Tag: ستمبر وفیات

  • مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے پہچان اور فلم ایک تھی لڑکی کے گیت لارا لپا، لارا لپا لائی رکھدا کے سبب پاکستان بھر میں‌ شہرت ملی تھی۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔

    1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والی خورشید جہاں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بمبئی سے کیا تھا۔ سہراب مودی جیسے باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر نے اپنی فلم سکندر میں مینا شوری کو ایک کردار سونپا تھا جس میں شائقین نے انھیں بہت پسند کیا اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت کے دروازے بھی اداکارہ پر کھلتے چلے گئے۔ انھیں فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی کی بدولت شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کرنے کا موقع ملا۔ ’لارا لپا، وہ گیت تھا جس نے اداکارہ کو ہندوستان بھر میں لارا لپا گرل مشہور کردیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والی مینا شوری نے یہاں سب سے بڑے شہر کراچی میں‌ قیام کیا اور پھر وہ لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اداکارہ نے 83 فلموں میں کام کیا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے 54 فلمیں کیں۔ حسین و جمیل مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔

  • کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سیّد ہاشم رضا جو شاعر، ادیب اور دانش ور کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے

    کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر سیّد ہاشم رضا جو شاعر، ادیب اور دانش ور کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے

    سید ہاشم رضا پاکستان کے ممتاز دانش ور اور شاعر تھے۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پہلے ایڈمنسٹریٹر رہے۔ آج سید ہاشم رضا کی برسی ہے۔

    اس ہمہ جہت شخصیت کے مالک اور قابل منتظم نے نہایت فعال اور متحرک زندگی گزاری اور 2003ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پائی۔

    سید ہاشم رضا 16 فروری 1910ء کو متحدہ ہندوستان کے یو پی کے ایک ضلع میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد لکھنؤ میں جج کے عہدے پر فائز تھے۔ 1932 میں انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد سید ہاشم رضا کو 1934 میں احمد نگر بمبئی پریذنڈنسی میں بطور سب ڈویژن افسر تعینات کیا گیا۔

    1939 سے 1946 تک وہ صوبہ سندھ میں تعینات رہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھیں کراچی کا پہلا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا گیا۔ وہ چیف سیکریٹری سندھ، الیکشن کمشنر سندھ، جوائنٹ سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات، کمشنر بہاولپور، چیف سیکریٹری مشرقی پاکستان اور قائم مقام گورنر مشرقی پاکستان بھی رہے۔

    وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کی خودنوشت ہماری منزل کے نام سے شایع ہوچکی ہے۔

    حکومت پاکستان نے سید ہاشم رضا کو ستارۂ پاکستان اور ستارۂ قائدِاعظم کے اعزازات سے نوازا تھا۔

    وہ کئی قومی اداروں سے منسلک رہے، ترقی اردو بورڈ، قائد اعظم اکیڈمی، قومی سیرت کمیٹی اور ایسے کئی اداروں سے وابستگی ان کی انتظامی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔

  • ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    ایملی زولا کی سرگزشت جسے ایک "غلطی” نے موت کے منہ دھکیل دیا

    1902ء میں ایملی زولا کی حادثاتی موت نے جہانِ ادب کو ایک زرخیز ذہن اور باکمال تخلیق کار سے محروم کردیا۔ وہ 29 ستمبر کی ایک رات کو گہری نیند میں خاموشی سے یہ دنیا چھوڑ گیا۔

    اس حادثاتی موت کا سبب بظاہر ایک مستری کی غفلت تھی۔ واقعے کی تفصیل سے پہلے ایملی زولا کا تعارف اور اس کی عملی زندگی کے بارے میں جان لیجیے۔

    جب یورپ کا اقتدار اور کلچر اپنے عروج پر تھا تو فرانس کی تیسری جمہوریہ میں ایملی زولا ایک بڑے ناول نگار کی حیثیت سے ابھرا اور اپنے اسلوبِ بیان سے نام پیدا کیا۔ ایملی زولا نے اپنے عہد کو ایک صحافی کی نظر سے دیکھا، مشاہدے اور تجربے سے مواد اکٹھا کیا۔ واقعات اور کرداروں کو خوب صورتی سے جمع کیا اور لکھنا شروع کر دیا۔

    ایملی زولا فرانس کا ممتاز ناول نگار، ڈراما نویس اور صحافی تھا جس نے غربت دیکھی اور تنگ دستی میں‌ پلا بڑھا۔ اس کے والد کا تعلق اٹلی سے جب کہ والدہ فرانسیسی تھیں۔ اس کا سن پیدائش 1840ء ہے۔

    اس نے متعدد محکموں میں معمولی نوکری کی، کلرک کے طور پر کام کیا اور پھر ایک اخبار سے منسلک ہوگیا جہاں سے اس کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    وہ ادب میں فطرت نگاری کی تحریک میں نمایاں‌ ہوا۔ اس ادیب کی کہانیاں موپساں جیسے نام ور ادیبوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ وہ عظیم ناول نگار وکٹر ہیوگو کے بعد فرانس میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ادیب تھا۔

    ایملی زولا کھرا، نڈر اور بے باک لکھاری مشہور تھا۔ اس نے مصلحت سے کام لینا سیکھا ہی نہ تھا۔ فرانس کے صدر کے نام 1898ء میں لکھا گیا ایک خط اس کی زندگی میں سنسنی خیز موڑ ثابت ہوا۔ یہ خط ایک اخبار کے اوّلین صفحے پر شایع ہوا جس میں‌ زولا نے فرانس کی فوجی انتظامیہ کی کرپشن کی نشان دہی کی تھی۔ اس خط کو فرانس کی بڑی بدنامی تصوّر کیا گیا۔ حکومت نے اس پر مقدمہ کر دیا اور عدالت سے ایک سال کی سزا سنا دی گئی۔ تاہم زولا کسی طرح فرار ہو کر انگلستان پہنچ گیا اور وہاں سیاسی پناہ لی۔ بعد میں یہ کیس ختم ہوا اور زولا واپس پیرس آ گیا۔

    وطن لوٹنے کے بعد وہ دوبارہ تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا، لیکن اپنے "کیے” کی قیمت اسے چکانا ہی پڑی۔ واپسی پر اسے فرانس کی سرکار نے مقدمے میں‌ گھسیٹا، تاہم عدالت میں‌ سّچائی سامنے آنے پر حکومت کو کارروائی سے پیچھے ہٹنا پڑا، اس کے باوجود ریاست نے اسے برداشت نہ کیا اور قیاس ہے کہ ایملی زولا کو “قتل” کروا دیا گیا تھا۔

    اب چلتے ہیں اس غلطی کی طرف جو بظاہر اس ادیب کی موت کا سبب بنی۔ ایک روز کوئی مستری زولا کے گھر کی چمنی ٹھیک کرنے آیا۔ اس نے اپنا کام نمٹایا اور چلا گیا، لیکن چمنی کے بند پائپ کو صاف کرنا بھول گیا جس کے باعث کمرے کو گرم رکھنے کے لیے دہکائے گئے کوئلوں کے دھویں اور گیس کا اخراج نہیں ہوسکا۔ نیند میں دَم گھٹنے کے باعث زولا کی موت واقع ہوگئی۔

    اس وقت اسے محض حادثہ تصوّر کیا گیا، لیکن اس افسوس ناک واقعے کے دس برس بعد اسی مستری نے انکشاف کیا کہ سیاسی وجوہات پر اس نے زولا کے گھر کی چمنی کا منہ بند کیا تھا۔

    فرانسیسی زبان میں زولا کے کئی ناول اور کہانیوں کے مجموعے منظرِ عام پر آئے جن کا بعد میں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔

  • ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    1959ء میں ہالی وڈ کے شائقین فلم ’سَم لائیک اٹ ہاٹ‘ سے محظوظ ہوئے اس فلم کو کلاسک کامیڈی مانا جاتا ہے۔

    فلم کا ایک کردار ٹونی کرٹس نے ادا کیا تھا جب کہ ساتھی فن کار جیک لیمن تھے۔ ان دونوں مرد اداکاروں نے فلم میں عورتوں کا بہروپ بھرا تھا جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ اسی فلم میں ان کے ساتھ اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ مارلن منرو نے بھی اپنا کردار نبھایا تھا۔ فلم میں ٹونی کرٹس اسی اداکارہ کے محبوب کے طور پر نظر آئے تھے۔

    اس فلم نے اداکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔

    2010ء میں آج ہی کے دن ٹونی کرٹس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آئیے برنارڈ شوارٹز المعروف ٹونی کرٹس کی زندگی اور فلمی سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔

    وہ 3 جون 1925ء کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ اداکاری کے بعد ان کا دوسرا مشغلہ آرٹ اور مصوّری تھا۔

    کلاسک کا درجہ رکھنے والی ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اس فن کار نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا جن میں مذکورہ فلم کے علاوہ ’سپارٹیکس‘ اور ’دی ڈیفینیٹ ونس‘ شامل ہیں۔

    ٹونی 1950ء کی دہائی کے مقبول، کام یاب ترین اور وجیہ صورت اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے فلموں اور ڈراموں دونوں میں کام کیا اور ہر جگہ کام یاب رہے۔

    کرٹس کو دی ڈیفینیٹ ونس میں عمدہ کردار نگاری پر ‘اکیڈمی ایورڈ’ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، مگر وہ یہ ایوارڈ نہ جیت سکے۔ انھیں فلمی دنیا کے دیگر کئی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ لاس اینجلس میں ان کا نام ‘والک آف دے فیم’ پر بھی روشن ہوا۔

    2008ء میں ٹونی کرٹس کی سوانحِ حیات بھی شائع ہوئی، جس میں انھوں نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے فن کاروں سے اپنے تعلقات اور اپنے بچپن کی یادوں کے ساتھ اداکاری کے میدان میں اپنے سفر کی روداد بیان کی ہے۔

    ٹونی کرٹس نے اپنے فلمی کیریئر میں 140 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے زیادہ تر میں فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    ٹونی کرٹس نے چھے شادیاں کی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں آوارہ مزاج اور عیّاش بھی مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    پسِ پردہ فلمی گلوکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے والی اور سریلی آواز کی مالک نسیم بیگم نے 29 ستمبر 1971ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، لیکن پاک وطن کی فضاؤں میں ہر سال یومِ دفاع پر جب یہ نغمہ گونجتا ہے تو گویا ان کی یاد بھی زندہ ہوجاتی ہے۔

    اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

    یہ نغمہ مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار سیف الدّین سیف نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    نسیم بیگم کی سریلی اور پُرسوز آواز میں کئی قومی نغمات اور فلمی گیت ریکارڈ ہوئے جنھیں دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان کی اس مقبول فلمی گلوکارہ نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لیا تھا۔ موسیقی اور راگ راگنی کا سے انھیں ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا۔

    نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہریار نے انھیں فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ گانے کا موقع دیا اور وہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ بنیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں سو بار چمن مہکا‘، اس بے وفا کا شہر ہے‘، چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم شامل تھے۔

    ان کے گائے ہوئے دیگر مقبول نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کی اس مقبول ترین کلاسیکی گلوکارہ نے سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کی آواز میں امر ہوجانے والے گیتوں کی مدھرتا آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

  • “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    فلمی نغمہ نگاروں کی خوب صورت شاعری کی موسیقی ترتیب دے کر گیتوں کو جاودانی عطا کرنے والے اور بانسری نواز لعل محمد ایک معروف نام ہے۔ اپنے زمانے کا یہ مقبول ترین گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو، “اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” اس کی موسیقی لعل محمد ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے معروف موسیقار لعل محمد کا انتقال 29 ستمبر 2009ء کو ہوا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی ، گجراتی اور بنگالی زبان میں بننے والی فلموں کے نغمات کو بھی لعل محمد نے اپنے فنِ موسیقی سے لازوال بنایا۔

    وہ 1933ء میں راجستھان کے شہر اودے پور میں پیدا ہوئے۔ لعل محمد کو کم عمری ہی میں بانسری بجانے کا شوق ہو گیا تھا اور اسی شوق کی بدولت انھیں‌ دنیائے موسیقی میں‌ قدم رکھنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    لعل محمد تقسیمِ ہند کے بعد 1951ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے انھیں بانسری بجاتے ہوئے سنا تو ان سے کہا کہ کسی دن ریڈیو پاکستان آکر ملاقات کریں۔ یوں لعل محمد کے اس شوق نے انھیں ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی ملازمت دلوا دی۔

    وہاں ان کی ملاقات بلند اقبال سے ہوئی جو مشہور گائیک گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لعل محمد کی بانسری کے سُروں اور بلند اقبال کی دھنوں‌ نے سریلے، رسیلے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا اور یوں فلم انڈسٹری کو ایک خوب صورت موسیقار جوڑی بھی مل گئی۔ ان دونوں کی سنگت نے فلم نگری کو کئی لازوال اور یادگار گیت دیے۔

    ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کے بعد 1961ء میں لعل محمد اور بلند اقبال کی اس سنگت کو مشہور فلمی ہدایت کار باقر رضوی نے اپنی ایک فلم میں آزمایا اور زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے نغمات کی مقبولیت کے بعد لعل محمد اور بلند اقبال پر قسمت مہربان ہوگئی اور انھوں نے مل کر مختلف زبانوں‌ میں‌ بننے والی فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں‌ مسٹر ایکس، چھوٹی بہن، جاگ اٹھا انسان، آزادی یا موت، دوسری ماں، منزل دور نہیں، جانور، پازیب، ہنستے آنسو کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس جوڑی نے “دنیا کسی کے پیار میں جنّت سے کم نہیں” جیسے کئی گیتوں کو اپنی موسیقی سے سجایا جو بے حد مقبول ہوئے۔

  • فن و ادب میں ممتاز خلیق ابراہیم خلیق کا تذکرہ

    فن و ادب میں ممتاز خلیق ابراہیم خلیق کا تذکرہ

    ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ خلیق ابراہیم خلیق کی زندگی کے ابتدائی 27 سال کی خود نوشت ہے۔ اس روداد کے بارے میں وہ لکھتے ہیں، ’’یہ دوسری خود نوشتوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ یہ آپ بیتی سے زیادہ ایک تہذیب کی سرگزشت ہے۔‘‘

    خلیق ابراہیم خلیق اردو کے معروف افسانہ نگار، شاعر، نقّاد، تذکرہ نویس اور ایک باکمال فلم ساز تھے۔ ان کی زندگی کا سفر 29 ستمبر 2006ء کو تمام ہوا۔

    رفیع الزّماں زبیری نے خلیق ابراہیم خلیق کی خودنوشت کے بارے اپنے مضمون میں لکھا: لکھنؤ جہاں خلیق ابراہیم خلیق نے شعورکی آنکھیں کھولیں اور نشوونما پائی وہ آزادی اور قیام پاکستان سے دس سال پہلے کا لکھنؤ تھا اور ان کی کہانی اسی لکھنؤ کی یادوں سے شروع ہوتی ہے، پھر اجمیر، الٰہ آباد، لاہور، دہلی اور بمبئی کی یادیں اس میں شامل ہوجاتی ہیں۔

    خلیق ابراہیم حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد حکیم محمد رفیق ابراہیم نہ صرف ایک ممتاز طبیب تھے بلکہ طب کا درس بھی دیتے تھے۔ وہ پہلے کانگریس کے اشتراکی نظریات سے متاثر تھے، پھر مسلم لیگ میں شامل ہوکر حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں حصّہ لیا۔ شعر و ادب کا بھی شوق تھا۔ خلیق ابراہیم کی شخصیت پر باپ دادا کی شخصیت کا اثر نمایاں تھا۔

    جن احباب سے خلیق ابراہیم کا خاصا ربط و ضبط رہا، ان میں مجاز، احسن فاروقی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی، ظفر انصاری، صفدر میر اور اخترُ الایمان شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم نے اپنی کتاب میں ان چند شخصیات کا ذکر بھی کیا ہے جنھیں ترقی پسند ادب کی تحریک میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ لکھتے ہیں، ’’ترقی پسندوں کے دوست، فلسفی اور راہ نما سجاد ظہیر تھے اور پیر مغاں جوشؔ ملیح آبادی۔‘‘ جوش کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے تخیل میں جو بلندی تھی ویسی ان کے علم میں وسعت اور گہرائی ہوتی تو وہ غالب اور اقبال کے ہم پلّہ ہوتے۔ سجاد ظہیر نہایت سلجھے ہوئے ذہن کے روشن خیال اور وسیع النظر دانش ور تھے اور تاریخ کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ علی سردار جعفری کے بارے میں خلیق ابراہیم کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ان شعرا میں سے ہیں جن کا علمی مرتبہ مسلّم ہے۔ ان کی نظم اور نثر دونوں میں روحِ عصر کی بھرپور نمایندگی ہے۔

    مجازؔ سے خلیق ابراہیم خلیق کی پہلی ملاقات 1939ء میں ہوئی۔ لکھتے ہیں ’’ان سے اپنے نیازمندانہ تعلقات کے دوران مجھے انھیں قریب سے دیکھنے کے مواقعے ملے اور میں نے ان کی قلبی واردات اور ذہنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ چنانچہ ان کی زندگی اور شاعری کے اس مطالعے میں کچھ ایسی باتیں ملیں جو ایک شخص اور شاعری کی حیثیت سے ان کے مقام کے تعین میں خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔‘‘

    خلیق لکھتے ہیں ’’رومانیت کے سرچشمے سے نئی شاعری کے دو دھارے پھوٹے تھے۔ ان میں سے منفی اور حریفانہ عناصر والے دھارے کا راستہ بنانے والے ن۔ م راشد اور میرا جی تھے اور مثبت اور صحت مند عناصر کے زور پر رواں ہونے والے دھارے کا رخ متعین کرنے والے مجازؔ اور فیضؔ تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مؤخرالذّکر دھارے کا رخ متعین کرنے میں پہل مجازؔ نے کی تھی۔

    خلیق ابراہیم خلیق کو بچپن سے جن شہروں کو دیکھنے کا شوق تھا ان میں دہلی کے ساتھ لاہور سرفہرست تھا۔ ان کا یہ شوق قیام پاکستان سے قبل دو بار پورا ہوا۔ ایک بار پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان دینے کے لیے اور دوسری بار لاہور اور اس کے باسیوں سے قرار واقعی واقفیت حاصل کرنے کے لیے۔ دوسری بار لاہور کے سفر میں بشیر ہندی ان کے میزبان تھے۔ انھوں نے خلیق کو شہر دکھایا اور کئی علمی شخصیات سے ملاقات بھی کرائی۔ ان شخصیات مین عبدالمجید سالک، مولانا غلام رسول مہر، صوفی غلام مصطفی تبسم، مولانا صلاح الدین، عبدالرحمن چغتائی، امتیاز علی تاج، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، میراجی، شبلی بی کام، باری علیگ، ظہیر کاشمیری، حمید نسیم اور اوپندر اشک شامل تھے۔

    خلیق ابراہیم خلیق کو لکھنؤ سے دہلی جانے کا کئی بار اتفاق ہوا مگر کبھی چار چھ روز سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی نوبت نہیں آئی۔ صرف دو بار ایسا ہوا کہ دہلی میں کئی کئی ماہ قیام رہا۔ خلیق نے جامعہ ملیہ میں داخلہ لیا لیکن اس کے ہوسٹل میں نہیں رہے۔ یہ بستی نظام الدین میں بھیا احسان الحق کے گھر میں رہے۔ یہ روزانہ صبح کو تانگے پر بستی نظام الدین سے قرول باغ جاتے، دن بھر جامعہ میں گزارنے کے بعد شام کو واپس آتے۔ انھیں جامعہ میں پڑھتے ہوئے چند ماہ گزرے تھے کہ کچھ ایسے واقعات پیش آئے کہ انھیں واپس لکھنؤ جانا پڑا۔

    یہ خواجہ حسن نظامی سے بھی ملے۔ جوش سے بھی ملاقات ہوئی۔ دوبارہ یہ مولوی عبدالحق کے ذاتی معاون ہوکر دہلی گئے۔ انجمن ترقی اردو کا دفتر دریا گنج میں تھا۔ اسی کوٹھی میں ایک کمرے میں یہ رہتے تھے اور یہی ان کا دفتر بھی تھا۔ اس مرتبہ قیام کے دوران مختار صدیقی اور اختر الایمان سے مراسم قائم ہوئے۔

    بمبئی کی دلفریبیوں کی داستانیں سن کر خلیق ابراہیم کا وہاں جانے کو بہت جی چاہتا تھا۔ یہ ان کی نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اتفاق سے ایک موقع بمبئی جانے کا نکل آیا۔ حکومت ہند کے بمبئی میں ادارے انفارمیشن فلمز میں تبصرہ (کمنٹری) نگاروں کی دو اسامیوں کا اشتہار آیا۔ انھوں نے درخواست بھیج دی۔ تحریری امتحان اور انٹرویو کے لیے بلالیے گئے۔ یہ گئے اور تحریری امتحان میں کام یاب ہوگئے۔ انٹرویو ہوا جو کچھ صحیح نہ تھا۔ لکھنو واپس آگئے۔ کچھ ہی دن میں تقرری کا خط آگیا۔ خلیق بمبئی پہنچ گئے۔ دو تین ہفتے خلافت ہاؤس میں رہے، پھر آغا بشیر کے ساتھ رہنے لگے۔ ان کا کام تبصرے لکھنا اور فلم سازی کی مختلف ٹیکنیک سیکھنا تھا۔ کام دل چسپ تھا، یہ خوش تھے لیکن ملک میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ 1947ء کے شروع میں یہ ادارہ بند ہوگیا۔

    خلیق ابراہیم کو اپنے دوست آغا مجنوں کی وساطت سے فلموں کے اسکرپٹ لکھنے کا کام مل گیا۔ ان کے لیے بمبئی میں قیام کا سامان ہوگیا۔ بمبئی میں اب فلمی صنعت کے علاوہ خلیق کے روزگار کا وسیلہ اخبارات تھے۔ ساتھ ساتھ ادبی مشاغل بھی جاری تھے۔

    خلیق ابراہیم خلیق 1953ء میں پاکستان آگئے۔ انھوں نے کراچی میں‌ سکونت اختیار کی اور یہاں متعدد دستاویزی فلمیں بنائیں جن میں غالب، پاکستان اسٹوری، آرکیٹیکچرل ہیریٹیج آف پاکستان، ون ایکٹر آف لینڈ، پاتھ ویز ٹو پراسپیریٹی اور کوکونٹ ٹری شامل ہیں۔ ان کی تصانیف میں کام یاب ناکام، عورت، مرد اور دنیا، اردو غزل کے پچیس سال اور اجالوں کے خواب شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے خلیق ابراہیم خلیق کو تمغا امتیاز عطا کیا گیا تھا۔

  • لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر نے دنیائے طب و صحّت میں اپنے نظریات اور دریافت کے سبب ممتاز ہوا۔ ایک کیمیا دان اور ماہرِ حیاتیات کی حیثیت سے اس کے نظریات اور تجربات نے طبّی سائنس اور انسانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔

    پاسچر کی وجہِ شہرت جراثیم سے متعلق اس کا تشکیل کردہ نظریہ اور مدافعتی حربے کے طور پر ٹیکہ لگانے کا طریقہ وضع کرنا ہے۔ پاسچر ہی نے کتّے کے کاٹے کا علاج دریافت کیا اور ثابت کیا کہ بہت سی بیماریاں جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس نے خمیر پر اپنی تحقیق سے ایک ایسا سائنسی باب کھولا جس نے بعد میں جرثومیات کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کروایا۔ اس نے پرندوں اور حیوانوں میں متعدی امراض پھیلانے والے جراثیم پر بھی تحقیق کی۔ پاسچر نے ریبیز اور دنبل (اینتھریکس) کی پہلی ویکسین بنائی۔

    وہ 1822ء میں فرانس کے قصبہ ڈولی میں پیدا ہوا۔ کالج میں اس کا مضمون سائنس تھا اور 1847ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    اس نے خمیر کے انتہائی چھوٹے اجسام یعنی جراثیم پر تجربات اور تحقیق پر توجہ دی اور یہ جانا کہ ایسے جراثیم ہی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم وہ پہلا سائنس دان نہیں تھا جس نے جراثیموں کا نظریہ پیش کیا۔ دراصل پاسچر کی اصل کام یابی اس کے ان تھک تجربات اور اپنی تحقیق کے عملی مظاہرے ہیں جس نے سائنس دانوں کو اس کے نظریات کو ماننے اور مزید غور کرنے پر مجبور کیا۔

    پاسچر نے ایک طریقہ کار وضع کیا جسے ”پاسچرائزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف طرح کے مشروبات میں جراثیموں کو مارا جا سکتا ہے۔

    پاسچر کی سب سے معروف ایجاد ریبیز کی بیماری کے علاج کا ٹیکہ ہے۔

    28 ستمبر 1895ء میں پاسچر نے وفات پائی۔ اس کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت آج بھی متعدد بیماریوں کے خلاف علاج میں مدد لی جارہی ہے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    "اَن ٹچ ایبل” انگریزی زبان میں وہ مشہور ناول تھا جس میں مصنّف نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تنقید کی تھی۔ یہ ایک ایسی پندرہ سالہ مزدور لڑکی کی کہانی ہے جو تپِ دق سے مر جاتی ہے۔ یہ ملک راج آنند کا ناول تھا جو آج ہی کے دن 2008ء میں وفات پاگئے تھے۔

    بھارتی ناول اور افسانہ نگار ملک راج آنند 1905ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر پشاور (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے۔

    انھوں نے 1920ء کے عشرے میں انگلستان میں لندن اور کیمرج کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک انگلستان میں قیام کیا۔

    وہاں انھیں انگریزی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے، تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے ساتھ اپنے زمانے کے اہم مصنّفین اور تخلیق کاروں کی صحبت اور ان کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے انھیں لکھنے پر اکسایا۔

    ملک راج آنند کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے کہانیوں کے ساتھ ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ وہ عرصہ دراز تک ممبئی کے مشہور آرٹ میگزین "مارگ” کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ملک راج آنند مہاتما گاندھی کی شخصیت اور لندن کی علمی وادبی فضا سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں۔

    ملک راج آنند کے مندرجہ بالا ناول کو ان کا ایک ذاتی المیے پر ردِ عمل کہا جاتا ہے۔ ہُوا یہ تھا کہ ان کی ایک عزیزہ کو ہندو برادری سے صرف اس بات پر الگ کردیا گیا تھا کہ انھوں نے ایک مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ خاتون نے اس سے دل گرفتہ ہوکر خود کشی کر لی تھی۔

    اس ناول کا پیش لفظ ملک راج آنند کے دوست اور مشہور ناول نگار ای ایم فوسٹر نے لکھا تھا۔

    ناول کے بارے میں ایک اور مشہور مصنّف مارٹن سیمور سمتھ لکھتے ہیں کہ ’یہ ایک جذباتی اور مشکل موضوع پر لکھا جانے والا فصاحت اور بلاغت سے پُر اور فکرانگیز شاہکار ہے۔’

    ان کی ادبی کاوشوں میں ’قلی‘، ’ٹُو لیوز اینڈ اے بڈ‘ ’دی ویلج‘ اور ’ایکراس دی بلیک واٹرز‘ بھی شامل ہیں اور دی سیون ایجز آف مین، دی سیون سمرس، دی بیل بھی انہی کی فکر و تخلیق ہیں۔

    مرحوم بہت اچّھی اردو بھی جانتے تھے اور ان کا انگریزی اور اردو ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔

    ملک راج آنند شاعر مشرق، علامہ اقبالؒؒ کی شاعری کا چرچا سن کر ان کے گرویدوہ ہوئے اور ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ملک راج آنند فلسفے میں ازحد دلچسپی لینے لگے۔

    ملک راج آنند اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ان(علّامہ اقبال) سے کہا، میں آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بولے ’’میرے نقش قدم پر چلے، تو تم میونخ (جرمنی) پہنچ جاؤ گے۔ لیکن تم تو جرمن زبان نہیں جانتے۔ پھر شاید تمہارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہاں جا سکو۔ بہرحال تم ایسا کرو کہ لندن چلے جاؤ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘

    آخر شاعر مشرق کی کوششوں سے یونیورسٹی کالج، لندن میں ملک راج آنند کا داخلہ ہوگیا۔ ملک راج آنند کو اقبال کی بہت سی نظمیں زبانی یاد تھیں۔

    ملک راج آنند نمونیہ میں مبتلا ہونے کے بعد 94 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔ انھیں بھارت میں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔