Tag: ستمبر وفیات

  • نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    نواب واجد علی شاہ جنھیں ایک من گھڑت رپورٹ کی بنیاد پر معزول کردیا گیا

    اودھ کے فرماں رواؤں کو ان کی علم و ادب اور فنونِ لطیفہ میں دل چسپی اور سرپرستی کی وجہ سے شہرت اور تاریخ میں خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس ریاست کے آخری فرماں روا نواب واجد علی شاہ اختر بھی اپنی ادب دوستی اور باکمال و یکتائے زمانہ شخصیات پر اپنی نوازش و اکرام کے سبب مشہور ہیں۔ وہ خود بھی شاعر تھے اور شعرا کی پذیرائی بھی کرتے تھے۔

    نواب واجد علی شاہ کو رنگین مزاج اور عیّاش نواب بھی کہا جاتا ہے، تاہم ان کی ایسی شہرت دراصل انگریزوں کی جانب سے پھیلائی گئی باتوں کا نتیجہ تھی۔ وہ 1822ء کو اودھ کے شاہی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا پورا نام ابو المنصور سکندر شاہ پادشاہ عادل قیصر زماں سلطان عالم مرزا محمد واجد علی شاہ اختر تھا۔ انھیں شروع ہی سے رقص، شاعری اور موسیقی سے لگاؤ تھا۔ خود بھی رقص، گانے بجانے کے ماہر تھے۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ ناٹک کو بھی فروغ دیا اور ڈرامے لکھے جنھیں باقاعدہ پردے پر پیش کیا جاتا تھا۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کتھک رقص کو نئی زندگی دی۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کا احیا کیا اور اس میں طاق اور ماہر فن کاروں کو لکھنؤ میں جمع کیا۔ انھوں نے اس فن میں استاد باسط خاں، پیارے خاں اور نصیر خاں سے تربیت لی تھی۔ واجد علی شاہ نے خود کئی نئے راگ اور راگنیاں ایجاد کی تھیں۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا کوئی بھی فرماں روا ادب، تہذیب و ثقافت کا ایسا دلدادہ نہیں تھا جیسا کہ واجد علی شاہ اختر تھے۔ انھوں نے رقص اور موسیقی کے رموز پر تحریری مواد بھی یادگار چھوڑا جو سو سے زائد کتابچوں پر مشتمل ہے۔

    ہندوستان کے اس تہذیب و ثقافت کے دلدادہ حکم راں کو انگریزوں کی وجہ سے الم ناک حالات میں لکھنؤ چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی زوجہ حضرت محل کے نام سے مشہور ہیں جو خود بھی شاعرہ تھیں اور انھوں نے بعد میں ہندوستان کی آزادی کی جنگ میں بڑا اہم کردار نبھایا۔

    واجد علی شاہ کی تخت نشینی کا سن 1847ء تھا جس کے فوراً ہی بعد ان پر ریاست میں بدنظمی، انتشار کو روکنے میں ناکامی اور نا اہلی کے الزام لگا کر انھیں معزول کردیا گیا۔ انگریز تمام اختیار اور انتظام اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے انھوں واجد علی شاہ کو ناکام والی ثابت کرکے چھوڑا۔ اس ضمن میں ایک برطانوی افسر نے ریاست کا دورہ کرکے اپنی رپورٹ تیار کی اور حکام کو بھیجی جس کی بنیاد پر انھیں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، وہ 1857 میں واجد علی شاہ اپنے بیٹے کو تخت نشیں کر کے خود وہاں سے رخصت ہوگئے۔ وہ بعد میں یکم ستمبر 1887ء کو کلکتہ میں وفات پاگئے۔

    مذکورہ رپورٹ کی تیاری کے لیے برطانوی افسر اور اس کی ٹیم کے اراکین نے تین مہینے تک ریاست کا دورہ کیا اور رپورٹ میں رعایا کی تباہ حالی اور حکام کی سر کشی کا ذکر کرتے ہوئے لکھنؤ میں لاقانونیت، قتل اور لوٹ مار معمول ظاہر کی گئی جس کے بعد واجد علی شاہ کو معزولی کا سامنا کرنا پڑا۔

  • فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی کے طور پر لیا جاتا ہے جو دبستانِ لکھنؤ مشہور ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی اہلِ علم اور نادرِ روزگار شخصیات وہاں سے لکھنؤ پہنچے تو دربار میں ان کی بڑی عزّت کی گئی اور صاحبانِ کمال کا خیر مقدم کیا گیا، یہی نہیں بلکہ نواب نے اپنے خرچ پر انھیں لکھنؤ بلایا۔

    آصفُ الدّولہ کو اسی سبب ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، فنونِ لطیفہ کا شائق اور فن کا قدر دان کہا جاتا ہے انھوں نے نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی بلکہ عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروا کے فنون اور ہنر کو بھی توقیر بخشی اور ہندستان میں گنگا جمنی تہذہب کے علم بردار مشہور ہوئے۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا میر تقی میرؔ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان گنت شعرا نے اُن کی تقلید کی کوشش کی، میرؔ کے لہجے، ان کے انداز میں شعر کہنا چاہا، اُن کی لفظیات کو برتا، مگر میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں نصیب ہو سکا۔

    میر تقی میر ایسے شاعر نہ تھے کہ جو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا احساس نہیں کرسکتا تھا، سو یہ تعلّی بھی میر کو زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیے:

    سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
    مستند ہے میرا فرمایا ہوا

    خدائے سخن میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی اور آج بھی ان کا شہرہ اور اشعار کا چرچا ہورہا ہے۔

    میر نے سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔

    میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ یہ بڑا پُر آشوب دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی۔

    قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیمات سیکھنے کے بعد اردو اور فارسی پڑھی۔1732ء میں میرؔ کے والد انتقال کر گئے۔ یہ وقت میرؔ کے لیے سخت آزمایش اور ابتلا کا تھا، عمر دس سال سے کچھ زیادہ تھی اور ابھی تعلیم و تربیت کی ابتدائی منازل ہی طے کی تھیں۔ والد کی دو شادیاں تھیں اور سوتیلے بھائی نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان باتوں کا میر پر گہرا اثر ہوا اور طبیعت میں زود رنجی پیدا ہو گئی۔ تب روزگار کی خاطر بہت دوڑ دھوپ کی، مگر کوئی بات نہ بن سکی۔

    1734ء میں میرؔ نے دہلی کے شاہ جہاں آباد کا رُخ کیا اور یہاں والد کے ایک شناسا نواب صمصام الدّولہ کے بھتیجے، خواجہ محمد باسط کے توسط سے صمصام الدّولہ تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ان کے والد کی بہت عزّت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ مرحوم کے مجھ پر بہت احسانات تھے، لہٰذا، مَیں ان کے صاحب زادے (میر تقی میرؔ) کے لیے ایک روپیا یومیہ وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یوں میر کو کچھ ذہنی و مالی آسودگی نصیب ہوئی۔ چار، پانچ برس سکون سے گزرئے تھے کہ نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا اور صمصام الدّولہ مارے گئے اور میرؔ کا وظیفہ بھی بند ہو گیا۔

    اب دلّی کو عازمِ سفر ہوئے جہاں ان کے رشتے کے ماموں اور مستند شاعر سراج الدّین علی خان آرزو کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت تک میر بھی شاعری کا آغاز کرچکے تھے، لیکن فی الوقت معاش نے تنگ کررکھا تھا، اس لیے زیادہ توجہ حالات بہتر بنانے پر تھی۔ فارسی اور اردو زبان پر دسترس اور اس حوالے سے نہایت فصیح و بلیغ تو تھے ہی، لیکن بعض تذکرہ نویسوں کے مطابق آرزو نے بھی ان سے کوئی اچھا برتاؤ نہ کیا۔ تاہم آرزوؔ کے علاوہ یہاں میرؔ کو جعفر ؔ عظیم آبادی اور سعادتؔ علی امروہوی سے تحصیلِ علم و ادب اور تہذیب برتنے کا موقع ملا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سعادتؔ علی امروہوی کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ میرؔ نے پورے طور پر شاعری سے رشتہ جوڑا اور گویا شاعری اُن کے لیے اوڑھنا بچھونا قرار پائی۔

    یہی وہ زمانہ تھا جب شاعر کے طور پر میر کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1742ء میں بیس سال کی عمر میں میرؔ کی شاعری کا چرچا ہونے لگا۔

    صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں لکھا کہ ’’غرض ہر چند کہ تخلّص اُن کا میرؔ تھا، مگر گنجفۂ سُخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدر دانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پُھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘

    سخن میں نام ور میر تقی میر نے 1752ء میں ’’نکات الشّعراء‘‘ تحریر کی جس میں اُردو زبان کے شاعروں کے مختصر حالات اور انتخابِ کلام شامل تھا۔ یہ کتاب فارسی میں تحریر کی گئی اور اردو شعرا کے اوّلین تذکروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

    میرؔ اپنے زمانے کا سب سے تابندہ نام تھا اور انھیں مختلف امرا و نوابین کے دربار میں عزّت و تکریم کے ساتھ انعام و وظائف ملنے لگے تھے۔ میر تقی میر نے شادی کی اور ان کے بیٹے میر فیض علی اور میر حسن عسکری تھے جو شاعر اور بیٹی شمیم کو بھی شاعرہ لکھا گیا ہے جو صاحبِ دیوان تھیں۔

    لکھنؤ کی بات کی جائے تو کہتے ہیں میرؔ سے پہلے میرؔ کی شُہرت لکھنؤ پہنچی تھی اور جب وہ اس شہر میں پہنچے تو وہاں مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ میرؔ کا ظاہری انداز اور اطوار وہاں کی ثقافت سے مختلف تھے جس پر انھیں تمسخر کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مشہور ہے کہ جب وہاں میرؔ کا تعارف جاننے کی خواہش کی گئی اور مذاق اڑانے کی مزید کوشش کی گئی تو میر نے فی البدیہہ یوں جواب دیا۔

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اُس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    یہ سن کر سامعین میرؔ سے معافی کے طلب گار ہوئے اور ان کے کلام کو بھی سراہا۔

    میر کی شاعری ذاتی غم و اندوہ کی حدوں سے گذر کر ہمہ گیر انسانی دکھ درد کی داستاں بنی۔ ان کی زندگی کا ابتدائی دور، بیٹی کی ناگہانی وفات اور اپنوں کا برا سلوک یہ سب میر کے کام آیا۔ میر کا غم جو بھی تھا، ان کے لیے فنی تخلیق کا ذریعہ اظہار کا ارفع وسیلہ بنایا۔ میر کے یہاں زندگی کا ایک ولولہ پایا جاتا ہے جس نے میر کی شاعری کو نئی رفعت عطا کی ہے۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن وقت کی گردش اور زمانے کی افتاد میں اپنا نام و نشان کھو چکا ہے۔ کہتے ہیں خدائے سخن کو لکھنؤ میں جہاں سپردِ خاک کیا گیا تھا، وہ موجودہ ریلوے اسٹیشن کے قریب کوئی جگہ تھی اور اس عمارت کی تعمیر کے دوران اس کا نشان باقی نہ رہا۔

    میر کے فن کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی۔ عظیم شعرا اپنے کلام اور نام ور نقّادوں نے اپنے مضامین میں میر کے بارے میں لکھا اور انھیں بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں مرزا رفیع سودا اور غالب کے اشعار بہت مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں میر نازک مزاج بھی تھے اور بدخو بھی اور یہ تلخی ان کے حالاتِ زندگی اور افتادِ‌ زمانہ کی وجہ سے تھی۔

  • ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، نام وَر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی انتقال کرگئے

    ممتاز ادیب، کالم نویس اور طنز و مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی آج اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

    وہ طنز و مزاح نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جب کہ علمی و ادبی موضوعات میں انھیں ایک محقق، مترجم، اور زبان و بیان کے ماہر کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے شائستہ اور بامقصد ادب تخلیق کرنے کو اہمیت دی۔ ایک بیدار مغز لکھاری کی طرح معاشرے میں بے ضابطہ پن پر ان کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی مضامین اور کالم لکھے۔

    ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی وضع دار، بامروّت، شفیق، ملن سار، خوش مزاج مشہور تھے۔ وہ اپنے خورد معاصرین اور نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور ستائش کے ساتھ زبان و بیان اور املا انشا کی درستی میں مدد دیتے اور اصلاح کرتے۔

    ان کے علمی مضامین اور کالم باقاعدگی سے پاکستان کے مؤقر جرائد اور روزناموں میں شایع ہوتے رہے ہیں۔

    انھوں نے ایل ایل بی، ادیب فاضل اور صحافت میں ایم اے کیا اور بعد ازاں صوبائی سوشل سیکیورٹی ادارے سے وابستہ ہوئے، جامعہ کراچی میں صحافت کی تعلیم کے لیے اعزازی تقرری ہوئی۔

    مرحوم نے 1953 میں اپنی ایک تحریر کی اشاعت کے بعد مزاح نگاری کا کا سلسلہ شروع کیا اور خوب نام و مقام بنایا۔ مجید لاہوری جیسے نام ور مزاح نگار کے مقبول ترین رسالے نمکدان سے طنز و مزاح نگاری کا سفر شروع کیا۔ 1962ء میں اس رسالے کی بدولت ان کا نام طنز و مزاح نگار کے طور پر قارئین کے سامنے آیا۔ اسی میدان میں انھوں نے انگریزی زبان میں بھی قلم کو تحریک دی اور 1982 سے مشہور و مستند انگریزی جرائد اور روزناموں کے لیے کالم لکھنے لگے۔ انھوں نے ابنِ منشا کے قلمی نام سے بھی اردو کالم لکھے۔

    1983ء میں ان کی کتاب سماجی تحفظ سامنے آئی جو ایک نہایت اہم موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ اسی موضوع پر انگریزی زبان میں کتاب شایع کروائی جو ایم اے کے طلبا کے لیے نہایت اہم ہے۔ اس کے بعد اشتہاریات کے عنوان سے اردو میں ان کی وہ قابل قدر کاوش سامنے آئی جسے آج بھی مارکیٹنگ کے نصاب میں اوّلین اور نہایت کارآمد تصنیف کہا جاتا ہے۔
    انھوں نے پہاڑ تلے، اب میں لکھوں کہ نہ لکھوں، کتنے آدمی تھے، حواسِ خستہ جیسی شگفتہ مضامین پر کتب کے علاوہ دیگر موضوعات پر لگ بھگ 26 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔

    ان کی نمازِ جنازہ اور تدفین کل (21 ستمبر 2021) کی جائے گی۔

  • اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    اردو اور پنجابی فلموں کے مشہور اداکار یوسف خان کا یومِ وفات

    یوسف خان پاکستان فلم انڈسٹری کے صف اوّل کے اداکاروں میں سے ایک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ 20 ستمبر 2009ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

    یوسف خان نے اردو اور پنجابی فلموں‌ میں اپنی اداکاری سے سنیما کے شائقین کو محظوظ کیا۔ انھوں نے اپنے کرداروں کو اس خوبی سے نبھایا کہ وہ یادگار ٹھہرے۔

    یوسف خان 10 اگست 1931 کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ 1954 میں فلم ’’پرواز‘‘ سے انھوں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ اس فلم میں مشہور اداکارہ صبیحہ خانم ان کی ہیروئن کے روپ میں‌ نظر آئیں۔ یوسف خان نے جن اردو فلموں میں‌ کام کیا ان میں‌ چند نام مجرم، حسرت، بھروسہ، فیصلہ اور نیا دور ہیں۔ بعد میں‌ وہ پنجابی فلموں‌ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک نئے انداز سے شائقین کے سامنے آئے۔

    1962 میں فلم ’’پہاڑن‘‘ سے انھوں نے پنجابی فلموں میں‌ اداکاری شروع کی اور یہ سفر بہت کام یاب ثابت ہوا۔ یوسف خان نے پنجابی فلموں میں کئی یادگار کردار نبھائے۔ ان کی پنجابی فلموں میں ملنگی، یارانہ، بائو جی، ضدی، وارنٹ، ہتھکڑی، جگنی، شریف بدمعاش، قسمت، جبرو، خطرناک، حیدر خاں اور بڈھا گجر سرِفہرست ہیں۔

    یوسف خان نے اپنی شان دار پرفارمنس پر کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ 2006 میں حکومت پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔ فلم نگری کا سب سے بڑا اور معتبر ایوارڈ نگار اور 1999 میں نگار ملینئم ایوارڈ بھی انھیں دیا گیا تھا۔

    یوسف خان پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کے شدید مخالف تھے، اور اس پر ہر فورم پر آواز بلند کی، مگر بھارتی فلموں کی نمائش کا سلسلہ نہ رک سکا جس پر وہ نہایت دل گرفتہ تھے۔

  • مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری کا یومِ وفات

    مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری کا یومِ وفات

    پاکستان کے مشہور فلمی صحافی اور اداکار اسد جعفری 19 ستمبر 1995ء کو طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ فلم نگری میں بحیثیت اداکار انھیں زیادہ کام یابی نصیب نہیں ہوئی لیکن قلم کے ذریعے انھوں خوب نام کمایا اور ان کے کالم مقبول ہوئے۔

    اسد جعفری 25 دسمبر 1934ء کو الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ صحافت اور انگریزی میں ماسٹرز تک تعلیم حاصل کی۔ ضیا سرحدی کی فلم ’’آخری شب‘‘ ان کی پہلی فلم تھی۔ اس کے بعد انھوں نے متعدد فلموں میں کام کیا جن میں ہم سفر، اور بھی غم ہیں، نیلو فر، شکوہ، شرارت، اک تیرا سہارا، بیٹی، دیور بھابی، اک نگینہ، میرا گھر میری جنت، سن آف ان داتا اور سیاست شامل ہیں۔

    صحافت اسد جعفری کا اصل میدان تھا۔ انھیں ابتدا ہی سے صحافت کا شوق تھا۔ انھوں نے مختلف جرائد اور اخبارات میں کام کیا جن میں ہفتہ وار جرائد روزنامہ حرّیت اور جنگ کے نام سرِفہرست ہیں۔

    اسد جعفری فلم انڈسٹری کے فن کاروں کے یار مشہور تھے۔ ان سے سب کی دوستی تھی اور وہ ایک محبّت کرنے والے ہر دل عزیز انسان کے طور پر مشہور تھے۔ اداکار درپن، سنتوش کمار، لالہ سدھیر، سلطان راہی، محمدعلی، ندیم، وحید مراد اور رنگیلا سبھی انھیں پسند کرتے تھے۔

    اسد جعفری کو مجلسوں اور محافل میں ان کی شگفتہ باتوں اور ان کے محبّت بھرے برتاؤ کی وجہ سے ہر کوئی چاہتا تھا۔ مرحوم فوٹو گرافی کا شوق بھی رکھتے تھے۔

  • یومِ وفات: آزادی کی خاطر سولی چڑھ جانے والے عمر مختار کو صحرا کا شیر کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: آزادی کی خاطر سولی چڑھ جانے والے عمر مختار کو صحرا کا شیر کہا جاتا ہے

    ٍفیض احمد فیض کے ایک مشہور شعر کا مصرع ملاحظہ کیجیے!

    "جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے”

    1931ء میں آج ہی کے دن عمر مختار کو سرِ عام پھانسی دی گئی تھی۔ لگ بھگ 20 ہزار افراد کی موجودگی میں "صحرا کا شیر” بڑی شان سے پھانسی گھاٹ پر آیا اور موت کو گلے لگا لیا۔

    اس مجاہدِ آزادی کو گرفتار کیا گیا، تو اس موقع پر افسرِ اعلیٰ اور اطالوی فوجیوں نے فخریہ انداز میں "قیدی” کے ساتھ تصاویر بنوائی تھیں اور اس "کار ہائے نمایاں” نے تاریخ کے اوراق میں‌ ان کا نام بھی لکھوا دیا، لیکن آج شاید ہی کوئی انھیں یاد کرتا ہو۔ جب کہ عمر مختار آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔

    لیبیا، شمالی افریقا کا عرب ملک ہے جس پر 1911ء میں اٹلی نے قبضہ کرلیا تھا۔ عمر مختار نے اس کے خلاف جنگِ آزادی لڑی تھی۔ وہ 20 برس تک اٹلی کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے رہے اور گرفتاری کے بعد انھیں پھانسی دے دی گئی تھی۔

    عمر مختار 20 اگست 1858ء کو ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام عمرالمختار محمد تھا۔ کم سنی میں والد کا انتقال ہو گیا اور یوں ابتدائی زندگی غربت و افلاس میں گزری۔ عمر مختار نے ابتدائی تعلیم مسجد میں حاصل کی اور بعد میں ایک جامعہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ قرآنِ پاک کے عالم بن گئے اور امام بھی۔ اسی زمانے میں انھوں نے اپنے معاشرتی ڈھانچے کے بارے میں جانا اور حالات سے آگاہی حاصل کی۔ اسی شعور اور فہم کے باعث انھیں‌ قبائلی تنازعات نمٹانے کے لیے منتخب کرلیا گیا۔ بعد ازاں وہ جغبوب میں سنوسیہ تحریک کے ساتھ وابستہ ہوئے۔

    اکتوبر 1911ء میں اٹلی اور عثمانی سلطنت میں جنگ کے دوران اٹلی کی بحریہ لیبیا کے ساحلوں تک پہنچ گئی۔ اٹلی کے امیر البحر لیوگی فراویلی نے ترکی کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ علاقہ اٹلی کے حوالے کر دے ورنہ طرابلس اور بن غازی کو تباہ و برباد کردیا جائے گا۔ ترکوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا جس کے بعد اٹلی نے ان شہروں پر تین دن تک بم باری کی اور اعلان کیا کہ طرابلس کے لوگ اٹلی کے ساتھ ہیں۔ اس کے بعد اٹلی کی فوجوں اور لیبیا کی جماعتوں کے مابین مسلح لڑائیاں شروع ہو گئیں۔

    عمر مختار صحرائی علاقوں سے خوب واقف تھے اور جنگ کے رموز اور جغرافیائی امور کی بھی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ انھیں صحرائی جنگ میں مہارت حاصل تھی، اور اٹلی کی فوج کے لیے وہ ایک بڑی مشکل اور رکاوٹ بن گئے تھے۔ عمر مختار نے اپنے چھوٹے گروپوں کے ذریعے اٹلی کی افواج پر کام یاب حملے کیے۔

    ان کے جانثاروں نے بڑی مہارت سے حریفوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا اور فوجیوں پر حملے کرنے کے ساتھ گوریلا جنگ کے وہ تمام حربے استعمال کیے جن سے انھیں‌ زبردست نقصان پہنچا۔

    عمر مختار کو ستمبر میں ایک حملے میں زخمی ہوجانے کے بعد دشمن کی فوج نے گرفتار کر لیا۔ اس وقت اٹلی میں مسولینی کی حکومت تھی۔

    عمر مختار پر اٹلی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنائی گئی جس پر عمل درآمد کے بعد اٹلی کی امید اور خواہشات کے برعکس مزاحمت کی تحریک کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ آخر کار 1951ء میں لیبیا کو آزادی مل گئی۔

    لیبیا کی آزادی کے لیے مزاحمت کرنے والے عمر مختار پر ہالی وڈ میں فلم بھی بنائی گئی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم میں ’’عمر مختار‘‘ کا کردار اداکار انتھونی کوئن نے نبھایا تھا۔

  • صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    آج اردو زبان و ادب میں ممتاز، صاحبِ اسلوب ادیب اور صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1987ء میں‌ آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ابوالفضل صدیقی کا تعلق بدایوں سے تھا جہاں وہ 1908ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ بٹوارے سے پہلے ہی ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    1932ء میں وہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں جن کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے بطور ادیب اپنی پہچان بنائی اور افسانہ نگاری میں ممتاز ہوئے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش جداگانہ تھا جس پر انھیں بے حد سراہا گیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    انھوں نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنے دل نشیں طرزِ‌ نگارش سے سحر پھونکا۔ ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا جب کہ ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    حسّانُ الہند، مؤرخِ بے نظیر غلام علی آزاد بلگرامی کا تذکرہ

    غلام علی آزاد بلگرامی ہندوستان کے ایک نہایت عالم فاضل اور بزرگ شخصیت ہیں جنھوں نے شعروادب، تاریخ اور تذکرہ نگاری کے ساتھ اپنے دینی ذوق و شوق اور نہایت اہم اور وقیع موضوعات پر تصنیف و تالیف کے سبب نام و مقام پایا۔

    وہ نواب ناصر جنگ والیِ حیدر آباد دکن کے استاد تھے۔ بلگرام سے اورنگ آباد آئے تھے اور یہاں دربار سے وابستہ ہو گئے۔ انھیں عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔

    1704ء میں پیدا ہونے والے غلام علی آزاد کا تعلق بلگرام سے تھا اور اسی نسبت ان کے نام کے ساتھ بلگرامی لکھا جاتا ہے۔ اورنگ آباد میں قیام کے دوران 1786ء میں آج ہی کے دن ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں حسّانُ الہند بھی کہا جاتا ہے۔

    حضرت غلام علی آزاد بلگرامی بیک وقت مختلف علوم و فنون میں طاق اور متعدد زبانوں پر کامل عبور رکھنے کے باعث اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔ انھیں نثر و نظم پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ تصنیف و تالیف اور شعر و شاعری تک ہی محدود نہ رہے بلکہ علمی میدان میں اپنے افکار و خیالات کے نقش یادگار چھوڑے۔

    ان کی نثری تالیف میں’’شمامہ العنبر فی ما ورد فی الہند من سید البشر‘‘ کے علاوہ سبحۃ المرجان جو دراصل علمائے ہند کا تذکرہ ہے، نہایت وقیع و مستند کتاب ہے۔ اسی طرح یدِ بیضا، جو عام شعرا کے تذکرے سے سجائی گئی ہے، خزانۂ عامرہ ان شعرا کے تذکرے پر مبنی ہے جو صلہ یافتہ تھے اور سرورِ آزاد ہندی نژاد شعرا پر نہایت معلوماتی اور مفید کتاب ہے۔ اس کے بعد مآثر الکرام میں انھوں نے علمائے بلگرام کا تذکرہ کیا ہے اور روضۃُ الاولیا میں اولیائے اورنگ آباد کے بارے میں‌ مستند اور جامع معلومات اکٹھی کردی ہیں۔

  • یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    ’’عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب چُل ہونے لگتی ہے تو ڈور کے جھٹکوں سے یہ کٹھ پتلی نچائی جاتی ہے۔‘‘

    یہ سطور ہاجرہ مسرور کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں خواتین کے حقوق کی علم بردار بھی کہا جاتا ہے۔ اردو کی اس ممتاز افسانہ نگار نے زندگی کے مختلف روپ اور پہلوؤں کو عورت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہمارے سامنے پیش کیا۔

    آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ انھوں نے 15 ستمبر 2012ء کو کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور پاکستان آگئی تھیں۔ بعد میں کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے۔ ہاجرہ کم عمری میں والد کے دستِ شفقت سے محروم ہوگئیں اور ان کا کنبہ مالی مسائل کا شکار ہو گیا۔ انھوں نے والدہ کو سخت محنت اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ تاہم بچّوں کی تربیت اچھے انداز سے کی اور یہ گھرانا علم و ادب کے حوالے سے پہچانا گیا۔ انھیں شروع ہی سے مطالعہ کی نعمت اور سہولت میسر رہی جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

    ہاجرہ مسرور کی بہنیں خدیجہ مستور اور اختر جمال بھی اْردو کے معروف ادیبوں میں‌ شمار ہوئے۔ ان کے ایک بھائی توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جب کہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئیں تو یہ شہر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور اس وقت تک ہاجرہ بطور کہانی کار اور افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ یہاں ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا ہی سے پذیرائی ملنے لگی۔ انھوں نے معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔

    اس دوران ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    انھوں نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔ 1965ء میں بننے والی پاکستانی فلم ’’آخری اسٹیشن‘‘ کی کہانی بھی ہاجرہ مسرور نے لکھی تھی۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان کی زوجہ تھیں اور شادی کے بعد کراچی منتقل ہوگئی تھیں۔ وہ اس شہر میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اردو ادب میں انھیں ایک فعال، مستعد اور جذبۂ انسانیت اور اصلاح سے سرشار ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ہاجرہ مسرور نے معاشرے کی بے حسی پر گرفت کی اور خواتین سے متعلق جس خلوص اور درد مندی سے لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔