Tag: ستمبر وفات

  • ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    1959ء میں ہالی وڈ کے شائقین فلم ’سَم لائیک اٹ ہاٹ‘ سے محظوظ ہوئے اس فلم کو کلاسک کامیڈی مانا جاتا ہے۔

    فلم کا ایک کردار ٹونی کرٹس نے ادا کیا تھا جب کہ ساتھی فن کار جیک لیمن تھے۔ ان دونوں مرد اداکاروں نے فلم میں عورتوں کا بہروپ بھرا تھا جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ اسی فلم میں ان کے ساتھ اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ مارلن منرو نے بھی اپنا کردار نبھایا تھا۔ فلم میں ٹونی کرٹس اسی اداکارہ کے محبوب کے طور پر نظر آئے تھے۔

    اس فلم نے اداکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔

    2010ء میں آج ہی کے دن ٹونی کرٹس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آئیے برنارڈ شوارٹز المعروف ٹونی کرٹس کی زندگی اور فلمی سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔

    وہ 3 جون 1925ء کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ اداکاری کے بعد ان کا دوسرا مشغلہ آرٹ اور مصوّری تھا۔

    کلاسک کا درجہ رکھنے والی ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اس فن کار نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا جن میں مذکورہ فلم کے علاوہ ’سپارٹیکس‘ اور ’دی ڈیفینیٹ ونس‘ شامل ہیں۔

    ٹونی 1950ء کی دہائی کے مقبول، کام یاب ترین اور وجیہ صورت اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے فلموں اور ڈراموں دونوں میں کام کیا اور ہر جگہ کام یاب رہے۔

    کرٹس کو دی ڈیفینیٹ ونس میں عمدہ کردار نگاری پر ‘اکیڈمی ایورڈ’ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، مگر وہ یہ ایوارڈ نہ جیت سکے۔ انھیں فلمی دنیا کے دیگر کئی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ لاس اینجلس میں ان کا نام ‘والک آف دے فیم’ پر بھی روشن ہوا۔

    2008ء میں ٹونی کرٹس کی سوانحِ حیات بھی شائع ہوئی، جس میں انھوں نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے فن کاروں سے اپنے تعلقات اور اپنے بچپن کی یادوں کے ساتھ اداکاری کے میدان میں اپنے سفر کی روداد بیان کی ہے۔

    ٹونی کرٹس نے اپنے فلمی کیریئر میں 140 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے زیادہ تر میں فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    ٹونی کرٹس نے چھے شادیاں کی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں آوارہ مزاج اور عیّاش بھی مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    پسِ پردہ فلمی گلوکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے والی اور سریلی آواز کی مالک نسیم بیگم نے 29 ستمبر 1971ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، لیکن پاک وطن کی فضاؤں میں ہر سال یومِ دفاع پر جب یہ نغمہ گونجتا ہے تو گویا ان کی یاد بھی زندہ ہوجاتی ہے۔

    اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

    یہ نغمہ مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار سیف الدّین سیف نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    نسیم بیگم کی سریلی اور پُرسوز آواز میں کئی قومی نغمات اور فلمی گیت ریکارڈ ہوئے جنھیں دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان کی اس مقبول فلمی گلوکارہ نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لیا تھا۔ موسیقی اور راگ راگنی کا سے انھیں ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا۔

    نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہریار نے انھیں فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ گانے کا موقع دیا اور وہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ بنیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں سو بار چمن مہکا‘، اس بے وفا کا شہر ہے‘، چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم شامل تھے۔

    ان کے گائے ہوئے دیگر مقبول نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کی اس مقبول ترین کلاسیکی گلوکارہ نے سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کی آواز میں امر ہوجانے والے گیتوں کی مدھرتا آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

  • “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    فلمی نغمہ نگاروں کی خوب صورت شاعری کی موسیقی ترتیب دے کر گیتوں کو جاودانی عطا کرنے والے اور بانسری نواز لعل محمد ایک معروف نام ہے۔ اپنے زمانے کا یہ مقبول ترین گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو، “اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” اس کی موسیقی لعل محمد ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے معروف موسیقار لعل محمد کا انتقال 29 ستمبر 2009ء کو ہوا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی ، گجراتی اور بنگالی زبان میں بننے والی فلموں کے نغمات کو بھی لعل محمد نے اپنے فنِ موسیقی سے لازوال بنایا۔

    وہ 1933ء میں راجستھان کے شہر اودے پور میں پیدا ہوئے۔ لعل محمد کو کم عمری ہی میں بانسری بجانے کا شوق ہو گیا تھا اور اسی شوق کی بدولت انھیں‌ دنیائے موسیقی میں‌ قدم رکھنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    لعل محمد تقسیمِ ہند کے بعد 1951ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے انھیں بانسری بجاتے ہوئے سنا تو ان سے کہا کہ کسی دن ریڈیو پاکستان آکر ملاقات کریں۔ یوں لعل محمد کے اس شوق نے انھیں ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی ملازمت دلوا دی۔

    وہاں ان کی ملاقات بلند اقبال سے ہوئی جو مشہور گائیک گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لعل محمد کی بانسری کے سُروں اور بلند اقبال کی دھنوں‌ نے سریلے، رسیلے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا اور یوں فلم انڈسٹری کو ایک خوب صورت موسیقار جوڑی بھی مل گئی۔ ان دونوں کی سنگت نے فلم نگری کو کئی لازوال اور یادگار گیت دیے۔

    ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کے بعد 1961ء میں لعل محمد اور بلند اقبال کی اس سنگت کو مشہور فلمی ہدایت کار باقر رضوی نے اپنی ایک فلم میں آزمایا اور زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے نغمات کی مقبولیت کے بعد لعل محمد اور بلند اقبال پر قسمت مہربان ہوگئی اور انھوں نے مل کر مختلف زبانوں‌ میں‌ بننے والی فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں‌ مسٹر ایکس، چھوٹی بہن، جاگ اٹھا انسان، آزادی یا موت، دوسری ماں، منزل دور نہیں، جانور، پازیب، ہنستے آنسو کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس جوڑی نے “دنیا کسی کے پیار میں جنّت سے کم نہیں” جیسے کئی گیتوں کو اپنی موسیقی سے سجایا جو بے حد مقبول ہوئے۔

  • لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر نے دنیائے طب و صحّت میں اپنے نظریات اور دریافت کے سبب ممتاز ہوا۔ ایک کیمیا دان اور ماہرِ حیاتیات کی حیثیت سے اس کے نظریات اور تجربات نے طبّی سائنس اور انسانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔

    پاسچر کی وجہِ شہرت جراثیم سے متعلق اس کا تشکیل کردہ نظریہ اور مدافعتی حربے کے طور پر ٹیکہ لگانے کا طریقہ وضع کرنا ہے۔ پاسچر ہی نے کتّے کے کاٹے کا علاج دریافت کیا اور ثابت کیا کہ بہت سی بیماریاں جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس نے خمیر پر اپنی تحقیق سے ایک ایسا سائنسی باب کھولا جس نے بعد میں جرثومیات کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کروایا۔ اس نے پرندوں اور حیوانوں میں متعدی امراض پھیلانے والے جراثیم پر بھی تحقیق کی۔ پاسچر نے ریبیز اور دنبل (اینتھریکس) کی پہلی ویکسین بنائی۔

    وہ 1822ء میں فرانس کے قصبہ ڈولی میں پیدا ہوا۔ کالج میں اس کا مضمون سائنس تھا اور 1847ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    اس نے خمیر کے انتہائی چھوٹے اجسام یعنی جراثیم پر تجربات اور تحقیق پر توجہ دی اور یہ جانا کہ ایسے جراثیم ہی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم وہ پہلا سائنس دان نہیں تھا جس نے جراثیموں کا نظریہ پیش کیا۔ دراصل پاسچر کی اصل کام یابی اس کے ان تھک تجربات اور اپنی تحقیق کے عملی مظاہرے ہیں جس نے سائنس دانوں کو اس کے نظریات کو ماننے اور مزید غور کرنے پر مجبور کیا۔

    پاسچر نے ایک طریقہ کار وضع کیا جسے ”پاسچرائزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف طرح کے مشروبات میں جراثیموں کو مارا جا سکتا ہے۔

    پاسچر کی سب سے معروف ایجاد ریبیز کی بیماری کے علاج کا ٹیکہ ہے۔

    28 ستمبر 1895ء میں پاسچر نے وفات پائی۔ اس کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت آج بھی متعدد بیماریوں کے خلاف علاج میں مدد لی جارہی ہے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

    امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

  • انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    "اَن ٹچ ایبل” انگریزی زبان میں وہ مشہور ناول تھا جس میں مصنّف نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تنقید کی تھی۔ یہ ایک ایسی پندرہ سالہ مزدور لڑکی کی کہانی ہے جو تپِ دق سے مر جاتی ہے۔ یہ ملک راج آنند کا ناول تھا جو آج ہی کے دن 2008ء میں وفات پاگئے تھے۔

    بھارتی ناول اور افسانہ نگار ملک راج آنند 1905ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر پشاور (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے۔

    انھوں نے 1920ء کے عشرے میں انگلستان میں لندن اور کیمرج کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک انگلستان میں قیام کیا۔

    وہاں انھیں انگریزی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے، تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے ساتھ اپنے زمانے کے اہم مصنّفین اور تخلیق کاروں کی صحبت اور ان کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے انھیں لکھنے پر اکسایا۔

    ملک راج آنند کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے کہانیوں کے ساتھ ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ وہ عرصہ دراز تک ممبئی کے مشہور آرٹ میگزین "مارگ” کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ملک راج آنند مہاتما گاندھی کی شخصیت اور لندن کی علمی وادبی فضا سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں۔

    ملک راج آنند کے مندرجہ بالا ناول کو ان کا ایک ذاتی المیے پر ردِ عمل کہا جاتا ہے۔ ہُوا یہ تھا کہ ان کی ایک عزیزہ کو ہندو برادری سے صرف اس بات پر الگ کردیا گیا تھا کہ انھوں نے ایک مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ خاتون نے اس سے دل گرفتہ ہوکر خود کشی کر لی تھی۔

    اس ناول کا پیش لفظ ملک راج آنند کے دوست اور مشہور ناول نگار ای ایم فوسٹر نے لکھا تھا۔

    ناول کے بارے میں ایک اور مشہور مصنّف مارٹن سیمور سمتھ لکھتے ہیں کہ ’یہ ایک جذباتی اور مشکل موضوع پر لکھا جانے والا فصاحت اور بلاغت سے پُر اور فکرانگیز شاہکار ہے۔’

    ان کی ادبی کاوشوں میں ’قلی‘، ’ٹُو لیوز اینڈ اے بڈ‘ ’دی ویلج‘ اور ’ایکراس دی بلیک واٹرز‘ بھی شامل ہیں اور دی سیون ایجز آف مین، دی سیون سمرس، دی بیل بھی انہی کی فکر و تخلیق ہیں۔

    مرحوم بہت اچّھی اردو بھی جانتے تھے اور ان کا انگریزی اور اردو ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔

    ملک راج آنند شاعر مشرق، علامہ اقبالؒؒ کی شاعری کا چرچا سن کر ان کے گرویدوہ ہوئے اور ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ملک راج آنند فلسفے میں ازحد دلچسپی لینے لگے۔

    ملک راج آنند اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ان(علّامہ اقبال) سے کہا، میں آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بولے ’’میرے نقش قدم پر چلے، تو تم میونخ (جرمنی) پہنچ جاؤ گے۔ لیکن تم تو جرمن زبان نہیں جانتے۔ پھر شاید تمہارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہاں جا سکو۔ بہرحال تم ایسا کرو کہ لندن چلے جاؤ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘

    آخر شاعر مشرق کی کوششوں سے یونیورسٹی کالج، لندن میں ملک راج آنند کا داخلہ ہوگیا۔ ملک راج آنند کو اقبال کی بہت سی نظمیں زبانی یاد تھیں۔

    ملک راج آنند نمونیہ میں مبتلا ہونے کے بعد 94 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔ انھیں بھارت میں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

  • ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان 1950ء کے عشرے میں اس تنازع کا سبب بنے تھے جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا، لیکن تقریباً نصف صدی بعد انھیں اس کا ردعمل دیکھنا پڑا۔

    یہ 1999ء کی بات ہے جب آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ان کا نام پکارا گیا تو حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ منتظمین پر کڑی تنقید کی گئی اور کازان کو خفّت اٹھانا پڑی۔

    اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج بھی ان کی یہ شناخت قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار بنے اور ان کی فلمیں دیکھ کر نو آموز فن کاروں کو سیکھنے کا موقع ملا۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ وہ 2003ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو گئے تھے۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے کمیونسٹوں سے متعلق بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے جس سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    آج اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاد اور براڈ کاسٹر حمید نسیم کی برسی ہے۔ وہ فنونِ لطیفہ کے شائق اور اسلامی علوم و تعلیمات سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ 28 ستمبر 1998ء کو وفات پانے والے حمید نسیم نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو ان کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کا نمونہ ہیں۔

    حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس وابستگی کے ساتھ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ حمید نسیم ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان و بیان میں عمدہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلامی علوم کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔

    حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جستِ جنوں اور گردِ ملال شامل ہیں جب کہ تنقید میں "علّامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔

    حمید نسیم کی خود نوشت سوانح عمری بھی "ناممکن کی جستجو” کے نام سے شایع ہوئی۔

    وہ تعارفِ فرقان کے نام سے قرآن کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن اسے مکمل نہ کرسکے اور وفات پائی۔

  • رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    راجہ رام موہن رائے 1833ء میں‌ آج کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے لیکن ہندوستان میں انھوں نے اپنی فہم و فراست، دور اندیشی اور جس علم دوستی کا ثبوت دیا، اس نے نہ صرف ہندوؤں بلکہ سرسیّد جیسے تمام مسلم اکابرین اور قابلِ ذکر شخصیات کو بھی بے حد متاثر کیا۔

    آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ مشہور ہندو مصلح اور ایسے علم دوست انسان تھے جنھوں نے انگریز راج کے زمانے میں سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہمیں سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کیا کہ وہ جدید تعلیم اور سائنس کی طرف متوجہ ہوکر ہی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ قدامت پسند اور سخت گیر ہندوؤں میں مخالفت کے باوجود انھوں نے اپنے خیالات اور فکر کا پرچار جاری رکھا۔

    رام موہن رائے اس دور میں مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے تھے جہاں انھوں نے اپنی آنکھوں سے ، نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ پر دیکھے تھے۔ اس کا ان پر گہرا اثر ہوا تھا۔

    راجہ رام موہن رائے 1774ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک مصلحِ قوم، عربی و فارسی کے عالم اور مغربی نظریات و افکار سے متاثر شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ان کا تعلق رادھا نگر، بنگال سے تھا اور ان کا خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل دربار سے وابستہ تھا۔

    اس دور کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کے دوران عربی فارسی سیکھی اور بعد میں مزید تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے جو اس وقت اسلامی تعلیمات کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہاں رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات اور دین کا مطالعہ اور اسے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عربی اور مختلف مصنّفین کی تصانیف کا مطالعہ کیا جس سے اتنا متاثر ہوئے کہ بُت پرستی کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا۔

    رام موہن رائے کو برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران اس بات کا ادراک ہوا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر گلے سے نہیں اتارا جاسکتا اور انھوں نے نہ صرف خود انگریزی زبان سیکھی بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے رہے۔ ان کی زندگی اصلاحی و سماجی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بسر ہوئی۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم کے سخت مخالف رہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے فضول رسم و رواج ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی۔ اس کے ذریعے انھوں نے ہندو معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہوگئی تھیں، ان کے خلاف مہم شروع کی۔

    ان کا ایک مقصد ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ انھوں نے ہندو سماج میں بیواؤں کے دوبارہ شادی کرنے کے حق میں تحریک چلائی۔

    راجہ رام موہن رائے نے یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے تعمیر کرائے اور لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول قائم کیے۔ انھوں نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید، روشن خیال اور آزاد نظامِ تعلیم کے حامی تھے۔

    ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم مصلح اور راہ نما سر سّید احمد خان نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے لندن میں اکبر شاہ ثانی کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے بعد واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے اور وہیں وفات پائی۔