Tag: سزا معطلی

  • نواز شریف کی سزا معطلی ،  نگران پنجاب حکومت نے  تفصیلات جاری کردیں

    نواز شریف کی سزا معطلی ، نگران پنجاب حکومت نے تفصیلات جاری کردیں

    لاہور : نگران پنجاب حکومت کی جانب سے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے معاملے پر تفصیلات جاری کردیں۔

    تفصیلات کے مطابق نگران پنجاب حکومت کی جانب سے نواز شریف کی سزا معطلی کے معاملے پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے تفصیلات جاری کردیں۔

    محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا ہے کہ وکیل امجدپرویز نےبتایا کہ نواز شریف رضاکارانہ طور پر واپس آئےہیں ، نواز شریف نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت لی ، وکیل کے مطابق دسمبر 2019 میں اسوقت کی حکومت نے بغیر سنے درخواست مسترد کی۔

    محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ نواز شریف وکیل نے بتایا کورونا اور صحت کے مسائل کی وجہ سے پہلے وہ پاکستان نہ آئے ، نواز شریف کی عمر74 سال اور متعدد بیماریوں کا شکار ہیں ، اس حوالے سے ڈاکٹر عدنان نے نواز شریف کی میڈیکل کنڈیشن کی دستاویزات جمع کرائیں۔

    انھوں نے بتایا کہ نگران حکومت نواز شریف کی درخواست منظور کرتی ہے اور متعلقہ فورم اسلام آباد ہائی کورٹ ہی ہے، جو معاملے پر مناسب حکم جاری کرے۔

    ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی درخواست پر فیصلے کے لیے نگران کابینہ نے وزراء پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی، کمیٹی نے ماضی کی بعض مثالوں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں سزا معطل کرنے کی سفارش کی، جس کی نگراں وزیراعلیٰ اور کابینہ نے منظوری دے دی۔

    یاد رہے العزیزیہ ریفرنس میں نگران پنجاب کابینہ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی سزا معطل کردی تھی، حکومتی ذرائع نے بتایا تھا کہ نگران حکومت نے کریمنل پروسیجرل کوڈ کے سیکشن 401 کے تحت سزا معطل کی، کریمنل پروسیجرل کوڈسیکشن401کےتحت حکومت مجرم کی سزامعطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

    ذرائع کا کہنا تھا کہ سال 2019 میں نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل بھی سیکشن401 کے تحت سزا معطل کی گئی تھی۔

  • نواز شریف کی سزا معطلی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریری حکم جاری

    نواز شریف کی سزا معطلی، اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریری حکم جاری

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کے ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے لیے میاں شہباز شریف کی درخواست پر تحریری حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق نواز شریف کی سزا کی معطلی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا، 3 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر نے جاری کیا۔

    عدالت نے تحریری حکم میں کہا کہ اعتراضات پر وکیل نے کہا سزا معطلی کے لیے کوئی بھی درخواست دے سکتا ہے، شہباز شریف کی استدعا پر کل درخواست سماعت کے لیے مقرر کی جاتی ہے، چیف سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ پنجاب کل تک جواب جمع کرائیں۔

    تازہ ترین:  مریم نواز اسپتال سے کوٹ لکھپت جیل منتقل

    نواز شریف کی صحت کے معاملے پر عدالت نے میڈیکل ٹیم کے ایک ڈاکٹر کو نئی رپورٹ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایم ایس سروسز اسپتال ذاتی حیثیت میں پیش ہوں، نواز شریف کی بیماری کی نوعیت کے باعث کل کیس پر سماعت ہوگی۔

    جج نے فریقین کو ٹیلی فون یا دیگر ذرایع سے عدالتی حکم سے آگاہ کرنے کی ہدایت بھی کی اور رجسٹرار کو حکم دیا کہ شہباز شریف کی درخواست پر اعتراضات ختم کر کے سماعت کے لیے مقرر کرے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے متاثرہ فریق ہونے کا فیصلہ جوڈیشل سائیڈ پر کیا جائے گا۔

  • نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

    نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کا درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی۔

    نوازشریف کی جانب سے دائر درخواست میں وفاق، نیب، جج احتساب عدالت، سپرنٹنڈنٹ جیل کوفریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ کا 25 فروری کا فیصلہ کالعدم قراردیا جائے، نوازشریف کوالعزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرکے ضمانت دی جائے۔

    درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نوازشریف جیل میں قید ہیں، سنجیدہ نوعیت کی بیماریاں ہیں، میڈیکل بورڈ کے ذریعے نوازشریف کے کئی ٹیسٹ کرائے گئے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ قانون میں دیے گئے اختیار استعمال کرنے میں ناکام ہوئی، ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے اپنے اختیارکے استعمال میں غلطی کی۔

    درخواست گزار کے مطابق ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے طے کردہ پیرامیٹرکا غلط اطلاق کیا، ہائی کورٹ نے ضمانت کے اصولوں کومدنظر نہیں رکھا۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے فرض کرلیا نوازشریف کواسپتال میں علاج کی سہولتیں میسرہیں، درحقیقت نوازشریف کودرکارٹریٹمنٹ شروع بھی نہیں ہوئی۔

    سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کوفوری علاج کی ضرورت ہے، علاج نہ کیا گیا تو صحت کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    یاد رہے 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پرضمانت پررہائی سے متعلق فیصلہ سنایا تھا، فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

  • نواز، مریم اور صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پرفیصلہ مؤخر،عید جیل میں گزاریں گے

    نواز، مریم اور صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پرفیصلہ مؤخر،عید جیل میں گزاریں گے

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کے بعد فیصلہ مؤخر کر دیا گیا، ن لیگی رہنما عید جیل میں گزاریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف، مریم،کیپٹن (ر) صفدرکی سزا معطلی کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ  مؤخر کر دیا گیا۔

    سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ مرکزی اپیلوں کی سماعت کے ساتھ ہوگا۔گرمیوں کی تعطیلات کے بعد سماعت ہوگی۔ 

    قبل ازیں  اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وزیر اعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف، ان کی دختر مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے عدالتی احکامات کے مطابق شق وار جواب جمع کروا یا۔

    دوران سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ التوفیق کیس میں نواز شریف کا کیا لینا دینا ہے؟ سردار مظفر نے جواب دیا کہ مریم نواز اور حسین نواز ڈائریکٹر شیئر ہولڈر اور حسن نواز شیئر ہولڈر تھے۔

    جسٹ اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اس میں میاں نواز شریف کہاں ہیں؟ آپ کا تو کیس ہی یہی ہے کہ نواز شریف بے نامی دار تھے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ یہ ڈائریکٹ کیس نہیں ہے، جائیداد بالواسطہ آف شور کمپنیوں اور بے نامی داروں کے نام پر بنائی گئی۔

    سردار مظفر کی طرف سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ سردار صاحب اکثریتی فیصلے کا حوالہ دیں اقلیتی کا نہیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ اس کیس کے شواہد اور حالات دیگر سے مختلف ہیں، اس کیس میں بے نامی داروں کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے۔ ملزمان کی تقاریر اور انٹرویوز کو بھی بطور شواہد پیش کیا گیا۔ آف شور کمپنیوں کے ذریعے ویلز آف سکریسی میں جائیداد بنائی گئی۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب ڈپٹی پراسیکیوٹر پر برہم ہوگئے اور کہا کہ سردار صاحب آپ اپنے کیس پر فوکس رکھیں، اگر آپ نے پورا دن کتاب پڑھنی ہے تو بتا دیں۔ آپ نے ایک بھی قانونی نکتے پر بات نہیں کی۔

    سردار مظفر نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے دلائل دینے کا موقع نہیں دیں گے تو میں کیس کی پیروی نہیں کر سکتا۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ طریقہ کار نہیں ہے، ایسا نہ کریں۔ سردار مظفر نے کہا کہ استغاثہ نے بار ثبوت منتقل کیا یا نہیں، اس کے لیے شواہد کو دیکھنا پڑے گا۔

    اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ میں ساری بات مان لیتا ہوں لیکن یہ بتا دیں کہ فلیٹس کی قیمت کیا تھی، فیصلے میں بتا دیں کہ کہاں فلیٹس کی قیمت لکھی ہے یا شواہد ہیں جس پر انہیں کہا گیا کہ ابھی سردار صاحب کو دلائل دینے دیں، آپ کو بعد میں موقع دیں گے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ ہم نے جائیداد کی ملکیت ثابت کر دی ہے، ملزمان نے جو مؤقف سپریم کورٹ میں اپنایا وہ غلط ثابت کیا۔

    بعد ازاں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے اپنے دلائل پیش کیے۔

    اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ نائن اے فائیو کے اجزا میں جائیداد کی ٹائٹل، تحویل شامل ہے۔ پبلک آفس ہولڈر ہونا اور معلوم ذرائع آمدن پیش کرنا بھی جزو میں شامل ہے۔ میاں نواز شریف پبلک آفس ہولڈر تھے، پہلا جزو پورا ہوگیا۔

    انہوں نے کہا کہ دوسرا جزو پبلک آفس ہولڈر کی معلوم آمدن تھا، وہ بھی پورا کیا گیا، جائیداد کی تحویل کے حوالے سے بھی ٹرائل کورٹ میں ثابت کیا گیا۔ نائن اے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے متعلق ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر نائن اے کی شق 5 کے اجزا پورے ہوتے ہیں تو یہ بھی کرپشن ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل کرپشن میں تو ملزمان کو بری کیا گیا ہے اور آپ نے مان بھی لیا۔ قانون کی فکشن کے تحت ملزمان کو سزا دی گئی۔

    جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ نائن اے فور الگ معاملہ ہے، اس میں شواہد نہیں تھے، نائن اے فائیو بھی کرپشن ہے، معلوم ذرائع سے زیادہ جائیداد بنائی گئی ہے۔

    عدالت نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ہم مناسب حکمنامہ جاری کریں گے۔