Tag: سعادت حسن منٹو

  • ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے!

    سعادت حسن منٹو افسانہ نگاری کےساتھ فلم کی دنیا میں بطور لکھاری بھی مصروف رہے اور ہندوستان کے بڑے نگار خانوں سے وابستگی کے دوران انھوں نے فلم اور فلم سازی کو جس طرح سمجھا اسے اپنے مضامین کی شکل میں پیش کیا۔ ان کی ایک تحریر ہندوستانی صنعت فلم سازی پر ایک نظر کے عنوان شایع ہوئی تھی۔ اسی مضمون سے یہ اقتباس پیش خدمت ہے۔

    تیس برس سے ہالی ووڈ کے اربابِ فکر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فلم سازی میں اسٹار کو زیادہ اہمیت حاصل ہے یا خود فلم کو۔

    اس مسئلے پر اس قدر بحث کی جا چکی ہے کہ اب اس کے تصور ہی سے الجھن ہونے لگتی ہے۔ آخر متذکرہ صدر سوال کا فیصلہ کن جواب کیا ہو سکتا ہے۔ سوائے اس کے یہ سوال سن کر یوں کہہ دیا جائے، ’’کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ مرغی پہلے پیدا ہوئی یا انڈا؟ اگر اس کا جواب کچھ ہو سکتا ہے تو یقیناً اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا کہ اسٹار زیادہ اہمیت رکھتا ہے یا خود فلم۔

    فرینک کیپرا کولمبیا
    فلم کمپنی کے ماہرِ فن ڈائریکٹر نے حال ہی میں اس مسئلے پر اپنے افکار انگریزی اخبارات میں شائع کئے ہیں۔ مسٹر کیپرا کہتے ہیں، ’’میں ان لوگوں کا ہم خیال ہوں جو فلم کو سب سے اہم سمجھتے ہیں۔ فلم، اسٹار بناتے ہیں اور درخشاں سے درخشاں ستارہ کمزور یا برے فلم کو ناکامی سے بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ تجربے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ فلم ستارہ ساز ہے اور ستارے کمزور فلم کو تابانی نہیں بخش سکتے، مگر ہمارے یا مسٹر کیپرا کے خیال سے سب متفق نہیں ہو سکتے۔ ایسے سیکڑوں اصحاب موجود ہوں گے جو اپنے نظریے کے جواز میں اور مسٹر کیپرا کے نظریے کے ابطال میں ٹھوس دلائل و براہین پیش کر سکتے ہیں۔

    اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ ستارے کیوں کر بنتے ہیں یا وہ کون سی چیز ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر کیپرا نے اس سوال کا جواب نہایت دلچسپ انداز میں دیا۔ آپ کہتے ہیں، ’’اگر دنیا کے تمام پروڈیوسر اپنا سرمایہ جمع کر کے میرے حوالے کر دیں (جو یقیناً کافی و وافی ہوگا) اور مجھ سے یہ کہیں کہ ہمارے فلمی آسمان کے لئے تین ستارے چن کر لا دو، تو میں یقیناً خالی الذہن ہو جاؤں گا۔ اس لئے کہ مجھے وہ جگہ معلوم ہی نہیں۔ جہاں سے یہ ستارے مل سکتے ہیں۔‘‘

    خاموش فلموں کے زمانے میں ہالی ووڈ کے آسمان فلم کے لئے ستارے عام طور پر ہوٹلوں، کارخانوں اور دفتروں وغیرہ سے آتے تھے، لیکن اب فلموں کی خاموشی تکلم میں تبدیل ہو چکی ہے اور اس صنعت کو کافی فروغ حاصل ہو چکا ہے۔ ستاروں کی سپلائی بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے یہاں صنعت فلم سازی کے آغاز میں قحبہ خانے تھیٹر اور چکلے ستارے مہیا کیا کرتے تھے اور اب کہ ہماری صنعت کو کسی قدر فروغ حاصل ہوا ہے، علمی طبقے نے بھی ہمارے فلمی آسمان کے لئے ستارے پیش کرنے شروع کئے ہیں اور مستقبل بعید یا مستقبل قریب میں ایک ایسا وقت آئے گا، جب ہالی ووڈ کی طرح یہاں بھی ستاروں کی سپلائی کم ہو جائے گی۔ مگر ہم یہ سوچ رہے تھے کہ وہ کون سی شے ہے جو ستارے بناتی ہے؟

    مسٹر فرینک کیپرا کی (جن کی ڈائریکشن میں ہالی ووڈ کے بڑے بڑے نامور ستارے کام کر چکے ہیں) رائے ہے کہ کرداروں کی صحیح تقسیم (یعنی موزوں و مناسب کاسٹ) ستارے بناتی ہے۔ ان کے نظریے کے اعتبار سے چینی آدمی کا روپ صرف چینی ہی بطریق احسن دھار سکتا ہے اور لنگڑے یا کبڑے آدمی کا پارٹ صرف لنگڑا یا کبڑا آدمی ہی خوبی سے ادا کر سکتا ہے۔ ہمیں مسٹر کیپرا کے اس نظریے سے اتفاق ہے۔ اسکرین پر کسی کیریکٹر کی ادائیگی کے لئے اتنا ہی زیادہ انہیں کامیابی کا موقع ملے گا، جس آسانی سے ہم اور آپ اپنے آپ یعنی اپنے اصل کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس آسانی سے ہم کسی اور کی نقل نہیں کر سکتے جہاں تصنع اور بناوٹ کو دخل ہوگا وہاں اصلیت برقرار نہیں رہ سکتی۔

    اس نظریے کے جواز میں مسٹر فرینک کیپرا نے بہت سی مثالیں پیش کی ہیں، جن میں سے ایک گیری کو پر کی ہے۔ آپ کہتے ہیں، گیری کوپر اسکرین پر اپنے آپ کو اصلی رنگوں میں پیش کرتا ہے اور چونکہ وہ ایک خوش ذوق، عالی خیال اور صاحب فہم انسان ہے، اسی لئے وہ اپنی کوششوں میں کامیاب رہتا ہے۔

    ہم یہ کہہ رہے تھے کہ موزوں و مناسب کاسٹ ستارے بناتی ہے، مگر یہ قطعی اور آخری فیصلہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ صرف کاسٹ کا موزوں و مناسب ہونا ہی کسی فلم کو کامیاب نہیں بنا سکتا۔ فلم کی کامیابی کے لئے اور بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے جن کو آپ بخوبی سمجھتے ہوں گے۔ مختصر الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ جب تک مشینری کے سب پرزے اپنی اپنی جگہ پر اچھا کام نہ کریں گے، فلم کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کرداروں اور ٹیکنیشینوں کا باہمی اتحاد پکچر کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس طرح قیمتی سے قیمتی گھڑی ایک ٹک کرنے سے بھی انکار کر دیتی ہے، ا س لئے کہ اس کے کسی پرزے کے ساتھ میل کا ایک ننھا سا ذرہ چمٹا ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح قیمتی سے قیمتی فلم، ایک حقیر اور معمولی سی فروگزاشت یا غلطی کے باعث فیل ہو جاتے ہیں۔ صحیح کاسٹ ستارے بنانے میں دیگر عناصر سے کہیں زیادہ ممد و معاون ہے۔ آپ تھوڑی دیر کے غورو فکر کے بعد یقیناً ہمارے ہم نوا ہو جائیں گے، چنانچہ فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔

  • سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    سائیکل یا ن م راشد کی نظم؟

    ن م راشد کبھی اپنے دور کے دیگر شعرا کی طرح مقبول عام نہیں رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد کی شاعری میں مختلف اجزا کا جو امتزاج ہے وہ فکری اور جذباتی رجحانات کے تصادم، ردّعمل اور ہم آہنگی کا اک مسلسل عمل ہے جس کو سمجھنا اور جذب کرنا آسان نہیں۔ اس کے لیے خاص استعداد کے ساتھ دماغ سوزی کی ضرورت پڑتی ہے۔ البتہ اردو کی جدید نظم ہیئت کے اظہار کے نئے زاویوں اور زبان و بیان کے تجربات میں ہمیشہ راشد کی مرہون منت رہے گی۔

    راشد صاحب کی اردو، فارسی، انگریزی اور دوسری کئی زبانوں کے کلاسیکی و جدید ادب پر گہری نظر تھی۔ شاید اسی باعث ان کے تخیل کا افق بہت وسیع اور ان کے کلام میں تفکر کا عنصر غالب رہا۔ بڑے بڑے نام اور علمی و ادبی شخصیات ن م راشد سے مرعوب تو تھے ہی، لیکن ان کی شاعری اور فکر کو تنقید کا نشانہ پر بھی رکھا اور اکثر ن م راشد کے افکار اور ان کی شاعری کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔ اس ضمن یہ دل چسپ واقعہ ادبی تذکروں پر مبنی کتب میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ایک روز منٹو صاحب (سعادت حسن منٹو) بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔” شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد جمع ہوئے۔

    "راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے، منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔

  • جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    جب منٹو کو یہ احساس ہوا کہ نور جہاں اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی!

    نور جہاں کو میں نے صرف پردے پر دیکھا تھا۔ میں اس کی شکل و صورت اور اداکاری کا نہیں، اس کی آواز کا شیدائی تھا۔ وہ کم عمر تھی۔ اس لیے مجھے حیرت تھی کہ وہ کیونکر اتنے دل فریب طریقے سے گا سکتی ہے۔

    ان دنوں دو آدمیوں کا دور دورہ تھا۔ مرحوم سہگل کا اور نور جہاں کا۔ یوں تو ان دنوں خورشید چھائی ہوئی تھی، شمشاد کے بھی چرچے تھے مگر نور جہاں کی آواز میں سب کی آواز دب گئی۔ ثریا بعد کی پیداوار ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ سہگل اور ثریا اکٹھے فلم میں پیش ہوئے لیکن نور جہاں اور وہ دونوں الگ الگ رہے۔ معلوم نہیں، پروڈیوسروں کے دماغ میں ان دونوں کو یکجا کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا یا کسی اور وجہ سے پروڈیوسر ان کو ایک فلم میں کاسٹ نہ کرسکے۔ بہرحال مجھے اس کا افسوس ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اگر وہ دونوں آمنے سامنے ہوتے تو موسیقی کی دنیا میں نہایت خوشگوار انقلاب برپا ہوتا۔

    نور جہاں سے میری پہلی ملاقات کیسے ہوئی، کب ہوئی اور کہاں ہوئی۔۔۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ میں کئی برس تک بمبئی کی فلمی دنیا میں گزار کر چند وجوہ کی بنا پر دل برداشتہ ہوکر دہلی چلا گیا۔ وہاں پر میں نے آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت کرلی۔ مگر یہاں سے بھی دل اچاٹ ہوگیا۔ بمبئی سے’’مصور‘‘ کے ایڈیٹر نذیرلدھیانوی کے متعدد خطوط آئے کہ تم واپس چلے آؤ۔ ’خاندان‘ کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی یہاں آئے ہوئے ہیں اور میرے ہی پاس ٹھہرے ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ تم ان کے لئے ایک کہانی لکھو۔

    میں دہلی چھوڑ کر چلا گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرپس مشن فیل ہو چکا تھا۔ میں غالباً ۷ اگست ۱۹۴۷ء کو بمبئی پہنچا۔ شوکت سے میری پہلی ملاقات ۱۷ اڈلفی چیمبرز کلیئر روڈ پر ہوئی۔ جو دفتر بھی تھا اور رہائشی مکان بھی۔ بڑا بانکا چھیلا نوجوان تھا۔ گورا رنگ، گالوں پر سرخی، مہین مہین جون گلبرٹ اسٹائل کی مونچھیں، گھنگھریالے بال، لمبا قد، بہت خوش پوش، بے داغ پتلون، شکنوں سے بے نیاز کوٹ ٹائی کی گرہ نہایت عمدہ، چال میں لٹک، ہم پہلی ملاقات میں ہی خوب گھل مل گئے۔ میں نے اس کو بہت مخلص انسان پایا۔ میں دہلی سے اپنے ساتھ اپنے پسندیدہ سگریٹ یعنی کریون اے کا کافی اسٹاک لے کر آیا تھا۔ جنگ چھڑی ہوئی تھی، اس لیے بمبئی میں یہ سگریٹ قریب قریب نایاب تھے۔ شوکت نے میرے پاس بیس پچیس ڈبے اور پچاس کے قریب ڈبیاں دیکھیں تو بہت خوش ہوا۔

    ہم دونوں کا قیام وہیں 17 اڈلفی چیمبرز میں تھا۔ دو کمرے تھے جہازی سائز کے۔ ایک میں دفتر تھا، دوسرے میں رہائشی معاملہ۔ مگر رات کو ہم دفتر میں سوتے تھے۔ مرزا مشرف وغیرہ آجاتے تھے، وہ ہماری چارپائیاں بچھا دیتے تھے۔ جب تک شوکت وہاں رہا، بڑے ہنگامے رہے، کریون اے کے سگریٹ اور ناسک کی ہرن مارکہ وسکی جو بڑی واہیات تھی۔ لیکن اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ شوکت’’خاندان‘‘ کے بعد گو بہت بڑا ڈائریکٹر بن گیا تھا۔ مگر لاہور سے بمبئی پہنچنے اور وہاں کچھ دیر رہنے کے دوران میں وہ سب کچھ خرچ ہو چکا تھا جو اس نے لاہور میں فلم کی ہنگامی اور اخراجات سے پر زندگی گزارنے کے بعد پس انداز کیا تھا۔ اور میرے پاس تو صرف چند سوتھے جو کہ ہرن مارکہ وسکی میں غرق ہوگئے۔

    بہرحال کسی نہ کسی حیلے گزر ہوتا رہا۔ وہ وقت بہت نازک تھا۔ میں سات اگست کو وہاں پہنچا اور ۹ اگست کی صبح کو جب میں نے کہیں ٹیلی فون کرنے کی کوشش کی تو لائن ’’ڈیڈ‘‘ یعنی مردہ تھی۔ بعد میں پتہ چلا کہ کانگریسی لیڈروں کی گرفتاریاں چونکہ عمل میں آرہی تھیں، اس لیے احتیاطاً ٹیلی فون کا سارا سلسلہ منقطع کر دیا گیا تھا۔

    گاندھی جی، جواہر لعل نہرو اور ابوالکلام آزاد وغیرہ سب گرفتار کر لیے گئے، اور کسی نامعلوم جگہ منتقل کر دیے گئے۔ شہر کی فضا بالکل ایسی تھی جیسے بھری بندوق۔ باہر نکلنے کا تو سوال ہی نہ پیدا ہوتا تھا۔ کئی دن تک ہم ہرن مارکہ شراب پی کر اپنا وقت کاٹتے رہے۔ اس دوران فلم انڈسٹری میں بھی انقلاب برپا ہوچکا تھا۔ حالات چونکہ غیر یقینی تھے اس لیے کسی نئے فلم کی تیاری کون کرتا۔ چنانچہ جن لوگوں سے شوکت کی بات چیت ہورہی تھی، ایک غیر معینہ عرصے کے لئے کھٹائی میں پڑ گئی اور ہم نذیر لدھیانوی کے ہاں پکے ہوئے بدمزے کھانے کھا کر لمبی تان کر سوتے رہے۔ لیکن پھر بھی کبھی کبھار زندگی کے آثار پیدا ہو جاتے تھے اور ہم کہانیوں کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے تھے۔

    اسی دوران میں مجھے معلوم ہوا کہ نور جہاں بھی بمبئی میں ہے لیکن ٹھہریے! میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے کیسے معلوم ہوا۔ میرا حافظہ جواب دے گیا تھا۔ اصل میں مجھے یہ آٹھ اگست ہی کو معلوم ہوگیا تھا جب کہ میری ملاقات ابھی شوکت سے نہیں ہوئی تھی۔

    مجھے ماہم جا کر اپنے چند رشتہ داروں سے ملنا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے ایک ریڈیو آرٹسٹ ثمینہ کا پتہ لینا تھا۔ (بعد میں کرشن چندر سے جس کے مراسم رہے۔) اس لڑکی کو میں نے آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بمبئی بھیجا تھا کیونکہ اس کو فلم میں کام کرنے کا شوق تھا۔ میں نے اسے پرتھوی راج اور برج موہن کے نام تعارفی خط لکھ کر دے دیے تھے اور اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آیا وہ فلمی دنیا میں داخل ہو چکی ہے یا نہیں۔۔۔! لڑکی ذہین تھی، کردار اس کا بہت اچھا تھا، مکالمے بہت روانی کے ساتھ ادا کرتی تھی، شکل و صورت کی بھی خاصی تھی۔ اس لیے مجھے یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوگئی ہوگی۔

    مجھے پتہ چلا کہ وہ شیوا جی پارک میں کہیں رہتی ہے۔ مگر یہ اتنی بڑی جگہ ہے کہ ثمینہ خاتون کا پتہ لگانا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ میں نظامی صاحب کے ہاں روانہ ہوگیا جو قریب ہی کیڈل روڈ پر رہتے تھے۔ مجھے ان کا ایڈریس معلوم تھا کہ وہ اکثر مجھے خط لکھتے رہتے تھے۔ یہ وہی نظامی ہیں جنہوں نے ممتاز شانتی کو تربیت دی۔ جن کے پاس ولی صاحب برسوں پڑے رہے اور آخر میں ممتاز شانتی کو نظامی صاحب کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت ہی لے اڑے۔ یہ وہی نظامی صاحب ہیں جن کی بیوی گیتا نظامی کے نام سے فلمی دنیا میں مشہور ہوئی اور جس نے نظامی صاحب کو لات مار کر پے در پے کئی شادیاں کیں۔ عدالتوں میں جس کے کئی مقدمے چلے اور جو اب ایک نئی خوبصورت لڑکی کے ساتھ ڈانس پارٹی بنا کر شہر بہ شہر پاکستان کا پرچار کر رہے ہیں۔ نظامی صاحب سے میری ملاقاتیں صرف خطوط تک ہی محدود تھیں اور وہ بھی بڑے رسمی تھے۔ میں نے ان کو پہلی مرتبہ ان کے فلیٹ پر دیکھا۔ میں اگر اس ملاقات کو بیان کروں تو میرا خیال ہے، دس پندرہ صفحے اس کی نذر ہو جائیں گے، اس لیے میں اختصار سے کام لوں گا۔ نظامی صاحب جو کہ دھوتی اور بنیان پہنے تھے، مجھے بڑے تپاک سے ملے۔ انہوں نے میرے آنے کا مقصد پوچھا جو میں نے عرض کر دیا۔ آپ نے کہا، ’’ثمینہ خاتون ابھی آپ کے قدموں میں حاضر ہو جائے گی۔‘‘

    ان کا ایک مریل قسم کا ہندو منیجر تھا۔ اس کو آپ نے حکم دیا کہ منٹو صاحب کے لئے فوراً ثمینہ خاتون کو حاضر کرو۔ یہ حکم دینے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ وہ میرے لیے ہر قسم کی خدمت کے لیے حاضر ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً زبانی طور پر میرے لیے ایک عمدہ فلیٹ، بہترین فرنیچر اور ایک عدد کار کا بندوبست کردیا۔

    ظاہر ہے کہ میں بہت خوش ہوا۔ چنانچہ میں نے مناسب اور موزوں الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جس کی ان کو بالکل ضرورت نہیں تھی، اس لیے کہ وہ میرے افسانوں کے گرویدہ تھے۔ قارئین سے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نظامی صاحب زبانی جمع خرچ کے بادشاہ ہیں۔

    ممتاز شانتی کو سیدھے راستے پر لگانے اور اس کو صالح تربیت دینے کے متعلق باتیں ہورہی تھیں تو نظامی صاحب نے نور جہاں کا ذکر کیا اور مجھے بتایا کہ ان دنوں وہ بھی ان کے زیر سایہ ہے اور ممتاز کی طرح تربیت حاصل کررہی ہے۔ آپ نے کہا: ’’منٹو صاحب! اگر یہ لڑکی زیادہ دیر لاہور میں رہتی تو اس کا بیڑہ غرق ہو جاتا، میں نے اسے یہاں اپنے پاس بلا لیا ہے اور سمجھایا ہے کہ دیکھو بیٹا! صرف فلم اسٹار بننے سے کچھ نہیں ہوگا۔ کوئی سہارا بھی ہونا چاہئے۔ اوّل تو شروع میں عشق لڑانے کی کوئی ضرورت نہیں ادھر ادھر دونوں طرف سے خوب کماؤ۔ جب بینک میں تمہارا کافی روپیہ جمع ہو جائے تو کسی ایسے شریف آدمی سے شادی کر لو جو ساری عمر تمہارا غلام بن کے رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے منٹو صاحب! آپ تو بڑے دانا ہیں۔‘‘

    میری ساری دانائی تو نظامی صاحب کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی نیچے فٹ پاتھ پر بھاگ گئی تھی۔ میں کیا جواب دیتا؟ بس کہہ دیا کہ آپ جو کر رہے ہیں وہ مصلحت کے خلاف کیونکر ہو سکتا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے آواز دے کر نور جہاں کو بلایا مگر اسی وقت ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور چند لمحات کے بعد نور جہاں کی آواز کسی کمرے سے آئی، ’’ابھی آتی ہوں، کمال صاحب کا فون آیا ہے۔‘‘

    نظامی صاحب زیرِ لب مسکرائے۔ یہ کمال صاحب، حیدر امروہی تھے۔۔۔ ’’پکار کے شہرت یافتہ‘‘ نظامی صاحب مجھ سے مخاطب ہوئے، ’’میں عرض کررہا تھا کہ سہارا ہونا چاہیے تو نور جہاں کے لئے کمال امروہی سے بہتر سہارا اور کون ہو سکتا ہے۔ لیکن میں اس سے صاف صاف کہہ چکا ہوں کہ شادی وادی کا معاملہ غلط ہے، بس اپنا الو سیدھا کیے جاؤ۔ کمال کما سکتا ہے۔ اس کی آدھی کمائی اگر نور جہاں کو مل جایا کرے تو کیا ہرج ہے۔ اصل میں منٹو صاحب ان ایکٹرسوں کو روپیہ کمانے کے گر آنے چاہئیں۔‘‘ میں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ گرو جو موجود ہیں۔‘‘ نظامی خوش ہوگیا اور اس نے مجھے فوراً ایک فسٹ کلاس لیمن اسکواش پلایا۔

    بس یہاں۔۔۔ نظامی صاحب کے فلیٹ میں، جہاں نور جہاں کی سائنٹیفک طریقے پر تربیت ہورہی تھی، اس کو وہ تمام چلتر خالص نظامی صاحب کی نگرانی میں سکھائے جارہے تھے، میری نور جہاں سے سرسری سی ملاقات ہوئی اور میرا رد عمل یہ تھا کہ یہ لڑکی اپنی جوانی کی منزلیں بڑی سرعت سے طے کررہی ہے اور جس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور ہنسی تجارتی رنگ اختیار کر رہی ہے اور جو موٹاپے کی طرف مائل ہے، اپنے استاد کی بہترین شاگرد ثابت ہوگی۔

    (ممتاز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس جو انھوں نے اداکارہ اور گلوکارہ نور جہاں پر لکھا ہے)

  • نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    نور جہاں اور پاؤ بھر اچار

    سعادت حسن منٹو جیسے بڑے قلم کار نے کئی سال قبل اپنے وقت کی ایک بڑی گلوکارہ اور اداکارہ نور جہاں پر یہ مضمون لکھا تھا۔ اس میں منٹو نے نور جہاں کے فن اور ان کی شخصیت سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کچھ دل چسپ باتیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً‌ وہ بتاتے ہیں کہ گلوکارہ اپنی آواز کے بگڑنے اور گلے کے خراب ہونے کا خیال کیے بغیر کھانے پینے میں کوئی احتیاط نہیں کرتی تھیں۔

    منٹو نے ملکۂ ترنّم نور جہاں کے بارے میں لکھا: میں نے شاید پہلی مرتبہ نور جہاں کو فلم ’’خاندان‘‘ میں دیکھا تھا۔ ’نور جہاں‘ ان دنوں فلم بین لوگوں کے لئے ایک فتنہ تھی، قیامت تھی۔ لیکن مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ ایک فقط اس کی آواز قیامت خیز تھی۔

    سہگل کے بعد، میں نور جہاں کے گلے سے متاثر ہوا۔ اتنی صاف و شفاف آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرج اتنا ہموار، پنچم اتنا نوکیلا! میں نے سوچا، اگر یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پر کھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح، جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسہ پر بغیر کسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں۔

    نور جہاں کی آواز میں اب وہ لوچ، وہ رس، وہ بچپنا اور وہ معصومیت نہیں رہی، جو کہ اس کے گلے کی امتیازی خصوصیت تھی۔ لیکن پھر بھی نور جہاں، نورجہاں ہے۔ گو لتا منگیشکر کی آواز کا جادو آج کل ہر جگہ چل رہا ہے۔ اگر کبھی نور جہاں کی آواز فضا میں بلند ہو تو کان اس سے بے اعتنائی نہیں برت سکتے۔

    نور جہاں کے متعلق بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ وہ راگ ودیا اتنا ہی جانتی ہے جتنا کہ کوئی استاد۔ وہ ٹھمری گاتی ہے، خیال گاتی ہے، دھرپد گاتی ہے، اور ایسا گاتی ہے کہ گانے کا حق ادا کرتی ہے۔ موسیقی کی تعلیم تو اس نے یقیناً حاصل کی تھی کہ وہ ایسے گھرانے میں پیدا ہوئی، جہاں کا ماحول ہی ایسا تھا۔ لیکن ایک چیز خداداد بھی ہوتی ہے۔ موسیقی کے علم سے کسی کا سینہ معمور ہو، مگر گلے میں رس نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خالی خولی علم سننے والوں پر کیا اثر کرسکے گا۔ نور جہاں کے پاس علم بھی تھا اور وہ خداداد چیز بھی کہ جسے گلا کہتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو قیامت کا برپا ہونا لازمی ہے۔

    میں یہاں آپ کے لیے ایک دل چسپ بات بتاؤں کہ وہ لوگ جن پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے، وہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ میرا مطلب ابھی آپ پر واضح ہو جائے گا۔ چاہیے تو یہ کہ جو چیز خدا نے عطا کی ہو، اس کی حفاظت کی جائے، تاکہ وہ مسخ نہ ہو۔ لیکن میں نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ ان کی پروا نہیں کرتے۔ بلکہ غیر شعوری یا شعوری طور پرپوری کوشش کرتے ہیں کہ وہ تباہ و برباد ہو جائے۔

    شراب گلے کے لئے سخت غیر مفید ہے لیکن سہگل مرحوم ساری عمر بلا نوشی کرتے رہے۔ کھٹی اور تیل کی چیزیں گلے کے لئے تباہ کن ہیں، یہ کون نہیں جانتا؟ مگر نور جہاں پاؤ پاؤ بھر تیل کا اچار کھا جاتی ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ جب اسے فلم کے لئے گانا ہوتا ہے تو وہ خاص اہتمام سے پاؤ بھر اچار کھائے گی، اس کے بعد برف کا پانی پیے گی، پھر مائیکرو فون کے پاس جائے گی۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ ’’اس طرح آواز نکھر جاتی ہے۔‘‘

    یوں آواز کیونکر نکھرتی ہے، گلا کیسے صاف ہوتا ہے، اس کے متعلق نور جہاں ہی بہتر جانتی ہے۔ یوں میں نے اشوک کمار کو بھی برف استعمال کرتے دیکھا ہے کہ جب اسے گانے کی صدا بندی کرانا ہوتی ہے وہ سارا وقت برف کے ٹکڑے چباتا رہتا ہے۔ جب تک ریکارڈ زندہ ہیں، سہگل مرحوم کی آواز کبھی نہیں مرسکتی۔ اسی طرح نور جہاں کی آواز بھی ایک عرصے تک زندہ رہے گی اور آنے والی نسلوں کے کانوں میں اپنا شہد ٹپکاتی رہے گی۔

  • ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    ’منٹو طبعی موت نہیں مرا!‘

    منٹو کی موت ایک بڑا سانحہ تھی۔ کئی لکھنے والے دل برداشتہ ہوئے تھے۔

    ایک تعزیتی جلسے میں حمید اختر نے کہا تھا، ’وہ طبعی موت نہیں مرا۔ اسے مار ڈالا گیا ہے۔ اسے مارنے والوں میں سب سے زیادہ ہاتھ اسے کے دوستوں کا ہے۔ اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا۔ برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اس کے ساتھ مل کر اسے برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر کے اسے مار ڈالا ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

    سب جانتے ہیں کہ منٹو کی ناگہانی موت کے لیے شراب ذمے دار ہے۔ لیکن اس کے دوست حمید اختر کا خیال کچھ اور تھا۔

    ’اس کی زندگی میں جہاں محرومیاں ہی محرومیاں ہیں۔ آسائش کی محرومیاں، محبت کی محرومیاں، محبوبہ کی محرومی، اچھے مکان کی محرومی اور ضروریات زندگی سے محرومی، کہاں کہاں یہ محرومی راستہ روک کر کھڑی رہتی ہے۔ سنگدل، بے مہر اور ظالمانہ محرومی سے ٹکر مار کر انسان شراب نہیں پیے گا تو کیا کرے گا۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ منٹو اور منٹو کی طرح کے دوسرے لاکھوں لوگ اچھی شراب سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس سے کسک اور بڑھتی ہے اور نتیجہ جو ہوتا ہے، وہ ظاہر ہی ہے۔‘ (منٹو زندہ ہے، از حمید اختر)

  • شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    شوفر اور ایڈیٹر کا سوٹ

    سعادت حسن منٹو نے تقسیمِ ہند کے موقع پر ہنگامہ آرائی اور مذہب کی بنیاد پر فسادات میں قتل و غارت گری پر کئی افسانے اور مضامین سپردِ‌ قلم کیے ہیں جو زمین پر لکیر کھینچے جانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات اور اس وقت کے ہندوؤں، مسلمانوں اور سکھوں کی سوچ کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ یہ لرزہ خیز اور نہایت درد ناک بھی ہیں اور بعض جگہ ان واقعات کی بدولت ایک مضحکہ خیز اور دل چسپ صورتِ حال نے جنم لیا۔

    منٹو ایک مضمون میں دو ایسے واقعات بیان کرتے ہیں جو اسی دور میں بلوے اور لڑائی جھگڑوں‌ کے دوران پیش آئے۔ یہ غالباً ہندوستان کے کسی شہر میں پیش آنے والے دو دل چسپ واقعات ہیں۔ منٹو لکھتے ہیں:

    ایک سڑک پر ایک انگریز اپنی موٹر میں جا رہا تھا۔ چند آدمیوں نے اس کی موٹر روک لی۔ انگریز بہت گھبرایا کہ نہ معلوم یہ سر پھرے لوگ اس کے ساتھ کس قسم کا وحشیانہ سلوک کریں گے، مگر اس کو حیرت ہوئی جب ایک آدمی نے اس سے کہا، ’’دیکھو، اپنے شوفر کو پیچھے بٹھاؤ اور خود اپنی موٹر ڈرائیو کرو۔۔۔ تم نوکر بنو اور اس کو اپنا آقا بناؤ۔‘‘ انگریز چپکے سے اگلی سیٹ پر چلا گیا۔ اس کا شوفر بوکھلایا ہوا پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ بلوہ پسند لوگ اتنی سی بات پر خوش ہو گئے۔ انگریزکی جان میں جان آئی کہ چلو سستے چھوٹ گئے۔

    ایک جگہ بمبئی کے ایک اردو فلمی اخبار کے ایڈیٹر صاحب پیدل جا رہے تھے۔ بل وصول کرنے کی خاطر انہوں نے سوٹ ووٹ پہن رکھا تھا۔ ہیٹ بھی لگی تھی۔ ٹائی بھی موجود تھی۔ چند فسادیوں نے انہیں روک کر کہا، ’’یہ ہیٹ اور ٹائی اتار کر ہمارے حوالے کر دو۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے ڈر کے مارے یہ دونوں چیزیں ان کے حوالے کر دیں۔ جو فوراً دہکتے ہوئے الاؤ میں جھونک دی گئیں۔ اس کے بعد ایک نے ایڈیٹر صاحب کا سوٹ دیکھ کر کہا، ’’یہ بھی تو انگریزی ہے، اسے کیا نہیں اتروانا چا ہیے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب سٹپٹائے کہ اب کیا ہوگا، چنانچہ انہوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ ان لوگوں سے کہا، ’’دیکھو، میرے پاس صرف یہی ایک سوٹ ہے جسے پہن کر میں فلم کمپنیوں میں جاتا ہوں اور مالکوں سے مل کر اشتہار وصول کرتا ہوں۔ تم اسے جلا دو گے تو میں تباہ ہو جاؤں گا۔ میری ساری بزنس برباد ہو جائے گی۔‘‘ ایڈیٹر صاحب کی آنکھوں میں جب ان لوگوں نے آنسو دیکھے تو پتلون اور کوٹ ان کے بدن پر سلامت رہنے دیا۔

  • یہ تین کہانیاں سعادت حسن منٹو کو مرنے نہیں دیں گی!

    یہ تین کہانیاں سعادت حسن منٹو کو مرنے نہیں دیں گی!

    سعادت حسن منٹو نہیں‌ رہا، مگر اس کی کہانیوں کے کردار آج بھی زندہ ہیں جن میں کم ہی تعمیری اور مثبت سوچ کے ساتھ معاشرے کو کچھ دے رہے ہیں، اکثریت انہی کی ہے جن کو اپنا حال اور مستقبل بہتر بنانے کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے وہ کر گزریں گے، ان کے نزدیک کوئی اصول، اخلاقی پیمانہ، قاعدہ قانون معنی نہیں رکھتا۔ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائے یہ لوگ جنھیں منٹو نے اپنے افسانوں میں پیش کیا، ہمارے اردگرد موجود ہیں۔

    کل منٹو کی برسی تھی۔ وہی منٹو جس نے انسانوں کو حیوان بنتے دیکھا۔ کبھی دین دھرم کے نام پر ظلم دیکھا تو کبھی ذات پات اور برادری کے زعم میں انسانوں کی تذلیل دیکھی اور کبھی دولت اور طاقت کے زور پر انسانیت کا قتل۔

    سماج کے طاقت وَر اور بااختیار طبقات کی ناراضی مول لینے میں‌ سعادت حسن منٹو نے ہچکچاہٹ یا کم زوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس نے مخصوص ذہنیت کے حامل اور روایتی سوچ رکھنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا، اور اپنی تحریروں میں انفرادی اور اجتماعی بے حسی اور منافقت کا پردہ چاک کرتا رہا۔ موت تو ایک اٹل حقیقت ہے۔ منٹو بھی مٹی میں‌ مل گیا، اور آج تک لوٹ کر نہیں آیا، مگر کیا غضب ہے کہ ان سارے کرداروں کا آج بھی نئے چہروں اور ناموں کے ساتھ ہماری دنیا میں آنا جانا لگا ہوا ہے جنھیں منٹو نے اپنے قلم کی نوک سے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا۔

    ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جو واقعات پیش آئے اور لوگوں پر جو قیامتیں گزریں، وہ اردو ادب کا حصّہ ہے۔ منٹو نے بھی تقسیم کے بعد انسانیت کی پامالی کے مناظر کو اپنی تحریروں میں دکھایا۔ مشہور افسانہ نگار اور ادیب سعادت حسن منٹو کی یہاں ہم وہ تین کہانیاں نقل کررہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنّف کے کمال کی نظیر بھی ہیں، اور ظلم اور ناانصافی کی جھلک بھی دکھاتی ہیں۔ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ایک کہانی پڑھیے۔

    عنوان: پیش بندی

    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔

    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔

    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔ جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔

    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’

    ایک اور کہانی ملاحظہ کیجیے جس میں سعادت حسن منٹو ہماری موقع پرستی یا تاجرانہ ذہنیت کا پردہ چاک کرتے ہیں۔

    عنوان: دعوتِ عمل

    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔

    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا، ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    منٹو نے 11 مئی 1912ء کو سمرالہ، ضلع لدھیانہ میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی اور بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وقت گزارا، مگر تعلیم مکمل نہ کرسکے اور واپس امرتسر آگئے۔ لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ ادب، فلم اور صحافت میں نام کمایا۔ ابتدا میں انھوں نے لاہور کے رسالوں میں کام کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں انہوں نے ڈرامے اور فیچر لکھے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں فلمی صحافت سے وابستہ ہوئے اور کئی رسالوں کی ادارت کی۔ افسانہ نگاری کے ساتھ انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے، خاکے بھی تحریر کیے اور تقسیم کے بعد لاہور چلے آئے۔ منٹو کے قلم نے جنسی موضوعات اور ہجرت پر جو کہانیاں لکھیں‌، اس نے منٹو کو جرأت مند، کھرا اور صاف گو بھی ثابت کیا اور اسی پر انھیں گھٹیا اور سستے قلم کار کا طعنہ بھی اور فحش نگاری کا الزام بھی ان پر لگا۔ 18 جنوری 1955ء کو منٹو دنیا سے چلے گئے۔

    منٹو کی یہ کہانی پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کیسے کوئی انسان مال و دولت کی خاطر اپنی زندگی گنوانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ اور ظاہر ہے ایسا شخص موقع ملنے پر مال ہتھیانے کے لیے کسی دوسرے انسان سے اس کی زندگی چھین بھی سکتا ہے۔ کہانی پڑھیے۔

    عنوان:خبردار

    بلوائی مالک مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔

    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔

    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    سعادت حسن منٹو نے تو اپنے ہم پیشہ، اہلِ قلم اور اخبار و جرائد کے مالکان کو بھی نہیں‌ بخشا اور جھوٹ، غلط بیانی، دھوکہ دہی اور ناانصافی پر خوب بولے۔ منٹو کا ایک مضمون پیشِ‌ خدمت ہے:

    "مجھے شکایت ہے ان لوگوں سے جو اردو زبان کے خادم بن کر ماہانہ، ہفتہ یا روزانہ پرچہ جاری کرتے ہیں اور اس ’’خدمت‘‘ کا اشتہار بن کر لوگوں سے روپیہ وصول کرتے ہیں مگر ان مضمون نگاروں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتے، جن کے خیالات و افکار ان کی آمدن کا موجب ہوتے ہیں۔

    مجھے شکایت ہے ان ایڈیٹروں سے جو ایڈیٹر بھی ہیں اور مالک بھی۔ جو مضمون نگاروں کی بدولت چھاپے خانے کے مالک بھی ہیں لیکن جب ایک مضمون کا معاوضہ دینا پڑ جائے تو ان کی روح قبض ہو جاتی ہے۔

    مجھے شکایت ہے ان سرمایہ داروں سے جو ایک پرچہ روپیہ کمانے کے لیے جاری کرتے ہیں اور اس کے ایڈیٹر کو صرف پچیس یا تیس روپے ماہوار تنخواہ دیتے ہیں۔ ایسے سرمایہ دار خود تو بڑے آرام کی زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن وہ ایڈیٹر جو خون پسینہ ایک کر کے ان کی دولت میں اضافہ کرتے ہیں، آرام دہ زندگی سے ہمیشہ دور رکھے جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان ناشروں سے جو کوڑیوں کے دام تصانیف خریدتے ہیں اور اپنی جیبوں کے لیے سیکڑوں روپے اکٹھے کر لیتے ہیں۔ جو سادہ لوح مصنفین کو نہایت چالاکی سے پھانستے ہیں اور ان کی تصانیف ہمیشہ کے لیے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے ان سرمایہ دار جہلا سے جو روپے کا لالچ دے کر غریب اور افلاس زدہ ادیبوں سے ان کے افکار حاصل کرتے ہیں اور اپنے نام سے انہیں شائع کرتے ہیں۔

    سب سے بڑی شکایت مجھے ان ادیبوں، شاعروں اور افسانہ نگاروں سے ہے جو اخباروں اور رسالوں میں بغیر معاوضے کے مضمون بھیجتے ہیں۔ وہ کیوں اس چیز کو پالتے ہیں جو ایک کھیل بھی ان کے منہ میں نہیں ڈالتی۔ وہ کیوں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ان کو ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا۔ وہ کیوں ان کاغذوں پر نقش و نگار بناتے ہیں جو ان کے لیے کفن کا کام بھی نہیں دے سکتے۔

    مجھے شکایت ہے…… مجھے شکایت ہے…… مجھے ہر اس چیز سے شکایت ہے جو ہمارے قلم اور ہماری روزی کے درمیان حائل ہے۔ مجھے اپنے ادب سے شکایت ہے جس کی کنجی صرف چند افراد کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔ ادب کی کنجی پریس ہے۔ جس پر چند ہوس پرست سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ چند ایسے تاجروں کا قبضہ ہے جو ادب سے اتنے ہی دور ہیں جتنے کہ وہ تجارت کے نزدیک۔ مجھے اپنے ہم پیشہ ادیبوں سے شکایت ہے جو چند افراد کی ذاتی اغراض اپنے قلم سے پوری کرتے ہیں، جو ان کے جائز اور ناجائز مطالبے پر اپنے دماغ کی قاشیں پیش کر دیتے ہیں۔ مجھے شکایت ہے۔ مجھے اپنے آپ سے بھی شکایت ہے۔ اس لیے کہ میری آنکھیں بہت دیر کے بعد کھلی ہیں۔ بڑی دیر کے بعد یہ مضمون میں لکھنے بیٹھا ہوں جو آج سے بہت پہلے مجھ لکھ دینا چا ہیے تھا۔

  • جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    جب منٹو نے ناشر کی جیب سے دَس روپے نکالے!

    منٹوؔ کو شراب پینے کی لت خدا جانے کب سے تھی۔ جب تک وہ دلّی رہے ان کی شراب بڑھنے نہیں پائی تھی۔ بمبئی جانے کے بعد انھوں نے پیسہ بھی خوب کمایا اور شراب بھی خوب پی۔

    جب پاکستان بنا تو وہ لاہور آ گئے۔ یہاں فلموں کا کام نہیں تھا۔ اس لیے انھیں قلم کا سہارا لینا پڑا۔ ہمارے ادب جیسی بنجر زمین سے روزی پیدا کرنا منٹو ؔ ہی کا کام تھا۔ صحت پہلے کون سی اچھی تھی۔ رہی سہی شراب نے غارت کر دی۔ کئی دفعہ مرتے مرتے بچے۔ روٹی ملے یا نہ ملے بیس روپے روز شراب کے لیے ملنے چاہیے۔ اس کے لیے اچھا بُرا کچھ روزانہ دو ایک افسانے لکھنا ان کا معمول ہو گیا تھا۔ انھیں لے کر وہ کسی ناشر کے پاس پہونچ جاتے۔ ناشروں نے پہلے ضرورت سے انھیں خریدا۔ پھر بے ضرورت پھر اُپرانے اور منہ چھپانے لگے۔ دور سے دیکھتے کہ منٹو آ رہا ہے تو دکان سے ٹل جاتے۔ منٹو کی اب بالکل وہی حالت ہو گئی تھی جو آخر میں اختر شیرانی اور میرا جی کی۔ بے تکلف لوگوں کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتے اور جو کچھ جیب میں ہوتا نکال لیتے۔

    اگست 1954 میں کئی سال بعد لاہور گیا تھا۔ لاہور کے ادیب، شاعر، ایڈیٹر اور پبلشر ایک بڑی پارٹی میں جمع تھے کہ غیر متوقع طور پر منٹو بھی وہاں آگئے۔ اور سیدھے میرے پاس چلے آئے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ میں نے کہا آپ تو بہت بیمار ہیں۔ آپ کیوں آئے؟ میں سے اٹھ کر خود آپ کے پاس آنے والا تھا۔ بولے ہاں بیمار تو ہوں مگر جب یہ سنا کہ آپ یہاں آ رہے ہیں تو جی نہ مانا۔

    اتنے میں ایک شامت کا مارا پبلشر ادھر آ نکلا۔ منٹو نے آواز دی، "اوئے ادھر آ۔” وہ رکتا جھجکتا آگیا۔

    "کیا ہے تیری جیب میں نکال۔” اس نے جیب میں سے پانچ روپے نکال کر پیش کیے مگر منٹو پانچ روپے کب قبول کرنے والے تھے۔ "حرام زادے دس روپے تو دے۔” یہ کہہ کر اس کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈال دیا۔ اور دس روپے کا نوٹ نکال کر پھر مجھ سے باتیں کرنے لگے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ پبلشر نے بھی سوچا کہ چلو سستے چھوٹے۔ وہاں سے رفو چکر ہوگیا۔ منٹو پندرہ بیس منٹ تک بیٹھے باتیں کرتے رہے مگر ان کی بے چینی بڑھ گئی اور عذر کر کے رخصت ہوگئے۔ مجھ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔

    پانچ مہینے بعد اخبارات سے معلوم ہوا کہ منٹو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انھوں نے پھر چپکے سے شراب پی لی تھی۔ خون ڈالتے ڈالتے مر گئے۔

    (گنجینۂ گوہر از قلم شاہد احمد دہلوی سے اقتباس)

  • خالد میاں!

    خالد میاں!

    یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اپنے بیٹے کی موت کے وہم میں ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کی پہلی سالگرہ سے دو دن قبل اس کے باپ کو وہم ستانے لگا کہ بچہ ایک سال کا ہونے سے پہلے ہی مر جائے گا۔ یہ افسانہ سعادت حسن منٹو کی تخلیق ہے۔

    ممتاز نے صبح سویرے اٹھ کر، حسب معمول تینوں کمرے میں جھاڑو دی۔ کونے کھدروں سے سگرٹوں کے ٹکڑے، ماچس کی جلی ہوئی تیلیاں اور اسی طرح کی اور چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالیں۔ جب تینوں کمرے اچھی طرح صاف ہوگئے تو اس نے اطمینان کا سانس لیا۔

    اس کی بیوی باہر صحن میں سورہی تھی۔ بچہ پنگوڑے میں تھا۔ ممتاز ہر صبح سویرے اٹھ کر صرف اس لیے خود تینوں کمروں میں جھاڑو دیتا تھا کہ اس کا لڑکا خالد اب چلتا پھرتا تھا اور عام بچوں کے مانند، ہر چیز جو اس کے سامنے آئے، اٹھا کر منہ میں ڈال لیتا تھا۔

    ممتاز ہر روز تینوں کمرے بڑے احتیاط سے صاف کرتا مگر اس کو حیرت ہوتی جب خالد فرش پر اسے اپنے چھوٹے چھوٹے ناخنوں کی مدد سے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لیتا۔ فرش کا پلستر کئی جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ جہاں کوڑے کرکٹ کے چھوٹے چھوٹے ذرے پھنس جاتے تھے۔ ممتاز اپنی طرف سے پوری صفائی کرتا مگر کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتا جو اس کا پلوٹھی کا بیٹا خالد جس کی عمر ابھی ایک برس کی نہیں ہوئی تھی، اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لیتا۔

    ممتاز کو صفائی کا خبط ہوگیا تھا۔ اگر وہ خالد کو کوئی چیز فرش پر سے اٹھا کر اپنے منہ میں ڈالتے دیکھتا تو وہ خود کو اس کا ملزم سمجھتا۔ اپنے آپ کو دل ہی دل میں کوستا کہ اس نے کیوں بداحتیاطی کی۔ خالد سے اس کو پیار ہی نہیں عشق تھا، لیکن عجیب بات ہے کہ جوں جوں خالد کی پہلی سالگرہ کا دن نزدیک آتا تھا اس کا یہ وہم، یقین کی صورت اختیار کرتا جاتا تھا کہ اس کا بیٹا ایک سال کا ہونے سے پہلے پہلے مر جائے گا۔

    اپنے اس خوف ناک وہم کا ذکر ممتاز اپنی بیوی سے بھی کر چکا تھا۔ ممتاز کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ اوہام کا بالکل قائل نہیں۔ اس کی بیوی نے جب پہلی بار اس کے منہ سے ایسی بات سنی تو کہا،’’آپ اور ایسے وہم۔۔۔ اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا بیٹا سو سال زندہ رہے گا۔۔۔ میں نے اس کی پہلی سالگرہ کے لیے ایسا اہتمام کیا ہے کہ آپ دنگ رہ جائیں گے۔‘‘

    یہ سن کر ممتاز کے دل کو ایک دھکا سا لگا تھا۔ وہ کب چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ نہ رہے لیکن اس کے وہم کا کیا علاج تھا۔ خالد بڑا تندرست بچہ تھا۔ سردیوں میں جب نوکر ایک دفعہ اس کو باہر سیر کے لیے لے گیا تو واپس آکر اس نے ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بیگم صاحب، آپ خالد میاں کے گالوں پر سرخی نہ لگایا کریں۔ کسی کی نظر لگ جائے گی۔‘‘

    یہ سن کر اس کی بیوی بہت ہنسی تھی، ’’بے وقوف مجھے کیا ضرورت ہے سرخی لگانے کی۔ ماشاء اللہ اس کے گال تو قدرتی لال ہیں۔‘‘

    سردیوں میں خالد کے گال بہت سرخ رہتے تھے مگر اب گرمیوں میں کچھ زردی مائل ہوگئے تھے۔ اس کو پانی کا بہت شوق تھا۔ چنانچہ جب وہ انگڑائی لے کر اٹھتا اور دودھ کی بوتل پی لیتا تو دفتر جانے سے پہلے ممتاز اس کو پانی کی بالٹی میں کھڑا کردیتا۔ دیر تک وہ پانی کے چھینٹے اڑا اڑا کر کھیلتا رہتا۔ ممتاز اور اس کی بیوی خالد کو دیکھتے اور بہت خوش ہوتے۔ لیکن ممتاز کی خوشی میں غم کا ایک برقی دھکا سا ضرور ہوتا۔

    وہ سوچتا خدا میری بیوی کی زبان مبارک کرے، لیکن یہ کیا ہے کہ مجھے اس کی موت کا کھٹکا رہتا ہے۔ یہ وہم کیوں میرے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے کہ یہ مر جائے گا۔ کیوں مرے گا۔۔۔؟ اچھا بھلا صحت مند ہے۔ اپنی عمر کے بچوں سے کہیں زیادہ صحت مند۔ میں یقیناً پاگل ہوں۔ اس سے میری حد سے زیادہ بڑھی ہوئی محبت دراصل اس وہم کا باعث ہے۔ لیکن مجھے اس سے اتنی زیادہ محبت کیوں ہے۔۔۔؟ کیا سارے باپ اسی طرح بچوں سے پیار کرتے ہیں۔ کیا ہر باپ کو اپنی اولاد کی موت کا کھٹکا لگا رہتا ہے۔۔۔؟ مجھے آخر ہو کیا گیا ہے؟

    ممتاز نے جب حسب معمول تینوں کمرے اچھی طرح صاف کر دیے تو وہ فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹ گیا۔ یہ اس کی عادت تھی۔ صبح اٹھ کر، جھاڑو وغیرہ دے کر وہ گرمیوں میں ضرور آدھے گھنٹے کے لیے چٹائی پر لیٹا کرتا تھا۔ بغیر تکیے کے اس طرح اس کو لطف محسوس ہوتا تھا۔

    لیٹ کر وہ سوچنے لگا، ’’پرسوں میرے بچے کی پہلی سالگرہ ہے۔ اگر یہ بخیر و عافیت گزر جائے تو میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ یہ میرا وہم بالکل دور ہو جائے گا۔۔۔ اللہ میاں یہ سب تیرے ہاتھ میں ہے۔‘‘

    اس کی آنکھیں بند تھیں۔ دفعتاً اس نے اپنے ننگے سینے پر بوجھ سا محسوس کیا۔ آنکھیں کھولیں تو دیکھا خالد ہے۔ اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ اس نے کہا، ’’ساری رات بے چین سا رہا ہے سوتے میں جیسے ڈر ڈر کے کانپتا رہا ہے۔‘‘

    خالد، ممتاز کے سینے پر زور سے کانپا۔ ممتاز نے اس پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’خدا میرے بیٹے کا محافظ ہو۔‘‘ ممتاز کی بیوی نے خفگی آمیز لہجے میں کہا، ’’توبہ، آپ کو بس وہموں نے گھیر رکھا ہے۔ ہلکا سا بخار ہے، انشاء اللہ دور ہو جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کی بیوی کمرے سے چلی گئی۔

    ممتاز نے ہولے ہولے بڑے پیار سے خالد کو تھپکنا شروع کیا جو اس کی چھاتی پر اوندھا لیٹا تھا اور سوتے میں کبھی کبھی کانپ اٹھتا تھا۔ تھپکنے سے وہ جاگ پڑا۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور باپ کو دیکھ کر مسکرایا۔ ممتاز نے اس کا منہ چوما۔ ’’کیوں میاں خالد کیا بات ہے۔ آپ کانپتے کیوں تھے؟‘‘

    خالد نے مسکرا کر اپنا اٹھا ہوا سر باپ کی چھاتی پر گرا دیا۔ ممتاز نے پھر اس کو تھپکانا شروع کردیا۔ دل میں وہ دعائیں مانگ رہا تھا کہ اس کے بیٹے کی عمر دراز ہو۔ اس کی بیوی نے خالد کی پہلی سالگرہ کے لیے بڑا اہتمام کیا تھا۔ اپنی ساری سہیلیوں سے کہا تھا کہ وہ اس تقریب پر ضرور آئیں۔ درزی سے خاص طور پر اس کی سالگرہ کے کپڑے سلوائے تھے۔ دعوت پر کیا کیا چیز ہوگی، یہ سب سوچ لیا تھا۔ ممتاز کو یہ ٹھاٹ پسند نہیں تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو اور سالگرہ گزر جائے۔ خود اس کو بھی پتا نہ چلے اور اس کا بیٹا ایک برس کا ہو جائے۔ اس کو اس بات کا علم صرف اس وقت ہو جب خالد ایک برس اور کچھ دنوں کا ہوگیا ہو۔

    خالد اپنے باپ کی چھاتی پر سے اٹھا۔ ممتاز نے اس سے محبت میں ڈوبے ہوئے لہجے میں کہا، ’’خالد بیٹا، سلام نہیں کرو گے ابا جی کو۔‘‘

    خالد نے مسکرا کر ہاتھ اٹھایا اور اپنے سر پر رکھ دیا۔ ممتاز نے اس کو دعا دی، ’’جیتے رہو۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہی اس کے دل پر اس کے وہم کی ضرب لگی اور وہ غم و فکر کے سمندر میں غرق ہوگیا۔

    خالد سلام کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔ دفتر جانے میں ابھی کافی وقت تھا۔ ممتاز چٹائی پر لیٹا رہا اور اپنے وہم کو دل و دماغ سے محو کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اتنے میں باہر صحن سے اس کی بیوی کی آواز آئی، ’’ممتاز صاحب، ممتاز صاحب۔۔۔ ادھر آئیے۔‘‘ آواز میں شدید گھبراہٹ تھی۔ ممتاز چونک کر اٹھا۔ دوڑ کر باہر گیا۔ دیکھا کہ اس کی بیوی خالد کو غسل خانے کے باہر گود میں لیے کھڑی ہے اور وہ اس کی گود میں بل پہ بل کھا رہا ہے۔ ممتاز نے اس کو اپنی بانہوں میں لے لیا اور بیوی سے جو کانپ رہی تھی پوچھا، ’’کیا ہوا؟‘‘

    اس کی بیوی نے خوف زدہ لہجے میں کہا، ’’معلوم نہیں۔۔۔ پانی سے کھیل رہا تھا۔۔۔ میں نے ناک صاف کی تو دہرا ہوگیا۔‘‘

    ممتاز کی بانہوں میں خالد ایسے بل کھا رہا تھا، جیسے کوئی اسے کپڑے کی طرح نچوڑ رہا ہے۔ سامنے چارپائی پڑی تھی۔ ممتاز نے اس کو وہاں لٹا دیا۔ میاں بیوی سخت پریشان تھے۔ وہ پڑا بل پہ بل کھا رہا تھا اور ان دونوں کے اوسان خطا تھے کہ وہ کیا کریں۔ تھپکایا، چوما، پانی کے چھینٹے مارے مگر اس کا تشنج دور نہ ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد خود بخود دورہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا اور خالد پر بے ہوشی سی طاری ہوگئی۔ ممتاز نے سمجھا، مر گیا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا، ’’ختم ہو گیا۔‘‘

    وہ چلائی، ’’لا حول ولا۔۔۔ کیسی باتیں منہ سے نکالتے ہیں۔ کنولشن تھی، ختم ہوگئی۔ ابھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

    خالد نے اپنی مرجھائی ہوئی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں کھولیں اور اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ممتاز کی ساری دنیا زندہ ہوگئی۔ بڑے ہی درد بھرے پیار سے اس نے خالد سے کہا، ’’کیوں خالد بیٹا۔۔۔ یہ کیا ہوا آپ کو؟‘‘

    خالد کے ہونٹوں پر تشنج زدہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ممتاز نے اس کو گود میں اٹھا لیا اور اندر کمرے میں لے گیا۔ لٹانے ہی والا تھا کہ دوسری کنولشن آئی۔ خالد پھر بل کھانے لگا۔ جس طرح مرگی کا دورہ ہوتا ہے، یہ تشنج بھی اسی قسم کا تھا۔ ممتاز کو ایسا محسوس ہوتا کہ خالد نہیں بلکہ وہ اس اذیت کے شکنجے میں کسا جارہا ہے۔

    دوسرا دورہ ختم ہوا تو خالد اور زیادہ مرجھا گیا۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں دھنس گئیں۔ ممتاز اس سے باتیں کرنے لگا، ’’خالد بیٹے، یہ کیا ہوتا ہے آپ کو؟‘‘

    ’’خالد میاں، اٹھو نا۔۔۔ چلو پھرو۔‘‘

    ’’خالدی۔۔۔ مکھن کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کو مکھن بہت پسند تھا مگر اس نے یہ سن کر اپنا سر ہلا کر ہاں نہ کی، لیکن جب ممتاز نے کہا، ’’بیٹے، گگو کھائیں گے آپ؟‘‘ تو اس نے بڑے نحیف انداز میں نہیں کے طور پر اپنا سر ہلایا۔ ممتاز مسکرایا اور خالد کو اپنے گلے سے لگا لیا، پھر اس کو اپنی بیوی کے حوالے کیا اور اس سے کہا، ’’تم اس کا دھیان رکھو میں ڈاکٹر لے کر آتا ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر ساتھ لے کر آیا تو ممتاز کی بیوی کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ اس کی غیر حاضری میں خالد پر تشنج کے تین اور دورے پڑ چکے تھے۔ ان کے باعث وہ بے جان ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھا اور کہا، ’’تَرُدّو کی کوئی بات نہیں۔ ایسی کنولشن بچوں کو عموماً آیا کرتی ہے۔ اس کی وجہ دانت ہیں۔ معدے میں کرم وغیرہ ہوں تو وہ بھی اس کا باعث ہو سکتے ہیں۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ آرام آجائے گا۔ بخار تیز نہیں ہے، آپ کوئی فکر نہ کریں۔‘‘

    ممتاز نے دفتر سے چھٹی لے لی اور سارا دن خالد کے پاس بیٹھا رہا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اس کو دو مرتبہ اور دورے پڑے۔ اس کے بعد وہ نڈھال لیٹا رہا۔ شام ہوگئی تو ممتاز نے سوچا، ’’شاید اب اللہ کا فضل ہوگیا ہے۔۔۔ اتنے عرصے میں کوئی کنولشن نہیں آئی۔۔۔ خدا کرے رات اسی طرح کٹ جائے۔‘‘

    ممتاز کی بیوی بھی خوش تھی، ’’اللہ تعالیٰ نے چاہا تو کل میرا خالد دوڑتا پھرے گا۔‘‘

    رات کو چونکہ مقررہ اوقات پر دوا دینی تھی، اس لیے ممتاز چارپائی پر نہ لیٹا کہ شاید سو جائے۔ خالد کے پنگوڑے کے پاس آرام کرسی رکھ کر وہ بیٹھ گیا اور ساری رات جاگتا رہا، کیونکہ خالد بے چین تھا، کانپ کانپ کر بار بار جاگتا تھا، حرارت بھی تیز تھی۔

    صبح سات بجے کے قریب ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کے دیکھا تو ایک سو چار ڈگری بخار تھا۔ ڈاکٹر بلایا۔ اس نے کہا، ’’تَرُدو کی کوئی بات نہیں، برونکائٹس ہے میں نسخہ لکھ دیتا ہوں۔ تین چار روز میں آرام آجائے گا۔‘‘

    ڈاکٹر نسخہ لکھ کر چلا گیا۔ ممتاز دوا بنوا لایا۔ خالد کو ایک خوراک پلائی مگر اس کو تسکین نہ ہوئی۔ دس بجے کے قریب وہ ایک بڑا ڈاکٹر لایا۔ اس نے اچھی طرح خالد کو دیکھا اور تسلی دی، ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ سب ٹھیک نہ ہوا۔ بڑے ڈاکٹر کی دوا نے کوئی اثر نہ کیا۔ بخار تیز ہوتا گیا۔

    ممتاز کے نوکر نے کہا، ’’صاحب، بیماری وغیرہ کوئی نہیں۔ خالد میاں کو نظر لگ گئی ہے، میں ایک تعویذ لکھوا کر لایا ہوں۔ اللہ کے حکم سے یوں چٹکیوں میں اثر کرے گا۔‘‘

    سات کنوؤں کا پانی اکھٹا کیا گیا۔ اس میں یہ تعویذ گھول کر خالد کو پلایا گیا۔ کوئی اثر نہ ہوا۔ ہمسائی آئی، وہ ایک یونانی دوا تجویز کر گئی۔ ممتاز یہ دوا لے آیا مگر اس نے خالد کو نہ دی۔ شام کو ممتاز کا ایک ر شتے دار آیا، ساتھ اس کے ایک ڈاکٹر تھا۔ اس نے خالد کو دیکھا اور کہا، ’’ملیریا ہے۔ اتنا بخار ملیریا ہی میں ہوتا ہے۔ آپ اس پر برف کا پانی ڈالیے، میں کونین کا انجکشن دیتا ہوں۔‘‘

    برف کا پانی ڈالا گیا۔ بخار ایک دم کم ہوگیا۔ درجہ حرارت اٹھانوے ڈگری تک آگیا۔ ممتاز اور اس کی بیوی کی جان میں جان آئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں بخار بہت ہی تیز ہوگیا۔ ممتاز نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا۔ درجۂ حرارت ایک سو چھ تک پہنچ گیا تھا۔

    ہمسائی آئی۔ اس نے خالد کو مایوس نظروں سے دیکھا اور ممتاز کی بیوی سے کہا، ’’بچے کی گردن کا منکا ٹوٹ گیا ہے۔‘‘ ممتاز اور اس کی بیوی کے دل بیٹھ گئے۔ ممتاز نے نیچے کارخانے سے اسپتال فون کیا۔ اسپتال والوں نے کہا مریض لے آؤ۔ ممتاز نے فوراً ٹانگہ منگوایا۔ خالد کو گود میں لیا۔ بیوی کو ساتھ بٹھایا اور اسپتال کا رخ کیا۔ سارا دن وہ پانی پیتا رہا تھا۔ مگر پیاس تھی کہ بجھتی ہی نہیں تھی۔ اسپتال جاتے ہوئے راستے میں اس کا حلق بے حد خشک ہوگیا۔ اس نے سوچا اتر کر کسی دکان سے ایک گلاس پانی پی لے، لیکن خدا معلوم کہاں سے یہ وہم ایک دم اس کے دماغ میں آن ٹپکا، دیکھو اگر تم نے پانی پیا تو تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کا حلق سوکھ کے لکڑی ہوگیا مگر اس نے پانی نہ پیا۔ اسپتال کے قریب ٹانگہ پہنچا تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ دو ہی کش لیے تھے تو اس نے ایک دم سگریٹ پھینک دیا۔ اس کے دماغ میں یہ وہم گونجا تھا: ممتاز سگریٹ نہ پیو تمہارا بچہ مر جائے گا۔

    ممتاز نے ٹانگہ ٹھہرایا۔ اس نے سوچا: یہ کیا حماقت ہے۔۔۔ یہ وہم سب فضول ہے۔ سگریٹ پینے سے بچے پر کیا آفت آسکتی ہے۔

    ٹانگے سے اتر کر اس نے سڑک پر سے سگریٹ اٹھایا۔ واپس ٹانگے میں بیٹھ کر جب اس نے کش لینا چاہا تو کسی نامعلوم طاقت نے اس کو روکا: نہیں ممتاز، ایسا نہ کرو۔ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے سگریٹ زور سے پھینک دیا۔ ٹانگے والے نے گھور کے اس کو دیکھا۔ ممتاز نے محسوس کیا کہ جیسے اس کو اس کی دماغی کیفیت کا علم ہے اور وہ اس کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اپنی خفت دور کرنے کی خاطر نے ٹانگے والے سے کہا، ’’خراب ہو گیا تھا سگریٹ‘‘ یہ کہہ اس نے جیب سے ایک نیا سگرٹ نکالا۔ سلگانا چاہا مگر ڈر گیا۔ اس کے دل و دماغ میں ہلچل سی مچ گئی۔ ادراک کہتا تھا کہ یہ اوہام سب فضول ہیں مگر کوئی ایسی آواز تھی، کوئی ایسی طاقت تھی جو اس کی منطق، اس کے استدلال، اس کے ادراک پر غالب آجاتی تھی۔

    ٹانگہ اسپتال کے پھاٹک میں داخل ہوا تو اس نے سگریٹ انگلیوں میں مسل کر پھینک دیا۔ اس کو اپنے اوپر بہت ترس آیا کہ وہ اوہام کا غلام بن گیا ہے۔

    اسپتال والوں نے فوراً ہی خالد کو داخل کرلیا۔ ڈاکٹر نے دیکھا اور کہا، ’’برونکو نمونیا ہے، حالت مخدوش ہے۔‘‘ خالد بے ہوش تھا۔ ماں اس کے سرہانے بیٹھی ویران نگاہوں سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ کمرے کے ساتھ غسل خانہ تھا۔ ممتاز کو سخت پیاس لگ رہی تھی۔ نل کھول کر اوک سے پانی پینے لگا تو پھر وہی وہم اس کے دماغ میں گونجا: ممتاز، یہ کیا کررہے ہو تم۔ مت پانی پیو۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    ممتاز نے دل میں اس وہم کو گالی دی اور انتقاماً اتنا پانی پیا کہ اس کا پیٹ اپھر گیا۔ پانی پی کر غسل خانے سے باہر آیا تو اس کا خالد اسی طرح مرجھایا ہوا بے ہوش اسپتال کے آہنی پلنگ پر پڑا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جائے۔۔۔ اس کے ہوش و حواس غائب ہو جائیں۔۔۔ خالد اچھا ہو جائے اور وہ اس کے بدلے نمونیا میں گرفتار ہو جائے۔

    ممتاز نے محسوس کیا کہ خالد اب پہلے سے زیادہ زرد ہے۔ اس نے سوچا، یہ سب اس کے پانی پی لینے کا باعث ہے۔ اگر وہ پانی نہ پیتا تو ضرور خالد کی حالت بہتر ہو جاتی۔ اس کو بہت دکھ ہوا۔ اس نے خود کو بہت لعنت ملامت کی مگر پھر اس کو خیال آیا کہ جس نے یہ بات سوچی تھی وہ ممتاز نہیں کوئی اور تھا۔ اور کون تھا۔۔۔؟ کیوں اس کے دماغ میں ایسے وہم پیدا ہوتے تھے۔ پیاس لگتی تھی، پانی پی لیا۔ اس سے خالد پر کیا اثر پڑ سکتا ہے۔ خالد ضرور اچھا ہو جائے گا۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔ انشاء اللہ خوب ٹھاٹ سے منائی جائے گی۔

    لیکن فوراً ہی اس کا دل بیٹھ جاتا۔ کوئی آواز اس سے کہتی: خالد ایک برس کا ہونے ہی نہیں پائے گا۔ ممتاز کا جی چاہتا کہ وہ اس آواز کی زبان پکڑ لے اور اسے گدی سے نکال دے مگر یہ آواز تو خود اس کے دماغ میں پیدا ہوتی تھی خدا معلوم کیسے ہوتی تھی۔ کیوں ہوتی تھی۔

    ممتاز اس قدر تنگ آگیا کہ اس نے دل ہی دل میں اپنے اوہام سے گڑگڑا کر کہا: خدا کے لیے مجھ پر رحم کرو۔ کیوں تم مجھ غریب کے پیچھے پڑ گئے ہو۔

    شام ہو چکی تھی۔ کئی ڈاکٹر خالد کو دیکھ چکے تھے۔ دوا دی جارہی تھی۔ کئی انجکشن بھی لگ چکے تھے مگر خالد ابھی تک بے ہوش تھا۔ دفعتاً ممتاز کے دماغ میں یہ آواز گونجی: تم یہاں سے چلے جاؤ۔ فوراً چلے جاؤ، ورنہ خالد مر جائے گا۔

    ممتاز کمرے سے باہر چلا گیا۔ اسپتال سے باہر چلا گیا۔ اس کے دماغ میں آوازیں گونجتی رہیں۔ اس نے اپنے آپ کو ان آوازوں کے حوالے کر دیا۔ اپنی ہر جنبش، اپنی ہر حرکت ان کے حکم کے سپرد کر دی۔ یہ اسے ایک ہوٹل میں لے گئیں۔ انھوں نے اس کو شراب پینے کے لیے کہا۔ شراب آئی تو اسے پھینک دینے کا حکم دیا۔ ممتاز نے ہاتھ سے گلاس پھینک دیا تو اور منگوانے کے لیے کہا۔ دوسرا گلاس آیا تو اسے بھی پھینک دینے کے لیے کہا۔

    شراب اور ٹوٹے ہوئے گلاسوں کے بل ادا کر کے ممتاز باہر نکلا۔ اس کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ صرف اس کا دماغ ہے جہاں شور برپا ہے۔ چلتا چلتا وہ اسپتال پہنچ گیا۔ خالد کے کمرے کا رخ کیا تو اسے حکم ہوا: مت جاؤ ادھر۔۔۔ تمہارا خالد مر جائے گا۔

    وہ لوٹ آیا۔ گھاس کا میدان تھا۔ وہاں ایک بنچ پڑی تھی، اس پر لیٹ گیا۔ رات کے دس بج چکے تھے۔ میدان میں اندھیرا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ کبھی کبھی کسی موٹر کے ہارن کی آواز اس خاموشی میں خراش پیدا کرتی ہوئی گزر جاتی۔ سامنے اونچی دیوار میں اسپتال کا روشن کلاک تھا۔ ممتاز، خالد کے متعلق سوچ رہا تھا: کیا وہ بچ جائے گا۔ یہ بچے کیوں پیدا ہوتے ہیں جنھیں مرنا ہوتا ہے۔ وہ زندگی کیوں پیدا ہوتی ہے جسے اتنی جلدی موت کے منہ میں جانا ہوتا ہے۔ خالد ضرور۔۔۔

    ایک دم اس کے دماغ میں ایک وہم پھوٹا۔ بنچ پر سے اتر کر وہ سجدے میں گر گیا۔ حکم تھا اسی طرح پڑے رہو جب تک خالد ٹھیک نہ ہو جائے۔ ممتاز سجدے میں پڑا رہا۔ وہ دعا مانگنا چاہتا تھا مگر حکم تھا کہ مت مانگو۔ ممتاز کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ خالد کے لیے نہیں، اپنے لیے دعا مانگنے لگا: خدایا مجھے اس اذیت سے نجات دے۔۔۔ تجھے اگر خالد کو مارنا ہے تو مار دے، یہ میرا کیا حشر کررہا ہے تو۔۔۔

    دفعتاً اسے آوازیں سنائی دیں۔ اس سے کچھ دور دو آدمی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے اور آپس میں باتیں کررہے تھے۔

    ’’بچہ بڑا خوبصورت ہے۔‘‘

    ’’ماں کا حال مجھ سے تو دیکھا نہیں گیا۔‘‘

    ’’بے چاری ہر ڈاکٹر کے پاؤں پڑ رہی تھی۔‘‘

    ’’ہم نے اپنی طرف سے تو ہر ممکن کوشش کی۔‘‘

    ’’بچنا محال ہے۔‘‘

    ’’میں نے یہی کہا تھا ماں سے کہ دعا کرو بہن!‘‘

    ایک ڈاکٹر نے ممتاز کی طرف دیکھا جو سجدے میں پڑا تھا۔ اس کو زور سے آواز دی، ’’اے، کیا کررہا ہے تو۔۔۔ اِدھر آ۔۔۔‘‘

    ممتاز اٹھ کر دونوں ڈاکٹروں کے پاس گیا۔ ایک نے اس سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘

    ممتاز نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر جواب دیا، ’’میں ایک مریض۔۔۔‘‘

    ڈاکٹر نے سختی سے کہا، ’’مریض ہو تو اندر جاؤ۔۔۔ یہاں میدان میں ڈنٹر کیوں پیلتے ہو؟‘‘

    ممتاز نے کہا، ’’جی، میرا بچہ ہے۔۔۔ اُدھر اس وارڈ میں۔‘‘

    ’’وہ تمہارا بچہ ہے جو۔۔۔‘‘

    ’’جی ہاں۔۔۔ شاید آپ اسی کی باتیں کر رہے تھے۔۔۔ وہ میرا بچہ ہے۔۔۔ خالد۔‘‘

    ’’آپ اس کے باپ ہیں؟‘‘

    ممتاز نے اپنا غم و اندوہ سے بھرا ہوا سر ہلایا، ’’جی ہاں میں اس کا باپ ہوں۔‘‘

    ڈاکٹر نے کہا، ’’آپ یہاں بیٹھے ہیں۔ جائیے آپ کی وائف بہت پریشان ہیں۔‘‘

    ’’جی اچھا‘‘ کہہ کر ممتاز وارڈ کی طرف روانہ ہوا۔ سیڑھیاں طے کرکے جب اوپر پہنچا تو کمرے کے باہر اس کا نوکر رو رہا تھا۔ ممتاز کو دیکھ کر اور زیادہ رونے لگا، ’’صاحب، خالد میاں فوت ہوگئے۔‘‘

    ممتاز اندر کمرے میں گیا۔ اس کی بیوی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک ڈاکٹر اور نرس اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ممتاز پلنگ کے پاس کھڑا ہوگیا۔ خالد آنکھیں بند کیے پڑا تھا۔ اس کے چہرے پر موت کا سکون تھا۔ ممتاز نے اس کے ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرا اور دل چیر دینے والے لہجے میں اس سے پوچھا، ’’خالد میاں۔۔۔ گگو کھائیں گے آپ؟‘‘

    خالد کا سَر نفی میں نہ ہلا۔ ممتاز نے پھر درخواست بھرے لہجے میں کہا، ’’خالد میاں۔۔۔ میرے وہم لے جائیں گے اپنے ساتھ؟‘‘

    ممتاز کو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے خالد نے سَر ہلا کر ہاں کی ہے۔

  • ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    ایک طوائف کا قصّہ جسے فلمستان میں‌ احتراماً ‘پارو دیوی’ پکارا جانے لگا!

    یہ شخصی خاکہ پارو دیوی کا ہے جو سعادت حسن منٹو کے قلم سے نکلا ہے جسے ایک فلم اسٹوڈیو کے شب و روز کے تسلسل میں لکھا گیا ہے۔ منٹو بھی اسی سے وابستہ تھے۔

    اس کے آغاز پر سعادت حسن منٹو نے ایک فلم کمپنی کے مقروض ہوجانے اور مختلف وجوہ کی بنا پر مزید مالی نقصان اٹھانے کی کچھ تفصیل بیان کی ہے جس کے بعد بتایا ہے کہ یہاں اسے ایک پروپیگنڈہ کہانی تیار کرنے کو کہا جاتا ہے اور تب منٹو اور اس کے ساتھیوں کو اسٹوڈیو میں ایک نیا چہرہ نظر آتا ہے۔ پارو نام کی یہ لڑکی اسی پروپیگنڈہ فلم کی سائیڈ ہیروئن کے طور پر خود کو آزمانے کے لیے یہاں آئی تھی۔ آگے منٹو لکھتا ہے:

    "ایک دن مَیں، واچا، پائی اور اشوک اسٹوڈیو کے باہر کرسیوں پر بیٹھے کمپنی کی ان ہی حماقتوں کا ذکر کر رہے تھے جن کے باعث اتنا وقت، اتنا روپیہ ضائع ہوا کہ اشوک نے یہ انکشاف کیا کہ جو چودہ ہزار روپے رائے بہادر نے ممتاز شانتی کو دیے تھے، وہ انہوں نے اس سے قرض لیے تھے۔ اشوک نے یہ انکشاف اپنی کالی پنڈلی کھجلاتے ہوئے کچھ اس انداز سے کیا کہ ہم سب بے اختیار ہنس پڑے، لیکن فوراً چپ ہو گئے۔”

    "سامنے بجری بچھی ہوئی روش پر ایک اجنبی عورت ہمارے بھاری بھر کم ہیئر ڈریسر کے ساتھ میک اپ روم کی طرف جا رہی تھی۔”

    "دتاّ رام پائی نے اپنے کالے موٹے اور بدشکل ہونٹ کھولے اور خوفناک طور پر آگے بڑھے ہوئے اوندھے سیدھے میلے دانتوں کی نمائش کی اور واچا کو کہنی کا ٹہوکا دے کر اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’یہ۔۔۔ یہ کون ہے؟‘‘”

    "واچا نے پائی کے سر پر ایک دھول جمائی۔ ’’سالے تو کون ہوتا ہے پوچھنے والا؟‘‘ پائی بدلہ لینے کے لیے اُٹھا تو واچا نے اس کی کلائی پکڑ لی۔ ’’بیٹھ جا سالے۔ مت جا اِدھر۔ تیری شکل دیکھتے ہی بھاگ جائے گی۔‘‘”

    "پائی اپنے اوندھے سیدھے دانت پیستا رہ گیا۔ اشوک جو ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، بولا۔ ’’گڈ لکنگ ہے!‘‘ میں نے ایک لحظے کے لیے غور سے اس عورت کو دیکھا اور کہا
    ’’ہاں نظروں پر گراں نہیں گزرتی۔‘‘”

    "اشوک میرا مطلب نہ سمجھا ’’کہاں سے نہیں گزر تی…؟‘‘ میں ہنسا۔ ’’میرا مطلب یہ تھا کہ جو عورت یہاں سے گزر کر گئی ہے۔ اسے دیکھ کر آنکھوں پر بوجھ نہیں پڑتا۔ بڑی صاف ستھری۔۔۔ لیکن قد کی ذرا چھوٹی ہے۔‘‘ پائی نے پھر اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی، ’’ارے، چلے گی۔۔۔ کیوں واچا؟‘‘

    "واچا، پائی کے بجائے اشوک سے مخاطب ہوا۔ ’’دادا منی! تم جانتے ہو، یہ کون ہے؟‘‘ اشوک نے جواب دیا۔ ’’زیادہ نہیں جانتا۔ مکرجی سے صرف اتنا معلوم ہوا تھا کہ ایک عورت ٹیسٹ کے لیے آج آنے والی ہے۔‘‘ کیمرہ اور ساؤنڈ ٹیسٹ کیا گیا، جسے ہم نے پردے پر دیکھا اور سنا اور اپنی اپنی رائے دی۔ مجھے، اشوک اور واچا کو وہ بالکل پسند نہ آئی، اس لیے کہ اس کی جسمانی حرکات ’’چوبی‘‘ تھیں۔ اس کے اعضا کی ہر جنبش میں تصنع تھا۔ مسکراہٹ بھی غیر دل کش تھی، لیکن پائی اس پر لٹو ہو گیا۔ چنانچہ اس نے کئی مرتبہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کی اور مکر جی سے کہا ’’ونڈر فل اسکرین فیس ہے۔‘‘

    "دَتّا رام پائی فلم ایڈیٹر تھا۔ اپنے کام کا ماہر۔ فلمستان چونکہ ایسا ادارہ ہے جہاں ہر شعبے کے آدمی کو اظہارِ رائے کی آزادی تھی، اس لیے دِتا رام پائی وقت بے وقت اپنی رائے سے ہم لوگوں کو مستفید کرتا رہتا تھا اور خاص طور پر میرے تمسخر سے دوچار ہوتا تھا۔
    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا، لیکن ایس مکر جی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پراپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔”

    "اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گھلّو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب ہر رنگین مزاج رئیس کی منظورِ نظر تھی۔ اس کو یہ لوگ میرٹھ کی قینچی کہتے تھے، اس لیے کہ وہ کاٹتی تھی اور بڑا مہین کاٹتی تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی۔ پَر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا جو اسے فلمستان لے آیا۔”

    "جب اس سے کھل کر باتیں کرنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ حضرت جوشؔ ملیح آبادی اور مسٹر ساغرؔ نظامی بھی اکثر اس کے ہاں آیا جایا کرتے تھے اور اس کا مجرا سنتے تھے۔ اس کی زبان بہت صاف تھی اور جلد بھی، جس سے میں بہت زیادہ متاثر ہوا۔ چھوٹی آستینوں والے پھنسے پھنسے بلاؤز میں اس کی ننگی ننگی باہیں ہاتھی کے دانتوں کی طرح دکھائی دیتیں۔ سفید، سڈول، متناسب اور خوبصورت۔ جلد میں ایسی چکنی چمک تھی جو ’’ولو‘‘ لکڑی پر رندہ پھرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ صبح اسٹوڈیو آئی۔ نہائی دھوئی، صاف ستھری، اُجلی، سفید یا ہلکے رنگ کی ساڑھی میں ملبوس، کسی صابن کا اشتہار معلوم ہوئی۔ شام کو جب گھر روانہ ہوتی تو دن گزرنے کے باوجود گرد و غبار کا ایک ذرّہ تک اس پر نظر نہ آتا۔ ویسی ہی تر و تازہ ہوتی جیسی صبح کو ہوتی۔”

    "دتاّ رام پائی اس پر اور زیادہ لٹو ہو گیا۔ شوٹنگ شروع نہیں ہوئی تھی، اس لیے اسے فراغت ہی فراغت تھی۔ چنانچہ اکثر پارو کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول رہتا۔ معلوم نہیں وہ اس کے بھونڈے اور کرخت لہجے اور اس کے اوندھے سیدھے، میلے دانتوں اور اس کے اَن کٹے میل بھرے ناخن کو کیسے برداشت کرتی تھی۔ صرف ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ طوائف اگر برداشت کرنا چاہے تو بہت کچھ برداشت کر سکتی ہے۔”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی کا ڈھانچہ میرے حوالے کیا گیا کہ بڑے غور سے اس کا مطالعہ کروں اور جو ترمیم و تنسیخ میری سمجھ میں آئے، بیان کر دوں۔”

    "نیا ڈھانچہ جب فلمستان کی ’’فل بنچ‘‘ کے سامنے پیش ہوا تو میری وہ حالت تھی جو کسی مجرم کی ہو سکتی ہے۔ ایس مکرجی نے اپنا فیصلہ ان چند الفاظ میں دیا۔ ’’ٹھیک ہے، مگر اس میں ابھی کافی اصلاح کی گنجائش ہے۔‘‘”

    "پراپیگنڈہ فلم کی کہانی لکھنے کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے، جس نے کبھی ایسی کہانی لکھی ہو۔ سب سے زیادہ مشکل میرے لیے یہ تھی کہ مجھے پارو کو، اس کی شکل و صورت، اس کے قد اور اس کی فنی کمزوریوں کے پیشِ نظر اس کہانی میں داخل کرنا تھا۔ بہرحال بڑی مغز پاشیوں کے بعد تمام مراحل طے ہو گئے۔ کہانی کی نوک پلک نکل آئی اور شوٹنگ شروع ہو گئی۔ ہم نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ جن مناظر میں پارو کا کام ہے وہ سب سے آخر میں فلمائے جائیں تاکہ پارو فلمی فضا سے اور زیادہ مانوس ہو جائے اور اس کے دل و دماغ سے کیمرے کی جھجک نکل جائے۔”

    "کسی منظر کی بھی شوٹنگ ہو، وہ برابر ہمارے درمیان ہوتی۔ دتا رام پائی، اب اس سے اتنا کھل گیا تھا کہ باہم مذاق بھی ہونے لگے تھے۔ پائی کی یہ چھیڑ چھاڑ مجھے بہت بھونڈی معلوم ہوتی۔ میں پارو کی عدم موجودگی میں اس کا تمسخر اڑاتا۔ کم بخت بڑی ڈھٹائی سے کہتا ’’سالے تو کیوں جلتا ہے۔‘‘”

    "جیسا کہ میں اس سے پہلے بیان کر چکا ہوں، پارو بہت ہنس مکھ اور گھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ اسٹوڈیو کے ہر کارکن کے لیے وہ اونچ نیچ سے بے پروا بڑے تپاک سے ملتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بہت تھوڑے عرصے میں مقبول ہو گئی۔ نچلے طبقے نے اسے احتراماً پارو دیوی کہنا شروع کر دیا۔ یہ اتنا عام ہوا کہ فلم کے عنوانات میں پارو کے بجائے پارو دیوی لکھا گیا۔”

    "دتاّ رام پائی نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔ کچھ ایسی ٹپس لڑائی کہ ایک دن اس کے گھر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھا۔ پارو سے اپنی خاطر مدارت کرائی اور چلا آیا۔ اس کے بعد اس نے ہفتے میں ایک دو مرتبہ باقاعدگی کے ساتھ یہاں جا دھمکنا شروع کر دیا۔”

    "پارو اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر کا مرد رہتا تھا۔ قد و قامت میں اس سے دو گنا۔ میں نے دو تین مرتبہ اسے پارو کے ساتھ دیکھا۔ وہ اس کا پتی دیو کم اور ’’تھامو‘‘ زیادہ معلوم ہوتا تھا۔”

    "پائی ایسے فخر و ابتہاج سے کینٹین میں پارو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر نیم عاشقانہ انداز میں کرتا کہ ہنسی آجاتی۔ میں اور ساوک واچا اس کا خوب مذاق اُڑاتے، مگر وہ کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ اس پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی پارو بھی موجود ہوتی۔ میں اس کی موجودگی میں بھی پائی کے خام اور بھونڈے عشق کا مذاق اُڑاتا۔ پارو بُرا نہ مانتی اور مسکراتی رہتی۔ اس مسکراہٹ سے اس نے میرٹھ میں جانے کتنے دلوں کو اپنی قینچی سے کترا ہو گا۔”

    "پارو میں عام طوائفوں ایسا بھڑکیلا چھچھورا پن نہیں تھا۔ وہ مہذب محفلوں میں بیٹھ کر بڑی شائستگی سے گفتگو کر سکتی تھی۔ اس کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ میرٹھ میں اس کے یہاں آنے جانے والے ایرے غیرے نتھو خیرے نہیں ہوتے تھے۔ ان کا تعلق سوسائٹی کے اس طبقہ سے تھا جو ناشائستگی کی طرف محض تفریح کی خاطر مائل ہوتا ہے۔”

    "پارو اب اسٹوڈیو کی فضا میں بڑی اچھی خاصی طرح گھل مل گئی تھی۔ فلمی دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی عورت یا لڑکی نئی ایکٹرس بنتی ہے، تو اس کو کوئی نہ کوئی فوراً دبوچ لیتا ہے۔ جیسے کہ وہ گیند ہے جسے بلے کے ساتھ کسی نے ہٹ لگائی ہے اور فیلڈ میں کھڑے کھلاڑی اس تاک میں ہیں کہ وہ ان کے ہاتھوں میں چلی آئے۔ لیکن پارو کے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ شاید اس لیے کہ فلمستان دوسرے نگار خانوں کے مقابلے میں بہت حد تک ’’پاکباز‘‘ تھا۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پارو کو کوئی اتنی جلدی نہیں تھی۔”

    "پائی کی حالت اب بہت زیادہ مضحکہ خیز ہو گئی تھی۔ اس لیے کہ پارو نے ایک روز اسے گھر مدعو کیا تھا۔ اپنے ہاتھ سے اسے دو پیگ جونی واکر وسکی کے پلائے تھے۔ جب اس کو بہت زیادہ نشہ ہو گیا تھا تو پارو نے اس کو بڑے پیار سے اپنے صوفے پر لٹا دیا تھا۔ اب اس کو یقین ہو گیا تھا کہ وہ اس پر مرتی ہے اور ہم لوگ چونکہ ناکام رہے ہیں، اس لیے حسد کی آگ میں جلتے ہیں۔ اس بارے میں پارو کا ردِعمل کیا تھا، یہ مجھے معلوم نہیں۔”

    "شوٹنگ جاری تھی۔ ویرا فلم کی ہیروئن تھی۔ سائیڈ ہیروئن کا رول پارو نے ادا کرنا تھا۔ اسے برما کے کسی آزاد جنگلی قبیلے کی ایک شوخ وشنگ، تیز و طرار لڑکی کا روپ دھارنا تھا۔ جوں جوں اس کے مناظر فلمائے جانے کا وقت آتا گیا، میرے اندیشے بڑھتے گئے۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ امتحان میں پوری نہیں اُترے گی اور ہم سب کی کوفت کا موجب ہو گی۔”

    "ہم سب نے بڑی کوشش کی کہ اس کا تصنع اور ’’چوبی پن‘‘ کسی نہ کسی طریقے سے دور ہو جائے، مگر ناکام رہے۔ شوٹنگ جاری رہی اور وہ بالکل نہ سدھری۔ اس کو کیمرے اور مائیک کا کوئی خوف نہیں تھا، مگر سیٹ پر وہ حسبِ منشا اداکاری کے جوہر دکھانے سے قاصر تھی۔ اس کی وجہ میرٹھ کے مجروں کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی۔ بہرحال اتنی امید ضرور تھی کہ وہ کسی نہ کسی روز منجھ جائے گی۔”

    "چونکہ مجھے اُس کی طرف سے بہت مایوسی ہوئی تھی اس لیے میں نے اُس کے ’’رول‘‘ میں کتربیونت شروع کر دی تھی۔ میری اِس چالاکی کا علم اُس کو پائی کے ذریعے سے ہو گیا۔ چنانچہ اس نے خالی اوقات میں میرے پاس آنا شروع کر دیا۔ گھنٹوں بیٹھی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی۔ بڑے شائستہ انداز میں، مناسب و موزوں الفاظ میں جن میں چاپلوسی کا رنگ بظاہر نہ ہوتا، میری تعریف کرتی۔”

    "ایک دو مرتبہ اس نے مجھے اپنے گھر پر مدعو بھی کیا۔ میں شاید چلا جاتا، لیکن اُن دنوں بہت مصروف تھا۔ ہر وقت میرے اعصاب پر پراپیگنڈہ فلم کا منظرنامہ سوار رہتا تھا۔”