Tag: سدرہ ایاز کا بلاگ

  • رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    رابعہ نے ‘غیرت مند’ رشتے داروں کے ہاتھوں اپنے کیے کا ‘خمیازہ’ بھگت لیا

    مصنّف:‌ سدرہ ایاز

    رابعہ کا ‘جرم’ پسند کی شادی کرنا تھا۔ اور اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ رابعہ کو مانسہرہ کے علاقے جابہ میں اس کے گھر میں قتل کردیا گیا۔ 4 اپریل کے اس درد ناک واقعے میں ‘قصور وار’ رابعہ کو ہی نہیں اس کی ڈیڑھ سالہ معصوم بیٹی کو بھی گولیاں‌ مار دی گئیں۔ معصوم بچی کو اس کا باپ اپنے کنبے کی کفالت کی خاطر اُس وقت پنگوڑے میں‌ چھوڑ گیا تھا جب وہ صرف دو ماہ کی تھی۔

    دہرے قتل کے اس واقعے کا مقدمہ درج کر کے دو ملزمان بھی دھر لیے گئے ہیں۔ مقتولہ کی ساس نے پولیس کو بتایا ہے کہ ان کی بہو سفاک اور بے رحم قاتلوں کو کہتی رہی کہ اس کی بیٹی کو کچھ نہ کہو، مگر انھیں اس معصوم پر ترس نہیں آیا اور ننھی کلی کو بھی روند کر چلے گئے۔ وہ ‘غیرت مند ‘جو تھے!

    رابعہ نے محمد عمر نامی شخص سے کورٹ میرج کی تھی کیوں کہ اس کا خاندان اس شادی پر رضا مند نہیں تھا۔ 2022 میں کورٹ میرج کے بعد یہ کنبہ کراچی میں قیام پذیر تھا اور وہیں رابعہ کے شوہر نے بہتر مستقبل کی خاطر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کی بیوی مانسہرہ میں اپنے سسرال منتقل ہو گئی اور وہیں رابعہ اور اس کی بیٹی کو رشتے داروں‌ نے قتل کردیا۔

    سوچتی ہوں کہ یہ غیرت ہمیشہ اسی وقت کیوں جاگ اٹھتی ہے جب لڑکی پسند کی شادی کے لیے گھر والوں‌ کے انکار پر مجبوراً کورٹ میرج کرتی ہے۔ عزت و آبرو اور خاندانی وقار پر دھبہ کیوں لگتا ہے جب لڑکی سنت کے مطابق نکاح کر کے زندگی کا نیا سفر شروع کرتی ہے۔ کوئی خونی رشتہ دار یا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ ایسی لڑکی کو قتل کیوں کردیتا ہے۔ اس میں بنیادی وجہِ عداوت کورٹ میرج اور سببِ شقاوت وہ غیرت ہوتی ہے جس کی تعریف اور تفہیم بھی ایسے ‘آبرو مند’ مرد من چاہی اور حسبِ خواہش ہی کرتے رہے ہیں۔

    والدین، بھائیوں، چچا ماموں یا دوسرے خونی رشتوں کو کبھی اس بات پر بھی شدید تکلیف ہوتی ہے جب خاندان میں کسی لڑکی کا جائیداد میں حق مارا جاتا ہے یا اس کے ساتھ کوئی بڑی ناانصافی کی جاتی ہے۔ کسی لڑکی کو جب ماں باپ کے انتقال کے بعد اس کے ظالم بھائی، چچا یا ماموں وغیرہ گھر سے نکال دیں اور زمین یا مال ہتھیا لیں تو کیا خاندان کا کوئی ‘غیرت مند’ اس کا مقدمہ لڑنا چاہتا ہے اور جوش میں آکر قتل جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا سکتا ہے؟ ایسا کوئی واقعہ یا خبر میں‌ نے تو نہیں سنی۔

    اسلام عورت کو پسند کی شادی کا حق دیتا اور یہ وہ بات ہے جسے کوئی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا اور نیم خواندہ شخص بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مردوں کے اس معاشرے میں چوں کہ غیرت کی تعریف، اور اس کی تفہیم کرتے ہوئے صرف مرد ہی بوقتِ ضرورت خود کو غیرت مند ثابت کر سکتا ہے، اس لیے اسلامی تعلیمات پر غور کرنے اور قانون کو سمجھنے کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔

    عربی زبان کا یہ لفظ ہمیں لغت میں ملتا ہے جس کا ایک معنی احساس عزت، عزت نفس کا لحاظ ، مقدس اور محبوب شے کا خیال رکھنا ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جلن حسد اور رقابت کا احساس بھی اسی لفظ سے جڑا ہوا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاشرہ میں کوئی انسان ان اوصاف کی بنا پر خود کو مثبت اور تعمیری سوچ کا حامل ثابت نہیں کرسکتا، اس لیے من چاہی تفہیم کی جاتی رہی ہے۔ یہ لفظ اور اس سے جڑا ہوا مخصوص تصور ہمارے خطے میں صدیوں سے عورت کو کچلتا، پامال کرتا اور اس کی جان لیتا رہا ہے اور آج کے جدید دور میں بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

    اس پدر سری معاشرے میں عورت پر آج بھی اپنی حاکمیت کی دھونس جمانے اور برتری قائم رکھنے کے لیے غیرت کے روایتی تصور کو برقرار رکھا گیا ہے۔ عورت طلاق کا مطالبہ کرے تو بھی مرد کی غیرت پر حملہ ہوتا ہے اور مرضی کی شادی کرنا چاہے تو باپ اور بھائی کی عزت اور آبرو پر حرف آتا ہے جس سے بچنے کے لیے وہ اپنی ہی بیٹی اور بہن کو قتل کر سکتے ہیں۔

    ملک میں‌ غیرت کے قانون سے متعلق دستیاب معلومات کے مطابق 2004 میں ‌حکومت نے ایسے جرائم کو حکومت کے خلاف جرم قرار دیا تھا۔ بدقسمتی سے پسند کی شادی اور دوسرے معاملات میں‌ عورت کا غیرت کے نام پر قتل بھی معافی اور خوں بہا سے منسلک رہا ہے جس کا فائدہ اسی کو ہوتا ہے جس نے خاندان کی آبرو کے نام پر عورت کا قتل کیا ہو۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اس قاتل کو مقتولہ کے دوسرے رشتے دار معاف کر دیتے ہیں اور وہ عدالت سے بری ہو جاتا ہے۔ 2016 میں اس قانون میں مزید ترامیم کی گئیں مگر اس وقت تک ترامیم میں معافی اور ازالے کی شقیں واپس نہیں لی گئی تھیں البتہ جج کی صوابدید بڑھا دی گئی تھی۔

    ہم دیکھتے ہیں‌ کہ پسند کی شادی کرنے پر قتل ہونے والی لڑکیوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں، ناخواندہ یا قبیلہ اور برادری نظام کے تحت چلنے والے خاندانوں سے ہوتا ہے۔ شہری علاقوں‌ میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں مگر ان کی شرح کم ہوسکتی ہے۔ بہرحال، اس حوالے سے سخت قوانین اور ان پر عمل درآمد یقینی بنانے کے علاوہ حکومتی سطح پر خاندانی نظام یا برادری سسٹم کی قیادت کے توسط سے لوگوں کو اس ظلم کے خلاف شعور دینے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کو سمجھانا ہوگا کہ کوئی بھی عاقل و بالغ لڑکی اپنے شریک حیات کا انتخاب خود کر سکتی ہے اور اسے پسند کی شادی کرنے کا حق اسلام نے دیا ہے۔ حکومتی وفد ایسے علاقوں میں بھیجے جائیں جہاں ان واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ اس حوالے سے کوئی جامع پروگرام ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی اراکین کی جانب سے مذمت کی جانی چاہیے اور اس کی میڈیا پر تشہیر بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لاسکتی ہے۔

    شادی جیسا اہم فیصلہ کرتے ہوئے اولاد کو چاہیے کہ اپنے والدین اور خاندان کے بزرگوں کی دعاؤں اور نیک تمناؤں کے سائے میں نئی زندگی کا آغاز کریں لیکن جب صورت حال مختلف ہو اور لڑکی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہو اور ایسی کوئی وجہ نظر نہ آتی ہو جس سے اس کا مستقبل خراب ہوسکتا ہے تو خاندان کو بھی اس کی خوشی کا احترام کرنا چاہیے۔ آخر پسند کی شادی کے بعد والدین اور گھر والے کسی لڑکی کو اپنا رشتہ نبھانے اور ازدواجی زندگی کو پائیدار بنانے میں اس کا ساتھ کیوں نہیں دے سکتے۔ کیا ایسی لڑکی سے جینے کا حق چھین لینا ہی غیرت ہے؟

  • کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

    کتنی لاشیں، کتنے زخمی… سچ کیا ہے؟

    تحریر:‌ سدرہ ایاز

    پاکستان میں‌ اس وقت صرف "سیاست” ہورہی ہے۔ اور یہ سب ان حالات میں ہورہا ہے جب ملک کی معیشت اور یہاں امن و امان کی صورتِ حال بھی خراب ہے، مگر سیاسی جماعتیں مل کر اس حوالے سے اہم فیصلے اور اقدامات کرنے کو تیار نہیں۔ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ملک کے کروڑوں عوام کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ان کی مخالف جماعت ہی دراصل ملک کی ترقی، اور عوام کی خوش حالی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ یہ سیاسی کھیل کب تک جاری رہے گا، کچھ معلوم نہیں‌۔ لیکن یہ طے ہے کہ اس کھینچا تانی اور سیاسی جماعتوں کی لڑائی میں عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    ایک جماعت کہتی ہے کہ عوام کی مشکلات کا سبب حکم رانوں کی غلط پالیسیاں اور اقدامات ہیں جب کہ دوسری جماعت اقتدار سے باہر بیٹھے ہوئے سیاست دانوں کو پرتشدد مظاہروں، احتجاج اور قانون شکنی کا مرتکب قرار دے کر عوام دشمن ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں کے بوجھ تلے دبتا جا رہا ہے اور ملکی معیشت سنبھل کر نہیں دے رہی۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ کہ عوام کو مزید ٹیکس دینا ہوگا۔ امراء اور مراعات یافتہ طبقہ تو ہمیشہ کی طرح اس سے متاثر نہیں ہوگا۔

    پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے گزشتہ ہفتے اپنے قائد کی رہائی کے لیے احتجاج کی کال دی تھی جس کے بعد حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں رکاوٹیں اور ملک کے دیگر شہروں میں بھی سیکیورٹی اہل کاروں کی بھارتی نفری تعینات کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے کارکنوں اور لیڈر کے متوالوں کا راستہ روکا جاسکے۔ اس کے باوجود مظاہرین اسلام آباد پہنچ گئے اور کہا جارہا ہے کہ وہاں خوب دنگل ہوا۔ اس دوران ملک بھر میں انٹرنیٹ سروس تعطل کا شکار رہی اور آن لائن کاروباری سرگرمیاں خاص طور پر متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ وہ لوگ جو آن لائن دفتری کام انجام دیتے ہیں یا فری لانسر کے طور پر کچھ کماتے ہیں، مالی نقصان برداشت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ احتجاج کے روز رات گئے مظاہرین کو سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے شدید شیلنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں اور پھر ہلاکتوں کی اطلاعات سامنے آنے لگیں۔ مجھے تو یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اگر دھرنوں، احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ملک کے کسی بھی شہر کی سڑکیں‌ بند ہوتی ہیں تو ان مظاہرین کا راستہ روکنے اور مخالفین کو کچلنے کے لیے حکومت کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے اور پولیس کو میدان میں اتارنے سے بھی عوام کو کون سا سکھ ملتا ہے؟

    خیر، اسلام آباد میں اس روز کیا کچھ ہوا، عوام کی اکثریت کو اس کی حقیقت معلوم نہیں یا وہ یہ جاننے میں ناکام ہوگئے، کیوں کہ سوشل میڈیا پر بندشیں اور پہرے تھے۔ ویسے سوشل میڈیا کے اس دور میں سچ جھوٹ، صحیح اور غلط میں تمیز کرنا بھی آسان نہیں رہا جب کہ ملکی ذرائع ابلاغ یا تو حقائق سامنے لانے سے قاصر ہے یا پھر ‘مکمل رپورٹنگ’ سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ اس طرح نومبر کا آخری ہفتہ گزر تو گیا، لیکن اب بھی ملک بھر میں موضوعِ بحث صرف اور صرف وہ ہلاکتیں ہیں جو اس احتجاجی مظاہرے کے دوران ہوئیں۔ حکومت اور سیاست داں سچ اور جھوٹ، غلط بیانی اور پراپیگنڈا ثابت کرنے کے لیے دن رات بیانات دیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کتنے افراد جان سے گئے اور کتنے زخمی ہیں، اس پر سوشل میڈیا میں گویا ایک طوفان آیا ہوا ہے، جب کہ تحریکِ انصاف کے مختلف راہ نماؤں کی جانب سے دو درجن سے لے کر 280 تک ہلاکتوں اور سیکڑوں کارکنوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ بھی سنائی دیا ہے۔ حکومت کی بات کریں تو اس کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی اہل کاروں کی جانب سے گولی چلائی ہی نہیں گئی۔ یہ جھوٹے الزامات ہیں، اور پاکستان تحریک انصاف ایک مرتبہ پھر پراپیگنڈہ کرتے ہوئے عوام کی ہم دردی سمیٹنا چاہتی ہے۔ حکومت اور پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں تو جنازے کہاں اٹھے اور تدفین کہاں‌ کی گئی ہے؟

    حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں سے کون صحیح ہے، کس کی بات درست ہے، کس نے جھوٹ اور پراپیگنڈے کا سہارا لیا ہے، کون غلط ہے…. یہ بحیثیت پاکستانی، ایک شہری اور ایک ووٹر میں یہ جاننا اور سمجھنا تو چاہتی ہوں، لیکن یہاں حقائق اور سچ تک عوام کی رسائی دشوار تر بنا دی گئی ہے۔ چلیے، مان لیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا دعویٰ‌ غلط ہے، لیکن کیا کوئی اس سچ کو جھٹلا سکتا ہے کہ ہم پاکستانی گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے اس ملک پر مسلط سیاسی خاندانوں اور اقتدار کی ہوس کے ہاتھوں مرتے آرہے ہیں؟ مجھ جیسے عام لوگ جو روزگار، تعلیم و صحت، امن، ترقی اور خوش حالی کا خواب دیکھتے ہوئے بڑے ہوگئے ہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمیں کسی نہ کسی سیاسی جماعت نے اقتدار ملنے کے بعد اس بری طرح نظرانداز کیا کہ ہم میں سے کئی جان سے چلے گئے۔ ان حکومتی ادوار میں ہم پر منہگائی کے بم گرائے گئے، غربت اور بھوک کے نشتر چلے، بدامنی اور لوٹ مار کے دوران ہم پر گولیاں چلا دی گئیں اور ہمیں قبر میں اترنا پڑا۔ علاج معالجہ کی سہولیات اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی، پیچیدہ اور فرسودہ نظام میں جکڑے ادارے اور عدالت سے بروقت انصاف نہ ملنے، کرپشن، اور بے روزگاری نے بھی ہم میں سے کتنے لوگوں کو خود کشی پر مجبور کیا۔ اب حکومت کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کا درجنوں مظاہرین کی ہلاکت کا دعویٰ جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے، اور شاید ایسا ہی ہو، لیکن کیا ایک عام آدمی ان حالات میں روز موت کے منہ میں نہیں جاتا رہا۔ وہ عام آدمی جس نے کسی بھی لیڈر کے اشتعال دلانے پر املاک کو نقصان نہیں پہنچایا، جو سڑکوں پر ٹائر نہیں جلاتا رہا، جس نے قانون نہیں توڑا، پولیس سے نہیں الجھا۔ وہ عام آدمی اِس حکومت میں شامل اُن سیاست دانوں کی بات کیا سنے جو پہلے بھی اقتدار میں آکر اپنی نااہلی، اور ناقص پالیسیوں سے غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کرتے رہے ہیں۔ عام آدمی تو روز مَر رہا ہے اور میڈیا اسے رپورٹ بھی کرتا ہے۔ لیکن حکومت یا کوئی سیاسی جماعت اسے اہمیت نہیں دیتی۔ اس کا شمار نہیں کرتی، اموات کی تعداد اور وجہ جاننے میں دل چسپی نہیں لیتی، کیوں کہ منہگائی، بدامنی، لوٹ مار اور اس طرح کے حالات میں کسی کا قبر میں اتر جانا تو معمول کی بات ہے۔ یہ نہ تو قتل ہے اور نہ ہی کسی جماعت کا کوئی سیاسی لیڈر یا حکومت اس کی ذمہ دار ہے بلکہ غربت، مہنگائی، ناانصافی اور کسی ڈکیت کے ہاتھوں‌ موت کے منہ میں چلے جانا تو مقدر کی بات ہے۔ بیچاری حکومت اس میں کیا کرے!

    (یہ تحریر/ بلاگ مصنّف کے ذاتی خیالات اور رائے پر مبنی ہے جس کا ادارے کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)