Tag: سر

  • بھارت: 10 سالہ بچی کا سر قبر سے غائب، ہولناک واقعے نے لوگوں کے دل دہلا دیے

    بھارت: 10 سالہ بچی کا سر قبر سے غائب، ہولناک واقعے نے لوگوں کے دل دہلا دیے

    نئی دہلی: بھارت میں چند دن قبل دفنائی جانے والی 10 سالہ بچی کا سر قبر سے غائب ہوگیا جبکہ دھڑ جوں کا توں موجود ہے، واقعے نے اہل علاقہ میں خوف کی لہر دوڑا دی۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق یہ ہولناک اور پراسرار واقعہ جنوبی ریاست تامل ناڈو میں پیش آیا ہے جہاں ایک ہفتہ پہلے دفنائی جانے والی 10 سالہ بچی کا سر قبر سے غائب ہوگیا۔

    اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بچی کی موت 14 اکتوبر کو ہوئی تھی جب گھر کے باہر کھیلتے ہوئے اس کے سر پر اچانک بجلی کا کھمبا گر گیا تھا، بچی شدید زخمی ہوگئی تھی اور اسے اسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

    تاہم وہ جانبر نہ ہوسکی اور چند روز بعد دم توڑ گئی۔

    اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بچی کی تدفین کے 10 روز بعد جب وہ قبر پر گئے تو انہیں محسوس ہوا کہ قبر کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔

    شک ہونے پر انہوں نے پولیس میں شکایت درج کروائی جس کے بعد پولیس نے ضلعی میڈیکل ڈپارٹمنٹ اور ضلعی محکمہ ریونیو کے افسران کی موجودگی میں قبر کو کھودا۔

    قبر کھودنے کے بعد سب کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی جب انہوں نے دیکھا کہ بچی کا سر غائب تھا اور دھڑ قبر میں موجود تھا۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ قبر کے پاس سے استعمال شدہ دستانے اور ایک ٹارچ بھی ملی ہے۔

    پولیس کے مطابق یہ حرکت جادو ٹونے کے لیے کی جاسکتی ہے، علاوہ ازیں اس پہلو سے بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ آیا گھر والوں کی کسی سے دشمنی ہے جس نے انہیں زک پہنچانے کے لیے ایسی گھناؤنی حرکت کی۔

    پولیس نے قبرستان انتظامیہ سمیت مختلف فریقین کو شامل تفتیش کر کے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

  • قدیم زمانوں کے لوگ جو سر میں سوراخ کرتے تھے

    قدیم زمانوں کے لوگ جو سر میں سوراخ کرتے تھے

    قدیم زمانوں میں انسان اپنے سروں میں سوراخ کروایا کرتے تھے، اس کی وجہ نہایت حیران کن تھی۔

    ماہرین آثار قدیمہ کو ملنے والی پرانی کھوپڑیوں میں بڑے بڑے سوراخ موجود تھے، پرانے دور میں جب کسی شخص کو مرگی، ڈپریشن یا میگرین کا مرض لاحق ہوتا تھا تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس کے سر کے اندر جنات ہیں۔

    تب مریض کے سر میں سوراخ کردیا جاتا تھا تاکہ اس سوراخ کے راستے جن نکل جائے۔

    ماہرین کے مطابق یہ پریکٹس آج بھی کئی جگہ کی جاتی ہے، اگر دماغ میں خون کا پریشر زیادہ ہو تو سر میں سوراخ کر کے خون کا پریشر کم کیا جاتا ہے۔

    فریز کیے گئے مردہ جسم

    دنیا میں کچھ لوگ مرنے سے قبل کچھ کمپنیز سے ایک کانٹریکٹ سائن کرلیتے ہیں، 2 سے 3 لاکھ ڈالرز کے اس کانٹریکٹ کے عوض کمپنی پابند ہوتی ہے کہ وہ مذکورہ شخص کے مرنے کے بعد اس کا مردہ جسم کئی سو سال تک فریزر میں رکھے گی۔

    دراصل ایسے افراد کا ماننا ہوتا ہے کہ اگلے 3 سے 4 سو سال میں جدید سائنس مردوں کو زندہ کرنے کے قابل ہوجائے گی، چنانچہ اگر ان کا جسم محفوظ ہوگا تو وہ دوبارہ سے زندہ ہوسکیں گے۔

    بعض افراد جو اتنی بڑی رقم نہیں دے سکتے صرف اپنا سر بھی فریز کروا لیتے ہیں، ان کے خیال میں اگر سائنس اگلے دو سو سالوں میں مردوں کو زندہ کرسکتی ہے تو اگلے 4 سو سال میں وہ سر کے لیے دھڑ بھی بنانے کے قابل ہوجائے گی۔

  • نیپالی شہری نے 23 مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے کا عالمی ریکارڈ بنادیا

    نیپالی شہری نے 23 مرتبہ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرکے کا عالمی ریکارڈ بنادیا

    کھٹمنڈو : نیپالی شہری نے 23 ویں بار دنیا کی بلند ترین چوٹی سرکے ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا، نیپالی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ سمٹ میں 30 مزید کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں جو (آج) چوٹی سر کر لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نیپال کے ہائیکنگ حکام نے بتایا ہے کہ کامی ریٹا شرپا نامی 49 سالہ نیپالی شہری نے تیس ویں بار دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کر کے نیا عالمی ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق نیپال کے محکمہ سیاحت کی اہلکار میرا اچاریا نے بتایا کہ آٹھ ہزار 850 میٹر بلند پہاڑی ماؤنٹ ایورسٹ کی پرچھاؤں میں آباد تھیم نامی نیپالی گاؤں کے رہائشی شرپا نے جنوبی مشرقی رستہ استعمال کرتے ہوئے چوٹی کو سر کیا۔

    میرا نے بتایا کہ شرپا نے بدھ کی صبح مقامی وقت کے مطابق سات بج کر 50 منٹ پر چوٹی سر کی اور اب وہ نچلے کیمپوں کی طرف روانہ ہیں۔

    میرا کے مطابق حالیہ سمٹ میں 30 مزید کوہ پیما حصہ لے رہے ہیں جو (آج) جمعرات کو چوٹی سر کر لیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ریٹا نے پہلی مرتبہ 1994 میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا تھا جس کے بعد وہ ہر سال دنیا کی بلند ترین چوتی سرنے لگے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ریٹا ماؤنٹ ایورسٹ کے علاوہ دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو، چواو، ماناسلو، لوٹشے بھی سر کرچکے ہیں۔

    ریٹا کا کہنا تھا کہ ’میں ایک سپاہی کی طرح ہوں جو اپنے ملک کی بقاء کی جنگ میں پیچھے مڑ کر اپنے بیوی بچوں اور اہل خانہ کی فکر نہیں کرتا‘۔

  • نانگا پربت سر کرنے کی کوشش میں‌غیر ملکی کوہ پیما ہلاک

    نانگا پربت سر کرنے کی کوشش میں‌غیر ملکی کوہ پیما ہلاک

    اسلام آباد : پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موجود نانگا پربت پر لاپتہ ہونے والے غیر ملکی کوہ پیماؤں کی لاشیں مل گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق شمالی پاکستان میں موجود دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی نانگا پربت دو ہفتے قبل برطانوی اور اطالوی کوہ پیماہ لاپتہ ہوگئے تھے جن کی ہلاکت کی تصدیق پاکستان میں تعینات اطالوی سفیر نے کردی۔

    اطالوی سفیر اسٹیفانو پونتیکوروو نے ٹوئٹر پر دونوں کوہ پیماؤں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے کلھا کہ ’فضا سے لی گئی تصاویر سے دونوں کوہ پیماؤں کی ہلاکت کی تصدیق ہوگئی ہے‘۔

    اطالوی سفیر کا کہنا تھا کہ’میں افسوس کے ساتھ اعلان کررہا ہوں کہ دونوں کوہ پیما ’ڈینئیل اور ٹام‘ نانگا پربت کی 5 ہزار 900 میٹر کی بلندی پر مردہ حالت میں ملے‘۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کوہ پیما ٹام بیلارڈ اور ڈینیئل ناردی 24 فروری کو 8 ہزار 125 میٹر بلند نانگا پربت سر کرنے کے دوران لاپتہ ہوئے تھے۔

    دونوں کوہ پیماؤں نے نانگا پربت سر کرنے کےلیے ایسے روٹ کا انتخاب کیا تھا جس کے ذریعے چوٹی سر کرنا ناممکن ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ کوہ پیماؤں کی تلاش میں تاخیر کا باعث پاک بھارت کشیدگی بنی کیوں دونوں ممالک میں کشیدگی کے باعث فضائی حدود بند کردی گئی تھی جس کے بعد کوہ پیماؤں کی تلاش کےلیے اجازت کی ضرورت تھی۔

    ٹام بیلارڈ، برطانوی کوہ پیما ایلیسَن ہارگریوز کے بیٹے ہیں، جو آکسیجن کے ذخیرے کے بغیر ‘ماونٹ ایورسٹ’ سَر کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون ہیں۔

    ایلیسن ہارگریوز کی موت 1995 میں، پاکستان میں شمال میں واقع دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ‘کے ٹو’ سے واپسی کے دوران ہوئی تھی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ جولائی براعظم امریکا کے ملک کینیڈا کا 53 سالہ کوہ پیما ’سرگ ڈیشرلوٹ‘ دنیا کی 8 ہزار 611 میٹر(28 ہزار 251 فٹ) اونچی دوسری بلند ترین چوٹی ’کے ٹو‘ کو سر کرنے کی کوشش کے دوران جان کی بازی ہار گیا تھا۔

  • آج سے الیسٹر کک کو "سر” کہا جائے!

    آج سے الیسٹر کک کو "سر” کہا جائے!

    لندن: انگلش ٹیم کے سابق کپتان نے ایک اور بڑا اعزاز اپنے نام کرکے سن 2018 کو اپنے لیے یادگار بنا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق انگلینڈ کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان الیسٹر کک کو ‘سر’ کے خطاب سے نوازا گیا ہے، ریکارڈ ساز بلے باز ‘سر’ کا خطاب حاصل کرنے والے گیارہویں انگلش کرکٹر ہیں۔

    الیسٹر کک نے ستمبر 2018 میں بھارت کے خلاف ہوم سیریز کے آخری ٹیسٹ میچ کے بعد ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔

    سابق انگلش کپتان کا شمار عہد جدید کے نمایاں کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، انھوں نے160 ٹیسٹ، 92 ون ڈے اور 4 ٹی ٹوئنٹی میچز میں انگلینڈ کی نمائندگی کی۔

    ٹیسٹ کرکٹ میں انھوں نے 12 ہزار  رنز کا ہندسہ عبور کیا۔ ون ڈے میں انھوں نے 3 ہزار بنائے۔


    مزید پڑھیں: ہیڈ‌ کوچ مکی آرتھر کے غصے کی وجہ سامنے آگئی


    انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 32 سنچریاں اور 56 نصف سنچریاں اسکور کیں، ایک روزہ کرکٹ میں انھوں نے 5 سنچریاں اور 19 نصف سنچریاں بنائیں۔

    25 دسمبر 1984 کو پیدا ہونے والے بلے باز کو اب حکومت برطانیہ نے سر کا خطاب عطا کیا ہے۔

    انڈیا کے خلاف اپنا آخری ٹیسٹ کھیلنے والے اس بلے باز نے یکم  مارچ  2006 کو  انڈیا ہی کے خلاف اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا تھا۔

    یہ امر بھی دل چسپ ہے کہ سری لنکا کے خلاف پہلا ون ڈے کھیلنے والا یہ کھلاڑی اسی ایشیائی ٹیم کے خلاف آخری بار ون ڈے کھیلنے کے لیے میدان میں اترا تھا۔

  • راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    راگ لطیفی ۔ محبت کا فیض آج بھی جاری ہے

    شام کا وقت تھا، بھٹ شاہ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی درگاہ زائرین سے بھری ہوئی تھی۔ لوگ اپنی اپنی منتیں اور دعائیں لیے درگاہ کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے عقائد کے مطابق محو عبادت تھے۔ کوئی سائیں لطیف کی ضریح کی جالیوں سے سر ٹکائے اپنی ناتمام حسرتوں کے پورا ہونے کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوئی حجرے کے باہر سر جھکائے، ہاتھ پھیلائے کسی معجزے کے انتظار میں تھا۔ ایسے میں شاہ لطیف کے طنبورے کی تان اور شاہ کا سر ہوا کی دوش پر لہرا رہا تھا۔ کوئی عورت ان عورتوں کی انتظار اور حسرت اپنے گیت میں بیان کر رہی تھی جن کے ملاح شوہر انہیں چھوڑ کر لمبے سفر پر جاچکے تھے، اور اب ان عورتوں کے پاس صرف واپسی کا انتظار تھا اور جدائی کا دکھ جو انہیں ادھ موا کیے ہوئے تھا۔

    یہ آواز شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے نو تعمیر شدہ ریزورٹ سے ابھر رہی تھی جہاں ایک طویل عرصے بعد چند خواتین شاہ کا کلام گا کر اور ان کا ایجاد کردہ طنبورہ بجا کر حاضرین کو انگشت بدنداں کیے ہوئے تھیں۔


    سُر کا مطلب ہے ’میٹھی شے‘۔ سُروں کے مجموعے کو راگ کہتے ہیں جس میں سُر بندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاہ لطیف اپنے راگوں میں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) کو ’سورمی‘ قرار دیتے ہیں جس نے اپنی جرات اور ہمت کی بے مثال داستان رقم کی ہو۔


    شاہ کا کلام گانے والی ان 4 نو عمر خواتین میں سے 3 تو صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد سے تعلق رکھتی تھیں۔ ایک تائیوان سے آئی تھی جس کا نام پی لنگ ہنگ تھا۔

    لوک روایات کے مطابق راگ لطیفی گانے والی پہلی عورت مائی جیواں تھی۔ مائی جیواں اب سے ڈیڑھ سو سال قبل گجرات کے علاقے بھوج کے ایک راگی نہال فقیر کی بیوی ہوا کرتی تھی۔ نہال فقیر خود بھی شاہ لطیف کے درگاہ کا راگی تھا اور لطیفی راگ گایا کرتا تھا۔

    مائی جیواں بیٹے کی پیدائش کی منت لے کر شاہ لطیف کی درگاہ پر آئی اور اس نے منت مانگی کہ بیٹا ہونے کے بعد وہ 7 جمعوں تک درگاہ پر آ کر راگ گایا کرے گی۔ خدا نے اسے بیٹے سے نوازا جس کے بعد وہ راگ لطیفی سیکھ کر اپنی منت کے مطابق 7 جمعوں تک درگاہ پر راگ گاتی رہی

    اس کے ڈیڑھ سو سال بعد شاہ کا کلام ایک بار پھر خواتین کی آواز میں فضا میں گونج رہا تھا۔


    تائیوان سے بھٹ شاہ تک

    شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری نے صرف مقامی افراد کو ہی نہیں، بلکہ مذہب، علاقے اور خطے سے قطع نظر ہر شخص کو متاثر کیا تھا جس کا ثبوت تائیوان سے آنے والی طالب علم پی لنگ ہانگ تھیں جو لطیفی راگ پر تھیسس لکھ رہی ہیں۔

    پی لنگ ہانگ تائیوان نیشنل یونیورسٹی سے ثقافتی موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ سنہ 2012 میں انہوں نے لاہور میں ہونے والے صوفی فیسٹیول میں شرکت کی۔ یہیں ان کا پہلا تعارف لطیفی راگ سے ہوا۔ بعد ازاں 2014 میں انہوں نے بھٹ شاہ کا دورہ کیا اور درگاہ پر پہلی بار شاہ کا راگ سنا۔ اس کے بعد اپنے ریسرچ پروجیکٹ کے دوران بھی لطیفی راگ بار بار ان کی نظر سے گزرا۔

    وہ بتاتی ہیں، ’جتنا زیادہ میں شاہ لطیف کی شاعری پڑھتی گئی، اتنی ہی زیادہ اس کی خوبصورتی اور معنویت مجھ پر وا ہوتی گئی‘۔ بالآخر انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع راگ لطیفی چنا جس کے لیے وہ پاکستان آگئیں۔ یہاں وہ راگ لطیفی سیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک دستاویزی صورت میں محفوظ کر رہی ہیں جس میں درگاہ کے فقیروں اور دیگر متعلقہ افراد کے انٹرویو شامل ہیں۔

    ہانگ بتاتی ہیں کہ وہ سیاحت کی بے حد شوقین ہیں اور کئی ممالک کی سیاحت کرچکی ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ اپنے پروجیکٹ کے لیے وہ کافی عرصے سے صوبہ سندھ میں مقیم ہیں جو ان کے لیے مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار تجربہ بھی ہے۔

    ہانگ کو سندھ کے لوگوں کی مہمان نوازی نے بے حد متاثر کیا۔ انہیں یہاں کا خاندانی نظام بھی بہت بھایا جس میں لوگ دن کا کچھ حصہ اہل خانہ اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ضرور گزارتے ہیں۔


    شاہ کی سورمیوں سے متاثر باپ

    راگ لطیفی گانے والی ان لڑکیوں کے استاد منٹھار فقیر ہیں جو شاہ لطیف کی درگاہ کے راگی ہیں۔ شاہ کا کلام سیکھنے والی غلام سکینہ اور صابرہ انہی کی بیٹیاں ہیں۔

    منٹھار فقیر کی بیٹیوں کا راگ سیکھنا نہ صرف ان نوعمر لڑکیوں کا شوق تھا بلکہ یہ خود منٹھار فقیر کا بھی خواب تھا جس کی تکمیل انہوں نے اپنی بیٹیوں کو یہ خوبصورت راگ سکھا کر کی۔ وہ اپنی برادری میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کے شوق کو اس قدر اہمیت دی اور اس کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا۔

    شاہ لطیف کی شاعری میں 7 عورتوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں شاہ لطیف ’سورمیاں‘ کہتے ہیں۔ سورما یا سورمی ایسی شخصیت ہے جو غیر معمولی ہو اور ایسے کارنامے انجام دے جو کوئی عام انسان نہیں دے سکتا۔ یہ سورمیاں محبت کی لازوال داستانوں کے کردار سوہنی، سسی، مومل، رانو، سورٹھ، نوری، لیلیٰ اور مارئی (ماروی) ہیں۔

    شاہ لطیف نے اپنے کچھ سروں کے نام بھی ان سورمیوں کے نام پر رکھے ہیں جن میں وہ ان عظیم عورتوں کی خوبیاں اور حیران کن کارنامہ سناتے ہیں۔ جیسے سوہنی مہینوال کی سوہنی آدھی رات کو دریا پار کر کے اپنے محبوب سے ملنے جایا کرتی تھی، تو اس کی کہانی بیان کرتے سر کا نام بھی سوہنی ہے جبکہ اسے گایا بھی آدھی رات کے بعد جاتا ہے۔

    استاد منٹھار فقیر کہتے ہیں کہ جس طرح سائیں لطیف نے 7 عورتوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی، اسی طرح وہ بھی اپنی زندگی میں 7 عورتوں کو راگ لطیفی سکھانا چاہتے ہیں۔ ’اب تک 4 کو سکھا چکا ہوں، مزید 3 کو سکھانا چاہتا ہوں‘۔

    منٹھار فقیر کا ماننا ہے کہ اب سے کئی صدیاں قبل مائی جیواں نے اپنی منت پوری کرنے کے لیے شاہ کا راگ گایا۔ ’پر تائیوان سے آنے والی یہ بچی شاہ کی موسیقی کی محبت میں اپنا وطن چھوڑ کر یہاں آئی ہے اور اجنبی دیس میں اس صوفی کا کلام سیکھ رہی ہے جس کی موسیقی نے تمام مذاہب کے لوگوں کو محبت کی زنجیر میں باند رکھا ہے‘۔


    لطیفی راگ سیکھنے والی بتول کا کہنا ہے کہ اس کے مضامین میں تاریخ کا مضمون بھی شامل ہے جس میں اس نے مائی جیواں کے بارے میں پڑھا۔ اسے شاہ لطیف کی شاعری بھی بہت پسند تھی اور اس کی معنویت اور گہرائی کو سمجھنے کے لیے اس نے لطیفی راگ سیکھنے کا فیصلہ کیا۔

    کسی خاتون کا درگاہ پر بیٹھ کر راگ گانا ایک غیر معمولی شے تھی جس پر ان خواتین کو مثبت اور منفی دونوں تاثرات ملے۔ کچھ افراد نے ان کے شوق پر ناگواری کا اظہار کیا، جبکہ کچھ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ ’جب آپ کسی چیز کے لیے جنونی ہوجاتے ہیں تو پھر آپ کے لیے تعریف یا تنقید بے معنی ہوجاتی ہے۔ آپ صرف اپنا جنون پورا کرنا چاہتے ہیں‘۔

    شاہ لطیف کی درگاہ کے سامنے قائم مدن فقیر ریزورٹ میں میوزک اسکول بھی قائم کیا گیا ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ اسے جامشورو کی مہران یونیورسٹی سے منسلک کردیا جائے تاکہ موسیقی کے شائق اسے سیکھ کر باقاعدہ ڈگری بھی حاصل کرسکیں۔

    شاہ کا راگ سیکھنے والی بتول، غلام سکینہ، صابرہ اور تائیوان کی طالب علم پی لنگ ہانگ اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ سندھ کے صوفیائے کرام کا پیغام محبت کا عالمی پیغام ہے اور اگر اس کی معنویت کو سمجھا جائے تو دنیا سے نفرت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

  • زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    آپ نے اکثر اوقات ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات میں ان عظیم الجثہ سروں کو دیکھا ہوگا۔ یہ سر بحر اقیانوس میں واقع مشرقی جزیرے پر موجود ہیں۔

    یہ علاقہ ملک چلی کی ملکیت ہے۔ یہاں موجود نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں نصب کیے گئے یہ بڑے بڑے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    island-8

    پراسراریت کی دھند میں لپٹے یہ سر دنیا بھر کے تاریخ دانوں اور سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے روزانہ بے شمار لوگ آتے ہیں۔

    تاہم کچھ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ کیا یہ زمین میں نصب صرف سر ہیں یا ان کے نیچے کچھ اور بھی موجود ہے۔

    ایک غیر ملکی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق کچھ عشروں قبل ان سروں کے آس پاس زمین کی کھدائی گئی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان سروں کے نیچے کیا ہے۔

    island-7

    کھدائی کے بعد ماہرین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سروں کے نیچے پورے جسم بھی موجود ہیں جو نہایت طویل القامت ہیں۔

    island-5

    ماہرین نے اندازہ لگایا کہ درحقیقت انہیں اس طرح نصب نہیں کیا گیا جس طرح یہ اب موجود ہیں۔ یہ مکمل مجسمے تھے جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث زمین اور پانی میں دفن ہوتے گئے اور آخر کار صرف ان کا سر دنیا کے سامنے رہ گیا۔

    island-6

    اس تحقیق سے کئی عرصہ قبل ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح اور محقق ہیئردل کہہ چکے تھے کہ ان سروں کا جسم بھی موجود ہوسکتا ہے جو زمین میں دفن ہوگا۔ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ بات مقامی افراد کی لوک داستانوں کی بنیاد پر کہی ہو۔

    island-3

    اس کھدائی کے دوران ماہرین نے وہ تکنیک بھی دریافت کی جس کے ذریعہ آج سے ہزاروں سال قبل ان دیوہیکل مجسموں کو مضبوطی سے نصب کیا گیا۔

    island-4

    حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی دیگر مقامات کی طرح اس تہذیبی ورثے کو بھی سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث خطرہ لاحق ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔

    island-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند عشروں میں یہ مجسمے جو کہ اب صرف سر رہ گئے ہیں، مکمل طور پر زمین برد یا سمندر برد ہوجائیں گے اور اس کے بعد ان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔