Tag: ستمبر فوتیدگی

  • ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے مقبول ترین نعتیہ کلام کے چند اشعار ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے مدحتِ رسولﷺ کے لیے الفاظ کو اپنے کلام میں بے حد احترام، سلیقے، قرینے اور جذبات و کیفیات کی وارفتگی سے پرویا ہے۔ یہ نعت آج بھی نہایت عقیدت اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ ان کا دیگر نعتیہ کلام بھی بہت مقبول ہے۔

    سیّد اقبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق اور استاد تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ وہ یہاں بھی ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ سیّد اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا

  • یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    طفیل نیازی پاکستان کے معروف لوک گلوکار تھے جو 1990ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    وہ 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ طفیل نیازی نوٹنکیوں میں شرکت کرکے مقامی لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے کلاسیکی ڈراموں میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کرکے اپنے فن کی داد پائی۔

    انھوں نے اپنے فن کو ایک سنگیت گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ جاری رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مقامات اور تقریبات میں گانے بجانے کے ذریعے شرکا کو محظوظ کرنے لگے۔ انھیں‌ عوامی سطح پر پذیرائی ملتی رہی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو میں رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد طفیل نیازی ملتان چلے آئے اور بعد میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔

    26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا تو ملک میں ان کا مشہور گانا ’’لائی بے قدراں نال یاری‘‘ سنا گیا اور وہ ناظرین و سامعین میں متعارف ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں گانے بھی گائے اور دوسروں کے گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔

    1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    یوسف خان پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اوّل کے اداکاروں میں سے ایک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 20 ستمبر 2009ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    یوسف خان نے اردو اور پنجابی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے سنیما کے شائقین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ٹھہرے۔

    یوسف خان 10 اگست 1931 کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ 1954 میں فلم ’’پرواز‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ صبیحہ خانم ان کی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آئیں۔ یوسف خان نے جن اردو فلموں میں‌ کام کیا ان میں‌ چند نام مجرم، حسرت، بھروسہ، فیصلہ اور نیا دور ہیں۔ بعد میں‌ وہ پنجابی فلموں‌ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک نئے انداز سے شائقین کے سامنے آئے۔

    1962 میں فلم ’’پہاڑن‘‘ سے انھوں نے پنجابی فلموں میں‌ اداکاری شروع کی اور یہ سفر بہت کام یاب ثابت ہوا۔ یوسف خان نے پنجابی فلموں میں کئی یادگار کردار نبھائے۔ ان کی پنجابی فلموں میں ملنگی، یارانہ، بائو جی، ضدی، وارنٹ، ہتھکڑی، جگنی، شریف بدمعاش، قسمت، جبرو، خطرناک، حیدر خاں اور بڈھا گجر سرِفہرست ہیں۔

    یوسف خان نے اپنی شان دار پرفارمنس پر کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2006 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ فلم نگری کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ نگار اور 1999 میں نگار ملینئم ایوارڈ بھی انھیں دیا گیا تھا۔

    یوسف خان پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے شدید مخالف تھے، اور اس پر ہر فورم پر آواز بلند کی، مگر بھارتی فلموں کی نمائش کا سلسلہ نہ رک سکا جس پر وہ نہایت دل گرفتہ تھے۔

  • صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    آج اردو زبان و ادب میں ممتاز، صاحبِ اسلوب ادیب اور صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1987ء میں‌ آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ابوالفضل صدیقی کا تعلق بدایوں سے تھا جہاں وہ 1908ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ بٹوارے سے پہلے ہی ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    1932ء میں وہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں جن کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے بطور ادیب اپنی پہچان بنائی اور افسانہ نگاری میں ممتاز ہوئے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش جداگانہ تھا جس پر انھیں بے حد سراہا گیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    انھوں نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنے دل نشیں طرزِ‌ نگارش سے سحر پھونکا۔ ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا جب کہ ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    غلام علی آزاد بلگرامی ہندوستان کے ایک نہایت عالم فاضل اور بزرگ شخصیت ہیں جنھوں نے شعروادب، تاریخ اور تذکرہ نگاری کے ساتھ اپنے دینی ذوق و شوق اور نہایت اہم اور وقیع موضوعات پر تصنیف و تالیف کے سبب نام و مقام پایا۔

    وہ نواب ناصر جنگ والیِ حیدر آباد دکن کے استاد تھے۔ بلگرام سے اورنگ آباد آئے تھے اور یہاں دربار سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    1704ء میں پیدا ہونے والے غلام علی آزاد کا تعلق بلگرام سے تھا اور اسی نسبت ان کے نام کے ساتھ بلگرامی لکھا جاتا ہے۔ اورنگ آباد میں قیام کے دوران 1786ء میں آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں حسّانُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔

    حضرت غلام علی آزاد بلگرامی بیک وقت مختلف علوم و فنون میں طاق اور متعدد زبانوں پر کامل عبور رکھنے کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ علمی میدان میں اپنے افکار و خیالات کے نقش یادگار چھوڑے۔

    ان کی نثری تالیف میں’’شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے علاوہ سبحۃ المرجان جو دراصل علمائے ہند کا تذکرہ ہے، نہایت وقیع و مستند کتاب ہے۔ اسی طرح یدِ بیضا، جو عام شعرا کے تذکرے سے سجائی گئی ہے، خزانۂ عامرہ ان شعرا کے تذکرے پر مبنی ہے جو صلہ یافتہ تھے اور سرورِ آزاد ہندی نژاد شعرا پر نہایت معلوماتی اور مفید کتاب ہے۔ اس کے بعد مآثر الکرام میں انھوں نے علمائے بلگرام کا تذکرہ کیا ہے اور روضۃُ الاولیا میں اولیائے اورنگ آباد کے بارے میں‌ مستند اور جامع معلومات اکٹھی کردی ہیں۔

  • یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    حافظ محمد یوسف سدیدی پاکستان کے مایہ ناز خطّاط تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ ماہر خوش نویس اور یگانہ صفت خطّاط 1986ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ عبد المجید زرّیں رقم، حامد الآمدی اور ہاشم بغدادی جیسے استاد اور باکمال خطّاط کے سے متاثر تھے۔ انھوں نے تاج الدین زرّیں رقم اور منشی محمد شریف لدھیانوی جیسے خوش نویسوں کی شاگردی اختیار کی اور فنِ خطّاطی میں نام و مقام اور عزّت و مرتبہ پایا۔ کئی مشہور عمارتیں ان کے خطّاطی کے نمونوں سے مزیّن ہیں۔

    حافظ یوسف سدیدی نے 1927ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق چکوال، ضلع جہلم کے ایک گاؤں بھون سے تھا۔ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اسی عرصے میں خطّاطی سے رغبت پیدا ہوئی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں خطِ نستعلیق کے علاوہ ثلث، نسخ، دیوانی اور کوفی میں بھی اختصاص حاصل تھا۔ تاہم جدّت طبع نے انھیں‌ ہر خط میں انفرادیت لانے پر آمادہ کیا اور وہ اپنے الگ انداز کے لیے پہچانے گئے۔

    حافظ محمد یوسف سدیدی نے مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان، مسجدِ شہدا اور قطب الدین ایبک کے مزار پر اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے کئی کتابوں کے سرورق اور سرکاری دستاویزات کے لیے بھی اپنی فنی مہارت کا اظہار کیا۔

    وہ اپنے فن ہی نہیں سادگی، خوش مزاجی اور فقیرانہ طرز کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھیں ساندہ کلاں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    ٹیپو سلطان برصغیر کی تاریخ کے ایسے حکم ران ہیں جنھیں محبِّ وطن اور بہادر ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ مسلمانوں کے ایسے ہیرو ہیں‌ جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

    عنایت خان میسور کے اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی بیٹی نورُ النسا انڈین شہزادی اور برطانوی جاسوس مشہور ہیں۔ انھیں نور عنایت خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    نور کے والد تصوّف کے شیدائی، علم وفنون کے رسیا اور عدم تشدّد کے قائل تھے۔ انھوں نے ایک نومسلم امریکی خاتون سے شادی کی تھی۔ نورُ النسا عنایت خان یکم جنوری 1914ء کو روس کے شہر ماسکو میں پیدا ہوئیں۔ نورُالنّسا کا بچپن پیرس کے نواح میں گزرا۔ 1927ء میں والد کے انتقال کے بعد نورُ النسا کو میدانِ عمل میں‌ اترنا پڑا۔ وہ بہن بھائیوں میں بڑی تھیں۔

    نور کو عام بچّوں کی طرح کہانیاں سننے کا شوق تھا، لیکن وہ خود بھی ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانا چاہتی تھیں۔ اسی شوق نے انھیں بچّوں کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا اور یہی نہیں انھوں نے ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک کو بھی سمجھا اور آگے چل کر وائرلیس آپریٹر کی حیثیت سے ایک بڑی اور نہایت خطرناک ذمہ داری نبھائی۔

    یہ 1940ء کی بات ہے جب فرانس پر جرمنی نے قبضہ کیا تو نورُ النّسا نے برطانیہ کے لیے جرمنی کے خلاف خفیہ پیغام رسانی کی۔

    وہ یہ خطرناک کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں۔ نور النّسا کی عمر 26 برس تھی جب وہ جرمنی کے قبضے اور فرانس میں ظلم و ستم کے خلاف کسی خفیہ مشن کا حصّہ بنیں۔

    وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اسی صلاحیت نے انھیں برٹش اسپیشل آپریشنز کے انڈر کور ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

    وہ نازی جرمنی کے زیرِ قبصہ فرانس میں پیرا شوٹ کے ذریعے داخل ہونے والے جاسوسوں میں‌ سے ایک تھیں۔ انھیں‌ نازیوں کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے اور جرمن فوجی دستوں کی معلومات برطانیہ کو بھیجنے کا مشن سونپا گیا تھا۔ نورُ النّسا مشکل حالات اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ بہرحال ایک جاسوس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں، لیکن ایک روز انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ نازیوں نے انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور قید کرلیا۔ دورانِ تفتیش ان سے اہم معلومات حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی اور ستمبر 1944ء میں نور عنایت خان سمیت دیگر تین جاسوس خواتین کو جرمنی لے جایا گیا جہاں 13 ستمبر کو گولیاں مار دی گئیں۔

    نور عنایت خان کی موت کے بعد برطانیہ نے انھیں بہادر اور فرض شناس جاسوس قرار دیا اور انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ برطانیہ میں نور عنایت خان کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    ان کی زندگی پر دو ناول بھی لکھے گئے۔ 13 ستمبر 1944ء کو نور عنایت خان 30 سال کی عمر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

    کہتے ہیں کہ نورُ النّسا اپنے جدِ امجد سلطان ٹیپو سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں۔ دل چسپ بات ہے کہ برطانیہ ہی کے لیے جاسوس کے طور پر کام کرنے والی اس لڑکی کی خواہش تھی کہ انگریز اس کے وطن ہندوستان سے نکل جائیں اور یہ بات انھوں نے برطانوی خفیہ سروس میں بھرتی کے انٹرویو کے دوران انگریز افسر سے بھی کہہ دی تھی۔

  • یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ وسعتِ بیان اور ہمہ گیری عطا کی جس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور دوسری تحریکوں کو بھی متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا۔ ترقّی پسند تحریک اور اس کا فروغ سیّد سجّاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    سیّد سجّاد ظہیر آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ وہ 13 ستمبر 1973ء کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے روس میں موجود تھے جہاں فرشتہ اجل گویا ان کا منتظر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

    ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز اور اعزاز تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔

    یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج کے لیے یہ خطرناک بات تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی شعور سے آگاہی دی۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی ہوگئی۔

    گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کا گھر سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آمدورفت سے گویا بھرا رہتا تھا۔ انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے دوران سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    1928ء میں اوکسفرڈ کے اس طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقّی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا اور ادب کو نئی بلندی اور وسعتوں سے ہم کنار کرتے ہوئے تنوع دیا۔

  • انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    ادب اور صحافت میں زیبُ النسا حمیدُ اللہ صرف اسی لیے ممتاز نہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں تخلیقِ ادب اور کارِ صحافت کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے بلکہ انھوں نے اس زبان میں اپنی جان دار تخلیقات اور شان دار صحافت کے سبب نام و مقام بنایا تھا۔

    وہ انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی تھیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا اور پہلی خاتون مدیر رہیں۔

    آج زیبُ النسا حمید اللہ کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    کلکتہ ان کا وطن تھا جہاں وہ 25 دسمبر 1921ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت زرخیز ذہن کی مالک تھیں۔ انھوں نے اکتوبر 1951ء میں انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا یہ جریدہ اپنی معیاری تحریروں، مفید اور معلوماتی مضامین کی وجہ سے پاکستان بھر میں‌ مقبول ہوا۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1972ء تک جاری رہا۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہی زیبُ النسا حمید اللہ مختلف ہندوستانی اخبار و جرائد میں اپنے مضامین کی وجہ سے پہچان بنا چکی تھیں۔ انھیں پہلی مسلمان کالم نویس بھی کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں اور انگریزی زبان و ادب کے قارئین میں‌ ان کی ادبی اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے علاوہ شایع ہونے والے سیاسی کالم بہت مقبول ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعے The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شایع ہوئے۔

  • یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    محمد زبیر المعروف جھارا پہلوان 1991ء میں آج کے دن وفات پاگئے تھے۔ جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں لگ بھگ 60 کشتیاں لڑیں اور ہر مقابلے کے فاتح رہے۔ انھیں فخرِ پاکستان اور رستمِ پاکستان کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    کشتی یا پہلوانی برصغیر کا ایک مقبول کھیل رہا ہے اور اسے صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جسمانی نشوونما اور طاقت کا ذریعہ اور ایک نہایت مفید اور مثبت سرگرمی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں پاکستان کی پہچان بننے والے محمد زبیر کو جھارا پہلوان کے نام سے شہرت ملی۔

    وہ 1960ء میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو پہلوانی اور اکھاڑے میں‌ اترنے کے لیے مشہور تھا۔ وہ اسلم پہلوان کے بیٹے، مشہور بھولو پہلوان کے بھتیجے اور امام بخش پہلوان کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔

    27 جنوری 1978ء کو پہلا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترنے والے جھارا نے گوگا پہلوان کو چت کرکے فتح اپنے نام کی تھی۔ اگلے برس 1979ء جاپان کے مشہور پہلوان انوکی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کشتی کے پانچویں راؤنڈ کے بعد جاپانی پہلوان نے جھارا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے مقابلے کا فاتح قرار دے دیا تھا۔

    جھارا پہلوان نے 60 کے قریب مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور ہر بار فتح اپنے نام کی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ جھارا کی کام یابیوں سے حسد کرنے لگے تھے اور انھوں نے ایک سازش کے تحت اس پہلوان کو منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ یوں نہایت کم عمری میں جھارا نے اپنی زندگی گنوا دی۔ وہ صرف 31 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔