Tag: سرسید احمد خان

  • امید کی خوشی (انشائیہ)

    امید کی خوشی (انشائیہ)

    اے آسمان پر بھورے بادلوں میں بجلی کی طرح چمکنے والی دھنک، اے آسمان کے تارو، تمھاری خوش نما چمک، اے بلند پہاڑوں کی آسمان سے باتیں کرنے والی دھندلی چوٹیو! اے پہاڑ کے عالی شان درختو! اے اونچے اونچے ٹیلوں کے دل کش بیل بوٹو! تم بہ نسبت ہمارے پاس کے درختوں اور سر سبز کھیتوں اور لہراتی ہوئی نہروں کے کیوں زیادہ خوش نما معلوم ہوتے ہو؟ اس لیے کہ ہم سے بہت دور ہو۔

    اس دوری ہی نے تم کو یہ خوب صورتی بخشی ہے۔ اس دوری ہی سے تمھارا نیلا رنگ ہماری آنکھوں کو بھایا ہے، تو ہماری زندگی میں بھی جو چیز بہت دور ہے وہی ہم کو زیادہ خوش کرنے والی ہے۔

    وہ چیز کیا ہے؟ کیا عقل ہے؟ جس کو سب لوگ سب سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ کیا وہ ہم کو آئندہ کی خوشی کا یقین دلا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں! اس کا میدان تو نہایت تنگ ہے۔ بڑی دوڑ دھوپ کرے تو نیچر تک اس کی رسائی ہے جو سب کے سامنے ہے۔ او نورانی چہرے والے یقین کی اکلوتی خوب صورت بیٹی، امید! یہ خدائی روشنی تیرے ہی ساتھ ہے۔ تو ہی ہماری مصیبت کے وقتوں میں ہم کو تسلی دیتی ہے۔ تو ہی ہمارے آڑے وقتوں میں ہماری مدد کرتی ہے۔ تیری ہی بدولت نہایت دور دراز خوشیاں ہم کو نہایت ہی پاس نظر آتی ہیں۔ تیرے ہی سہارے سے زندگی کی مشکل مشکل گھاٹیاں ہم طے کرتے ہیں۔ تیرے ہی سبب سے ہمارے خوابیدہ خیال جاگتے ہیں۔ تیری ہی برکت سے خوشی، خوشی کے لیے نام آوری، نام آوری کے لیے بہادری، بہادری کے لیے فیاضی، فیاضی کے لیے محبت، محبت کے لیے نیکی، نیکی کے لیے صلہ تیار ہے۔ انسان کی تمام خوبیاں اور ساری نیکیاں تیری ہی تابع اور تیری ہی فرماں بردار ہیں۔

    وہ پہلا گنہگار انسان جب شیطان کے چنگل میں پھنسا اور تمام نیکیوں نے اس کو چھوڑا اور تمام بدیوں نے اس کو گھیرا تو صرف تو ہی اس کے ساتھ رہی۔ تو ہی نے اس نا امید کو نا امید ہونے نہیں دیا، تو ہی نے اس موت میں پھنسے دل کو مرنے نہیں دیا۔ تو ہی نے اس کو ذلت سے نکالا اور پھر اس کو اس اعلیٰ درجہ پر پہونچایا جہاں کہ فرشتوں نے اس کو سجدہ کیا تھا۔

    اس نیک نبی کو جس نے سینکڑوں برس اپنی قوم کے ہاتھ سے مصیبت اٹھائی اور مار پیٹ سہی، تیرا ہی خوبصورت چہرہ تسلی دینے والا تھا۔ وہ پہلا ناخدا جب کہ طوفان کی موجوں میں بہا جاتا تھا اور بجز مایوسی کے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا تو تو ہی اس طوفان میں اس کی کشتی کھینچنے والی اور اس کا بیڑا پار لگانے والی تھی۔ تیرے ہی نام سے جودی پہاڑ کی مبارک چوٹی کو عزت ہے۔ زیتون کی ہری ٹہنی کو جو وفادار کبوتر کی چونچ میں وصل کے پیغام کی طرح پہنچی، جو کچھ برکت ہے تیری ہی بدولت ہے۔

    اے آسمانوں کی روشنی اور اے ناامیدوں کی تسلی، امید! تیرے ہی شاداب اور سر سبز باغ سے ہر ایک محنت کا پھل ملتا ہے۔ تیرے ہی پاس ہر درد کی دوا ہے۔ تجھی سے ہر ایک رنج میں آسودگی ہے۔ عقل کے ویران جنگلوں میں بھٹکتے بھٹکتے تھکا ہوا مسافر تیرے ہی گھنے باغ کے سر سبز درختوں کے سایہ کو ڈھونڈتا ہے۔ وہاں کی ٹھنڈی ہوا، خوش الحان جانوروں کے راگ، بہتی نہروں کی لہریں اس کے دل کو راحت دیتی ہیں۔ اس کے مرے ہوئے خیالات کو پھر زندہ کرتی ہیں۔ تمام فکریں دل سے دور ہوتی ہیں اور دور دراز زمانہ کی خیالی خوشیاں سب آ موجود ہوتی ہیں۔

    دیکھ نادان بے بس بچہ گہوارہ میں سوتا ہے۔ اس کی مصیبت زدہ ماں اپنے دھندے میں لگی ہوئی ہے اور اس گہوارہ کی ڈوری بھی ہلاتی جاتی ہے۔ ہاتھ کام میں اور دل بچے میں ہے اور زبان سے اس کو یوں لوری دیتی ہے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ، اے اپنے باپ کی مورت اور میرے دل کی ٹھنڈک سو رہ، اے میرے دل کی کونپل سو رہ، بڑھ اور پھل پھول، تجھ پر کبھی خزاں نہ آنے پاوے، تیری ٹہنی میں کوئی خار کبھی نہ پھوٹے، کوئی کٹھن گھڑی تجھ کو نہ آوے، کوئی مصیبت جو تیرے ماں باپ نے بھگتی تو نہ دیکھے، سو رہ میرے بچے سو رہ، میری آنکھوں کے نور اور میرے دل کے سرور میرے بچے سو رہ، تیرا مکھڑا چاند سے بھی زیادہ روشن ہوگا، تیری خصلت تیرے باپ سے بھی اچھی ہوگی، تیری شہرت، تیری لیاقت، تیری محبت جو تو ہم سے کرےگا آخر کار ہمارے دل کو تسلی دے گی۔ تیری ہنسی ہمارے اندھیرے گھر کا اجالا ہوگی۔ تیری پیاری پیاری باتیں ہمارے غم کو دور کریں گی۔ تیری آواز ہمارے لیے خوش آیند راگنیاں ہوں گی، سو رہ میرے بچے سو رہ۔ اے ہماری امیدوں کے پودے سو رہ۔

    بولو جب اس دنیا میں ہم تم سے جدا ہو جاویں گے تو تم کیا کرو گے۔ تم ہماری بے جان لاش کے پاس کھڑے ہو گے۔ تم پوچھو گے اور ہم کچھ نہ بولیں گے۔ تم روؤ گے اور ہم کچھ نہ رحم کریں گے۔ اے میرے پیارے رونے والے! تم ہمارے ڈھیر پر آکر ہماری روح کو خوش کرو گے۔ آہ ہم نہ ہوں گے اور تم ہماری یادگاری میں آنسو بہاؤ گے۔ اپنی ماں کا محبت بھرا چہرہ، اپنے باپ کی نورانی صورت یاد کرو گے۔ آہ ہم کو یہی رنج ہے کہ اس وقت ہماری محبت یاد کر کر تم رنجیدہ ہو گے۔ سو رہ میرے بچے سو رہ۔ سو رہ میرے بالے سو رہ۔

    یہ امید کی خوشیاں ماں کو اس وقت تھیں جب کہ بچہ غوں غاں بھی نہیں کر سکتا تھا۔ مگر جب وہ ذرا اور بڑا ہوا اور معصوم ہنسی سے اپنی ماں کے دل کو شاد کرنے لگا اور امّاں امّاں کہنا سیکھا۔ اس کی پیاری آواز، ادھورے لفظوں میں اس کی ماں کے کان میں پہونچنے لگی۔ آنسوؤں سے اپنی ماں کی آتش محبت کو بھڑکانے کے قابل ہوا۔ پھر مکتب سے اس کو سروکار پڑا۔ رات کو اپنی ماں کے سامنے دن کا پڑھا ہوا سبق غم زدہ دل سے سنانے لگا اور جب کہ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھ کر ہاتھ منہ دھو کر اپنے ماں باپ کے ساتھ صبح کی نماز میں کھڑا ہونے لگا اور اپنے بے گناہ دل، بے گناہ زبان سے، بے ریا خیال سے خدا کا نام پکارنے لگا تو امید کی خوشیاں اور کس قدر زیادہ ہو گئیں۔ اس کے ماں باپ اس معصوم سینہ سے سچی ہمدردی دیکھ کر کتنے خوش ہوتے ہیں اور ہماری پیاری امید تو ہی ہے جو مہد سے لحد تک ہمارے ساتھ رہتی ہے۔

    دیکھو وہ بڈھا آنکھوں سے اندھا اپنے گھر میں بیٹھا روتا ہے۔ اس کا پیارا بیٹا بھیڑوں کے ریوڑ میں سے غائب ہو گیا ہے۔ وہ اس کو ڈھونڈتا ہے پر وہ نہیں ملتا۔ مایوس ہے پر امید نہیں ٹوٹی۔ لہو بھرا دانتوں پھٹا کرتا دیکھتا ہے، پر ملنے سے نا امید نہیں۔ فاقوں سے خشک ہے۔ غم سے زار نزار ہے۔ روتے روتے آنکھیں سفید ہو گئی ہیں۔ کوئی خوشی اس کے ساتھ نہیں ہے مگر صرف ایک امید ہے جس نے اس کو وصل کی امید میں زندہ اور اس خیال میں خوش رکھا ہے۔

    دیکھ وہ بے گناہ قیدی، اندھیرے کنوئیں میں سات تہ خانوں میں بند ہے۔ اس کا سورج کا سا چمکنے والا چہرہ زرد ہے۔ بے یار و دیار غیر قوم، غیر مذہب کے لوگوں کے ہاتھ میں قید ہے۔ بڈھے باپ کا غم اس کی روح کو صدمہ پہنچاتا ہے۔ عزیز بھائی کی جدائی اس کے دل کو غمگین رکھتی ہے۔ قید خانے کی مصیبت، اس کی تنہائی، اس گھر کا اندھیرا اور اس پر اپنی بے گناہی کا خیال اس کو نہایت رنجیدہ رکھتا ہے۔ اس وقت کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ مگر اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید! تجھ ہی میں اس کی خوشی ہے۔

    وہ دلاور سپاہی لڑائی کے میدان میں کھڑا ہے، کوچ پر کوچ کرتے کرتے تھک گیا ہے، ہزاروں خطرے درپیش ہیں مگر سب میں تقویت تجھ ہی سے ہے۔ لڑائی کے میدان میں جب کہ بہادروں کی صفیں کی صفیں چپ چاپ کھڑی ہوتی ہیں اور لڑائی کا میدان ایک سنسان کا عالم ہوتا ہے، دلوں میں عجیب قسم کی خوف ملی ہوئی جرأت ہوتی ہے۔ اور جب کہ لڑائی کا وقت آتا ہے اور لڑائی کے بگل کی آواز بہادر سپاہی کے کان میں پہنچتی ہے۔ اور وہ آنکھ اٹھا کر نہایت بہادری سے بالکل بے خوف ہو کر لڑائی کے میدان کو دیکھتا ہے۔ اور جبکہ بجلی سی چمکنے والی تلواریں اور سنگینیں اس کی نظر کے سامنے ہوتی ہیں اور بادل کی سی کڑکنے والی اور آتشیں پہاڑ کی سی آگ برسانے والی توپوں کی آواز سنتا ہے۔ اور جب کہ اپنے ساتھی کو خون میں لتھڑا ہوا زمین پر پڑا ہوا دیکھتا ہے تو اے بہادروں کی قوتِ بازو۔ اور اے بہادری کی ماں۔ تیرے ہی سبب سے فتح مندی کا خیال ان کے دلوں کو تقویت دیتا ہے۔ ان کا کان نقارہ میں سے تیرے ہی نغمے کی آواز سنتا ہے۔

    وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکر کرتا ہے۔ دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیریں ڈھونڈتا ہے۔ ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے، یگانوں بے گانوں سے ملتا ہے۔ ہر ایک کی بول چال میں اپنا مطلب ڈھونڈتا ہے۔ مشکل کے وقت ایک بڑی مایوسی سے مدد مانگتا ہے۔ جن کی بھلائی چاہتا ہے انہیں کو دشمن پاتا ہے۔ شہری وحشی بتاتے ہیں۔ دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں۔ عالم فاضل کفر کے فتووں کا ڈر دکھاتے ہیں۔ بھائی بند عزیز اقارب سب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو رہتے ہیں،

    وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں
    بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں​

    ساتھی ساتھ دیتے ہیں مگر ہاں ہاں کر کر محنت اور دل سوزی سے دور رہ کر۔ بہت سی ہمدردی کرتے ہیں، پر کوٹھی کٹھلے سے الگ کر کر۔ دل ہر وقت بے قرار ہے۔ کسی کو اپنا سا نہیں پاتا۔ کسی پر دل نہیں ٹھہرتا۔ مگر اے بے قرار دلوں کی راحت اور اے شکستہ خاطروں کی تقویت۔ تو ہی ہر دم ہمارے ساتھ ہے، تو ہی ہمارے دل کی تسلی ہے، تو ہی ہماری کٹھن منزلوں کی ساتھی ہے۔ تیری ہی تقویت سے ہم اپنی منزلِ مقصود تک پہنچیں گے۔ تیرے ہی سبب گوہر مراد کو پاویں گے اور ہمارے دل کی عزیز اور ہمارے مہدی کی پیاری ’’امید‘‘ تو ہمیشہ ہمارے دل کی تسلی رہ۔

    اے ہمیشہ زندہ رہنے والی امید۔ جب کہ زندگی کا چراغ ٹمٹماتا ہے اور دنیاوی حیات کا آفتاب لبِ بام ہوتا ہے۔ ہاتھ پاؤں میں گرمی نہیں رہتی۔ رنگ فق ہو جاتا ہے۔ منہ پر مردنی چھاتی ہے۔ ہوا ہوا میں، پانی پانی میں، مٹی مٹی میں ملنے کو ہوتی ہے تو تیرے ہی سہارے سے وہ کٹھن گھڑی آسان ہوتی ہے۔ اس وقت اس زرد چہرے اور آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے ہونٹوں اور بے خیال بند ہوتی ہوئی آنکھوں اور غفلت کے دریا میں ڈوبتے ہوئے دل کو تیری یادگاری ہوتی ہے۔ تیرا نورانی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔ تیری صدا کان میں آتی ہے اور ایک نئی روح اور تازہ خوشی حاصل ہوتی ہے اور ایک نئی لازوال زندگی کی جس میں ایک ہمیشہ رہنے والی خوشی ہوگی، امید ہوتی ہے۔

    یہ تکلیف کا وقت تیرے سبب سے ہمارے لیے موسمِ بہار کی آمد آمد کا زمانہ ہو جاتا ہے۔ اس لازوال خوشی کی امید تمام دنیاوی رنجوں اور جسمانی تکلیفوں کو بھلا دیتی ہے اور غم کی شام کو خوشی کی صبح سے بدل دیتی ہے۔ گو کہ موت ہر دم جتاتی ہے کہ مرنا بہت خوف ناک چیز ہے۔ او ہماری آنکھوں سے چھپی ہوئی دوسری دنیا جس میں ہم کو ہمیشہ رہنا ہے جہاں سورج کی کرن اور زمانے کی لہر بھی نہیں پہنچتی۔ تیری راہ تین چیزوں سے طے ہوتی ہے، (۱) ایمان کے توشے۔ (۲) امید کے ہادی اور (۳) موت کی سواری سے۔ مگر ان سب میں جس کو سب سے زیادہ قوت ہے وہ ایمان کی خوبصورت بیٹی ہے جس کا پیارا نام ’’امید‘‘ ہے۔

    لوگ کہتے ہیں کہ بے یقینوں کو موت کی کٹھن گھڑی میں کچھ امید نہیں ہوتی مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیری بادشاہت وہاں بھی ہے۔ قیامت پر یقین نہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ تمام زندگی کی تکلیفوں کا اب خاتمہ ہے اور پھر کسی تکلیف کے ہونے کی توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اس بے تکلیف آنے والے زمانے کی امید میں نہایت بردباری سے اور رنجوں کے زمانے کے اخیر ہونے کی خوشی میں نہایت بشاشت سے یہ شعر پڑھتا ہوا جان دیتا ہے،

    بقدر ہر سکوں راحت بود بنگر تفاوت را
    دویدن، رفتن، استادن، نشتن، خفتن و مردن

    (از مقالاتِ سر سید، جلد چہارم)​

  • جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    جب سرسیّد نے اپنے شاگرد کی پٹائی کی

    ماں جی ریل کے تھرڈ کلاس ڈبے میں بہت خوش رہتی تھیں۔ ہم سفر عورتوں اور بچّوں سے فوراً گھل مل جاتیں۔ سفر کی تھکان اور راستے کے گرد و غبار کا ان پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ اس کے برعکس اونچے درجوں میں بہت بیزار ہو جاتیں۔

    ایک دو بار جب انہیں مجبوراً ایئر کنڈیشن ڈبّے میں سفر کرنا پڑا تو وہ تھک کر چور ہو گئیں اور سارا وقت قید کی صعوبت کی طرح ان پر گراں گزرا۔

    منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز و اقارب کو تحائف دیے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں لائل پور کے مربع داروں کی بڑی دھوم تھی۔ ان کا شمار خوش قسمت اور با عزّت لوگوں میں ہوتا تھا۔ چنانچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پیام آنے لگے۔ یوں بھی ان دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹھ تھے۔ برادری والوں پر رعب گانٹھنے کے لیے نانی جی انہیں ہر روز نت نئے کپڑے پہناتی تھیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔

    کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ ان دنوں میرا تو گاؤں میں نکلنا دوبھر ہو گیا تھا۔ میں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے اور کہا کرتے۔ یہ خیال بخش مربع دار کی بیٹی جا رہی ہے۔ دیکھیے کون خوش نصیب اسے بیاہ کر لے جائے گا۔

    ماں جی! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا! ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر ان سے پوچھا کرتے۔

    ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں۔ ‘میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا۔ ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی ملے جو دو حرف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہو گی۔’

    ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔ اس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہو گئی۔ ان دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن پانچ چھے برس کی عمر میں یتیم بھی ہو گئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔ جب باپ کا سایہ سَر سے اٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اٹھ آئے۔ زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر انہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چنانچہ عبداللہ صاحب دل و جان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہو گئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو سال کے امتحان ایک ایک سال میں پاس کر کے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالبِ علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔

    اڑتے اڑتے یہ خبر سَر سیّد کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبد اللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انّیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچر ہو گئے۔

    سَر سیّد کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔ چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا تاکہ وہ انگلستان میں جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔

    پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبد اللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔

    اس حرکت پر سر سیّد کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔ انہوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا، ڈرایا دھمکایا لیکن عبد اللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔

    ‘کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟’ سر سیّد نے کڑک کر پوچھا۔

    ‘جی ہاں۔’ عبد اللہ صاحب نے جواب دیا۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سیّد آپے سے باہر ہو گئے۔ کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبد اللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کر کے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔

    عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے ہی سعادت مند شاگرد بھی تھے۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چنانچہ وہ ناک کی سیدھ میں گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہوگئے۔

    (‘ماں جی’ سے اقتباس، از قلم قدرت اللّہ شہاب)

  • ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ کے مصنّف تھامس واکر آرنلڈ کا تذکرہ

    برطانوی ماہرِ تعلیم اور مستشرق سَر تھامس واکر آرنلڈ کو ہندوستان اور بالخصوص برطانوی دور کے مسلمانوں میں‌ بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ وہ سر سیّد احمد خان اور دیگر مسلمان اکابرین کے دوستوں میں‌ شامل رہے اور اسلام اور اسلامی ثقافت سے متعلق نہایت مفید مضامین اور کتب تحریر کیں۔

    پروفیسر آرنلڈ نے سر سیّد احمد خان کے اصرار ہی پر نے کتاب ’’پریچنگ آف اسلام‘‘ لکھی تھی جس کا اردو ترجمہ بہت مشہور ہوا۔ وہ شاعرِ مشرق علّامہ محمد اقبال کے استاد بھی تھے۔

    نام وَر مؤرخ اور مشہور سیرت نگار علّامہ شبلی نعمانی نے ایک سفر نامے میں اپنے اسی انگریز معاصر پروفیسر سَر تھامس واکر آرنلڈ سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے۔ یہ بات ہے مئی 1892ء کی جب وہ عدن کے سفر کے دوران سمندری جہاز میں سوار تھے۔وہ لکھتے ہیں۔ "عدن سے چونکہ دل چسپی کے نئے سامان پیدا ہوگئے تھے، اس لیے ہم بڑے لطف سے سفر کر رہے تھے، لیکن دوسرے ہی دن ایک پُر خطر واقعہ پیش آگیا جس نے تھوڑی دیر تک مجھ کو پریشان رکھا۔ 10 مئی کی صبح کو میں سوتے سے اٹھا تو ایک ہم سفر نے کہا کہ جہاز کا انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے دیکھا تو واقعی کپتان اور جہاز کے ملازم گھبرائے پھرتے تھے اور اس کی درستی کی تدبیریں کر رہے تھے، انجن بالکل بیکار ہوگیا تھا اور جہاز آہستہ آہستہ ہوا کے سہارے چل رہا تھا، میں سخت گھبرایا اور نہایت ناگوار خیالات دل میں آنے لگے۔

    اس ضطراب میں اور کیا کر سکتا تھا، دوڑا ہوا مسٹر آرنلڈ کے پاس گیا، وہ اس وقت نہایت اطمینان کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کررہے تھے، میں نے ان سے کہا کہ کچھ خبر بھی ہے؟ بولے ہاں، انجن ٹوٹ گیا ہے، میں نے کہا کہ آپ کو کچھ اضطراب نہیں؟ بھلا یہ کتاب دیکھنے کا کیا موقع ہے؟ فرمایا کہ اگر جہاز کو برباد ہی ہونا ہے، تو یہ تھوڑا سا وقت اور بھی قدر کے قابل ہے اور ایسے قابلِ قدر وقت کو رائیگاں کرنا بالکل بے عقلی ہے۔ ان کے استقلال اور جرأت سے مجھ کو بھی اطمینان ہوا، آٹھ گھنٹے کے بعد انجن درست ہوا اور بہ دستور چلنے لگا۔”

    اس ایک واقعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہلِ علم و دانش مشکل اور کڑے وقت میں کیسے خود کو مضبوط رکھتے ہیں اور یہ کہ ان کے لیے مطالعہ کیا اہمیت رکھتا ہے۔

    پروفیسر آرنلڈ کا سنِ پیدائش 1864ء ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد یونانی اور لاطینی ادبِ عالیہ میں آنرز کیا۔ جرمن، اطالوی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی کے علاوہ عربی، فارسی اور سنسکرت بھی سیکھی۔ 1888ء میں اس انگریز ماہرِ تعلیم نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج، علیگڑھ میں بطور استاد اپنے فرائض‌ انجام دینا شروع کیے۔ 1898ء میں وہ فلسفے کے پروفیسر کے طور پر گورنمنٹ کالج لاہور سے منسلک ہو گئے۔ 1909ء میں انھیں برطانیہ میں ہندوستانی طلبہ کا تعلیمی مشیر مقرر کر دیا گیا۔ 1921ء سے 1930ء تک انھوں نے لندن یونیورسٹی میں مشرقی علوم کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

    1921ء ہی میں برطانوی سرکار نے انھیں‌ ’’سَر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ہندوستان کے مسلمان سیاسی اور سماجی راہ نماؤں کے قریب رہنے والے سر آرنلڈ 1930ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    علّامہ اقبال سے سر آرنلڈ نے ہمیشہ خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا۔ مشہور ہے کہ پروفیسر آرنلڈ نے ہی علّامہ اقبال کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ جانے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے لیے ان کی مدد کی تھی۔ ڈاکٹر محمد اقبال بھی اپنے استاد سے بہت محبت کرتے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ جب ہندوستان چھوڑ کر انگلستان واپس چلے گئے تو اقبال نے ایک نظم بعنوان ’’نالۂ فراق‘‘ لکھی جو بانگِ درا میں شامل ہے۔

  • تعصّب، جس نے مسلمانوں‌ کی خوبیوں‌ کو غارت و برباد کیا

    تعصّب، جس نے مسلمانوں‌ کی خوبیوں‌ کو غارت و برباد کیا

    انسان کی خصلتوں میں سے تعصُّب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بدخصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔

    مُتَعصِّب، گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصِب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصّب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیوں کہ اس کا تعصّب اُس کے بَرخلاف بات سننے، سمجھنے اور اُس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچّی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔

    تعصُّب انسان کو ہزار طرح کی نیکیوں کو حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اکثر دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی کام کو نہایت عمدہ اور مفید سمجھتا ہے، مگر صرف تعصّب سے اس کو اختیار نہیں کرتا اور برائی میں گرفتار اور بھلائی سے بیزار رہتا ہے۔

    انسان کو ہمیشہ مددگاروں کی جو دوستی اور محبّت سے ہاتھ آتے ہیں، ضرورت ہوتی ہے، مگر متعصّب تمام لوگوں سے بیزار رہتا ہے اور کسی کو دوستی اور محبّت کی طرف بجز اُن چند لوگوں کے جو اس کے ہم رائے ہیں، مائل نہیں ہوتا۔

    وہ ان تمام دل چسپ اور مفید باتوں سے محض جاہل اور ناواقف رہتا ہے۔ اُس کی عقل اور اُس کے دماغ کی قوت بیکار ہو جاتی ہے اور جو کچھ اس میں سمائی ہوئی ہے اس کے سوا اور کسی بات کے سمجھنے کی اس میں طاقت اور قوّت نہیں رہتی۔ وہ ایک ایسے جانور کی مانند ہو جاتا ہے کہ اس کو جو کچھ آتا ہے، اس کے سوا اور کسی چیز کی تعلیم و تربیت کے قابل نہیں ہوتا۔

    بہت سی قومیں ہیں جو اپنے تعصّب کے باعث تمام باتوں میں اعلیٰ درجے سے نہایت پست درجے کو پہنچ گئی ہیں اور بہت سے قومیں ہیں جنھوں نے اپنی بے تعصبی سے ہر جگہ اور ہر قوم سے اچّھی اچّھی باتیں اخذ کیں اور ادنیٰ درجے سے ترقی کے اعلیٰ سے اعلیٰ درجے پر پہنچ گئیں۔

    دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس نے خود ہی تمام کمالات اور تمام خوبیاں اور خوشیاں حاصل کی ہوں بلکہ ہمیشہ ایک قوم نے دوسری قوم سے فائدہ اُٹھایا ہے، مگر متعصِب شخص ان نعمتوں سے بد نصیب رہتا ہے۔

    علم میں اس کی ترقی نہیں ہوتی، ہنر و فن میں اس کی دست گاہ نہیں ہوتی، دنیا کے حالات سے وہ ناواقف رہتا ہے، عجائباتِ قدرت سے محروم ہوتا ہے، حصولِ معاش اور دنیاوی عزّت اور تموّل، مثلِ تجارت وغیرہ کے وسیلے جاتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ تمام دنیا کے انسانوں میں روز بروز ذلیل و خوار ہوتا جاتا ہے۔

    تعصّب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں جاتا، کوئی ہنر و کمال اُس میں نہیں آتا۔ تربیت و شایستگی، تہذیب و انسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا۔

  • آفتابِ علم و ادب سیّد الطاف علی بریلوی کی برسی

    آفتابِ علم و ادب سیّد الطاف علی بریلوی کی برسی

    سیّد الطاف علی بریلوی کو ان کی تعلیمی خدمات اور ادبی کاوشوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہ آفتابِ علم و ادب 24 ستمبر 1986 کو کراچی میں غروب ہوا، لیکن اپنی روشنی سے کئی ذہنوں کو منور کرگیا۔

    انھیں تحریکِ پاکستان کا کارکن اور ماہرِ تعلیم ہی نہیں‌ ایک ادیب اور مصلحِ قوم کی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

    سیّد الطاف علی بریلوی نے پاکستان میں فروغِ تعلیم کے لیے دن رات ایک کیا اور اس قوم کی بہتری اور اصلاح کی غرض سے اپنے قلم کو بھی متحرک رکھا۔ کراچی میں ’’سرسیّد گرلز کالج‘‘ کا قیام انہی کی کاوشوں کا نتیجہ تھا جو آج بھی سر سیّد احمد خان اور الطاف علی بریلوی کی یاد دلاتا ہے۔ سید الطاف علی بریلوی 10 جولائی 1905 کو بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1935 میں سر سید احمد خان کی قائم کردہ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے بطور آفس سیکریٹری اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا جس کے زیرِ اہتمام تقسیم کے بعد کراچی میں سرسید گرلز کالج قائم کیا گیا تھا۔

    سیّد الطاف علی بریلوی متعدد کتب کے مصنف تھے جن میں سب سے اہم’’حیاتِ حافظ رحمت خان‘‘ ہے جو 1934 میں شایع ہوئی جب کہ چند محسن چند دوست، مقالاتِ بریلوی، مسلمان کی دنیا، علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں، تعلیمی مسائل- پس منظر و پیش منظر، تخلیقات و نگارشات بھی ان کی بیش قیمت تصنیفات ہیں۔ انھوں‌ نے ایک علمی اور ادبی سہ ماہی جریدہ ’’العلم‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

  • پاﺅں نیچے کرلیجیے!

    پاﺅں نیچے کرلیجیے!

    سرسیّد احمد خان عمر میں مولوی نذیر احمد سے بیس بائیس سال بڑے تھے اور عوام کے علاوہ انگریز حکام میں بھی بہت معزّز تھے۔

    مولوی نذیر احمد بھی ان کی بڑی عزت کرتے اور دامے درمے، قدمے سخنے ان کی مدد کرتے رہتے تھے۔

    ایک دفعہ علی گڑھ کالج کے ایک ہندو محاسب نے لاکھوں روپے کا غبن کیا اور کالج جاری رکھنا محال ہوگیا۔

    یہ سُن کر مولوی نذیر احمد دلّی سے علی گڑھ پہنچے اور ہر طرح سے ان کی ڈھارس بندھائی۔ اور بولے ”اگر روپے کی ضرورت ہو تو یہ اس وقت موجود ہے، لے لو اور بھی دوں گا اور اگر کسی خدمت کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔“ سرسیّد اس پُرخلوص پیش کش سے بے حد متاثر ہوئے۔

    اس زمانے میں مولوی نذیر احمد کے دو نواسے مشرف الحق اور اشرف الحق علی گڑھ میں پڑھتے تھے۔

    اشرف الحق نے بتایا کہ ”نانا ابّا نے ہمیں سیّد صاحب کے کمرے میں بلوایا تو ہم نے دیکھا کہ ان کے پاﺅں میں بوٹ ہیں اور وہ ٹانگیں میز پر سرسیّد کی طرف کیے نہایت بدتمیزی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اشرف نے چپکے سے ان سے کہا۔ ”نانا ابّا پاﺅں نیچے کرلیجیے۔“

    اس پر وہ بولے۔ ”یہ انہی کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔“ اور سرسیّد ہنس پڑے۔

    (شاہد احمد دہلوی کی کتاب گنجینۂ گوہر کا ایک ورق)

  • جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    شمسُ العلما مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان (سرسیّد) کے سامنے گویا شکایت کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی۔

    سر سید نے بدمزہ ہو کر ان کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتدا سے مدرسے کو دیتے رہے اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی، اس کا ذکر کر کے کہا۔ یہ شخص ہماری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔

    الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ رقم کیا ہے۔

    دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصولی کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی تخصیص نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔

    ایک بار سر سید نے ایک اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا۔ اس نے بہت روکھے پن سے جواب دیا۔ آپ کو اس کام کے لیے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہیے۔ سر سید نے کہا۔
    بے شک ہمیں قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ انسٹیٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو ان کے لیے اس سے زیادہ ذلت کی بات نہ ہو گی کہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔
    وہ انگریز یہ سن کر شرمندہ ہوا اور بیس روپے سر سیّد کو بطور چندہ دے دیا۔

  • دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق سرسید احمد خان کو بچھڑے 121 برس بیت گئے

    دو قومی نظریے کے خالق اور برصغیر کے مسلمانوں میں جدید تعلیم کے حصول سے متعلق آگاہی کے لیے زندگی وقف کرنے والے سرسید احمد خان کی آج 121  ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سرسید احمد خان نےمسلمانوں کوجدیدعلوم سےروشناس کرایا۔ انہوں نے 1857 کی جنگ آزادی پرکتاب ’اسباب بغاوت ہند‘بھی تحریرکی۔ مسلمانوں کے لیے آپ کی علمی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    سرسید احمد خاں برصغیر میں مسلم نشاتِ ثانیہ کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ انہوں نے مسلمانوں میں بیداری علم کی تحریک پیدا کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ وہ انیسویں صدی کے بہت بڑے مصلح اور رہبر تھے۔

    سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے اورانگریزی زبان سمیت مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ دنیا بھر میں رسوا ہوتے رہیں گے۔ اُن کو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے، اُسی مقصد کی خاطر سر سید نے اپنی زندگی وقف کی اور آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھی۔

    انگلستان کے تعلیمی نظام کا معائنہ

    سنہ 1869ء میں آپ کے بیٹے سید محمود کو حکومت کی طرف سے اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجا گیا۔ آپ بھی 1869ء میں اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے گئے، وہاں جا کر آپ نے آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کا مشاہدہ کیا اور وہاں کے نظام تعلیم سے بہت متاثر ہوئے ساتھ ہی انہوں نے  ہندوستان میں اسی طرز کی یونیورسٹی اور کالج قائم کرنے کا ارادہ بھی کیا۔

    مزید پڑھیں: سرسید احمد خان کی خدمات، اسٹیٹ بینک کا اعزازی سکہ جاری کرنے کا اعلان

    انگلستان سے 1870ء میں واپسی ہوئی تو سرسید نے ہندوستان میں انجمن ترقی مسلمانان ہند کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانا تھا۔ سنہ 1870ء میں آپ نے رسالہ تہذیب الاخلاق لکھا جس میں آپ نے مسلمانوں کے ان معاشرتی پہلووٕں کی نشاندہی کی جن کی اصلاح کرنا مقصود تھی اور مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے ان پہلووٕں کی فوری اصلاح کریں۔

    علی گڑھ کالج کا قیام

    انگلستان سے واپسی پر آپ نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی جس نے اعلیٰ تعلیم کے لئے ایک کالج کے قیام کے لئے کام شروع کیا۔  ساتھ ہی ایک فنڈ کمیٹی بھی قائم کی گئی جس نے ملک کے طول و عرض سے کالج کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کیا اور حکومت سے امداد کی درخواست بھی کی۔

    سنہ 1875ء میں انجمن ترقی مسلمانان ہند نے علی گڑھ میں ایم اے او ہائی اسکول قائم کیا۔ اس ادارے میں جدید اور مشرقی علوم کی تدریس کا بندوبست کیا گیا۔ 1877ء میں اس اسکول کو کالج کا درجہ دے دیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لٹن نے کیا۔

    یہ رہائشی کالج (ہاسٹل) تھا جہاں پر تمام علوم پڑھائے جاتے تھے۔ سرسید کی یہ دلی خواہش تھی کہ اس کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے مگر اُن کی زندگی میں یہ ممکن نہ ہوسکا، سرسید کی وفات کے بعد 1920ء میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور پھر یہاں سے فارغ التحصیل طلباء نے ہی تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔

     

    تصانیف

    سرسید ایک متنوع المزاج شخصیت تھے اور ان کا یہی رنگ ان کی متفرق موضوعات پر موجود تصانیف میں نظرآتا ہے جیسا کہ آرکیالوجی جیسے موضوع پرآثارالصناعید جیس معرکتہ الآراء کتاب مرتب کی۔

    انہوں نے مراد آباد میں آ کر اسبابِ بغاوتِ ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں رعایائے ہندوستان کو اور بالخصوص مسلمانوں کو، جن پر سارا نچوڑ انگریزوں کی بدگمانی کا تھا، بغاوت کے الزام سے بری کیا اور اس خطرناک اور نازک وقت میں وہ تمام الزامات جو لوگوں کے خیال میں گورنمنٹ پر عائد ہوتے تھے، نہایت دلیری اور آزادی کے ساتھ پوست کندہ بیان کئے۔

    سر سید نے یہ تاریخ بھی اپنی جبلی عادت کے موافق نہایت تحقیق اور کاوش اور محنت کے ساتھ لکھی۔ ان کا بیان ہے کہ ’’گو اس تاریخ میں ضلع کے حالات کے سوا کوئی عام دلچسپی کی بات نہ تھی مگر اثنائے تحقیقات بعض قانون گویوں کے پاس اکبر اور عالمگیر کے زمانہ کے ایسے کاغذات ملے جن سے نہایت عمدہ نتیجے نکلتے تھے‘‘۔

    مزید پڑھیں: بھارتی ہندوؤں کی سازشیں، علی گڑھ یونیورسٹی کی مسلم شناخت کو خطرہ

    ان سب کاغذات کی نقلیں اپنے اپنے موقع پر اس تاریخ میں درج تھیں۔ جب یہ تاریخ لکھی جا چکی تو صاحب کلکٹر نے اس کو ملاحظہ کے لئے صدربورڈ میں بھیج دیا۔ ابھی وہ بورڈ سے واپس نہ آئی تھی کہ غدر ہو گیا اور آگرہ میں تمام دفتر سرکاری کے ساتھ وہ بھی ضائع ہو گئی۔

    سر سید کہتے تھے کہ 1870ء میں جبکہ خطباتِ احمدیہ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو اس پر لندن کے ایک اخبار میں کسی انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ہندوستان کے ایک مسلمان نے ان ہی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔

    سر سید نے ایک موقع پر اپنی تفسیرِ قرآن کی نسبت کہا کہ ’’اگر زمانہ کی ضرورت مجھ کو مجبور نہ کرتی تو میں کبھی اپنے ان خیالات کو ظاہر نہ کرتا بلکہ لکھ کر اور ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے چھوڑ جاتا اور یہ لکھ جاتا کہ جب تک ایسا اور ایسا زمانہ نہ آئے، اس کو کوئی کھول کرنہ دیکھے۔ اور اب بھی میں اس کو بہت کم چھپواتا اور گراں بیچتا ہوں تاکہ صرف خاص خاص لوگ اس کو دیکھ سکیں۔ سر دست عام لوگوں میں اس کا شائع ہونا اچھا نہیں!‘‘۔

    رسالہ تہذیب وغیرہ ان کے علاوہ سیرت فرید،جام جم بسلسلۃ الملکوت اور مختلف موضو عات پر علمی و ادبی مضامین ہیں جو ’’ مضامین سرسید ‘‘ اور’’ مقالات سرسید ‘‘ کے نام سے مختلف جلدوں میں شائع ہو ئے ہیں ۔

    سیاسی خدمات

    آپ نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ سیاست سے دور رہتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے حصول اورمعاشی و معاشرتی طورپر بحالی پر دیں تاکہ وہ ہندوؤں کے برابر مقام حاصل کر سکیں۔ سرسید ہندو مسلم اختلافات کو ختم کر کے تعاون اور اتحاد کی راہ پر گامزن کرنے کے حق میں بھی تھے۔

    سرسید کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد دو قومی نظریہ تھا۔ سرسید نے مسلمانوں کو ایک علاحدہ قوم ثابت کیا اور حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے افکار کو آگے بڑھایا۔ دو قومی نظریہ کی اصطلاح سرسید نے ہی سب سے پہلے استعمال کی۔

    اسے بھی پڑھیں: علی گڑھ یونیورسٹی سے قائد اعظم کی تصویر غائب، طلبہ سراپا احتجاج

    انہوں نے کہا کہ مسلمان جداگانہ ثقافت رسم و رواج اور مذہب کے حامل ہیں اور ہر اعتبار سے ایک مکمل قوم کا درجہ رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی علاحدہ قومی حیثیت کے حوالے سے سرسید احمد نے ان کے لیے لوکل کونسلوں میں نشستوں کی تخصیص چاہی اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے لیے کھلے مقابلے کے امتحان کے خلاف مہم چلائی٬ اکثریت کی مرضی کے تحت قائم ہونے والی حکومت والے نظام کو ناپسند کیا۔

    انہو ں نے مسلمانوں کی علاحدہ پہچان کروائی اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر ان کے لیے تحفظات مانگے۔ سر سید مسلمانوں کوسیاست سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو 1885ء میں ایک انگریز اے او ہیوم کی کوششوں سے قائم ہونے والی آل انڈیا کانگریس سے دوررکھا۔

    بعد میں ہونے والے واقعات نے سرسید کی پالیسی کی افادیت کو ثابت کر دیا ان کو بجا طور پر پاکستان کے بانیوں میں شمار کیا جاتاہے۔ مولوی عبدالحق نے سرسید کی قومی و سیاسی خدمات کے حوالے سے لکھا ہےکہ ’’قصر پاکستان کی بنیاد میں پہلی اینٹ اسی مردِ پیر نے رکھی تھی‘‘۔

    انتقال

    سر سید احمد خان نے 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں وفات پائی اور اپنے محبوب کالج کی مسجد میں دفن ہوئے۔ ان کی تمام زندگی قوم و ادب کی خدمت میں گزری۔