Tag: ستمبر وفیات

  • آئسا ڈورا: مشہور رقاصہ اور بدنامِ زمانہ عورت کے دردناک انجام کی کتھا

    آئسا ڈورا: مشہور رقاصہ اور بدنامِ زمانہ عورت کے دردناک انجام کی کتھا

    اینجلا آئسا ڈورا ڈنکن کو رقص کی دنیا میں ایک لیجنڈ مانا گیا تھا، لیکن امریکا کی اس رقاصہ کو صرف اس کے فن کی بدولت ہی نہیں بلکہ ایک نہایت آزاد خیال، خودمختار، بے باک اور نڈر عورت کے طور پر بھی شہرت ملی۔

    وہ 26 مئی 1878ء کو امریکا کے علاقے سان فرانسسکو میں پیدا ہوئی۔ اس نے اپنی ماں اور بھائی کے ساتھ 1899ء میں شکاگو میں سکونت اختیار کرلی۔

    آئسا ڈورا ڈنکن فنونِ لطیفہ کی شائق، آرٹ کی رسیا اور رقص کی دیوانی تھی۔ اس نے مسلسل ریاضت اور مشق سے رقص میں خاصی مہارت حاصل کرلی تھی اور شکاگو منتقل ہونے کے بعد اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگی۔ جلد ہی اس کے فن کی شہرت نیویارک تک پھیل گئی اور اسے اسٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    وہ 1900ء میں اپنے خاندان سمیت برطانیہ کے شہر لندن چلی آئی اور یہاں بھی لوگوں کو اپنے رقص سے محظوظ کیا۔ اس وقت تک وہ بڑا نام اور مقام بنا چکی تھی اور اب شاہی خاندان کے افراد، امرا اور مشہور شخصیات اس کا رقص دیکھنا پسند کرتے تھے اور اس کے مداحوں میں شامل تھے۔

    اگرچہ اس زمانے میں امریکا اور لندن میں بھی سماج کے مختلف طبقات میں عورتوں کا یہ روپ ناقابلِ قبول تھا اور انھیں گھروں تک محدود رکھا جاتا تھا، لیکن آئسا بے باک، نڈر اور رسوا کُن حد تک آزاد خیال تھی۔ اس نے شہرت کو سنبھالنے اور بدنامی سے بچنے کی پروا نہ کی۔

    لندن میں ایک ڈیزائنر سے اس کا معاشقہ زوروں پر چلا۔ ڈیزائنر کا نام گورڈن کریگ تھا جس سے آئسا ڈورا نے شادی تو نہیں کی، لیکن بے باک رقاصہ نے اس تعلق کے نتیجے میں ایک بچّی کو جنم دیا۔ 1905ء میں وہ بیٹی کی ماں بنی اور 1910ء میں ایک امیر کبیر کاروباری شخص اس کی محبّت میں گرفتار ہو گیا۔ اس کا نام پیر سنگر تھا۔ آئسا کا اس سے معاشقہ بھی خوب چلا اور 1910ء میں آئسا ڈورا نے ایک بچّے کو جنم دیا۔

    آئسا ڈورا آزاد، بے باک اور نڈر نہیں رہی بلکہ بے راہ رو ہو چکی تھی اور اس کی رقص میں شہرت کو بدنامی کا داغ لگ چکا تھا۔ بدقسمتی سے اس کے یہ دونوں ہی بچّے 1913ء میں ناگہانی موت کا شکار ہوئے۔ وہ ڈوب کر مر گئے جس سے آئسا ڈورا کو دھچکا تو لگا اور وہ اسے اپنے اعمال کی سزا تصوّر کرنے لگی، مگر زیادہ عرصے تک وہ خود کو اس تصوّر سے باندھ کر نہ رکھ سکی۔

    وہ 1922ء میں روس گئی اور وہاں ایک شاعر سے شادی کر لی جو زیادہ عرصہ نہ چل سکی۔ اس کا سبب آئسا ڈورا کی وہی آزاد طبیعت اور بے باکی تھی۔ وہ سماج اور ثقافت کے لحاظ سے خود کو نہ ڈھال سکی اور شادی کے بعد پابندیوں نے اسے 1924ء میں طلاق لینے پر آمادہ کرلیا۔ دوسری طرف اس کے شوہر نے جدائی کے بعد موت کو گلے لگانا پسند کیا۔اس نے 1925ء میں خود کشی کر لی۔ طلاق لینے کے تین سال بعد آئسا ڈورا 14 ستمبر 1927ء کو ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئی۔

    آئسا ڈورا نے اپنی خود نوشت ”مائی لائف“ کے نام سے لکھی تھی جس میں اس نے زندگی کے حوالے سے اپنے اصولوں، نظریات کے ساتھ اپنی بداعمالیوں کو صاف گوئی سے رقم کیا تھا۔ یہ کتاب آئسا ڈورا کی موت کے بعد شایع ہوئی تھی۔

    آئسا ڈورا کی زندگی پر ایک فلم بھی بن چکی ہے، جس میں مشہور اداکارہ وسنیا ریڈ گریو نے اپنے وقت کی اس مشہور رقاصہ کا کردار ادا کیا تھا۔

  • دانتے کا تذکرہ جسے ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ نے جاودانی عطا کی

    دانتے کا تذکرہ جسے ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ نے جاودانی عطا کی

    دانتے الیگیری کو دنیا ایک شاعر، نثر نگار، اور فلسفی مانتی ہے جس کا تعلق اٹلی کے مشہور شہر فلورنس سے تھا۔ اس کی ایک شہرۂ آفاق تمثیلی نظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نظم کا ماخذ اسلامی تصورات ہیں۔

    دنیا اسے صرف دانتے کے نام سے یاد کرتی ہے جس نے فلورنس شہر کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ محققین کے مطابق دانتے کے ابتدائی حالات اور سنہ پیدائش کے بارے میں معلومات دست یاب نہیں اور خیال کیا جاتا ہے دانتے 1265ء میں پیدا ہوا تھا۔ دانتے کی زندگی کے ابتدائی دور کی طرح اس کے خاندان اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے بھی مستند معلومات نہیں‌ ملتیں۔ بعض کے نزدیک اس نے مختلف درس گاہوں سے علم حاصل کیا اور بعض کا خیال ہے کہ وہ باقاعدہ کسی درس گاہ نہیں گیا اور چھوٹی موٹی نوکریوں کے ساتھ فوج میں بھی کام کیا۔

    دانتے الیگیری نے محبّت کی اور شدت سے کی اور اسی محبت نے اس سے وہ نظم تخلیق کروائی جس کی بنیاد پر آج تک اس کا نام زندہ ہے۔ شاعری اس کے ذوقِ جمالیات کی تسکین اور اپنے دل کی بات کے اظہار کا ذریعہ بن گئی۔ علم و فنون کے دلدادہ نوجوان اس کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ دانتے کی شہرۂ آفاق تمثیلی نظم ’’ ڈیوائن کامیڈی‘‘ ہے جس پر آج تک مباحث جاری ہیں۔ دانتے نے اپنی نظموں میں اپنی داستانِ محبّت اور عشقیہ موضوعات کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے اور اس کے افکار و خیالات میں محبّت ہی مرکز و محور ہے۔ دانتے نے محبّت کو اپنی طاقت بنا کر اپنے فلسفہ حیات اور شاعری کی بنیاد رکھی تھی اور شاید اسی جذبے کی قوّت ہے کہ آج بھی دانتے کا نام لیا جارہا ہے۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ فلسفی اور شاعر آج ہی دن 1321ء میں وفات پاگیا تھا۔

  • میہڑ کے شمسُ الدّین بلبل کون ہیں؟ جانیے

    میہڑ کے شمسُ الدّین بلبل کون ہیں؟ جانیے

    آج شمسُ الدّین بلبل کا یومِ وفات ہے جن کے نام سے عام قارئین ہی نہیں، علم و ادب سے شغف رکھنے والے بھی بہت کم واقف ہوں گے۔ وہ سندھی زبان کے معروف شاعر، مصنّف اور مشہور صحافی تھے۔

    سندھ کی کئی قابل، باصلاحیت اور جیّد شخصیات بات کی جائے تو ان میں چند ایسے نام شامل ہیں جن سے ہماری نئی نسل ناواقف ہے اور بدقسمتی سے ایسی نادرِ روزگار شخصیات کی حیات و خدمات اور ان کے علمی و ادبی کارناموں سے متعلق کوئی تحریر اور جامع مضمون بھی پڑھنے کو نہیں‌ ملتا۔

    شمسُ الدّین بلبل 21 فروری 1857ء کو سندھ کے ضلع دادو کے علاقے میہڑ میں پیدا ہوئے اور 1919ء میں آج ہی دن وفات پائی۔ انھوں نے اس دور کے دستور کے مطابق اردو فارسی اور عربی بھی سیکھی۔

    شمسُ الدّین بلبل نے میہڑ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1889ء میں خان بہادر حسن علی آفندی کے پاس کراچی چلے آئے، جنھوں نے ان کی قابلیت اور صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار معاون جا ری کیا۔ اس اخبار کی وساطت سے بلبل نے سندھ مدرسۃُ الاسلام اور سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے لیے مؤثر خدمات انجام دیں اور حسن علی آفندی کے دست و بازو بن گئے۔ دکن ایگری کلچر ریلیف ایکٹ کے سلسلے میں انھوں نے حسن علی آفندی کی بڑی مدد کی، اس کے بعد ہی سندھ میں زمین داری بچاؤ کے لیے دکن ریلیف ایکٹ کا اطلاق ہوا۔

    حسن علی آفندی کی وفات کے بعد بلبل کراچی چھوڑ کر اپنے آبائی قصبے میہڑ لوٹ آئے اور گھر سے اخبار کی ادارت اور تدوین کا کام انجام دینے لگے۔ بعد میں کراچی گزٹ کے ایڈیٹر ہوئے، جو ابتدا ہی میں بند ہو گیا۔ وہ لاڑکانہ کے اخبار خیر خواہ کے بھی مدیر رہے جب کہ روزنامہ الحقّ سکھر کی ادارت کے فرائض بھی سنبھالے۔ آخر میں مشہور روزنامہ آفتاب، سکھر کے مستقل ایڈیٹر بن گئے۔

    ان کی تحریریں ظرافت آمیز اور پُرمذاق ہوتی تھیں، اور ان کے اس انداز نے ہر شخص ان کے مضامین کا مشتاق بنا دیا تھا۔ انھوں نے سندھی زبان کی بڑی اصلاح کی اور اپنے مضامین کے ساتھ دیگر تحریروں سے سندھی ادب میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

    1906ء میں انھوں نے میہڑ میں مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی جو ان کی زندگی ہی میں اے وی اسکول کے درجے تک پہنچ چکا تھا۔ 1907ء میں جب آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس کراچی میں منعقد ہوا اور اس میں فارسی زبان کو سرکاری محکموں میں رائج کرنے کی قرارداد پیش ہوئی تو بلبل نے اس کی تائید میں تقریر کی جو فصاحت و بلاغت کا ایک بہترین نمونہ تھی۔ اس تقریر پر انھیں ہندوستان کے بڑے بڑے اکابرین نے سراہا اور نواب وقارُ الملک نے خاص طور پر داد دی اور تعریف کی۔

    شمس الدّین بلبل شاعر بھی تھے، اور فارسی اور سندھی زبان میں ان کا کلام ملتا ہے، لیکن ان کی نثری تصانیف کی تعداد زیادہ ہے۔ وہ سندھی، فارسی اور اردو پر عبور رکھتے تھے۔ مشاہیرِ سندھ کے نام سے کتب میں‌ جہاں ان کا تذکرہ ملتا ہے، وہیں ان کی چند تصانیف کے نام بھی لکھے گئے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:

    بہارِ عشق کے نام سے دیوانِ بلبل (سندھی)، عقل اور تہذیب، مسلمان اور تعلیم، قرض جو مرض، صد پند سود مند، دیوان بلبل (فارسی)، آئینہ ظرافت
    اور گنجِ معرفت۔

  • یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    یگانہ صفت خطّاط اور ماہر خوش نویس محمد یوسف سدیدی کی برسی

    حافظ محمد یوسف سدیدی پاکستان کے مایہ ناز خطّاط تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ ماہر خوش نویس اور یگانہ صفت خطّاط 1986ء میں دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    وہ عبد المجید زرّیں رقم، حامد الآمدی اور ہاشم بغدادی جیسے استاد اور باکمال خطّاط کے سے متاثر تھے۔ انھوں نے تاج الدین زرّیں رقم اور منشی محمد شریف لدھیانوی جیسے خوش نویسوں کی شاگردی اختیار کی اور فنِ خطّاطی میں نام و مقام اور عزّت و مرتبہ پایا۔ کئی مشہور عمارتیں ان کے خطّاطی کے نمونوں سے مزیّن ہیں۔

    حافظ یوسف سدیدی نے 1927ء میں اس دنیا میں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق چکوال، ضلع جہلم کے ایک گاؤں بھون سے تھا۔ وہ ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اسی عرصے میں خطّاطی سے رغبت پیدا ہوئی اور اس فن کو باقاعدہ سیکھنے کا آغاز کیا۔ انھیں خطِ نستعلیق کے علاوہ ثلث، نسخ، دیوانی اور کوفی میں بھی اختصاص حاصل تھا۔ تاہم جدّت طبع نے انھیں‌ ہر خط میں انفرادیت لانے پر آمادہ کیا اور وہ اپنے الگ انداز کے لیے پہچانے گئے۔

    حافظ محمد یوسف سدیدی نے مزارِ اقبال، مینارِ پاکستان، مسجدِ شہدا اور قطب الدین ایبک کے مزار پر اپنے فن کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے کئی کتابوں کے سرورق اور سرکاری دستاویزات کے لیے بھی اپنی فنی مہارت کا اظہار کیا۔

    وہ اپنے فن ہی نہیں سادگی، خوش مزاجی اور فقیرانہ طرز کے لیے بھی مشہور تھے۔ انھیں ساندہ کلاں لاہور کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    یومِ وفات: برطانوی جاسوس نورُ النّسا پر بدترین تشدّد کے بعد گولی مار کر ہلاک کردیا گیا

    ٹیپو سلطان برصغیر کی تاریخ کے ایسے حکم ران ہیں جنھیں محبِّ وطن اور بہادر ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ وہ مسلمانوں کے ایسے ہیرو ہیں‌ جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد کیا اور لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

    عنایت خان میسور کے اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جن کی بیٹی نورُ النسا انڈین شہزادی اور برطانوی جاسوس مشہور ہیں۔ انھیں نور عنایت خان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    نور کے والد تصوّف کے شیدائی، علم وفنون کے رسیا اور عدم تشدّد کے قائل تھے۔ انھوں نے ایک نومسلم امریکی خاتون سے شادی کی تھی۔ نورُ النسا عنایت خان یکم جنوری 1914ء کو روس کے شہر ماسکو میں پیدا ہوئیں۔ نورُالنّسا کا بچپن پیرس کے نواح میں گزرا۔ 1927ء میں والد کے انتقال کے بعد نورُ النسا کو میدانِ عمل میں‌ اترنا پڑا۔ وہ بہن بھائیوں میں بڑی تھیں۔

    نور کو عام بچّوں کی طرح کہانیاں سننے کا شوق تھا، لیکن وہ خود بھی ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانا چاہتی تھیں۔ اسی شوق نے انھیں بچّوں کے لیے لکھنے پر آمادہ کیا اور یہی نہیں انھوں نے ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک کو بھی سمجھا اور آگے چل کر وائرلیس آپریٹر کی حیثیت سے ایک بڑی اور نہایت خطرناک ذمہ داری نبھائی۔

    یہ 1940ء کی بات ہے جب فرانس پر جرمنی نے قبضہ کیا تو نورُ النّسا نے برطانیہ کے لیے جرمنی کے خلاف خفیہ پیغام رسانی کی۔

    وہ یہ خطرناک کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر تھیں۔ نور النّسا کی عمر 26 برس تھی جب وہ جرمنی کے قبضے اور فرانس میں ظلم و ستم کے خلاف کسی خفیہ مشن کا حصّہ بنیں۔

    وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اسی صلاحیت نے انھیں برٹش اسپیشل آپریشنز کے انڈر کور ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔

    وہ نازی جرمنی کے زیرِ قبصہ فرانس میں پیرا شوٹ کے ذریعے داخل ہونے والے جاسوسوں میں‌ سے ایک تھیں۔ انھیں‌ نازیوں کی سرگرمیوں کو سبوتاژ کرنے اور جرمن فوجی دستوں کی معلومات برطانیہ کو بھیجنے کا مشن سونپا گیا تھا۔ نورُ النّسا مشکل حالات اور پکڑے جانے کے خوف کے ساتھ بہرحال ایک جاسوس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتی رہیں، لیکن ایک روز انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ نازیوں نے انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور قید کرلیا۔ دورانِ تفتیش ان سے اہم معلومات حاصل کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہوئی اور ستمبر 1944ء میں نور عنایت خان سمیت دیگر تین جاسوس خواتین کو جرمنی لے جایا گیا جہاں 13 ستمبر کو گولیاں مار دی گئیں۔

    نور عنایت خان کی موت کے بعد برطانیہ نے انھیں بہادر اور فرض شناس جاسوس قرار دیا اور انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ برطانیہ میں نور عنایت خان کے یادگاری مجسمے بھی نصب ہیں۔

    ان کی زندگی پر دو ناول بھی لکھے گئے۔ 13 ستمبر 1944ء کو نور عنایت خان 30 سال کی عمر میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

    کہتے ہیں کہ نورُ النّسا اپنے جدِ امجد سلطان ٹیپو سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں۔ دل چسپ بات ہے کہ برطانیہ ہی کے لیے جاسوس کے طور پر کام کرنے والی اس لڑکی کی خواہش تھی کہ انگریز اس کے وطن ہندوستان سے نکل جائیں اور یہ بات انھوں نے برطانوی خفیہ سروس میں بھرتی کے انٹرویو کے دوران انگریز افسر سے بھی کہہ دی تھی۔

  • روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    روشن آرا: مغل شاہزادی جو رفاہِ عامّہ اور خیراتی کاموں کے لیے مشہور تھیں

    مغل شہنشاہ شاہ جہان اور ملکہ ممتاز محل کی صاحب زادی روشن آرا بیگم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک دین دار خاتون تھیں اور اپنے دور میں انھوں نے رفاہِ عامّہ کے کئی کام کروائے جن کا ذکر اب صرف تاریخ کے صفحات میں ملتا ہے۔

    یہ بھی مشہور ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ہندوستان کے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی لاڈلی تھیں۔ وہ انھیں بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    روشن آرا بیگم 11 ستمبر 1671ء کو وفات پاگئی تھیں۔ 1617ء میں‌ پیدا ہونے والی روشن آرا بیگم کی ماں مغل بادشاہ کی چہیتی بیوی ملکہ ارجمند بانو (ممتاز محل) تھیں۔ روشن آرا کے حقیقی بہن بھائیوں میں دارا شکوہ، اورنگزیب عالم گیر اور جہاں آرا مشہور ہیں۔

    روشن آرا بیگم کی تعلیم و تربیت اسی طرح ہوئی جیسا کہ اس دور کے رواج کے مطابق ایک شاہزادی کے لیے اہتمام کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جملہ علوم و فنون اور تدبیر و سیاست سیکھی، لیکن اس شہزادی کو فنِ کتابت میں خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کی خداداد صلاحیت اور مشق نے انھیں کتابت میں ایسا باکمال کیا کہ ان کا خط دیکھنے والے داد دیے بغیر نہیں‌ رہ سکتے تھے۔

    شہزادی روشن آرا کو سب بھائیوں میں اورنگزیب عالم گیر سے زیادہ محبّت تھی۔ وہ اورنگزیب کی خیرخواہ تھیں۔ جب شہزادی کے بھائیوں دارا شکوہ، مراد، شجاع اور اورنگزیب میں تخت نشینی پر تنازع پیدا ہوا تو روشن آرا نے اورنگزیب کا ساتھ دیا۔

    مشہور ہے کہ وہ شہنشاہ کے دربار میں اورنگزیب کے خلاف ہونے والی باتیں بھائی تک پہنچاتی تھیں اور اسے ہر قسم کی سازشوں سے آگاہ کر دیا کرتی تھیں۔

    ہندوستان میں تاج و تخت سے جڑے واقعات، محلّاتی سازشوں کے تذکروں اور اس دور کے شاہی مؤرخین کے قلم سے لکھی گئی تاریخ میں مبالغہ آرائی ہی نہیں، من گھڑت اور بے بنیاد قصّے کہانیاں اور جھوٹ کی آمیزش سے انکار نہیں‌ کیا جاسکتا، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جاہ و جلال اور اختیار کی خواہش اور ہوسِ زر کے لیے خونی رشتوں کو بھی قربان کردیا گیا۔ اسی شہزادی کے باپ اور بھائیوں کو قید کے ساتھ دردناک موت کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا جس میں اورنگزیب کا ہاتھ تھا۔

    اکثر مؤرخین نے لکھا ہے کہ روشن آرا بیگم نے تخت نشینی کے معاملے میں اورنگزیب کا بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی خیر خواہی اور بیدار مغزی نے اورنگزیب کو فائدہ پہنچایا اور وہ تخت و تاج حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔

    مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کام یابی میں اگرچہ اورنگزیب کی تدبیر و سیاست اور عزم و ہمّت کو سب سے زیادہ دخل تھا، لیکن اس کی بہن شہزادی روشن آرا بیگم نے ہر موقع پر اس کی مدد اور راہ نمائی کرتے ہوئے کسی بھی نقصان سے بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ وہ ہندوستان کا بادشاہ بنا۔ یہی وجہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر اپنی بہن اور شہزادی روشن آرا بیگم کو بے حد عزیز رکھتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم نے شادی نہیں کی تھی۔ وہ ایک بڑی جاگیر کی مالک تھیں جب کہ شاہی وظیفہ بھی پاتی تھیں۔ مؤرخین کے مطابق شہزادی کی دولت کا پیش تر حصّہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد میں صرف ہوتا تھا۔

    شہزادی روشن آرا بیگم رفاہِ عامہ کے سلسلے میں اپنا حصّہ ڈالتی رہتی تھیًں۔ انھوں نے کئی کام کروائے جن سے رعایا کو فائدہ پہنچا، لیکن آج ان کا کوئی نام و نشان باقی نہیں‌ رہا۔

  • ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    ’’مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی!‘‘

    میں بے حد پریشان بلکہ شرمندہ تھا۔ شرمندگی کا باعث میرا نصیب تھا کہ مجھے کوئی سیریس بیماری لاحق نہیں ہوتی تھی۔ جب بھی کوئی بیماری آتی وہ نزلہ زکام میں بدل جاتی۔

    زیادہ سے زیادہ سر کا درد، پیٹ کا درد یا کوئی پھوڑا ابھرتا اور مجھے جُل دے کر نو دو گیارہ ہو جاتا۔ احباب اور رشتے دار زیرِ ناف قسم کا طعنہ دیا کرتے کہ ان غیر ضروری بیماریوں پر کوئی آپ سےکیا ہمدردی کرے۔ میری بیوی تو کنکھیوں سے کئی بار اشارے بھی کرچکی تھی کہ میں آپ کی خاطر مَر مٹنے کے لیے تیار ہوں لیکن اس مَر مٹنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی تو پیدا کیجیے۔

    اور نہ جانے میرے کس پیارکی دعا قبول ہوئی کہ ایک دن میں صبح کو شیو کرکے اٹھا تو میری ایک لغزشِ پا نے پکارا۔ ’’لینا کہ چلا میں!‘‘

    میری بیوی جوشاید اسی نادر لمحے کے انتظار میں ادھیڑ ہوگئی تھی، فوراً ڈاکٹر کو بلا لائی۔ ڈاکٹر نے کہا ’’یہ لغزشِ پا نہیں ہے، سیریس بیماری ہے!‘‘

    بیوی کی زبان سے بے ساختہ نکلا۔ ’’ہائے اللہ! یہ سریس بیماری ان کی بجائے مجھے لگ جائے۔‘‘

    ڈاکٹر نے رولنگ دیا۔ ’’یہ فیصلہ اسپتال میں جاکر ہوگا کہ بیماری کس جسم کے لیے موزوں ہے، یہ متنازع مسئلہ ہے۔‘‘

    اتنے میں میرے بہت سے احباب اور رشتے دار جمع ہوگئے تھے۔ انھو ں نے ڈاکٹر سے ’’ونس مور‘‘ کہا اور باری تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کہ آخر میں تھرڈ ریٹ بیماریوں کے چنگل سے نکل آیا اور اب راہِ راست پر چل پڑا ہوں۔ ان کی آنکھوں میں مسرت کے آنسو بھر گئے۔ انھوں نے تالیاں بجائیں کئی ایک فرطِ انبساط سے رقص کرنے لگے۔ میری بیوی نے جذبات سے کانپتے لفظوں میں اعلان کیا کہ وہ میرے غسلِ صحت پر یتیموں کو کھانا کھلائے گی۔ اسپتال کے بڑے ڈاکٹر نے سرگوشی میں ایک دوست کو بتایا کہ نروس بریک ڈاؤن کی بیماری ہے۔ ہوسکتاہے، کئی سال لگ جائیں۔

    کئی سال؟ مجھے یتیموں کا مستقبل خطرے میں نظر آیا۔

    اسپتال کے پیڈ پر لیٹتے ہی مجھے بے حد اطمینان ہوا۔ نہ پریشانی باقی رہی تھی نہ شرمندگی ہی۔ بلکہ فخر سے پھولا نہ سماتا تھا کہ اب اس سیریس بیماری کی بدولت کئی لوگوں کو ابلائیج کرسکوں گا۔ میرے احباب خلوص اور ہمدردی کا فراخ دلانہ استعمال کرسکیں گے۔ رشتے داروں کو ٹھنڈی آہیں بھرنے اور آنسو تھر تھرانے کا موقع نصیب ہوگا۔ میری ایک جنبشِ لب پر وہ اپنی گردنیں کٹوانے کے لیے تیار ہوجائیں گے۔

    میری آنکھ کا ایک ہلکا سا اشارہ ان کی زنگ آلود روح کے سبھی بند دروازے کھول دے گا۔ میرے بدن میں ایک چھوٹی سی ٹیس اٹھے گی تو احباب مرغِ بسمل کی طرح اسپتال کے سڑک پر تڑپتے ہوئے نظر آئیں گے۔ میری بیوی ہر پرسانِ حال کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہہ سکے گی،

    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    غرض میں اپنے آپ کو بڑا خوش نصیب سمجھتا تھا کہ زندگی میں کسی کے کام تو آیا۔ دوسروں کی خوشنودی کے چند لمحے بھی میسر آجائیں تو وہ سُنبل و ریحاں اور لعل و یاقوت وغیرہ سے کم نہیں ہوتے ورنہ اس سے پہلے تو زندگی جیسے بے برگ و گیاہ ریگستان میں گزر رہی تھی۔ نہ کسی کے آنسو، نہ تبسم، نہ جذبات سے چُور چُور ہونٹ، نہ کسی کی ہمدردی، نہ کسی کا خلوص، نہ کسی کا امتحان، نہ کوئی ممتحن۔

    اسپتال میں جاتے ہی سب سے پہلے تو میرے ایک منسٹر دوست نے میرے ریگستان میں ایک پھول کھلا دیا۔ یعنی ایک دوست کے ٹیلیفون پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے کہہ دیا کہ اس مریض کو فوراً ایک بیڈ عطا کیا جائے۔ اسپتال میں بیڈ میسر آنے کا مطلب ہوتا ہے جیسے کسی بے روزگار کو اپائنٹمنٹ لیٹر مل جائے۔ میرے ایک پروفیسر دوست نے میری ہوا باندھتے ہوئے کہا ’’جی! بیڈ کیوں نہ ملتا۔ ان کی رسائی تو منسٹروں تک ہے۔‘‘

    مجھے منسٹروں کی اس پستی پر رحم کھانا چاہیے تھا لیکن منسٹر کی خوشی مجھے بیڈ میں مل جانے میں مضمر تھی۔ اس لیے میں اس پستی کو شہد کا گھونٹ سمجھ کر پی گیا۔

    بیڈ مل جانے کے بعد میں تین چار دن تک یہ دیکھتا رہا کہ احباب اور رشتے دار نہایت سرگرم ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف بھاگے بھاگے پھرتے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ اپنی دوڑ دھوپ کی رپورٹ لے آتے اور میرے حلق میں انڈیل دیتے۔ کوئی بتاتا اسپتال کا ہارٹ اسپیشلسٹ میرے کالج کا ساتھی ہے اور مجھ سے میتھمیٹکس کی گائڈ بک لے جایا کرتا تھا۔ کوئی انکشاف کرتا، بلڈ بنک کے انچارج سے میں نے کہہ دیا ہے کہ آپ کی خوش نصیبی ہے۔ آپ کے اسپتال میں ایک عظیم مریض داخل ہوا ہے۔ یہ انچارج میری خالہ کا چوتھا بیٹا ہے۔ اگرچہ خالہ نے اسے جائداد سے عاق کردیا ہے لیکن اس کی لو میرج سے پہلے کے سبھی لو لیٹر میں نے ہی قلم بند کرکے دیے تھے۔

    ایک دوست نے تین اخباروں میں میری فوٹو اور بیماری کی خبر بے حد ولولہ انگیز انداز میں شائع کروا کے مسرت حاصل کی جیسے اس نے مجھے مرنے کے بعد جنت کی سیٹ دلوادی ہو۔ چار پانچ دوستوں نے کافی ہاؤس میں ایک ریزولیوشن پاس کروادیا کہ خدانخواستہ اگر فکر تونسوی کی موت واقع ہوگئی تو پورے کافی ہاؤس کے ممبران نہ صرف باجماعت شمشان بھومی تک جائیں گے بلکہ پسماندگان کے لیے چندہ بھی اکٹھا کریں گے۔

    یہ جان توڑ سرگرمیاں دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سارا ہندوستان میری بیماری کی خاطر زندہ ہے ورنہ درگور ہوگیا ہوتا! ہر روز کئی ڈاکٹر باری باری آتے اور مجھے لیبارٹری سمجھ کر تجربے شروع کر دیتے۔ جیسے یہ ڈاکٹر نہ ہوں، اسکول کے طالب علم ہوں اور میں ایک کاپی ہوں جس پر وہ ہوم ورک کر رہے ہوں۔ پہلے تو میں سمجھا کہ وہ میرے مرض سے خوش ہونے کی وجہ سے سرگرم ہیں لیکن ایک بار میں نے ان کی خوشی سے بور ہو کر ایک ڈاکٹر سے پوچھا ’’جناب! کیا آپ کو مریض سے محبت ہے یا مرض سے؟‘‘

    وہ بولا ’’مرض سے! کیونکہ ہم مریض پر ریسرچ کرکے مرض تک پہنچتے ہیں۔ آپ پر ریسرچ کرنے سے بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’اور اگر میں نہ آتا تو بنی نوع انسان کا کیا بنتا؟‘‘

    اس کے جواب میں ڈاکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو حکم دیا۔ ’’اس مریض کی بی۔ سی۔جی بھی کرائی جائے۔ دماغ میں توقع سے زیادہ خلل معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    لیکن میں جانتا تھا کہ میرے دماغ کے خلل کا سبب میری بے پناہ مسرت ہے، جو مریض بن کر مجھے حاصل ہو رہی ہے۔ میں یہ سوچ کر جھوم اٹھا کہ اسپتال میں مجھے بے حد رومانٹک ماحول ملے گا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ کئی آرٹسٹ لوگ اسپتال میں جاکر ناول تک لکھتے ہیں اور بیماری کو ادبِ عالیہ میں اضافہ کا باعث بناتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایک نرسوں سے پیار بھی کرنے لگتے ہیں بلکہ کئی نرسیں تو نوکری پر لات مار دیتی ہیں اور ناول نگار کی روح کے نرم گوشے میں دلہن بن کر گھس جاتی ہیں۔

    دوسرے دن جب میں چھم سے کسی نرس کی آمد کی انتظار میں آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ کسی نے میرا کندھا جھنجھوڑا۔ یہ واقعی نرس تھی (میرے متوقع ناول کی متوقع ہیروئن۔) میں نے آنکھ کھول کر دیکھا نرس خوبصورت نہ تھی، خوبصورت دنیا کے جسم پر ایک چیتھڑا تھی! اس نے پہلے مجھے سونگھا پھر ماحول کو سونگھا اور جیسے اسے احساس ہواکہ ماحول نامکمل ہے۔ اس لیے اس نے میرے بیڈ کے سرہانے ایک مَیلے سے گتے پر میڈیکل چارٹ لٹکا کر ماحول کو مکمل کردیا۔

    اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس نے میری قبر پر دِیا جلا دیا ہو۔

    (طنز و مزاح نگار اور شاعر فکر تونسوی کے قلم سے شگفتہ پارے)

  • یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ وسعتِ بیان اور ہمہ گیری عطا کی جس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور دوسری تحریکوں کو بھی متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا۔ ترقّی پسند تحریک اور اس کا فروغ سیّد سجّاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    سیّد سجّاد ظہیر آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ وہ 13 ستمبر 1973ء کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے روس میں موجود تھے جہاں فرشتہ اجل گویا ان کا منتظر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

    ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز اور اعزاز تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔

    یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج کے لیے یہ خطرناک بات تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی شعور سے آگاہی دی۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی ہوگئی۔

    گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کا گھر سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آمدورفت سے گویا بھرا رہتا تھا۔ انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے دوران سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    1928ء میں اوکسفرڈ کے اس طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقّی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا اور ادب کو نئی بلندی اور وسعتوں سے ہم کنار کرتے ہوئے تنوع دیا۔

  • انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی زیبُ النسا حمیدُ اللہ کی برسی

    ادب اور صحافت میں زیبُ النسا حمیدُ اللہ صرف اسی لیے ممتاز نہیں کہ انھوں نے اپنے دور میں تخلیقِ ادب اور کارِ صحافت کے لیے انگریزی زبان کا انتخاب کیا جو دنیا میں سب سے زیادہ بولی اور پڑھی جاتی ہے بلکہ انھوں نے اس زبان میں اپنی جان دار تخلیقات اور شان دار صحافت کے سبب نام و مقام بنایا تھا۔

    وہ انگریزی زبان کی معروف ادیب، شاعر اور صحافی تھیں۔ انھوں نے کراچی سے انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا اور پہلی خاتون مدیر رہیں۔

    آج زیبُ النسا حمید اللہ کی برسی ہے۔ وہ سن 2000ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    کلکتہ ان کا وطن تھا جہاں وہ 25 دسمبر 1921ء کو پیدا ہوئیں۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے پاکستان ہجرت کی۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نہایت زرخیز ذہن کی مالک تھیں۔ انھوں نے اکتوبر 1951ء میں انگریزی جریدے دی مرر کا اجرا کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا یہ جریدہ اپنی معیاری تحریروں، مفید اور معلوماتی مضامین کی وجہ سے پاکستان بھر میں‌ مقبول ہوا۔ اس کی اشاعت کا سلسلہ 1972ء تک جاری رہا۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہی زیبُ النسا حمید اللہ مختلف ہندوستانی اخبار و جرائد میں اپنے مضامین کی وجہ سے پہچان بنا چکی تھیں۔ انھیں پہلی مسلمان کالم نویس بھی کہا جاتا ہے۔

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانوں اور انگریزی زبان و ادب کے قارئین میں‌ ان کی ادبی اور سماجی موضوعات پر تحریروں کے علاوہ شایع ہونے والے سیاسی کالم بہت مقبول ہوئے۔

    ان کے شعری مجموعے The Lotus Leaves اور The Flute of Memory کے نام سے شایع ہوئے۔

  • یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    یومِ وفات: جھارا پہلوان کی زندگی حسد اور انتقام کے آگ میں جھونک دی گئی

    محمد زبیر المعروف جھارا پہلوان 1991ء میں آج کے دن وفات پاگئے تھے۔ جھارا پہلوان نے اپنی زندگی میں لگ بھگ 60 کشتیاں لڑیں اور ہر مقابلے کے فاتح رہے۔ انھیں فخرِ پاکستان اور رستمِ پاکستان کے خطابات سے نوازا گیا تھا۔

    کشتی یا پہلوانی برصغیر کا ایک مقبول کھیل رہا ہے اور اسے صرف ایک کھیل نہیں بلکہ جسمانی نشوونما اور طاقت کا ذریعہ اور ایک نہایت مفید اور مثبت سرگرمی تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس کھیل میں پاکستان کی پہچان بننے والے محمد زبیر کو جھارا پہلوان کے نام سے شہرت ملی۔

    وہ 1960ء میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جو پہلوانی اور اکھاڑے میں‌ اترنے کے لیے مشہور تھا۔ وہ اسلم پہلوان کے بیٹے، مشہور بھولو پہلوان کے بھتیجے اور امام بخش پہلوان کے پوتے اور گاما کلو والا پہلوان کے نواسے تھے۔

    27 جنوری 1978ء کو پہلا مقابلہ کرنے کے لیے اکھاڑے میں اترنے والے جھارا نے گوگا پہلوان کو چت کرکے فتح اپنے نام کی تھی۔ اگلے برس 1979ء جاپان کے مشہور پہلوان انوکی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اس کشتی کے پانچویں راؤنڈ کے بعد جاپانی پہلوان نے جھارا کے ہاتھ اوپر اٹھا کر اسے مقابلے کا فاتح قرار دے دیا تھا۔

    جھارا پہلوان نے 60 کے قریب مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور ہر بار فتح اپنے نام کی۔ بدقسمتی سے کچھ لوگ جھارا کی کام یابیوں سے حسد کرنے لگے تھے اور انھوں نے ایک سازش کے تحت اس پہلوان کو منشیات کے استعمال کا عادی بنا دیا۔ یوں نہایت کم عمری میں جھارا نے اپنی زندگی گنوا دی۔ وہ صرف 31 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔