Tag: سردار فہد

  • "لاوارث”

    "لاوارث”

    مصنف: سردار فہد

    "اولاد کا دکھ کیا واقعی جان لیوا ہوتا ہے؟
    کیا بھوک انسان کی جان لے سکتی ہے؟
    عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہے کیا؟”

    اسے ایک پل کے لیے لگا کہ ان سب سوالوں کا جواب واقعی ہاں میں ہے اور یہ ایک ہاں اسے اپنے پورے جسم پر کسی بھاری بھرکم چٹان کی طرح محسوس ہو رہی تھی جو اسے کچلنے کے لیے کافی ہو۔

    نائلہ اپنی بڑی بہن حسینہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی نہ جانے کیا کیا سوچ رہی تھی۔ اپنی حالت سے بالکل بے نیاز نائلہ کی آنکھوں کے سامنے پچھلے تین دنوں کی جیسے کوئی فلم چل رہی ہو۔ جس کے کرداروں نے اس کی زندگی کو ایک عجیب موڑ پہ لا کھڑا کیا تھا جہاں آگے کھائی تھی اور پیچھے کنواں۔

    پچھلے تین دن سے اس نے اپنے بچے کا منہ نہیں دیکھا تھا۔ اس کا چھے ماہ کا بچہ تین دن پہلے اس کی چھاتی سے آخری بار سیر ہوا تھا جب اس کی ساس نے اسے دھتکار کر گھر سے نکال دیا تھا۔

    وجہ جو بھی تھی لیکن یہ حق تو مرد کا ہوتا ہے کہ وہ اپنی منکوحہ سے باز پرس کرے۔ جب اسلام نے ہی یہ حق نہیں دیا تو ہمارا معاشرہ کیسے ان جٹھانیوں، نندوں اور ساسوں کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ وکیل اور منصف بنیں اور کسی اور کی بیٹی کو سولی چڑھا دیں؟

    خون کی آگ بھی عجیب ہوتی ہے ناں۔ کسی کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے اور کسی کے خمیر میں شامل ہوتے ہی اسے شیطان کا کارندہ بنانے میں دیر نہیں کرتی۔

    ماں تو ماں ہوتی ہے۔ پھر یہ ماں ایک عورت کیسے بن سکتی ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ماں کی ساری ممتا کو ساس نام کا گرہن لگ جاتا ہے اور سوائے اندھیرے کے اسے کچھ نہیں دکھائی دیتا؟

    گاڑی تیزی سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ حسینہ نے نائلہ کی بگڑتی حالت دیکھتے ہوئے ڈرائیور کو اور تیز چلنے کے لیے کہا لیکن اسے کیا معلوم کہ سارا کھیل ہی وقت کا ہے۔ بعض دفعہ وقت ہی تو نہیں ہوتا انسان کے پاس۔ اور وقت کی خاص بات ہی یہی ہے کہ جب برا ہوتا ہے تب قلیل بھی ہوتا ہے۔ اتنا قلیل کہ ساری زندگی کو ریت کے مانند اپنی مٹھی میں لیے، اسے کھولتا جائے اور سانسیں اکھڑتی جائیں۔

    نائلہ تین دن سے بھوکی تھی۔ بھلا ایک ماں کا حلق اتنا ظالم بھی تو نہیں ہو سکتا کہ اس کا شیر خوار بچہ تین دن سے بھوکا ہو اور وہ لقمے اتارتا پھرے۔ انسانی جسم میں یہی تو خرابی ہے کہ یہ دکھ کو نہیں سمجھتا۔ بھلے روح تڑپتی رہے لیکن اسے تو دانہ پانی چاہیے ورنہ کسی بچے کی طرح بگڑ جاتا ہے اور ایسا بگڑتا ہے کہ بس زمین پر لیٹ ہی جائے۔

    اسپتال جاتے ہوئے حسینہ نے ایک بار پھر اس کے سسرال کے سامنے گاڑی رکوائی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ نائلہ کا مسیحا وہ بچہ ہے جو اس کی جان بچا سکتا ہے۔ اس کی ساس سے ہزار منتیں ترلے کیے کہ تھوڑی دیر کے لیے اسے بچے کو دیکھ لینے دو اس کی طبیعت بہت خراب ہے۔ لیکن جب ایک ماں ایک عورت بن جائے تو اسے کب دوسری ماں کی پروا ہوتی ہے؟

    واقعی اس دنیا میں عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہے۔

    "سنیے، ان کا بلڈ پریشر بہت گر گیا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے”

    نرس کی دور سے آتی ہوئی آواز نے جیسے اس کی آخری امید پر بھی پانی پھیر دیا ہو۔ لیکن امید بچی ہی کہاں تھی؟ وہ تو اس شوہر کی امید پہ زندہ رہتی تھی جو سال میں صرف بار چھٹی ملنے پر گھر آتا تھا اور باقی گیارہ مہینے اسے عورتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کے چلا جاتا تھا؟

    یا اس بچے کے لیے جسے اس سے چھین لیا گیا تھا اور عورت کا حق ہی کہاں ہوتا ہے اولاد پہ؟ وہ تو بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھی جاتی ہے۔ خون تو وہ کسی اور ہی کا ہوتا ہے بھلے نو مہینے پل صراط پر عورت نے کیوں نہ گزارے ہوں۔

    بس وہ آخری بار اپنے بچے کو دیکھنا چاہتی تھی، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ کوئی پھانسی گھاٹ پہ لٹکنے والی مجرم نہیں ہے جس سے اس کی آخری خواہش پوچھی جائے گی اور پوری بھی ہو گی۔

    اس نے اپنی آنکھیں بند کرنے میں ہی عافیت جانی۔

  • انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    انسان سے نہیں، انسان کو جیتنا سیکھو!

    تحریر: سردار فہد

    "یہ ہوس کا زمانہ ہے بابا جی، محبت کا نہیں۔ ضرورتیں کچھ دیر کے لیے کدورتوں کی اوٹ سے جھانکتے ہوئے محبت کے دو بول بولتی ہیں اور پھر کدورتوں کے پیچھے چھپ جاتی ہیں۔”

    میں نے گِلہ کیا تو بابا جی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ نے میری دلیل کو جھٹ سے رد کر دیا۔ وہ بولے۔

    "بیٹا ! نہ ملنے کا گِلہ تو وہی کرتے ہیں جو کچھ دینا نہیں جانتے یا دینا نہیں چاہتے۔

    یاد رکھو! محبت اور عزت دینے سے ملتی ہے۔ یہ تو دیوار پر پھینکی ہوئی گیند کی طرح ہوتی ہے۔ جتنی قوت سے پھینکو گے اتنی قوت سے واپس تمہارے ہاتھوں میں آئے گی۔ بیٹا! دینا سیکھو۔ اوپر والا دس گنا کر کے لوٹائے گا۔ چاہے وہ محبت ہو یا عزت۔”

    "لیکن بابا! ایسے لوگ بھی تو ہیں جو اس قابل ہی نہیں کہ انہیں عزت دی جائے یا ان سے محبت کے بول بولے جائیں۔ بعض اوقات تو انسان کو خود پہ ترس آتا ہے کہ جس شخص کو اس نے اتنی محبت دی وہی شخص جب دغا کرنے پر آیا تو قرعہ بھی اسی کا نام نکلا جس نے اسے دل کے قریب تر رکھا تھا۔

    اور جس شخص کو عزت کی پگ پہنا کر وہ اس کا قد اونچا کرتا رہا اسی شخص نے اسے بونا سمجھنے میں دیر نہیں کی۔” غیر ارادی طور پر میرے منہ سے نکلا تو بابا جی کے چہرے کی مسکان غائب تھی۔

    "بیٹا ! رب کی بنائی ہوئی کوئی چیز بھی حقیر نہیں، بدصورت نہیں، کمتر نہیں ہے اور بے کار نہیں ہے۔ انسان تو ہے ہی اشرف المخلوقات اور انسان کو میرے اللہ نے بہت ہی خوب صورت بنایا ہے، اور ہر انسان کی مٹی میں محبت، اخلاق اور اخلاص کی خوش بُو ملائی ہے لیکن انسان ہی اپنے اندر کے شیطان کو اس قدر اختیار دے دیتا ہے کہ وہ اس کے اندر کی خوش بُو کو اپنی غلاظت بھری پوٹلی میں قید کرسکے، لیکن کبھی کسی باغ میں کانٹے کو دیکھا ہے؟”

    "کانٹے کو؟ باغ میں تو لوگ پھول دیکھتے ہیں بابا۔” مجھے حیرانی ہوئی۔

    "ہاں ! پھول ہی تو دیکھتے ہیں۔ ان کی خوش بو انہیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ ان کی رنگت اور نازکی انہیں مسرور کرنے لگتی ہے۔ اور وہ اسے ہونٹوں سے لگا لیتے ہیں۔ کانٹے تو جب ان کی انگلیوں میں چبھنے لگیں تو تبھی انہیں کانٹوں کے وجود کا احساس ہوتا ہے۔

    لیکن اگلی بار باغ میں جاؤ تو کانٹوں کے لیے جانا۔ انہیں محبت سے دیکھنا۔ ان کے اندر کی خوب صورتی کو محسوس کرنا۔ اور میری مانو تو انہیں ہونٹوں سے بھی لگا لینا۔ وہ اپنے اندر کی ساری نرمی تمہارے اس پیار کے صدقے تم پر نچھاور کر دیں گے۔ اور آزما لینا۔۔۔۔ ایسا سکون ملے گا جو پھولوں کی نازکی میں کہاں۔

    بیٹا! انسان بھی سخت ہو جاتے ہیں، کانٹوں کی طرح۔
    انہیں محبت نرم کرتی اور ایسا نرم کرتی ہے کہ پھر پھول جیسے نرم دل لوگوں کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ بہت پیچھے۔”

    میں بابا جی کو محبت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے کی جھریوں میں نور چمکتا نظر آنے لگا۔ اور میری آنکھوں میں وہ نور اترنے لگا جو ہر سختی کو پگھلاتا ہوا کسی بھی چیز کو موم بنانے کی طاقت رکھتا ہو۔ جو انسان سے جیتنے کے بجائے انسان کو جیتنے کا ہنر جانتی ہوں۔ جو دلوں کی حکم رانی کا خواب دیکھنے لگی ہوں۔

     

    (مصنف کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے، شاعر ہیں، کہانیاں لکھتے ہیں اور مختلف سماجی موضوعات پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے بلاگ کا سہارا لیتے ہیں)