Tag: سجاد ظہیر

  • فن یا آرٹ اور طبقاتی سطح پر انقلاب

    فن یا آرٹ اور طبقاتی سطح پر انقلاب

    آج میں اس گفتگو کا آغاز اس مسئلے سے شروع کرنا چاہتا ہوں کہ فن یا آرٹ کی (اردو ادب جس کا ایک جزو ہے) ہماری زندگی میں ضرورت کیا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ پہلا فن کار غالباً وہ انسان تھا یا انسانوں کا وہ گروہ تھا جس نے سب سے پہلے معمولی کھردرے پتھر کو اوزار کی شکل میں ڈھالا، ایک حربہ جس سے وہ اپنی غذا حاصل کرنے کے لیے جانوروں کا شکار کرسکے۔ اور جب انسانوں نے ایک طرح کے بہت سے اوزار بنا لیے ہوں گے، تب ہی اس اوزار کو بہتر طور سے سمجھنے، پہچاننے اور اس کے استعمال پر مہارت حاصل کرنے کے لیے ان کے ذہن میں پتھر کے کلہاڑے کا مجرد تصور بھی پیدا ہوا ہوگا۔ اور وہ لفظ بااسم وجود میں آیا ہوگا جس سے پتھر کے کلہاڑے کو عام طور سے پہچانا جاسکے۔ اس طرح الفاظ انسانی عمل اور اس عمل کے مادی آثار کی تشبیہ بھی ہیں اور اپنے مفہوم کے وسیلے سے دوسرے انسانوں کے ساتھ رشتہ بھی قائم کرتے ہیں۔ لفظ کی قوت کا اندازہ کیجیے، جس کے اختراع سے تاریکی میں جیسے روشنی ہو جاتی ہے، انسان خود کو زیادہ طاقت ور محسوس کرتا ہے، قدرت کی اندھی طاقتوں اور اپنے مشکل ماحول پر قابو پانے کی زیادہ صلاحیت اس میں پیدا ہوتی ہے۔

    ایک طرف قدرت کی بے پناہ اندھی طاقتوں، گرمی، سردی، طوفان، بارش اور سیلاب، تاریکی، وحشی درندے اور زہریلے سانپ، وہ طاقتیں اور چیزیں جن کے قوانین ابھی تک انسان نے سمجھے نہیں تھے اور جس ناسمجھی کے سبب سے انسان کو اپنی سخت بے بسی کا احساس ہوتا تھا، اور دوسری طرف انسان کا عمل، اس کے دو ہاتھوں کی طاقت اس کی اوزار بنانے کی اور رفتہ رفتہ ذہن اور زبان، تصور اورخیال کے ذریعہ چیزوں، حادثات، انسان اور قدرت اور انسان اور انسان کے مابین رشتوں اور تعلقات کو سمجھنے اور پھر سمجھانے کی صلاحیت، لاچاری اور بے بسی اور صلاحیت، بس، اور ابھرتے ہوئے شعور کے درمیان سخت نفسیاتی تناؤ اور تشنج پیدا کرتے ہوں گے، ایسا ذہنی اور روحانی ہیجان پیدا کرتے ہوں گے جو انسان کو اس مخمصے سے نجات دلانے کے لیے نئی راہوں اور نئے طریقوں کی دریافت پر اکساتا ہوگا۔

    لفظوں کا جادو: ایسے ماحول اور ذہنی اور نفسیاتی کیفیت میں انسان نے لفظوں کی طلسمی کیفیت محسوس کی۔ لفظ جو شعور اور معنی، تخیل اور فکر کا صوتی اظہار کرتے تھے، اسم اعظم جس کے دہرانے سے اپنے ماحول اور حالات زندگی اور جہد حیات پر قدرت حاصل کرنے کے لیے نفسیاتی، ذہنی اور روحانی طور پر وہ اپنے کو زیادہ مضبوط اور طاقت ور بنا سکتا تھا۔ پھر قدرت کے مظاہر، موت اور زندگی، روشنی اور آگ، جنس کی کشش، ان سب سے پیدا ہونے والا تحیر، انسان کی اجتماعی زندگی سے ان کا تعلق، تمام ان چیزوں کو اور ان کے قوانین اور اصل کو سمجھنے کی کوشش، زندگی کو بہتر، زیادہ کامیاب اور بار آور بنایا جا سکے۔ اسی کاوش اور کوشش، اور اس کے تجربے، شعور اور خیال کے اتحاد سے انسانی گروہوں کے ابتدائی مذہبی عقائد، دیوی دیوتا، جادو اور انھیں کے ساتھ ساتھ اجتماعی ناچ اور گیت (متوازن عمل اور الفاظ کے صوتی اور تخئیل اثر کا امتزاج) نیز غاروں اور گپھاؤں کی قدیم ترین تصویر کشی، یعنی فنون لطیفہ وجود میں آئے۔

    لیکن قدیم اشتراکی معاشرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے اجتماعی عمل، اجتماعی زندگی اور فن کی وحدت بھی باقی نہیں رہی۔ طبقاتی معاشرت میں، جہاں ایک طرف نئے وسائل اور ذرائع پیداوار کی دریافت کی وجہ سے، انسان کے مادی وسائل میں زبردست اضافہ ہوا، تہذیب اور مدنیت وجود میں آئے، آبادی میں اضافہ کے لیے وسائل فراہم ہوسکے۔ اسی کے ساتھ مالک اور غلام، اہل دول اور مفلس، محنت کش طبقوں کا وجود، اپنے تمام تضادات کے ساتھ بھی ظاہر ہوا۔ حکمراں، مالک اور استحصال کرنے والے طبقوں کے فنون اپنی خاص خصوصیت رکھنے لگے، اور ان طبقوں کا فن جن کا استحصال ہوتا تھا، جن کے دست و بازو کی محنت سے معاشرت کی تمام وہ پیداوار اور زائد پیداوار وجود میں آتی تھی، جس پر تہذیب و تمدن کی بنیاد اور چمک دمک تھی، ان کے فنون مثلاً لوک گیت، ناچ، مروجہ مذہبی عقائد کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک طرح کا فلسفیانہ انحراف، ان کی دست کاری ان کا بھی وجود رہا اور ان کا ارتقا ہوتا تھا۔

    شاعر ادیب ، فن کار اس طبقاتی سماج سے باہر نہیں تھا۔ دربار اور استحصال کرنے والے طبقوں سے وابستگی اسے کبھی ایک طرف کو کھینچتی تھی، کبھی وہ عوامی محنت کش طبقوں سے وابستگی محسوس کرتا تھا (جن کا بیشتر وہ ایک فرد ہوتا تھا) کبھی وہ اس گم شدہ جنت، کھوئی ہوئی اجتماعیت کے خواب دیکھتا تھا، جب سب انسان مفلس سہی، لیکن برابر تھے، اور کبھی وہ یہ سوچتا تھا کہ مصائب اور مظالم کا یہ لامتناہی سلسلہ شاید موت کے بعد، کسی دوسری زندگی میں ختم ہوجائے گا اور دنیا کے جہنم سے نکل کر اسے ایسی جنت میں پناہ ملے گی، جہاں ظلم، جھوٹ غرور اور نخوت، نفرت، حسد، جنگ اور خونریزی کا نام و نشان نہ ہوگا، اور انسان امن، محبت، عیش و عشرت کے ماحول میں ابدی زندگی گزار سکیں گے۔

    سماج کی طبقاتی کش مکش: سرمایہ داری کے جدید نظام میں، جو انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد رفتہ رفتہ امپریالزم کی شکل میں ساری دنیا پر حاوی ہوگیا، اگر ایک طرف دنیا کو انواع اقسام کی مادی ضرورتوں کو پوری کرنے والی اشیا سے بھر دیا، اور جس کی وجہ سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی غیرمعمولی اور تیز رفتار ترقی ہوئی، اور جس کے سبب سے بڑی مشینی صنعتوں میں اجتماعی طور سے کام کرنے والا، نیا صنعتی محنت کشوں کا طبقہ وجود میں آیا، جس کا اس کے پہلے کے جاگیری یا تاجر سرمایہ دار معیشت میں وجود نہیں تھا، تو دوسری طرف سرمایہ داری نے سماج کی طبقاتی کش مکش، محکوم اور حاکم استعماری ملکوں کی کش مکش کو بہت زیادہ تیز کر دیا، اور ایسے معاشرتی حالات اور کیفیتیں پیدا کیں جن میں بحیثیت فرد کے انسان کی بے گانگی (Alienation) کا احساس شدید اور جاں گداز بن گیا۔ یہ کیفیت بنیادی طور پر اس لیے پیدا ہوتی ہے چونکہ سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش مزدور اور اس کے عمل اور سلسلہ عمل میں بیگانگی ہوتی ہے۔ مارکس نے اس کیفیت کی تشریح یوں کی ہے:

    کام، مزدور سے علاحدہ ہوتا ہے، یعنی وہ اس کی فطرت کا حصہ نہیں ہوتا، نتیجہ کے طور پر وہ کام کرکے یہ نہیں محسوس کرتا کہ اپنی تکمیل کر رہا ہے، بلکہ وہ اسے ایک قربانی سمجھتا ہے، اسے اپنی لاچاری کا نہ کہ خوش حالی کا احساس ہوتا ہے، اس کے ذریعہ سے اس کا جسمانی اور ذہنی فروغ نہیں ہوتا، بلکہ وہ جسمانی طور سے تھکاوٹ اور ذہنی طور سے گراوٹ محسوس کرتا ہے۔ اس وجہ سے صرف اپنے فرصت کےاوقات میں مزدور اطمینان محسوس کرتا ہے، کام کے اوقات میں اسے اپنی بے نوائی کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا کام اس کی مرضی کا نہیں، وہ اسے کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ہے، کام خود اس کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ایک وسیلہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ اپنی دوسری ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ کام کی یہ بے گانہ خصوصیت اس بات سے صاف طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ جب کوئی جسمانی یا دوسری مجبوری نہیں ہوتی تب وہ طاعون کی طرح اس سے گریز کرتا ہے۔ اور آخر میں کام کی بے گانہ خصوصیت اس بات سے بھی صاف ظاہر ہوتی ہے کہ کام خود اس کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور کے لیے ہے، یعنی کام کرتے وقت وہ اپنا مالک نہیں ہوتا، کسی دوسرے شخص کا محکوم ہوتا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے مذہب میں، انسانی تخیل کے عمل، یعنی انسانی دماغ اور ذہن کے عمل کا آزادانہ ردعمل ہوتا ہے، اور یہ دیوتاؤں اور شیطانوں کا ایک فرد بے گانہ عمل معلوم ہوتا ہے، اسی طرح مزدور کا عمل اس کا اپنا عمل نہیں ہوتا، اس کے برخلاف کسی دوسرے کا عمل معلوم ہوتا ہے اس کی اپنی بے ساختگی کا اتلاف ہوتا ہے۔

    دوسری جگہ بے گانگی کے متعلق مارکس نے کہا ہے: ’’مزدور، شے (جسے وہ بناتا ہے) میں اپنی جان لگا دیتا ہے، اس طرح اس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس شے کی ملکیت ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ جتنا زیادہ عمل کرتا ہے، اتنا ہی کم اس کی ملکیت ہوتی ہے۔ اس کے عمل سے بنی ہوئی شے میں جتنا زیادہ اس کا عمل ہوتا ہے، وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتا۔ چنانچہ یہ شے جتنی بڑی ہوگی اتنا ہی وہ خود کم ہوگا۔ اس کی بنائی ہوئی شے سے مزدور کی یہ بے گانگی، نہ صرف اس کے عمل کو ایک شے بناتی ہے، یہ شے، اس سے علاحدہ اپنی ایک مطلق ہستی رکھنے لگتی ہے۔ اس کا وجود اس کی ہستی سے باہر ہوتا ہے، اس سے بے گانہ ہوتا، اور یہ ایک خود مختار قوت بن کر اس کی مخالفت میں سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اپنی جان جو اس نے اس شے میں لگائی ہے۔ اب ایک بے گانہ اور مخالف قوت بن کر اس کے سامنے آن کھڑی ہوتی ہے۔‘‘

    سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی: اس نفسیاتی بے گانگی کے ساتھ ساتھ جدید عہد کی بعض دوسری خصوصیتوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ہمارا زمانہ سائنس اور ٹکنالوجی کی غیر معمولی اور تیز رفتار ترقی کا زمانہ ہے۔ جن کی مدد سے اور جن کو استعمال میں لاکر انسانوں کے بڑے بڑے گروہوں نے، افلاس، بیماریوں اور بہت سی دوسری محرومیوں سے، جو قبل کے زمانوں میں انسانوں کی قسمت تھی، نجات حاصل کرلی ہے۔ اور اس کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ ساری نوع انسان کو تکلیف دہ مشقت، افلاس، بیماری، ناخواندگی، پس ماندگی سے چھٹکارا دلا کر مادی خوش حالی فراہم کی جاسکے۔ ترقی کی اس تیز رفتاری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ممالک متحدہ امریکا کے ایک سائنسی ادارے کےصدر گل برٹ وڈمین نے کہا ہے؛

    ’’۱۹۵۰-۵۶ء کے درمیان سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں علم کی مقدار دگنی ہوگئی، اور غالباً اس کے بعد کی مدت میں پھر دگنی ہوگئی۔ اس وقت جن اشیاء کی پیداوار ہو رہی ہے، ان میں سے پچاسی فیصدی ایسی ہیں جو ۱۹۵۶ء میں تجرباتی مرحلے میں بھی نہیں تھیں۔ دنیا میں اس وقت جتنے سائنس داں اور انجینئر زندہ ہیں، وہ پوری انسانی تاریخ کے نوے فیصد ہیں۔‘‘

    یہ بات گزشتہ سال کہی گئی تھی (۱۹۶۷) اور میں نہیں کہہ سکتا کہ مسٹروڈمین کا یہ تخمینہ صحیح ہے یا نہیں، پھر بھی اگر اس تخمینے میں کسی قدر مبالغہ سےبھی کام لیا گیا ہے، فی الجملہ ایسے عہد کی غیرمعمولی تیز رفتار ترقی سے انکار نہیں کیا جاسکتا، جب انسان کے قبضے میں ایٹمی اور نیوکلیائی طاقت آگئی ہے اور اس کا استعمال بھی شروع ہوگیا ہے، اور جب آٹومیشن، الکٹرونک مشینوں اور سائبرٹیکنکس کا استعمال صنعتی اعتبار سے ترقی یافتہ ملکوں میں پھیلتا جارہا ہے، اور ان کے ذریعہ سے گنتی کے افراد، اتنا کام کرسکتے ہیں جو پہلے سیکڑوں ہزاروں آدمی کرتے تھے، اور جب انسان ارضی بندش کو توڑ کر خلا اور بیرونی خلا میں پرواز کرنے لگا ہے، جب چاند اور زہرہ پر اس نے اپنی نشانیاں اتار دی ہیں۔

    یقینی یہ تبدیلیاں اتنی بڑی اور بنیادی ہیں کہ ان سے پوری نوع انسانی، معیشت، معاشرت اور اس کے سبب سے انسانوں کی نفسیات، ان کے اجتماعی اور انفرادی تعلقات، فن اور آرٹ اور ادب پر گہرا اثر پڑے گا، اور اس وقت بھی پڑ رہا ہے، لیکن قبل اس کے کہ ہم اس کا ذکر کریں، اس تصویر کے ایک دوسرے پہلو پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔

    تصویر کا دوسرا رخ: ٹھیک ایسے زمانے میں جب انسان کے علم اور اس کی عملی صلاحیت نے اتنی زبردست ترقی کی ہے کہ اس دنیا کو جنت بنانے کی حقیقی صلاحیت رکھتے ہیں، ٹھیک اسی زمانے میں اور اس تابناک امکان اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ پوری نوع انسانی کی نیوکلیائی بربادی اور ہلاکت، یعنی اس دنیا کو یکایک، چند گھنٹوں کے ہی اندر ایٹمی خاک کے جہنم اور تہذیب و تمدن کی ہیبت ناک تباہی کا خطرہ بھی ہمارے سروں پر منڈلانے لگا ہے۔ وہ طاقت جو اس کرۂ خاکی اور اس پر بسنے والی مخلوق کو لامحدود خوش حالی دے سکتی ہے، اس کا ہی علم اور نیوکلیائی آلات حرب کی شکل ہے، اس کا ذخیرہ، اگر نیوکلیائی جنگ چھڑ جائے، تو ماہروں کے اندازے کے مطابق پوری نوع انسانی، اس کی تمام بستیوں، آبادیوں، تمام تمدنی اور تہذیبی مظاہر کو ایک بار نہیں، بیس مرتبہ مکمل طور سے ہلاک و برباد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ انسانی زندگی کے موجودہ بڑے اور بنیادی تضادات جن کا ہم نے ابھی ذکر کیا، یعنی ایک طرف بڑی مشینی صنعت، سائنس اور ٹکنالوجی کی غیرمعمولی ترقی، یعنی نئے وسائل و ذرائع پیدا وار کی دریافت اور ان کی وجہ سےانسانی سماج کی غیر معمولی ترقی، دوسری طرف سرمایہ دار دنیا میں ان وسائل و ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت، استعمار، اجارہ داری، نوآبادیاتی نظام اور نوآبادیاتی اور استعماری جنگیں، اور عالم گیر نیوکلیائی ہلاکت کا خطرہ، اس کا متقاضی ہے کہ ان تضادات کو حاصل کرکے نوع انسانی کے راستے سے اس کی لامحدود ترقی کے راستے کی رکاوٹوں کو جلد از جلد دور کیا جائے، اور ایک نظام معاشرت کی تشکیل کی جائے، جس کی موجودہ اجتماعی محنت خود متقاضی ہے، اور جس کی عملی شکل کے ابتدائی نقوش ہمیں دنیا کے ایک تہائی سوشلسٹ حصے میں نظر آنے لگے ہیں، دنیا کا وہ حصہ جہاں ذرائع اور وسائل پیداوار پر ذاتی منافع خور ملکیت کو ختم کر دیا گیا ہے، جہاں محنت کش طبقہ ذرائع و وسائل پیداوار کا مالک اور مختار ہے اور جہاں ریاست کا نظم و نسق محنت کش طبقوں کے ہاتھ میں ہے۔

    لیکن جیسا کہ قدیم اور جدید عہد دونوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے، استحصال کرنے والے حکمراں طبقے، اس وقت بھی جب تاریخ کی جانب سے ان کو موت کا پروانہ مل چکتا ہے، اور جب ان کا وجود نئی ترقی پذیر قوتوں اور طبقات کے راستے میں ایک ناقابل برداشت رکاوٹ بن چکا ہوتا ہے، خود بہ خود، اپنے انجام کا ادراک حاصل کر کے پُرامن طریقے سے سیاست اور معاشرت کے اسٹیج سے ہٹ کر پس پردہ نہیں چلے جاتے، انھیں بے دخل کرنے کے لیے زندگی کی ترقی کےعلم بردار طبقوں اور گروہوں کو سخت انقلابی جدوجہد کرنا ہوتی ہے، اور یہ جدوجہد محض سیاسی یا معاشی میدان میں نہیں، بلکہ نظریاتی، فلسفیانہ، ادبی اور فنی محاذوں پر بھی جاری ہوتی ہے۔


    (نام ور ادیب، انقلابی فکر و نظریہ کے حامل سماجی دانش ور اور مارکسسٹ سجاد ظہیر کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • 7 نومبر: بالشویک انقلاب اور ادب

    7 نومبر: بالشویک انقلاب اور ادب

    انقلابِ‌ روس اور اس کے بعد سوویت یونین کا انجام بلاشبہ تاریخ کے دو عظیم واقعات ہیں جن کا اس خطّے پر ہی نہیں دنیا پر گہرا اثر پڑا اور کئی تبدیلیوں کا سبب بنا۔ 1917ء میں زارِ روس کی حکومت آج ہی کے روز ختم کر دی گئی تھی۔ اسے بالشویک انقلاب یا اکتوبر انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔

    اس انقلاب کی قیادت لینن کر رہا تھا جس نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے زارِ روس کا تختہ الٹ کر دنیا میں مزدور اور محکوم طبقات کی پہلی حکومت قائم کی۔ لینن انیسویں صدی کے عظیم فلسفی، معیشت دان اور انقلابی کارل مارکس کا معتقد تھا۔ کارل مارکس چاہتا تھا کہ روس میں سرمایہ دارانہ نظام ختم ہو اور اس کے مقابلہ معاشی مساوات قائم ہو اور سماجی ڈھانچے میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں۔ مارکس کا فلسفہ کہتا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام اپنے ہی سماجی ڈھانچے اور متوسط طبقے کا طرزِ زندگی تباہ کر دیتا ہے۔ اِس کے انقلابی فلسفہ سے متاثر ہو کر لینن نے روس میں انقلاب کے لیے آواز بلند کی تھی اور اس کی جدوجہد کام یاب ہوگئی۔

    روس میں تبدیلی کی ابتدا 1905ء سے ہوئی اور آہستہ آہستہ انقلاب کی خواہش پورے ملک کے مزدور پیشہ افراد اور پسے ہوئے طبقات کے دل میں‌ ہمکنے لگی۔ وہ سامراجی حکومت کے خلاف صف آراء ہو گئے جس کے نتیجے میں 1917 سے 1919 کے درمیان میں انقلابی جدوجہد مکمل ہوئی۔

    روس کے آخری شہنشاہ نکولس دوم تھے جنھیں ان کی بیوی اور پانچ اولادوں سمیت انقلاب کے بعد قتل کر دیا گیا۔ یہ 1918 کا واقعہ ہے۔

    انسانی سماج میں طبقات میں منقسم ہونے کے بعد سے یہ محنت کشوں کی سب سے فیصلہ کن فتح تھی۔ بالشویکوں نے بادشاہت کے خلاف سماج کی اکثریت کی حاکمیت کو قائم کیا۔ یہ مارکسی روح کے مطابق ایسا انقلاب تھا جس کے بعد محنت کشوں کو اقتدار مل گیا۔ لینن نے دسمبر 1917ء میں لکھا، ”آج کے اہم ترین فرائض میں یہ شامل ہے کہ محنت کشوں کی آزادانہ پیش قدمی کو پروان چڑھایا جائے۔ اسے ہر ممکن حد تک وسیع کر کے تخلیقی تنظیمی کام میں تبدیل کیا جائے۔ ہمیں ہر قیمت پر اس پرانے، فضول، وحشی اور قابل نفرت عقیدے کو پاش پاش کرنا ہو گا کہ صرف نام نہاد اعلیٰ طبقات، امرا اور امرا کی تعلیم و تربیت پانے والے ہی ریاست کا نظام چلا سکتے ہیں اور سوشلسٹ سماج کو منظم کرسکتے ہیں۔“

    انقلاب کے لیے جدوجہد تو بڑے عرصے سے جاری تھی مگر اس کا فوری اثر پہلی جنگِ عظیم میں روس کی شکست کے بعد ہوا تھا۔ اس سے قبل بادشاہت میں عوام اپنی محرومیوں اور مشکلات پر آواز اٹھانے لگے تھے جسے کچلنے کے لیے زارِ روس کے وفادار سپاہی ہر قسم کا ظلم اور جبر روا رکھتے تھے۔ جنگِ عظیم میں شکست کے بعد غربت، بھوک اور طرح طرح کے مسائل نے عوام کو لینن کی قیادت میں نکولس دوم کو تخت و تاج سے محروم کرنے پر آمادہ کرلیا اور وہاں حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ لینن کا خیال تھا کہ روس کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے نظام کو بدلنا ضروری ہے اور یہی کیا گیا۔

    انقلابِ روس کے اس مختصر بیان کے بعد یہاں ہم پاک و ہند کے ممتاز ادیب، نام وَر انقلابی اور مارکسی دانش وَر سجّاد ظہیر کی وہ تحریر نقل کررہے ہیں‌ جس میں انھوں نے مشرقی اقوام اور اردو ادب پر اس انقلاب کے اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔

    سجّاد ظہیر لکھتے ہیں: "انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔”

    "ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔”

    "چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔”

    "اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔”

    "جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔”

    "ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔”

    "اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔”

    "ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔”

    "انقلابِ روس (نومبر1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)۔

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا تھا۔”

    "یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرۂ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار "الہلال” میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں الہلال کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی (جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے۔ اور مولانا حسرت موہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔”

    "عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ ردود کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انہوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔”

    "کیا اچھا ہو اگر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جو ان کے اخبار ‘روزانہ ہند’ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی اس قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابلِ دید ہوگا جو انہوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب دست یاب نہیں ہوتا۔”

    "چند سال پیشتر ‘سوویت دیس’ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلابِ روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔”

    "بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مارکسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرتسر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکارام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشتراکی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے، تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔”

    "غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن 1945ء یا 1946ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے، اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہوگئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انہوں نے تحریر کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔”

    "1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ 1935ء میں ‘انجمن ترقی پسند مصنفین’ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے ‘انجمن ترقیٔ اردو ہند’ کے رسالے ‘اردو’ میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظریے کے متعلق اپنا طویل مضمون شائع کیا۔”

    "اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکسی دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہرحال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اوّلیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔”

    "لاہور کے رسالے ‘ادبِ لطیف’ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انہوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ 1938ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبطِ حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہنامہ ‘نیا ادب’ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکس ازم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔”

    "اردو کا شعری ادب تو کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی ادب بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن چندر کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تاہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرزِ فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں جن پر اشتراکی فلسفۂ حیات کا اثر تھا۔”

    "1942ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ‘قومی جنگ’ (جس کا نام بعد کو ‘نیا زمانہ’ ہو گیا)، شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گو یہ ایک سیاسی پرچہ تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ۔ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی ،سجاد ظہیر وغیرہ)۔”

    "اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ‘قومی دارُ الاشاعت’ کے نام سے قائم کیا گیا۔”

    "اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ "کمیونسٹ مینی فسٹو”، "سوشلزم” اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندوستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو 1958ء تک قائم رہا۔”

    "تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا۔ اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عارضی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب ‘سرمایہ’ (داس کیپٹل) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشتراکی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہنودستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔”

    "اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں، مسکیم گورکی شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چنخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہ کار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں، لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئے ہیں، یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہورہا ہے۔”

    "ہم امید کرتے ہیں کہ یہ زمانہ گزرنے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرے گا، کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی اور زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔”

    (سجّاد ظہیر کی کتاب مضامینِ سجّاد ظہیر سے انتخاب)

  • گرمیوں کی ایک رات

    منشی برکت علی عشاء کی نماز پڑھ کر چہل قدمی کرتے ہوئے امین آباد پارک تک چلے آئے۔

    گرمیوں کی رات، ہوا بند تھی۔ شربت کی چھوٹی چھوٹی دکانوں کے پاس لوگ کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ لونڈے چیخ چیخ کر اخبار بیچ رہے تھے، بیلے کے ہار والے ہر بھلے مانس کے پیچھے ہار لے کر لپکتے۔ چوراہے پر تانگہ اور یکہ والوں کی لگاتار پکار جاری تھی۔

    ’’چوک! ایک سواری چوک! میاں چوک پہنچا دوں!‘‘

    ’’اے حضور کوئی تانگہ وانگہ چاہیے؟‘‘

    ’’ہار بیلے کے! گجرے موتیے کے!‘‘

    ’’کیا ملائی کی برف ہے۔‘‘

    منشی جی نے ایک ہار خریدا، شربت پیا اور پان کھا کر پارک کے اندر داخل ہوئے۔ بنچوں پر بالکل جگہ نہ تھی۔ لوگ نیچے گھاس پر لیٹے ہوئے تھے۔ چند بے سُرے گانے کے شوقین ادھر ادھر شور مچا رہے تھے، بعض آدمی چپ بیٹھے دھوتیاں کھسکا کر بڑے اطمینان سے اپنی ٹانگیں اور رانیں کھجانے میں مشغول تھے۔ اسی دوران میں وہ مچھروں پر بھی جھپٹ جھپٹ کر حملے کرتے جاتے تھے۔

    منشی جی چونکہ پا جامہ پوش آدمی تھے انھیں اس بد تمیزی پر بہت غصہ آیا۔ اپنے جی میں انھوں نے کہا کہ ان کم بختوں کو کبھی تمیز نہ آئے گی، اتنے میں ایک بنچ پر سے کسی نے انھیں پکارا۔

    ’’منشی برکت علی!‘‘

    منشی جی مڑے۔ ’’اخاہ لالہ جی آپ ہیں، کہیے مزاج تو اچھے ہیں!‘‘

    منشی جی جس دفتر میں نوکر تھے لالہ جی اس کے ہیڈ کلرک تھے۔ منشی جی ان کے ماتحت تھے۔ لالہ جی نے جوتے اتار دیے تھے اور بنچ کے بیچوں بیچ پیر اٹھا کر اپنا بھاری بھرکم جسم لیے بیٹھے تھے۔ وہ اپنی توند پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے ساتھیوں سے جو بنچ کے دونوں کونوں پر ادب سے بیٹھے ہوئے تھے چیخ چیخ کر باتیں کر رہے تھے۔ منشی جی کو جاتے دیکھ کر انھوں نے انھیں بھی پکار لیا۔ منشی جی لالہ صاحب کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    لالہ جی ہنس کے بولے، ’’کہو منشی برکت علی، یہ ہار وار خریدے ہیں کیا، ارادے کیا ہیں؟‘‘ اور یہ کہہ کر زور سے قہقہہ لگا کر اپنے دونوں ساتھیوں کی طرف داد طلب کرنے کو دیکھا۔ انھوں نے بھی لالہ جی کا منشا دیکھ کر ہنسنا شروع کیا۔

    منشی جی بھی روکھی پھیکی ہنسی ہنسے، ’’جی ارادے کیا ہیں، ہم تو آپ جانیے غریب آدمی ٹھہرے، گرمی کے مارے دم نہیں لیا جاتا، راتوں کی نیند حرام ہو گئی، یہ ہار لے لیا شاید دو گھڑی آنکھ لگ جائے۔‘‘

    لالہ جی نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہنسے، ’’شوقین آدمی ہو منشی‘‘ کیوں نہ ہو!‘‘ اور یہ کہہ کر پھر اپنے ساتھیوں سے گفتگو میں مشغول ہو گئے۔

    منشی جی نے موقع غنیمت جان کر کہا، ’’اچھا لالہ جی چلتے ہیں، آداب عرض ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر آگے بڑھے۔ دل ہی دل میں کہتے تھے کہ دن بھر کی گھس گھس کے بعد یہ لالہ کمبخت سر پڑا۔ پوچھتا ہے ارادے کیا ہیں! ہم کوئی رئیس تعلق دار ہیں کہیں کے کہ رات کو بیٹھ کر مجرا سنیں اور کوٹھوں کی سیر کریں، جیب میں کبھی چونی سے زیادہ ہو بھی سہی، بیوی، بچے، ساٹھ روپیہ مہینہ، اوپر سے آدمی کا کچھ ٹھیک نہیں، آج نہ جانے کیا تھا جو ایک روپیہ مل گیا۔ یہ دیہاتی اہل معاملہ کمبخت روز بروز چالاک ہوتے جاتے ہیں۔ گھنٹوں کی جھک جھک کے بعد جیب سے ٹکا نکالتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ غلام خرید لیا، سیدھے بات نہیں کرتے۔ کمینہ نیچے درجے کے لوگ ان کا سر پھر گیا ہے۔ آفت ہم بیچارے شریف سفید پوشوں کی ہے۔ ایک طرف تو نیچے درجے کے لوگوں کے مزاج نہیں ملتے، دوسری طرف بڑے صاحب اور سرکار کی سختی بڑھتی جاتی ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے کا ذکر ہے، بنارس کے ضلع میں دو محرر بیچارے رشوت ستانی کے جرم میں برخواست کر دیے گئے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے غریب بیچارہ پستا ہے، بڑے افسر کا بہت ہوا تو ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہو گیا۔

    ’’منشی جی صاحب۔‘‘ کسی نے بازو سے پکارا۔ جمن چپراسی کی آواز۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو جمن۔‘‘

    مگر منشی جی چلتے رہے رکے نہیں۔ پارک سے مڑ کر نظیر آباد میں پہنچ گئے۔ جمن ساتھ ساتھ ہو لیا۔ دبلے پتلے، پستہ قد، مخمل کی کشتی نما ٹوپی پہنے، ہار ہاتھ میں لیے، آگے آگے منشی جی اور ان سے قدم دو قدم پیچھے چپراسی جمن۔

    منشی جی نے سوچنا شروع کیا کہ آخر اس وقت جمن کا میرے ساتھ ساتھ چلنے میں کیا مقصد کیا ہے۔

    ’’کہو بھئی جمن، کیا حال ہے۔ ابھی پارک میں ہڈ کلارک صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ بھی گرمی کی شکایت کرتے تھے۔‘‘

    ’’اجی منشی جی کیا عرض کروں، ایک گرمی صرف تھوڑی ہے مارے ڈالتی ہے، ساڑھے چار پانچ بجے دفتر سے چھٹی ملی۔ اس کے بعد سیدھے وہاں سے بڑے صاحب کے ہاں گھر پر حاضری دینی پڑی۔ اب جا کر وہاں سے چھٹکارا ہوا تو گھر جا رہا ہوں، آپ جانیے کہ دس بجے صبح سے رات کے آٹھ بجے تک دوڑ دھوپ رہتی ہے، کچہری کے بعد تین دفعہ دوڑ دوڑ کر بازار جانا پڑا۔ برف، ترکاری، پھل سب خرید کے لاؤ اور اوپر سے ڈانٹ الگ پڑتی ہے، آج داموں میں ٹکا زیادہ کیوں ہے اور یہ پھل سڑے کیوں ہیں۔ آج جو آم خرید کے لے گیا تھا وہ بیگم صاحب کو پسند نہیں آئے، واپسی کا حکم ہوا۔ میں نے کہا حضور! اب رات کو بھلا یہ واپس کیسے ہوں گے، تو جواب ملا ہم کچھ نہیں جانتے کوڑا تھوڑی خریدنا ہے۔ سو حضور یہ روپیہ کے آم گلے پڑے، آم والے کے ہاں گیا تو ایک تُو تُو میں میں کرنی پڑی، روپیہ آم بارہ آنے میں واپس ہوئے، چونی کو چوٹ پڑی مہینہ کا ختم، اور گھر میں حضور قسم لے لیجیے جو سوکھی روٹی بھی کھانے کو ہو۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں اور کون سا منہ لے کر جورو کے سامنے جاؤں۔‘‘

    منشی جی گھرائے آخر جمن کا منشا اس ساری داستان کے بیان کرنے سے کیا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ غریب تکلیف اٹھاتے ہیں اور بھوکے مرتے ہیں۔ مگر منشی جی کا اس میں کیا قصور؟ ان کی زندگی خود کون بہت آرام سے کٹتی ہے، منشی جی کا ہاتھ بے ارادہ اپنی جیب کی طرف گیا۔ وہ روپیہ جو آج انھیں اوپر سے ملا تھا صحیح سلامت جیب میں موجود تھا۔

    ’’ٹھیک کہتے ہو میاں جمن، آج کل کے زمانے میں غریبوں کی مرن جسے دیکھو یہی رونا روتا ہے، کچھ گھر میں کھانے کو نہیں۔ سچ پوچھو تو سارے آثار بتاتے ہیں کہ قیامت قریب ہے۔ دنیا بھر کے جعلیے تو چین سے مزے اڑاتے ہیں اور جو بیچارے اللہ کے نیک بندے ہیں انھیں ہر قسم کی مصیبت اور تکلیف برداشت کرنی ہوتی ہے۔ ‘‘

    جمن چپ چاپ منشی جی کی باتیں سنتا ان کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ منشی جی یہ سب کہتے تو جاتے تھے مگر ان کی گھبراہٹ بھی بڑھتی جاتی تھی۔ معلوم نہیں ان کی باتوں کا جمن پر کیا اثر ہو رہا تھا۔

    ’’کل جمعہ کی نماز کے بعد مولانا صاحب نے آثارِ قیامت پر وعظ فرمایا، میاں جمن سچ کہتا ہوں، جس جس نے سنا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ بھائی دراصل یہ ہم سب کی سیاہ کاریوں کا نتیجہ ہے، خدا کی طرف سے جو کچھ عذاب ہم پر نازل ہو وہ کم ہے۔ کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں؟ اس سے کم قصور پر اللہ نے بنی اسرائیل پر جو جو مصیبیں نازل کیں ان کا خیال کر کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں مگر وہ تو تم جانتے ہی ہوگے۔‘‘

    جمن بولا، ’’ہم غریب آدمی منشی جی، بھلا یہ سب علم کی باتیں کیا جانیں، قیامت کے بارے میں تو میں نے سنا ہے مگر حضور آخر یہ بنی اسرائیل بیچارے کون تھے۔‘‘

    اس سوال کو سن کر منشی جی کو ذرا سکون ہوا۔ خیر غربت اور فاقے سے گزر کر اب قیامت اور بنی اسرائیل تک گفتگو کا سلسلہ پہنچ گیا تھا۔ منشی جی خود کافی طور پر اس قبیلے کی تاریخ سے واقف نہ تھے مگر ان مضمونوں پر گھنٹوں باتیں کر سکتے تھے۔

    ’’ایں! واہ میاں جمن واہ، تم اپنے کو مسلمان کہتے ہو اور یہ نہیں جانتے کہ بنی اسرائیل کس چڑیا کا نام ہے۔ میاں سارا کلام پاک بنی اسرائیل کے ذکر سے تو بھرا پڑا ہے۔ حضرت موسیٰ کلیم اللہ کا نام بھی تم نے سنا ہے؟‘‘

    ’’جی کیا فرمایا آپ نے؟ کلیم اللہ؟‘‘

    ’’ارے بھئی حضر ت موسیٰ۔ مو۔۔۔ سا۔‘‘

    ’’موسا۔۔۔ وہی تو نہیں جن پر بجلی گری تھی؟‘‘

    منشی جی زور سے ٹھٹھا مار کر ہنسے۔ اب انھیں بالکل اطمینان ہو گیا۔ چلتے چلتے وہ قیصر باغ کے چوراہے تک بھی آ پہنچے تھے۔ یہاں پر تو ضرور ہی اس بھوکے چپراسی کا ساتھ چھوٹے گا۔ رات کو اطمینان سے جب کوئی کھانا کھا کر نماز پڑھ کر، دم بھر کی دل بستگی کے لیے چہل قدمی کو نکلے، تو ایک غریب بھوکے انسان کا ساتھ ساتھ ہو جانا، جس سے پہلے کی واقفیت بھی ہو، کوئی خوش گوار بات نہیں۔ مگر میاں جی آخر کرتے کیا؟ جمن کو کتّے کی طرح دھتکار تو سکتے نہ تھے کیوں کہ ایک تو کچہری میں روز کا سامنا، دوسرے وہ نیچے درجے کا آدمی ٹھہرا، کیا ٹھیک، کوئی بدتمیزی کر بیٹھے تو سرِ بازار خواہ مخواہ کو اپنی بنی بنائی عزت میں بٹہ لگے۔ بہتر یہی تھا کہ اب اس چوراہے پر پہنچ کر دوسری راہ لی جائے اور یوں اس چھٹکارا ہو۔

    ’’خیر، بنی اسرائیل اور موسیٰ کا ذکر میں تم سے پھر کبھی پوری طرح کروں گا، اس وقت تو ذرا مجھے ادھر کام سے جانا ہے۔ سلام میاں جمن۔‘‘

    یہ کہہ کر منشی جی قیصر باغ کے سینما کی طرف بڑھے۔ منشی جی کو یوں تیز قدم جاتے دیکھ کر پہلے تو جمن ایک لمحہ کے لیے اپنی جگہ پر کھڑا کا کھڑا رہ گیا، اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ آخر کرے تو کیا کرے۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے اس کی آنکھیں ایک بے معنی طور پر ادھر ادھر مڑیں۔ تیز بجلی کی روشنی، فوّارہ، سینما کے اشتہار، ہوٹل، دکانیں، موڑ، تانگے، یکے اور سب کے اوپر تاریک آسمان اور جھلملاتے ہوئے ستارے غرض خدا کی ساری بستی۔

    دوسرے لمحہ میں جمن منشی جی کی طرف لپکا۔ وہ اب کھڑے سینما کے اشتہار دیکھ رہے تھے اور بے حد خوش تھے کہ جمن سے جان چھوٹی۔

    جمن نے ان کے قریب پہنچ کر کہا، ’’منشی جی!‘‘

    منشی جی کا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ ساری مذہبی گفتگو، ساری قیامت کی باتیں، سب بیکار گئیں۔ منشی جی نے جمن کو کچھ جواب نہیں دیا۔

    جمن نے کہا، ’’منشی جی اگر آپ اس وقت مجھے ایک روپیہ قرض دے سکتے ہوں تو میں ہمیشہ…‘‘

    منشی جی مڑے، ’’میاں جمن میں جانتا ہوں کہ تم اس وقت تنگی میں ہو مگر تم تو خود جانتے ہو کہ میرا اپنا کیا حال ہے۔ روپیہ تو روپیہ ایک پیسہ تک میں تمہیں نہیں دے سکتا، اگر میرے پاس ہوتا تو بھلا تم سے چھپانا تھوڑا ہی تھا، تمہارے کہنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی پہلے ہی جو کچھ ہوتا تمہیں دے دیتا۔‘‘

    باوجود اس کے جمن نے اصرار شروع کیا، ’’منشی جی! قسم لے لیجیے میں ضرور آپ کو تنخواہ ملتے ہی واپس کر دوں گا، سچ کہتا ہوں حضور اس وقت کوئی میری مدد کرنے والا نہیں۔‘‘

    منشی جی اس جھک جھک سے بہت گھبراتے تھے۔ انکار چاہے وہ سچا ہی کیوں نہ ہو تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے تو وہ شروع سے چاہتے تھے کہ یہاں تک نوبت ہی نہ آئے۔

    اتنے میں سینما ختم ہوا اور تماشائی اندر سے نکلے۔ ’’ارے میاں برکت، بھئی تم کہاں؟‘‘ کسی نے پہلو سے پکارا۔

    منشی جی جمن کی طرف سے ادھر مڑے۔ ایک صاحب موٹے تازے، تیس پینتیس برس کے۔ انگھرکھا اور دوپلی ٹوپی پہنے، پان کھائے، سگریٹ پیتے ہوئے منشی جی کے سامنے کھڑے تھے۔

    منشی جی نے کہا، ’’اخاہ تم ہو! برسوں کے بعد ملاقات ہوئی، تم نے لکھنؤ تو چھوڑ ہی دیا؟ مگر بھائی کیا معلوم آتے بھی ہوگے تو ہم غریبوں سے کیوں ملنے لگے!‘‘

    یہ منشی جی کے پرانے کالج کے ساتھی تھے۔ روپے، پیسے والے رئیس آدمی، وہ بولے،

    ’’خیر یہ سب باتیں تو چھوڑو، میں دو دن کے لیے یہاں آیا ہوں، ذرا لکھنؤ میں تفریح کے لیے چلو، اس وقت میرے ساتھ چلو تمہیں وہ مجرا سنواؤں کہ عمر بھر یاد کرو، میری موٹر موجود ہے، اب زیادہ مت سوچو، بس چلے چلو، سنا ہے تم نے کبھی نور جہاں کا گانا؟ اہا ہا ہا کیا گاتی ہے، کیا بتاتی ہے، کیا ناچتی ہے، وہ ادا، وہ پھبن، اس کی کمر کی لچک، اس کے پاؤں کے گھنگھرو کی جھنکار! میرے مکان پر، کھلے صحن میں، تاروں کی چھاؤں میں، محفل ہوگی۔ بھیروی سن کر جلسہ برخاست ہوگا۔ بس اب زیادہ نہ سوچو، چلے ہی چلو۔ کل اتوار ہے۔ بیوی! بیگم صاحبہ کی جوتیوں کا ڈر ہے، اگر ایسا ہی عورت کی غلامی کرنا تھی تو شادی کیوں کی؟ چلو بھی میاں! لطف رہے گا، روٹھی بیگم کو منانے میں بھی تو مزہ ہے۔‘‘

    پرانا دوست، موٹر کی سواری، گانا ناچ، جنت نگاہ، فردوس گوش منشی جی لپک کر موٹر میں سوار ہو لیے۔ جمن کی طرف ان کا خیال بھی نہ گیا۔ جب موٹر چلنے لگی تو انھوں نے دیکھا کہ وہ وہاں اسی طرح چپ کھڑا ہے۔

    (اس کہانی کے مصنّف ترقی پسند ادیب سجاد ظہیر نام ور فکشن رائٹر اور افسانہ نگار ہیں، انھوں نے اپنی کہانی میں ہندوستانی سماج کی ناہمواری کی بہت باریکی سے عکاسی کی ہے۔ یہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے دو افراد کی محرومیوں اور بناوٹی زندگی اور دہرے کردار کو سامنے لاتی ہے۔)

  • سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    سجاد ظہیر کا تذکرہ جن کے طفیل اردو ادب ایک نئے عہد سے آشنا ہوا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کے دامن کو متنوع موضوعات کے ساتھ وسعتِ‌ بیان اور ہمہ گیری عطا کی تھی۔ اس تحریک نے ادب اور سماج کے ہر شعبے پر گہرے اثرات مرتب کیے، لیکن بالخصوص ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور اس کی زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا اور یہ سب سید سجاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    انھیں پاک و ہند کا نام ور ادیب، انقلابی اور مارکسی دانش ور کہا جاتا ہے جو 13 ستمبر 1973ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کا انتقال ایک ادبی تقریب کے دوران ہوا جو متحدہ روس کے شہر الماتی میں منعقد ہوئی تھی۔ اردو ادب اور ترقّی پسند تحریک کی تاریخ و تذکرہ سجاد ظہیر کے بغیر ادھورا رہے گا۔

    وہ ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور افسانہ نگاری، ڈرامہ اور ناول نگاری ان کا میدان رہاط سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ اس خاندان کا اپنے علاقے میں بڑا اثرو رسوخ اور مقام تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر میں مشہور اور قابلِ‌ ذکر شخصیات کی آمدورفت رہتی تھی جس نے سجاد ظہیر کو بھی علم و ادب اور سیاست کا شعور دیا۔ وہ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم کے بعد ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے مختلف سختیاں، جبر اور ہتھکنڈے اپنا لیے تھے جس نے ہر نوجوان کی طرح سجاد ظہیر کو بھی متاثر کیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے نے ہڑتال شروع کردی اور ملوں اور کارخانوں کے ملازم سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء میں جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر نے اس کا گہرا اثر لیا۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی طور پر باشعور بنا دیا تھا۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی پیدا ہو گئی تھی۔

    انھوں نے گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹرمیڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔ 1928ء میں اوکسفرڈ کے اسی طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    بلاشبہ سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب کو ایک نیا عہد اور اہل قلم کو ایک نئی سمت دی جس نے اردو زبان و ادب کو بلندی اور ہر سطح پر مقبولیت بخشی۔

  • انقلابِ روس کی خبر….

    انقلابِ روس کی خبر….

    انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کا قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔

    اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔ ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں، ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔

    انقلابِ روس (نومبر 1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلابِ روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیان کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں، سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصّے کا اظہار ہوتا تھا۔

    (اردو کے معروف ادیب، انقلابی اور مارکسی دانشور سجاد ظہیر کے مضمون سے اقتباسات)

  • انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ‌ روس اور اردو ادب

    انقلابِ روس کا تمام اقوامِ مشرق پر گہرا اثر پڑا۔ دنیا کی پہلی مزدوروں اور کسانوں کی حکومت کے قیام، سرمایہ داری اور جاگیری نظام کے خاتمے اور روسی سلطنت میں محکوم ایشیائی اقوام کی آزادی نے مشرقی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔

    ایک نیا انقلابی فلسفہ، نیا انقلابی طریقۂ کار مثالی حیثیت سے ہمارے سامنے آیا۔ ساتھ ہی ساتھ روس کی نئی حکومت نے براہِ راست اور بالواسطہ مشرق کی ان قوموں کی مدد کرنا شروع کی جو سامراجی محکومی سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھیں۔

    چنانچہ ترکی، ایران، افغانستان نے سوویت حکومت کی پشت پناہی حاصل کر کے سامراجی جوئے کو اتار پھینکا۔ کمال اتاترک، رضا شاہ پہلوی، شاہ امان اللہ، چین کے قومی رہنما سن یات سین روسی انقلاب کے عظیم رہنما لینن سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔

    اقوامِ مشرق کے ان آزادی خواہ رہنماؤں کو احساس تھا کہ دنیا میں ایک ایسی طاقت وجود میں آگئی ہے جو نہ صرف یہ کہ سامراجی نہیں ہے بلکہ عالمی پیمانے پر سامراج کی مخالف اور محکوم اقوام کی آزادی کی طرف دار اور حمایتی ہے۔

    جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے، پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہی یہاں پر زبردست آزادی کی لہر اٹھی تھی۔ نان کوآپریشن اور خلافت کی تحریکوں میں لاکھوں ہندوستانیوں نے شریک ہو کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا تھا۔ اسی زمانے میں ہندوستان کے کئی انقلابی افغاستان سے گزر کر تاشقند پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے اکثر روسی انقلاب اور مارکسی نظریے سے متاثر ہوئے اور انہوں نے اس کی کوشش کی کہ ہندوستان میں کمیونسٹ خیالات اور کمیونسٹ طریقۂ کار کی ترویج کی جائے۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت نے ہندوستان میں مارکسی لٹریچر کی درآمد اور اس کی اشاعت پر سخت ترین پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ پھر بھی ہندوستان کے انقلابی غیر قانونی طریقے سے اس قسم کا لٹریچر حاصل کر لیتے تھے۔

    ہمارے صنعتی مرکزوں کے مزدوروں کے ایک حصے، نوجوان دانش وروں اور طلبہ میں مارکسی نظریے اور فلسفے کا مطالعہ ہونے لگا تھا۔ بمبئی، کلکتہ ، لاہور، امرتسر وغیرہ میں ایسے رسالے اور ہفتہ وار نکالے جاتے جن میں مارکسی خیالات اور روس کی انقلابی حکومت کے کارناموں، عالمی کمیونسٹ تحریک کے متعلق اطلاعات اور خبریں فراہم کی جاتیں۔ گو کہ ان رسالوں کی عمر کم ہوتی تھی پھر بھی وہ اپنا کام کر جاتے تھے۔

    اردو ادب کی ایک بہت بڑی خوش گوار خصوصیت یہ رہی ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ہر اہم موڑ، ہماری آزادی کی جدوجہد کے ہر نئے عہد کی اس نے عکاسی کی ہے۔

    ہندوستانی عوام کے دل کی دھڑکنیں، ان کی بلند ترین آرزوئیں، ان کے دکھ اور درد، ان کے ذہنی اور نفسیاتی پیچ و خم کی تصویریں ہمیں عہد بہ عہد اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔

    انقلابِ روس (نومبر1917ء) کے وقت میری عمر بہت کم تھی، لیکن لکھنؤ کے روزنامہ ‘سیارہ’ کی وہ سرخی آج تک میرے ذہن پر نقش ہے جس میں انقلاب روس کی خبر پورے صفحے پر پھیلی ہوئی، "یورپ کی لال آندھی” کے عنوان سے دی گئی تھی۔ اس روزنامے کے ایڈیٹر میرے چچا شبیر حسین قتیل مرحوم تھے۔ تھوڑے عرصے بعد "سیارہ” سے ایک بڑی ضمانت طلب کر لی گئی اور اسے اپنی اشاعت روک دینا پڑی۔ قتیل صاحب نے اس سیارہ کے آخری شمارے کو اس شعر سے شروع کیا تھا:

    مرا درد بست اندر دل اگر گویم زباں سوزد
    وگر دم در کشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد

    (ترجمہ: میرے دل میں آج ایسا درد ہے جس کا اگر بیاں کروں تو زبان جل اٹھے اور اگر نہ بولوں سانس اندر کھینچوں تو اس کا ڈر ہے کہ میری ہڈیاں جلنے لگیں)۔

    اس شعر سے برطانوی ظلم کے خلاف ہندوستانی قوم کے غم و غصے کا اظہار ہوتا تھا۔

    یہ امر بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ مارکس کے شہرۂ آفاق کمیونسٹ مینی فسٹو کا پہلا اردو ترجمہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار "الہلال” میں قسط وار شائع کیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ترجمہ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی نے کیا تھا جو اس زمانے میں الہلال کے ایڈیٹوریل اسٹاف میں کام کرتے تھے۔ مولانا ملیح آبادی (جیسا کہ بعد کو وہ کہلائے) ہمارے اس دور کے ان مفکرین اور عالموں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے سالہا سال تک اردو میں ترقی پسندی، عقلیت پسندی نیز مارکسی خیالات کی ترویج کی۔ وہ پکے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روشن خیال شخص بھی تھے۔ اور مولانا حسرت موہانی کی طرح ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اسلام اور کمیونزم میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

    عربی اور علوم دینیہ کے عالم ہونے کے علاوہ وہ ردود کے نہایت عمدہ نثر نگار اور ہمارے چوٹی کے جرنلسٹوں میں بھی تھے۔ اپنے مضامین، رسالوں اور کتابوں میں انہوں نے روسی انقلاب کے واقعات، روس کی سوویت حکومت کی پالیسیوں اور کمیونسٹ نظریات کی مسلسل بڑے سہل اور دل کش انداز میں ترویج کی۔

    کیا اچھا ہو اگر مولانا ملیح آبادی کے اس قسم کے تمام مضامین جو ان کے اخبار ‘روزانہ ہند’ (کلکتہ) میں سالہا سال شائع ہوئے اور ان کی اس قسم کی دیگر تحریروں کا ایک مجموعہ شائع کیا جائے۔ اسی طور سے مولانا حسرت موہانی کا وہ خطبۂ صدارت بھی قابلِ دید ہوگا جو انہوں نے کانپور میں منعقد کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانفرنس میں پڑھا تھا۔ افسوس کہ یہ اب دست یاب نہیں ہوتا۔

    چند سال پیشتر ‘سوویت دیس’ میں یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی کہ انقلابِ روس کے تھوڑے ہی عرصے بعد لاہور سے لینن کی حیات پر ایک چھوٹی سی کتاب اردو میں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب نہ صرف اردو میں بلکہ شاید ہندوستان میں لینن کی پہلی سوانح حیات ہے۔

    بیسویں صدی کی تیسری اور چوتھی دہائی میں اردو میں دو شخصیتوں نے مارکسی خیالات اور انقلابی کمیونسٹ تحریک کے مختلف تاریخی اور فلسفیانہ پہلوؤں پر متعدد کتابیں لکھ کر شائع کیں۔ یہ امرتسر کے اشتراکی ادیب باری اور ٹیکارام سخن ہیں۔ باری صاحب تو اشتراکی ادیب کے نام سے ہی مشہور ہو گئے۔ ہندوستان کے اردو داں مارکسی ہمیشہ ان کے ممنون احسان رہیں گے۔ گوکہ ان میں اس قدر زیادہ سہل پسندی تھی کہ مارکسزم کے مکمل فلسفیانہ نکتوں کی پیچیدگیوں کو وہ اپنی تحریروں میں حذف کر دیتے تھے، تاہم ان کی تحریروں نے ایک بہت بڑے گروہ کو متاثر کیا اور مارکسزم کا طرف دار بنایا۔

    غالباً اردو زبان میں سب سے ضخیم اور تاحال سب سے زیادہ مستند کتاب مارکسزم پر چودھری شیر جنگ کی ہے، جو سن 1945ء یا 1946ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب کارل مارکس کے سوانح حیات اور مارکسی نظریات کے متعلق ہے، اور بڑے سائز پر پانچ سو صفحوں سے زیادہ کی ہے۔ چودھری شیر جنگ دہشت پسند انقلابیوں کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انہیں عمر قید کی سزا ہوئی۔ اپنی طویل گرفتاری کے دوران وہ مارکسسٹ ہوگئے اور اسی زمانے میں یہ کتاب انہوں نے تحریر کی جسے اپنی رہائی کے بعد شائع کرایا۔

    1930ء کے بعد اردو ادب پر مارکسی نظریات اور خیالات کا اثر بہت نمایاں طور سے نمودار ہونے لگا۔ 1935ء میں ‘انجمن ترقی پسند مصنفین’ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اسی زمانے میں اختر حسین رائے پوری نے ‘انجمن ترقیٔ اردو ہند’ کے رسالے ‘اردو’ میں ادب کے انقلابی اور ترقی پسند نظریے کے متعلق اپنا طویل مضمون شائع کیا۔

    اردو تنقید میں مارکسی نقطۂ نظر کا آغاز اسی مضمون سے ہوتا ہے اور گو آج ہم کو اس مضمون میں بہت سی خامیاں اور کج رویاں نظر آتی ہیں لیکن یہ خامیاں راقم کی کم ہیں، وہ اس دور کے مارکسی دانش وروں کی عام خامیاں ہیں۔ بہرحال اردو ادب میں مارکسی تنقید کی اوّلیت اسی مضمون کو حاصل ہے۔ اس مضمون نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا ہے۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد اردو ادب پر عام طور سے مارکسی نظریات کا اثر تیزی سے پھیلا۔

    لاہور کے رسالے ‘ادبِ لطیف’ کے ایڈیٹر کچھ عرصے کے لیے فیض احمد فیض ہوئے۔ انہوں نے بھی کئی ادبی مضامین لکھے جن میں مارکسی اثر نمایاں ہے۔ 1938ء میں سردار جعفری، مجاز اور سبطِ حسن کی ادارت میں لکھنؤ سے ماہنامہ ‘نیا ادب’ شائع ہونا شروع ہوا تو گویا ترقی پسند ادیبوں کے مارکسی گروہ کا ایک باقاعدہ مرکز بن گیا۔ مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کے ابتدائی تنقیدی مضامین، جو مارکس ازم سے متاثر تھے، پہلے اسی رسالے میں شائع ہوئے۔

    اردو کا شعری ادب تو کمیونسٹ تحریک سے متاثر تھا ہی، افسانوی ادب بھی اس تحریک سے متاثر ہوا۔ یہ تاثر سب سے واضح اور دل کش شکل میں سب سے پہلے کرشن چندر کے افسانوں میں نمایاں ہوا۔ سعادت حسن منٹو گو مارکسی نہیں تھے تاہم ان پر اور راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور حیات اللہ انصاری کی نثر اور طرزِ فکر حقیقت پسندی اور انسان دوستی، آزادی خواہی کی ایک ایسی ذہنیت کو ظاہر کرتی تھیں جن پر اشتراکی فلسفۂ حیات کا اثر تھا۔

    1942ء میں بمبئی سے اردو ہفتہ وار ‘قومی جنگ’ (جس کا نام بعد کو ‘نیا زمانہ’ ہو گیا)، شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو کا پہلا ہفتہ وار تھا جو ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کے قانونی ہونے کے بعد بڑے اہتمام سے شائع ہوا۔ گو یہ ایک سیاسی پرچہ تھا۔ لیکن اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں زیادہ تر مارکسی ادیب تھے (سردار جعفری، سبط حسن، کیفی اعظمی، ظ۔ انصاری، عبداللہ ملک، کلیم اللہ، محمد مہدی ،سجاد ظہیر وغیرہ)۔

    اردو صحافت، اردو نثر اور اردو کی ترقی پسند ادبی تحریک کو اس ہفتہ وار نے بھی متاثر کیا۔ اسی ہفتہ وار کے ساتھ اردو کی مارکسی کتابوں کی اشاعت کے لیے بھی ایک ادارہ ‘قومی دارُ الاشاعت’ کے نام سے قائم کیا گیا۔

    اس ادارے نے سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ "کمیونسٹ مینی فسٹو”، "سوشلزم” اور دیگر کئی مارکسی کلاسیکی کتابیں شائع کیں۔ ہندوستان میں مارکسی ادب کی اشاعت کا یہ سب سے بڑا ادارہ تھا جو 1958ء تک قائم رہا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد ہندوستان میں اردو کتابوں کی اشاعت کا کام نسبتاً دشوار ہو گیا۔ اور پاکستان میں مارکسی خیالات کی ترویج پر پابندیاں عائد ہو گئیں۔ لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں اور عارضی طور پر اشتراکی اثرات میں بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یہ امر نہایت اہم ہے کہ گزشتہ سال پاکستان میں کارل مارکس کی بنیادی کتاب ‘سرمایہ’ (داس کیپٹل) کی پہلی جلد کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔ ادھر ماسکو کے بیرونی زبانوں کے اشاعت گھر نے روسی اور اشتراکی ادب کے اردو تراجم نہایت نفاست اور خوب صورتی سے شائع کیے ہیں اور یہ کتابیں اردو کے ہنودستانی مارکیٹ میں دست یاب ہو سکتی ہیں۔

    اب ہم اردو میں لینن کی کتابوں کے علاوہ روس کے اشتراکی ادیبوں، مسکیم گورکی شولوخوف، بورس پالی وائے، استروسکی اور روس کے کلاسیکی ادیبوں تالستائی، چنخوف، ترگنیف، دستوفسکی، لرمنتوف کے شاہ کار پڑھ سکتے ہیں۔ ان کتابوں کے ترجمے اردو ادیبوں نے کیے ہیں، لیکن وہ شائع ماسکو سے ہوئے ہیں، یقیناً اردو ادب ان سے متاثر ہورہا ہے۔

    ہم امید کرتے ہیں کہ یہ زمانہ گزرنے پر وہ اثر جو روسی انقلاب کے زمانے سے شروع ہوتا ہے، اور جو اشتراکیت کے دن بہ دن بڑھتے ہوئے اثر کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے، اردو ادب اور اس کی نثر کو اس طرح متاثر کرے گا، کہ اس میں زیادہ انسان دوستی، زیادہ حقیقت پسندی اور زیادہ فکر اور گہرائی پیدا ہو اور ہمارے وطن کی تہذیبی زندگی کو اپنے خلوص، سچائی اور تابناکی سے مالا مال کر دے۔

    (سجّاد ظہیر کی کتاب مضامینِ سجّاد ظہیر سے انتخاب)

  • یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    یومِ وفات: سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب میں نئے عہد کو جنم دیا

    ترقّی پسند تحریک نے اردو ادب کو وہ وسعتِ بیان اور ہمہ گیری عطا کی جس نے سیاست اور سماج سمیت زندگی کے ہر شعبے اور دوسری تحریکوں کو بھی متاثر کیا اور ادب میں حقیقت نگاری کے ساتھ عام آدمی اور زندگی کا ہر پہلو موضوع بنا۔ ترقّی پسند تحریک اور اس کا فروغ سیّد سجّاد ظہیر کے مرہونِ منّت تھا۔

    سیّد سجّاد ظہیر آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔ وہ 13 ستمبر 1973ء کو ایک تقریب میں شرکت کے لیے روس میں موجود تھے جہاں فرشتہ اجل گویا ان کا منتظر تھا۔ اردو ادب کی تاریخ، سجّاد ظہیر کی ترقّی پسند تحریک کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

    ترقی پسند تحریک کے روح رواں اور نام ور ادیب، ناول، افسانہ اور ڈرامہ نگار سجّاد ظہیر 5 نومبر1905ء کو لکھنؤ، یو پی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد وزیر حسن صاحبِ ثروت اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ نام وَری اور اثر و رسوخ اس خاندان کا طُرّۂ امتیاز اور اعزاز تھا۔ والد کانگریسی تھے اور گھر کی فضا سیاسی مصروفیات اور میل جول کے باعث بہت حد تک قوم پرستانہ بھی تھی۔ سجّاد ظہیر نے ابتدائی طور پر عربی اور فارسی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔

    یہ وہ وقت تھا جب ہندوستانی سیاست ہنگامہ خیز دور میں داخل ہورہی تھی اور دنیا انقلابی تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ 1917ء میں روس میں انقلاب کے اثرات ہندوستان پر بھی مرتّب ہوئے۔ اب جگہ جگہ انقلاب کی باتیں ہونے لگیں۔ برطانوی سامراج کے لیے یہ خطرناک بات تھی، چناں چہ اس نے ہندوستان پر اپنا تسلّط برقرار رکھنے کے لیے ہر قسم کے ہتھکنڈوں سے کام لینا شروع کر دیا۔

    1918 ء میں ہندوستان کے مزدور طبقے میں بے چینی انتہا کو پہنچ گئی اور جگہ جگہ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ ملوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے سڑکوں پر نکل آئے۔ 1919ء کا زمانہ تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ ہوگیا۔ نوعُمر سجّاد ظہیر بھی اُس واقعے سے بے حد متاثر ہوئے۔ گویا واقعات کا ایک تسلسل تھا، جس نے نوعمری میں سجّاد ظہیر کو سیاسی اور سماجی شعور سے آگاہی دی۔

    ان کے ایک عزیز اخبارات و رسائل اور ناولز کے شوقین تھے۔ سجّاد ظہیر ان کی کتابوں سے استفادہ کرنے لگے اور علم کے خزانے سے خوب فیض یاب ہوئے۔ یوں نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سجّاد ظہیر کو ادب سے دِل چسپی ہوگئی۔

    گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول، لکھنؤ سے 1921ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ان کا گھر سربر آوردہ سیاست دانوں، ادیبوں، شاعروں اور دانش وَروں کی آمدورفت سے گویا بھرا رہتا تھا۔ انہی سیاسی ہنگامہ خیزیوں کے دوران سجّاد ظہیر نے کرسچین کالج، لکھنؤ سے 1924ء میں انٹر میڈیٹ کیا۔ اب ان کا حلقۂ احباب وسعت اختیار کرنے لگا تھا۔ سیاسی، مذہبی، ادبی اور سماجی مباحث زندگی کا لازمی حصّہ بن چُکے تھے اور وہ خود بھی کچھ کر گزرنے کا جذبہ دِل میں رکھتے تھے۔ سماج کے امتیازات اور قوم پرستی کے جذبے کو اُسی زمانے میں اودھ کے کسانوں زمین داروں کے خلاف بغاوت نے مہیمز دی اور وہ مزدوروں کی تحریک میں دِل چسپی لینے لگے۔

    انھوں نے کمیونسٹ پارٹی کا انتخاب کیا۔ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادب کا مطالعہ اور مختلف نظریات سے لگاؤ اور زیادہ بڑھ گیا۔ 1926ء میں اے کا امتحان پاس کیا اور 1927 ء میں لندن، اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے بار ایٹ لا کی سند حاصل کی۔ اسی عرصے میں کمیونزم پر ڈھیروں کتابیں پڑھ ڈالیں۔

    1928ء میں اوکسفرڈ کے اس طالبِ علم نے جدید تاریخ اور معاشیات کا انتخاب کیا۔ 1929ء میں برطانیہ میں ہندوستانی کمیونسٹ طلبہ کا اوّلین گروپ بنا ڈالا اور جب برطانیہ نے ’’سائمن کمیشن‘‘ کا اعلان کیا، تو اس کے خلاف جلوس کی قیادت بھی کی اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔

    1932ء میں سجّاد ظہیر نے اوکسفرڈ سے بی اے کا امتحان پاس کرکے ہندوستان لوٹنے پر ’’انگارے‘‘ کے عنوان سے 9 افسانوں پر مشتمل ایک کتاب مرتّب کی۔ کتاب میں خود سجّاد ظہیر کے 5 افسانے جب کہ دیگر لکھاریوں کی تخلیقات شامل تھیں۔ یہ مجموعہ معاشرے میں مروجّہ بعض مسلّمہ مذہبی اُمور اور عقاید پر سوال اٹھانے کی کوشش متصوّر کیا گیا اور ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ یہاں تک کہ حکومت نے اس کتاب کو ضبط کرکے پابندی عائد کردی۔

    سجّاد ظہیر نے اس کے بعد اوکسفرڈ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کی سند حاصل کی اور جب دنیا بھر میں تعقّل پسند ادیب، شاعر اور دانش وَر بڑی طاقتوں کی چھوٹے ممالک کو یرغمال بنانے اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف اکٹھے ہوئے اور 1935ء میں پیرس میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا تو جیسے سجّاد ظہیر کو نئی زندگی اور مقصد مل گیا۔ اس کانفرنس میں دُنیا بَھر سے چوٹی کے ادیب اور شاعر جمع ہوئے تھے اور ایک منشور پر دست خط کرتے ہوئے عہد کیا تھا کہ ظلم و بربریت کے خلاف اپنے قلم کا بے لاگ استعمال کریں گے۔ سجّاد ظہیر بھی اس کانفرنس میں موجود تھے۔

    جب وہ پیرس سے لندن آئے، تو اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا ڈول ڈالا۔ منشور تیار ہوا، جس کے مطابق ادب کو قدامت پرستی سے نکال کر جدید عہد کے مطابق اس طرح سے ڈھالا جائے کہ وہ عوام کی آواز بنے۔

    اسی عرصے میں سجّاد ظہیر نے ناول ’’لندن کی ایک رات‘‘ بھی مکمّل کیا۔ ان کا لگایا ہوا پودا پھل پھول رہا تھا۔ 1936ء آیا تو جگہ جگہ ترقی پسند اجتماعات اور تنظیمی سرگرمیاں ہونے لگیں اور بالآخر اپریل 1936ء میں ’’انجمن ترقی پسند مصنّفین‘‘ کا پہلا مرکزی جلسہ لکھنؤ میں منعقد ہوا جس میں عظیم ادیب اور شاعروں کے علاوہ عالم فاضل شخصیات، مدبّرین نے شرکت کی۔

    سجّاد ظہیر کو انجمن کا سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ پورے برّصغیر میں اب اس تحریک کا چرچا ہونے لگا۔

    1940ء تک سجّاد ظہیر سیاسی، سماجی اور ادبی محاذ پر بہت متحرّک نظر آئے۔ انگریزوں کے خلاف اُنھوں نے ایک بہت سخت تقریر کی، جس کی پاداش میں دو برس کی قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔ رہائی کے بعد ’’قومی جنگ ‘‘ اور ’’نیا زمانہ ‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ کے طور پر کام کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں سجّاد ظہیر نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی حکمتِ عملی کے تحت پاکستان کا سفر اختیار کیا اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔ یہاں 1951ء میں ’’راول پنڈی سازش کیس‘‘ میں گرفتار ہوئے۔

    چار سالہ قید و بند کے دوران سجّاد ظہیر نے ’’ذکرِ حافظؔ‘‘ اور ’’روشنائی‘‘ تحریر کی۔ 1955ء میں رہائی ملی، تو پاکستان سے دوبارہ ہندوستان کا سفر اختیار کیا۔ ’’پگھلا نیلم‘‘ کے عنوان سے 1964ء میں ان کا ایک شعری مجموعہ بھی سامنے آیا، جب کہ تراجم اس کے علاوہ تھے۔

    سجّاد ظہیر کی ترقی پسند تحریک نے اُردو ادب میں ایک نئے عہد کو جنم دیا۔ ترقّی پسند تحریک نے ادب کی بہت سی اصناف کو متاثرکیا اور ادب کو نئی بلندی اور وسعتوں سے ہم کنار کرتے ہوئے تنوع دیا۔