Tag: ستمبر وفیات

  • نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے جو اردو اور پنجابی کے نام وَر ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانش وَر اور مشہور براڈ کاسٹر تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کا اشفاق احمد سے تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور پھر انھوں نے مختلف اصنافِ‌ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔

    ’گڈریا‘ ان کا لازوال افسانہ تھا۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں وہ ایک صوفی اور دانا کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے اور ان کی نصیحتوں اور حکایات نے انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔

    اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معمار اور مشہور ایورنیو اسٹوڈیو کے مالک آغا جی اے گل کا تذکرہ

    آغا جی اے گل پاکستان کے مشہور فلم ساز اور مشہور ایور نیو اسٹوڈیو کے مالک تھے جن کا آج یومِ‌ وفات ہے۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد ملک میں فلمی صنعت کی بنیاد رکھنے اور یہاں فلم سازی اور اس شعبے کی ترقّی و ترویج میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    آغا جی اے گل نے لاہور میں ایور نیو اسٹوڈیو قائم کر کے فلم سازی کے شعبے کی ترقی اور سنیما کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دور تھا جب ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی اور اس بینر تلے سنیما کے لیے شان دار اور قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار اور سرپرست آغا جی اے گل 6 ستمبر 1983ء کو لندن میں وفات پاگئے۔

    ان کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 19 فروری 1913ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے فلم مندری سے خود کو انڈسٹری میں فلم ساز کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ 1949ء میں نمائش کے لیے پیش کی گئی فلم تھی۔ اس کے بعد سنیما کو ایور نیو پروڈکشنز کے تحت یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔

    انھوں نے ایور نیو اسٹوڈیو کو اس زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ کیا اور اس پلیٹ فارم سے کئی لوگوں کو متعارف کروایا اور سیکھنے کا موقع دیا۔

    آغا جی اے گل لاہور کے قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی حسن عابدی کا یومِ وفات

    سیّد حسن عسکری اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے معروف ہوئے اور اپنی تخلیقات کے سبب بڑا نام و مرتبہ حاصل کیا۔ وہ ترقّی پسند ادیب، شاعر اور صحافی تھے جن کی آج برسی ہے۔ حسن عابدی 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کئ ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں

  • اداکار عابد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس بیت گئے

    اداکار عابد علی کو مداحوں سے بچھڑے 2 برس بیت گئے

    آج پاکستان کے نام وَر اداکار عابد علی کی دوسری برسی ہے۔ پی ٹی وی پر اپنی لاجواب اور شان دار پرفارمنس سے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنے والے عابد علی 5 ستمبر 2019 کو اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔

    انھوں نے پاکستان میں چھوٹی اسکرین پر چار دہائیوں تک راج کیا۔ ریڈیو پاکستان سے کیریئر کا آغاز کرنے والے عابد علی نے 1973ء میں پی ٹی وی کے ڈرامے جھوک سیال میں سب سے پہلے اداکاری کی۔ وہ پی ٹی وی کے کئی مشہور اور یادگار ڈراموں میں نظر آئے ناظرین میں‌ مقبول ہوئے۔ ملک میں نجی ٹی وی چینلوں کا آغاز ہوا تو انھیں درجنوں ڈراموں میں‌ اداکاری کرنے کا موقع ملا۔

    اداکار عابد علی نے 70 سے 90 کی دہائی تک پی ٹی وی کے کئی مقبول ڈراموں میں کام کیا۔ وارث، دشت، پنجرہ، پیاس، دوریاں، خواہش، آنگن، مہندی ان کے یادگار ڈرامے ہیں۔

    پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا مقبول ترین ڈرامہ خواہش میں انھوں نے خوشی محمد کا کردار نبھایا تھا جو ایک ٹرک ڈرائیور تھا۔ یہ اصغر ندیم سید کا تحریر کردہ ڈرامہ تھا جس میں اپنے مخصوص لب و لہجے اور انداز کے سبب عابد علی ناظرین کے دلوں میں اتر گئے۔ عابد علی نے نجی ٹیلی ویژن چینلوں کے لیے ہدایت کاری بھی کی۔

    وہ 29 مارچ 1952ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوئے تھے۔ اسکول کے دنوں میں ان کی توجہ تحریر اور مصوّری کی طرف رہی۔ تاہم 1969 میں جب وہ کالج میں پڑھ رہے تھے، انھیں‌ ریڈیو پر کام کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے سامعین کو اپنی آواز اور انداز سے اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    عابد علی جگر کے کینسر کی تشخیص کے بعد لاہور اور کراچی کے اسپتالوں میں زیرَ علاج رہے۔

  • یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    یومِ وفات: منفرد آواز کے مالک حبیب ولی محمد کی گائی ہوئی غزلیں بہت مقبول ہوئیں

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ٹی وی، ریڈیو اور فلم کے لیے کئی گیت اور غزلیں‌ گائیں اور ان کے گائے ہوئے لافانی نغمات آج بھی ہماری سماعتوں میں رس گھول رہے ہیں۔ تاہم انھیں‌ ایک غزل گائیک کے طور پر زیادہ شہرت ملی۔وہ 4 ستمبر 2014ء کو امریکا میں‌ وفات پا گئے تھے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔

    حبیب ولی محمد برما کے شہر رنگون میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کا خاندان ممبئی منتقل ہو گیا تھا۔ تقسیم کے بعد حبیب ولی محمد کراچی آگئے تھے۔

    انھیں غزل ’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘ گانے کے بعد بے حد شہرت ملی۔ اس کے بعد انھوں کئی نغمے اور غزلیں گائیں جو ہر خاص و عام میں مقبول ہوئیں۔ ان کی گائی ہوئی مشہور غزلوں میں ’یہ نہ تھی ہماری قسمت،‘ ’کب میرا نشیمن اہلِ چمن، گلشن میں‌ گوارا کرتے ہیں‘ اور ’آج جانے کی ضد نہ کرو،‘ شامل ہیں۔ ان کی یہ غزل نہایت مقبول ہوئی جو معین احسن جذبی کی تخلیق تھی، مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنّا کون کرے!

    حبیب ولی محمد کو بچپن سے ہی موسیقی بالخصوص قوالی سے گہرا لگاؤ تھا۔ انھوں نے بہت کم فلمی گیت گائے جب کہ انھوں نے متعدد ملّی نغمے بھی گائے جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ وہ شوقیہ گلوکار تھے۔ اس معروف گلوکار کو نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • یومِ وفات: طغرل بیگ نے ترک قبائل کو متحد کرکے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی

    یومِ وفات: طغرل بیگ نے ترک قبائل کو متحد کرکے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی

    طغرل بیگ، جس کا پورا نام رکن الدین ابو طالب محمد بن میکائل تھا، پہلا سلجوق سلطان مشہور ہے۔ طغرل نے ابو سلیمان داؤد چغری بیگ کے ساتھ مل کر سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔

    طغرل بیگ کا سنِ پیدائش 990ء عیسوی ہے جس نے ترک قبائل کو اتحاد کی لڑی میں پرو کر ایک نئی سلطنت کی بنیاد رکھی اور کئی فتوحات کیں۔ وہ 1063ء میں آج ہی کے دن وفات پاگیا تھا۔

    ابو طالب نے ایک جانب مشرق کی طرف پیش قدمی میں کام یابیاں سمیٹیں تو دوسری طرف مشرقی ایران کے محاذ پر ترکوں کی دھاک بٹھائی اوربعد میں یوریشیا کے علاقوں کو فتح کرکے سب سے عظیم مسلم سلطنت کی بنیاد رکھی۔ اسی سلطنت کی کوکھ سے بعد میں سلطنتِ عثمانیہ نے جنم لیا۔ سلجوقی سلطنت 11 ویں صدی عیسوی میں قائم ہوئی تھی اور یہ نسلاً اوغوز ترک تھے۔

    طغرل بیگ جو خاندانِ سلجوقیہ کا بانی تھا، وسطی ایشیا اور یوریشیا کے علاقوں میں اسلام کا پرچم بلند کرنے میں‌ کام یاب ہوا۔ لیکن اس کی وفات کے بعد سلطنت کم زور پڑ گئی جس کا فائدہ یورپ کی غیرمسلم ریاستوں کے اتحاد نے اٹھایا اور سلجوقیوں کا زوال شروع ہوا جس نے بالآخر انھیں مٹا دیا۔

  • شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    شمس زبیری: شاعر، صحافی اور مصلحِ زبان

    آج شمس زبیری کا یومِ‌ وفات ہے۔ وہ ایک معروف شاعر، صحافی اور زبان و بیان کے ماہر تھے جو ریڈیو پاکستان پر براڈ کاسٹروں اور پروگرام میزبانوں کی اصلاحِ زبان کی ذمہ داری نبھاتے رہے۔ شمس زبیری 3 ستمبر 1999ء کو اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    شمس زبیری نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران زبان و بیان کی اصلاح کا خوب کام انجام دیا، او بعد میں یہی سلسلہ ان کے جاری کردہ رسائل تک پھیل گیا۔ انھوں نے بچّوں‌ کے رسائل کی ادارت کے ساتھ ایک ادبی جریدے ’’نقش‘‘ کا آغاز کیا تھا جس میں علمی و ادبی موضوعات پر مضامین اور مختلف اصنافِ ادب سے معیاری تخلیقات کا انتخاب شامل کیا جاتا تھا۔ یہ رسالہ بہت مقبول ہوا۔ ’’نقش‘‘ کے لیے شمس زبیری کو صاحبِ اسلوب ادیب اور انشا پرداز شاہد احمد دہلوی کا تعاون بھی حاصل تھا جن کی بدولت یہ ایک معیاری اور مقبول رسالہ بنا۔

    اکبر روڈ پر واقع شمس زبیری کے ادارے ’’کاشانۂ اردو‘‘ سے بچّوں کا ایک پرچہ ’’میرا رسالہ‘‘ بھی جاری ہوا کرتا تھا جس میں معیاری تخلیقات کے ساتھ بچّوں کی تربیت اور کردار سازی کو اہمیت دی جاتی تھی۔

    1917 میں پیدا ہونے والے شمس زبیری تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے اور یہاں‌ ادبی دنیا میں‌ نام و مقام بنایا۔ وہ حجرہ شاہ مقیم، اوکاڑہ میں آسودۂ خاک ہیں۔

    شمس زبیری کی ایک غزل باذوق قارئین کی نذر کی جارہی ہے۔

    ہم ترکِ تعلق کا گلہ بھی نہیں کرتے
    تم اتنے خفا ہو کہ جفا بھی نہیں کرتے
    تم شوق سے اعلانِ جفا پر رہو نازاں
    ہم جرأت اظہارِ وفا بھی نہیں کرتے
    مانا کہ ہنسی بھی ہے ادا آپ کی لیکن
    اتنا کسی بیکس پہ ہنسا بھی نہیں کرتے
    ہم جرأتِ گفتار کے قائل تو ہیں لیکن
    ہر بات سر بزم کہا بھی نہیں کرتے
    ہر حال میں مقصد ہے سفر، محوِ سفر ہیں
    ناکامیِ پیہم کا گلہ بھی نہیں کرتے
    کیا جانیے کس رنگ میں ہے شمس زبیریؔ
    بُت ایک طرف ذکرِ خدا بھی نہیں کرتے

  • انمول گیتوں کے خالق اور فلمی کہانی نویس احمد راہی کی برسی

    انمول گیتوں کے خالق اور فلمی کہانی نویس احمد راہی کی برسی

    فلمی کہانی نویس اور شاعر احمد راہی نے 2002ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    احمد راہی کی پہچان پنجابی زبان میں بننے والی کام یاب فلمیں‌ ہیں جن کے وہ مصنّف بھی تھے اور کئی فلموں کے گیت نگار بھی۔ تاہم انھوں نے اردو زبان میں بھی شاعری کی اور غزلوں کے ساتھ ان کے فلمی گیت بھی مشہور ہوئے۔

    13 نومبر 1923ء کو امرتسر کے ایک کشمیری گھرانے میں آنکھ کھولنے والے احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا۔ تقسیم کے بعد لاہور آنے والے احمد راہی کا انتقال بھی اسی شہر میں ہوا۔ احمد راہی نے امرتسر میں ہی مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر سیف الدین سیف، کہانی نگار اے حمید کی صحبت میں رہتے ہوئے ادب میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی اور تقسیم کے بعد لاہور کے ادبی ماحول میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

    بطور کہانی نویس ان کی یادگار فلموں میں مرزا جٹ، ہیر رانجھا، ناجو، گُڈو، اُچّا شملہ جٹ دا مشہور ہیں جب کہ شہری بابو، ماہی مُنڈا، یکے والی، چھومنتر، الہ دین کا بیٹا، مٹی دیاں مورتاں، باجی، سسی پنوں اور بازارِ حسن نامی فلموں میں ان کے تحریر کردہ گیت ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوئے۔ انھوں نے اردو فلموں کے لیے بھی منظر، مکالمے اور گانے لکھے جن میں ’یکے والی‘ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

    احمد راہی کا پنجابی کلام پر مشتمل مجموعہ ترنجن بہت مقبول ہوا۔

  • یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    مینا شوری پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک مشہور اداکارہ تھیں جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھیں سرطان کا مہلک مرض لاحق تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921ء میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔

    اس کے بعد مینا شوری کو فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری بہت پیاری اور من موہنی صورت کی مالک تھیں، انھوں نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ اداکارہ مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • بھارتی جیلوں میں کلامِ اقبال علی گیلانی کی قوّت و ہمّت اور سہارا بنا

    بھارتی جیلوں میں کلامِ اقبال علی گیلانی کی قوّت و ہمّت اور سہارا بنا

    سیّد علی گیلانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ وہ کشمیر کو پاکستان کا حصّہ قرار دیتے ہوئے اس مسئلے کو تقسیمِ ہند کا نامکمل ایجنڈا سمجھتے تھے۔

    سیّد علی گیلانی کے اجداد مشرق وسطیٰ سے ہجرت کر کے کشمیر میں آباد ہوئے تھے۔ انھوں نے شمالی کشمیر کے سوپور قصبے میں ایک آسودہ حال گھرانے میں 29 ستمبر 1929 کو آنکھ کھولی تھی۔ ابتدائی تعلیم سوپور سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اورینٹل کالج لاہور چلے گئے، جہاں جماعتِ اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے خیالات سے بہت متاثر ہوئے اور شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی فکر اور ان کا کلام ان کے قلب و جگر میں اتر گیا۔

    سیّد علی گیلانی نے علامہ اقبال کی فارسی شاعری کے ترجمے پر مشتمل تین کتابیں اور خود نوشت سوانح عمری سمیت تقریباً ایک درجن کتابیں بھی تصنیف کیں۔

    وہ اپنے زورِ خطابت اور شعر و سخن سے شغف کے لیے مشہور ہوئے اور جماعتِ اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے اور کشمیری حریت پسند لیڈر کی حیثیت سے قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے کے باوجود اپنے مؤقف پر قائم اور کشمیر کی آزادی کے لیے ڈٹے رہے۔

    علّامہ اقبال کے اس عاشق و شیدا نے شاعرِ مشرق کے کلام سے آزادی کی جدوجہد کے دوران اپنے لیے ہمّت، طاقت اور توانائی سمیٹی اور اسے مقبوضہ وادی کے نوجوانوں میں جذبہ حریت اور آزادی کی امنگ بیدار رکھنے کے لیے استعمال کیا جو آج بھی بھارتی فوج کے مظالم اور جبر و استبداد کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور آزادی کا نعرہ بلند کرتے نظر آتے ہیں۔

    سیّد علی گیلانی کا اقبال سے عشق ایسا تھاکہ وہ نہ صرف مقبوضہ وادی میں اپنے گھر پر اقبال کے یومِ‌ ولادت پر تقریب کا اہتمام کرتے تھے بلکہ اپنے ہر خطاب میں ان کے اشعار سنا کر جوش و ولولہ پیدا کرتے اور نوجوانوں کو بھی فکرِ اقبال سے اکتساب کی ہدایت کرتے تھے۔

    اس حوالے سے تنویر قیصر شاہد نے تین سال قبل ایک خوب صورت کالم لکھا تھا جس سے چند پارے یہاں نقل کیے جارہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اس ضعیف مجاہد و حریت پسند لیڈر جن کی ہمّتیں ہمہ وقت جواں رہتی ہیں، نے حکیمُ الامت حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کے 107 ویں یومِ پیدائش کے موقع پر سری نگر میں اپنے گھر پر ایک شان دار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔

    شاعرِ مشرق نے اپنے کلام میں متعدد بار جس محبّت، درد مندی اور خلوص سے کشمیریوں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے، اُن پر ڈھائے جانے والے ڈوگرہ حکم رانوں کے خلاف جس شدّت سے احتجاج کیا ہے، اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہمارے کشمیری بھائی حضرت علاّمہ اقبال کو اپنی یادوں میں بسائے رکھیں۔ اس کا عملی مظاہرہ جناب سیّد علی گیلانی نے اقبال کے یومِ ولادت کے موقع پر اپنے گھر (حیدر پورہ) پر کیا تھا۔

    واقعہ یہ ہے کہ علی گیلانی صاحب کی نجی گفتگو، خطوط اور تقاریر میں جا بجا فکرِ اقبال کی چھاپ نظر آتی ہے۔ وہ کلامِ اقبال کو برمحل بروئے کار لاتے ہیں اور سُننے والوں کے دل گرما دیتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبال کا یومِ پیدائش آیا تو گیلانی صاحب نے اپنے دولت خانے پر’’اقبال…داعیِ حق، محبِّ انسانیت‘‘ کے موضوع پر ایک دلکشا مجلس کا اہتمام کیا تھا۔

    اس موقع پر مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس (گیلانی گروپ) کے بانی و مجاہد کا خطبہ یادگار بھی تھا اور اقبال کی محبت سے سرشار بھی۔ علی گیلانی صاحب نے کہا تھا: ’’کشمیری نوجوانوں سے میری گزارش ہے کہ وہ قرآن و سنّت کے اتباع کے ساتھ ساتھ کلامِ اقبال کو بھی خصوصیت کے ساتھ پڑھیں اور خود کو فکرِ اقبال کے ساتھ منسلک کیے رکھیں۔ لاریب شاعرِ مشرق ملّتِ اسلامیہ کے داعی اور عظیم محسن ہیں۔‘‘ گیلانی صاحب نے مزید ارشاد فرمایا:’’علامہ اقبال کے افکار کا صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ ساری ملّت پر احسانات ہیں۔

    سیّد علی گیلانی نے خود نوشت سوانح حیات میں کلامِ اقبال اور فکرِ اقبال کو اپنی باتوں، خطوط اور گفتگو میں سمویا ہے اور خود کو ایسا صاحبِ مطالعہ شخص ثابت کیا ہے جو کلامِ اقبال کا حافظ بھی ہو اور عاشقِ صادق بھی۔

    کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے لا تعداد و متنوع بھارتی مظالم اور بھارتی استبداد تلے پسِ دیوارِ زنداں اُن پر کیا گزری، اِن سب کا ذکر کرتے ہُوئے جناب سید علی گیلانی کو بے اختیار حضرت علامہ اقبال کے اشعار یاد آ جاتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ گیلانی صاحب نے اپنی اِس خود نوشت سوانح حیات کے ذریعے کشمیریوں میں فکرِ اقبال اور کلامِ اقبال کی نہایت احسن طریقے سے ترویج و تبلیغ کی ہے تو ایسا کہنا شائد مبالغہ نہیں ہوگا۔

    یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ کلامِ اقبال سے بے پناہ عشق نے علی گیلانی صاحب کو بھارتی قید خانے میں قوت و ہمّت بھی عطا کیے رکھی اور سہارا بھی۔