Tag: سجاد علی شاہ

  • سیّد سجّاد علی شاہ: عدالتی تاریخ کے ایک متنازع منصفِ اعظم

    سیّد سجّاد علی شاہ: عدالتی تاریخ کے ایک متنازع منصفِ اعظم

    ماضی میں عدلیہ کے بعض فیصلوں کے بالخصوص پاکستان میں سیاسی عمل، جمہوریت کے تسلسل اور ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جن میں نہایت متنازع اور ایسے فیصلے شامل ہیں جن کا خمیازہ قوم کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ان کے کچھ فیصلوں کے باعث متنازع رہا ہے۔ آج سجاد علی شاہ کی برسی ہے۔ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ 7 مارچ 2017ء کو انتقال کر گئے تھے۔ ڈیفینس میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد سجاد علی شاہ کی تدفین سپر ہائی وے پر واقع وادیٔ حسین قبرستان میں کی گئی۔

    13 ویں چیف جسٹس اور اختلافات
    کسی بھی ملک میں ابتری، انتشار اور اداروں کے زوال کی ایک نشانی یہ ہے کہ قوم اپنے حال کو بدتر سمجھتی ہے اور اسے ماضی کی یاد آنے لگتا ہے۔ اس زوال و انحطاط کے اثرات ہر اہم اور بڑے ادارے پر پڑتے ہیں اور ماضی میں پاکستان میں عدلیہ کو اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا رہا ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں جلد بازی میں فیصلہ، پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کو کالعدم قرار دینا اور اکثر سپریم کورٹ کے ججوں میں عدم اتفاق اور اس کے نتیجے میں واضح تقسیم بھی نظر آتی ہے، تاہم یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے 13 ویں چیف جسٹس تھے۔ انھوں نے عدالتی تاریخ میں اپنا نام ایسے جج کے طور پر لکھوایا جنھیں انہی کے ساتھی ججوں نے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ دس رکنی بینچ تھا جس نے ایک تنازع کے بعد سجاد علی شاہ کے بطور چیف جسٹس تقرری کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا تھا۔

    پینشن اور مراعات سے محرومی
    ساتھی ججوں کے فیصلے کے بعد سیّد سجاد علی شاہ کا دور تمام ہوا اور انھیں اپنی پینشن اور مراعات سے بھی محروم ہونا پڑا۔ سجاد علی شاہ عدالت چلے گئے اور یہ 2009ء کی بات ہے۔ اس وقت چیف جسٹس کے منصب پر افتخار محمد چوہدری موجود تھے جن کی بحالی کی تحریک کو مشرف دور میں دنیا بھر میں شہرت ملی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی نے عدالت سے رجوع کرنے پر حکومت کو حکم دیا تھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو پینشن کی ادائیگی کی جائے۔

    پیدائش اور تعلیم
    سید سجاد علی شاہ کا تعلق صوبۂ سندھ سے تھا۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تاہم ان کا آبائی شہر نواب شاہ تھا۔ سجاد علی شاہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جامعۂ کراچی میں داخلہ لیا اور وہاں‌ سے قانون کی ڈگری لے کر نکلے۔ 1989ء میں وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ اس کے تقریباً ایک سال کے بعد سجاد علی شاہ کی ترقی ہوئی اور وہ سپریم کورٹ بھیجے گئے۔

    نواز حکومت کی بحالی کی مخالفت اور بے نظیر دور میں تعیناتی پر تنازع
    غلام اسحاق خان نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کا حکم دیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں صدر کے اس فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی اور حکومت کو بحال کر دیا گیا۔ یہ 11 رکنی بینچ تھا جس میں سجاد علی شاہ وہ واحد جج تھے جنھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کی تعیناتی کی منظوری دی اور اس اس وقت تنازع اٹھا جب یہ الزام لگا کہ دو سینیئر ججوں کی موجودگی میں وزیراعظم نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس تعینات کیا۔ تاہم جب صدر پاکستان فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا تو اس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس چھ رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے ان الزامات کو درست قرار دیا اور اس حکومت کی برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    ججوں سے اختلافات اور دیگر اہم واقعات
    سنہ 1997ء میں سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے دھاوا بول دیا تھا۔ فریقین میں اختلافات کی ایک وجہ چیف جسٹس کی خواہش کے برعکس خصوصی عدالتوں کا قیام بھی تھا۔ دراصل ن لیگ کو دوسری بار بھاری مینڈیٹ ملا اور اقتدار میں‌ آکر حکومت نے کئی دوسرے فیصلوں کے ساتھ ایک فیصلہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام کا کیا۔ اس پر سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلاف کے باعث بعض سیاسی بیانات سامنے آئے تھے اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی اسی دور میں‌ ہوا۔

    1997 میں میاں نواز شریف کے دور میں جب پاکستان کے آئین میں 13 ویں ترمیم کے بعد صدرِ مملکت سے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات ختم کیے گئے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت نے ان اختیارات کو بحال کر دیا۔ یہ دن ملکی تاریخ میں ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور اسی روز ایک دوسرے بینچ نے جسٹس سعید الزّمان صدیقی کی سربراہی میں ان اختیارات کو معطل کر دیا۔ اس طرح سجاد علی شاہ کو عدلیہ سے بھی ردعمل اور مخالفت دیکھنا پڑی اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اس وقت بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور مزید احکامات تک انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا اور بعد میں 10 رکنی بینچ نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔ ان فیصلوں کے بعد آئینی اور عدالتی بحران کا شور ہونے لگا اور اس پر سیاست دان اور ماہر وکلاء کی جانب سے بحث کی جاتی رہی۔

    سجاد علی شاہ کے بعد اجمل میاں چیف جسٹس بنائے گئے اور چند ماہ بعد سعید الزّمان صدیقی اس عہدے تعینات کیے گئے۔

  • سابق چیف جسٹس پاکستان سید سجاد علی شاہ انتقال کر گئے

    سابق چیف جسٹس پاکستان سید سجاد علی شاہ انتقال کر گئے

    کراچی : سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس (ریٹائرڈ) سید سجاد علی شاہ مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس (ریٹائرڈ) سجاد علی شاہ نجی اسپتال میں مختصر علالت کے بعد جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں اُن کے صاحبزادے محمد علی شاہ نے اپنے والد کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے۔

    چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے نوے کی دہائی میں 5 جون 1994 کو بہ طور چیف جسٹس آف پاکستان اپنی ذمہ داریوں کا آغاز کیا اور – 2 دسمبر 1997 تک اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے جس کے دوران کئی اہم تاریخی نوعیت کے فیصلے دیے۔

    تاہم اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے اختلافات کے باعث انہیں عہدے سے سبکدوش ہونا پڑا تھا اور اس کشیدگی کے باعث عدلیہ پر حملے کا واقعہ بھی رونما ہوا تھا۔

    سندھ سے تعلق رکھنے والے سجاد علی شاہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے وہ ایک شریف النفس اور نرم دل رکھنے والے جج تھے جنہوں نے اپنے پورے کیریئر میں عزت اور شہرت کمائی۔

    سید سجاد علی شاہ 17 فروری 1933ء کو کراچی, سندھ، پاکستان میں پیدا ہوئے۔ وہ پاکستان کے تیرہویں چیف جسٹس آف پاکستان تھے اس سے قبل 13 دسمبرانیس سو نواسی1989 سے 4 نومبر 1990 تک وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر بھی کام کرتے رہے۔

  • قطری شہزادے کی پیشی تک خط کی کوئی اہمیت نہیں، جسٹس (ر) سجاد علی شاہ

    قطری شہزادے کی پیشی تک خط کی کوئی اہمیت نہیں، جسٹس (ر) سجاد علی شاہ

    کراچی: سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا ہے کہ اگر قطری شہزادہ عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو خط کی کوئی اہمیت نہیں، عدالت میں سچ بات کرنی چاہیے، حکومت عدالتی کاموں میں مداخلت کرتی ہے اس لیے بریف کیس والے کام آج تک جاری ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے پروگرام آف دی ریکارڈ میں میزبان کاشف عباسی کی جانب سے کیے جانے والے سوالات کے جواب میں کیا۔ سجاد علی شاہ نے کہا کہ عدالت پر منحصر ہے وہ کیس کا جو بھی فیصلہ کرے، جس قطری شہزادے نے خط لکھا اُسے عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے تاہم اگر وہ پیش نہیں ہوتا تو اُس کے خط کی بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کے تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ سچ بات کریں، عدالت میں وضاحت ایسی ہونی چاہیے جس سے معلوم ہوسکے سچ اور جھوٹ میں کیا فرق ہے، پاناما کیس کے کاغذات میرے پاس بھی آئے مگر اُس میں نوازشریف کا نام نہیں بلکہ شریف خاندان کے دیگر افراد کا نام تھا۔

    سجاد علی شاہ نے کہا کہ شریف خاندان فلیٹس کی ملکیت تسلیم کرچکا ہے اب یہ عدالت میں ثبوت پیش کرنا بھی انہی پر منحصر ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالت کو آئین کے تحت اختیارات دیے گئے ہیں اور سپریم کورٹ کے پاس تمام اختیارات موجود ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار کو مزید بڑھائیں کیونکہ اسی صورت سچ تک پہنچنا ممکن ہے۔

    سابق چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت عدالتی کام میں مداخلت کرتی ہے، ماضی میں موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا تاہم جب اس کیس میں 58 ٹو بی کے اختیار کے حوالے سے عدالتی موقف پیش کیا تو اس فیصلے پر ہنگامہ کھڑا کیا گیا۔

    واضح رہے جسٹس (ر) سجاد علی شاہ  1994 سے 1997 تک چیف جسٹس کے عہد پر فائز رہے انہیں صدر پاکستان فاروق لغاری نے منتخب کیا تھا۔