Tag: ستمبر وفات

  • کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    کنور آفتاب: پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک معمار کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کنور آفتاب سنہ 2010ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔ کئی یادگار ڈرامے اور دستاویزی پروگرام کنور آفتاب کا نام اس شعبے کے ایک باکمال اور بہترین فن کار کے طور پر زندہ رکھیں‌ گے۔

    پاکستان میں ٹیلی ویژن نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی اس شعبے میں قدم رکھنے والے فن کاروں اور قابل و باصلاحیت پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں میں ایک کنور آفتاب بھی تھے جن کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ لاہور میں تیار ہوا، لیکن سینسر کی زد میں آگیا۔ تاہم بعد کے ادوار میں انھوں نے کئی یادگار ڈرامے پی ٹی وی کو دیے۔

    کنور آفتاب 28 جولائی 1929ء کو مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جو باکس آفس پہ کامیاب نہ ہوسکی۔

    اس فلم کی ناکامی کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے کام لے کر ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ اردو ڈرامہ کو ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

    کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

    کنور آفتاب احمد نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی بنائی ہوئی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں ایوارڈ دیے گئے۔ انھیں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو زبان و ادب کا ایک معتبر نام

    برطانوی راج میں ہندوستان کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ابواللیث صدیقی تھے۔ قیامِ پاکستان ڈاکٹر صاحب ہجرت کر کے کراچی میں سکونت پذیر ہوئے اور یہاں علم و ادب کی دنیا میں نام و مقام پیدا کیا۔ آج ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا یومِ وفات ہے۔

    اردو زبان و ادب میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا نام ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد کے طور پر لیا جاتا ہے وہ جامعہ کراچی میں شعبۂ اردو کے سربراہ رہے اور کولمبیا یونیورسٹی سے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ رہے۔

    آگرہ کے ابواللیث صدیقی کا سنہ پیدائش 15 جون 1916ء ہے۔ ان کی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ہوئی جب کہ 1942ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے انھیں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی پہلی سند جاری کی۔

    ڈاکٹر صاحب ایک نہایت قابل اور باصلاحیت قلم کار تھے جن کی متعدد تصانیف اردو زبان و ادب سے متعلق ہیں۔ ابواللیث صدیقی صاحب کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کا مقدمہ ڈاکٹر معین الدّین عقیل نے لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنے وقت کی اس فاضل شخصیت کی علمی اور ادبی خدمات کا تذکرہ کیا ہے: “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانۂ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    اسی خود نوشت میں ہمیں ڈاکٹر صاحب کی ایک تحریر بھی پڑھنے کو ملتی ہے جس میں وہ اپنا خاندانی پس منظر بتاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔ ”میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدةُ المالک، ملک حمیدالدّین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدّین ہندوستان آئے اور بدایوں پہنچے۔ اس وقت بدایوں کے قاضی محلّے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدّین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔

    ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہیں: فروری 1979ء میں قیامِ پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایوں جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلّہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلّے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پر کبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چند ہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”

    یہ تحریر بتاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک خوش حال خاندان کے فرد تھے اور اب وہ اپنے کو یاد کرکے کرب محسوس کرتے ہیں، لیکن تقسیمِ‌ ہند کے ساتھ اس دور کے ہر مہاجر خاندان کو کسی ایسے ہی المیّہ کا سامنا کرنا پڑا تھا اور جس کے گھاؤ کبھی مندمل نہیں ہوسکتے۔

    ڈاکٹر صاحب نے اپنے پی ایچ ڈی کے حوالے سے بھی ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ”جب میں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستانِ شاعری” مکمل کر کے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدّین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے، بہرحال زبانی امتحان کے لیے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچا دیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلائیے۔” رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کر کے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں۔” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کر کہا، ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”

    اردو کے اس ممتاز ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ ان کی خود نوشت کا نام رفت و بود ہے۔ ان کے مضامین پر مشتمل تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات بھی شایع ہوئے۔

    ڈاکٹر صاحب کو زمانۂ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغانِ عصر اور قابل شخصیات کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    7 ستمبر 1994ء کو ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس دارِ فانی کو خیر باد کہا۔ انھیں جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • حسن عابدی: ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک معتبر نام

    حسن عابدی: ادب اور صحافت کی دنیا کا ایک معتبر نام

    آج اردو کے ترقّی پسند شاعر، ادیب اور صحافی حسن عابدی کی برسی ہے۔ وہ 2005ء میں وفات پاگئے تھے۔ حسن عابدی کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔

    حسن عابدی کا اصل نام سیّد حسن عسکری تھا۔ وہ 7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہوئے۔ اعظم گڑھ اور الہ آباد کے تعلیمی اداروں سے اسناد حاصل کرنے والے حسن عابدی قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور آگئے اور بعد میں کراچی منتقل ہوئے۔ حسن عابدی نے لاہور ہی میں 1955 میں روزنامہ آفاق سے وابستگی اختیار کرکے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا اسی زمانے میں شہرۂ آفاق شاعر فیض احمد فیض کے زیرِ ادارت جریدہ لیل و نہار شایع ہوتا تھا اور حسن عابدی کو بھی اس سے منسلک ہونے کا موقع ملا۔ اس دوران انھیں کئی نام ور ادیبوں، شعراء اور اہلِ قلم کی صحبت میسر آئی اور حسن عابدی کی علمی و ادبی سرگرمیاں اور ان کا تخلیقی سفر بھی جاری رہا۔ وہ کراچی منتقل ہوئے یہاں بھی صحافت ان کا اوڑھنا بچھونا رہا اور کالم نگاری کا مشغلہ اپنایا۔

    اردو زبان و ادب سے متعلق حسن عابدی کے مضامین اور تراجم کو بھی ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ملی اور ان کے کالم بھی قارئین میں مقبول ہوئے۔ حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشتِ نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ اردو ادب میں آپ بیتی اور تذکرے و یادداشتیں بھی مقبول رہی ہیں اور خاص طور پر وہ شخصیات جنھوں نے ایک بھرپور اور ہنگامہ خیز زندگی گزاری ہو، ان کے پاس کئی اہم اور دل چسپ واقعات، مختلف شخصیات کے تذکرے اور بہت سے قصائص ضرور ہوتے ہیں، اور حسن عابدی ان میں سے ایک تھے۔ انھوں نے طویل عرصہ اس دشت کی سیاحی میں‌ گزارا تھا اور مشاہیر سے ان کی رفاقت رہی تھی۔ سو، جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی حسن عابدی نے رقم کیں‌۔ حسن عابدی نے ایک کتاب بھارت کا بحران کے عنوان سے ترجمہ بھی کیا تھا۔

    حسن عابدی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور کئی کہانیاں اور نظمیں ان کے قلم سے نکلیں۔ بچوں کی نظموں پر مشتمل ان کی کتاب شریر کہیں‌ کے بھی شایع ہوئی اور ان کی کہانیاں بھی کتابی شکل میں اکٹھی کی گئیں۔ صحافت کے موضوع پر ان کی ایک نہایت عمدہ کتاب اردو جرنلزم کے عنوان سے شایع ہوئی جو اس شعبے میں قدم رکھنے والوں اور تمام صحافیوں کی راہ نمائی کرتی ہے ار بالخصوص طلباء کے فہم کے پیشِ نظر فاضل مصنّف نے اس میں سادہ اور آسان زبان میں صحافت کی باریکیوں اور مسائل پر لکھا ہے۔

    اس زمانے میں جب پاکستان میں ترقی پسند ادب سے وابستہ قلم کاروں کو قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑ رہی تھیں۔ حسن عابدی کو بھی اپنے نظریات کی وجہ سے قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ دو مرتبہ جیل گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں حسن عابدی روزنامہ ڈان سے منسلک تھے۔

    یہاں ہم حسن عابدی کی غزل سے دو اشعار نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان: نام وَر ہدایت کار جسے آسکر ایوارڈ کی تقریب میں سبکی اٹھانا پڑی

    ایلیا کازان کو دنیا ایک باکمال ہدایت کار اور بہترین فلم ساز کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہے، لیکن وہ ہالی وڈ میں ایک ایسے تنازع کا سبب بھی بنے تھے جس پر ردعمل تقریباً نصف صدی بعد سامنے آیا اور کازان کو فلمی ستاروں‌ کے جھرمٹ میں‌ خفّت کا سامنا کرنا پڑا۔

    1999ء تک ایلیا کازان کئی شان دار اور یادگار فلمیں‌ انڈسٹری کے نام کرچکے تھے، اور اس سال آسکر ایوارڈ کی جو تقریب سجائی گئی، اس میں لائف ٹائم اچیومنٹ کے لیے ایلیا کازان کا نام پکارا گیا تھا، کیمرے کی آنکھ نے حاضرین کی صفوں میں‌ کشمکش اور اضطراب دیکھا۔ کچھ فن کار جو کازان کے استقبال کے لیے تالیاں بجانے لگے تھے، سینئر فن کاروں کو خاموش اور مضطرب پاکر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ عجیب فضا بن گئی تھی اور جلد ہی منتظمین پر تنقید شروع ہوگئی جس سے واضح ہوگیا کہ اس محفل میں ایسے فن کار موجود ہیں جو کازان کو ‘غدار’ سمجھتے ہیں اور اس ایوارڈ کا مستحق نہیں‌ گردانتے۔

    دراصل 1950ء کے عشرے میں ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان ایسے فن کاروں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے کا سبب بنا تھا جس کے بعد ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، اور انھیں ‘غدار’ کہا گیا، لیکن کازان کی خوش قسمتی تھی کہ اپنی مخالفت کے باوجود انڈسٹری میں کوئی بھی ان کی کام یابیوں کا راستہ نہیں روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار کہلائے اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچان بنائی جو آج بھی قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں وہ قابلِ تقلید ہدایت کار سمجھے گئے جن کا کام دیکھ کر نوآموز بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 2003ء میں آج ہی کے دن تمام ہوا۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خرید و فروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے متنازع بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں‌ کمیونسٹوں کی گرفت کی جارہی تھی اور ان پر شک کیا جارہا تھا۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی کمیٹی سے جو بات چیت کی تھی، اس سے فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی پر مبنی ہیں۔

  • اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اکبر شاہ ثانی: ”بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آئے”

    اٹھارہویں مغل بادشاہ اکبر شاہ ثانی کو برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہونے والے اکبر شاہ ثانی کا زمانہ ہر لحاظ سے ابتری اور انتشار کا زمانہ تھا اور انگریزوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں۔ بادشاہت دہلی تک محدود ہوگئی تھی جسے اب انگریز مٹانے کے منصوبے بنا رہا تھا۔

    اکبر شاہ ثانی نے 1837ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز بظاہر سہی بادشاہت کا احترام اور تخت و تاج کی تعظیم کرتے تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ اس وقت تک بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا، لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کو ایک سال بیت چکا تھا، اور 1807ء تک یہ حالات پیدا ہوچکے تھے جس کی طرف مولوی صاحب نے اشارہ کیا ہے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنا وظیفہ بڑھانے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے منظور کرلیا۔ لیکن اتنی بڑا دربار پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتا تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا اور اسی لیے بادشاہ نے اب مزید اضافہ چاہا تھا۔ اس سلسلے میں انھوں نے فرماں روائے اودھ سے بھی مدد چاہی تھی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کار گزاری کے جواب میں کہا کہ اس وقت تک اضافہ کی امید نہ رکھی جائے جب تک بادشاہ انگریز کی تمام شرائط کو نہیں‌ مان لیتے۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ انھیں اپنے ولی عہد یا جانشین کی تقرری کا اختیار بھی نہیں‌ رہا تھا۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے انگریز سرکار سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر اس بار جوں تک نہیں رینگی۔ آخرکار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماج لیڈر رام موہن رائے کو اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا تاکہ وہ ان کا مقدمہ لڑ سکیں۔ رام موہن رائے انگلستان تو گئے، لیکن مقصد میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ بادشاہ کو باقی ماندہ زندگی لال قلعے میں بے یارو مددگار انسان کی طرح گزارنا پڑی۔

    دہلی کے تخت پر ان کا ‘راج’ 31 برس رہا اور مرضِ اسہال کے سبب ان کی زندگی تمام ہوئی۔ وہ درگاہ خواجہ قطب الدّین بختیار کاکی کے ساتھ مہراؤلی (دہلی) میں پیوندِ خاک ہوئے۔

  • وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    عبدالمجید سالک شاعر اور اپنے زمانے کے ایک مقبول کالم نویس تھے۔ وہ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

    بات یہ تھی کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود شگفتہ مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت موجود ہوتی تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    شعر گوئی، ادب، تنقید اور صحافت ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک 1959 میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    علی عباس حسینی اردو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ادبی تخیلقات میں ہئیت و تیکنیک میں نئے تجربات کے ساتھ اپنے اظہار کی انفرادیت اور اسلوب کی خوب صورتی کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    علی عباس حسینی نے بحیثیت ادیب اپنے متنوع موضوعات میں اردو زبان کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔ نثری ادب کی مختلف اصناف میں ان کی تحریریں اور کتب یادگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ، تاریخ اور تذکرہ نویسی کے علاوہ تنقید بھی لکھی جب کہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی ادب میں‌ اہمیت ہے۔

    اردو کے اس ادیب کا منفرد اور دل نشیں طرزِ تحریر ان کی نگارشات کی پذیرائی کا باعث رہا ہے۔ علی عباس حسینی 3 فروری 1897ء کو غازی پور، بہار میں پیدا ہوئے تھے اور لکھنؤ وہ شہر تھا جہاں‌ آج ہی کے دن 1969ء میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

    1919ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔ اے کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1924ء میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ تدریس ان کا وظیفہ رہا اور 1954ء میں حسین آباد کالج لکھنؤ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔

    علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دل چسپی تھی۔ انھوں‌ نے الف لیلی کے قصائص، فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1917ء میں ان کا پہلا افسانہ "غنچۂ ناشگفتہ” کے عنوان سے ضبظِ تحریر میں آیا۔ 1920ء میں "سر سید احمد پاشا” کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول "قاف کی پری” لکھا تھا۔ شاید کہ بہار آئی” علی عباس حسینی کا دوسرا اور آخری ناول تھا۔

    ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں رفیقِ تنہائی، باسی پھول، کانٹوں میں پھول، میلہ گھومنی وغیرہ شامل ہیں۔ "ایک ایکٹ کے ڈرامے” ان کے ڈراموں پر مشتمل کتاب ہے۔

    علی عباس حسینی نے فکشن کے نقاد کے طور پر بھی شناخت بنائی۔ ان کی کتاب "ناول کی تاریخ و تنقید” ایک مفصل اور لائقِ مطالعہ تنقید ہے۔

  • راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے: عربی اور فارسی کے عالم کا تذکرہ

    راجہ رام موہن رائے کو ہندوستان میں ایک مصلح اور روشن خیال شخصیت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو برہمو سماج نامی تحریک کے بانی تھے۔

    وہ ایک مدبّر اور ایسے دور اندیش تھے جس نے بالخصوص ہندوؤں میں عام توہّم پرستی اور تعصّبات کے علاوہ غلط رسم و رواج کو مٹانے کے لیے علمی مجالس بپا کیں اور قلم کا سہارا بھی لیا۔ موہن رام رائے نے اپنے افکار اور اصلاحِ سماج کے لیے اپنی کوششوں کے سبب سرسیّد جیسے مسلم اکابرین کو بھی بے حد متاثر کیا تھا۔

    1833ء میں‌ راجہ رام موہن آج کے دن یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ اس سے چند سال قبل ایک موقع پر راجہ صاحب نے اپنا وحدانی نظریہ اس طرح قلم بند کیا تھا، ”پرستش اسی ذات کی ہونی چاہیے جو غیر فانی ہے، جس کا پتا تلاش سے نہیں ملتا، جو تغیر سے محفوظ ہے اور جو تمام کائنات کو پیدا کرتی اور قائم رکھتی ہے۔“ توحید کے اسی پرچار کی وجہ سے رام موہن رائے کو اپنا گھر چھوڑنا پڑا۔

    1774ء میں راجہ رام موہن رائے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے گاؤں‌ کے ایک مدرسہ میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور اسی دوران فارسی کے ساتھ عربی بھی سیکھی۔ پٹنہ اس زمانے میں اسلامی فنون و تعلیمات کا بڑا مرکز تھا۔ انھیں والد نے تحصیلِ علم کی غرض سے وہاں بھیج دیا۔ پٹنہ میں‌ رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات، قرآن اور دیگر مذہبی کتب کے مطالعے کے ساتھ علومِ شرقیہ سیکھنے کا موقع ملا۔ غالباً اسی کے زیرِ اثر وہ بُت پرستی اور بعض عقائد کے سخت نکتہ چیں بن گئے اور گھر لوٹے تو والد نے انھیں قبول نہ کیا۔

    راجہ صاحب کا تعلق بنگال کے گاؤں رائے رادھا نگر سے تھا جہاں ان کا خاندان کئی پشتوں سے صوبے کے مغل امرا کے دربار وابستہ رہا تھا۔ ان کے والد کٹّر مذہبی تھے اور والدہ بھی اپنے مذہب پر کاربند ایک نیک سیرت عورت تھیں۔ پٹنہ سے لوٹنے پر جب والد نے اپنے بیٹے کو بُت پرستی کا مخالف پایا تو گھر سے نکال دیا۔

    تب وہ شہروں شہروں‌ پھرے اور اسی زمانے میں‌ انگریزی، فرانسیسی، لاطینی، یونانی اور عبرانی زبانیں سیکھیں۔ ہندو مذہب، عیسائیت اور بدھ مت کی مقدس کتب کا مطالعہ آزادی سے کیا اورغور و فکر میں‌ منہمک رہے۔ وہ سرکاری ملازم تھے، لیکن 39 سال کی عمر میں اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کر لی۔ اس عرصے میں رام موہن نے تقابلِ ادیان کا سلسلہ جاری رکھا اور اب وہ عربی، فارسی کے عالم کی حیثیت سے بھی پہچانے جا رہے تھے جب کہ مذہب سے متعلق اپنے نظریات اور فلسفے کا پرچار بھی شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے قلم کا سہارا لیا تو متعدد مذہبی کتب کا سنسکرت، انگریزی اور بنگالی میں ترجمہ کیا۔

    رفتہ رفتہ ان کا نام ہندو عقائد کے مخالف کے طور پر مشہور ہونے لگا اور ان کے افکار و نظریات کا چرچا بھی۔ انھوں نے ہندوستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور اداروں‌ کے قیام کا پُرزور مطالبہ کیا تھا اور انگریز سرکار بھی راجہ صاحب کو ایک مصلحِ قوم اور علم دوست انسان کے طور پر شناخت کرتی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھ کر متوجہ کیا کہ ہندوستان میں سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ سائنسی علوم کو رواج دینے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسرے جدید علوم کے لیے انتظامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن جس طرح سرسّید نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کے لیے متوجہ کیا تھا، اسی طرح راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کرنے کے لیے کوششیں‌ کیں کہ وہ جدید علوم اور سائنس کو اہمیت دیں جس نے انھیں قدامت پسندوں‌ میں‌ متنازع بنا دیا تھا۔

    رام موہن رائے کو انگریز اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران انھوں نے یہ جان لیا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر نہیں‌ اتارا جاسکتا جس کے بعد انھوں‌ نے ہندوؤں کو انگریزی زبان سیکھنے پر زور دیا۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم سے بیزار تھے اور اسی لیے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی تھی جس کا مقصد ہندوؤں میں جو برائیاں اور کم زوریاں تھیں، ان کو مٹانا تھا۔ انھوں نے ہندو بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے کا حق دینے کی حمایت میں تحریک چلائی۔

    مذہب اور رسم و رواج پر نکتہ چینی اور اپنے نظریات کے سبب قدامت پسند ان کے شدید مخالف اور کٹّر ہندو ان کے خون کے پیاسے ہوگئے، لیکن راجہ صاحب کا اصرار تھا کہ میں نے کبھی ہندو مذہب پر حملہ نہیں کیا، صرف توہّم پرستی اور تعصّب کی نشان دہی کی ہے۔ ان کا ایک وصف دیانت داری، منکسر المزاجی بھی تھی۔ راجہ صاحب باقاعدہ مجالس منعقد کر کے اصلاحِ‌ معاشرہ کی کوشش کرنے لگے تھے۔ لیکن مباحث کے دوران انھوں نے ہمیشہ اپنے عالمانہ وقار کو ملحوظ رکھا اور اپنے مخالفین کا احترام کیا۔ وہ تحمل سے ان کی بات سنتے اور دلیل اور منطق سے قائل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

    ہندوؤں کے علاوہ انھیں عیسائی مذہب میں تثلیث جیسے بنیادی نظریے اور عقیدے پر تنقید کے بعد سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں مغربی کلچر کا دلدادہ اور ہندوستان کا دشمن کہا جانے لگا۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    سر سّید احمد خان نے بھی راجہ صاحب کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے فلاح و بہبود کے کاموں‌ کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھوں نے ہندوستان کے شہروں میں متعدد یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے بھی تعمیر کرائے اور لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول قائم کیے تھے۔

    انھیں مغل بادشاہ شاہ عالم نے اپنی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے اپنا وکیل بنا کر لندن بھیجا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہیں وفات پائی۔

  • ونگاری ماتھائی: سیاہ فام خاتون جسے درختوں کی ماں‌ کہا جاتا ہے

    ونگاری ماتھائی: سیاہ فام خاتون جسے درختوں کی ماں‌ کہا جاتا ہے

    وَنگاری ماتھائی کو دنیا میں فطرت کی دوست اور تحفظِ ماحول کی سرگرم کارکن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی۔ انھیں درختوں‌ کی ماں بھی کہا جاتا ہے، سرطان کے مرض میں‌ مبتلا ونگاری ماتھائی 2011ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

    کینیا کی وَنگاری ماتھائی پہلی افریقی نوبیل انعام یافتہ خاتون تھیں۔ انھوں نے ایک پسماندہ ملک کے غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی لیکن تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ وہ ایک ایسے کام کی بدولت دنیا میں‌ ممتاز ہوئیں جو زمین اور انسانوں کی بقا اور بھلائی کے لیے ضروری تھا۔ 71 برس کی عمر میں‌ وفات پانے والی ونگاری ماتھائی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کینیا کی سب سے مشہور اور قابلِ احترام خاتون تھیں۔ انھوں‌ نے تحفظِ ماحول کی غیر سرکاری تنظیم گرین بیلٹ موومنٹ کی بنیاد رکھی تھی جس کے ذریعے وہ تین دہائیوں تک درخت لگانے اور ماحول کی حفاظت کے لیے سرگرم رہیں۔ انھیں‌ 2004ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنے ملک میں‌ غریب عورتوں کو اپنی تنظیم کا حصہ بنا کر لگ بھگ تیس ملین درخت لگائے۔ وہ کمرشل بنیادوں‌ پر درختوں کی کٹائی اور سبزے کی پامالی کے جواب میں‌ ویران اور قابلِ کاشت رقبے پر درخت لگانے اور مختلف پیڑ پودوں کی افزائش میں‌ مصروف رہیں۔ انھیں‌ ماحول مخالف سرگرمیوں‌ اور فطرت کو نقصان پہنچانے کے اقدامات کے راستے میں‌ ایک رکاوٹ سمجھا جاتا تھا۔

    ونگاری ماتھائی نے اپنی زندگی کے حالات اور اپنی جدوجہد کو اپنی کتاب ’ناقابلِ شکست‘ میں‌ رقم کیا ہے، جس سے ہم یہ پارے آپ کے لیے نقل کررہے ہیں، اس کے مترجم بُش احمد ہیں۔

    ونگاری ماتھائی لکھتی ہیں، میری عُمر سات آٹھ سال تھی جب ہم نائیری کے قصبے میں واپس آئے۔ چند دنوں کے بعد میرے بھائی دیَریتُو نے ماں سے پوچھا، ’’کیا وجہ ہے کہ ونگاری ہماری طرح اسکول نہیں جاتی؟‘‘

    دیَریتُو اس وقت تیرہ سال کا تھا اور ہائی اسکول جانا شروع کیا تھا۔ اس کا سوال زیادہ عجیب و غریب نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو تعلیم دلانے کا واقعہ ہو چکا تھا۔ میرا ماموں ’’کامُوں یا‘‘ اپنے سب بچوں کو اسکول بھیج رہا تھا جن میں ایک بیٹی بھی شامل تھی۔ لیکن یہ عام رواج نہیں تھا۔ میری ماں نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر جواب دیا، ’’کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسکول نہ جائے۔‘‘

    اگرچہ مجھے معلوم نہیں کہ کیا ہوا، لیکن مجھے شک ہے کہ میری ماں نے ماموں سے مشورہ کیا ہوگا۔ ہمارے باپ کی غیر حاضری کے دوران ماموں ہی خاندان کے سرپرست کے طور پر موجود تھے۔ اُنہوں نے ضرور ہامی بھری ہو گی کیوں کہ فیصلہ کیا گیا کہ میں اپنے کزنز کے ساتھ پرائمری اسکول جاؤں گی۔ میری ماں کے لیے یہ ایک بھاری فیصلہ تھا۔ میری چھوٹی بہن مونیکا پیدا ہو چکی تھی اور ہماری ماں نے مجھ سے چھوٹے تین بچوں کی نگہداشت کرنی تھی۔ اسکول کی فیس کا بھی کچھ کرنا تھا۔ اس وقت کے اسکول کی ایک ٹرم کی فیس صرف ڈیڑھ روپیہ تھی جو ہماری دیہاتی فیملی کے لیے بہت مہنگی تھی۔

    میری ماں آسانی سے کہہ سکتی تھی، ’’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ گھر میں مجھے ونگاری کی مدد کی ضرورت ہو گی۔ لڑکی کو تعلیم دلانے کا کیا فائدہ؟‘‘ مگر میری ماں نے میرے بھائی کی رائے کے ساتھ اتفاق کیا۔

    میں بہت شکر گزار ہوں کہ میری ماں نے یہ فیصلہ کیا، کیوں کہ یہ فیصلہ میں خود سے نہ کر پاتی۔ اور اس نے میری زندگی بدل دی۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دیَریتُو نے یہ سوال نہ پُوچھا ہوتا اور میری ماں نے وہ جواب نہ دیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ آج تک مجھے نہیں معلوم کہ میری تعلیم کے پیسے کہاں سے آئے، لیکن غالباً میری ماں نے گاؤں میں دوسرے لوگوں کی زمینوں پر کھیتی باڑی کی مزدوری میں وہ پیسے کمائے ہوں گے۔ ان دنوں ایک دن کی دیہاڑی سے ساٹھ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔

    پرائمری اسکول میں میرا پہلا دن مجھے آج تک یاد ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اسکول پہنچنے سے پہلے جو کچھ ہوا وہ میری یادداشت میں کھبا ہوا ہے۔ میرے پاس ایک سلیٹ تھی، چند اورق پر مشتمل ایک کاپی اور ایک پنسل تھی اور کسی جانور کی کھال سے بنا ایک سادہ سا تھیلا۔ بعد میں میرے ماموں نے مجھے سوتی کپڑے سے بنا ایک تھیلا عطا کر دیا تھا۔ پہلے ہی دن آٹھ سال کی بچّی کے لیے تین میل اکیلی چل کر اسکول جانا مشکل یا غیرمعمولی نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن میرا کزن جونوتھن جس کو سب جونو کہتے تھے وہ صبح سویرے مجھے لینے آ گیا۔ عمر میں وہ مجھ سے تھوڑا ہی بڑا تھا اور لکھنا پڑھنا جانتا تھا۔

    ننگے پاؤں ہم دونوں پہاڑی پر چڑھتے کچے راستے پر چل رہے تھے جو اسکول کے احاطے کی طرف جاتا تھا کہ میرا کزن اچانک رُک کر راستے کے ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے اشارے سے بُلا کر ساتھ بٹھایا اور بولا۔ ’’کیا تم لکھنا پڑھنا جانتی ہو؟‘‘

    ’’نہیں! میں نہیں جانتی۔‘‘میں نے سر ہلاتے جواب دیا۔ ’’لیکن کیا تم کم از کم لکھ تو سکتی ہو نا؟‘‘ اس نے تنگ آ کر چھوٹی کزن کو متأثر کرنے کی اپنی بہترین کوشش کی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں لکھ بھی نہیں سکتی تھی۔ مجھے تو واقعی یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ لکھائی کیا بلا ہوتی ہے لیکن میں سارا راز فاش نہیں کرنا چاہتی تھی۔

    ’’اچھا!‘‘ جونو پُراسرار لہجے میں بولا، ’’میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔‘‘

    ’’وہ کیا؟‘‘ مجھے اب تجسس ہوا۔

    ’’میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ لکھتے کیسے ہیں!‘‘ جونو نے اپنی کاپی نکالی اور اس پر کریون نما پنسل سے کچھ لکھا۔ لکھنے سے پہلے اس نے پنسل کو اپنی زبان سے اچھی طرح تَر کیا تاکہ لکھا جا سکے۔ اور یقین کیجیے کہ اس نے اس پنسل کو چاٹنے کا ایسا مظاہرہ کیا جیسے جادوگر شعبدہ دکھاتے کرتے ہیں۔ پھر اس نے جو لکھا تھا وہ میرے سامنے پیش کیا۔ ظاہر ہے جو کچھ لکھا گیا تھا مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آیا۔ لیکن میں اس کی مہارت سے بہت متأثر ہوئی۔

    اس واقعے کے بعد ہم نے اسکول کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ دن میں نہیں بھولی۔ پڑھنے لکھنے پر مجھے آمادہ کرنے کا یہ بہترین طریقہ تھا۔ ہائے میری کتنی خواہش تھی کہ میں لکھ سکوں اور پھر اسے مٹا بھی سکوں۔ جب بالآخر میں نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا میں کبھی رکی نہیں۔ کیونکہ میں پڑھ سکتی تھی، لکھ سکتی تھی اور اسے مٹا سکتی تھی۔

    ہمارا اسکول اس زمانے کے اسکولوں جیسا تھا۔ اس کی دیواریں گارے کی اور فرش مٹی کا تھا۔ ہر جمعے والے دن ہم اپنے اپنے گھروں کے چولھے سے راکھ لے کر آتے تھے اور فرش پر بچھاتے تھے۔ پھر قریبی ندّی سے جا کر پانی بھر کر لاتے تھے اور راکھ پر پانی چھڑک کر فرش کو رگڑ رگڑ کر جھاڑو سے صاف کرتے تھے۔ اس زمانے میں فرش صاف کرنے کا یہ ایک عام طریقہ تھا جس سے کمرے میں گَرد بھی جمع نہیں ہوتی تھی اور پسُّو جیسے حشراتُ الارض بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ جون سے اگست کے مہینوں میں اس اُونچے علاقے میں سردی اور دھند ہوتی تھی اور ہمارا اسکول انتہائی ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ ان دنوں ہمارے اساتذہ آگ جلا دیتے تھے تاکہ ہم اپنے ہاتھوں کو گرم کر کے لکھ سکیں۔ آج کل یہی سطح مرتفع اب اتنی سرد نہیں ہوتی۔ شاید گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کی وجہ ہو گی۔

  • نیک سیرت اور عادل حکم راں سلطان فیروز شاہ تغلق

    نیک سیرت اور عادل حکم راں سلطان فیروز شاہ تغلق

    فیروز شاہ تغلق کو ان کے چچا زاد سلطان محمد بن تغلق کی وفات کے بعد سلطنتِ دہلی کا تاجدار قبول کیا گیا تھا۔ ان کا دورِ حکم رانی 1351ء سے 1388ء تک قائم رہا اور سلطان اس سال آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ فیروز شاہ، محمد بن تغلق کے چچا زاد بھائی تھے اور انھوں نے بیماری کے دوران سلطان محمد بن تغلق کی تیمار داری اور خوب خدمت کی، جس سے متأثر ہو کر سلطان نے انھیں اپنا جانشین نام زد کیا تھا۔ فیروز شاہ تغلق کا دور فلاحی کاموں اور رعایا کو ابتری اور بدانتظامی سے نجات دلانے کے ساتھ اسلامی تعلیمات اور اقدار کے احیا و فروغ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔

    فیروز شاہ تغلق کے والد کا نام رجب تھا جو سلطان غیاث الدّین تغلق کے بھائی تھے۔ نوعمری میں‌ فیروز شاہ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوئے تو تغلق شاہ نے ہی ان کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی تھی۔

    مؤرخین نے فیروز شاہ کو عالم فاضل اور نیک سیرت حکم راں لکھا ہے جس کا دورِ‌ حکومت 40 سال پر محیط رہا۔ مشہور ہے کہ جب فیروز شاہ کو بادشاہ بننے کی اطلاع دی گئی تو اُس وقت وہ محمد بن تغلق کی موت پر ماتمی لباس پہنے ہوئے تھے۔

    تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ ‘فیروز شاہ نے ماتمی لباس اتارنے سے انکار کردیا اور شاہی لباس اس کے اوپر پہن لیا۔ سواری کے لیے ہاتھی آیا، ہاتھی پر جب وہ سوار ہوئے تو باجوں کا شور و غل تھا اور خوشی کے مارے خلقت آپے سے باہر ہوئی جاتی تھی۔ جیسے شادی کا ماحول ہو۔ بادشاہ ہاتھی پر سوار حرم میں گئے۔ اور وہاں جاکر خداوند زادہ کے قدموں پر سَر رکھا۔ اس نے سَر کو اٹھا کر اپنے گلے لگایا اور تاج، فیروز کے سر پر رکھا۔’

    یحییٰ بن احمد سرہند اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ ’’بادشاہِ مغفور، محمد تغلق شاہ کے عہدِ سلطنت میں وجود میں آنے والی ہر طرح کی ستم گری، شقاوت، زیادتی، ملک تباہی و بربادی اور رعیّت کے اَمن و سکون اور راستوں کے امن وامان میں بدل گئی اور علماء و مشائخ کی تعداد اور فروغِ علم و فضل میں اضافہ ہوا۔‘‘

    مؤرخین کے مطابق سلطان نے باغیوں کو وحشت ناک سزائیں نہ دینے کا جواز شریعت سے پیش کیا۔ فرشتہ کے بقول فیروز شاہ کہتا تھا کہ ’’مجھ سے پہلے کے بادشاہوں کی یہ کچھ عادت سی بن گئی تھی کہ معمولی معمولی جرائم پر اپنی رعایا یا اپنے ماتحت عملہ کو سخت سے سخت اور بیہودہ سے بیہودہ سزائیں دیا کرتے تھے۔ میرے نزدیک یہ سزائیں غیر مشروع بھی ہیں اور ظالمانہ بھی، میں نے یہ سب ممنوع قرار دے دیں اور بات بات پر مسلمانوں کا خون بہانا جرم ٹھہرایا۔‘‘ یہ فیروز شاہ تغلق کا ایک امتیازی وصف ہے کہ انھوں نے تخت کے حصول یا اس کے استحکام کے نام پر قتل و غارت گری نہیں کی۔

    بعض روایات کے مطابق سلطان کے دور میں غریب والدین کی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات بھی شاہی خزانے سے ادا کیے جاتے تھے۔ تغلق خاندان کے ایک مشہور مؤرخ سراج عفیف راوی ہیں کہ 38 سال میں ہزاروں غریب گھرانوں کی لڑکیوں کے نکاح اور شادی پر شاہی خزانے سے رقم خرچ کی گئی۔

    سلطان فیروز شاہ ہندوستان کی تاریخ کے وہ مسلمان بادشاہ تھے جنھوں نے رفاہِ عام کی غرض سے دریاؤں سے تیس نہریں نکالیں تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین آباد ہو۔ جامع مساجد، سرائیں تعمیر کروائیں، شفا خانے اور تعلیمی ادارے قائم کیے۔ سلطان کے دور میں تقریباً دو سو شہر آباد کیے گئے جن میں جون پور، فیروز پور اور فیروز آباد بہت مشہور ہیں۔

    سلطان فیروز شاہ تغلق صوفیائے عظام، مشائخِ کرام سے قلبی لگاؤ رکھتے تھے اور ان کے دور میں بعض علما اور درویشوں کو زمین وقف کرنے کے علاوہ وظائف بھی جاری کیے جاتے تھے۔

    بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ضلع جونپور میں قدیم عمارتیں آج بھی اپنے دور کی یاد تازہ کریتی ہیں اور انہی میں سے ایک فیروز شاہ کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ مقبرہ شہر کے محلہ سپاہ میں لبِ سڑک موجود ہے۔