Tag: سدھارتھ

  • عورت کو ’تھپڑ‘ مارنے والے کرداروں سے متعلق سدھارتھ کا بڑا انکشاف

    عورت کو ’تھپڑ‘ مارنے والے کرداروں سے متعلق سدھارتھ کا بڑا انکشاف

    بالی ووڈ اداکار سدرھارتھ نے فلم میں عورت کو تھپڑ جڑنے کے حوالے سے بڑا انکشاف کرتے ہوئے اپنے کیریئر سے متعلق حقیقت بیان کی ہے۔

    اداکار سدھارتھ حال ہی میں منعقدہ حیدرآباد لٹریری فیسٹیول میں بطور مہمانوں شریک ہوئے، جہاں انھوں نے فلموں، کتابوں سے اپنی محبت اور دیگر چیزوں کے بارے میں بات کی، انھوں نے کہ بھی بتایا کہ وہ فلموں میں زہریلے مرد کا کردار ادا کرنے سے اجتناب برتتے آئے ہیں۔

    تقریب میں اپنی اہلیہ، اداکار ادیتی راؤ حیدری کی والدہ، ودیا راؤ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ اپنے کیریئر کے دوران ٹاکسک مردوں کا کریکٹر ادا کرنے سے دور رہے۔

    سدھارتھ نے ’ماچو‘ کردار ادا نہ کرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اگر وہ کچھ پراجیکٹس کے لیے ہاں کہتے تو وہ ایک بڑے فلم اسٹار ہوتے۔

    انھوں نے کہا کہ مجھے اسکرپٹس ملتے تھے کہ جس میں میں خواتین کو تھپڑ مارتا ہوں، آئٹم سانگ کررہا ہوں، کسی کی ناف پر چٹکی کاٹ رہا ہوں، عورت کو بتارہا ہوں کہ اسے کیا کرنا چاہیے، کہاں جانا چاہیے۔

    بالی ووڈ اداکار نے کہا کہ اگر ان فلموں کی زبردست اسکرپٹ ہوتی تو وہ بہت اچھی اور کامیاب فلمیں بنتیں، تاہم میں نے ان فلموں کو رد کر دیا۔

    سدرھارتھ کا کہنا تھا کہ اگر میں مختلف طریقے سے کردار ادا کرتا تو میں آج ایک بہت بڑا فلمی ستارہ بن سکتا تھا لیکن میں نے فطری طور پر وہی کیا جو مجھے پسند تھا۔

  • اداکارہ ادیتی راؤ حیدری اور سدھارتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے

    اداکارہ ادیتی راؤ حیدری اور سدھارتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئے

    بالی ووڈ کی معروف اداکارہ ادیتی راؤ حیدری اپنے دیرینہ دوست و اداکار سدھارتھ کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ گئیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق اداکارہ ادیتی راؤ حیدری اور سدھارتھ نے اسی ماہ کی 26 تاریخ کو تلنگانہ کے سوامی مندر میں اپنے اہلخانہ اور قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں شادی کی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں اداکاروں کی یہ دوسری شادی ہے، ادیتی راؤحیدری کی پہلی شادی اداکار ستیہ دیپ مشرا کے ساتھ ہوئی تھی لیکن بعد میں دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔

    جبکہ اداکار سدھارتھ نے 2003 میں میگھنا نارائن سے پہلی شادی کی تھی ان کی شادی بھی زیادہ نہیں چل سکی اور 2007 میں دونوں کر درمیان علیحدگی ہوگئی تھی۔

    تاہم اب بھارتی میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سدھارتھ اور ادیتی راؤ حیدری نے خاموشی سے شادی کرلی ہے لیکن دونوں نے اپنی شادی کا اعلان نہیں کیا ہے۔

  • عالیہ بھٹ نے سدھارتھ سے بریک اپ کے کئی سال بعد خاموشی توڑ دی

    عالیہ بھٹ نے سدھارتھ سے بریک اپ کے کئی سال بعد خاموشی توڑ دی

    بالی وڈ اداکارہ عالیہ بھٹ نے اداکار سدھارتھ ملہوترا سے بریک اپ کے کئی سال بعد خاموشی توڑ دی۔

    بالی وڈ اداکار سدھارتھ ملہوترا اور ورون دھون جمعرات کو کافی ود کرن کے ایپی سوڈ میں بطور مہمان نظر آئیں گے، شو میں اسٹوڈنٹ آف دی ایئر کی اداکارہ عالیہ بھٹ بھی ایک ویڈیو کے ذریعے شرکت کریں گی جہاں انہوں نے سدھارتھ کی تعریفیں کی ہیں۔

    اداکارہ عالیہ بھٹ نے اپنے سابق بوائے فرینڈ سدھارتھ ملہوترا کی تعریفوں کے پُل باندھتے ہوئے کہا کہ  ’’سد ایک بہت اچھا گلوکار ہے، وہ ایک بہت اچھا انسان ہے، اس کے علاوہ وہ مزاحیہ ہے اور اپنی سالگرہ کی تقریب میں سو جانے والا پہلا شخص ہے‘‘۔

    عالیہ نے مزید کہا کہ سڈ کو لوگوں میں گھلنے میں کچھ وقت لگتا ہے، وہ لوگوں سے ایک فاصلہ رکھتا ہے ملاقات کے دوران صرف ہیلو ہیلو کہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے مداحوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

    عالیہ بھٹ کا شوہررنبیر کپور کی سالگرہ پر جذباتی پیغام

    سدھارتھ سے ملنے والے اپنے خصوصی تحفے کے بارے میں بات کرتے ہوئے عالیہ نے کہا، میں سڈ کی بہت شکر گزار ہوں، کیونکہ اس نے مجھے میری زندگی کا پہلا پیار’’ ایڈورڈ‘‘ دیا(ایڈورڈ وہ بلی ہے جو سدھارتھ نے عالیہ کو دی تھی جب وہ ڈیٹنگ کر رہے تھے)۔

    شو کے گیم راؤنڈ کے دوران سدھارتھ سے ایک ایسی چیز کا نام بتانے کو کہا گیا جو اس نے اپنے آخری رشتے سے سیکھا، جس پر اداکار نے کہا کہ میں نے اپنے آخری رشتے سے سیکھا کہ کسی کو بھی اپنا پالتو جانور تحفے میں نہ دیں۔

    سدھارتھ نے کیارا سے شادی کرنے کی اصل وجہ بتادی؟

    کرن جوہر نے سدھارتھ سے سوال کیا کہ وہ وہ عالیہ بھٹ سے کونسی چیز چرانا چاہتے ہیں جس پر سدھارتھ نے کہا "بلی… ایڈورڈ‘‘۔

    بولی وڈ اداکار سدھارتھ ملہوترا اور اداکارہ عالیہ بھٹ نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک ساتھ 2012 میں فلم ’اسٹوڈنٹ آف دی ایئر‘ کے ساتھ کیا، جس کے بعد سے ان دونوں کے افیئر کی خبریں میڈیا میں سامنے آتی رہی۔

    واضح رہے کہ عالیہ نے اب رنبیر کپور سے شادی کر لی ہے اور ان کی ایک بیٹی ہے جس کا نام راہا ہے جبکہ سدھارتھ نے اس سال کے شروع میں اداکار کیارا اڈوانی سے شادی کی۔

  • بڑھاپے کے باغ میں!

    بڑھاپے کے باغ میں!

    بڑھاپا بھی ہماری زندگی کا ایک مرحلہ ہے اور دیگر تمام مراحلِ حیات کی طرح اس کا بھی اپنا ایک چہرہ، اپنی ہی فضا اور حدّت، اپنی خوشیاں اور ضروریات ہوتے ہیں۔ ہم سفید بالوں والے بوڑھوں کے بھی ہمارے تمام نوجوان برادرانِ انسانی کی طرح کچھ فرائض ہوتے ہیں، جو ہمارے وجود کو اس کی مقصدیت دیتے ہیں۔

    کسی انتہائی بیمار اور قریبُ المرگ انسان کی بھی، جو اپنے بستر پر لیٹا اس دنیا سے خود کو دی جانے والی کوئی بھی آواز بہ مشکل ہی سن پاتا ہے، اپنی ہی اہم اور ضروری ذمے داریاں ہوتی ہیں جو اسے پوری کرنا ہوتی ہیں۔

    بوڑھا ہونا بھی اتنا ہی خوب صورت اور مقدس کام ہے، جتنا جوان ہونا۔ مرنا سیکھنا اور مرنا بھی اتنا ہی اہم عمل ہے، جتنا کوئی بھی دوسرا کام، بشرط یہ کہ اسے زندگی کی مجموعی تقدیس اور اس کی مقصدیت کے لیے احترام کے ساتھ مکمل کیا جائے۔

    کوئی ایسا بوڑھا، جو بوڑھا ہونے، سفید بالوں اور موت کی قربت سے صرف نفرت کرتا ہو اور خوف کھاتا ہو، وہ اپنی زندگی کے اس مرحلے کا کوئی باوقار نمائندہ نہیں ہوتا، بالکل اس جوان اور توانا انسان کی طرح جو اپنے پیشے اور روزمرّہ کی پیشہ وارانہ زندگی سے نفرت کرتا ہو اور اس سے فرار کا خواہش مند ہو۔

    مختصر یہ کہ ایک بزرگ انسان کے طور پر اپنے مقصد کو پورا کرنے اور اپنے فرائض کی منصفانہ انجام دہی کے لیے انسان کو بڑھاپے سے، اور جو کچھ بڑھاپا اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، اس سے اتفاق کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

    اس “ہاں” کے بغیر، فطرت کے اس مطالبے کے سامنے سَر جھکائے بغیر جو وہ ہم سے کرتی ہے، پھر چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان، ہمارے دن اپنی قدر اور اہمیت کھونے لگتے ہیں اور ہم زندگی کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بڑھاپا اور ضعیفی اپنے ساتھ مسائل لے کر آتے ہیں اور ان کے اختتام پر موت کھڑی ہوتی ہے۔

    انسان کو سال بہ سال قربانیاں دینا اور بہت سی باتیں ترک کرنا پڑتی ہیں، اپنی حسّیات اور توانائیوں پر بداعتمادی سیکھنا پڑتی ہے۔ وہ راستہ، جسے طے کرنا کچھ ہی عرصہ پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا ہوتا تھا، بہت طویل اور کٹھن ہو جاتا ہے اور پھر ایک روز ہم اس رستے پر چل ہی نہیں پاتے۔ وہ کھانے جو ہم زندگی بھر بڑے شوق سے کھاتے رہے ہوتے ہیں، ہمیں وہ بھی چھوڑ دینا پڑتے ہیں۔ جسمانی خوشی اور لذّت زیادہ سے زیادہ کم یاب ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔

    پھر تمام تر عارضوں اور بیماریوں، حواس کے کم زور پڑتے جانے، اعضا کے بتدریج مفلوج ہوتے جانے، کئی طرح کے درد اور تکلیفوں اور اکثر ان کے بہت طویل اور بے چینی سے عبارت راتوں میں تسلسل میں سے کسی کو بھی آسانی سے جھٹلا کر اس سے بچا تو نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کر دینا بھی محرومی کی مظہر اور ایک الم ناک بات ہو گی کہ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں اور ڈھارس بندھائے رکھنے کے اپنے ہی ذرائع۔

    جب دو بوڑھے انسان آپس میں ملتے ہیں، تو انہیں گلہڑ کی بد ذات بیماری، اکڑے ہوئے پٹھوں والے اعضا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جانے والے سانس کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہیے، انہیں اپنے دکھوں اور ان موضوعات پر بھی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہیے جو انہیں خفا کر دیتے ہیں۔ ایسی باتوں کے برعکس انہیں آپس میں ایک دوسرے کے خوش کن اور آرام دہ تجربات اور مشاہدات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ ایسے تجربات ہر انسان کو بہت سے ہوئے ہوتے ہیں۔

    جب میں بوڑھے لوگوں کی زندگی کے اس مثبت اور خوب صورت رخ کے بارے میں سوچتا ہوں، اور اس بارے میں بھی کہ ہم سفید بالوں والے طاقت، صبر اور خوشی کے ان ذرائع سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جو نوجوانوں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، تو پھر مجھے اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میں مذہب اور کلیسا سے حاصل ہونے والے حوصلے اور اطمینان کے بارے میں گفتگو کروں۔ یہ کام تو کسی پادری کا ہوتا ہے۔

    میں یہاں ان بہت سی عنایات میں سے چند ایک کا شکریے کے ساتھ اور باقاعدہ نام لے کر ذکر کر سکتا ہوں، جو بڑھاپا تحفے کے طور پر ہم پر کرتا ہے۔ میرے لیے ان تحائف میں سے سب سے قیمتی عنایت تصاویر کا وہ خزانہ ہے جو کوئی انسان بہت طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی اپنی یادوں میں لیے پھرتا ہے اور جسے جسمانی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد بھی ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف انداز میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

    ایسے انسانی وجود اور انسانی چہرے، جو مثلاً ساٹھ ستّر برسوں سے زمین پر موجود ہی نہیں، وہ ہمارے اندر زندہ رہتے ہیں، ہمارا حصہ ہوتے ہیں، ہم ان کی صحبت میں رہتے ہیں اور وہ ہمیں اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں۔

    مکانات، باغات اور شہر جو دریں اثناء ناپید ہو چکے یا قطعی طور پر بدل چکے ہوتے ہیں، ہم انہیں پہلے کی طرح ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دور دراز پہاڑیاں اور سمندروں کے ساحل جو ہم نے عشروں پہلے سفر کے دوران دیکھے ہوتے ہیں، ہمیں تصاویر کی اپنی انہی کتابوں میں دوبارہ اسی طرح رنگین اور تر و تازہ نظر آتے ہیں۔
    ان تصویروں کو دیکھنا، ان کا مشاہدہ اور ان پر غور و فکر کرنا ہماری عادت اور بار بار کی جانے والی مشق بن جاتے ہیں اور انہیں دیکھنے والے کی طبیعت کا میلان اور زاویہ نگاہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے مجموعی رویوں میں گھلنا ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    ہم میں سے بہت سے انسانوں کا ان کی خواہشات، خواب، چاہتیں اور پسندیدہ شوق سال ہا سال تک پیچھا کرتے رہتے ہیں اور عشروں پر محیط اس دوڑ کے باعث ہم بےصبرے، تناؤ کا شکار اور طرح طرح کی امیدوں سے بھر جاتے ہیں، جس دوران کام یابیاں یا ناکامیاں ہم پر شدت سے اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ لیکن آج اپنی زندگی کی تصاویر سے بھری اس بہت بڑی کتاب کے بڑی احتیاط سے صفحے پلٹتے ہوئے ہم یہ سوچ کر حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی اور خوب صورت بات ہے کہ ہم ہر طرح کی دوڑ دھوپ اور مقابلے سے بچ کر زندگی کا اتنے پرسکون انداز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

    یہاں، بڑھاپے کے اس باغ میں کئی ایسے پھول بھی کھلتے ہیں، جن کی نگہداشت کے بارے میں ماضی میں ہم نے شاید ہی کبھی سوچا تھا۔ ان میں سے ایک صبر کا پھول بھی ہے، حقیقی معنوں میں انتہائی قیمتی پودوں میں سے ایک۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم زیادہ پرسکون اور معاملات پر زیادہ تدبر کرنے والے بن جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر کسی معاملے میں مداخلت یا اس میں عملاً کچھ کرنے کی خواہش جتنی کم ہوتی ہے، اتنی ہی ہمارے اندر یہ اہلیت زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد فطرت اور انسانوں کی زندگی کو آرام سے بیٹھے مگر توجہ سے دیکھتے اور سنتے رہیں۔

    اسی اہلیت کی وجہ سے ہم کوئی تنقید کیے بغیر اور ہر بار ایک نئی حیرانی کے ساتھ زندگی کو اس کے تمام تر تنوع سمیت اپنے قریب سے گزرنے دیتے ہیں۔ قریب سے گزرتی اس متنوع زندگی میں ہم کبھی کبھار شامل بھی ہو جاتے ہیں، کبھی خاموش تاسف کے ساتھ، کبھی مسکرا کے، کبھی کھل کر ہنستے ہوئے تو کبھی مزاحیہ انداز میں۔

    کچھ ہی عرصہ پہلے میں اپنے باغ میں کھڑا تھا۔ میں نے آگ جلا رکھی تھی اور اس میں خشک پتے اور ٹہنیاں پھینکتا جا رہا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ خاتون وہاں سے گزری جس کی عمر لازماً اسّی برس کے قریب رہی ہو گی۔ وہ چلتے چلتے باغ کی بیرونی باڑ کے پاس رک کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے اسے خوش آمدید کہا تو وہ مسکرائی اور کہنے لگی: “یہ جو آپ نے چھوٹی سی آگ جلائی ہے، بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ہماری عمر میں انسان کو بہرحال دوزخ سے بتدریج دوستی کی کوشش کرنا ہی چاہیے۔”

    اس جملے کے ساتھ ہماری اگلی گفتگو کے رُخ اور لہجے دونوں کا تعین ہو گیا تھا، جس میں ہم نے کافی پُرلطف انداز میں ایک دوسرے سے اپنے کئی دکھوں اور محرومیوں کی شکایتیں بھی کر دیں۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ تمام تر تکالیف کے باوجود ہم دراصل ابھی بہت خوف ناک حد تک بوڑھے نہیں ہوئے اور جب تک ہمارے گاؤں کی سب سے عمر رسیدہ، سو سالہ خاتون زندہ ہے، ہم کسی بھی طرح بہت ہی ضعیف قرار نہیں دیے جا سکتے۔

    جب بہت نوجوان لوگ اپنی توانائی کی برتری کے بَل پر اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہماری پیٹھ پیچھے ہم پر ہنستے ہیں، ہماری مشکل سے چلی جانے والی چال، ہمارے سروں پر باقی رہ جانے والے چند سفید بالوں اور ہماری گردنوں پر ابھری ہوئی نسوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، تو پھر ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ہم بھی کبھی ایسی ہی جسمانی طاقت کے مالک اور اتنے ہی لاعلم تھے اور اسی طرح ہنستے تھے۔

    یوں ہم خود کو ہارے ہوئے اور مفتوح نہیں سمجھتے بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر زندگی کے اس مرحلے سے نکل آئے ہیں اور تھوڑے سے زیادہ دانش مند اور زیادہ صابر ہو چکے ہیں۔

    (نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ہرمین ہیسے کے مضمون “بلوغت کے ساتھ انسان نوجوان تَر ہوتا جاتا ہے” سے انتخاب، اسے مقبول ملک نے جرمن زبان سے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)

  • جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    جادوئی اسلوب کے حامل ہرمن ہیسے کا تذکرہ

    اس کی دل چسپی جادوئی کہانیوں اور دیو مالائی داستانوں میں تھی۔

    جب وہ بچہ اس قابل ہوا کہ ذہن کے پردے پر کوئی تصویر بنا سکے یا کچھ سوچ سکے تو انوکھی اور انجانی دنیا آباد کر لی جس میں عجیب و غریب کردار سامنے آتے، جادوئی اور پُراسرار واقعات رونما ہوتے اور وہ چشمِ تصور سے ان کا نظارہ کرتا۔

    اس بچے نے شعور اور آگاہی کی مسافت طے کی تو خود اُس پر کھلا کہ قلم کی طاقت سے وہ اپنے بچپن کے اُن خوابوں کو تعبیر دے سکتا ہے۔ تب اس نے اپنے تخیل کا سہارا لیا اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، یہ ہرمن ہیسے کا تذکرہ ہے جو اپنے جادوئی اسلوب کی بدولت دنیا بھر کے ادبیوں میں سب سے ممتاز اور مقبول ترین ہے۔

    ہرمن ہیسے کی تاریخِ پیدائش 20 جولائی 1877 ہے۔ اس نے جرمنی کے ایک چھوٹے سے قصبے کے کٹر مذہبی اور روایات کے پابند گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین تبلیغ کی غرض سے زیادہ تر وقت گھر سے باہر اور اکثر دور دراز کے علاقوں میں گزار دیتے اور وہ گھر میں تنہا رہ جاتا اور پھر مَن پسند دنیا آباد کرلیتا۔

    نوعمری میں اس نے کتابوں کی خریدوفروخت کا کام شروع کیا جس کے سبب مطالعے کا شوق پروان چڑھا۔

    ہرمن ہیسے نے شاعری بھی کی، مگر نام وری اور وجہ شہرت فکشن کا میدان ہے۔ وہ 25 سال کے تھے جب ان کا شعری مجموعہ منظرِ عام پر آیا، مگر اسے توجہ نہ ملی. 1905 میں ان کا ناول Beneath the Wheel شایع ہوا اور ادبی حلقوں کی توجہ سمیٹی۔ ہرمن ہیسے نے افسانوی کہانیاں‌ بھی تخلیق کیں جن میں یورپ کے معاشرتی رویوں اور اخلاقی قدروں کو موضوع بنایا اور ان کو کھوکھلا اور بگڑتا ہوا پیش کیا۔

    The Glass Bead Game، Steppenwolf اور Siddhartha ہرمن کے مشہور ناول ہیں۔ فکشن کے میدان میں یہ ناول اپنے تخلیقی جوہر اور اسلوب کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

    سدھارتھ 1922 میں شایع ہوا تھا جسے دنیا بھر میں سراہا گیا اور یہ مقبول ترین ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ اردو زبان میں بھی اس کا ترجمہ دست یاب ہے۔ 1946 میں اس عظیم تخلیق کار کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔

    آخری عمر میں ہرمن ہیسے گوشہ نشیں ہو گئے۔ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے گھر کے صدر دروازے پر لکھوا دیا تھا کہ ملاقات کی زحمت نہ فرمائیں۔