بنانے والے ن۔ م راشد اور میرا جی تھے اور مثبت اور صحت مند عناصر کے زور پر رواں ہونے والے دھارے کا رخ متعین کرنے والے مجازؔ اور فیضؔ تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مؤخرالذّکر دھارے کا رخ متعین کرنے میں پہل مجازؔ نے کی تھی۔

    خلیق ابراہیم خلیق کو بچپن سے جن شہروں کو دیکھنے کا شوق تھا ان میں دہلی کے ساتھ لاہور سرفہرست تھا۔ ان کا یہ شوق قیام پاکستان سے قبل دو بار پورا ہوا۔ ایک بار پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دینے کے لیے اور دوسری بار لاہور اور اس کے باسیوں سے قرار واقعی واقفیت حاصل کرنے کے لیے۔ دوسری بار لاہور کے سفر میں بشیر ہندی ان کے میزبان تھے۔ انھوں نے خلیق کو شہر دکھایا اور کئی علمی شخصیات سے ملاقات بھی کرائی۔ ان شخصیات مین عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفی تبسم، مولانا صلاح الدین، عبدالرحمن چغتائی، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، میراجی، شبلی بی کام، باری علیگ، ظہیر کاشمیری، حمید نسیم اور اوپندر اشک شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم خلیق کو لکھنؤ سے دہلی جانے کا کئی بار اتفاق ہوا مگر کبھی چار چھ روز سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف دو بار ایسا ہوا کہ دہلی میں کئی کئی ماہ قیام رہا۔ خلیق نے جامعہ ملیہ میں داخلہ لیا لیکن اس کے ہوسٹل میں نہیں رہے۔ یہ بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے گھر میں رہے۔ یہ روزانہ صبح کو تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتے، دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتے۔ انھیں جامعہ میں پڑھتے ہوئے چند ماہ گزرے تھے کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ انھیں واپس لکھنؤ جانا پڑا۔

    یہ خواجہ حسن نظامی سے بھی ملے۔ جوش سے بھی ملاقات ہوئی۔ دوبارہ یہ مولوی عبدالحق کے ذاتی معاون ہوکر دہلی گئے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر دریا گنج میں تھا۔ اسی کوٹھی میں ایک کمرے میں یہ رہتے تھے اور یہی ان کا دفتر بھی تھا۔ اس مرتبہ قیام کے دوران مختار صدیقی اور اختر الایمان سے مراسم قائم ہوئے۔

    بمبئی کی دلفریبیوں کی داستانیں سن کر خلیق ابراہیم کا وہاں جانے کو بہت جی چاہتا تھا۔ یہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اتفاق سے ایک موقع بمبئی جانے کا نکل آیا۔ حکومت ہند کے بمبئی میں ادارے انفارمیشن فلمز میں تبصرہ (کمنٹری) نگاروں کی دو اسامیوں کا اشتہار آیا۔ انھوں نے درخواست بھیج دی۔ تحریری امتحان اور انٹرویو کے لیے بلالیے گئے۔ یہ گئے اور تحریری امتحان میں کام یاب ہوگئے۔ انٹرویو ہوا جو کچھ صحیح نہ تھا۔ لکھنو واپس آگئے۔ کچھ ہی دن میں تقرری کا خط آگیا۔ خلیق بمبئی پہنچ گئے۔ دو تین ہفتے خلافت ہاؤس میں رہے، پھر آغا بشیر کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کا کام تبصرے لکھنا اور فلم سازی کی مختلف ٹیکنیک سیکھنا تھا۔ کام دل چسپ تھا، یہ خوش تھے لیکن ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ 1947ء کے شروع میں یہ ادارہ بند ہوگیا۔

    خلیق ابراہیم کو اپنے دوست آغا مجنوں کی وساطت سے فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کا کام مل گیا۔ ان کے لیے بمبئی میں قیام کا سامان ہوگیا۔ بمبئی میں اب فلمی صنعت کے علاوہ خلیق کے روزگار کا وسیلہ اخبارات تھے۔ ساتھ ساتھ ادبی مشاغل بھی جاری تھے۔

    خلیق ابراہیم خلیق 1953ء میں پاکستان آگئے۔ انھوں نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی اور یہاں متعدد دستاویزی فلمیں بنائیں جن میں غالب، پاکستان اسٹوری، آرکیٹیکچرل ہیریٹیج آف پاکستان، ون ایکٹر آف لینڈ، پاتھ ویز ٹو پراسپیریٹی اور کوکونٹ ٹری شامل ہیں۔ ان کی تصانیف میں کام یاب ناکام، عورت، مرد اور دنیا، اردو غزل کے پچیس سال اور اجالوں کے خواب شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے خلیق ابراہیم خلیق کو تمغا امتیاز عطا کیا گیا تھا۔

  • ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان 1950ء کے عشرے میں اس تنازع کا سبب بنے تھے جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا، لیکن تقریباً نصف صدی بعد انھیں اس کا ردعمل دیکھنا پڑا۔

    یہ 1999ء کی بات ہے جب آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ان کا نام پکارا گیا تو حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ منتظمین پر کڑی تنقید کی گئی اور کازان کو خفّت اٹھانا پڑی۔

    اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج بھی ان کی یہ شناخت قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار بنے اور ان کی فلمیں دیکھ کر نو آموز فن کاروں کو سیکھنے کا موقع ملا۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ وہ 2003ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو گئے تھے۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے کمیونسٹوں سے متعلق بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے جس سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    آج اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاد اور براڈ کاسٹر حمید نسیم کی برسی ہے۔ وہ فنونِ لطیفہ کے شائق اور اسلامی علوم و تعلیمات سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ 28 ستمبر 1998ء کو وفات پانے والے حمید نسیم نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو ان کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کا نمونہ ہیں۔

    حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس وابستگی کے ساتھ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ حمید نسیم ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان و بیان میں عمدہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلامی علوم کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔

    حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جستِ جنوں اور گردِ ملال شامل ہیں جب کہ تنقید میں "علّامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔

    حمید نسیم کی خود نوشت سوانح عمری بھی "ناممکن کی جستجو” کے نام سے شایع ہوئی۔

    وہ تعارفِ فرقان کے نام سے قرآن کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن اسے مکمل نہ کرسکے اور وفات پائی۔

  • رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    راجہ رام موہن رائے 1833ء میں‌ آج کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے لیکن ہندوستان میں انھوں نے اپنی فہم و فراست، دور اندیشی اور جس علم دوستی کا ثبوت دیا، اس نے نہ صرف ہندوؤں بلکہ سرسیّد جیسے تمام مسلم اکابرین اور قابلِ ذکر شخصیات کو بھی بے حد متاثر کیا۔

    آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ مشہور ہندو مصلح اور ایسے علم دوست انسان تھے جنھوں نے انگریز راج کے زمانے میں سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہمیں سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کیا کہ وہ جدید تعلیم اور سائنس کی طرف متوجہ ہوکر ہی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ قدامت پسند اور سخت گیر ہندوؤں میں مخالفت کے باوجود انھوں نے اپنے خیالات اور فکر کا پرچار جاری رکھا۔

    رام موہن رائے اس دور میں مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے تھے جہاں انھوں نے اپنی آنکھوں سے ، نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ پر دیکھے تھے۔ اس کا ان پر گہرا اثر ہوا تھا۔

    راجہ رام موہن رائے 1774ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک مصلحِ قوم، عربی و فارسی کے عالم اور مغربی نظریات و افکار سے متاثر شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ان کا تعلق رادھا نگر، بنگال سے تھا اور ان کا خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل دربار سے وابستہ تھا۔

    اس دور کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کے دوران عربی فارسی سیکھی اور بعد میں مزید تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے جو اس وقت اسلامی تعلیمات کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہاں رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات اور دین کا مطالعہ اور اسے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عربی اور مختلف مصنّفین کی تصانیف کا مطالعہ کیا جس سے اتنا متاثر ہوئے کہ بُت پرستی کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا۔

    رام موہن رائے کو برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران اس بات کا ادراک ہوا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر گلے سے نہیں اتارا جاسکتا اور انھوں نے نہ صرف خود انگریزی زبان سیکھی بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے رہے۔ ان کی زندگی اصلاحی و سماجی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بسر ہوئی۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم کے سخت مخالف رہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے فضول رسم و رواج ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی۔ اس کے ذریعے انھوں نے ہندو معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہوگئی تھیں، ان کے خلاف مہم شروع کی۔

    ان کا ایک مقصد ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ انھوں نے ہندو سماج میں بیواؤں کے دوبارہ شادی کرنے کے حق میں تحریک چلائی۔

    راجہ رام موہن رائے نے یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے تعمیر کرائے اور لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول قائم کیے۔ انھوں نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید، روشن خیال اور آزاد نظامِ تعلیم کے حامی تھے۔

    ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم مصلح اور راہ نما سر سّید احمد خان نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے لندن میں اکبر شاہ ثانی کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے بعد واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے اور وہیں وفات پائی۔

  • ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    نام وَر ماہر لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صوبہ سندھ کی ایک روحانی شخصیت بھی تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    وہ 25 ستمبر 2005ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنے دینی اور روحانی سلسلے کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید کے میدان میں کئی موضوعات کو اپنی کتب میں‌ سمیٹا۔ اردو کی ترویج و ترقّی کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 1947 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1936 سے 1948 تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950 میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

    انھیں 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے اردو سے متعلق ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ تحریر کی متعدد خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آج اردو زبان کے اہم افسانہ نگار اور صحافی آغا بابر کا یومِ وفات ہے۔ 1998ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آغا بابر نے فلمی مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی تحریر کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت کی۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا منتقل ہوگئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ دیا۔ وہ وفات کے بعد نیویارک ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

  • یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    محسن احسان اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے، جنھوں‌ نے زندگی کی 77 بہاریں دیکھیں اور 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا۔

    محسن احسان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا جہاں رہتے ہوئے انھوں نے اردو ادب کی آب یاری کی اور زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی زمین کی فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، شوکت واسطی اور احمد فراز جیسی قد آور شخصیات کے ہم عصروں میں سے ایک تھے۔

    پشاور کے محسن احسان نے لندن میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    محسن احسان نے انگریزی ادب میں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے استاد اور پھر بحیثیت سربراہِ شعبہ انگریزی وابستگی اختیار کی۔ تدریس کے ساتھ وہ علمی و ادبی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے اور شاعری کا سفر جاری رکھا۔

    ان کا اصل نام احسان الٰہی تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 35 سال تک تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیں۔

    انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان نظموں اور غزلوں کے مجموعے ناتمام، ناگزیر، ناشنیدہ، نارسیدہ اور سخن سخن مہتاب کے نام سے شایع ہوئے جب کہ نعتیہ شاعری کا مجموعہ اجمل و اکمل کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔

    محسن احسان نے قومی و ملّی نغمات بھی لکھے۔ ان کا یہ کلام مٹی کی مہکار کے نام سے منظر عام پر آیا۔

    ادبِ‌ اطفال کی بات کی جائے تو انھوں نے پھول پھول چہرے کے نام سے خوب صورت نظموں کا مجموعہ بچّوں کے لیے پیش کیا۔

    ان کا ایک کارنامہ خوش حال خان خٹک اور رحمٰن بابا کی شاعری کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہاں ہم محسن احسان کی ایک غزل باذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    میں ایک عمر کے بعد آج خود کو سمجھا ہوں
    اگر رکوں تو کنارا، چلوں تو دریا ہوں

    جو لب کشا ہوں تو ہنگامۂ بہار ہوں میں
    اگر خموش رہوں تو سکوتِ صحرا ہوں

    تجھے خبر بھی ہے کچھ اے مسرتوں کے نقیب
    میں کب سے سایۂ دیوارِ غم میں بیٹھا ہوں

    مری خودی میں نہاں ہے مرے خدا کا وجود
    خدا کو بھول گیا جب سے خود کو سمجھا ہوں

    میں اپنے پاؤں کا کانٹا، میں اپنے غم کا اسیر
    مثالِ سنگِ گراں راستے میں بیٹھا ہوں

    بلندیوں سے مری سمت دیکھنے والے
    مرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں

    اگر ہے مقتلِ جاناں کا رخ تو اے محسنؔ
    ذرا ٹھہر کہ ترے ساتھ میں بھی چلتا ہوں

  • یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    سید مسعود الحسن کو شعر و سخن کی دنیا تابش دہلوی کے نام سے جانا گیا۔ اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر نے 2004ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ آج تابش دہلوی کی برسی ہے۔

    وہ 9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ وہیں پہلی سرکاری ملازمت شروع کی اور بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ یہاں ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے منسلک ہوگئے۔ تابش دہلوی نے ریڈیو پر خبرنامہ پڑھا اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

    1923ء میں انھوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ فانی بدایونی سے اصلاح لیتے رہے اور غزل اور نظم کے ساتھ نعت قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔

    انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا کیا تھا۔

    اردو شاعری میں انھو‌ں نے بڑا نام و مقام بنایا اور مشاعروں میں شرکت کرکے ہم عصر شعرا اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد پائی۔

    تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے اور ان کے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات کا خوب صورت و دل چسپ تذکرہ ہی نہیں نکلا بلکہ متعدد علمی و ادبی واقعات بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ دیدہ باز دید ان کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ان کی نثر پر گرفت اور کمال کا نمونہ ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان و ادب اور صحافت میں نام وَر رئیس امروہوی کا یومِ‌ وفات ہے جنھیں 22 ستمبر 1988ء کو زندگی سے محروم کردیا گیا تھا۔

    رئیس امروہوی کو کسی علم دشمن اور سفاک قاتل نے گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ 12 ستمبر 1914 کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ اسی گھرانے میں رئیس امروہوی کے علاوہ تقی امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا اور اردو زبان میں‌ علم و ادب کے گلشن میں‌ مزید خوش نما اور رنگ برنگے پھول کھلائے۔ رئیس امروہوی کی بات کی جائے تو انھوں نے فلسفہ و نفسیات کے موضوعات، ادب اور صحافت میں نام و مقام بنایا۔

    رئیس امروہوی قیامِ پاکستان سے قبل امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی تو یہاں قطعہ نگاری اور کالم نویسی ان کا حوالہ بنی اور تا دمِ مرگ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔

    ان کے کالم، علمی و ادبی مضامین اور شاعری مجموعے کی شکل میں محفوظ ہے۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، ملبوسِ بہار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔

    نفسیات اور مابعدالطبیعات ان کا محبوب موضوع تھا اور اس پر رئیس امروہوی کی ایک درجن سے زیادہ کتب شایع ہوئیں۔ ان کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
    گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

    انھیں‌ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔