Tag: ستمبر وفات

  • یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    طفیل نیازی پاکستان کے معروف لوک گلوکار تھے جو 1990ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    وہ 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ طفیل نیازی نوٹنکیوں میں شرکت کرکے مقامی لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے کلاسیکی ڈراموں میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کرکے اپنے فن کی داد پائی۔

    انھوں نے اپنے فن کو ایک سنگیت گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ جاری رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مقامات اور تقریبات میں گانے بجانے کے ذریعے شرکا کو محظوظ کرنے لگے۔ انھیں‌ عوامی سطح پر پذیرائی ملتی رہی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو میں رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد طفیل نیازی ملتان چلے آئے اور بعد میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔

    26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا تو ملک میں ان کا مشہور گانا ’’لائی بے قدراں نال یاری‘‘ سنا گیا اور وہ ناظرین و سامعین میں متعارف ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں گانے بھی گائے اور دوسروں کے گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔

    1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی کے طور پر لیا جاتا ہے جو دبستانِ لکھنؤ مشہور ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی اہلِ علم اور نادرِ روزگار شخصیات وہاں سے لکھنؤ پہنچے تو دربار میں ان کی بڑی عزّت کی گئی اور صاحبانِ کمال کا خیر مقدم کیا گیا، یہی نہیں بلکہ نواب نے اپنے خرچ پر انھیں لکھنؤ بلایا۔

    آصفُ الدّولہ کو اسی سبب ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، فنونِ لطیفہ کا شائق اور فن کا قدر دان کہا جاتا ہے انھوں نے نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی بلکہ عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروا کے فنون اور ہنر کو بھی توقیر بخشی اور ہندستان میں گنگا جمنی تہذہب کے علم بردار مشہور ہوئے۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا میر تقی میرؔ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان گنت شعرا نے اُن کی تقلید کی کوشش کی، میرؔ کے لہجے، ان کے انداز میں شعر کہنا چاہا، اُن کی لفظیات کو برتا، مگر میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں نصیب ہو سکا۔

    میر تقی میر ایسے شاعر نہ تھے کہ جو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا احساس نہیں کرسکتا تھا، سو یہ تعلّی بھی میر کو زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیے:

    سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
    مستند ہے میرا فرمایا ہوا

    خدائے سخن میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی اور آج بھی ان کا شہرہ اور اشعار کا چرچا ہورہا ہے۔

    میر نے سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔

    میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ یہ بڑا پُر آشوب دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی۔

    قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیمات سیکھنے کے بعد اردو اور فارسی پڑھی۔1732ء میں میرؔ کے والد انتقال کر گئے۔ یہ وقت میرؔ کے لیے سخت آزمایش اور ابتلا کا تھا، عمر دس سال سے کچھ زیادہ تھی اور ابھی تعلیم و تربیت کی ابتدائی منازل ہی طے کی تھیں۔ والد کی دو شادیاں تھیں اور سوتیلے بھائی نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان باتوں کا میر پر گہرا اثر ہوا اور طبیعت میں زود رنجی پیدا ہو گئی۔ تب روزگار کی خاطر بہت دوڑ دھوپ کی، مگر کوئی بات نہ بن سکی۔

    1734ء میں میرؔ نے دہلی کے شاہ جہاں آباد کا رُخ کیا اور یہاں والد کے ایک شناسا نواب صمصام الدّولہ کے بھتیجے، خواجہ محمد باسط کے توسط سے صمصام الدّولہ تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ان کے والد کی بہت عزّت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ مرحوم کے مجھ پر بہت احسانات تھے، لہٰذا، مَیں ان کے صاحب زادے (میر تقی میرؔ) کے لیے ایک روپیا یومیہ وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یوں میر کو کچھ ذہنی و مالی آسودگی نصیب ہوئی۔ چار، پانچ برس سکون سے گزرئے تھے کہ نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا اور صمصام الدّولہ مارے گئے اور میرؔ کا وظیفہ بھی بند ہو گیا۔

    اب دلّی کو عازمِ سفر ہوئے جہاں ان کے رشتے کے ماموں اور مستند شاعر سراج الدّین علی خان آرزو کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت تک میر بھی شاعری کا آغاز کرچکے تھے، لیکن فی الوقت معاش نے تنگ کررکھا تھا، اس لیے زیادہ توجہ حالات بہتر بنانے پر تھی۔ فارسی اور اردو زبان پر دسترس اور اس حوالے سے نہایت فصیح و بلیغ تو تھے ہی، لیکن بعض تذکرہ نویسوں کے مطابق آرزو نے بھی ان سے کوئی اچھا برتاؤ نہ کیا۔ تاہم آرزوؔ کے علاوہ یہاں میرؔ کو جعفر ؔ عظیم آبادی اور سعادتؔ علی امروہوی سے تحصیلِ علم و ادب اور تہذیب برتنے کا موقع ملا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سعادتؔ علی امروہوی کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ میرؔ نے پورے طور پر شاعری سے رشتہ جوڑا اور گویا شاعری اُن کے لیے اوڑھنا بچھونا قرار پائی۔

    یہی وہ زمانہ تھا جب شاعر کے طور پر میر کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1742ء میں بیس سال کی عمر میں میرؔ کی شاعری کا چرچا ہونے لگا۔

    صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں لکھا کہ ’’غرض ہر چند کہ تخلّص اُن کا میرؔ تھا، مگر گنجفۂ سُخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدر دانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پُھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘

    سخن میں نام ور میر تقی میر نے 1752ء میں ’’نکات الشّعراء‘‘ تحریر کی جس میں اُردو زبان کے شاعروں کے مختصر حالات اور انتخابِ کلام شامل تھا۔ یہ کتاب فارسی میں تحریر کی گئی اور اردو شعرا کے اوّلین تذکروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

    میرؔ اپنے زمانے کا سب سے تابندہ نام تھا اور انھیں مختلف امرا و نوابین کے دربار میں عزّت و تکریم کے ساتھ انعام و وظائف ملنے لگے تھے۔ میر تقی میر نے شادی کی اور ان کے بیٹے میر فیض علی اور میر حسن عسکری تھے جو شاعر اور بیٹی شمیم کو بھی شاعرہ لکھا گیا ہے جو صاحبِ دیوان تھیں۔

    لکھنؤ کی بات کی جائے تو کہتے ہیں میرؔ سے پہلے میرؔ کی شُہرت لکھنؤ پہنچی تھی اور جب وہ اس شہر میں پہنچے تو وہاں مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ میرؔ کا ظاہری انداز اور اطوار وہاں کی ثقافت سے مختلف تھے جس پر انھیں تمسخر کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مشہور ہے کہ جب وہاں میرؔ کا تعارف جاننے کی خواہش کی گئی اور مذاق اڑانے کی مزید کوشش کی گئی تو میر نے فی البدیہہ یوں جواب دیا۔

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اُس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    یہ سن کر سامعین میرؔ سے معافی کے طلب گار ہوئے اور ان کے کلام کو بھی سراہا۔

    میر کی شاعری ذاتی غم و اندوہ کی حدوں سے گذر کر ہمہ گیر انسانی دکھ درد کی داستاں بنی۔ ان کی زندگی کا ابتدائی دور، بیٹی کی ناگہانی وفات اور اپنوں کا برا سلوک یہ سب میر کے کام آیا۔ میر کا غم جو بھی تھا، ان کے لیے فنی تخلیق کا ذریعہ اظہار کا ارفع وسیلہ بنایا۔ میر کے یہاں زندگی کا ایک ولولہ پایا جاتا ہے جس نے میر کی شاعری کو نئی رفعت عطا کی ہے۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن وقت کی گردش اور زمانے کی افتاد میں اپنا نام و نشان کھو چکا ہے۔ کہتے ہیں خدائے سخن کو لکھنؤ میں جہاں سپردِ خاک کیا گیا تھا، وہ موجودہ ریلوے اسٹیشن کے قریب کوئی جگہ تھی اور اس عمارت کی تعمیر کے دوران اس کا نشان باقی نہ رہا۔

    میر کے فن کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی۔ عظیم شعرا اپنے کلام اور نام ور نقّادوں نے اپنے مضامین میں میر کے بارے میں لکھا اور انھیں بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں مرزا رفیع سودا اور غالب کے اشعار بہت مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں میر نازک مزاج بھی تھے اور بدخو بھی اور یہ تلخی ان کے حالاتِ زندگی اور افتادِ‌ زمانہ کی وجہ سے تھی۔

  • بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    بیمار بادشاہ کی دیکھ بھال نے فیروز شاہ کو ریاست کا سلطان بنا دیا

    ہندوستان میں سلطان غیاث الدین تغلق نے دہلی پر حکومت قائم کی تھی جس کے خاندان کا ایک مشہور حکم راں فیروز شاہ تغلق تھا۔ اس کا دور 1351ء سے شروع ہوا اور 1388ء میں‌ آج ہی کے دن اس کی وفات تک جاری رہا۔

    وہ محمد تغلق کا چچا زاد بھائی تھا جس کی بیماری کے دوران فیروز شاہ نے اس کی خوب تیمار داری کی جس سے متاثر ہو کر محمد تغلق نے اسے اپنا جانشین نام زد کر دیا تھا۔ کہتے ہیں فیروز شاہ نے بھی محمد تغلق کے بعد ملک میں ابتری اور بد انتظامی کو بہت اچھے انداز سے ختم کر کے خود کو اس منصب کا اہل ثابت کر دکھایا۔

    فیروز شاہ تغلق کے باپ کا نام سپہ سالار رجب تھا جو سلطان غیاث الدین تغلق کا بھائی تھا۔ فیروز شاہ سات سال کا تھا جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد تغلق شاہ نے ہی اس کی تعلیم و تربیت اور پرورش کی۔

    جب فیروز شاہ تخت نشین ہوا تو اس وقت وہ کوئی پچاس برس کا تھا۔ فیروز شاہ کو مؤرخین نے ایک عالم فاضل اور نیک انسان لکھا ہے۔ عدل اس کے کردار کی نمایاں خوبی تھی۔

    فیروز شاہ نے 40 سال کے قریب حکم رانی کی اور بوقتِ وفات 90 سال کا تھا۔

    بادشاہ کے خود تحریر کردہ حالات ایک کتاب میں موجود ہیں جو کہ فتوحات فیروز شاہی کے نام سے مشہور ہے۔

  • اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    یوسف خان پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اوّل کے اداکاروں میں سے ایک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 20 ستمبر 2009ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    یوسف خان نے اردو اور پنجابی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے سنیما کے شائقین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ٹھہرے۔

    یوسف خان 10 اگست 1931 کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ 1954 میں فلم ’’پرواز‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ صبیحہ خانم ان کی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آئیں۔ یوسف خان نے جن اردو فلموں میں‌ کام کیا ان میں‌ چند نام مجرم، حسرت، بھروسہ، فیصلہ اور نیا دور ہیں۔ بعد میں‌ وہ پنجابی فلموں‌ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک نئے انداز سے شائقین کے سامنے آئے۔

    1962 میں فلم ’’پہاڑن‘‘ سے انھوں نے پنجابی فلموں میں‌ اداکاری شروع کی اور یہ سفر بہت کام یاب ثابت ہوا۔ یوسف خان نے پنجابی فلموں میں کئی یادگار کردار نبھائے۔ ان کی پنجابی فلموں میں ملنگی، یارانہ، بائو جی، ضدی، وارنٹ، ہتھکڑی، جگنی، شریف بدمعاش، قسمت، جبرو، خطرناک، حیدر خاں اور بڈھا گجر سرِفہرست ہیں۔

    یوسف خان نے اپنی شان دار پرفارمنس پر کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2006 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ فلم نگری کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ نگار اور 1999 میں نگار ملینئم ایوارڈ بھی انھیں دیا گیا تھا۔

    یوسف خان پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے شدید مخالف تھے، اور اس پر ہر فورم پر آواز بلند کی، مگر بھارتی فلموں کی نمائش کا سلسلہ نہ رک سکا جس پر وہ نہایت دل گرفتہ تھے۔

  • مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری کا یومِ وفات

    مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری کا یومِ وفات

    پاکستان کے مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری 19 ستمبر 1995ء کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ فلم نگری میں بحیثیت اداکار انھیں زیادہ کام یابی نصیب نہیں ہوئی لیکن قلم کے ذریعے انھوں خوب نام کمایا اور ان کے کالم مقبول ہوئے۔

    اسد جعفری 25 دسمبر 1934ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ صحافت اور انگریزی میں ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی۔ ضیا سرحدی کی فلم ’’آخری شب‘‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد انھوں نے متعدد فلموں میں کام کیا جن میں ہم سفر، اور بھی غم ہیں، نیلو فر، شکوہ، شرارت، اک تیرا سہارا، بیٹی، دیور بھابی، اک نگینہ، میرا گھر میری جنت، سن آف ان داتا اور سیاست شامل ہیں۔

    صحافت اسد جعفری کا اصل میدان تھا۔ انھیں ابتدا ہی سے صحافت کا شوق تھا۔ انھوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں کام کیا جن میں ہفتہ وار جرائد روزنامہ حرّیت اور جنگ کے نام سرِفہرست ہیں۔

    اسد جعفری فلم انڈسٹری کے فن کاروں کے یار مشہور تھے۔ ان سے سب کی دوستی تھی اور وہ ایک محبّت کرنے والے ہر دل عزیز انسان کے طور پر مشہور تھے۔ اداکار درپن، سنتوش کمار، لالہ سدھیر، سلطان راہی، محمدعلی، ندیم، وحید مراد اور رنگیلا سبھی انھیں پسند کرتے تھے۔

    اسد جعفری کو مجلسوں اور محافل میں ان کی شگفتہ باتوں اور ان کے محبّت بھرے برتاؤ کی وجہ سے ہر کوئی چاہتا تھا۔ مرحوم فوٹو گرافی کا شوق بھی رکھتے تھے۔

  • اپنے ایک مزاحیہ مکالمے سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے افتخار قیصر کی برسی

    اپنے ایک مزاحیہ مکالمے سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے افتخار قیصر کی برسی

    آج صدارتی ایوارڈ یافتہ فن کار افتخار قیصر کی برسی ہے۔ وہ 2017 میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    افتخار قیصر کی شہرت اور مقبولیت کا سبب ان ایک مکالمہ ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ تھا۔ افتخار قیصر کا فنی کریئر تقریباً 40 سال پر محیط رہا۔

    افتخار قیصر کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔ وہ ایک ورسٹائل اداکار، شاعر اور ادیب بھی تھے۔

    انھوں نے کم عمری میں مشہور پروگرام ‘نندارہ’ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا جس کے بعد پشاور ٹیلی ویژن کے ایک ہندکو پروگرام ‘دیکھتا جاندارہ’ میں انھوں نے مزاحیہ اداکاری کرکے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ بعد کے برسوں میں انھیں مزاحیہ اداکار کے طور پر شہرت ملی اور وہ ایسے خوش نصیب فن کار تھے جن کا صرف ایک مکالمہ دنیا بھر میں ان کی شناخت بن گیا۔

    اسی مکالمے پر اردو میں ایک ٹی وی پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا جو بہت مقبول ثابت ہوا۔ اس پروگرام ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ کے تمام مکالمے وہ خود لکھا کرتے تھے اور یہ طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔

    مرحوم کی زندگی کے آخری ایّام نہایت کسمپرسی اور تکلیف میں بسر ہوئے۔ انھیں ذیابیطس اور بلڈ پریشر تھا اور موت سے چند روز قبل برین ہیمرج بھی ہوا تھا۔

    افتخار قیصر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ اردو، پشتو، ہندکو، فارسی، پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری جانتے تھے۔

  • بااختیار، دولت مند اور باپردہ مغل شہزادی جہاں آرا کا تذکرہ

    بااختیار، دولت مند اور باپردہ مغل شہزادی جہاں آرا کا تذکرہ

    1964ء میں ہندی سنیما کے شائقین نے اداکارہ مالا سنہا کو مشہور مغل شہزادی جہاں آرا کے روپ میں بڑے پردے پر دیکھا۔ اس کے ہدایت کار ونود کمار تھے جن کی اس پہلی ہندی فلم میں جہاں آرا بیگم کو بھی پہلی بار بڑی اسکرین پر پیش کیا گیا تھا۔

    آج اسی شہزادی کا یومِ‌ وفات ہے۔ شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کی بیٹی جہاں آرا کو مغل دور میں‌ خاص اہمیت اور مقام حاصل رہا ہے اور ہندوستانی ہی نہیں‌ غیر ملکی محققین اور مؤرخین نے بھی ان بارے میں‌ یہی کچھ لکھا ہے۔

    جہاں آرا بیگم کو امیر ترین، بااختیار اور ایک ایسی شہزادی لکھا گیا ہے جو باپردہ اور اولیا و صوفیا کی ارادت مند تھی۔ یہی نہیں‌ بلکہ علم و ادب سے شغف اور زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا اور فارسی زبان میں دو تصانیف بھی یادگار چھوڑی ہیں۔

    جہاں آرا کا سنِ پیدائش تاریخ کے اوراق میں 1614ء درج ہے جب کہ 1681ء میں وہ آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔ آئیے ان کی زندگی کے اوراق الٹتے ہیں۔

    تعلیم و تربیت
    جہاں آرا کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور جب وہ کچھ عرصہ دکن میں‌ قیام پذیر رہی، وہاں بھی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہا اور ایک استانی مقرر کردی گئی تھی۔ مؤرخین کے مطابق ایک درباری کی اہلیہ ہری خانم بیگم نے انھیں شاہی طور طریقہ سکھایا۔ جہاں آرا کو عالم فاضل بھی لکھا گیا ہے۔

    اس شہزادی کا تذکرہ اور مؤرخین کے اس سے متعلق واقعات کا تسلسل بھی مغل دور میں‌ اس کی حیثیت اور اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

    حسن و جمال
    تاریخی کتب میں لکھا ہے، ‘جہاں آرا بیگم خاندانِ مغلیہ میں بلحاظ سیرت اور صورت ایک بے نظیر بیگم گزری ہے۔ دولتِ کمال کی طرح ملکِ حسن و جمال بھی ان کے زیرِ نگیں تھا۔ وہ نہایت درجہ حسین اور پری پیکر تھیں۔’

    دولت اور جاگیریں
    ان کی دولت کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین لکھتے ہیں کہ ‘شاہ جہان نے اپنی پیاری بیٹی کو بہت بڑی جاگير عطا کی تھی۔ انھیں جاگیر میں جو علاقے عنایت کیے گئے تھے وہ بہت زیادہ زرخیز تھے۔ ملک سورت جو نہایت شاداب صوبہ تھا شاہ جہان نے بطور جاگیر عطا کیا تھا جس کی سالانہ آمدن ساڑھے سات لاکھ تھی۔ اسی کے ساتھ انھیں سورت بندرگاہ بھی دے دی گئی تھی جس میں ہمیشہ مختلف ممالک کے تاجروں کی آمدورفت رہا کرتی تھی۔ اور ان کے محاصل میں پانچ لاکھ سے کچھ زیادہ روپے آتے تھے۔ اعظم گڑھ، انبالہ، وغیرہ کے زرخیز مقامات بھی ان کی جاگیر میں شامل تھے۔

    اس قدر دولت اور جاگیر کی مالک ہونے کے باوجود جہاں آرا خود کو فقیر کہتی تھیں۔ وہ سادگی پسند تھیں اور کہتے ہیں کہ ساری زندگی پردے کا بہت خیال رکھا۔ تاہم محل سے باہر جانا ہوتا تو بڑی شان و شوکت سے ان کی سواری نکلتی، لیکن پردے کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا۔ مؤرخین نے جہاں آرا کو مغل عہد کی سب سے تہذیب یافتہ خواتین میں شمار کیا ہے۔

    والدہ کی وفات اور ذمہ داریاں
    جہاں آرا اپنی والدہ ممتاز بیگم کے انتقال کے وقت محض 17 سال کی تھیں۔وہ ملکۂ ہندوستان تو نہیں تھیں لیکن والدہ کی موت کے بعد مغل سلطنت کی سب سے بااختیار اور طاقت ور خاتون رہیں۔ انھیں بادشاہ بیگم کا خطاب دیا گیا اور حرم کی ذمہ داری نوجوانی ہی میں ان پر ڈال دی گئی تھی۔

    حادثہ
    ایک مرتبہ جہاں آرا کے ساتھ بڑا حادثہ پیش آیا، وہ جل گئی تھیں، تقریبا آٹھ ماہ تک صاحب فراش رہیں اور ان کے مکمل صحّت یاب ہونے کی خوشی میں بادشاہ نے خزانے کا منہ کھول دیا تھا۔ یہ واقعہ 1644ء کا بتایا جاتا ہے جب وہ قلعہ کے اندر چہل قدمی کر رہی تھیں اور راہ داری میں روشن ایک مشعل سے ان کے ملبوس نے آگ پکڑ لی تھی۔

    بیماری اور موت
    مؤرخین نے لکھا ہے کہ جہاں آرا نے بسترِ مرگ پر کہا کہ ان کی آخری آرام گاہ صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کے قریب ہو۔ اور اپنے لوحِ‌ مزار پر ایک شعر کندہ کرنے کو کہا۔ ان کی خواہش کے مطابق انھیں دہلی میں اسی مزار کے قریب دفن کیا گیا۔

    مغل شہزادی کی وصیّت تھی کہ ان کی قبر کو پکّا نہ کیا جائے اور اس پر بھی عمل کیا گیا۔

  • یومِ وفات: آزادی کی خاطر سولی چڑھ جانے والے عمر مختار کو صحرا کا شیر کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: آزادی کی خاطر سولی چڑھ جانے والے عمر مختار کو صحرا کا شیر کہا جاتا ہے

    ٍفیض احمد فیض کے ایک مشہور شعر کا مصرع ملاحظہ کیجیے!

    "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے”

    1931ء میں آج ہی کے دن عمر مختار کو سرِ عام پھانسی دی گئی تھی۔ لگ بھگ 20 ہزار افراد کی موجودگی میں "صحرا کا شیر” بڑی شان سے پھانسی گھاٹ پر آیا اور موت کو گلے لگا لیا۔

    اس مجاہدِ آزادی کو گرفتار کیا گیا، تو اس موقع پر افسرِ اعلیٰ اور اطالوی فوجیوں نے فخریہ انداز میں "قیدی” کے ساتھ تصاویر بنوائی تھیں اور اس "کار ہائے نمایاں” نے تاریخ کے اوراق میں‌ ان کا نام بھی لکھوا دیا، لیکن آج شاید ہی کوئی انھیں یاد کرتا ہو۔ جب کہ عمر مختار آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    لیبیا، شمالی افریقا کا عرب ملک ہے جس پر 1911ء میں اٹلی نے قبضہ کرلیا تھا۔ عمر مختار نے اس کے خلاف جنگِ آزادی لڑی تھی۔ وہ 20 برس تک اٹلی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور گرفتاری کے بعد انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔

    عمر مختار 20 اگست 1858ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد تھا۔ کم سنی میں والد کا انتقال ہو گیا اور یوں ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی اور بعد میں ایک جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآنِ پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں جانا اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ اسی شعور اور فہم کے باعث انھیں‌ قبائلی تنازعات نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ بعد ازاں وہ جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہوئے۔

    اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور عثمانی سلطنت میں جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے ورنہ طرابلس اور بن غازی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ ترکوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بم باری کی اور اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔

    عمر مختار صحرائی علاقوں سے خوب واقف تھے اور جنگ کے رموز اور جغرافیائی امور کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انھیں صحرائی جنگ میں مہارت حاصل تھی، اور اٹلی کی فوج کے لیے وہ ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ بن گئے تھے۔ عمر مختار نے اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے اٹلی کی افواج پر کام یاب حملے کیے۔

    ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کرنے کے ساتھ گوریلا جنگ کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن سے انھیں‌ زبردست نقصان پہنچا۔

    عمر مختار کو ستمبر میں ایک حملے میں زخمی ہوجانے کے بعد دشمن کی فوج نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

    عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر عمل درآمد کے بعد اٹلی کی امید اور خواہشات کے برعکس مزاحمت کی تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آخر کار 1951ء میں لیبیا کو آزادی مل گئی۔

    لیبیا کی آزادی کے لیے مزاحمت کرنے والے عمر مختار پر ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ’’عمر مختار‘‘ کا کردار اداکار انتھونی کوئن نے نبھایا تھا۔

  • صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    آج اردو زبان و ادب میں ممتاز، صاحبِ اسلوب ادیب اور صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1987ء میں‌ آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ابوالفضل صدیقی کا تعلق بدایوں سے تھا جہاں وہ 1908ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ بٹوارے سے پہلے ہی ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    1932ء میں وہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں جن کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے بطور ادیب اپنی پہچان بنائی اور افسانہ نگاری میں ممتاز ہوئے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش جداگانہ تھا جس پر انھیں بے حد سراہا گیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    انھوں نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنے دل نشیں طرزِ‌ نگارش سے سحر پھونکا۔ ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا جب کہ ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔