Tag: ستنوش کمار

  • سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    سنتوش کمار: پاکستانی فلمی صنعت کا بے مثال اداکار

    پاکستانی فلمی صنعت سنتوش کمار کو رومانوی فلموں‌ کے ایک بے مثال اداکار کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے گی جو اپنے وقت کے مقبول ترین ہیرو بھی تھے جاذب و پُرکشش شخصیت کے مالک سنتوش کمار کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش کمار نے بطور ہیرو زبردست کام یابیاں سمیٹیں‌ اور ان کے مداحوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ بحیثیت اداکار سنتوش کی شہرت و مقبولیت کے علاوہ ایک باعثِ پذیرائی صبیحہ خانم سے شادی بھی تھا۔ صبیحہ خانم بھی پاکستانی فلموں کی مقبول ہیروئن تھیں اور نہایت باوقار خاتون تھیں جن کی کام یاب شادی فلم انڈسٹری کے لیے مثال بھی ہے۔ یہ دونوں فن کا عام زندگی میں بھی اپنے حسنِ اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی وجہ سے بھی لوگوں کی نظر میں قابل احترام رہے ہیں۔

    بطور اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر نظر آئے تھے۔

    اداکار سنتوش کمار لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے۔ 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ وہ اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلمی دنیا کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے ہیرو کا ایک رول اس وقت قبول کیا جب تقسیمِ ہند کا اعلان نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کلکتہ اور ممبئی کے ساتھ لاہور بڑے فلمی مراکز تھے۔ اداکار سنتوش نے بمبئی سے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں پاکستان ہجرت کر کے آئے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں اداکار سنتوش نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار کو ان کی بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    اداکار سنتوش کمار 1978ء میں آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    سنتوش کمار کے پان کی ڈبیا اور چھالی الائچی کا بٹوا

    اب ایک بالکل مختلف قسم کی صبح یاد آ رہی ہے۔ صبح ہی صبح گھر سے نکلا اور جہاز میں جا بیٹھا۔ کشور ناہید ہم سفر ہیں۔ یہ فلموں کا چکر ہے۔

    اس زمانے میں کشور ناہید اور میں دونوں ہی فلم سنسر بورڈ کے رکن تھے۔ اس واسطے سے مجھے بس ایک ہی شخصیت اس وقت یاد آرہی ہے، سنتوش کمار، کہ وہ بھی ان دنوں اس بورڈ کے رکن تھے اور جو گاڑی انہیں لینے جاتی تھی وہ رستے میں سے مجھے بھی بٹھا لیتی تھی۔ میں گاڑی میں بیٹھا اور سنتوش کمار نے پان کی ڈبیا کھولی۔ کس سلیقہ اور محبت سے پان پیش کرتے تھے۔ میں نے پان ناصر کے ساتھ بہت کھائے تھے۔ وہ زمانہ گزر گیا تو پان کھانا ہی چھوڑ دیا۔ اب سنتوش کمار کی صحبت میں پھر پان کھانے شروع کر دیے تھے، بلکہ بہت سی فلمیں تو ایسی ہوتی تھیں کہ اگر سنتوش کمار کی پانوں کی ڈبیا اور چھالی الائچی کے بٹوے کا سہارا نہ ہوتا تو پتا نہیں ہمارا کیا حال ہوتا۔ کیا باغ و بہار آدمی تھے اور کیسے بانکے سجیلے۔

    میں نے شروع میں انہیں اس وقت دیکھا تھا جب 1948ء کے اوائل میں مسعود پرویز کی فلم میں جس کی کہانی منٹو صاحب نے لکھی تھی، وہ ہیرو کا رول ادا کر رہے تھے اور منٹو صاحب کہتے تھے کہ یہ نوجوان پاکستان کا دلیپ کمار بنے گا یا اب دیکھ رہا تھا، جب وہ اداکاری کے کاروبار سے فارغ ہو چکے تھے، مگر اسی طرح سرخ و سفید۔ وہی سفید براق کرتا پاجاما، قریب سے اب دیکھا احساس ہوا کہ بہت باغ و بہار شخصیت ہیں۔ فلم کے بارے میں وہ کہہ دیتے کہ ہاں تو پھر میں بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتا۔ جب ہی تو فلم پاس، فیل کے سلسلہ میں سفارش میرے پاس کم کم پہنچتی تھی۔ انہیں پتا تھا کہ جو دو پنچوں سنتوش کمار اور کشور ناہید کی رائے ہوگی وہی اس شخص کی بھی رائے ہو گی۔ میں اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ اصل رائے کے اظہار کی وہاں گنجائش کہاں تھی۔ اس حساب سے تو مشکل ہی سے کوئی فلم اس لائق نکلتی کہ اسے پاس کیا جا سکے۔

    (فکشن نگار اور کالم نویس انتظار حسین کی کتاب ”چراغوں کا دھواں“ سے اقتباس)

  • سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش کمار: فلمی دنیا کا باوقار نام، مقبول ہیرو

    سنتوش، پاکستان فلم انڈسٹری کے ایک کام یاب فن کار تھے اور فلم بینوں میں اپنی پُرکشش شخصیت کی وجہ سے مقبول تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں سنتوش ایک مقبول اور کام یاب ہیرو کے طور پر سامنے آئے۔ آج پاکستان کے اس نام ور اداکار کی برسی ہے۔

    اداکار سنتوش کی پاکستانی فلم انڈسٹری میں‌ پہلی فلم بیلی (1950) تھی۔ آخری مرتبہ وہ فلم آنگن (1982) میں اسکرین پر جلوہ گر ہوئے تھے۔ سنتوش کمار کے ساتھ ایک اور نام بالخصوص پچھلی نسل کے حافظے میں محفوظ ہے اور وہ ہے صبیحہ خانم جو پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک کام یاب ہیروئن اور اپنے وقت کی مشہور اداکارہ تھیں۔ سنتوش کمار نے انہی سے شادی کی تھی۔ ان کی یہ جوڑی جہاں‌ فلمی صنعت میں اپنی اداکاری اور کام یاب فلموں کی وجہ سے مشہور ہوئی، وہیں اپنے حسنِ اخلاق، تہذیب و شائستگی کے لیے بھی مثال ہے۔

    سنتوش کمار کا تعلق لاہور کے ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ ان کا اصل نام سیّد موسیٰ رضا تھا۔ فلم نگری میں‌ وہ سنتوش کمار کے نام سے پہچانے گئے، 25 دسمبر 1926ء کو پیدا ہونے والے سنتوش کمار نے عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا، اور اپنے ایک دوست کے اصرار پر فلم میں ہیرو کے طور پر رول قبول کر لیا۔ یہ سفر متحدہ ہندوستان کے زمانے میں شروع ہوا تھا جس میں سنتوش نے بمبئی کی فلمی صنعت کے لیے دو فلموں ’’اہنسا‘‘ اور ’’میری کہانی‘‘ میں کردار نبھائے۔ بعد میں وہ پاکستان ہجرت کر کے آگئے تھے اور یہاں بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔

    پاکستان میں انھوں نے مسعود پرویز کی فلم ’’بیلی‘‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ سعادت حسن منٹو کی کہانی پر بنائی گئی اس فلم میں صبیحہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ ’’بیلی’’ کام یاب فلم نہیں تھی، لیکن اس کے بعد ’’دو آنسو‘‘ اور ’’چن وے‘‘ نے سنتوش کمار کے کیریئر کو بڑا سہارا دیا۔ اس سفر میں آگے بڑھتے ہوئے سنتوش نے شہری بابو، غلام، قاتل، انتقام، سرفروش، عشق لیلیٰ، حمیدہ، سات لاکھ، وعدہ، سوال، مکھڑا اور موسیقار جیسی فلموں‌ میں‌ کام کر کے خود کو بڑا اداکار ثابت کیا۔

    شادی سے پہلے سنتوش اور صبیحہ خانم نے اکٹھے فلموں‌ میں‌ کام کیا تھا، اور پھر ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ پردۂ سیمیں پر اپنی بہترین پرفارمنس سے شائقین کو اپنا مداح بنانے والے ان فن کاروں کی حقیقی زندگی بھی مثالی اور قابلِ رشک ثابت ہوئی۔

    سنتوش کمار کی دیگر اہم فلموں میں دامن، کنیز، دیور بھابی، تصویر، شام ڈھلے، انجمن، نائلہ، چنگاری، لوری، گھونگھٹ اور پاک دامن شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 92 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے سنتوش کمار نے بہترین اداکاری پر تین نگار ایوارڈ بھی حاصل کیے۔ 1978ء میں سنتوش نے آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ انھیں لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔