Tag: سجاد حیدر یلدرم کی تحریریں

  • دوست کا خط

    دوست کا خط

    یہ افسانہ اردو زبان میں ’’خیالستان‘‘ کے نام سے سجاد حیدر یلدرم کے افسانوں کے مجموعہ سے لیا گیا ہے۔ یلدرم نے طبع زاد کہانیوں کے ساتھ تراجم بھی کیے اور اس کتاب میں روسی اور انگریزی افسانوں کے تراجم بھی شامل ہیں۔ یلدرمؔ تقسیمِ ہند سے قبل وفات پاگئے تھے۔ وہ رومانوی تحریک کے زیرِ اثر لکھنے والے اہم افسانہ نگار تھے۔

    یلدرم کا یہ افسانہ ایک ایسے آدمی کو سامنے لاتا ہے، جسے اپنے دوست کا ایک خط موصول ہوتا ہے۔ وہ اس خط کو بہت محبت سے اپنے سینے سے لگاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس خط کو کتنے نمبر دے؟ مگر وہ جب بھی نمبر دیتا ہے، ہر بار سو سے زیادہ نمبر دے دیتا ہے۔ یہ افسانہ پیشِ خدمت ہے۔

    تُو پیارے دوست کا پیارا خط ہے! تجھ میں وہ کونسی برقی شے بھری ہے جو میرے دل کو دھڑکاتی ہے! تجھے کھولتے وقت ہاتھ کیوں کانپنے لگتے ہیں؟ آخر تجھ میں اور کاغذوں سے کیا برتری ہے؟ تو بھی کاغذ کا ٹکڑا وہ بھی کاغذ کے ٹکڑے، بلکہ وہ تجھ سے زیادہ بڑے ہیں۔ ہاں باعث تفاخر و تفوق یہی ہے نا کہ دوست نے تجھے لکھا، لب پان خوردہ سے اف، لب پان خوردہ سے لفافہ بند کیا؟ بیشک، بیشک، یہ بہت بڑا تفوق ہے۔ اچھا میں تیرا امتحان لیتا ہوں، تجھے نمبر دیتا ہوں۔ سو میں دیکھوں تجھے کتنے نمبر ملتے ہیں۔

    ان کے ہاتھوں سے چھوئے جانے کے۔۔۔ چالیس

    اس بات کے کہ دستۂ کاغذ میں سے تجھے ہی منتخب کیا۔۔۔ پچاس

    ان لبوں نے لفافہ کو بند کیا۔۔۔ ستّر

    ہیں! تُو نے سو سے زیادہ نمبر پائے۔ نہیں، یہ امتحان ٹھیک نہیں ہوا، دوسرے طریقے سے شمار ہونا چاہیے۔

    اس بات کے کہ تجھے میرے لیے منتخب کیا اور کسی دوسرے کے لیے نہیں منتخب کیا۔۔ ساٹھ

    اس بات کے کہ ان کے قلم کی تحریر تجھ پر ہے۔۔۔ چالیس

    اس بات کے کہ ان کے چہرے کا عکس تجھ پر پڑا کیوں کہ وہ فرماتے ہیں کہ یہ خط رات کو لکھا ہے۔۔۔ پانچ سو

    کیا! پھر سو سے زیادہ ہو گئے؟ یہ ٹھیک نہیں، اچھا تیسری بار پھر امتحان۔

    اس بات کے کہ تو ان کے مژدہ صحت و خوشنودی مزاج کی خبر لایا۔۔۔ اسی

    اس بات کے کہ تجھے چاک کر دیے جانے کا حکم ہے۔۔۔ دس ہزار

    یہ کیا؟ نمبر تو سو سے پھر بڑھ گئے۔

    نہیں نہیں! میں بے فائدہ کوشش نہیں کرنے کا، تُو امتحان سے بالا، موازنہ سے اعلیٰ، قید مقابلہ مقائسہ سے آزاد، پیارے دوست کا پیارا پیارا، ہائے میں کیسے ظاہر کروں کتنا پیارا خط ہے، تُو سینہ سے لگایا جائے گا۔ تُو نظرِ اغیار سے بچایا جائے گا، مگر (حاشا) تو چاک نہیں کیا جائے گا۔ تُو میرے پاس محفوظ رہے گا اور میں ہزاروں مرتبہ تجھے تنہا گوشوں میں پڑھوں گا۔

  • چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    چاندنی چوک کا بدنصیب فقیر

    اور کوئی طلب ابنائے زمانہ سے نہیں
    مجھ پہ احساں جو نہ کرتے تو یہ احساں ہوتا

    ایک دن میں دلّی کے چاندنی چوک میں سے گزر رہا تھا کہ میری نظر ایک فقیر پر پڑی جو بڑے مؤثر طریقے سے اپنی حالت زار لوگوں سے بیان کرتا جا رہا تھا۔ دو تین منٹ کے وقفے کے بعد یہ درد سے بھری اسپیچ انہیں الفاظ اور اسی پیرائے میں دہرا دی جاتی تھی۔

    یہ طرز کچھ مجھے ایسا خاص معلوم ہوا کہ اس شخص کو دیکھنے اور اس کے الفاظ سننے کے لیے ٹھہر گیا۔ اس فقیر کا قد لمبا اور جسم خوب موٹا تازہ تھا اور چہرہ ایک حد تک خوب صورت تھا۔ مگر بدمعاشی اور بے حیائی نے صورت مسخ کر دی تھی۔ یہ تو اس کی شکل تھی، رہی اس کی صدا، تو میں ایسا قسی القلب نہیں ہوں کہ صرف اس کا مختصر سا خلاصہ لکھ دوں۔ وہ اس قابل ہے کہ لفظ بہ لفظ لکھی جائے۔ چنانچہ وہ اسپیچ یا صدا جو کچھ کہیے، یہ تھی:

    "اے بھائی مسلمانو! خدا کے لیے مجھ بدنصیب کا حال سنو۔ میں آفت کا مارا سات بچوں کا باپ ہوں۔ اب روٹیوں کا محتاج ہوں اور اپنی مصیبت ایک ایک سے کہتا ہوں۔ میں بھیک نہیں مانگتا ہوں، میں یہ چاہتا ہوں کہ اپنے وطن چلا جاؤں۔ مگر کوئی خدا کا پیارا مجھے گھر بھی نہیں پہنچاتا۔

    بھائی مسلمانو! میں غریب الوطن ہوں ۔ میرا کوئی دوست نہیں، اے خدا کے بندو! میری سنو، میں غریب الوطن ہوں۔”

    فقیر تو یہ کہتا ہوا اور جن پر ان کے قصے کا اثر ہوا ان سے خیرات لیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ لیکن میرے دل میں چند خیالات پیدا ہوئے اور میں نے اپنی حالت کا مقابلہ اس سے کیا اور مجھے خود تعجب ہوا کہ اکثر امور میں میں نے اس کو اپنے سے اچھا پایا۔

    یہ صحیح ہے کہ میں کام کرتا ہوں ہوں اور وہ مفت خوری سے دن گزارتا ہے۔ نیز یہ کہ میں نے تعلیم پائی ہے، وہ جاہل ہے۔ میں اچھے لباس میں رہتا ہوں، وہ پھٹے کپڑے پہنتا ہے۔ بس یہاں تک میں اس سے بہتر ہوں۔ آگے بڑھ کر اس کی حالت مجھ سے بدرجہا اچھی ہے۔

    اس کی صحّت پر مجھے رشک کرنا چاہیے، میں رات دن اسی فکر میں گزار تا ہوں اور وہ ایسے اطمینان سے بسر کرتا ہے کہ باوجود بسورنے اور رونے کی صورت بنانے کے اس کے چہرے سے بشاشت نمایاں تھی۔ بڑی دیر تک میں غور کرتا رہا کہ اس کی یہ قابلِ رشک حالت کس وجہ سے ہے اور آخر کار میں بظاہر اس عجیب نتیجے پر پہنچا کہ جسے وہ مصیبت خیال کرتا ہے وہی اس کے حق میں نعمت ہے۔

    وہ حسرت سے کہتا ہے کہ میرا کوئی دوست نہیں۔ میں حسرت سے کہتا ہوں "میرے اتنے دوست ہیں، اس کا کوئی دوست نہیں۔” اگر یہ سچ ہے تو اسے مبارک باد دینی چاہیے۔

    (مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ، از سجاد حیدر یلدرم)