Tag: سر سید

  • فرانس کے ایک پروفیسر کا اردو میں خط

    فرانس کے ایک پروفیسر کا اردو میں خط

    فرانس کے گارساں دتاسی کو مشرقی علوم، خاص طور پر ہندوستان اور یہاں کی زبانوں اور مقامی ادب میں تحقیق و ترجمہ کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اپنے زمانے میں رائج الوقت ترکی سیکھی اور فرانسیسی میں اس وقت تین جلدوں پر مشتمل ہندوستانی ادب کی تاریخ لکھی۔

    وہ 1794ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اس مشہور مستشرق نے سرسیّد احمد خان کے نام ایک خط بھی لکھا تھا جو اسماعیل پانی پتی کی مرتب کردہ کتاب "خطوط بنامِ سرسید میں محفوظ ہے۔

    فرانس کے مشہور اردو مستشرق پروفیسر گارسان دتاسی نے یہ اردو میں‌ یہ خط اس وقت لکھا تھا جب سرسیّد لندن میں‌ موجود تھے۔ انھوں نے سرسید کو یہ لکھا تھا کہ انھیں صرف اردو پڑھنا اور ترجمہ کرنا آتا ہے لیکن لکھنا نہیں آتا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ وہ کبھی ہندوستان نہیں آئے۔

    گارساں دتاسی نے سرسید کو لکھا تھا:

    ’’کتاب توریتِ مقدس کی تفسیر جو آپ نے میرے پاس بھیجی ہے، اس کا میں بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں نے اس کتاب کی نسبت اپنے ایڈریس میں بہت کچھ ذکر کیا تھا۔ جو کتاب آپ نے دہلی کی عمارتوں کی نسبت تالیف کی تھی میں نے اس کا ترجمہ زبان فرانس میں کرلیا ہے۔‘‘

    دتاسی نے اس خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ سرسیّد کے لندن آنے کی خبر اخبار میں بھیجی تھی لیکن اس میں املا کی کچھ غلطیاں ہوگئی تھیں۔ اس کی معذرت کرتے ہوئے سرسیّد سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور لکھا کہ جو کچھ لکھتا ہوں، اس کو ملاقات میں زبانی بیان کروں گا۔

    یہ خط 17 جولائی 1869ء کو تحریر کیا گیا تھا۔

  • مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!

    مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!

    سر سیّد احمد خان ہندوستان میں جس تحریک کے علم بردار تھے، الطاف حسین حالی اسی کے نقیب تھے۔

    سرسؔید نے اردو نثر کو جو وقار اور اعلیٰ تنقید کے جوہر عطا کیے تھے، حالی کے مرصع قلم نے انھیں چمکایا۔ حالی کی انشا پردازی، مضمون اور سوانح نگاری کے کئی نمونے اردو ادب میں‌ یادگار ہیں۔

    سر سیّد کی رفاقت اور صحبت میں‌ حالی کو ان کی زندگی کے مختلف ادوار کو سمیٹنے کا موقع بھی ملا اور انھوں نے اسے حیاتِ جاوید میں‌ اکٹھا کردیا۔ سر سیّد کی ایک یاد حالی نے یوں‌ رقم کی ہے۔

    تیر اندازی کی صحبتیں بھی سر سیّد کے ماموں نواب زین العابدین خان کے مکان پر ہوتی تھیں۔

    وہ (سر سیّد) کہتے تھے کہ "مجھے اپنے ماموں اور والد کے شوق کا وہ زمانہ جب کہ نہایت دھوم دھام سے تیر اندازی ہوتی تھی، یاد نہیں۔ مگر جب دوبارہ تیر اندازی کا چرچا ہوا وہ بخوبی یاد ہے۔

    اس زمانہ میں دریا کا جانا موقوف ہو گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد تیر اندازی شروع ہوتی تھی۔ نواب فتح اللہ بیگ خاں، نواب سید عظمت اللہ خاں، نواب ابراہیم علی خاں اور چند شاہ زادے اور رئیس اور شوقین اس جلسہ میں شریک ہوتے تھے۔

    نواب شمس الدین خاں رئیس فیروز پور جھرکہ جب دلّی میں ہوتے تھے تو وہ بھی آتے تھے۔ میں نے بھی اسی زمانہ میں تیر اندازی سیکھی اور مجھ کو خاصی مشق ہو گئی تھی۔

    مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ میرا نشانہ جو تودے میں نہایت صفائی سے جا کر بیٹھا تو والد بہت خوش ہوئے اور کہا، ” مچھلی کے جائے کو کون تیرنا سکھائے!”

    یہ جلسہ برسوں تک رہا، پھر موقوف ہو گیا۔”

  • جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    جب سرسیّد نے انگریز مسافر سے چندہ طلب کیا!

    شمسُ العلما مولانا نذیر احمد کی نسبت ایک ناواقف آدمی نے ان (سرسیّد) کے سامنے گویا شکایت کرتے ہوئے کہا کہ باوجود مقدور ہونے کے انہوں نے قومی تعلیم میں کچھ مدد نہیں دی۔

    سر سید نے بدمزہ ہو کر ان کے چندوں کی تفصیل بیان کی جو وہ ابتدا سے مدرسے کو دیتے رہے اور جو مقبولیت اور رونق ان کے لیکچروں سے ایجوکیشنل کانفرنس کو ہوئی، اس کا ذکر کر کے کہا۔ یہ شخص ہماری قوم کے لیے باعثِ فخر ہے، اس کی نسبت پھر ایسا لفظ زبان سے نہ نکالنا۔

    الطاف حسین حالی نے اپنی کتاب میں علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کی کوششوں کے حوالے سے ایک اور واقعہ رقم کیا ہے۔

    دوستوں کے علاوہ اجنبی اور انجان آدمی، جن سے کچھ وصولی کی امید ہوتی تھی، شاید پہلی ایک آدھ ملاقات میں ان کی باری نہ آتی ہو، ورنہ اکثر صاحبِ سلامت ہوتے ہی سوال ڈالا جاتا تھا اور اس میں کچھ مسلمان ہونے ہی کی تخصیص نہ تھی، بلکہ انگریزوں سے بھی بعض اوقات یہی برتاؤ ہوتا تھا۔

    ایک بار سر سید نے ایک اجنبی مسافر انگریز سے، جو ڈاک بنگلہ میں ٹھہرا تھا، چندہ طلب کیا۔ اس نے بہت روکھے پن سے جواب دیا۔ آپ کو اس کام کے لیے صرف اپنی قوم سے مانگنا چاہیے۔ سر سید نے کہا۔
    بے شک ہمیں قوم کی پست ہمتی سے غیروں کے سامنے ہاتھ پسارنا پڑتا ہے، مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر یہ انسٹیٹیوشن بغیر انگریزوں کی اعانت کے قائم ہو گیا تو ان کے لیے اس سے زیادہ ذلت کی بات نہ ہو گی کہ ہندوستان کی حکومت سے بے انتہا فائدہ اٹھاتے ہیں، مگر ہندوستانیوں کی بھلائی کے کاموں میں مطلق شریک نہیں ہوتے۔
    وہ انگریز یہ سن کر شرمندہ ہوا اور بیس روپے سر سیّد کو بطور چندہ دے دیا۔