Tag: سردار عبدالرّب نشتر

  • تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے قابل اور مخلص راہ نما سردار عبدالرّب نشتر کا تذکرہ

    قیامِ پاکستان کے بعد سردار عبدالرّب نشتر پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ رہے اور پنجاب کے گورنر بنائے گئے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرّب نشتر نے متحدہ ہندوستان میں برطانیہ کے راج کے خلاف تحریکوں اور سیاسی ہنگامہ خیزی کے جس دور میں خود کو میدانِ عمل میں اتارا تھا، اس میں‌ جلد ان پر واضح ہو گیا کہ ہندو، ملک کے طول و عرض میں موجود مسلمانوں کے ساتھ تعصّب ختم نہیں کرسکتے اور انگریزوں کو نکال کر یہاں اپنا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تب انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ وہ اپنی فہم و فراست، سیاسی سوجھ بوجھ کے لیے مشہور تھے اور جلد ہی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کے پلیٹ فارم سے بھی خود کو منوا لیا اور اپنی دیانت داری اور اخلاص کے باعث ان کا شمار قائدِ اعظم کے قابلِ اعتماد رفقا میں ہونے لگا۔

    اس سیاسی جماعت کی صف میں وہ ایسے نمایاں ہوئے کہ قائدِ اعظم کے ساتھ اہم جلسوں اور سیاسی قائدین سے ملاقاتوں میں شریک ہونے لگے۔

    کہتے ہیں‌ شخصیت کردار سے بنتی ہے اور سردار عبدالرّب نشتر نے قائدِ اعظم اور دیگر لیگی قائدین کو اپنے قول و فعل، راست گوئی اور کردار کی مضبوطی سے اپنا گرویدہ بنا لیا اور تاریخ میں مسلمانوں کے ایک مخلص اور اہم لیڈر کے طور پر ان کا نام رقم ہوا۔

    سردار عبدالرّب نشتر ایک مدبّر، شعلہ بیان مقرر اور تحریکِ پاکستان کے صفِ اوّل کے راہ نما اور ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ انھوں نے 13 جون 1899ء کو پشاور کے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی اور دین کی تربیت کے ساتھ انھیں جدید تعلیم سے روشناس کروایا گیا۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایل ایل بی کی ڈگری 1925ء میں حاصل کی اور وکالت کا لائسنس لیا۔ جس وقت وہ علی گڑھ میں پڑھ رہے تھے، ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ تب انھوں نے پشاور میں وکالت شروع کر دی۔

    علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دورانِ تعلیم بھی اُن کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر تربیت ہوتی رہی اور عنفوانِ شباب میں وہ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسے اکابرین کے قریب رہے۔ سامراج دشمنی گویا اُن کے خون میں تھی جو زمانۂ طالب علمی ہی میں اِن بزرگوں کے زیرِ اثر دو آتشہ ہوگئی۔

    وکالت کے دوران انھوں‌ نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کی مشہور و مقبول تحریکِ خلافت سے وابستہ ہوئے اور عملی سفر کا آغاز کیا، اسی زمانے میں انھیں مسلمانانِ ہند کو درپیش مسائل اور مشکلات کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کا موقع ملا۔ انھیں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی سازشوں اور ان کے رویّوں کا بھی اچھی طرح اندازہ ہوگیا۔

    1929ء میں جب صوبہ سرحد میں انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سردار عبدالرب نشتر خلافت کمیٹی کی طرف سے میونسپل کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے اور مسلسل 1938ء تک رُکن رہے۔ بعد میں سردار عبدالرب نشتر نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کی اور 1944ء میں اس تنظیم کی مجلسِ عاملہ کے رکن بنائے گئے۔ 1946ء کے انتخابات کے بعد بننے والی عبوری حکومت کے لیے نمائندہ بھی نام زد ہوئے جب کہ 3 جون کے اعلان کے حوالے سے’’پارٹیشن کمیٹی‘‘ کے ارکان میں سردار عبدالرّب نشتر بھی شامل تھے۔

    انھیں غیر منقسم ہندوستان کے وزیرِ مواصلات کے منصب پر بھی فائز رہنے کا موقع ملا تھا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ لیاقت علی خان کی کابینہ میں بھی اِسی وزارت کے لیے منتخب کیے گئے۔

    14 فروری 1958ء کو سردار عبدالرّب نشتر کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

  • تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ‌ آزادی: مولانا ظہورُ الحسن درس جن کی اقتدا میں بانی پاکستان نے نمازِ عید ادا کی

    تحریکِ پاکستان کے راہ نما اور قائدِ‌ اعظم کے رفیق مولانا ظہور الحسن کا نام تاریخ میں ایک باکردار، جرات مند، کھرے اور سچّے انسان کے طور پر درج ہے۔ وہ ایک عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر اور متعدد کتب کے مصنّف و مؤلف بھی تھے۔

    9 فروری 1905ء کو کراچی میں پیدا ہونے والے ظہور الحسن کے والد ایک نام ور عالمِ دین تھے۔ ان کی تربیت مذہبی اور دینی ماحول میں ہوئی جہاں انھوں نے اپنے بزرگوں کے قائم کیے ہوئے مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔

    مولانا ظہور الحسن بھی عالمِ دین اور شعلہ بیاں خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر تھے۔ آپ کی مادری زبان سندھی تھی لیکن اردو پر دسترس رکھتے تھے۔

    ظہور الحسن درس بھی اپنے والد کی طرح عالمِ دین بننے کے بعد بندر روڈ کراچی میں واقع عید گاہ میں جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی امامت و خطابت کرنے لگے۔

    بندر روڈ کا عید گاہ میدان، برصغیر کے مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ تحریکِِِ پاکستان کے سلسلے میں 11 اکتوبر 1938ء کو صوبائی مسلم لیگ کانفرنس قائد اعظم محمد علی جناح کی زیرِ صدارت اسی میدان میں منعقد ہوئی تھی۔ 15 اکتوبر 1939ء کو علامہ درس کی کاوشوں سے اسی جگہ ایک تاریخی جلسہ منعقد ہوا جس میں پاک و ہند سے صفِ اوّل کے راہ نماؤں اور علما نے شرکت کی۔ 15 دسمبر 1941ء کو اسی عید گاہ میں علامہ ظہور الحسن درس کی صدارت میں کراچی مسلم لیگ کانفرنس منعقد ہوئی۔

    قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی نمازِ جمعہ و عیدین کا سب سے بڑا اجتماع اسی عید گاہ میدان میں ہوا کرتا تھا اور یہ علامہ درس کی سحر انگیز شخصیت کا کمال تھا کی لوگ دور دراز کے علاقوں سے آکر ان اجتماعات میں شرکت کرتے تھے۔

    قیام پاکستان کے چند دن بعد 18 اگست 1947ء کو نماز عید الفطر کا ایک عظیم الشّان اجتماع کراچی کی اسی عید گاہ میں منعقد ہوا، جس میں قائدِاعظم محمد علی جناح، نواب زادہ لیاقت علی خان، سردار عبدالرّب نشتر، خواجہ ناظم الدین، راجہ غضنفر علی خان، حسین شہید سہروردی و دیگر اہم حکومتی شخصیات اور اکابرینِ ملت نے مولانا درس کی اقتدا میں نمازِ عید ادا کی۔

    مولانا ظہور الحسن درس 14 نومبر 1972ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے اور قبرستان مخدوم صاحب، کراچی آسودۂ خاک ہوئے۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص سردار عبدالرّب نشتر کا یومِ وفات

    سردار عبدالرّب نشتر کا شمار مسلمانانِ ہند کے ان راہ نماؤں میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فہم و فراست اور سیاسی سوجھ بوجھ سے آزادی کی تحریک میں‌ اہم اور نمایاں کردار ادا کیا۔ آج اس مدبّر اور مسلمانوں‌ کے عظیم راہ نما کا یومِ وفات ہے۔

    سردار عبدالرّب نشتر مسلمانوں کا درد رکھنے والے ایک ایسے راہ نما تھے جنھیں قائدِ اعظم کی رفاقت اور ان کے قابلِ اعتماد ساتھی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاکستان کی پہلی کابینہ کا حصّہ بنے اور پنجاب کے گورنر رہے۔ زندگی کے آخری ایام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی جان لیا تھا کہ ہندو، مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور جدوجہدِ آزادی میں‌ عملی طور پر حصّہ لینے لگے۔

    سردار عبدالرّب نشتر 13 جون 1899ء کو پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی سیاسی زندگی کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے ہوا، مگر ہندوؤں کے عزائم اور مسلمانوں‌ سے ان کے تعصب کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے فعال ہوگئے۔ وہ اہم سیاسی تحریکوں اور فیصلوں کے دوران اپنے مؤقف کا بے لاگ اظہار کرتے رہے۔ 1946ء میں متحدہ ہندوستان کی عارضی حکومت میں انھوں نے وزارتِ مواصلات کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دیگر اکابرین اور راہ نماؤں کے ساتھ مل کر ذمہ داریاں‌ نبھائیں۔

    14 فروری 1958ء کو تحریکِ پاکستان کے اس عظیم راہ نما نے کراچی میں وفات پائی۔ سردار عبدالرّب نشتر قائدِ اعظم اور لیاقت علی خان کے مزارات کے نزدیک احاطے میں‌ مدفون ہیں۔

  • مانکی شریف اور سردار عبدالرّب نشتر

    مانکی شریف اور سردار عبدالرّب نشتر

    قیام پاکستان کے بعد سردار عبدالرب نشتر پاکستان کی پہلی کابینہ میں شامل ہوئے اور پنجاب کے گورنر رہے۔ آخری ایام میں وہ مسلم لیگ کی صدارت کررہے تھے۔

    سردار عبدالرب نشتر نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز پر ہی جان لیا تھا کہ ہندو، مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم نہیں کرسکتے اور انھوں‌ نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ جلد ہی وہ اپنی فہم و فراست، سیاسی سوجھ بوجھ اور اخلاص کے باعث قائدِ اعظم کے قابل اعتماد رفقا میں شمار ہونے لگے۔

    وہ قائد اعظم کے ساتھ اہم ملاقاتوں اور سیاسی میٹنگوں‌ میں‌ شریک ہوتے تھے۔ انھوں‌ نے برصغیر کے مسلمانوں‌ کے محبوب قائد اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے متعلق ایک واقعہ کچھ یوں‌ بیان کیا ہے۔

    جب ہم مانکی سے رخصت ہورہے تھے تو قائداعظم آگے آگے تھے اور پیر صاحب مانکی شریف سمیت پیر ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ جب قائداعظم موٹر میں بیٹھ گئے تو میں بھی ساتھ بیٹھا اور موٹر روانہ ہوگئی تو میں نے کہا مجھے ہنسی آتی تھی لیکن میں نے ضبط کرلی۔ پوچھا کیوں؟

    میں نے کہا’ جب ہم ان پیروں کے پاس جاتے ہیں تو بہت عزت واحترام سے ان کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں لیکن آج تمام پیر آپ کے پیچھے پیچھے آرہے تھے تو مجھے ہنسی آرہی تھی۔

    ‘ فرمانے لگے۔ ’تمہیں معلوم ہے اور ان کو بھی معلوم ہے کہ میں متقی، پرہیز گار اور زاہد نہیں ہوں۔ میری شکل و صورت زاہدوں کی سی نہیں ہے۔ مغربی لباس پہنتا ہوں لیکن اس کے باوجود یہ لوگ میرے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو یہ یقین ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق میرے ہاتھ میں محفوظ ہیں اور میں اپنی قوم کو کسی قیمت پر بھی فروخت نہیں کرسکتا۔‘‘

    کہتے ہیں‌ شخصیت کردار سے بنتی ہے اور قائدِ اعظم نے اپنے قول و عمل، راست گوئی اور کردار کی مضبوطی ہی سے خود کو قیادت کا اہل ثابت کیا اور دنیا کی تاریخ میں عظیم لیڈر کے طور پر مقام حاصل کیا۔