Tag: ستمبر وفیات

  • جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    ہندوستان میں 1857ء کا غدر اور دلّی میں باغیوں کا اکٹھا ہونا انگریزوں کے نزدیک بغاوت کا اعلان تھا۔ لڑائی ہوئی اور غدر کو ناکام بنا دیا گیا، لیکن دلّی پر قبضہ کرنے کی مہم میں کئی انگریز افسر اور سپاہیوں کی زندگی بھی ختم ہوگئی۔ جان نکلسن انہی میں سے ایک تھے۔

    اگر آپ راولپنڈی سے ٹیکسلا کی طرف جائیں تو جی ٹی روڈ پر ایک بلند مینار اسی انگریز افسر کی ایک یادگار ہے۔ یہ 1868ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اُدھر دلّی میں بھی ان کی یادگار موجود ہے جسے ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جان نکلسن اپنے ملک ہی میں نہیں ہندوستان میں بھی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ بریگیڈیئر جان نکلسن اپنے برطانوی فوجی یونٹ کے ہندوستانی سپاہیوں میں بہت مقبول تھے۔ نکلسن پشاور کے ڈپٹی کمشنر اور نو ماہ تک راولپنڈی کے پہلے ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔

    جان نکلسن 11 دسمبر 1822ء کو آئر لینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوئے۔ وہ 16 سال کی عمر میں متحدہ ہندوستان پہنچے تو انھیں بنگال انفنٹری میں براہِ راست کیڈٹ بھرتی کر لیا گیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اینگلو افغان جنگ میں بھی حصّہ لیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ہندوستان بھر میں نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ چاہنے والوں نے انھیں پراسرار طور پر اوتار مان لیا اور ایک فرقہ تشکیل دے ڈالا۔

    جان نکلسن کا نام پنجاب میں سکھ حکومت کے خاتمے کی مہم جوئیوں میں بھی لیا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت کا اثر ایسا تھا کہ یہی سکھ انھیں نکل سنگھ جب کہ ہندو نکل سین کے نام سے پکارنے لگے تھے اور انھیں دیوتا مان کر پوجنے لگے تھے۔ جان نکلسن کی شہرت کا ایک سبب ان کی فوجی مہمّات اور اس میں کام یابیاں تھیں۔ اس کا اعتراف سبھی نے کیا کہ وہ بہادر تھے اور انھوں نے انگریز فوج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور لڑنے والوں کا میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

    غدر کے موقع پر بھی وہ لڑائی میں‌ آگے آگے تھے اور دلّی کے محاصرے کے دوران ایک مقام پر موت ان کا مقدر بنی۔ وہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک سپاہی کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ 23 ستمبر کو موت کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس افسر کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • پابلو نرودا نے اپنی نظموں سے بارود، ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کیا

    پابلو نرودا نے اپنی نظموں سے بارود، ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کیا

    لاطینی امریکا کے ملک چِلی کے مشہور انقلابی شاعر پابلو نرودا کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اس کی نظموں کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے۔

    ہسپانوی زبان کے اس شاعر نے دنیا کو رومان پرور اور کیف آگیں نغمات ہی نہیں‌ دیے بلکہ اپنی نظموں کے ذریعے امن، مساوات اور انسانیت کا پیغام بھی عام کیا۔ اُسے 1971ء میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا 12 جولائی 1904ء کو پیدا ہوا اور 1973ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو رہا۔

    پابلو نرودا وہ قلمی نام ہے جس نے تنگ دستی اور غربت کے ساتھ کئی صعوبتیں اٹھانے والے اس شاعر کو دنیا بھر میں شہرت دی۔ اسے اپنے نظریات اور بغاوت پر اکساتی شاعری کی وجہ سے کئی بار روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی بھی جھیلنا پڑی۔

    پابلو نے اپنی نظموں سے غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کشوں اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے پر اکساتا رہا۔

    اس کی نظموں کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    وہ اپنے ملک میں کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین بنا اور بعد میں متعدد ممالک میں چلی کا سفیر بن کر قیام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب اس کا معاشرہ رومانوی شاعری میں جذبات کے بے باک اظہار کو سخت ناپسند کرتا تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے اسے بیہودہ شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن جب اس انسان دوست نظریات اور خوب صورت احساسات سے گندھی شاعری دنیا تک پہنچی تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور مختلف ممالک میں اسے اعزازات سے نوازا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری نے اپنے ایک مضمون میں پابلو نرودا کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں‌ کیا ہے۔ وہ اس شاعر کی شخصیت اور اس کی شاعری سے متاثر تھے۔

    ’’اسپین کی خانہ جنگی سے اسٹالن گراڈ کے مورچے تک اور وہاں سے ایٹم بم کی وحشت ناکی اور پھر عالمی امن تحریک کے شباب تک پابلو نرودا صرف ایک شاعر اور مغنی ہی نہیں تھا بلکہ ایک انقلابی سپاہی اور مجاہد بھی تھا جو پورے امریکی خطّے کا ضمیر بن چکا تھا اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کر رہا تھا۔‘‘

    ’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔

    چلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہر شخص اسے جانتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بُو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے، لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوشبو اس کے نغموں میں منتقل ہوتی جارہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا ہندوستان بھی آیا اور یہاں اپنے ہم خیال شاعروں، ادیبوں، انقلابیوں اور مزدور راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ نام وَر ترقیّ پسند شاعر اور ادیب فیض احمد فیض بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔

  • یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    محسن احسان اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے، جنھوں‌ نے زندگی کی 77 بہاریں دیکھیں اور 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا۔

    محسن احسان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا جہاں رہتے ہوئے انھوں نے اردو ادب کی آب یاری کی اور زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی زمین کی فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، شوکت واسطی اور احمد فراز جیسی قد آور شخصیات کے ہم عصروں میں سے ایک تھے۔

    پشاور کے محسن احسان نے لندن میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    محسن احسان نے انگریزی ادب میں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے استاد اور پھر بحیثیت سربراہِ شعبہ انگریزی وابستگی اختیار کی۔ تدریس کے ساتھ وہ علمی و ادبی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے اور شاعری کا سفر جاری رکھا۔

    ان کا اصل نام احسان الٰہی تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 35 سال تک تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیں۔

    انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان نظموں اور غزلوں کے مجموعے ناتمام، ناگزیر، ناشنیدہ، نارسیدہ اور سخن سخن مہتاب کے نام سے شایع ہوئے جب کہ نعتیہ شاعری کا مجموعہ اجمل و اکمل کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔

    محسن احسان نے قومی و ملّی نغمات بھی لکھے۔ ان کا یہ کلام مٹی کی مہکار کے نام سے منظر عام پر آیا۔

    ادبِ‌ اطفال کی بات کی جائے تو انھوں نے پھول پھول چہرے کے نام سے خوب صورت نظموں کا مجموعہ بچّوں کے لیے پیش کیا۔

    ان کا ایک کارنامہ خوش حال خان خٹک اور رحمٰن بابا کی شاعری کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہاں ہم محسن احسان کی ایک غزل باذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    میں ایک عمر کے بعد آج خود کو سمجھا ہوں
    اگر رکوں تو کنارا، چلوں تو دریا ہوں

    جو لب کشا ہوں تو ہنگامۂ بہار ہوں میں
    اگر خموش رہوں تو سکوتِ صحرا ہوں

    تجھے خبر بھی ہے کچھ اے مسرتوں کے نقیب
    میں کب سے سایۂ دیوارِ غم میں بیٹھا ہوں

    مری خودی میں نہاں ہے مرے خدا کا وجود
    خدا کو بھول گیا جب سے خود کو سمجھا ہوں

    میں اپنے پاؤں کا کانٹا، میں اپنے غم کا اسیر
    مثالِ سنگِ گراں راستے میں بیٹھا ہوں

    بلندیوں سے مری سمت دیکھنے والے
    مرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں

    اگر ہے مقتلِ جاناں کا رخ تو اے محسنؔ
    ذرا ٹھہر کہ ترے ساتھ میں بھی چلتا ہوں

  • یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    سید مسعود الحسن کو شعر و سخن کی دنیا تابش دہلوی کے نام سے جانا گیا۔ اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر نے 2004ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ آج تابش دہلوی کی برسی ہے۔

    وہ 9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ وہیں پہلی سرکاری ملازمت شروع کی اور بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ یہاں ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے منسلک ہوگئے۔ تابش دہلوی نے ریڈیو پر خبرنامہ پڑھا اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

    1923ء میں انھوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ فانی بدایونی سے اصلاح لیتے رہے اور غزل اور نظم کے ساتھ نعت قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔

    انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا کیا تھا۔

    اردو شاعری میں انھو‌ں نے بڑا نام و مقام بنایا اور مشاعروں میں شرکت کرکے ہم عصر شعرا اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد پائی۔

    تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے اور ان کے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات کا خوب صورت و دل چسپ تذکرہ ہی نہیں نکلا بلکہ متعدد علمی و ادبی واقعات بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ دیدہ باز دید ان کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ان کی نثر پر گرفت اور کمال کا نمونہ ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے

  • مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    "ٹریولز ان دا مغل امپائر” کو شہنشاہ شاہ جہاں کے دور اور مغل دربار کے حالات و واقعات پر مستند اور قابلِ توجہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرانسیسی معالج اور مؤرخ فرانسوا برنیئر کی کتاب ہے۔

    وہ شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا جو عالم گیر کے ہندوستان کا حکم راں بننے کے بعد اس کے دربار سے بھی وابستہ رہا۔ برنیئر نے 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ہندوستان میں مفکّر، باصلاحیت شاعر، فنونِ لطیفہ کے شائق اور صوفی شہزادے کے طور پر مشہور ہونے والے دارا شکوہ کی موت کے بعد فرانسوا برنیئر بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دربار منسلک ہوگیا۔ وہ فرانس کا باشندہ تھا جو سیروسیّاحت کا شوقین اور پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا۔ ہندوستان میں اس کا قیام لگ بھگ 12 رہا اور اس عرصے میں اس نے مغل خاندان کے کئی راز جانے اور تخت و تاج کے لیے سازشوں کا گواہ بنا۔

    ہندوستان کے مغل دور کی تاریخ پر مبنی مذکورہ کتاب کے علاوہ 1684ء میں برنیئر کی ایک کتاب شایع ہوئی تھی جس میں انسانوں کی مختلف نسلوں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی کی گئی تھی اور اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

    اس کا دوسرا تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالم گیر کے عہد کا احوال ہے۔ برنیئر کی مغل دور کی یہ تاریخ یا سفر نامہ اس کی آنکھوں دیکھے واقعات، مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہے جو اس نے قابلِ بھروسا اور اہم مغل درباریوں سے حاصل کی تھیں اور اکثر مقامات پر ان کے بیانات بھی درج کیے ہیں۔

    برنیئر 68 سال کی عمر میں پیرس میں چل بسا تھا۔

  • یومِ وفات: پٹودی کے نواب منصور علی خان ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی کے باوجود کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے

    یومِ وفات: پٹودی کے نواب منصور علی خان ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی کے باوجود کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے

    بھارت کے دارُالحکومت دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور انگریزوں کے دور میں پٹودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور اس کے نواب مسلمان۔ آج اسی نواب خاندان کے منصور علی پٹودی کی برسی منائی جارہی ہے جن کی وجہِ شہرت کرکٹ ہے۔

    پانچ جنوری 1941ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والے نواب منصور علی خان پٹودی کو کرکٹ کا کھیل وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد نواب محمد افتخار علی خان پٹودی ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ اور ہندوستان دونوں ممالک کی نمائندگی کرچکے تھے۔

    منصور علی خان پٹودی 11 سال کے تھے جب ان کے والد پولو کھیلتے ہوئے انتقال کرگئے اور کم عمری میں ریاستی امور کی ذمہ داری منصور علی خان پٹودی کو کاندھوں پر آ گئی۔

    ریاست کے اس نواب کی کرکٹ میں دل چسپی بڑھتی رہی اور وہ ایک اچھے بلّے باز اور پھرتیلے فیلڈر ثابت ہوئے۔ 16 سال کی عمر میں انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ انہوں نے سسیکس اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی نمائندگی کی۔ وہ پہلے انڈین تھے جو کسی انگلش کاؤنٹی کے کپتان بنائے گئے تھے۔

    1961ء میں ان کی عمر محض 20 سال تھی جب وہ ایک کار حادثے میں ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگئے مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ بھی جاری رکھی اور حادثے کے فقط ایک سال بعد ہی انھیں بھارتی کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد وہ کرکٹ ٹیم کے مستقل کپتان بن گئے۔

    منصور علی خان پٹودی نے اپنے کیریر میں 46 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 40 میچ ان کی قیادت میں کھیلے گئے۔

    1965ء میں ان کی ملاقات اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے ہوئی۔ انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا اور مشہور بھارتی شخصیات میں ان کی جوڑی کام یاب ترین خیال کی جاتی ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار سیف علی خان، سوہا خان انہی کی اولاد ہیں جب کہ ایک بیٹی صبا علی خان جیولری ڈیزائنر ہیں۔

    نواب منصور علی خان پٹودی 22 ستمبر 2011ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • یومِ وفات: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بیسویں صدی کا بااثر اسلامی مفکّر کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بیسویں صدی کا بااثر اسلامی مفکّر کہا جاتا ہے

    مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نام ور عالمِ دین، مفسرِ قرآن، دانش ور اور علمی و دینی موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنّف اور جماعتِ اسلامی کے بانی تھے۔ انھیں بیسوی صدی کا بااثر اسلامی مفکر بھی کہا جاتا ہے۔

    مولانا مودودی 1979ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے اور لاہور میں مدفون ہیں۔

    25 ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے ابوالاعلیٰ مودودی نے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی خواہش پر پنجاب کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور 26 اگست 1941ء کو لاہور میں اجتماع کے دوران جماعتِ اسلامی کی تشکیل کا اعلان کیا۔

    1932ء میں انھوں نے ایک رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا تھا جو بہت مقبول ہوا اور دینی و علمی موضوعات کے ساتھ انھوں نے نوجوانوں کی کردار سازی اور تربیت پر خصوصی توجہ دی۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور یہاں علمی مشاغل کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1972ء میں ان کی مشہور تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ مکمل ہوئی۔ اسی برس آپ ضعیفی اور علالت کی وجہ سے جماعت کی امارت سے دست بردار ہوگئے۔

    پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے مفکرین اور اسلامی اسکالروں کے مابین دینی احکامات، معاملات اور مسائل پر تو اختلافات رہے ہیں، لیکن جدوجہدِ آزادی اور تحریکی سیاست کے حوالے سے بھی ان کی فکر اور نظریات پر تنازع رہا اور جہاں ایک بڑا حلقہ مولانا مودودی کی دینی فکر اور سیاست کا معترف اور ان سے وابستہ تھا، وہیں ان کی مخالفت اور فکر و نظریات پر کڑی تنقید اور اعتراضات بھی کیے گئے۔

    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی وہ شخصیت ہیں جنھیں 1979ء میں پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان و ادب اور صحافت میں نام وَر رئیس امروہوی کا یومِ‌ وفات ہے جنھیں 22 ستمبر 1988ء کو زندگی سے محروم کردیا گیا تھا۔

    رئیس امروہوی کو کسی علم دشمن اور سفاک قاتل نے گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ 12 ستمبر 1914 کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ اسی گھرانے میں رئیس امروہوی کے علاوہ تقی امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا اور اردو زبان میں‌ علم و ادب کے گلشن میں‌ مزید خوش نما اور رنگ برنگے پھول کھلائے۔ رئیس امروہوی کی بات کی جائے تو انھوں نے فلسفہ و نفسیات کے موضوعات، ادب اور صحافت میں نام و مقام بنایا۔

    رئیس امروہوی قیامِ پاکستان سے قبل امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی تو یہاں قطعہ نگاری اور کالم نویسی ان کا حوالہ بنی اور تا دمِ مرگ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔

    ان کے کالم، علمی و ادبی مضامین اور شاعری مجموعے کی شکل میں محفوظ ہے۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، ملبوسِ بہار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔

    نفسیات اور مابعدالطبیعات ان کا محبوب موضوع تھا اور اس پر رئیس امروہوی کی ایک درجن سے زیادہ کتب شایع ہوئیں۔ ان کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
    گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

    انھیں‌ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    فلورنس گرفتھ جوئنر کھیلوں کی دنیا میں ‘فلوجو’ کی عرفیت سے مشہور ہوئی۔ وہ ایک ایسی ایتھلیٹ تھی جس نے تیز رفتار اور یکے بعد دیگرے فتوحات کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ زندگی کی محض 38 بہاریں دیکھ سکی اور 21 ستمبر 1998ء کو زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو گئی۔

    فلوجو نے لمبی دوڑ کے بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لیا اور کام یابی سمیٹی۔ اسے تیز رفتار کھلاڑی تسلیم کیا گیا اور مسلسل فتوحات نے اسے ایک شہرت یافتہ کھلاڑی بنا دیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 1959ء میں پیدا ہوئی۔ لاس اینجلس کی رہائشی فلوجو نے نوعمری میں دوڑ کے مقابلوں میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ اس نے اسکول کی سطح پر متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا تھا۔ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران جب وہ چودہ برس کی تھی تو اسے نیشنل یوتھ گیمز میں حصّہ لینے کا موقع ملا اور یہاں اس نے پہلی بڑی کام یابی اپنے نام کی۔

    1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں اس نے ایک مقابلہ جیت کر سلور میڈل حاصل کیا اور پھر کچھ عرصہ کھیل کی دنیا سے دور رہی۔ 1987ء میں فلوجو نے مشہور ایتھلیٹ ایل جوئنر سے شادی کر لی۔ اسی سال روم میں ورلڈ چیمپئن شپ منعقد ہوئی جس میں شائقین نے فلوجو کو دوبارہ میدان میں دیکھا۔ اس نے ورلڈ جیمپئن شپ کے مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

    1988ء کے سیول اولمپکس کا میدان سجا تو فلوجو نے اس میں حصّہ لیا اور تین گولڈ میڈل اپنے نام کرنے کے ساتھ ایک کانسی کا ایک تمغہ بھی لے اڑی۔ 1989ء میں اس نے دوڑ کے میدان سے ریٹارمنٹ کا اعلان کردیا۔

    اس لڑکی کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ وہ سیماب صفت اور پُراعتماد تھی جس نے کھیل کی دنیا میں نام و مقام بنانے کے بعد اچانک ہی اپنا راستہ بدل لیا۔ اس پر ماڈلنگ کا جنون سوار ہوگیا۔ اس کے بعد وہ بزنس کی دوڑ میں دکھائی دی اور خود کو کاروباری شخصیت کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ یہیں‌ نہیں‌ رکا بلکہ اچانک ہی شائقین کو معلوم ہوا کہ اب فلوجو تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئی ہیں۔

    مشہور ہے کہ فلوجو ایک زرخیز ذہن کی مالک تھی اور وہ ہر شعبے میں نہایت متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہی۔ اسے ہر روپ میں اور ہر شعبے میں کام یابی ملی اور لوگوں نے بے حد عزّت اور احترام سے اسے یاد کیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر نے ایک کام یاب زندگی گزاری اور امریکا میں اسے حکومتی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا۔ اسے امریکی خواتین کے لیے عزم و ہمّت اور کام یابی کی ایک مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

  • یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    طفیل نیازی پاکستان کے معروف لوک گلوکار تھے جو 1990ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    وہ 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ طفیل نیازی نوٹنکیوں میں شرکت کرکے مقامی لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے کلاسیکی ڈراموں میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کرکے اپنے فن کی داد پائی۔

    انھوں نے اپنے فن کو ایک سنگیت گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ جاری رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مقامات اور تقریبات میں گانے بجانے کے ذریعے شرکا کو محظوظ کرنے لگے۔ انھیں‌ عوامی سطح پر پذیرائی ملتی رہی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو میں رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد طفیل نیازی ملتان چلے آئے اور بعد میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔

    26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا تو ملک میں ان کا مشہور گانا ’’لائی بے قدراں نال یاری‘‘ سنا گیا اور وہ ناظرین و سامعین میں متعارف ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں گانے بھی گائے اور دوسروں کے گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔

    1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔