Tag: سرحد کا سرسید

  • اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    جس زمانہ میں سر سیّد مولوی نوازش علی مرحوم سے دلّی میں پڑھتے تھے، میر محمد مرحوم امام جامع مسجد دہلی بھی ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔

    وہ کہتے تھے کہ جب سیّد صاحب چند روز کے لیے قائم مقام صدر امین مقرر ہو کر رہتک جانے لگے تو انھوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ بھی رہتک چلیے۔ مولوی صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ میں بھلا کیوں کر جا سکتا ہوں؟

    ایک جماعت کثیر طلبہ کی مجھ سے پڑھتی ہے، ان کو کس پر چھوڑ کر جاؤں؟ انھوں نے کہا، ” سب طلبہ کو بھی ساتھ لے چلیے۔”

    مولوی صاحب کو اور زیادہ تعجب ہوا کہ اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    سیّد صاحب نے کہا: "آپ ان کے کھانے پینے کا تو فکر کیجیے نہیں، خدا رازق ہے، لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ نہ چلیں گے تو میں رہتک جانے سے انکار کر دوں گا اور اس سے میری آئندہ ترقّی رک جائے گی۔”

    آخر مولوی صاحب کو اس کے علاوہ کچھ بن نہ آیا کہ وہ مع طالب علموں کی جماعت کے ان کے ساتھ ہو لیے اور جب تک رہتک رہنا ہوا سب کا خرچ سیّد صاحب کے ذمہ رہا۔

    (ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ اور مصلح سر سیّد احمد خاں کی دریا دلی اور سخاوت کی ایک لفظی تصویر)

  • قیصرِ ہند اور سرحد کے سَرسیّد عبدالقیوم خان کا یومِ‌ وفات

    قیصرِ ہند اور سرحد کے سَرسیّد عبدالقیوم خان کا یومِ‌ وفات

    ممتاز ماہرِ تعلیم اور عوام میں صوبہ سرحد کے سرسّید مشہور ہونے والے صاحب زادہ عبدالقیوم خان 4 دسمبر 1937ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    صاحب زادہ عبدالقیوم خان 1864ء میں ضلع صوابی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند سے قبل اس دور کے مسلمانوں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے جہاں مسلمان اکابرین اور سیاسی و سماجی راہ نما حصولِ تعلیم پر زور دے رہے تھے، وہیں صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے بھی سرحدی مسلمانوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عملی میدان قدم بڑھایا اور پشاور میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی جسے آج جامعہ کا درجہ حاصل ہے۔

    صاحب زادہ عبدالقیوم خان نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی اور پولیٹیکل ایجنٹ کے عہدوں پر فائز رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تعلیم کے فروغ کے لیے کوشاں رہے اور 1912ء میں اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھ کر اس حوالے سے اپنا کردار ادا کیا۔

    برطانوی راج میں اس وقت کی سرکار نے صاحب زادہ عبدالقیوم خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خان بہادر، نواب اور سَر کے خطابات کے علاوہ قیصرِ ہند گولڈ میڈل دیا۔ عوام میں وہ پہلے ہی سرحد کے سرسید مشہور تھے۔ انھیں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ کے عہدے پر بھی فائز کیا گیا تھا۔

    صاحبزادہ عبدالقیوم خان ہندوستان کی مرکزی مجلسِ قانون ساز کے رکن رہے اور 1930 ء سے 1932ء کے دوران لندن میں گول میز کانفرنسوں میں بھی شریک ہوئے۔