Tag: سر راس مسعود

  • ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں!‘‘

    ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں!‘‘

    اردو میں آپ بیتیوں، سوانح، شخصی خاکوں اور رفقا یا ہم عصر اہلِ قلم کی یادداشتوں پر مبنی کتب میں ہمیں‌ مشاہیرِ ادب اور معروف ہستیوں کی زندگی اور ان کی شخصیت سے متعلق اکثر نہایت پُرلطف اور یادگار واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ یہ شاعرِ‌ مشرق اور ان کا قرب پانے والے سرسیّد احمد خان کے پوتے سر راس مسعود سے متعلق ایسا ہی واقعہ ہے۔

    ڈاکٹر صاحب کی شہرہ آفاق کتاب ’’بالِ جبریل‘‘ جب منظر عام پر آئی، تو انہوں نے سر راس مسعود کو ایک جلد پیش کی اور کتاب پر اپنے دستخط ثبت فرما دیے۔

    بیگم مسعود اس وقت موجود تھیں، انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! آپ کا کلام ان سے بہتر میں سمجھتی ہوں اور کتاب آپ ان کو عنایت فرما رہے ہیں۔‘‘

    ڈاکٹر صاحب اس فقرے سے بہت محظوظ ہوئے اور دونوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میں اپنا شعر سناتا ہوں، تم میں سے جو کوئی اس کی زیادہ صحیح اور بہتر تشریح کرے گا وہی اس کتاب کا مستحق قرار پائے گا، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنا یہ شعر پڑھا؎

    یہ مصرع لکھ دیا، کس شوخ نے محرابِ مسجد پر
    یہ ناداں گِر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا

    سر راس مسعود اور ان کی بیگم صاحبہ دونوں نے اپنے اپنے الفاظ میں اس شعر کا مفہوم بیان کیا، لیکن وقت کی بات کہ بیگم راس مسعود کی شرح و ترجمانی زیادہ بہتر اور شاعر کے مافی الضمیر سے قریب تر نکلی۔

    چناں چہ ڈاکٹر صاحب نے ’’بالِ جبریل‘‘ کے سرورق پر راس مسعود کا لکھا ہوا نام کاٹ کر ’’بیگم راس مسعود‘‘ لکھ دیا اور کتاب ان کو دے دی۔

    (شاعرِ مشرق سے چند ملاقاتوں کی یادداشت)

  • جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    جب جوش نے خود کو ‘معتوبِ قدرت’ ٹھیرایا!

    یہ تذکرہ ہے دو مشہور و معروف شخصیات کے مابین خط کتابت کا جن کا زمانہ تقسیمِ ہند سے قبل کا ہے۔ ایک تھے سر راس مسعود اور دوسرے جوش ملیح آبادی۔

    قابل، باصلاحیت شخصیات، علمی و ادبی کام کرنے والوں کی قدر اور عزّت افزائی کے ساتھ اس زمانے میں اخلاق و مروّت اور لوگوں‌ میں مدد اور تعاون کا جذبہ بہت تھا۔ اس دور کی یاد تازہ کرتا یہ پارہ مشفق خواجہ کی منتخب تحریروں پر مشتمل کتاب سن تو سہی سے لیا گیا ہے۔

    سَر راس مسعود کو ہندوستان میں ایک ماہر مدرّس اور منتظم کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ وہ سرسیّد احمد خان کے پوتے تھے۔ اس زمانے میں علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلقِ خاطر تھا، ان میں سَر راس مسعود کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ نہایت قابل، فکر و نظریہ اور علم و فن کے رسیا تھے۔ دوسری طرف شاعرِ انقلاب کہلانے والے جوش صاحب تھے۔

    مشفق خواجہ لکھتے ہیں، "یہ قاعدہ تھا کہ ان(سر راس مسعود) کے نام شاعروں ادیبوں کے جو خطوط آتے تھے، وہ انہیں محفوظ رکھتے تھے۔ جواب میں جو کچھ لکھتے تھے اس کی نقل بھی اپنے پاس رکھ لیتے تھے۔ راس مسعود کے ذاتی کاغذات کا بڑا حصہ جناب جلیل قدوائی کے پاس محفوظ ہے۔ ہماری درخواست پر قدوائی صاحب نے جوش صاحب کے اصل خطوط اور ان کے جوابات سے استفادہ کرنے کی اجازت دی، جس کے لیے ہم ان کے شکر گزار ہیں۔

    اس مراسلت کا پس منظر یہ ہے کہ حیدرآباد دکن سے اخراج کے بعد جوش صاحب کے مالی حالات اچھے نہ رہے۔ سر راس مسعود اس زمانے میں ریاست بھوپال میں تھے، جوش صاحب نے انہیں مالی امداد کے لیے خط لکھا۔ راس مسعود نے اس خط کا حوصلہ افزا جواب دیا۔ جوش صاحب نے "جواب الجواب” 15 اکتوبر 1935ء کو لکھا، جب وہ مختصر قیام کے لیے ریاست دھول پور میں تشریف رکھتے تھے۔ اس خط میں جوش صاحب فرماتے ہیں:

    "آپ کے مکتوبِ گرامی نے میرے دل سے وہی سلوک کیا ہے، جو مرہم زخم سے اور ابرِ برشگال پیاسی زمین سے کرتا ہے۔ نتیجہ خواہ کچھ ہو کہ نہ ہو، آپ میری دست گیری کی سعی میں کام یاب ہوں یا ناکام، مگر یہ کیا کم ہے کہ آپ نے میری بات تو پوچھی، امداد پر آمادگی تو ظاہر ہوئی، مشفقانہ لہجے میں خط کا جواب تو دیا۔ کیا میرے تاحیات احسان مند رہنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟ اپنی حالت کیا عرض کروں، اگر تنہا ہوتا تو بڑی سے بڑی مصیبت کا حقارت آمیز تبسم سے خیر مقدم کرتا اور ہر عظیم سے عظیم بلا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مضحکہ اڑاتا، مگر کیا کروں مجبور ہوں اہل و عیال سے۔ باپ نے، جب میں نو برس کا تھا، میرا نکاح کر دیا تھا۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی آنکھیں بند ہوتے ہی تمام دولت و ثروت ان کے گھر سے چلی جائے گی۔ مجھے آج تک اپنے سہرے کی لڑیوں کی خوشبو یاد ہے، کتنی دلفریب تھی، مگر آج وہی ذریعہ بنی ہوئی ہے میری پریشاں خاطریوں کا۔

    میرے محترم! مصیبت کبھی تنہا نہیں آتی۔ آبائی جائیداد تو پہلے ہی تلف ہو چکی تھی، اس کے بعد جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، حیدرآباد میں جگہ مل گئی تھی، سو وہ بھی سازشوں کی نذر ہو گئی۔ اب میں ہوں اور بے کسی، میرے مریض اہل و عیال ہیں اور کسمپرسی۔ دھول پور میں اپنے ماموں کے وہاں پڑا ہوا ہوں۔ ماموں سوتیلے نہیں حقیقی ہیں۔ لیکن جس طرح جی رہا ہوں، اس سے موت بہتر ہے۔ واضح رہے کہ ماموں جان کی آمدنی ڈھائی ہزار روپے ماہوار ہے۔ کیا آ پ کو عبرت نہیں ہوگی؟ میں آپ کو زیادہ زحمت دینا نہیں چاہتا، صرف اس قدر درخواست کرتا ہوں کہ بھوپال وغیرہ سے میرے رسالے کے واسطے اتنی مدد کرا دیجیے کہ میں فراغت سے زندگی بسر کر سکوں۔ رسالے کے اخراجات پانچ سو روپے ماہوار سے کم نہیں ہیں۔ سر لیاقت حیات خان وزیر پٹیالہ نے پٹیالے سے ایک مستقل ماہانہ امداد کا وعدہ فرما لیا ہے۔ پنڈت کیلاش نرائن صاحب ہاکسر بھی گوالیار سے امداد دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اگر بھوپال یا دو تین جگہیں اور ملا کر آپ ڈھائی سو روپے ماہوار کی مستقل ادبی امداد کا بندوبست کر دیں تو میرے مصائب کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کیا آپ ایسا کرسکیں گے؟

    میں ایک بار اور عرض کروں کہ میرے تمام عمر احسان مند رہنے کے واسطے آپ کی پرسش ہی بہت کافی ہے۔ کیا ایک محبت کی نگاہ، تمام دنیا کے خزانوں پر بھاری نہیں، اور کیا ایک مخلصانہ تبسم، تمام عالم کے زر و گوہر سے زیادہ گراں قیمت نہیں؟ خدا کرے آپ اچھے ہوں، میں اور میرے متعلقین میں سے کوئی بھی اچھا نہیں۔”

    معتوبِ قدرت
    جوش۔

    سر راس مسعود نے 17 اکتوبر 1935ء کو اس خط کا جواب لکھا اور ہر ممکن امداد کا وعدہ کیا تھا۔

  • سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب

    سَر راس مسعود: مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک روشن باب

    راس مسعود اردو کے فاضل ادیب اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ وہ برصغیر کے مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ اور مصلح و راہ بَر سرسیّد احمد خان پوتے تھے۔ راس مسعود 30 جولائی 1938ء کو دارِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔

    سیّد محمود کے گھر 15 فروری 1889ء کو آنکھ کھولنے والے راس مسعود نے گھر پر مذہبی تعلیم کے ساتھ ابتدائی کتب کی مدد سے لکھنا پڑھنا سیکھا اور پانچ سال کی عمر میں اسکول جانے لگے۔ بعد میں راس مسعود کو علی گڑھ کالج کے پرنسپل مسٹر موریسن اور ان کی بیگم کی نگرانی میں دے دیا گیا جنھوں نے ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا اور کچھ عرصے بعد راس مسعود کو انگریزی وظیفے پر مزید تعلیم کے لیے آکسفورڈ بھیج دیا گیا۔

    راس مسعود 1929ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر منتخب ہوئے۔ راس مسعود انجمن ترقیِ اردو کے بھی صدر تھے۔ انھوں نے تحریکِ آزادی کے حوالے سے تحریر و تقریر اور جلسوں میں شرکت کی اور ان کی چند تحریر اور تالیف کردہ کتب میں انتخابِ زرین، سرسیّد کے خطوط، اردو کے مستند نمونے شامل ہیں۔ انھوں نے حیدرآباد دکن میں بھی ملازمت کی اور بھوپال میں بھی وقت گزارا تھا۔

    شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے دوستوں اور احباب کا حلقہ خاصا وسیع تھا، لیکن جن لوگوں سے اُنھیں ایک گہرا اور دلی تعلق خاطر تھا، وہ گنے چُنے ہی تھے اور ان میں سر راس مسعود کا نام سر فہرست ہے۔ 1933ء میں آپ افغانستان کے دورہ میں اقبال کے ہمراہ تھے۔ اقبال نے ان کی اچانک وفات پر "مسعود مرحوم” کے عنوان سے نظم بھی لکھی۔

    راس مسعود کا انتقال ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی زندگی کا ایک الم ناک سانحہ تھا۔