Tag: ستمبر وفات

  • منیر حسین کا تذکرہ جن کے گائے ہوئے نغمات آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں

    منیر حسین کا تذکرہ جن کے گائے ہوئے نغمات آج بھی سماعتوں میں رس گھولتے ہیں

    پاکستانی فلموں کے کئی سدا بہار اور لازوال رومانوی گیت ایسے ہیں جنھیں آج بھی نہ صرف بڑے شوق سے سنا جاتا ہے بلکہ اکثر انھیں گنگناتے بھی ہیں۔ ان نغمات کے بول محبّت اور جذبات کی فراوانی کے ساتھ محبوب کے لیے شیریں اور لطیف احساسات سے سجے ہوئے ہیں، لیکن منیر حسین کی آواز میں اپنے زمانے کا ایک مقبول گیت اس اعتبار سے یکسر مختلف ہے کہ اس میں ایک ناکام عاشق نے اپنی محبّت کو بد دعائیں دی ہیں۔ آج معروف گلوکار منیر حسین کی برسی منائی جارہی ہے۔

    27 ستمبر 1995ء کو وفات پانے والے گلوکار منیر حسین کی آواز میں مقبول ہونے والے اس گیت کے چند اشعار ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ یہ مشہور نغماتی فلم سات لاکھ کا گیت ہے

    قرار لوٹنے والے تو پیار کو ترسے!
    میری وفا کو میرے اعتبار کو ترسے
    خدا کرے تیرا رنگیں شباب چھن جائے
    تیری شراب جوانی خمار کو ترسے
    تو روئے رات کی تنہائیوں میں اٹھ اٹھ کر
    تجھے قرار نہ آئے، قرار کو ترسے
    خدا کرے تیرے دل کی کلی کبھی نہ کھلے
    بہار آئے مگر تُو بہار کو ترسے

    منیر حسین 1930ء میں‌ پیدا ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ فلم انڈسٹری میں‌ بطور گلوکار اپنی قسمت آزمانے پہنچے اور یہاں انھیں کام مل گیا۔ منیر حسین فنِ موسیقی کے دلدادہ تھے اور اس گھرانے کے فرد تھے جو سُر اور ساز سے محبّت کرتا تھا اور فن کار رہتے تھے۔ منیر حسین گویا آل راؤنڈر تھے اور کلاسیکی موسیقی میں بھی ماہر تھے۔ فلم انڈسٹری میں موسیقار صفدر حسین نے انھیں پہلی مرتبہ متعارف کروایا۔ انہی کی فلم ’’حاتم‘‘ کے لیے منیر حسین نے ’’ تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے‘‘ گایا اور بعد میں ان کی آواز کو اپنے وقت کے نام ور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے بھی اپنی دھنوں کے ساتھ آزمایا۔ منیر حسین نے انھیں مایوس نہ کیا اور فلم انڈسٹری میں آگے بڑھتے چلے گئے، اپنے وقت کے مشہور موسیقاروں کے علاوہ فلم سازوں نے بھی ان کے فن اور آواز کو سراہا۔

    رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین کی آواز میں‌ ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے ملک بھر میں مقبول ہوا اور اس کے بعد نثار میں تری گلیوں پہ، دلا ٹھیر جا یار دار نظارا لیندے، اور اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے جیسے گیتوں نے منیر حسین کو مزید شہرت دی، خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار جیسا مقبول گیت فلم کوئل میں شامل تھا جسے منیر حسین نے گایا۔ وہ اپنے وقت کے مقبول گلوکاروں میں سے ایک تھے جنھیں بہت عزّت اور پذیرائی ملی۔

    گلوکار منیر حسین کو لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    ہاجرہ مسرور: جرأت مند اور باکمال ادیب

    اُردو ادب میں ہاجرہ مسرور کا نام ان کی افسانہ نویسی اور عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی اہلِ قلم کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے گھرانے کی فرد تھیں جس میں علم و ادب کا چرچا تھا۔ ان کی بڑی بہن اردو کی مشہور ادیب خدیجہ مستور تھیں جب کہ بھائی خالد احمد شاعر اور ڈرامہ نگار تھے۔ آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر ظہور احمد خان برطانوی حکومت میں آرمی ڈاکٹر تھے جو دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقال کر گئے۔ اس کے بعد والدہ نے خاندان کو سنبھالا اور بچوں کی تعلیم و تربیت کی۔ یہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ہاجرہ مسرور نے بچپن ہی میں قلم تھام لیا تھا اور ان کے تخلیقی ذہن نے بعد میں‌ کئی خوب صورت کہانیاں اردو ادب کو دیں۔ تقسیم ہند کے بعد وہ اپنی ہمشیر کے ساتھ پاکستان آ گئی تھیں اور لاہور میں قیام کیا۔ یہاں ہاجرہ مسرور کی کہانیاں ادبی جرائد میں بڑی باقاعدگی سے چھپتی تھیں۔ ادبی حلقوں میں ان کی پہچان بنتی چلی گئی۔ ہاجرہ مسرور غیر روایتی افسانے لکھتی تھیں اور تنازعات کا شکار بھی رہیں۔ مشہور ہے کہ ایک زمانے میں ان کے فیض احمد فیض کے ساتھ اختلافات ہو گئے اور اس کے بعد ان کو ادبی حلقوں‌ کی جانب سے نظر انداز کیا گیا۔ ہاجرہ مسرور نے اپنی وفات سے دو دہائی قبل ہی لکھنا ترک کردیا تھا یا ان کی تخلیقات منظرِ عام پر نہیں آسکی تھیں۔ ان کی شادی معروف صحافی احمد علی خان سے ہوئی تھی جن کی وفات کا ہاجرہ مسرور کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ سب سے دور ہوگئی تھیں۔

    ہاجرہ مسرور کے گھر میں‌ اخبار اور ادبی جرائد آیا کرتے تھے۔ ان میں ’’ادبی دنیا‘‘، ’’ہمایوں‘‘، ’’ ساقی‘‘،’’ خیام‘‘ اور’’ عالمگیر‘‘ وغیرہ شامل تھے جو ان کے ادبی ذوق کی تسکین کا سامان کرتے اور انھیں لکھنے کی تحریک دیتے تھے۔ جب وہ ممبئی میں تھیں تو ان کے دو افسانوی مجموعے وہاں‌ شائع ہوگئے تھے۔ پاکستان میں ہاجرہ مسرور کے چار افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ہاجرہ مسرور نے سادہ مگر مؤثر نثر تحریر کی۔ ان کے استعارے اور کردار نگاری کے علاوہ ان کا ایک وصف اثر انگیز اندازِ بیاں تھا۔ ان کی اکثر کہانیاں 50 اور 60 کی دہائی میں لکھی گئیں۔

    1962ء میں مجلس ترقی ادب نے ہاجرہ مسرور کو ’’رائٹر آف دی ایئر‘‘ ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ انہیں ان کے ایک ایکٹ کے ڈراموں کے مجموعے ’’وہ لوگ‘‘ پر دیا گیا۔ ان کے ڈراموں کے مجموعوں کے دیباچے فیض احمد فیض اور امتیاز علی تاج نے تحریر کیے تھے۔ ہاجرہ مسرور نے 60 کی دہائی میں ایک فلم کا اسکرپٹ بھی لکھا۔ فلم کے لیے اس واحد اسکرپٹ پر انہیں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا اور اپنے اصولوں پر ہمیشہ قائم رہیں۔ انہیں 1995ء میں تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں’’چاند کی دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری، چھپے، ہائے اللہ، چرکے، وہ لوگ‘‘ اور ’’طمع‘‘ شامل ہیں۔

    ہاجرہ مسرور 15 ستمبر 2012ء کو 82 سال کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئی تھیں۔

  • اوفلاہرٹی:‌ اشتراکی نظریات رکھنے والا ناول نگار

    اوفلاہرٹی:‌ اشتراکی نظریات رکھنے والا ناول نگار

    لائم اوفلاہرٹی اشتراکی نظریات کا حامل آئرش ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا جس کا بچپن غربت دیکھتے ہوئے اور نوعمری کا زمانہ معاشی مسائل سے لڑتے ہوئے گزرا۔ لیکن اس نے بطور تخلیق کار شہرت پائی اور معاشرے میں مقام بنانے میں‌ کام یاب ہوا۔

    اوفلاہرٹی کو اپنی مادری زبان اور ثقافت سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ ایک ذہین اور مستقل مزاج شخص تھا۔ اوفلاہرٹی خاص طور پر آئرش تہذیب اور ادب کو فروغ دینا چاہتا تھا۔ اوفلاہرٹی نے اپنی مادری زبان میں‌ خوب لکھا مگر ساتھ ہی انگریزی میں بھی ادب تخلیق کیا۔ وہ اپنی تخلیقات میں عام لوگوں کے نقطۂ نظر کو پیش کرتا تھا۔ اس کے افسانے عام آدمی کی زندگی کا احاطہ کرتے اور ان کے تجربات کو کرداروں کی شکل میں‌ بیان کردیتا تھا۔ یوں اوفلاہرٹی نے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا اور ان میں‌ مقبول ہوا۔

    اوفلاہرٹی 28 اگست 1896ء کو آئرلینڈ میں پیدا ہوا۔ اس نے طویل عمر پائی اور دنیا بھر میں‌ بطور ادیب پہچان بنانے میں کام یاب ہوا۔ 7 ستمبر 1984ء کو اوفلاہرٹی چل بسا تھا۔ اوفلاہرٹی نے بچپن میں غربت دیکھی تھی اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کئی محرومیوں کا شکار رہا۔ اسکول میں تعلیم کی تکمیل کے بعد اس زمانے کے رواج کے مطابق اوفلاہرٹی نے مذہبی درس بھی لیا۔ والدین کی خواہش تھی کہ وہ مذہبی پیشوا بن کر تبلیغ کا فریضہ انجام دے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 1917ء میں اوفلاہرٹی کو آئرش گارڈز میں بھرتی ہونا پڑا اور دوسرے نوجوانوں کی طرح وہ ایک محاذِ جنگ پر روانہ ہوگیا۔ یہ پہلی جنگِ عظیم کا زمانہ تھا جو لائم اوفلاہرٹی کے لیے خاصا پُرصعوبت اور مشکل ثابت ہوا۔ ایک موقع پر لڑتے ہوئے وہ زخمی ہوگیا اور خاصا عرصہ زیرِ علاج رہا۔ اگرچہ وہ ایک فوجی جوان تھا، لیکن نہ تو وہ سخت دل تھا، نہ ہی لڑاکا۔ اس کے اندر ایک فن کار چھپا تھا۔ وہ ایک تخلیقی ذہن رکھنے والا حسّاس طبع نوجوان تھا۔ جنگ اور خون ریزی اس کے لیے ایک بھیانک خواب تھا۔ وہ مجبوراً آئرش گارڈ کا حصّہ بنا تھا۔ اس جنگ نے اس کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ 1933ء میں اسے دماغی دورہ پڑا جس کا ایک سبب جنگ اور اس میں ہونے والی وہ ہلاکتیں تھیں جو لائم اوفلاہرٹی نے دیکھی تھیں۔ تاہم جنگ کے بعد اس نے اپنا وطن آئرلینڈ چھوڑ دیا اور امریکہ منتقل ہوگیا۔ وہاں کچھ عرصہ اوفلاہرٹی نے ہالی وڈ میں بھی کام کیا۔ امریکہ ہجرت کرنا لائم اوفلاہرٹی کی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی لایا۔ کہا جاسکتا ہے کہ وہیں اس کی ادبی زندگی کا صحیح معنوں میں آغاز ہوا۔

    1923 میں جب اوفلاہرٹی 27 سال تھا تو اس کی پہلی شارٹ اسٹوری اور ایک ناول شایع ہوچکا تھا۔ بعد میں امریکہ میں رہتے ہوئے اوفلاہرٹی نے انگریزی اور آئرش زبان میں ناول اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے متعدد ناول منظرِ‌عام پر آئے اور قارئین نے انھیں پسند کیا۔ 1950ء میں اوفلاہرٹی کی آخری تخلیق شایع ہوئی تھی۔

    لائم اوفلاہرٹی نے شاعری بھی کی۔ لیکن اس کی پہچان کہانیاں اور ناول ہیں۔ اس کے ناولوں میں The Black Soul، The Informer ، The Assassin ، Mr. Gilhooley و دیگر شامل ہیں جن میں سے دی انفارمر سے ماخوذ کہانی کو فلمایا بھی گیا۔

  • مینا شوری:‌ پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن جس کی تدفین ایک فلاحی ادارے کو کرنا پڑی

    مینا شوری:‌ پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن جس کی تدفین ایک فلاحی ادارے کو کرنا پڑی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کا ایک خوب صورت چہرہ اور مقبول نام مینا شوری تھا جو قیامِ پاکستان سے قبل متحدہ ہندوستان میں اپنا فلمی کیریئر شروع کرچکی تھیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد پچاس کی دہائی میں مینا شوری پاکستانی فلموں میں بطور ہیروئن نظر آنے لگیں اور کام یاب رہیں۔

    مینا شوری کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ وہ اپنی بہن کے ساتھ ممبئی شفٹ ہوئیں تو وہاں ان کی ملاقات ہندوستان کے مشہور فلم میکر اور اداکار سہراب مودی سے ہوئی۔ وہ فلم ’’سکندر‘‘ بنانے کا سوچ رہے تھے۔ سہراب مودی نے مینا شوری کی چھپی صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور انھیں فلم ’’سکندر‘‘ میں کاسٹ کر لیا۔ یہ سپرہٹ فلم ثابت ہوئی اور یوں مینا شوری کا یہ فلمی سفر آگے بڑھا۔

    مینا شوری نے پہلی شادی روپ کے شوری سے کی تھی لیکن جب وہ ایک موقع پر لاہور آئے تو یہاں‌ فلم سائن کرنے والی مینا شوری نے واپس ممبئی جانے سے انکار کردیا تھا۔ یوں روپ کے شوری کو مایوس لوٹنا پڑا۔ اور مینا نے یہاں فلموں میں کام شروع کردیا۔ اس وقت فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے جو پہچان ملی تھی اس کو فلم "ایک تھی لڑکی” کے شوخ گیت "لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا” نے بلندیوں پر پہنچا دیا۔ وہ لارا لپا گرل مشہور ہوگئی اور پاکستان بھر میں‌ مینا شوری کا نام سنا جانے لگا۔ یہ اداکارہ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا ہوکر 3 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھی۔ مینا شوری کی ذاتی زندگی کئی مصائب اور تکالیف کا شکار رہی اور ان کا انجام بھی افسوس ناک ہوا۔ کہتے ہیں‌ کہ آخری عمر میں وہ مالی مشکلات اور تنہائی کا عذاب جھیل رہی تھیں. اس پر ان کی بیماری بھی تکلیف دہ تھی۔ المیہ دیکھیے کہ اپنے وقت کی مشہور اداکارہ اور کام یاب ہیروئن کی موت کے بعد ان کے کفن دفن کا انتظام بھی ایک خیراتی ادارے کو کرنا پڑا تھا۔ مینا شوری کے تاریخ و سنہ وفات میں بھی اختلاف ہے۔ لاہور میں‌ ان کے مدفن پر جو کتبہ موجود ہے، اس کے مطابق ان کی موت 1987 میں ہوئی جب کہ اکثر جگہ مہینہ فروری بھی لکھا گیا ہے۔

    اداکارہ نے 1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد مینا شوری کراچی میں رہیں اور پھر لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کیں اور سب ناکام رہیں۔

    مینا شوری کی مشہور فلموں میں پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی شامل ہیں جب کہ سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان میں بھی انھوں نے بہت عمدہ اداکاری کی تھی۔ پاکستان میں مینا شوری نے 54 فلموں میں کام کیا تھا۔

  • خلیق ابراہیم خلیق: شاعر، ادیب اور ایک فلم ساز

    خلیق ابراہیم خلیق: شاعر، ادیب اور ایک فلم ساز

    خلیق ابراہیم خلیق 2006ء میں آج ہی کے دن اس دارِفانی سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ ادیب، شاعر، نقّاد اور تذکرہ نویس ہی نہیں باکمال فلم ساز بھی تھے۔ آج خلیق ابراہیم خلیق کی برسی ہے۔

    رفیع الزّماں زبیری خلیق ابراہیم خلیق کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: لکھنؤ جہاں خلیق ابراہیم خلیق نے شعورکی آنکھیں کھولیں اور نشو و نما پائی، وہ آزادی اور قیام پاکستان سے دس سال پہلے کا لکھنؤ تھا اور ان کی کہانی اسی لکھنؤ کی یادوں سے شروع ہوتی ہے، پھر اجمیر، الٰہ آباد، لاہور، دہلی اور بمبئی کی یادیں اس میں شامل ہو جاتی ہیں۔

    خلیق ابراہیم خلیق 1926ء میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے اور کم عمری میں لکھنؤ چلے گئے۔ اُن کے والد حکیم محمد رفیق ابراہیم کا شمار اپنے دور کے ممتاز اطباء میں ہوتا تھا۔ وہ ایک قابل اور صاحبِ ذوق شخص تھے جو پہلے کانگریس کے اشتراکی نظریات سے متاثر تھے، لیکن بعد میں مسلم لیگ سے وابستہ ہوئے اور حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں حصّہ لیا۔ شعبۂ طبّ کی تدریس کے ساتھ حکیم محمد رفیق شعر و ادب کا بھی عمدہ ذوق رکھتے تھے اور علم و ادب کا یہی ذوق خلیق ابراہیم خلیق میں منتقل ہوا۔ کچھ وقت گزرا تو خلیق ابراہیم خلیق نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچانا اور نظم و نثر میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے لگے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور شاعری بھی کی۔ خلیق ابراہیم خلیق کو نوجوانی میں اس دور کے ممتاز اہلِ قلم کی صحبت نصیب ہوئی اور ان سے علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو نے ابراہیم خلیق کو بھی فکر و فن کے نئے زاویوں اور رجحانات سے آشنا کیا۔ ذی علم شخصیات کی کشش اور رفتگاں کی یاد بود کا اشتیاق انھیں ہندوستان کے مختلف شہروں میں لیے پھرا اور اس کا احوال وہ ادبی تذکرے کی صورت میں رقم کرتے رہے، اس کی ایک مثال یہ تحریر ہے جو دہلی میں ان کے قیام سے متعلق ہے، ” جامع مسجد کے جنوبی دروازے کے بالمقابل اردو بازار میں مفتی کفایت اللہ صدر جمیعت العلمائے ہند کے داماد مولوی سمیع اللہ کی کتابوں کی دکان ادیبوں، شاعروں اور علم و ادب کا ذوق رکھنے والوں کی بیٹھک تھی۔ مولوی سمیع اللہ بے حد منکسرالمزاج اور مجسم اخلاق تھے۔ آپ ان کی دکان پر کسی وقت بھی چلے جاتے، کسی نہ کسی علمی، ادبی یا سیاسی شخصیت سے ضرور مڈ بھیڑ ہوجاتی۔ ان میں دلی والے بھی ہوتے اور باہر سے آنے والے بھی۔ اسی دکان پر میری ملاقات مولانا محمد حسین آزاد کے نواسے آغا محمد باقر، نخشب جارچوی، شکیل بدایونی، روش صدیقی، انور صابری اور مولانا امداد صابری سے ہوئی۔ غالباً انور صابری کو چھوڑ کر باقی حضرات اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ حمید ہاشمی سے بھی طفیل احمد جمالی نے مجھے مولوی سمیع اللہ کی دکان ہی پر ملایا تھا۔ حمید ہاشمی قیام پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے اور روزنامہ ”امروز“ کے ادارتی عملے میں شامل تھے۔ قاہرہ کے الم ناک ہوائی حادثے میں جاں بحق ہوئے۔ ان کے بڑے بھائی انیس ہاشمی کراچی کی نمایاں سیاسی و سماجی شخصیتوں میں سے تھے۔“

    زبیری صاحب اپنے کالم میں لکھتے ہیں، جن احباب سے خلیق ابراہیم کا خاصا ربط و ضبط رہا، ان میں مجاز، احسن فاروقی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، ظفر انصاری، صفدر میر اور اخترُالایمان شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم نے اپنی خود نوشت ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ میں ان چند شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں ترقی پسند ادب کی تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ وہ لکھتے ہیں، ’’ترقی پسندوں کے دوست، فلسفی اور راہ نما سجاد ظہیر تھے اور پیر مغاں جوشؔ ملیح آبادی۔‘‘ جوش کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے تخیل میں جو بلندی تھی ویسی ان کے علم میں وسعت اور گہرائی ہوتی تو وہ غالب اور اقبال کے ہم پلّہ ہوتے۔ سجاد ظہیر نہایت سلجھے ہوئے ذہن کے روشن خیال اور وسیع النظر دانش ور تھے اور تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ علی سردار جعفری کے بارے میں خلیق ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جن کا علمی مرتبہ مسلّم ہے۔ ان کی نظم اور نثر دونوں میں روحِ عصر کی بھرپور نمایندگی ہے۔

    اسرار الحق مجازؔ سے خلیق ابراہیم خلیق کی پہلی ملاقات 1939ء میں ہوئی۔ ان کے بارے میں‌ خلیق ابراہیم خلیق نے لکھا، ’’ان (مجاز) سے اپنے نیازمندانہ تعلقات کے دوران مجھے انھیں قریب سے دیکھنے کے مواقعے ملے اور میں نے ان کی قلبی واردات اور ذہنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی زندگی اور شاعری کے اس مطالعے میں کچھ ایسی باتیں ملیں جو ایک شخص اور شاعری کی حیثیت سے ان کے مقام کے تعین میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔‘‘

    ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ خلیق ابراہیم خلیق کی زندگی کے ابتدائی 27 سال کا احاطہ کرتی ہے اور یہ وہ خود نوشت ہے جس کے بارے میں مصنّف نے لکھا ہے، ’’یہ دوسری خود نوشتوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ آپ بیتی سے زیادہ ایک تہذیب کی سرگزشت ہے۔‘‘

    زبیری صاحب نے اس کتاب پر اپنے کالم میں لکھا ہے، خلیق ابراہیم خلیق کو بچپن سے جن شہروں کو دیکھنے کا شوق تھا، ان میں دہلی کے ساتھ لاہور سرفہرست تھا۔ ان کا یہ شوق قیام پاکستان سے قبل دو بار پورا ہوا۔ ایک بار پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دینے کے لیے اور دوسری بار لاہور اور اس کے باسیوں سے قرار واقعی واقفیت حاصل کرنے کے لیے۔ دوسری بار لاہور کے سفر میں بشیر ہندی ان کے میزبان تھے۔ انھوں نے خلیق کو شہر دکھایا اور کئی علمی شخصیات سے ملاقات بھی کرائی۔ ان شخصیات مین عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفی تبسم، مولانا صلاح الدین، عبدالرحمن چغتائی، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، میراجی، شبلی بی کام، باری علیگ، ظہیر کاشمیری، حمید نسیم اور اوپندر اشک شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم خلیق کو لکھنؤ سے دہلی جانے کا کئی بار اتفاق ہوا، مگر کبھی چار چھ روز سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف دو بار ایسا ہوا کہ دہلی میں کئی کئی ماہ قیام رہا۔ خلیق نے جامعہ ملیہ میں داخلہ لیا لیکن اس کے ہوسٹل میں نہیں رہے۔ یہ بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے گھر میں رہے۔ یہ روزانہ صبح کو تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتے، دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتے۔ انھیں جامعہ میں پڑھتے ہوئے چند ماہ گزرے تھے کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ انھیں واپس لکھنؤ جانا پڑا۔ یہ خواجہ حسن نظامی سے بھی ملے۔ جوش سے بھی ملاقات ہوئی۔ دوبارہ یہ مولوی عبدالحق کے ذاتی معاون ہوکر دہلی گئے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر دریا گنج میں تھا۔ اسی کوٹھی میں ایک کمرے میں یہ رہتے تھے اور یہی ان کا دفتر بھی تھا۔ اس مرتبہ قیام کے دوران مختار صدیقی اور اختر الایمان سے مراسم قائم ہوئے۔

    بمبئی کی دلفریبیوں کی داستانیں سن کر خلیق ابراہیم کا وہاں جانے کو بہت جی چاہتا تھا۔ یہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اتفاق سے ایک موقع بمبئی جانے کا نکل آیا۔ حکومت ہند کے بمبئی میں ادارے انفارمیشن فلمز میں تبصرہ (کمنٹری) نگاروں کی دو اسامیوں کا اشتہار آیا۔ انھوں نے درخواست بھیج دی۔ تحریری امتحان اور انٹرویو کے لیے بلالیے گئے۔ یہ گئے اور تحریری امتحان میں کام یاب ہوگئے۔ انٹرویو ہوا جو کچھ صحیح نہ تھا۔ لکھنؤ واپس آگئے۔ کچھ ہی دن میں تقرری کا خط آگیا۔ خلیق بمبئی پہنچ گئے۔ دو تین ہفتے خلافت ہاؤس میں رہے، پھر آغا بشیر کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کا کام تبصرے لکھنا اور فلم سازی کی مختلف ٹیکنیک سیکھنا تھا۔ کام دل چسپ تھا، یہ خوش تھے لیکن ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ 1947ء کے شروع میں یہ ادارہ بند ہوگیا۔

    خلیق ابراہیم کو اپنے دوست آغا مجنوں کی وساطت سے فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کا کام ملا تھا۔ ان کے لیے بمبئی میں قیام کا سامان ہوگیا۔ بمبئی میں اب فلمی صنعت کے علاوہ خلیق کے روزگار کا وسیلہ اخبارات تھے۔ ساتھ ساتھ ادبی مشاغل بھی جاری تھے۔

    1953ء میں خلیق ابراہیم خلیق پاکستان آگئے اور کراچی میں‌ سکونت اختیار کی۔ یہاں انھوں نے متعدد دستاویزی فلمیں بنائیں جن میں غالب، پاکستان اسٹوری، آرکیٹیکچرل ہیریٹیج آف پاکستان، ون ایکٹر آف لینڈ، پاتھ ویز ٹو پراسپیریٹی اور کوکونٹ ٹری شامل ہیں۔ خلیق ابراہیم خلیق کی شاعری، افسانے اور تنقید پر کتابیں کام یاب ناکام، عورت، مرد اور دنیا، اردو غزل کے پچیس سال اور اجالوں کے خواب کے نام شایع ہوئیں۔

    جہانِ فن و ادب کے اس جوہرِ قابل کو کراچی میں‌ سخی حسن کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔ خلیق ابراہیم خلیق کو حکومتِ پاکستان نے تمغائے امتیاز عطا کیا تھا۔

    خلیق ابراہیم خلیق کا ایک شعر دیکھیے!

    خلیق آؤ چلیں بزمِ مے گساراں میں
    دراز شام کی تاریکیوں کے سائے ہوئے

  • پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    پال نیومین:‌ نیلی آنکھوں والا اداکار اور ایک غیر معمولی انسان

    ہالی وڈ کی تاریخ میں پال نیومین کو ان کی بے مثال اداکاری کے سبب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انھیں اکثر دنیا کا غیر معمولی انسان بھی کہا گیا ہے جس کی وجہ اُن کی انسان دوستی اور جذبۂ خدمت ہے۔ پال نیومین نے 83 سال کی عمر پائی اور 2008ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    اداکار پال نیومین نے فلم کی دنیا میں اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرتے ہوئے خوب شہرت کمائی اور شائقین میں مقبول ہوئے۔

    پال نیومین اپنی آنکھوں کی رنگت کی وجہ سے بھی اسکرین پر اور ہر محفل مین سب سے الگ نظر آتے تھے۔ ان کی آنکھوں کا رنگ نیلا تھا۔ وہ ایک وجیہ صورت مرد تھے جس نے اسکرین پر اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو متاثر کیا اور آسکر ایوارڈ یافتہ فن کاروں کی صف میں‌ شامل ہوئے۔ پال نیومین نے ہالی وڈ کی مشہور فلموں ’دی ہسلر‘، ’کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن رُوف‘ اور ’دی کلر آف منی‘ میں بے مثال اداکاری کی اور اپنے دور کے کام یاب فن کاروں کے درمیان اپنی پہچان بنائی۔

    پال نیومین کا فلمی سفر پانچ دہائیوں پر محیط رہا۔ اس عرصہ میں انھوں نے لگ بھگ ساٹھ فلموں میں کام کیا۔ بہترین پرفارمنس کی بنیاد پر 10 مرتبہ پال نیومین کا نام اکیڈمی ایوارڈ کے لیے فہرست میں‌ شامل کیا گیا اور ’دی کلر آف منی‘ وہ فلم تھی جس میں اپنی شان دار اداکاری پر وہ یہ ایوارڈ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

    پال نیومین نے 26 جنوری 1925ء کو امریکہ کے علاقے کلیولینڈ اوہائیو میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کھیلوں کے سامان کی خرید و فروخت کام کرتے تھے۔ نیومین نے ابتدا میں نیوی میں ملازمت کرنا چاہی، لیکن ان کی نیلی آنکھیں اس راستے میں رکاوٹ بن گئیں۔ دراصل نیومین بطور امیدوار ادارے کی جانب سے ایک ٹیسٹ کے دوران بعض رنگوں کی شناخت نہیں کر سکے تھے اور اسے اُن کا نقص کہہ کر ناکام قرار دے دیا گیا۔

    اداکار پال نیومین ایک نہایت متحرک اور فعال شخص تھے جس نے ہمیشہ اپنے شوق کو اہمیت دی۔ وہ 70 کی دہائی میں فلمی دنیا سے صرف اس لیے دور ہوگئے تھے کہ انھیں گاڑیوں کی ریسں کا شوق پورا کرنا تھا۔ ایک ماہر ڈرائیور کی حیثیت سے پال نیومین نے ریس کے متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا اور ایک کار ریس میں انھوں‌ نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔

    ہالی وڈ میں پال نیومین نے اپنی اداکاری کی بنیاد پر کُل تین آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے تھے۔ انھوں نے اپنے فلمی سفر کے دوران شریکِ‌ حیات کے طور پر جو این ووڈورڈ کا انتخاب کیا تھا جو خود بھی اداکارہ تھیں۔ وہ پانچ بیٹیوں کے والدین بنے۔

    نیلی آنکھوں والے پال نیومین کینسر کے عارضے میں مبتلا تھے، لیکن وہ جب تک زندہ رہے دوسروں کے لیے جینے اور سب کے کام آنے کو اپنا مقصدِ‌ حیات بنائے رکھا۔ پال نیومین نے اُن بچّوں کے لیے ’سمر کیمپ‘ قائم کیے تھے جو مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ اداکار کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جذبۂ خدمت کے تحت کئی خیراتی اداروں کی مالی امداد کرتے رہتے ہیں۔

  • ماضی کی مشہور اداکارہ اور کلاسیکی رقص کی ماہر پدمنی کا تذکرہ

    ماضی کی مشہور اداکارہ اور کلاسیکی رقص کی ماہر پدمنی کا تذکرہ

    تقسیمِ ہند سے پہلے اور آزاد ہندوستان کے ابتدائی برسوں میں کولکتہ اور ممبئی کی فلمی دنیا میں قدم رکھنے والے کئی چہروں میں پدمنی بھی شامل تھیں جو کلاسیکی رقص کی ماہر اور ایسی اداکارہ تھیں جنھوں نے اپنے وقت کے بڑے فن کاروں کے ساتھ کام کیا، لیکن آج بہت کم لوگ ان کے نام سے واقف ہیں۔ پدمنی 25 ستمبر 2006ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔

    پدمنی کو جنوبی بھارت اور بولی وڈ کی کام یاب فلموں میں نبھائے گئے کرداروں اور بالخصوص بھرت ناٹیم جیسے کلاسیکی رقص میں اُن کی مہارت کے سبب شہرت ملی تھی۔

    پدمنی نے 16 سال کی عمر میں اپنے کیریئر کا آغاز ہندی فلم کلپنا سے کیا تھا اور وہ اس فلم میں بطور ڈانسر نظر آئی تھیں۔ یہ 1948ء کی بات ہے۔ اس کے بعد پدمنی نے تقریباََ 30 سال تک فلمی دنیا میں کام کیا اور 240 سے زائد فلمیں کیں۔

    پدمنی 1932ء میں موجودہ بھارت کی ریاست کیرالہ کے ایک قصبے میں پیدا ہوئیں۔ پدمنی شروع ہی سے کلاسیکی رقص میں دل چسپی لیتی تھیں اور مسلسل مشق نے انھیں ماہر رقاصہ کے طور پر فلم انڈسٹری تک پہنچا دیا۔ انھوں نے فلمی سفر کا آغاز جنوبی بھارت کی فلموں سے کیا۔ وہ تمل ملیالم ، تیلگو اور کنڑ زبانوں میں کئی کام یاب فلموں میں نظر آئیں اور پھر بولی وڈ کی کشش اس دور کے دیگر فن کاروں کی طرح پدمنی کو بھی ممبئی کھینچ لائی جہاں 1957ء میں انھیں فلم ‘پائل’ میں کام ملا۔ اس فلم کے بعد وہ بابو بھائی مستری کی فلم ‘مہا بھارت’ میں بطور ہیروئن جلوہ گر ہوئیں، لیکن ان کی وجہِ شہرت فلم اسٹار راج کپور کی فلم ‘جس دیش میں گنگا بہتی ہے’ ہے۔ اس فلم میں وہ اپنے حُسن اور کلاسیکی رقص کی بدولت شائقین کو متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ یہ اپنے وقت کی ہٹ فلم تھی جس میں پدمنی نے راج کپور کے ساتھ مرکزی کردار نبھایا تھا۔ فلم میں باکمال اداکار پران نے بھی مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس کے ہدایت کار رادھو کرماکر تھے۔ اداکارہ پدمنی اس فلم میں ڈاکوؤں کے ایک سردار کی بیٹی بنی تھیں اور یہ کردار ‘کمو’ نامی لڑکی کا تھا جسے ایک غریب اور یتیم راجو سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہ کردار راج کپور نے نبھایا تھا اور بعد میں پدمنی نے ان کے ساتھ فلم ‘میرا نام جوکر’ میں بھی کام کیا۔ راج کپور کے علاوہ پدمنی نے راج کمار اور دیو آنند جیسے بڑے فن کاروں کے ساتھ بھی فلمیں کیں۔

    ماضی کی اس فن کار نے ڈاکٹر ٹی کے رامچندرن سے شادی کے بعد فلم نگری سے کنارہ کرلیا تھا اور امریکہ چلی گئی تھیں۔ لیکن وہاں انھوں نے رقص کا سلسلہ جاری رکھا اور 1977 میں نیو جرسی میں ’پدمنی اسکول آف فائن آرٹس‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس ادارے میں انڈین کلاسیکی رقص کی تعلیم دی جاتی تھی اور اس کا شمار امریکہ کے بڑے اور قدیم اسکول میں کیا جاتا ہے۔

    پدمنی نے بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر اعزاز بھی حاصل کیا تھا۔

  • فرانسوا برنیئر: مغل شہزادے کا معالج جس نے شاہی دربار کا آنکھوں دیکھا حال بھی رقم کیا

    فرانسوا برنیئر: مغل شہزادے کا معالج جس نے شاہی دربار کا آنکھوں دیکھا حال بھی رقم کیا

    یورپی معالج فرانسوا برنیئر کو دنیا ایک مؤرخ کی حیثیت سے بھی جانتی ہے جس نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دربار اور اس دور کے کئی واقعات کو اپنی تصنیف میں جگہ دی جو ایک مستند کتاب ہے۔ برنیئر 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پا گیا تھا۔

    فرانسوا برنیئر شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا اور ان کے دنیا سے کوچ کرجانے کے بعد جب اورنگزیب عالمگیر شہنشاہِ ہند بنا تب بھی برنیئر مغل دربار سے وابستہ رہا۔ فرانسوا برنیئر یورپ کے مشہور ملک فرانس کا باشندہ تھا جسے سیر و سیّاحت کا شوق تھا جب کہ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک قابل طبیب تھا۔ اس نے ہندوستان میں لگ بھگ 12 برس مغلیہ عہد میں گزارے اور اس عرصے میں تاج و تخت کی خاطر سازشوں، خاندانی جھگڑوں اور درباریوں کے کئی راز اور واقعات اس کے سامنے آئے جسے اس نے قلم بند کرلیا۔

    برنیئر نے مغلیہ دور کی تاریخ ہی نہیں سائنس پر بھی لکھا اور 1684ء میں اس کی کتاب شایع ہوئی جو انسانوں کی مختلف نسلیں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی سے متعلق اس کی اہم کوشش تھی۔ اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ برنیئر کا ایک تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالمگیر کے دور کے حالات کو رقم کرنا ہے۔ اسے ایک تاریخی سفر نامہ کہا جاسکتا ہے جس میں برنیئر نے حالات و واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے اور یہ اُن معلومات پر مبنی ہے جو برنیئر تک دربار کے نمایاں اور قابلِ بھروسا لوگوں سے اس تک پہنچی تھیں۔

    فرانسوا برنیئر نے 68 سال کی عمر میں وفات پائی، اس کا انتقال پیرس میں ہوا۔

  • منصور علی خان: ایک ریاست کا نواب جو کرکٹ کے میدان کا ‘ٹائیگر’ مشہور تھا!

    منصور علی خان: ایک ریاست کا نواب جو کرکٹ کے میدان کا ‘ٹائیگر’ مشہور تھا!

    ریاست پٹودی کے نواب محمد افتخار علی خان اور اُن کے بیٹے منصور علی خان نے بطور کرکٹر انگلستان اور بھارت کی نمائندگی کی تھی۔ بھارت کے دارُالحکومت دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور واقع پٹودی کو انگریز دور میں ریاست کا درجہ ملا تھا۔

    پٹودی میں اکثریت ہندوؤں کی تھی اور نواب خاندان مسلمان تھا۔ آج اسی خاندان کے منصور علی پٹودی کی برسی ہے جن کی ایک وجہِ شہرت کرکٹ ہے۔ ان کے بیٹے سیف علی خان اور بیٹی سوہا خان بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف چہرے ہیں جب کہ منصور علی خان پٹودی کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور بھی انڈسٹری کا مشہور نام ہیں۔ نواب منصور علی خان پٹودی 22 ستمبر 2011ء کو وفات پا گئے تھے۔

    منصور علی خان نے 5 جنوری 1941ء کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ کرکٹ کا شوق انھیں اپنے والد کو دیکھ کر ہوا جو ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ اور ہندوستان دونوں ممالک کی نمائندگی کرچکے تھے۔ منصور علی خان پٹودی 11 سال کے تھے جب پولو کھیلتے ہوئے ان کے والد کا انتقال ہوا۔ یوں کم عمری میں انھیں ریاستی امور دیکھنا پڑے جو ایک بھاری ذمہ داری تھی۔

    وقت کے ساتھ ریاست کے اس نواب کی کرکٹ میں دل چسپی بڑھتی جارہی تھی اور وہ ایک اچھے بلّے باز اور پھرتیلے فیلڈر کے طور پر مشہور ہوئے۔ انھیں لوگوں نے کرکٹ کے میدان کا ٹائیگر کہنا شروع کر دیا تھا۔ منصور علی خان پٹودی نے 16 سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی اور اس کھیل میں سسیکس اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی نمائندگی بھی کی۔ وہ پہلے ہندوستانی کرکٹر تھے جسے کسی انگلش کاؤنٹی کا کپتان بنایا گیا۔

    نواب پٹودی 1961ء میں کار‌ کے ایک حادثے کا شکار ہوئے جس میں ان کی ایک آنکھ کی بینائی جاتی رہی، مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کا سفر جاری رکھا اور اس حادثے کے صرف ایک سال بعد ہی انھیں بھارت کی کرکٹ ٹیم کی قیادت بھی سونپی گئی۔ اس کے بعد منصور علی خان پٹودی کو مستقل کپتان بنا دیا گیا۔ منصور علی خان نے اپنے کیریئر میں 46 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 40 میچوں میں ٹیم کی قیادت بھی وہی کررہے تھے۔ ایک انٹرویو میں نواب منصور پٹودی نے بتایا تھا کہ انھوں نے کانٹیکٹ لینس کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کی لیکن انھیں گیند دو نظر آتی تھیں۔ پھر انھوں نے کانٹیکٹ لینس ہٹا دیا اور اپنی داہنی آنکھ پر ہیٹ گرا کر کھیلنا شروع کیا، لوگ سمجھتے کہ یہ اسٹائل ہے لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔

    نواب پٹودی موسیقی سے بڑا لگاؤ رکھتے تھے اور انھیں ہارمونیم اور طبلہ بجانے کا شوق تھا۔ ان کی اہلیہ شرمیلا ٹیگور کہتی ہیں کہ ’پٹودی کو طبلے کا اتنا شوق تھا کہ وہ کبھی کبھی معروف سرود نواز امجد علی خان کے ساتھ طبلہ پر ان کا مقابلہ کیا کرتے۔‘ منصور علی خان نے بھارت کی سیاست میں بھی قسمت آزمائی کی تھی۔ وہ بتاتے تھے کہ انھیں کئی مرتبہ مختلف شخصیات نے سیاست میں آنے کی دعوت دی تھی لیکن جب راجیو گاندھی نے کہا تو وہ انھیں منع نہیں کر سکے۔ تاہم انتخابات میں نواب پٹودی کام یاب نہیں ہوسکے اور راجیو گاندھی کے قتل کے بعد سیاست میں ان کو دل چسپی بھی نہیں رہی۔

    شرمیلا ٹیگور ہندی سنیما میں نام بنا چکی تھیں اور نواب پٹودی 1965ء میں اُن سے ملے تھے۔ اِنھوں نے شادی کا فیصلہ کیا جس کے لیے شرمیلا نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا نام عائشہ رکھا۔ انھیں بھارتی حکومت نے پدما شری ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔

    دہلی میں وفات پانے والے نواب منصور علی خان کی عمر ستّر سال تھی۔ انھیں پٹودی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • احمد خان کھرل: انگریز افسر کی مدد سے انکار کرنے والا مجاہدِ آزادی

    احمد خان کھرل: انگریز افسر کی مدد سے انکار کرنے والا مجاہدِ آزادی

    1857ء میں‌ آج ہی کے روز انگریز اور سکھ سپاہیوں پر مشتمل فوجی دستوں نے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ احمد خان کھرل اس وقت نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے جب سپاہی ان تک پہنچے اور حالتِ‌ نماز میں انھیں گولیاں مار دی گئیں۔ احمد خان کھرل کو مجاہدِ آزادی اور شہید کہا جاتا ہے۔

    احمد خان اور ان کے ساتھی انگریزوں سے کئی دن سے بھڑے ہوئے تھے اور گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر شہید کر دیے گئے۔ مشہور ہے کہ میرٹھ اور دلّی میں مقامی سپاہیوں کی انگریزوں کے خلاف جاری بغاوت کو کچلنے کے لیے گوگیرہ میں تعینات اُس وقت کے ایڈیشنل اسٹنٹ کمشنر لیوپولڈ فٹز جیرالڈ برکلے نے جب قبائلی سرداروں سے گھوڑے اور جوان طلب کیے تو رائے احمد خان کھرل نے جواب دیا کہ ’ہم اپنا گھوڑا، عورت اور زمین کسی کے حوالے نہیں کرتے۔‘ انگریز افسر نے اس جواب کو قبائلی سردار کی جانب سے بغاوت تصوّر کیا اور لڑائی کا آغاز ہوا۔

    بغاوت سے متعلق انگریز انتظامیہ کی رپورٹوں پر مبنی دستاویزات سے ظاہر ہے کہ یہ بغاوت کمالیہ، پنڈی شیخ موسیٰ، سید والا، ہڑپہ، چیچہ وطنی، تلمبہ، سرائے سدھو، شور کوٹ، جملیرہ اور پاک پتن کے علاقوں تک پھیل گئی تھی اور انگریزوں کو جھنگ، لیہ، گوجرانوالا اور لاہور سے کئی بار کمک ملنے کے باوجود مزاحمت اس وقت تک ختم نہیں ہوئی جب تک رائے احمد خان کھرل کو قتل نہ کر دیا گیا۔

    رائے احمد خان کھرل کا سنہ پیدائش 1776ء بتایا جاتا ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کی اولاد تھے۔ احمد خان کھرل جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں انگریز راج کے خلاف گوگیرہ بغاوت کی قیادت کررہے تھے۔ رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا اور یہ علاقہ اب ضلع فیصل آباد میں شامل ہے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی جسے غدر کا نام دیا گیا، کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت ہوئی اور انگریز اس بغاوت کو کسی حد تک کچلنے میں کام یاب ہوگئے تو اس نے پنجاب میں زور پکڑا۔ ہر جگہ انگریزوں کو بغاوت کا شور سنائی دے رہا تھا اور انگریز افسروں پر اسے کچلنے کے لیے دباؤ تھا۔ اس بغاوت کو مقامی سرداروں کی مدد اور ان سے کمک حاصل کیے بغیر ختم کرنا ممکن نہیں تھا لیکن رائے کھرل کے جواب پر برکلے کو شدید مایوسی ہوئی۔ اس نے کھرل اور دیگر قبائل کے لوگوں کی پکڑ دھکڑ اور قید کے علاوہ مجاہدوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کا آغاز کردیا۔ ایک رات انھوں نے گوگیرہ کی جیل پر دھاوا بول دیا اور اپنے ساتھیوں کو قید سے آزاد کروانے میں کام یاب ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز فوج کے سپاہی بھی مارے گئے۔ اس کا بدلہ لینے کے لیے برکلے نے احمد خان کھرل کے قریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا اور گھر کی بہو بیٹیوں کو بھی حراست میں لیا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل گرفتاری دینے پر مجبور ہوگئے، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی سخت مزاحمت کے خطرے کے پیشِ نظر احمد خان کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک نقل و حمل محدود رکھنے کا حکم دے کر چھوڑ دیا گیا۔ مگر احمد خان کھرل انگریزوں کے خلاف لڑائی کے لیے نکل آئے اور کئی روزہ لڑائی کے بعد 21 ستمبر 1857ء کو وہ انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے اور برکلے کے حکم پر گولی مار دی گئی۔

    دریائے راوی پار کر کے دائیں ہاتھ کی طرف راستے پر تقریباََ پانچ کلومیٹر کی مسافت طے کی جائے تو پناہ دا کُھوہ سے کچھ آگے احمد خان کھرل کا مقبرہ موجود ہے۔

    تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ انگریز افسر برکلے نے احمد خان کا سَر قلم کروا کر نیزے پر رکھا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ مقامی منتظم ایلفنسٹن نے رپورٹ کیا کہ ’اس مہم میں ہمیں شدید نقصان ہوا لیکن باغیوں کی ناقابل تلافی تباہی پر اس کا انجام ہوا۔ احمد خان تحریک کے مرکزی اکسانے والے تھے۔ پچھلی بغاوتوں میں کام یابی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے تھے، اور راوی کے قبائل پر ان کا اثر و رسوخ بے حد تھا۔‘

    انگریز افسر برکلے احمد خان کی شہادت کو اپنی بڑی فتح سمجھا تھا اور اس نے خیال کیا کہ اب مزاحمت ختم ہو جائے گی۔ لیکن فتیانوں نے اسے یہ دن دیکھنے نہ دیا اور ایک مقام پر حملہ کر کے برکلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کا سَر بھی تن سے جدا کر دیا گیا۔ یہ انگریز افسر بنگلہ گوگیرہ سے بخشو جندراکا جاتی سڑک پر واقع ایک قبرستان میں دفن ہے۔