Tag: ستمبر وفیات

  • ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان 1950ء کے عشرے میں اس تنازع کا سبب بنے تھے جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا، لیکن تقریباً نصف صدی بعد انھیں اس کا ردعمل دیکھنا پڑا۔

    یہ 1999ء کی بات ہے جب آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ان کا نام پکارا گیا تو حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ منتظمین پر کڑی تنقید کی گئی اور کازان کو خفّت اٹھانا پڑی۔

    اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج بھی ان کی یہ شناخت قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار بنے اور ان کی فلمیں دیکھ کر نو آموز فن کاروں کو سیکھنے کا موقع ملا۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ وہ 2003ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو گئے تھے۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے کمیونسٹوں سے متعلق بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے جس سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    آج اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاد اور براڈ کاسٹر حمید نسیم کی برسی ہے۔ وہ فنونِ لطیفہ کے شائق اور اسلامی علوم و تعلیمات سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ 28 ستمبر 1998ء کو وفات پانے والے حمید نسیم نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو ان کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کا نمونہ ہیں۔

    حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس وابستگی کے ساتھ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ حمید نسیم ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان و بیان میں عمدہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلامی علوم کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔

    حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جستِ جنوں اور گردِ ملال شامل ہیں جب کہ تنقید میں "علّامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔

    حمید نسیم کی خود نوشت سوانح عمری بھی "ناممکن کی جستجو” کے نام سے شایع ہوئی۔

    وہ تعارفِ فرقان کے نام سے قرآن کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن اسے مکمل نہ کرسکے اور وفات پائی۔

  • رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    رام موہن رائے کا تذکرہ جو عربی، فارسی کے عالم، بت پرستی کے مخالف اور جدید تعلیم کے حامی تھے

    راجہ رام موہن رائے 1833ء میں‌ آج کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے لیکن ہندوستان میں انھوں نے اپنی فہم و فراست، دور اندیشی اور جس علم دوستی کا ثبوت دیا، اس نے نہ صرف ہندوؤں بلکہ سرسیّد جیسے تمام مسلم اکابرین اور قابلِ ذکر شخصیات کو بھی بے حد متاثر کیا۔

    آئیے ان کے بارے میں جانتے ہیں۔ وہ مشہور ہندو مصلح اور ایسے علم دوست انسان تھے جنھوں نے انگریز راج کے زمانے میں سائنسی تعلیم کی زبردست وکالت کی۔ انگریزوں نے جب سنسکرت کالج قائم کرنے کا اعلان کیا، تو راجہ رام موہن رائے نے دسمبر 1823ء میں انگریز گورنر جنرل کو لکھا کہ سنسکرت کی تعلیم سے زیادہ ہمیں سائنسی تعلیم کی ضرورت ہے۔ انھوں نے زور دیا کہ ہندستان میں ایسی تعلیم جاری کی جائے جس میں ریاضی، نیچرل فلاسفی، کیمسٹری، اناٹومی اور دوسری جدید سائنسی تعلیم کا انتظام ہو۔

    اس دور کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو معلوم ہو گا کہ ہندوؤں کے ساتھ مسلمان بھی انگریزی تہذیب و ثقافت اور ان کے رہن سے سہن سے خائف تھے اور انگریزی زبان اور جدید تعلیم سے بیزار نظر آتے تھے۔ ہر سطح پر انگریزی تعلیم کی مخالفت کی جارہی تھی، لیکن راجہ رام موہن نے ہندوؤں کو قائل کیا کہ وہ جدید تعلیم اور سائنس کی طرف متوجہ ہوکر ہی اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔ قدامت پسند اور سخت گیر ہندوؤں میں مخالفت کے باوجود انھوں نے اپنے خیالات اور فکر کا پرچار جاری رکھا۔

    رام موہن رائے اس دور میں مغل بادشاہ شاہ عالم کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے لیے ان کے وکیل کی حیثیت سے لندن گئے تھے جہاں انھوں نے اپنی آنکھوں سے ، نئی تہذیب، نئے خیالات اور نئے فکری انقلاب کے اثرات برطانیہ پر دیکھے تھے۔ اس کا ان پر گہرا اثر ہوا تھا۔

    راجہ رام موہن رائے 1774ء میں پیدا ہوئے۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہد میں برصغیر کے ایک مصلحِ قوم، عربی و فارسی کے عالم اور مغربی نظریات و افکار سے متاثر شخصیت کے طور پر ابھرے۔ ان کا تعلق رادھا نگر، بنگال سے تھا اور ان کا خاندان پانچ پشتوں سے صوبے کے مغل دربار سے وابستہ تھا۔

    اس دور کے رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم کے دوران عربی فارسی سیکھی اور بعد میں مزید تعلیم کے لیے پٹنہ چلے گئے جو اس وقت اسلامی تعلیمات کا بڑا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ وہاں رام موہن رائے کو اسلامی تعلیمات اور دین کا مطالعہ اور اسے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے عربی اور مختلف مصنّفین کی تصانیف کا مطالعہ کیا جس سے اتنا متاثر ہوئے کہ بُت پرستی کی مخالفت کو اپنا مشن بنا لیا۔

    رام موہن رائے کو برطانوی اقتدار سے سخت نفرت تھی، لیکن کلکتہ میں قیام کے دوران اس بات کا ادراک ہوا کہ انگریزوں کی غلامی کا طوق ان کی زبان اور جدید علوم سیکھے بغیر گلے سے نہیں اتارا جاسکتا اور انھوں نے نہ صرف خود انگریزی زبان سیکھی بلکہ دوسروں کو بھی اس پر آمادہ کرتے رہے۔ ان کی زندگی اصلاحی و سماجی سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے بسر ہوئی۔

    وہ ہندو سماج میں ذات پات کی تفریق اور ستی کی رسم کے سخت مخالف رہے اور اس حوالے سے ہر قسم کے فضول رسم و رواج ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے 1828ء میں برہمو سماج تنظیم قائم کی۔ اس کے ذریعے انھوں نے ہندو معاشرے میں جو برائیاں پیدا ہوگئی تھیں، ان کے خلاف مہم شروع کی۔

    ان کا ایک مقصد ہندو مت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا تھا۔ انھوں نے ہندو سماج میں بیواؤں کے دوبارہ شادی کرنے کے حق میں تحریک چلائی۔

    راجہ رام موہن رائے نے یتیم خانے، مکتب اور شفا خانے تعمیر کرائے اور لڑکیوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے اسکول قائم کیے۔ انھوں نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

    راجہ رام موہن رائے کا ایک کارنامہ “تحفتہ الموحّدین” نامی رسالہ ہے جو فارسی میں لکھا گیا تھا جب کہ اس کا دیباچہ عربی میں تھا۔ اس رسالے نے انھیں‌ گھر بدر کروا دیا، کیوں کہ اس میں انھوں نے مذہبی بت پرستی پر سخت اعتراضات کیے تھے۔

    آپ نے جدید تعلیم کے فروغ کے لیے جدوجہد کے علاوہ اخبار و رسائل بھی شایع کیے جن میں فارسی زبان میں 1822ء میں مراۃ الاخبار بھی شامل ہے جس کے مالک و ایڈیٹر راجہ رام موہن رائے تھے۔

    آپ ہندوستانیوں کی ترقی کے لیے جدید، روشن خیال اور آزاد نظامِ تعلیم کے حامی تھے۔

    ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم مصلح اور راہ نما سر سّید احمد خان نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں، “راجہ رام موہن رائے نہایت لائق اور ذی علم اور متین، مہذب و با اخلاق شخص تھے۔ راقم (یعنی سرسید احمد خان ) نے آپ کو متعدد بار دربارِ شاہی میں دیکھا ہے اور دلّی کے لوگ یقین کرتے تھے کہ ان کو مذہبِ اسلام کی نسبت زیادہ رجحان خاطر ہے۔ ”

    راجہ رام موہن رائے لندن میں اکبر شاہ ثانی کی پنشن کا مقدمہ لڑنے کے بعد واپسی سے پہلے برسٹل میں بیمار پڑ گئے اور وہیں وفات پائی۔

  • منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    منیر حسین کی برسی جن کی مدھر آواز نے فلمی گیتوں کو یادگار بنا دیا

    27 ستمبر 1995ء کو پاکستان کے نام ور گلوکار منیر حسین وفات پاگئے۔ ان کی آواز میں سدا بہار گیت آج بھی کانوں میں رس گھول رہے ہیں۔

    منیر حسین کی پیدائش 1930ء کی ہے۔ منیر حسین نے تقسیم کے بعد پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ گلوکار کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔ وہ فن موسیقی کے دلدادہ اور ماہر گھرانے میں‌ پیدا ہوئے تھے اور یوں‌ سر اور ساز سے ان کی محبت فطری تھی۔

    انھیں فلم انڈسٹری میں موسیقار صفدر حسین نے متعارف کروایا۔ ان کی فلم ’’حاتم‘‘ کے لیے ’’ تیرے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے‘‘ گانے والے منیر حسین کی فن کارانہ صلاحیتوں سے اپنے وقت کے نام ور موسیقار رشید عطرے، خواجہ خورشید انور اور اے حمید نے بھی فائدہ اٹھایا۔ انھیں انڈسٹری میں آگے بڑھنے کا موقع دینے والے موسیقاروں کے علاوہ فلم سازوں نے بھی انھیں باکمال گلوکار قرار دیا۔

    رشید عطرے کی موسیقی میں منیر حسین نے ’’قرار لوٹنے والے قرار کو ترسے گایا جس نے زبردست مقبولیت حاصل کی، اس کے بعد نثار میں تری گلیوں پہ، دلا ٹھیر جا یار دار نظارا لین دے، اور اس شہر خرابی میں غم عشق کے مارے جیسے گیت گائے جب کہ خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں رم جھم رم جھم پڑے پھوار جو فلم کوئل کا گیت تھا، گا کر بہت داد و پذیرائی حاصل کی۔ اس کے بعد انھیں تیری خیر ہوے ڈولی چڑھ جان والیے، ونجھلی والڑیا اور اے حمید کی موسیقی میں زندگی تم سے ملی، اے مری زندگی، ہم کو دعائیں دو جیسے نغمات ریکارڈ کروانے کا موقع ملا۔

    اپنی آواز کا جادو جگانے والے پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس گلوکار کو لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • وضع داری اور  شائستگی کے ساتھ ترکی ٹوپی اور حقّہ بابائے جمہوریت نصراللہ خان کی پہچان تھا

    وضع داری اور شائستگی کے ساتھ ترکی ٹوپی اور حقّہ بابائے جمہوریت نصراللہ خان کی پہچان تھا

    ملک میں حزبِ مخالف کے طور پر نواب زادہ نصر اللہ خان ہمیشہ فعال اور سرگرم کردار ادا کرتے رہے۔ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ان کی خدمات اور وضع داری اور شائستگی کی سیاست کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ جمہوریت کو ملکی ترقی کا ضامن تصور کرتے تھے۔ معاشی مسائل کے حل بھی جمہوری نظام میں دیکھتے تھے۔

    وہ ستمبر 2003ء کو وفات پاگئے تھے۔ نصراللہ خان آخری وقت میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف سرگرم تھے۔

    ملک میں مارشل لا اور کسی منتخب حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو نوابزادہ نصراللہ خان جمہوری نے کبھی قبول نہیں کیا اور جمہوری اقدار کی بقا کے لیے ہمیشہ سینہ سپر رہے۔ وہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر یکجا کرنے کے لیے معروف تھے۔

    انھوں نے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے 1993 سے 1996 تک یورپ اور او آئی سی میں کشمیر کے تنازع کو بھرپور انداز میں پیش کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم نے او آئی سی کانفرنس میں مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے ایک قرار داد منظور بھی کروائی تھی۔

    انھیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ’’بابائے جمہوریت‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجلسِ احرار سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے نوابزادہ نصراللہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوگئے تھے۔

    نوابزادہ نصراللہ خان 1918 میں پیدا ہوئے۔ 1928ء سے 1933ء تک ایچیسن کالج میں تعلیم حاصل کی۔ برطانوی راج کے مخالف رہے اور 23 مارچ 1940ء کو قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تو اس تاریخی جلسے میں وہ بھی شریک ہوئے۔ انھوں نے 1933 میں عملی سیاست میں حصّہ لینا شروع کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔

    انھوں نے حسین شہید سہروردی کے ساتھ عوامی لیگ کی بنیاد رکھی اور بعد میں پاکستان جمہوری پارٹی کے نام سے اپنی علیحدہ سیاسی جماعت قائم کی۔

    1964 میں نواب زادہ نصراللہ خان نے کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا اور اسی سال منعقدہ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا امیدوار نام زد کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان متعدد سیاسی تحاریک کے ساتھ جمہوری پارٹیوں، مختلف سیاسی گروہوں اور بااثر قبائلی شخصیات پر مشتمل اتحاد کے قیام میں متحرک اور فعال رہے جن میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ، جمہوری مجلس عمل، یو ڈی ایف، پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی، آل پارٹیز کانفرنس، این ڈی اے اور اے آر ڈی کے نام شامل ہیں۔

    نواب زادہ نصراللہ خان اپنے شائستہ لہجے کے باعث سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ان کا حقّہ اور ترکی ٹوپی بھی ان کی پہچان تھا۔ سیاسی اور عوامی جلسوں میں وہ برمحل اشعار سناتے۔ انھیں شاعری سے بہت شغف تھا۔ وہ خان گڑھ میں آبائی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: نیلی آنکھوں والے پال نیومین کو ہالی وڈ کا لازوال اداکار کہا جاتا ہے

    یومِ‌ وفات: نیلی آنکھوں والے پال نیومین کو ہالی وڈ کا لازوال اداکار کہا جاتا ہے

    یہ ایک ایسے شخص کی داستانِ حیات ہے جسے ہالی وڈ کی تاریخ کا لازوال اداکار اور ہر اعتبار سے ایک غیر معمولی انسان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا سبب ان کی انسان دوست طبیعت اور دردمندی ہے۔

    ہم بات کررہے ہیں پال نیومین کی جنھوں نے 83 سال اس دنیا میں گزارے اور 2008ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے۔ ایک اداکار کی حیثیت سے انھوں نے لازوال شہرت اور مقبولیت سمیٹی۔ انھیں کینسر کا موذی مرض لاحق تھا۔

    ان کی نیلی آنکھیں انھیں منفرد بناتی تھیں۔ اس آسکرایوارڈ یافتہ اداکار نے ہالی وڈ کی فلموں ’دی ہسلر‘ ’کیٹ آن اے ہاٹ ٹِن رُوف‘ اور ’دی کلر آف منی‘ میں یادگار کردار ادا کیے اور اپنی پہچان بنائی۔

    پال نیومین کا فلمی سفر پانچ دہائیوں پر محیط تھا۔ انھوں نے اس سفر میں ساٹھ فلموں میں کام کیا۔ وہ دس مرتبہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نام زد ہوئے اور پہلی بار یہ ایوارڈ فلم ’دی کلر آف منی‘ میں ان کی بے مثال اداکاری پر حاصل کیا۔

    پال نیومین 26 جنوری 1925ء کو کلیولینڈ اوہائیو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کھیلوں کا سامان کی تجارت کرتے تھے۔ نیومین نے ابتدا میں نیوی میں ملازمت کرنا چاہی، لیکن نیلی آنکھوں والے نیومین اپنی جانچ کے دوران بعض رنگوں کی شناخت نہ کر سکے اور اس نقص کی بنا پر اس ملازمت سے محروم رہے۔

    وہ ایک نہایت متحرک اور فعال شخص تھے جس نے اپنے شوق کو اہمیت دی انھوں نے 70 کی دہائی میں فلمی دنیا سے کچھ عرصہ کے لیے دوری اختیار کرلی تھی اور گاڑیوں کی ریسں کا شوق پورا کرنے لگے۔ بطور پیشہ ور ریس ڈرائیور انھوں نے ایک مقابلے میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

    پال نیومین کو کل تین آسکر ایوارڈ ملے۔ فلم نگری میں ان کے مداحوں کی تعداد ان کی ہر فلم کے بعد بڑھتی رہی۔ جو این ووڈورڈ ان کی شریکِ سفر تھیں جو خود بھی ایک اداکارہ ہیں۔ اس جوڑے کے گھر پانچ بیٹیاں پیدا ہوئیں۔

    نیلی آنکھوں والے پال نیومین نے ان بچّوں کے لیے ’سمر کیمپ‘ قائم کیے جو مہلک بیماریوں کا شکار تھے۔ وہ ایک دردمند انسان تھے اور انھوں نے جذبہ خدمت کے تحت کئی خیراتی اداروں کو مالی امداد بھی دی۔

  • ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    نام وَر ماہر لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صوبہ سندھ کی ایک روحانی شخصیت بھی تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    وہ 25 ستمبر 2005ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنے دینی اور روحانی سلسلے کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید کے میدان میں کئی موضوعات کو اپنی کتب میں‌ سمیٹا۔ اردو کی ترویج و ترقّی کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 1947 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1936 سے 1948 تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950 میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

    انھیں 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے اردو سے متعلق ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ تحریر کی متعدد خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    نعیم صدیقی کا نام اور مقام و مرتبہ اپنی جگہ، لیکن بدقسمتی سے اس چراغِ علم و ادب، اسلام کے داعی اور ملّت کے خیر خواہ سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت نے 2020ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک بہترین شاعر، ادیب، صحافی اور اسلامی اسکالر تھے۔

    ان کا اصل نام فضل الرحمٰن نعیم صدیقی تھا جو 1914ء کو ضلع جہلم خانپور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد قریبی مدرسے میں داخلہ لے لیا، اور وہاں سے فارسی میں سندِ فضیلت حاصل کی۔

    منشی فاضل کا امتحان دینے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے لیکن جلد ہی لاہور آگئے۔ وہاں مشہور صحافی مرحوم نصراللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘ میں ملازمت اختیار کرلی۔

    لاہور کا سفر نعیم صدیقی کی زندگی کا ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یہیں سے آپ کی ادبی اور صحافتی زندگی کا بھی آغاز ہوتا ہے، اور یہیں سے وہ دین کے ساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے۔ یہاں انھوں نے مولانا مودودیؒ کو پڑھا اور ان کے افکار و خیالات سے بھرپور واقفیت حاصل کی جس کے بعد ان سے ملاقات بھی ہوئی اور یہی ملاقات انھیں عملی سیاست تک لے آئی۔

    وہ صحافت کے میدان میں اعلٰی اقدار اور صالح روایات کے زبردست مؤید اور علم بردار تھے۔ انھوں نے بعد میں ترجمان القرآن کے شعبہ ادارت کو اختیار کرلیا اور علمی کام انجام دینے لگے۔

    نعیم صدیقی شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی تحریریں اردو ادب کا اعلٰی نمونہ ہیں۔ انھوں نے بہت شستہ زبان میں علمی و ادبی موضوعات پر گراں قدر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ شعلہ خیال، بارود اور ایمان، خون آہنگ، پھر ایک کارواں لٹا، نغمہ احساس اور نور کی ندیاں کے نام سے ان کے مجموعے شایع ہوئے۔

    اس کے علاوہ تحریکی شعور، عورت معرضِ کشمکش میں، اقبال کا شعلہ نوا، معرکہ دین و سیاست، ذہنی زلزلے، معروف و منکر، انوار و آثار، تعلیم کا تہذیبی نظریہ اور چند اہم موضوعات پر کتابچے بھی ان کے علمی و قلمی قدوقامت کا اندازہ کرواتے ہیں۔

    وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے جن کی سب سے زیادہ مشہور اور مقبول تصنیف ’’محسنِ انسانیت ﷺ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے سیرت نگاری کے رائج اسلوب سے ہٹ کر پیغامِ رسول کو نہایت شان دار انداز سے پیش کیا ہے۔

    نعیم صدیقی نے صلے و ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ہو کر اپنی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور نسلِ نو کی فکری راہ نمائی اور تربیت و کردار سازی میں اپنا حصّہ ڈال گئے۔

  • ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اور قلمی محاذ پر لڑنے والے اور وہاں کے عوام کی مؤثر ترین آواز تھے۔

    جب فلسطینیوں کو ان کی زمین سے جبراً بے دخل کرتے ہوئے وہاں یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ امریکا چلے گئے اور دنیا بھر میں اپنے آزاد وطن کی جنگ لڑنے والے دانش وَر کے طور پر مشہور ہوئے۔

    ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے۔ وہ عالمی سماجی اور ثقافتی سیاست کے تناظر میں ادب کی تفہیم کی روایت سے جڑے ہوئے نقّاد ہیں۔

    پروفیسر ایڈورڈ سعید کا وطن یروشلم ہے جہاں وہ 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں بن جانے کے بعد امریکا منتقل ہوگئے۔

    وہ انگریزی زبان میں لکھنے کے سبب عرب ہی نہیں مغرب میں بھی مشہور ہوئے۔ امریکا میں انھوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں علمی خدمات کا سلسلہ شروع کیا اور ادبی کام بھی کرتے رہے۔

    اگرچہ انھوں نے کئی معرکہ آرا کتابیں اور مقالے لکھے تاہم جس کتاب نے انھیں سب سے زیادہ شہرت بخشی اس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔

    انھوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر فعال کوششیں کیں۔

    ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطہ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔

    فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔

    ایڈورڈ سعید ہمیشہ باہمی مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔

    ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔

    ایڈورڈ سعید یروشلم، فلسطین کے ایک امیر اور کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے وہاں اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا اور بعد میں امریکا پہنچ کر ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے انگریزی ادب کے مضمون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعدازاں اسی زبان میں تدریس کے ساتھ ادب تخلیق کیا۔

    ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقدو نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔

    انھوں نے جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی مفصل تنقیدی مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔

    وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب استعفیٰ دے دیا۔

    ادھر امریکی اداروں نے ان سے اسرائیل کے ظلم اور بعض مذہبی نظریات پر کڑی تنقید کے بعد مخالفانہ رویہ اپنالیا۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کی پاداش میں مشکلات جھیلتے رہے۔

    انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت مانا جاتا ہے جو موسیقی کا گہرا شغف ہی نہیں اس کا علم بھی رکھتے تھے اور انھوں نے اس موضوع پر چار کتابیں تصنیف کی تھیں۔

    ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات اور انعامات دیے گئے۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔

    25 ستمبر 2003ء کو ایڈورڈ سعید دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔

  • یومِ وفات: ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ سیّد الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا

    یومِ وفات: ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ سیّد الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا

    سیّد الطاف علی بریلوی کا شمار پاکستان کی ان علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے اصلاحِ قوم کے لیے زندگی وقف کررکھی تھی۔ انھوں نے کراچی میں ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ قائم کیا اور تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔

    آج اسی بے مثل شخصیت، مدبّر و مصلح کا یومِ وفات ہے۔ اُن کا قائم کردہ سرسیّد احمد خان اور خود الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا رہے گا۔ تعلیمی خدمات کے ساتھ انھوں نے ایک مصنّف کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا جس نے ’’حیاتِ حافظ رحمت خان ‘‘ جیسی کتاب یادگار چھوڑی۔ یہ 1934ء میں شایع ہوئی تھی۔

    وہ 24 ستمبر 1986ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن، ماہرِ تعلیم اور ادیب تھے۔

    سیّد الطاف علی بریلوی نے پاکستان میں فروغِ تعلیم کے لیے دن رات ایک کردیا اور اس قوم کی بہتری اور اصلاح کی غرض سے اپنے قلم کو بھی متحرک رکھا۔

    سید الطاف علی بریلوی 10 جولائی 1905 کو بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1935 میں سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بطور آفس سیکریٹری اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا جس کے زیرِ اہتمام تقسیم کے بعد کراچی میں سرسید گرلز کالج قائم کیا گیا تھا۔

    سیّد الطاف علی بریلوی متعدد کتب کے مصنف تھے جن میں سب سے اہم’’حیاتِ حافظ رحمت خان‘‘ ہے۔ چند محسن چند دوست، مقالاتِ بریلوی، مسلمان کی دنیا، علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، تعلیمی مسائل- پس منظر و پیش منظر، تخلیقات و نگارشات بھی ان کی بیش قیمت تصنیفات ہیں۔ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی سہ ماہی جریدہ ’’العلم‘‘ بھی جاری کیا تھا۔