Tag: سخنوری

  • "طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے!”

    "طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے!”

    کہتے ہیں شاعری سچ بولتی ہے، دلوں کے بھید کھولتی ہے۔

    خواجہ حیدر علی آتش نے بھی اپنے ایک شعر میں شاعری کو کسی مرصّع ساز کا کام قرار دیا ہے اور کہتے ہیں کہ بندشِ الفاظ نگوں کے جڑنے سے کم نہیں ہے۔

    عزم الحسنین عزمی کا تعلق پنجاب کے شہر گجرات کے گاؤں ڈوڈے سے ہے۔ وہ شاعر ہیں اور ان کا پیشہ درس و تدریس۔ شروع ہی سے کتاب دوست اور مطالعے کا شوق رہا۔ اردو ادب سے لگاؤ نے انھیں شاعری کی طرف راغب کیا اور غزل گوئی کا سفر شروع ہوا۔ شوق نے فکر اور فن کو پختگی عطا کی اور ان کا کلام مختلف ادبی جرائد میں شایع ہونے لگا۔ یہاں‌ ہم عزم الحسنین عزمی کی ایک غزل اپنے باذوق کی نذر کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    فضول زادِ سفر کو بڑھا لیا میں نے
    طلب تھی بوند کی دریا اٹھا لیا میں نے

    ہدف تو روح تھی اس تیر کا مری لیکن
    بدن پہ اپنی مہارت سے کھا لیا میں نے

    مری طلب کا مکمل نہ بن سکا چاہے
    کسی کو حسبِ ضرورت بنا لیا میں نے

    شکستہ جسم بھی چلنے لگا ہے اچھا بھلا
    بس ایک ضبط کا پرزہ نیا لیا میں نے

    قریب تھا مرا سارا بدن جلا دیتا
    پھر ایک آگ سے پانی بجھا لیا میں نے

    طویل بحث سے قائل نہ دل ہوا گاہے
    تو گاہے عقل کو پَل میں منا لیا میں نے

  • داد اور دادا!

    داد اور دادا!

    لکھنؤ میں ایک روز میر اور سودا کے کلام پر دو اشخاص میں تکرار ہو گئی۔

    دونوں خواجہ باسط کے مرید تھے۔ بحث طول پکڑ رہی تھی اور دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔ تب دونوں خواجہ باسط کے پاس پہنچے اور اپنا معاملہ ان کے سامنے رکھا۔

    ”اس پر آپ کچھ فرمائیں۔“ انھوں نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

    ”دونوں صاحبِ کمال ہیں، مگر فرق اتنا ہے کہ میر صاحب کا کلام ’آہ‘ اور مرزا صاحب کا کلام’واہ‘ ہے۔ یہ کہہ کر میر صاحب کا شعر بھی پڑھ ڈالا۔

    سرہانے میر کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے

    اس کے بعد مرزا کا شعر پڑھا۔

    سودا کی جو بالیں پہ گیا شورِ قیامت
    خدامِ ادب بولے، ابھی آنکھ لگی ہے

    ان میں سے ایک شخص، جو سودا کا طرف دار تھا، ان کے پاس پہنچا اور اپنی تکرار اور خواجہ باسط سے ملاقات کا احوال بھی بیان کر دیا۔ سودا نے جب میر کا شعر سنا تو مسکرائے اور بولے۔

    ”شعر تو میر صاحب کا ہے، مگر داد خواہی ان کے دادا کی معلوم ہوتی ہے۔“