Tag: ستمبر وفات

  • منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    27 ستمبر 1995ء کو پاکستان کے نام ور گلوکار منیر حسین وفات پاگئے۔ ان کی آواز میں سدا بہار گیت آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    منیر حسین کی پیدائش 1930ء کی ہے۔ منیر حسین نے تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ گلوکار کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ فن موسیقی کے دلدادہ اور ماہر گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے اور یوں‌ سر اور ساز سے ان کی محبت فطری تھی۔

    انھیں فلم انڈسٹری میں موسیقار صفدر حسین نے متعارف کروایا۔ ان کی فلم ’’حاتم‘‘ کے لیے ’’ تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے‘‘ گانے والے منیر حسین کی فن کارانہ صلاحیتوں سے اپنے وقت کے نام ور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے بھی فائدہ اٹھایا۔ انھیں انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا موقع دینے والے موسیقاروں کے علاوہ فلم سازوں نے بھی انھیں باکمال گلوکار قرار دیا۔

    رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین نے ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے گایا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی، اس کے بعد نثار میں تری گلیوں پہ، دلا ٹھیر جا یار دار نظارا لین دے، اور اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے جیسے گیت گائے جب کہ خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار جو فلم کوئل کا گیت تھا، گا کر بہت داد و پذیرائی حاصل کی۔ اس کے بعد انھیں تیری خیر ہوے ڈولی چڑھ جان والیے، ونجھلی والڑیا اور اے حمید کی موسیقی میں زندگی تم سے ملی، اے مری زندگی، ہم کو دعائیں دو جیسے نغمات ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔

    اپنی آواز کا جادو جگانے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس گلوکار کو لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • وضع داری اور  شائستگی کے ساتھ ترکی ٹوپی اور حقّہ بابائے جمہوریت نصراللہ خان کی پہچان تھا

    وضع داری اور شائستگی کے ساتھ ترکی ٹوپی اور حقّہ بابائے جمہوریت نصراللہ خان کی پہچان تھا

    ملک میں حزبِ مخالف کے طور پر نواب زادہ نصر اللہ خان ہمیشہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ان کی خدمات اور وضع داری اور شائستگی کی سیاست کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ملکی ترقی کا ضامن تصور کرتے تھے۔ معاشی مسائل کے حل بھی جمہوری نظام میں دیکھتے تھے۔

    وہ ستمبر 2003ء کو وفات پاگئے تھے۔ نصراللہ خان آخری وقت میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف سرگرم تھے۔

    ملک میں مارشل لا اور کسی منتخب حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو نوابزادہ نصراللہ خان جمہوری نے کبھی قبول نہیں کیا اور جمہوری اقدار کی بقا کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ وہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے معروف تھے۔

    انھوں نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے 1993 سے 1996 تک یورپ اور او آئی سی میں کشمیر کے تنازع کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے او آئی سی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے ایک قرار داد منظور بھی کروائی تھی۔

    انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’بابائے جمہوریت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجلسِ احرار سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے نوابزادہ نصراللہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔

    نوابزادہ نصراللہ خان 1918 میں پیدا ہوئے۔ 1928ء سے 1933ء تک ایچیسن کالج میں تعلیم حاصل کی۔ برطانوی راج کے مخالف رہے اور 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تو اس تاریخی جلسے میں وہ بھی شریک ہوئے۔ انھوں نے 1933 میں عملی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

    انھوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ عوامی لیگ کی بنیاد رکھی اور بعد میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی۔

    1964 میں نواب زادہ نصراللہ خان نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور اسی سال منعقدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نام زد کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان متعدد سیاسی تحاریک کے ساتھ جمہوری پارٹیوں، مختلف سیاسی گروہوں اور بااثر قبائلی شخصیات پر مشتمل اتحاد کے قیام میں متحرک اور فعال رہے جن میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، جمہوری مجلس عمل، یو ڈی ایف، پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، آل پارٹیز کانفرنس، این ڈی اے اور اے آر ڈی کے نام شامل ہیں۔

    نواب زادہ نصراللہ خان اپنے شائستہ لہجے کے باعث سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کا حقّہ اور ترکی ٹوپی بھی ان کی پہچان تھا۔ سیاسی اور عوامی جلسوں میں وہ برمحل اشعار سناتے۔ انھیں شاعری سے بہت شغف تھا۔ وہ خان گڑھ میں آبائی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: نیلی آنکھوں والے پال نیومین کو ہالی وڈ کا لازوال اداکار کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: نیلی آنکھوں والے پال نیومین کو ہالی وڈ کا لازوال اداکار کہا جاتا ہے

    یہ ایک ایسے شخص کی داستانِ حیات ہے جسے ہالی وڈ کی تاریخ کا لازوال اداکار اور ہر اعتبار سے ایک غیر معمولی انسان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سبب ان کی انسان دوست طبیعت اور دردمندی ہے۔

    ہم بات کررہے ہیں پال نیومین کی جنھوں نے 83 سال اس دنیا میں گزارے اور 2008ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے۔ ایک اداکار کی حیثیت سے انھوں نے لازوال شہرت اور مقبولیت سمیٹی۔ انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق تھا۔

    ان کی نیلی آنکھیں انھیں منفرد بناتی تھیں۔ اس آسکرایوارڈ یافتہ اداکار نے ہالی وڈ کی فلموں ’دی ہسلر‘ ’کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن رُوف‘ اور ’دی کلر آف منی‘ میں یادگار کردار ادا کیے اور اپنی پہچان بنائی۔

    پال نیومین کا فلمی سفر پانچ دہائیوں پر محیط تھا۔ انھوں نے اس سفر میں ساٹھ فلموں میں کام کیا۔ وہ دس مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور پہلی بار یہ ایوارڈ فلم ’دی کلر آف منی‘ میں ان کی بے مثال اداکاری پر حاصل کیا۔

    پال نیومین 26 جنوری 1925ء کو کلیولینڈ اوہائیو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کھیلوں کا سامان کی تجارت کرتے تھے۔ نیومین نے ابتدا میں نیوی میں ملازمت کرنا چاہی، لیکن نیلی آنکھوں والے نیومین اپنی جانچ کے دوران بعض رنگوں کی شناخت نہ کر سکے اور اس نقص کی بنا پر اس ملازمت سے محروم رہے۔

    وہ ایک نہایت متحرک اور فعال شخص تھے جس نے اپنے شوق کو اہمیت دی انھوں نے 70 کی دہائی میں فلمی دنیا سے کچھ عرصہ کے لیے دوری اختیار کرلی تھی اور گاڑیوں کی ریسں کا شوق پورا کرنے لگے۔ بطور پیشہ ور ریس ڈرائیور انھوں نے ایک مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

    پال نیومین کو کل تین آسکر ایوارڈ ملے۔ فلم نگری میں ان کے مداحوں کی تعداد ان کی ہر فلم کے بعد بڑھتی رہی۔ جو این ووڈورڈ ان کی شریکِ سفر تھیں جو خود بھی ایک اداکارہ ہیں۔ اس جوڑے کے گھر پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

    نیلی آنکھوں والے پال نیومین نے ان بچّوں کے لیے ’سمر کیمپ‘ قائم کیے جو مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ وہ ایک دردمند انسان تھے اور انھوں نے جذبہ خدمت کے تحت کئی خیراتی اداروں کو مالی امداد بھی دی۔

  • تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیق آئی آئی چندریگر کی برسی

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیق آئی آئی چندریگر کی برسی

    ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے اور تحریکِ‌ پاکستان کے کارکن اور قائدِ اعظم کے رفقا میں اسماعیل ابراہیم چندریگر بھی شامل تھے۔

    آج تحریک پاکستان سے تشکیلِ پاکستان تک اہم کردار ادا کرنے والے اسماعیل ابراہیم چندریگر( آئی آئی چندریگر) کی برسی ہے۔ وہ 26 ستمبر 1960ء کو کراچی میں انتقال کرگئے تھے۔

    انھیں تقسیمِ ہندوستان سے قبل ہی وزارت کا عہدہ سونپ دیا گیا تھا اور قیام پاکستان کے بعد بھی آپ کو وہی منصب تفویض کیا گیا۔

    اسماعیل ابراہیم چندریگر 15 ستمبر 1897ء کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ اس دور میں احمد آباد، بمبئی ریذیڈنسی میں شامل تھا اور اسے صوبے میں ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل تھی۔ ابراہیم اسماعیل چندریگر نے اپنی ابتدائی تعلیم احمد آباد کے اسکول میں حاصل کی اور کالج کی تعلیم کے بعد بمبئی یونیورسٹی میں آگئے۔ اسی یونیورسٹی سے بی اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آئی آئی چندریگر، احمد آباد واپس آگئے اور پریکٹس شروع کی تھی۔

    وکالت اور مختلف مقدمات کی پیروی کے ساتھ انھیں‌احمد آباد میونسپل کارپوریشن کے ممبر کی حیثیت سے شہری مسائل حل کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔ مسلمان طلبہ و طالبات کے لیے تعلیمی سہولتوں میں اضافے کا آپ کو بے حد خیال تھا چنانچہ انجمن ہائی اسکول احمد آباد ایجوکیشن سوسائٹی کے سیکریٹری رہے اور دوسری فلاحی انجمنوں میں بھی دل چسپی لیتے تھے۔

    مسلم لیگ کے متعدد سالانہ اجلاس بمبئی میں منعقد ہوچکے تھے اور ان اجلاسوں کے حوالے سے آل انڈیا مسلم لیگ کی کارکردگی اس کے مقاصد مسلمانانِ ہند کے سامنے کھل کر آچکے تھے چنانچہ آئی آئی چندریگر نے 1936ء میں باقاعدہ طور پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی۔ فروری 1937 میں انھیں آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر صوبہ بمبئی کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں ضلع احمد آباد کے دیہی علاقہ کی نشست سے رکن منتخب کیا گیا اور آپ احمد آباد سے بمبئی منتقل ہوگئے۔ آپ اسی حلقے سے دو بار 1946ء میں بھی منتخب ہوئے۔

    آئی آئی چندریگر بمبئی اسمبلی میں مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے ڈپٹی لیڈر رہے، اس کے علاوہ بمبئی مسلم لیگ کے صدر بھی منتخب ہوئے تھے اور اس منصب پر 1945 تک فائز رہے۔ یہ عہدہ آپ کے لیے بڑا اعزاز تھا کیوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح بھی بمبئی مسلم لیگ کی ایک شاخ کے اہم رکن تھے۔ آئی آئی چندریگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے رکن بھی رہے۔

    1945-46 کے انتخابات کے بعد جب آل انڈیا مسلم لیگ نے عبوری حکومت میں شمولیت کی دعوت کو قبول کرلیا تو آئی آئی چندریگر بھی قائد اعظم کے نامزد وزرا میں سے ایک تھے۔

    جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو آئی آئی چندریگر کو وزیر تجارت و صنعت مقرر کیا گیا وہ اس عہدے پر 1948 تک فائز رہے اور افغانستان میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔

    پاکستان میں 1957 میں وہ مخلوط حکومت میں ملک کے چھٹے وزیر اعظم بنے مگر جلد ہی مستعفی ہوگئے تھے۔

    وہ کراچی میں پی ای سی ایچ سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    نام وَر ماہر لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صوبہ سندھ کی ایک روحانی شخصیت بھی تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    وہ 25 ستمبر 2005ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنے دینی اور روحانی سلسلے کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید کے میدان میں کئی موضوعات کو اپنی کتب میں‌ سمیٹا۔ اردو کی ترویج و ترقّی کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 1947 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1936 سے 1948 تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950 میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

    انھیں 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے اردو سے متعلق ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ تحریر کی متعدد خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آج اردو زبان کے اہم افسانہ نگار اور صحافی آغا بابر کا یومِ وفات ہے۔ 1998ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آغا بابر نے فلمی مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی تحریر کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت کی۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا منتقل ہوگئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ دیا۔ وہ وفات کے بعد نیویارک ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

  • اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    نعیم صدیقی کا نام اور مقام و مرتبہ اپنی جگہ، لیکن بدقسمتی سے اس چراغِ علم و ادب، اسلام کے داعی اور ملّت کے خیر خواہ سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت نے 2020ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک بہترین شاعر، ادیب، صحافی اور اسلامی اسکالر تھے۔

    ان کا اصل نام فضل الرحمٰن نعیم صدیقی تھا جو 1914ء کو ضلع جہلم خانپور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد قریبی مدرسے میں داخلہ لے لیا، اور وہاں سے فارسی میں سندِ فضیلت حاصل کی۔

    منشی فاضل کا امتحان دینے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے لیکن جلد ہی لاہور آگئے۔ وہاں مشہور صحافی مرحوم نصراللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘ میں ملازمت اختیار کرلی۔

    لاہور کا سفر نعیم صدیقی کی زندگی کا ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یہیں سے آپ کی ادبی اور صحافتی زندگی کا بھی آغاز ہوتا ہے، اور یہیں سے وہ دین کے ساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے۔ یہاں انھوں نے مولانا مودودیؒ کو پڑھا اور ان کے افکار و خیالات سے بھرپور واقفیت حاصل کی جس کے بعد ان سے ملاقات بھی ہوئی اور یہی ملاقات انھیں عملی سیاست تک لے آئی۔

    وہ صحافت کے میدان میں اعلٰی اقدار اور صالح روایات کے زبردست مؤید اور علم بردار تھے۔ انھوں نے بعد میں ترجمان القرآن کے شعبہ ادارت کو اختیار کرلیا اور علمی کام انجام دینے لگے۔

    نعیم صدیقی شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی تحریریں اردو ادب کا اعلٰی نمونہ ہیں۔ انھوں نے بہت شستہ زبان میں علمی و ادبی موضوعات پر گراں قدر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ شعلہ خیال، بارود اور ایمان، خون آہنگ، پھر ایک کارواں لٹا، نغمہ احساس اور نور کی ندیاں کے نام سے ان کے مجموعے شایع ہوئے۔

    اس کے علاوہ تحریکی شعور، عورت معرضِ کشمکش میں، اقبال کا شعلہ نوا، معرکہ دین و سیاست، ذہنی زلزلے، معروف و منکر، انوار و آثار، تعلیم کا تہذیبی نظریہ اور چند اہم موضوعات پر کتابچے بھی ان کے علمی و قلمی قدوقامت کا اندازہ کرواتے ہیں۔

    وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے جن کی سب سے زیادہ مشہور اور مقبول تصنیف ’’محسنِ انسانیت ﷺ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے سیرت نگاری کے رائج اسلوب سے ہٹ کر پیغامِ رسول کو نہایت شان دار انداز سے پیش کیا ہے۔

    نعیم صدیقی نے صلے و ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ہو کر اپنی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور نسلِ نو کی فکری راہ نمائی اور تربیت و کردار سازی میں اپنا حصّہ ڈال گئے۔

  • ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اور قلمی محاذ پر لڑنے والے اور وہاں کے عوام کی مؤثر ترین آواز تھے۔

    جب فلسطینیوں کو ان کی زمین سے جبراً بے دخل کرتے ہوئے وہاں یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ امریکا چلے گئے اور دنیا بھر میں اپنے آزاد وطن کی جنگ لڑنے والے دانش وَر کے طور پر مشہور ہوئے۔

    ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے۔ وہ عالمی سماجی اور ثقافتی سیاست کے تناظر میں ادب کی تفہیم کی روایت سے جڑے ہوئے نقّاد ہیں۔

    پروفیسر ایڈورڈ سعید کا وطن یروشلم ہے جہاں وہ 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں بن جانے کے بعد امریکا منتقل ہوگئے۔

    وہ انگریزی زبان میں لکھنے کے سبب عرب ہی نہیں مغرب میں بھی مشہور ہوئے۔ امریکا میں انھوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں علمی خدمات کا سلسلہ شروع کیا اور ادبی کام بھی کرتے رہے۔

    اگرچہ انھوں نے کئی معرکہ آرا کتابیں اور مقالے لکھے تاہم جس کتاب نے انھیں سب سے زیادہ شہرت بخشی اس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔

    انھوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر فعال کوششیں کیں۔

    ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطہ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔

    فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔

    ایڈورڈ سعید ہمیشہ باہمی مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔

    ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔

    ایڈورڈ سعید یروشلم، فلسطین کے ایک امیر اور کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے وہاں اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا اور بعد میں امریکا پہنچ کر ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے انگریزی ادب کے مضمون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعدازاں اسی زبان میں تدریس کے ساتھ ادب تخلیق کیا۔

    ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقدو نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔

    انھوں نے جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی مفصل تنقیدی مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔

    وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب استعفیٰ دے دیا۔

    ادھر امریکی اداروں نے ان سے اسرائیل کے ظلم اور بعض مذہبی نظریات پر کڑی تنقید کے بعد مخالفانہ رویہ اپنالیا۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کی پاداش میں مشکلات جھیلتے رہے۔

    انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت مانا جاتا ہے جو موسیقی کا گہرا شغف ہی نہیں اس کا علم بھی رکھتے تھے اور انھوں نے اس موضوع پر چار کتابیں تصنیف کی تھیں۔

    ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات اور انعامات دیے گئے۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔

    25 ستمبر 2003ء کو ایڈورڈ سعید دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔

  • یومِ وفات: ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ سیّد الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا

    یومِ وفات: ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ سیّد الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا

    سیّد الطاف علی بریلوی کا شمار پاکستان کی ان علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اصلاحِ قوم کے لیے زندگی وقف کررکھی تھی۔ انھوں نے کراچی میں ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ قائم کیا اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

    آج اسی بے مثل شخصیت، مدبّر و مصلح کا یومِ وفات ہے۔ اُن کا قائم کردہ سرسیّد احمد خان اور خود الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا۔ تعلیمی خدمات کے ساتھ انھوں نے ایک مصنّف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ’’حیاتِ حافظ رحمت خان ‘‘ جیسی کتاب یادگار چھوڑی۔ یہ 1934ء میں شایع ہوئی تھی۔

    وہ 24 ستمبر 1986ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن، ماہرِ تعلیم اور ادیب تھے۔

    سیّد الطاف علی بریلوی نے پاکستان میں فروغِ تعلیم کے لیے دن رات ایک کردیا اور اس قوم کی بہتری اور اصلاح کی غرض سے اپنے قلم کو بھی متحرک رکھا۔

    سید الطاف علی بریلوی 10 جولائی 1905 کو بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1935 میں سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بطور آفس سیکریٹری اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا جس کے زیرِ اہتمام تقسیم کے بعد کراچی میں سرسید گرلز کالج قائم کیا گیا تھا۔

    سیّد الطاف علی بریلوی متعدد کتب کے مصنف تھے جن میں سب سے اہم’’حیاتِ حافظ رحمت خان‘‘ ہے۔ چند محسن چند دوست، مقالاتِ بریلوی، مسلمان کی دنیا، علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، تعلیمی مسائل- پس منظر و پیش منظر، تخلیقات و نگارشات بھی ان کی بیش قیمت تصنیفات ہیں۔ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی سہ ماہی جریدہ ’’العلم‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

  • جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    ہندوستان میں 1857ء کا غدر اور دلّی میں باغیوں کا اکٹھا ہونا انگریزوں کے نزدیک بغاوت کا اعلان تھا۔ لڑائی ہوئی اور غدر کو ناکام بنا دیا گیا، لیکن دلّی پر قبضہ کرنے کی مہم میں کئی انگریز افسر اور سپاہیوں کی زندگی بھی ختم ہوگئی۔ جان نکلسن انہی میں سے ایک تھے۔

    اگر آپ راولپنڈی سے ٹیکسلا کی طرف جائیں تو جی ٹی روڈ پر ایک بلند مینار اسی انگریز افسر کی ایک یادگار ہے۔ یہ 1868ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اُدھر دلّی میں بھی ان کی یادگار موجود ہے جسے ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جان نکلسن اپنے ملک ہی میں نہیں ہندوستان میں بھی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ بریگیڈیئر جان نکلسن اپنے برطانوی فوجی یونٹ کے ہندوستانی سپاہیوں میں بہت مقبول تھے۔ نکلسن پشاور کے ڈپٹی کمشنر اور نو ماہ تک راولپنڈی کے پہلے ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔

    جان نکلسن 11 دسمبر 1822ء کو آئر لینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوئے۔ وہ 16 سال کی عمر میں متحدہ ہندوستان پہنچے تو انھیں بنگال انفنٹری میں براہِ راست کیڈٹ بھرتی کر لیا گیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اینگلو افغان جنگ میں بھی حصّہ لیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ہندوستان بھر میں نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ چاہنے والوں نے انھیں پراسرار طور پر اوتار مان لیا اور ایک فرقہ تشکیل دے ڈالا۔

    جان نکلسن کا نام پنجاب میں سکھ حکومت کے خاتمے کی مہم جوئیوں میں بھی لیا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت کا اثر ایسا تھا کہ یہی سکھ انھیں نکل سنگھ جب کہ ہندو نکل سین کے نام سے پکارنے لگے تھے اور انھیں دیوتا مان کر پوجنے لگے تھے۔ جان نکلسن کی شہرت کا ایک سبب ان کی فوجی مہمّات اور اس میں کام یابیاں تھیں۔ اس کا اعتراف سبھی نے کیا کہ وہ بہادر تھے اور انھوں نے انگریز فوج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور لڑنے والوں کا میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

    غدر کے موقع پر بھی وہ لڑائی میں‌ آگے آگے تھے اور دلّی کے محاصرے کے دوران ایک مقام پر موت ان کا مقدر بنی۔ وہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک سپاہی کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ 23 ستمبر کو موت کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس افسر کی عمر صرف 35 سال تھی۔