Tag: ستیہ جیت رے

  • ستیہ جیت رے: ہندوستانی سنیما کے ایک باکمال کا تذکرہ

    ستیہ جیت رے: ہندوستانی سنیما کے ایک باکمال کا تذکرہ

    ستیہ جیت رے کو ان کے چاہنے والے ‘مانک دا’ کے نام سے بھی پکارتے تھے۔ گزشتہ صدی کے اس عظیم ہندوستانی فلم ساز کو فلمی ایوارڈز کے علاوہ بھارت میں حکومتی سطح پر بھی اعزازت سے نوازا گیا۔ 1992 میں آج ہی کے دن ستیہ جیت رے نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

    30 مارچ کو اپنی موت سے چند ہفتے قبل ہی ستیہ جیت رے نے آسکر ایوارڈ وصول کیا تھا۔ اس کے لیے جب منتظمین نے ستیہ جیت رے سے رابطہ کیا تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ یہ ایوارڈ وہ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ آڈری ہیپ برن سے وصول کرنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش پوری ہوئی۔ ستیہ جیت رے ان دنوں کولکتہ کے ایک نرسنگ ہوم میں بستر پر تھے اور وہیں یہ ایوارڈ قبول کیا۔ اس کے بعد وہ چند ہفتے ہی زندہ رہے۔

    ستیہ جیت رے ایک عظیم فلم ساز ہی نہیں اپنی شخصیت اور عادات میں بھی دوسروں سے بہت مختلف تھے۔ وہ دھیمے لہجے میں بات کرتے اور اپنی ٹیم کا خیال رکھتے تھے۔ وہ شراب سے ہمیشہ دور رہے اور اپنی حد درجہ مصروفیت کے باوجود اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی۔ ستیہ جیت رے ایک وفا شعار شوہر اور ذمہ دار باپ تھے۔

    آسکر یافتگان کی فہرست میں شامل ہونے کے دو دن بعد ہی ان کو بھارت رتن اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2 مئی 1921ء کو ستیہ جیت رے نے کلکتہ کے ایک بنگالی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ستیہ جیت رے کو ابتدا ہی سے فلم، مغربی موسیقی اور شطرنج کھیلنے کا جنون تھا۔ باوجود اس کے کہ وہ کمرشل ڈیزائننگ میں دل چسپی رکھتے تھے، انھیں 1940ء میں سائنس اور اکنامکس جیسے مضامین میں ڈگری لینا پڑی مگر یہ اس لیے عملی زندگی میں کام نہیں آسکیں‌ کہ ستیہ جیت رے سنیما کی طرف چلے آئے تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے میں تعلیم کے حصول کا فیصلہ ان کے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔ وہاں ستیہ جیت رے کو ہندوستانی آرٹ اور ماحول کو سمجھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے مشرقی ادب بالخصوص ٹیگور کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر وہ خود بھی بہترین لکھاری بنے۔ ستیہ جیت رے کو جو زبانیں آتی تھیں، ان میں‌ بنگالی اور انگریزی شامل تھیں۔ وہ اردو سے ناآشنا تھے۔ انھوں نے فلمیں‌ بھی انہی زبانوں میں بنائیں۔ شطرنج کے کھلاڑی ان کی وہ فلم تھی جسے ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔

    ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا اور ایک اشتہاری کمپنی میں ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کیا۔ 1947ء میں فلم ساز ستیہ جیت رے کلکتہ فلم سوسائٹی کے قیام کے لیے بھی کاوش کرتے نظر آئے۔ ان کی فلموں کی بات کریں‌ تو پتھر پنچلی (1955)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا (1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، اور گھرے باہرے (1984) سمیت متعدد شارٹ موویز اور دستاویزی فلمیں ایسی ہیں جنھوں نے ستیہ جیت رے کو اپنے وقت کے ممتاز اور باکمال فلم سازوں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ستیہ جیت رے کا نوجوانی کا زمانہ سامراجی تسلط، آزادی کی جدوجہد اور بنگال کے قحط اور غربت کا تھا۔ اس دور میں انھوں نے اپنے مشاہدے اور تجربات سے جو کچھ سیکھا اور جانا، اسے بڑے پردے پر بھی خوبی سے پیش کیا۔ انھوں نے کیمرے کے پیچے بطور ہدایت کار بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔

    ستیہ جیت رے کو ہمہ صفت کہا جائے تو کیا غلط ہے کہ وہ صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ادیب، مصوّر، غنائی شاعر، خوش نویس، مدیر بھی تھے۔ 1961 میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کیمرے کو ایک طرف رکھ دیا۔ دراصل یہ ان کے دادا اور والد کا شروع کردہ رسالہ تھا۔ اس پرچے میں شامل ہونے والی کہانیوں کے لیے نہ صرف اسکیچز بنائے بلکہ ستیہ جیت رے نے بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    ستیہ جیت رے کی زیادہ تر فلمیں بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر مبنی ہیں۔ ان کی فلموں کو سمجھنا اس وقت آسان ہوتا ہے جب فلم بین ان کہانیوں کا قاری بھی رہا ہو۔

  • آسکر ایوارڈ اور ستیہ جیت رے کی خواہش

    آسکر ایوارڈ اور ستیہ جیت رے کی خواہش

    ستیہ جیت رے کو ان کے منفرد اور بے مثال کام پر آسکر دینے کا فیصلہ ہوا تو منتظمین سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انھیں یہ ایوارڈ ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ آڈری ہیپ برن دیں۔ اور 30 مارچ 1992 کو ستیہ جیت رے کی یہ خواہش پوری ہوئی۔ انھیں ہیپ برن کے توسط سے آسکر ملا۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ فلمی دنیا کا یہ بڑا نام اِس دنیا میں چند ہفتوں کا مہمان ہے۔

    23 اپریل 1992ء کو ستیہ جیت رے چل بسے۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان کی موت کے چند ماہ بعد ہی آڈری ہیپ برن بھی یہ دنیا چھوڑ گئیں۔

    آسکر یافتگان کی فہرست میں شامل ہونے کے دو دن بعد ہی حکومت نے انھیں بھارت رتن کے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ ستیہ جیت رے کو ہندوستان میں‌ فلم انڈسٹری کی تاریخ کا سب سے بڑا فلم ساز کہا جاتا ہے۔

    ستیہ جیت رے 2 مئی 1921ء کو کلکتہ کے ایک بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھیں جو زبانیں آتی تھیں، ان میں‌ بنگالی اور انگریزی شامل تھیں۔ انھوں نے انہی زبانوں‌ میں‌ فلمیں‌ بنائیں اور شطرنج کے کھلاڑی وہ فلم تھی جس کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔ ستیہ جیت رے کو ابتدا ہی سے فلم، مغربی موسیقی اور شطرنج کھیلنے کا جنون تھا۔ باوجود کمرشل ڈیزائننگ میں دل چسپی کے وہ 1940ء میں سائنس اور اکنامکس جیسے مضامین میں ڈگری لے کر انڈین سنیما کی طرف چلے آئے۔ تاہم ان کی زندگی کا اہم موڑ رابندر ناتھ ٹیگور کے ادارے میں تعلیم کا ارادہ تھا جس نے ستیہ جیت رے کو ہندوستانی آرٹ اور ماحول کو سمجھنے کا موقع دیا۔انھوں نے مشرقی ادب بالخصوص ٹیگور کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر وہ خود بھی بہترین لکھاری بنے۔ ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور (Illustrator) شروع کیا تھا اور اس زمانے میں ایک اشتہاری کمپنی کے ایڈوائزر بھی رہے۔ 1947ء میں انھوں نے کلکتہ فلم سوسائٹی کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا۔ پتھر پنچلی (1955)، پارس پتھر (1958)، جلسہ گھر (1958)، اَپُر سنسار (1959)، دیوی (1960)، چارولتا (1964)، شطرنج کے کھلاڑی (1977)، اور گھرے باہرے (1984) سمیت متعدد مختصر اور دستاویزی فلمیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ستیہ جیت رے کو دنیا نے ایک باکمال فلم ساز کے طور پر پہچانا اور انڈین سنیما کے لیے ان کے کام کا اعتراف بھی کیا۔ ستیہ جیت رے کو ‘مانک دا’ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔

    ستیہ جیت رے کو ہمہ صفت کہا جائے تو کیا غلط ہے کہ وہ صرف ایک فلم ساز ہی نہیں تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ادیب، مصوّر، غنائی شاعر، خوش نویس، مدیر بھی تھے۔ فلم کی دنیا میں وہ ایک بہترین ہدایت کار بھی مشہور ہوئے۔ ستیہ جیت رے کا نوجوانی کا زمانہ سامراجی تسلط، آزادی کی جدوجہد اور بنگال کے قحط اور غربت کا تھا۔ 1961 میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے کیمرے کو ایک طرف رکھ دیا۔ یہ ان کے دادا اور والد کا شروع کردہ رسالہ تھا۔ اس پرچے میں کہانیوں کے لیے انھوں‌ نے اسکیچز بنائے اور بچّوں کے لیے کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔

    ستیہ جیت رے کی فلمیں عام طور پر بنگلہ ادیبوں کی تخلیقات پر ہی مبنی ہیں۔ وہ فلم کو ایک مغربی آرٹ سمجھتے تھے مگر ان کا مقصد بنگال کے لوگوں کے لیے بھی فلم بنانا تھا۔ ان کی فلموں کو سمجھنے کے لیے ان کی کہانیوں کا مطالعہ بھی کرنا ضروری ہے۔ انھوں نے پُراسرار یا فوق الفطرت کہانیاں تخلیق کیں۔ اسی طرح ان کا فکشن بھی بہت پسند کیا گیا اور وہ فلمی کہانیاں جن کے کردار اپنے حالات میں پوری طرح‌ گھرے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کو بڑی پذیرائی ملی۔