Tag: ستمبر وفات

  • سلطنتِ‌ عثمانیہ کے مشہور سلطان سلیمانِ اعظم کی زندگی کے اوراق

    سلطنتِ‌ عثمانیہ کے مشہور سلطان سلیمانِ اعظم کی زندگی کے اوراق

    آج سلطنتِ عثمانیہ کے ایک مشہور اور عظیم حکم ران سلیمان اوّل کا یومِ وفات ہے جنھیں ترکی میں سلیمان قانونی بھی کہا جاتا ہے جب کہ مغرب و یورپ کے غیر مسلم مؤرخین نے بھی ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اور انھیں سلیمانِ اعظم لکھا ہے۔

    سلطان کی ریاست ترکی کے بعد سَر زمین حجاز، مصر، الجزائر، عراق، کردستان، شام، بیتُ المقدس، خلیج فارس اور بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی اور یونان اور مشرقی و مغربی ہنگری بھی ان کے زیرِ نگیں‌ تھے۔

    سلیمان اوّل سلطنت عثمانیہ کے دسویں اور طویل ترین عرصہ تک حکم ران رہنے والے سلطان تھے۔وہ 1464ء میں پیدا ہوئے اور 1520ء میں سلطنت سنبھالی۔ سلطان 1566ء میں اپنی وفات تک سلطنت کے حکم ران رہے۔

    ان کے عہد میں سلطنت عثمانیہ کے لیے قانون سازی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور اس بنا پر ترک انھیں سلیمان قانونی کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

    وہ نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ کے اُن اہم اور مشہور حکم رانوں میں سے ایک تھے جنھوں نے زبردست فتوحات کیں اور یورپ میں مسیحیوں کے اہم مراکز کے علاوہ جنگوں کے بعد مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقا کے متعدد علاقے سلطنت میں شامل کیے۔ ان کے دور میں سلطنتِ عثمانیہ میں فن و ادب اور تعمیرات کے شعبوں میں بہت ترقی ہوئی۔

    ان کے والد سلیم اوّل سلطنت عثمانیہ کے نویں سلطان تھے جن سے سلیمان قانونی نے حربی فنون سیکھے۔ سلیمان نے اپنے دورِ سلطانی میں عثمانی سلطنت کو سیاسی برتری دلوانے اور اسے قائم و برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ وہ اپنے 46 سالہ دورِ حکومت میں جنگ یا کسی نہ کسی مہم میں مصروف رہے حتیٰ کہ دورانِ جنگ ہی داعی اجل کی آواز پر لبیک کہا۔

    وہ آسٹریا میں 1565ء میں ایک جنگی مہم کے دوران اپنی فوج کی قیادت کررہے تھے جہاں فتح سے قبل انتقال کرگئے، تاہم ان کی فوج نے غلبہ پایا اور فتح کے بعد سلطان کی میّت قسطنطنیہ لائی گئی جہاں مسجدِ سلیمانیہ میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    آغا جی اے گل پاکستان کے مشہور فلم ساز اور مشہور ایور نیو اسٹوڈیو کے مالک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے اور یہاں فلم سازی اور اس شعبے کی ترقّی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایور نیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار اور سرپرست آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983ء کو لندن میں وفات پاگئے۔

    ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم مندری سے خود کو انڈسٹری میں فلم ساز کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ 1949ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم تھی۔ اس کے بعد سنیما کو ایور نیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    انھوں نے ایور نیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کیا اور اس پلیٹ فارم سے کئی لوگوں کو متعارف کروایا اور سیکھنے کا موقع دیا۔

    آغا جی اے گل لاہور کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    سیّد حسن عسکری اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کئ ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • اداکار عابد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس بیت گئے

    اداکار عابد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے نام وَر اداکار عابد علی کی دوسری برسی ہے۔ پی ٹی وی پر اپنی لاجواب اور شان دار پرفارمنس سے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والے عابد علی 5 ستمبر 2019 کو اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔

    انھوں نے پاکستان میں چھوٹی اسکرین پر چار دہائیوں تک راج کیا۔ ریڈیو پاکستان سے کیریئر کا آغاز کرنے والے عابد علی نے 1973ء میں پی ٹی وی کے ڈرامے جھوک سیال میں سب سے پہلے اداکاری کی۔ وہ پی ٹی وی کے کئی مشہور اور یادگار ڈراموں میں نظر آئے ناظرین میں‌ مقبول ہوئے۔ ملک میں نجی ٹی وی چینلوں کا آغاز ہوا تو انھیں درجنوں ڈراموں میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا۔

    اداکار عابد علی نے 70 سے 90 کی دہائی تک پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں میں کام کیا۔ وارث، دشت، پنجرہ، پیاس، دوریاں، خواہش، آنگن، مہندی ان کے یادگار ڈرامے ہیں۔

    پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا مقبول ترین ڈرامہ خواہش میں انھوں نے خوشی محمد کا کردار نبھایا تھا جو ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ یہ اصغر ندیم سید کا تحریر کردہ ڈرامہ تھا جس میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور انداز کے سبب عابد علی ناظرین کے دلوں میں اتر گئے۔ عابد علی نے نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے لیے ہدایت کاری بھی کی۔

    وہ 29 مارچ 1952ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے دنوں میں ان کی توجہ تحریر اور مصوّری کی طرف رہی۔ تاہم 1969 میں جب وہ کالج میں پڑھ رہے تھے، انھیں‌ ریڈیو پر کام کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے سامعین کو اپنی آواز اور انداز سے اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    عابد علی جگر کے کینسر کی تشخیص کے بعد لاہور اور کراچی کے اسپتالوں میں زیرَ علاج رہے۔

  • یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ٹی وی، ریڈیو اور فلم کے لیے کئی گیت اور غزلیں‌ گائیں اور ان کے گائے ہوئے لافانی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ تاہم انھیں‌ ایک غزل گائیک کے طور پر زیادہ شہرت ملی۔وہ 4 ستمبر 2014ء کو امریکا میں‌ وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

    حبیب ولی محمد برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔

    انھیں غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ گانے کے بعد بے حد شہرت ملی۔ اس کے بعد انھوں کئی نغمے اور غزلیں گائیں جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ شامل ہیں۔ ان کی یہ غزل نہایت مقبول ہوئی جو معین احسن جذبی کی تخلیق تھی، مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے!

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بہت کم فلمی گیت گائے جب کہ انھوں نے متعدد ملّی نغمے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ وہ شوقیہ گلوکار تھے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: طغرل بیگ نے ترک قبائل کو متحد کرکے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی

    یومِ وفات: طغرل بیگ نے ترک قبائل کو متحد کرکے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی

    طغرل بیگ، جس کا پورا نام رکن الدین ابو طالب محمد بن میکائل تھا، پہلا سلجوق سلطان مشہور ہے۔ طغرل نے ابو سلیمان داؤد چغری بیگ کے ساتھ مل کر سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔

    طغرل بیگ کا سنِ پیدائش 990ء عیسوی ہے جس نے ترک قبائل کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی اور کئی فتوحات کیں۔ وہ 1063ء میں آج ہی کے دن وفات پاگیا تھا۔

    ابو طالب نے ایک جانب مشرق کی طرف پیش قدمی میں کام یابیاں سمیٹیں تو دوسری طرف مشرقی ایران کے محاذ پر ترکوں کی دھاک بٹھائی اوربعد میں یوریشیا کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اسی سلطنت کی کوکھ سے بعد میں سلطنتِ عثمانیہ نے جنم لیا۔ سلجوقی سلطنت 11 ویں صدی عیسوی میں قائم ہوئی تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔

    طغرل بیگ جو خاندانِ سلجوقیہ کا بانی تھا، وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ لیکن اس کی وفات کے بعد سلطنت کم زور پڑ گئی جس کا فائدہ یورپ کی غیرمسلم ریاستوں کے اتحاد نے اٹھایا اور سلجوقیوں کا زوال شروع ہوا جس نے بالآخر انھیں مٹا دیا۔

  • شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    آج شمس زبیری کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ایک معروف شاعر، صحافی اور زبان و بیان کے ماہر تھے جو ریڈیو پاکستان پر براڈ کاسٹروں اور پروگرام میزبانوں کی اصلاحِ زبان کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ شمس زبیری 3 ستمبر 1999ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    شمس زبیری نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران زبان و بیان کی اصلاح کا خوب کام انجام دیا، او بعد میں یہی سلسلہ ان کے جاری کردہ رسائل تک پھیل گیا۔ انھوں نے بچّوں‌ کے رسائل کی ادارت کے ساتھ ایک ادبی جریدے ’’نقش‘‘ کا آغاز کیا تھا جس میں علمی و ادبی موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ یہ رسالہ بہت مقبول ہوا۔ ’’نقش‘‘ کے لیے شمس زبیری کو صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا تعاون بھی حاصل تھا جن کی بدولت یہ ایک معیاری اور مقبول رسالہ بنا۔

    اکبر روڈ پر واقع شمس زبیری کے ادارے ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے بچّوں کا ایک پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ بھی جاری ہوا کرتا تھا جس میں معیاری تخلیقات کے ساتھ بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کو اہمیت دی جاتی تھی۔

    1917 میں پیدا ہونے والے شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے اور یہاں‌ ادبی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔ وہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔

    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے

  • انمول گیتوں کے خالق اور فلمی کہانی نویس احمد راہی کی برسی

    انمول گیتوں کے خالق اور فلمی کہانی نویس احمد راہی کی برسی

    فلمی کہانی نویس اور شاعر احمد راہی نے 2002ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    احمد راہی کی پہچان پنجابی زبان میں بننے والی کام یاب فلمیں‌ ہیں جن کے وہ مصنّف بھی تھے اور کئی فلموں کے گیت نگار بھی۔ تاہم انھوں نے اردو زبان میں بھی شاعری کی اور غزلوں کے ساتھ ان کے فلمی گیت بھی مشہور ہوئے۔

    13 نومبر 1923ء کو امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولنے والے احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا۔ تقسیم کے بعد لاہور آنے والے احمد راہی کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا۔ احمد راہی نے امرتسر میں ہی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر سیف الدین سیف، کہانی نگار اے حمید کی صحبت میں رہتے ہوئے ادب میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی اور تقسیم کے بعد لاہور کے ادبی ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    بطور کہانی نویس ان کی یادگار فلموں میں مرزا جٹ، ہیر رانجھا، ناجو، گُڈو، اُچّا شملہ جٹ دا مشہور ہیں جب کہ شہری بابو، ماہی مُنڈا، یکے والی، چھومنتر، الہ دین کا بیٹا، مٹی دیاں مورتاں، باجی، سسی پنوں اور بازارِ حسن نامی فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ انھوں نے اردو فلموں کے لیے بھی منظر، مکالمے اور گانے لکھے جن میں ’یکے والی‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

    احمد راہی کا پنجابی کلام پر مشتمل مجموعہ ترنجن بہت مقبول ہوا۔

  • یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    مینا شوری پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک مشہور اداکارہ تھیں جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھیں سرطان کا مہلک مرض لاحق تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921ء میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔

    اس کے بعد مینا شوری کو فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری بہت پیاری اور من موہنی صورت کی مالک تھیں، انھوں نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ اداکارہ مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔