Tag: سرسید

  • سر سیّد کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں؟

    سر سیّد کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں؟

    سر سید نے ہندوستان اور مسلمانوں کی تقدیر سنوارنے اور بدلنے کا ایک علمی اور عملی فیصلہ کیا۔ اس میں سائنس کی قوت اور تحقیق اور تعلیم اور تدریس کی روشنی اہمیت کے حامل تھے۔ اس انقلابی قدم کو کچھ لوگوں نے سمجھا اور سر سید کا ساتھ دیا۔ وقت کی ضرورت کا احساس کیا لیکن ایک طبقے نے حکومت کے اشارے اور شہ پر اپنی محدود سمجھ کی بنا پر سر سید کی علمی اور تعلیمی تحریکوں کی مخالفت شروع کر دی۔ اس تلخ اور شیریں داستاں کو سمجھنا اور دہرانا آج کے جائزے کا مقصد اور منتہیٰ ہے۔

    ہم آج اندازہ نہیں کر سکتے کہ اپنے مشن اور مقصد کی تشکیل اور تکمیل کے لیے سر سید کو کن محاذوں پر کیسی کیسی لڑائیاں لڑنی پڑیں۔ ۱۸۵۷ء کے چھ برس بعد سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ وقت تھا کہ صنعتی ہندوستان زراعتی ہندوستان میں تبدیل ہو چکا تھا۔

    سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی میں زراعت کے جدید ترین تجربے کرائے۔ قانون پر لکچر دلوائے گئے۔ جدید سائنس پر کتابیں لکھوا کر چھاپی گئیں۔ لیکن انگریزی حکومت کے دباؤ میں اس عظیم الشان تجربہ کو بھی ایک تجربہ سمجھنا پڑا۔ سر سید جب ۱۸۷۰ء میں لندن سے لوٹے تو محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا منصوبہ اور تہذیب الاخلاق جیسا عہد آفریں رسالہ لے کر آئے۔ سر سید نے لندن جانے سے پہلے ایک بڑی غلطی کی جس سے حکومت کے ارباب ناراض ہو گئے۔ یعنی ۱۸۶۶ ء میں انہوں نے ایک اخبار سائینٹفیک سوسائٹی جاری کر دیا۔ سر سید اس اخبار کی پالیسی کے نگراں تھے۔ پہلے ہی سال میں حکومت نے اخبار کی پالیسی اور لب و لہجے کا سخت نوٹس لیا اور اس کے ایڈیٹر نور محمد کو الگ کرنا پڑا۔ حکومت نے اس رجحان کو باغیانہ بتایا۔

    سرسید نے لندن میں دیکھا کہ وہاں کے اخبار اور رسالے تبدیلی اور تفکر کے بہت بڑے علمبردار ہوتے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے رسالہ تہذیب الاخلاق کا منصوبہ تیار کیا۔ یہ رسالہ ہندوستان میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی تحریک کا ترجمان، دینی فکر میں تجدد اور تحقیق کی آواز اور سماجی اقدار کی نئی تشکیل کا ذریعہ بن کر ظاہر ہوا۔ حکومت پسند اور قدامت پسند طبقے نے اس کو پسند نہیں کیا۔ حکومت اعلیٰ مغربی تعلیم کے رواج کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اسی دوران میں ۱۸۷۲ء میں انڈمان نکوبار میں پہلی مرتبہ انگریز وائسرائے لارڈ میسو کا غلطی سے قتل ہو گیا، قاتل شیر علی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ وائسرائے کا قتل کر رہا ہے۔ نئے وائسرائے لارڈ نارتھ بروک نے کالج کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ سر سید کے بڑے مخالف علی بخش بدایونی سید امداد العلی حکومت کے خطاب یافتہ اور ملازم تھے۔ ان کی مخالفت سرکاری اشارے پر تھی۔

    ۱۸۷۲ء میں سر سید نے بنارس سے ایک کتاب شائع کی جس میں ان لوگوں کی رائے کا خلاصہ پیش کیا تھا جو کالج کے تعلیمی منصوبے کو ایک خاص شکل میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ان میں مشہور مفکر مسیح الدین کاکوروی جو لندن میں رہ چکے تھے اور جن کا خاندان پچھلے ستر برس سے انگریزی حکومت کے اعلی عہدوں پر متمکن تھا۔ اس میں مسیح الدین کاکوروی کا رسالہ شامل تھا۔ سخاوت علی مدہوش اور سید مہدی علی کے رسائل شامل تھے۔ حالی کا یہ بیان غلط ہے کہ سر سید ڈسپاٹک (خود رائے) طبیعت کے مالک تھے۔ سر سید نے ہر مرحلے پر مشورے کو اہمیت دی لیکن اپنی رائے اور عمل کو اختلاف میں الجھایا نہیں بلکہ سلجھایا اور آخر ۲۴ مئی ۱۸۷۵ ء کو علی گڑھ میں محمد کریم کی صدارت میں ایم۔ اے۔ او کالج کی بنیاد ڈالی۔ اور یہاں سے وہ قافلہ شروع ہوا جس نے ہندوستان کے بدلنے میں بہت بڑا رول ادا کیا۔ اس کالج نے صرف مسلمانوں کو فائدہ نہیں پہنچایا بلکہ ہندو بھی اس کے فائدے سے دور نہیں رہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمانوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج سے اتنا فائدہ نہیں اٹھایا جتنا اعلی ذات کے ہندوؤں نے اٹھایا۔ اسٹاف اور طالب علم دونوں میں وہ ضرورت سے زیادہ نمائندگی رکھتے تھے۔ یہ علم و تدریس کا انوکھا تجربہ تھا جہاں مقصد اور محور مسلمان تھے لیکن ہندو زیادہ فیض یاب ہوئے۔

    اس کی بڑی وجہ انگریزوں کی ظاہری اور در پردہ مخالفت تھی۔ یہاں یہ بات کہنا ضروری ہے کہ کالج اور سر سید کے خلاف یہ مشہور کیا گیا کہ سر سید نے کالج زمینداروں کے لیے قائم کیا۔ اودھ کے اضلاع سے نہ ہونے کے برابر طالب علم آئے۔ وہاں انگریزی حکومت کی گرفت زیادہ تھی۔ اگر پنجاب سے مسلمان نہ آتے تو شاید کالج بند ہو جاتا۔ رنجیت سنگھ کے زمانے میں پنجاب کے مسلمان تباہ ہو گئے۔ پٹیالہ کی ریاست مسلمانوں کی سر پرست تھی۔ خلیفہ سید محمد حسین وزیر اعظم پٹیالہ کی کوشش سے پہلی بڑی امداد مہا راجہ پٹیالہ نے دی۔ کالج کی مخالفت میں انگریزوں کے ہمنوا زمیندار اور دوسرے درجے کے مولوی آگے آگے تھے۔ اور یہ وہ لوگ تھے جن کے مقاصد قلیل، جن کی نظر محدود تھی اور جن کا حوصلہ مسدود تھا۔

    یہ عجیب اتفاق ہے کہ کالج کے اورینٹل سیکشن جہاں قدیم درس ِ نظامی اور جدید علوم کی تدریس جاری تھی، اس شعبے کو طالب علم نہیں مل رہے تھے۔ اس شعبے میں مولانا اکبر ابن مولانا نور الحسن کاندھلوی موجود تھے۔ بعد میں شبلی نعمانی اس شعبے میں استاذ ہوکر آئے۔ آخر میں درس نظامی کی تعلیم کا یہ شعبہ ۱۸۸۵ء میں بند ہو گیا۔ مگر سید محمود اس شعبے کو زندہ رکھنا چاہتے تھے۔

    سر سید نے ۱۸۸۲ ء کے ہنٹر تعلیمی کمیشن کے سامنے صاف صاف بتایا کہ انگریز حکام ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان اعلٰی مغربی تعلیم کا رواج نہیں چاہتے ہیں۔ سر سید نے کہا کہ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ سر سید کی یہ آواز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بار بار دہرائی گئی۔ سر سید نہایت پامردی سے لڑتے رہے مگر یہ واقعات داستان بن کر بھی حیات جاوید کے صفحات سے غیر حاضر رہی۔ اور یہی وجہ ہے کہ سر سید کو کالج کی ترقی اور تعمیر کے لیے روپیے نہیں مل رہے تھے اور طالب علم بھی نہیں مل رہے تھے۔ مسلمان استاد نہیں مل رہے تھے۔ ٹیچر ڈپٹی کلکٹر بن رہے تھے۔ سر سید کی تعلیمی جد و جہد کی کہانی مصیبتوں اور مشکلوں کے کانٹوں کی راہ ہے۔ یہاں بغیر آبلوں کے پاؤں زخمی ہیں۔ یہ مخالفت روز بروز بڑھتی گئی، یہاں تک کہ سر سید نے کالج کی تحریک کو ایک تعلیمی تحریک میں تبدیل کر دیا اور ۱۸۸۶ء میں محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کی بنیاد ڈال دی۔
    اب انہوں نے مختلف جگہ جلسے کیے اور مسلمانوں کو تعلیم کے لیے جگا نا چاہا۔ اس میں ان کو کچھ موافق بھی ملے۔ سر سید کے سامنے اس کانفرنس کے گیارہ جلسے ہوئے۔ جن لوگوں نے ان جلسوں کی صدارت کی ان میں حشمت اللہ، عماد الملک سید حسین، جسٹس شاہ دین وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کانفرنس کے بنانے کے تین برس بعد سر سید کو دسمبر ۱۸۸۹ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے لیے قانون ٹرسٹیاں بنانا پڑا، کیوں کہ گورمنٹ کالج کو ایک عربی فارسی کا کالج بنانا چاہتی تھی۔ الہ آباد یونیورسٹی کو سر سید نے ایک لاہور کے طرز کی اورینٹل یونیورسٹی نہیں بننے دیا۔ اس قانون ٹرسٹی میں سید محمود کے آیندہ سکریٹری ہونے کا ذکر تھا۔

    اب سر سید کے پرانے ساتھی سمیع اللہ خاں اور خواجہ محمد یوسف بھی سر سید کے مخالف ہو گئے۔ علی گڑھ اور بلند شہر کے رئیس انگریزی حکومت کے اشارے پر سخت مخالف ہو گئے۔ نواب لطف علی خاں چھتاری جن کے والد نواب محمود علی خاں سر سید کے پہلے سے مخالف تھے، سرکاری ملازمین کا ایک طبقہ اور مقامی رئیسوں کا ایک حصہ نہ صرف اختلاف رکھتا تھا بلکہ سر سید اور ان کی تعلیمی تحریک کا دشمن تھا۔ یہاں تک کہ سر سید کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی۔

    (فرخ جلالی کے مضمون ‘سر سید اور علی گڑھ تحریک کے موافق اور مخالف’ سے اقتباسات)

  • بیکری میں ڈکیتی کا سنسنی خیز منظر، کسٹمر گولیوں سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ گئے

    بیکری میں ڈکیتی کا سنسنی خیز منظر، کسٹمر گولیوں سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ گئے

    کراچی: شہر قائد کے علاقے سر سید میں مٹھائی کی ایک دکان میں ڈکیتی کی کوشش کے دوران خاتون اور بچے سمیت کسٹمر کی جانیں خطرے میں پڑ گئیں، گولیوں سے بچنے کے لیے کسٹمر زمین پر لیٹ گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں سرسید کے علاقے میں مٹھائی کی دکان پر 3 ملزمان نے ڈکیتی کی کوشش کی، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیجز اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لیں۔

    ڈکیتی کے واقعے کے دوران گولیاں چلنے سے ایک ڈاکو زخمی ہو گیا تھا جسے پولیس نے حراست میں لے کر عباسی شہید اسپتال منتقل کیا تاہم وہ دوران علاج دم توڑ گیا۔

    اے آر وائی نیوز پر چلنے والی فوٹیجز کے مطابق 3 ڈکیت مٹھائی کی دکان میں داخل ہوئے، انھیں سیکورٹی گارڈز کی تعداد کے حوالے سے غلط فہمی ہوئی، ڈکیت سمجھے کہ دکان میں ایک ہی سیکورٹی گارڈ ہے، جس کی وجہ سے ان کا ڈکیتی کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔

    ایک ڈاکو اپنے ساتھی کو آواز دے کر سیکورٹی گارڈ کی موجودگی سے خبردار کر رہا ہے

    دکان میں داخل ہونے کے بعد ایک ڈاکو نے سیکورٹی گارڈ کو پکڑ کر اس سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی، اس دوران دوسرے ڈاکو نے چلا کر اسے خبردار کرنے کی کوشش کی کہ ایک سیکورٹی گارڈ ادھر بھی ہے، لیکن دیر ہو چکی تھی، پہلے سیکورٹی گارڈ نے موقع دیکھ کر ڈاکو پر فائر کر دیا۔

    سیکورٹی گارڈ پستول نکال کر ڈاکوؤں پر فائرنگ کر رہا ہے جب کہ خاتون اپنے بچے کو کھینچ کر بچانے کی کوشش کر رہی ہے

    فوٹیجز کے مطابق دوسری جانب سے دوسرے سیکورٹی گارڈ نے ڈاکوؤں پر فائرنگ شروع کر دی، فائرنگ سے ڈاکو بھاگا تو دکان کے باہر زخمی حالت میں گر پڑا، جسے بعد ازاں پولیس نے حراست میں لیا، لیکن وہ علاج کے دوران دم توڑ گیا۔

    واقعے کی 4 عدد فوٹیجز میں فائرنگ کے وقت دکان کے اندر اور باہر کے شیشوں پر گولیاں لگتے دیکھا جا سکتا ہے، دونوں کاؤنٹرز کے درمیان خاتون اور بچے سمیت کئی کسٹمرز زمین پر جان بچانے کے لیے لیٹ گئے، گولی چلتے ہی خاتون نے جان بچاتے وقت اپنے بچے کو بھی کھینچ کر نیچے بٹھایا۔

    مٹھائی کی دکان سے باہر کا فوٹیج، جس میں ایک ڈاکو گولی لگنے کے بعد زمین پر گر رہا ہے

    دکان سے باہر والی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ اسٹول پر بیٹھا ہوا ملازم گولی کی آواز سنتے ہی چونک اٹھا، وہ گھبرا کر اندر جانے لگا تو اسی وقت ڈاکو فائر کرتے ہوئے باہر نکلے، اور ان میں سے زخمی ڈاکو گر پڑا، جسے دیکھ کر ملازم اور بھی گھبرا گیا اور اندر چلا گیا۔

    بعد ازاں، پولیس کو طلب کیا گیا، اہل کاروں نے آکر زخمی ڈاکو کو حراست میں لے کر اسپتال منتقل کر دیا۔

  • دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق اور برصغیر کے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے حصول سے متعلق آگاہی کے لیے زندگی وقف کرنے والے سرسید احمد خان کی آج 121  ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سرسید احمد خان نےمسلمانوں کوجدیدعلوم سےروشناس کرایا۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی پرکتاب ’اسباب بغاوت ہند‘بھی تحریرکی۔ مسلمانوں کے لیے آپ کی علمی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔

    سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اورانگریزی زبان سمیت مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ دنیا بھر میں رسوا ہوتے رہیں گے۔ اُن کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے، اُسی مقصد کی خاطر سر سید نے اپنی زندگی وقف کی اور آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھی۔

    انگلستان کے تعلیمی نظام کا معائنہ

    سنہ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے، وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا اور وہاں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے ساتھ ہی انہوں نے  ہندوستان میں اسی طرز کی یونیورسٹی اور کالج قائم کرنے کا ارادہ بھی کیا۔

    مزید پڑھیں: سرسید احمد خان کی خدمات، اسٹیٹ بینک کا اعزازی سکہ جاری کرنے کا اعلان

    انگلستان سے 1870ء میں واپسی ہوئی تو سرسید نے ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ سنہ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔

    علی گڑھ کالج کا قیام

    انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک کالج کے قیام کے لئے کام شروع کیا۔  ساتھ ہی ایک فنڈ کمیٹی بھی قائم کی گئی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کیا اور حکومت سے امداد کی درخواست بھی کی۔

    سنہ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم کی تدریس کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔

    یہ رہائشی کالج (ہاسٹل) تھا جہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے مگر اُن کی زندگی میں یہ ممکن نہ ہوسکا، سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور پھر یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے ہی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

     

    تصانیف

    سرسید ایک متنوع المزاج شخصیت تھے اور ان کا یہی رنگ ان کی متفرق موضوعات پر موجود تصانیف میں نظرآتا ہے جیسا کہ آرکیالوجی جیسے موضوع پرآثارالصناعید جیس معرکتہ الآراء کتاب مرتب کی۔

    انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور بالخصوص مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے۔

    سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ ’’گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے‘‘۔

    مزید پڑھیں: بھارتی ہندوؤں کی سازشیں، علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلم شناخت کو خطرہ

    ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لئے صدربورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔

    سر سید کہتے تھے کہ 1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔

    سر سید نے ایک موقع پر اپنی تفسیرِ قرآن کی نسبت کہا کہ ’’اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کرنہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!‘‘۔

    رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو ئے ہیں ۔

    سیاسی خدمات

    آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحالی پر دیں تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ پر گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔

    سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔

    اسے بھی پڑھیں: علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم کی تصویر غائب، طلبہ سراپا احتجاج

    انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔

    انہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔

    بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہےکہ ’’قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مردِ پیر نے رکھی تھی‘‘۔

    انتقال

    سر سید احمد خان نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔