Tag: سزائے موت

  • وزارت انسانی حقوق نے سرعام سزائے موت کی قرارداد کی مخالفت کر دی

    وزارت انسانی حقوق نے سرعام سزائے موت کی قرارداد کی مخالفت کر دی

    اسلام آباد: وزارت انسانی حقوق نے بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سرعام سزائے موت کی قرارداد کی مخالفت کر دی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ آج اسمبلی میں جو قرارداد آئی وہ حکومت کی طرف سے نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ آئین میں ریپ کی سزا موجود ہے، لوگوں کو کوئی تبصرہ کرنے سے قبل موجودہ قوانین پر نگاہ دوڑانی چاہیے، مسئلہ صرف اس سزا کے اطلاق اور انصاف کی تیز فراہمی کا ہے، جس پر ہم اب توجہ دے رہے ہیں۔

    شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی میں قرارداد انفرادی طور پر پیش کی گئی تھی، مجھ سمیت کئی لوگ اس قرارداد کے خلاف ہیں، وزارت انسانی حقوق اس قرار داد کی مخالفت کرتی ہے۔

    وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ آج وہ ایک میٹنگ کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکی تھیں۔

    قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سرعام سزائے موت دینے کی قرارداد منظور

    واضح رہے کہ آج قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سر عام سزائے موت دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی ہے، تاہم پیپلز پارٹی نے قرارداد کی مخالفت کی۔ یہ قرارداد وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کی تھی۔

    علی محمد خان نے کہا کہ زیادتی کے مجرموں کے لیے وزیر اعظم سزائے موت چاہتے ہیں، جب کہ قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا مطالبہ آیا تو مخالفت کی گئی، اس کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

    پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ چارٹر پر دستخط کر چکا ہے، دنیا اس سزا کو قبول نہیں کرے گی۔

  • قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سرعام سزائے موت دینے کی قرارداد منظور

    قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سرعام سزائے موت دینے کی قرارداد منظور

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سر عام سزائے موت دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی، پیپلز پارٹی نے قرارداد کی  مخالفت کی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سر عام سزائے موت دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی، قرارداد وزیر مملکت علی محمد خان نے پیش کی۔

    پیپلز پارٹی نے بچوں سے زیادتی کے مجرمان کی سر عام سزائے موت کی مخالفت کی، راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ چارٹر پر دستخط کرچکا ہے، دنیا اسے قبول نہیں کرے گی۔

    علی محمد خان نے کہا کہ زیادتی کے مجرمان کے لیے وزیر اعظم سزائے موت چاہتے ہیں، کمیٹی میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کا مطالبہ آیا تو مخالفت کی گئی، قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کمیٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت بچوں سے زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت کا قانون بنانا چاہتی ہے، اپوزیشن بتائے وہ بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سزائے موت کے بل کی حمایت کرنے کو تیار ہے؟

    اس سے قبل قومی اسمبلی میں زینب الرٹ بل بھی متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا جس کے تحت بچوں کے خلاف جرائم پر 10 سے 14 سال سزا دی جا سکے گی۔

    ایکٹ کےتحت جو افسر دو گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرم پر ایکشن نہیں لے گا اسے سزا دی جائے گی۔

    بل کے متن میں کہا گیا کہ 109 ہیلپ لائن بھی قائم کی جائے گی جبکہ 18 سال سے کم عمر بچوں کے اغوا، قتل اور زیادتی کی اطلاع کے لیے اور زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی کے لیے ایجنسی قائم کی جائے گی۔

  • یورپ میں سزائے موت، نوجوانوں کو سرعام گولیاں مار دی گئیں

    یورپ میں سزائے موت، نوجوانوں کو سرعام گولیاں مار دی گئیں

    منسک: مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس میں سابقہ ٹیچر کا لرزہ خیز قتل کرنے کے جرم میں دو نوجوان بھائیوں کو گولیاں مار موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق 19 سالہ اسٹینس لا اور 21 سالہ ایلا پر سابقہ ٹیچر کو جرم ثابت ہونے پر سپریم کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی۔

    عدالتی حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے مجرمان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں گھٹنے کے بل بٹھایا گیا اور سر پر گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: کس ملک میں کیسے سزائے موت دی جاتی ہے؟

    بیلاروس یورپ کا واحد ملک ہے جہاں سزائے موت کی اجازت ہے تاہم کم عمری کے باعث نوجوانوں کو سزائے موت دینے کے فیصلے پر سخت تنقید سامنے آئی تھی لیکن ملک کے طاقتور صدر الیگزینڈرا لوکاشکینو نے تمام تر دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نوجوانوں کی رحم کی اپیل مسترد کردی۔

    بھائیوں پر الزام تھا کہ انہوں نے سابقہ ٹیچر کو 100 سے زائد چاقو کے وار کر کے قتل کردیا تھا اور مرنے کے بعد اس کے گھر کو آگ لگا دی تھی۔

    قاتلوں کے گھر سے مقتولہ کا کمپییوٹر برآمد ہونے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا تو دوران تفیش بھائیوں نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے ٹیچر کو مارنے کے بعد چاقو کہیں دور پھینک دیا تھا اور گھر کو آگ لگا دی تھی۔

  • ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں: جسٹس وقار سیٹھ

    ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں: جسٹس وقار سیٹھ

    پشاور: جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے کیس میں سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ نے کہا ہے کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے، کبھی کبھی اسپورٹس چینل پر ریسلنگ دیکھ لیتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کوہاٹ اور مردان میں ویڈیو لنک کے ذریعے کیسز کی سماعت کے دوران سینئر وکیل معظم بٹ نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار سیٹھ سے مکالمہ کیا، معظم بٹ نے کہا سر آپ اچھے فیصلے کرتے ہیں، خراج تحسین کے مستحق ہیں۔

    معظم بٹ نے کہا سخت حالات میں بھی آپ کے چہرے پر اطمینان اور سکون نظر آ رہا ہے۔ اس پر جسٹس وقار نے کہا کہ حالات کو کیا ہوا ہے، صبح آتے وقت تو حالات ٹھیک تھے۔ میں ٹی وی نہیں دیکھتا، اسپورٹس چینل پر کبھی ریسلنگ دیکھ لیتا ہوں۔

    معظم بٹ ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان حالات میں آپ کا مطمئن رہنا بڑی بات ہے۔ جسٹس وقار سیٹھ نے کہا کہ آپ نے بھی تو کچھ نہیں کہنا؟ اس پر معظم بٹ نے کہا نہیں میں کچھ نہیں کہتا، صرف آپ کو خراج تحسین پیش کرنے آیا ہوں۔

    یہ بھی پڑھیں:  پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

    خیال رہے کہ جسٹس وقار سیٹھ اس تین رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے سابق صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی، 169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار نے لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لا کر تین دن تک لٹکائی جائے۔ تاہم جسٹس شاہد کریم نے اس نکتے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

    واضح رہے کہ تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں اسے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

  • پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف: حالات زندگی، دور اقتدار اور تنازعات

    پرویز مشرف کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور آئین کی معطلی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔

    خصوصی عدالت کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد جہاں میڈیا پر سیاست دانوں اور قانونی ماہرین کی جانب سے رائے کا اظہار اور مباحث جاری ہیں، وہیں عوام بھی سرد موسم میں‌ اسی گرما گرم موضوع پر تبصرے کررہے ہیں اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

    آئیے پرویز مشرف کی ذاتی زندگی، فوج میں ان کی خدمات اور دورِ اقتدار پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
    آئین شکنی کیس میں سزائے موت پانے والے پرویز مشرف کا تعلق دہلی سے ہے۔ ان کا خاندان قیامِ پاکستان سے قبل دہلی میں مقیم تھا۔ پرویز مشرف 11 اگست 1943 کو پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہی ان کے والد نے پاکستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا اور کراچی آگئے۔ ان کے والد سید مشرف الدین نے پاکستان میں اہم خدمات انجام دیں اور سفارت کار کی حیثیت سے متحرک رہے۔
    پرویز مشرف کا بچپن ترکی میں گزرا۔ یہ 1949 سے 1956 تک کا زمانہ تھا جب ان کے والد ترکی کے شہر انقرہ میں تعینات تھے۔
    1961 میں پرویز مشرف پاکستان ملٹری اکیڈمی کا حصّہ بنے اور 1964 میں سیکنڈ لیفٹننٹ کے عہدے پر ترقی کی۔
    1965 میں پاک بھارت جنگ ہوئی جس کے بعد پرویز مشرف ان افسران میں سے تھے جنھیں بہادری کی اعزازی سند دی گئی۔
    1971 کی جنگ کے دوران پرویز مشرف کمپنی کمانڈر کی حیثیت سے فوج میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
    1991 میں انھیں میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
    7 اکتوبر 1998 کو چیف آف آرمی اسٹاف اور 9 اپریل 1999 کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مقرر ہوئے۔
    12 اکتوبر 1999 پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا جب اس وقت کے وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹاکر نئے آرمی چیف کا اعلان کیا، مگر ان کی معزولی کے بعد پرویز مشرف نے ملک کا اقتدار سنبھالا۔
    20 جون 2001 کو پرویز مشرف ملک کے صدر بنے۔
    30 اپریل 2002 کو ملک میں پرویز مشرف کے حق میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کروایا گیا۔
    2003 میں پرویز مشرف پر دو قاتلانہ حملے بھی ہوئے۔
    ستمبر 2006 میں پرویز مشرف کی خودنوشت ان دی لائن آف فائر منظرِ عام پر آئی۔
    پرویز مشرف نے 18 اگست 2008 کو قوم سے خطاب میں اپنے مستعفی ہو نے کا اعلان کیا تھا۔

    مشرف دور کے متنازع اقدامات
    پاکستان میں حدود آرڈیننس میں ترمیم، جامعہ حفصہ اور لال مسجد آپریشن، قومی مفاہمتی آرڈیننس جسے عام طور پر این آر او کہا جاتا ہے مشرف دور کے متنازع فیصلے اور اقدامات مانے جاتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان آپریشن اور اکبر بگٹی کی شہادت کا واقعہ، عافیہ صدیقی کا معاملہ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات اور نظر بندی بھی متنازع رہی۔

  • مشرف کو سزائے موت: جی ایچ کیو میں خصوصی کانفرنس طلب

    مشرف کو سزائے موت: جی ایچ کیو میں خصوصی کانفرنس طلب

    اسلام آباد: پاک فوج کے سابق سربراہ و سابق صدر مملکت پرویز مشرف کو سزائے موت کے حکم کے بعد پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں خصوصی کانفرنس طلب کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) میں خصوصی کانفرنس طلب کرلی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سینئر ملٹری لیڈر شپ سے موجودہ صورتحال پر مشاورت جاری ہے۔

    خیال رہے کہ آج خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر و سابق آرمی چیف پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

    عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

    خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف 6 سال آئین شکنی کیس چلا۔

    سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور شدید علیل ہیں۔ وہ اپنے کیس کی پیروی کے لیے ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

  • درگاہ میں 20 افراد کا قتل: ملزمان کو 20 بار سزائے موت کا حکم

    درگاہ میں 20 افراد کا قتل: ملزمان کو 20 بار سزائے موت کا حکم

    سرگودھا: انسداد دہشت گردی عدالت نے درگاہ میں 20 افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے والے متولی عبد الوحید اور اس کے 3 ساتھیوں کو 20، 20 بار سزائے موت کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت نے درگاہ میں 20 افراد کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔ درگاہ کے متولی و مرکزی ملزم پیر عبد الوحید اور اس کے 3 ساتھیوں کو 20، 20 بار سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے۔

    عدالت نے چاروں ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔

    مذکورہ واقعہ اپریل 2017 میں پیش آیا تھا، جب یکم اپریل کو سرگودھا کے نواحی علاقے چک نمبر 95 شمالی میں درگاہ کے متولی عبد الوحید نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خواتین سمیت 20 افراد کو لاٹھی اور چاقوؤں کے وار سے قتل کردیا تھا۔

    پیر کے ہاتھوں قتل ہونے والے تمام افراد اس کے مرید تھے جنہیں جعلی پیر نے نشہ آور دوا پلانے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں بہیمانہ طریقے سے قتل کردیا تھا۔

    حکام کے مطابق واقعہ خالصتاً ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ متولی نے درگاہ پر اپنا قبضہ جمائے رکھنے کے لیے لوگوں کو قتل کیا۔ وہ اس سے پہلے درگاہ کے سجادہ نشین کو بھی قتل کر چکا ہے۔

    ابتدا میں کوئی بھی ملزم کے خلاف بیان دینے کو تیار نہیں تھا جس کی وجہ سے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا، تاہم بعد ازاں 20 افراد میں سے کئی کے ورثا سامنے آئے اور مقدمے میں فریق بننے پر رضا مندی ظاہر کی۔

    دوران حراست ملزم نے متعدد بار بیانات بدلے اور کہا کہ اس نے اللہ کی رضا کے لیے ملزموں کے لیے قتل کیا۔

    تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ زمین کا جھگڑا نہیں تھا، گدی نشنی کا جھگڑا تھا۔ حسد اور رقابت سے معاملہ یہاں تک پہنچا، واقعے کی وجہ مریدوں کا جعلی پیر پر اندھا اعتماد تھا۔

  • طالبہ کو زندہ جلانے والے 16 افراد کو سزائے موت

    طالبہ کو زندہ جلانے والے 16 افراد کو سزائے موت

    ڈھاکہ: بنگلادیشی عدالت نے 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں رفیع کے قتل میں ملوث 16 افراد کو سزائے موت سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق بنگلادیش کی عدالت نے 7 ماہ بعد 19 سالہ طالبہ نصرت جہاں رفیع کے قتل کا فیصلہ سناتے ہوئے طالبہ کو آگ لگانے والے ہیڈماسٹر سمیت 16 حملہ آوروں کو سزائے موت سنادی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق تفتیشی پولیس افسر کا کہنا تھا کہ بنگلادیش میں ایک مدرسے کی طالبہ نصرت جہاں رفیع نے پولیس میں اپنے ہیڈماسٹر کے خلاف جنسی ہراسانی کی درخواست دے رکھی تھی۔

    پولیس افسر نے کہا کہ اس درخواست کے بعد ہیڈماسٹر نے چند افراد کو یہ کیس واپس لینے کے لیے ناصرف دباؤ ڈالنے کا کہا بلکہ انکار کی صورت میں قتل کرنے کی ہدایت بھی دی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق حملہ آوروں نے نصرف کو جھانسا دیکر چھت پر بلایا اور مقدمہ واپس لینے کے لیے کہا لیکن وہ نہ مانی جس پر انہوں نے تیل چھڑک کر 19 سالہ طالبہ کو آگ لگادی جس سے وہ بری طرح جھلس گئی اور بعد ازاں اسپتال میں دم توڑ گئیں۔

    طالبہ نے مرنے سے پہلے ایک ویڈیو میں ہیڈماسٹر کے خلاف تمام الزامات کو دہرایا اور چند حملہ آوروں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ استاد نے مجھے چھوا اور میں آخری دم تک لڑوں گی۔

    واضح رہے نصرت جہاں رفیع کی موت کے بعد بنگلادیش بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور وزیراعظم پر انصاف کے لیے دباو ڈالا گیا جس پر وزیراعظم حسینہ واجد نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

  • ایران دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں ہے، اقوام متحدہ

    ایران دنیا بھر میں سب سے زیادہ سزائے موت دینے والے ممالک میں ہے، اقوام متحدہ

    نیویارک : ایران میں سال 2017 میں منشیات سے متعلق جرائم کے سلسلے میں سزائے موت کی تعداد 231 تھی جو 2018 میں کم از کم 24 تک آ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایران میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ذمے دار جاوید رحمن کا کہنا ہے کہ ایران میں گذشتہ برس آزادی اظہار کے حق پر قدغن اور شخصی آزادی اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے حوالے سے خلاف ورزیوں میں اضافہ دیکھا گیا، اس دوران بالغ افراد اور بچوں کے خلاف سزائے موت پر عمل کی 253 کارروائیاں رپورٹ کی گئیں۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم کی گئی رپورٹ میں جاوید رحمن نے بتایا کہ اگرچہ سزائے موت کی کارروائیاں 2007 کے بعد کم ترین تعداد میں تھیں تاہم ایران میں سزائے موت کا تناسب اب بھی دنیا بھر میں بلند ترین سطح کے حامل ممالک میں ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سزائے موت کے تناسب میں واضح کمی 2017 میں انسداد منشیات کے قانون میں ہونے والی ترمیم کا نتیجہ ہے، سال 2017 میں منشیات سے متعلق جرائم کے سلسلے میں سزائے موت کی تعداد 231 تھی جو 2018 میں کم از کم 24 تک آ گئی۔

    جاوید رحمن نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایران میں 80 سے زیادہ جرائم ہیں جن کی سزا موت ہے جب کہ ان میں کئی جرائم ایسے ہیں جو شہری اور سیاسی حقوق سے متعلق بین الاقوامی میثاق (آئی سی سی پی آر) کی رو سے خطرناک جرائم شمار نہیں ہوتے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے ذمے دار کے مطابق اپریل 2018 میں ایران میں جن سات قصوروار کم عمر بچوں کو سزائے موت دی گئی ان میں دو کی عمر 17 برس تھی۔ ان پر عصمت دری اور چوری کے الزام عائد کیے گئے تھے اور اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں کم عمر افراد کو تشدد کے ذریعے اعتراف جرم پر مجبور کیا گیا۔

    جاوید رحمن نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی ہائی کمشنر پیچلیٹ مچل کے اس بیان کو دہرایا کہ جرم کے مرتکب بچوں کو موت کی سزا دینا مکمل طور پر ممنوع ہے اور اسے فوری طور پر ختم کیا جانا چاہیے۔

    مزید برآں جاوید رحمن نے دہری شہریت کے حامل ایرانیوں اور غیر ملکی افراد کی جبری گرفتاری اور حراست، ان کے ساتھ برے برتاو اور انہیں طبی دیکھ بھال سے محروم کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اندازہ لگاتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے 30 کیس موجود ہیں۔

  • امریکا میں 16 سال بعد سزائے موت بحال

    امریکا میں 16 سال بعد سزائے موت بحال

    واشنگٹن : امریکا میں 16 سال بعد سزائے موت بحال کردی گئی ، فیڈرل بیورو آف پرزنز نے حکم جاری کیا ہے کہ سزائے موت کے لیے جان لیوا انجیکشن کا طریقہ اپنایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی حکومت نے 16 سال بعد سزائے موت کو بحال کردیا ہے اٹارنی جنرل بل بار نے کہا ہے کہ قتل کے جرائم میں ملوث 5 قیدیوں کی سزائے موت کی تاریخ طے کردی ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پر تشدد جرائم پر سخت سزا کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے بل بار نے فیڈرل بیورو آف پرزنز (وفاقی قیدی بیورو) کو سزائے موت کے لیے جان لیوا انجیکشن کا طریقہ اپنانے کا کہا۔

    اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ جسٹس ڈپارٹمنٹ کی ذمہ داری انصاف فراہم کرنا ہے اور اور ہم عدلیہ کے فیصلوں پر متاثرین اور ان کے اہلخانہ کے لیے عمل در آمد کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بیورو آف پرزنز کو ایک زہریلے انجیکشن کے ذریعے سزائے موت پر عمل در آمد کے احکامات دیے جبکہ اس سے قبل 3 انجیکشن استعمال کیے جاتے تھے۔

    جسٹس دپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ آئین کی 8ویں ترمیم، جس کے تحت دردناک سزا پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ باوجود 2010 سے اب تک 14 ریاستوں نے 200 سے زائد سزائے موت میں پینٹور باربیٹل زہر کا استعمال کیا ہے۔

    تاہم وفاقی عدالتوں سمیت سپریم کورٹ نے بھی بارہا اس کے استعمال پر پابندی عائد کی ہے۔