Tag: سعادت حسن منٹو کی تحریریں

  • انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    انور کمال پاشا کی منٹو سے ملاقات (دل چسپ واقعہ)

    اگر کسی اسٹوڈیو میں آپ کو کسی مرد کی بلند آواز سنائی دے، اگر آپ سے کوئی بار بار ہونٹوں پر اپنی زبان پھیرتے ہوئے بڑے اونچے سُروں میں بات کرے، یا کسی محفل میں کوئی اس انداز سے بول رہے ہوں جیسے وہ سانڈے کا تیل بیچ رہے ہیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ حکیم احمد شجاع صاحب کے فرزندِ نیک اختر مسٹر انور کمال پاشا ہیں۔

    انور کمال پاشا کی شخصیت منفرد ہے۔ گو انور پاشا کی آنکھوں کا بھیڑیا پن نہیں تو ان میں ایک ہلکی سی چمک ضرور ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ وہ دوسروں پر چھا جانے کی قوت رکھتے ہیں۔ جسمانی قوّت تو خیر ان میں اسی قدر ہوگی جتنی میرے جسمِ ناتواں میں ہے مگر وہ میری طرح دھونس جما کر اس کمی کو پورا کر ہی لیتے ہیں۔ فلمی دنیا میں دراصل بلند بانگ دعوے ہی بااثر ثابت ہوتے ہیں۔ ایک محاورہ ہے ’’پدرم سلطان بود‘‘ لیکن اس کے برعکس انور کمال پاشا ہمیشہ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میرا باپ سلطان نہیں گڈریا تھا، سلطان تو میں ہوں۔

    اس میں شعبدہ بازی کے جراثیم موجود ہیں۔ جس طرح مداری اپنے منہ سے فٹ بال کی جسامت کے بڑے بڑے گولے نکالتا ہے اسی طرح وہ بھی کوئی اس قسم کا اسٹنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن مجھے حیرت ہے اور یہ حیرت اس لیے کہ وہ چالاک نہیں، عیار نہیں، دغا باز نہیں لیکن پھر بھی جب لوگ اس کے منہ سے فٹ بال جتنے گولے باہر نکلتے دیکھتے ہیں تو کچھ عرصے کے لیے اس کی ساحری سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔

    ہو سکتا ہے، بعد میں وہ اپنی حماقت پر افسوس کریں کہ یہ تو محض فریبِ نظر تھا، یا گولے نکالنے میں کوئی خاص ترکیب استعمال کی گئی مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ انور کمال پاشا اس دوران میں کوئی اور شعبدہ ایجاد کر لیتا ہے۔ اس وقت اپنا دوسرا فلم بنانے کے لیے سرمایہ داروں سے، بہت ممکن ہے یہ کہہ رہا ہو کہ میں اب کے ایسا فلم بنانے کا ارادہ رکھتا ہوں جو ہالی ووڈ بھی نہیں بنا سکتا۔ اس میں کوئی ایکٹر ہو گا نہ ایکٹریس۔ صرف کٹھ پتلیاں ہوں گی جو بولیں گی۔ گانا گائیں گی اور ناچیں گی بھی۔ اور کلائمکس اس کا یہ ہوگا کہ وہ گوشت پوست کی بن جائیں گی۔

    انور کمال پاشا پڑھا لکھا ہے۔ ایم اے ہے۔ انگریزی ادب سے اسے کافی شغف رہا ہے۔ یہی وجہ ہے وہ اپنے فلموں کی کہانی اسی سے مستعار لیتا ہے اور حسبِ ضرورت یا حسبِ لیاقت اردو زبان میں ڈھال دیتا ہے۔ اس کے فلموں کے کردار ہمیشہ ڈرامائی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ خود ڈرامائی انداز میں گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی وجہ ایک اور بھی ہے کہ اس کے والد محترم جناب حکیم احمد شجاع صاحب کسی زمانے میں اچھے خاصے ڈرامہ نگار تھے۔ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ’’باپ کا گناہ‘‘ بہت مشہور ہے۔

    انور کمال پاشا بہرحال بڑی دل چسپ شخصیت کا مالک ہے۔ وہ اتنا بولتا، اتنا بولتا ہے کہ اس کے مقابلے میں اور کوئی نہیں بول سکتا۔ اصل میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ اپنی آواز خود سننا چاہتا ہے اور دل ہی دل میں داد دیتا ہے کہ انور کمال پاشا تُو نے آج کمال کر دیا۔ تیرے مقابلے میں اور کوئی اتنا زبردست مقرر نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ نفسیات کے متعلق کچھ جانتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض انسانوں کو یہ مرض ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ بن جائیں اور اسے گرامو فون کی سوئی تلے رکھ کر ہر وقت سنتے رہیں۔ انور کمال پاشا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔

    اس کے پاس اپنی گفتگوؤں کے کئی ریکارڈ ہیں جو اپنی زبان کی سوئی کے نیچے رکھ کر بجانا شروع کر دیتا ہے اور جب سارے ریکارڈ بج چکتے ہیں تو وہ ریڈیو کے فرمائشی پروگرام سننے والے بچوں کے مانند خوش ہو کر محفل سے چلا جاتا ہے۔

    اس نے اب تک مندرجہ ذیل فلم بنائے ہیں جن میں سے کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔

    ’دو آنسو‘، ’دلبر‘، ’غلام‘، ’گھبرو‘، ’گمنام‘۔ اگر آپ نے یہ فلم دیکھے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ان میں کتنے فلموں میں دریا آتا ہے جس میں کہانیوں کے کردار گرے ہیں لیکن وہ موت کا قائل نہیں۔ وہ ان کو دریا میں گراتا ضرور ہے مگر بعد میں بتاتا ہے کہ وہ ڈوبا نہیں تھا یعنی مر نہیں گیا تھا، کسی نہ کسی ذریعے سے ( انور کمال پاشا کے اپنے دماغ کی عجیب و غریب تخلیق ہوتا ہے) زندہ رہا تھا۔

    معلوم نہیں، میں کہاں تک صحیح ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انور کمال پاشا کی زندگی بھی شاید ڈوب ڈوب کر زندہ رہنے سے دوچار رہی ہے۔

    اس نے اپنی زندگی میں کئی ندیاں پار کی ہیں۔ ایک تو وہ تھی جو سہرے جلوے کی بیاہی ہوئی تھی۔ اس کو پار کرنے میں تو خیر اس کو کوئی دقّت محسوس نہ ہوئی ہوگی مگر جب اس کے سامنے وہ ندی جس کا نام شمیم تھا، بمبئی سے بہتی ہوئی لاہور آئی تو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ ماہر تیراک کے مانند اسے بھی پار کر گیا۔ اس کو بہت دیر سے فلم بینی کا شوق تھا۔ بعد میں یہ شوق اس دھن میں تبدیل ہوگیا کہ وہ ایک فلم بنائے۔ جب شمیم سے اس کی راہ و رسم ہوئی تو اس نے اس سے فائدہ اٹھایا اور لاؤڈ اسپیکر بن کر ہر طرف گونجنے لگا کہ ’’آؤ میں فلم بنانا چاہتا ہوں۔ ہے کوئی سخی ایسا جو مجھے سرمایہ دے۔‘‘

    اس کی مسلسل صدا پر آخر کار اسے سرمایہ مل گیا۔ شمیم بمبئی میں ایک ایسی ندی تھی جس کا پانی بہت صاف ستھرا تھا۔ اس میں کئی غواص تیر چکے تھے لیکن کچھ عرصے کے بعد وہ پانی پتھر کی طرح ٹھہر گیا اس لیے کہ تیراکوں کے لیے وہ دل چسپی کا سامان نہ رہی۔ یہی وجہ ہے اسے اپنے وطن لاہور میں واپس آنا پڑا۔ خیر اس قصے کو چھوڑیے۔ یہ کوئی اصول اور لگا بندھا قاعدہ تو نہیں لیکن عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے۔ فلم ڈائریکٹر، عورت کے ذریعے ہی سے آگے بڑھتے ہیں اور پیچھے بھی اس کی وجہ سے ہٹتے ہیں اور ایسے ہٹتے ہیں یا ہٹائے جاتے ہیں کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔

    پاشا نے تھوڑی دیر کے بعد شمیم سے شادی کر لی جو اپنا تنگ ماتھا، چوڑا کرنے کے لیے قریب قریب ہر روز اپنے بال موچنے سے نوچتی رہتی تھی۔ پاشا نے اس کی خوشنودی کی خاطر ضرور مصنوعی طور پر اپنے سارے پر و بال نوچ کے اس کے سامنے پلیٹ میں ڈال کر رکھ دیے ہوں گے۔ میں اب لمبے مضمون کو مختصر کرنا چاہتا ہوں اس لیے کہ میں انور کمال پاشا کی طرح طوالت پسند ہونا نہیں چاہتا۔ وہ بہت دل چسپ شخصیت کا مالک ہے اور اس شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ ہٹ دھرم بھی ہے اور تلون مزاج بھی، بکواسی بھی اور بعض اوقات سنجیدہ مزاج بھی۔

    میں آپ کو اختتامی طور پر ایک واقعہ سناتا ہوں۔ میں آج سے کچھ عرصہ پہلے شاہ نور اسٹوڈیو میں تھا، جہاں انور کمال پاشا اپنے فلم ’’گمنام‘‘ کی شوٹنگ میں مصروف تھا۔ سردیوں کا موسم تھا، میں اپنے کمرے کے باہر کرسی پر بیٹھا ٹائپ رائٹر میزپر رکھے کچھ سوچ رہا تھا کہ پاشا اپنی کار سے اترا اور میرے پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ علیک سلیک ہوئی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے مجھ سے کہا:

    ’’منٹو صاحب! میں ایک سخت الجھن میں گرفتار ہوں۔‘‘

    میں نے اپنے خیالات جھٹک کر پوچھا، ’’کیا الجھن ہے آپ کو؟‘‘

    اس نے کہا، ’’یہ فلم جو میں بنا رہا ہوں، اس میں ایک مقام پر اٹک گیا ہوں، آپ کی رائے لینا چاہتا ہوں، ممکن ہے آپ مشکل کشائی کرسکیں۔‘‘ میں نے اس سے کہا، ’’میں حاضر ہوں فرمائیے! آپ کہاں اٹکے ہوئے ہیں؟‘‘ اس نے مجھے اپنے فلم کی کہانی سنانا شروع کردی۔ دو سین تفصیل سے اس انداز میں سنائے جیسے پولیس جیپ میں بیٹھی لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے راہ چلتے لوگوں کو ہدایت کررہی ہے کہ انہیں بائیں ہاتھ چلنا چاہیے۔ میں اپنی زندگی میں ہمیشہ الٹے ہاتھ چلا ہوں اس لیے میں نے پاشا سے کہا، ’’آپ کو ساری کہانی سنانے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھ گیا ہوں کہ آپ کس گڑھے میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘‘ پاشا نے حیرت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا،’’آپ کیسے سمجھ گئے؟‘‘ میں نے اس کوسمجھا دیا اور اس کی مشکل کا حل بھی بتا دیا۔ جب اس نے میری تجویز سنی تو اٹھ کر ادھر ادھر ٹہلنا شروع کر دیا اور اس کے بعد کہا،’’ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    میں ذرا چڑ سا گیا، ’’حضرت! اس سے بہتر حل آپ کو اور کوئی پیش نہیں کر سکتا۔ مصیبت یہ ہے کہ میں فوری طور پر سوچنے کا عادی ہوں۔ اگر میں نے یہی حل آپ کو دس بارہ روز کے بعد پیش کیا ہوتا تو آپ نے کہا ہوتا سبحان اللہ۔ مگر اب کہ میں نے چند منٹوں میں آپ کی مشکل حل کر دی ہے تو آپ کہتے ہیں ہاں کچھ ٹھیک ہی معلوم ہوتا ہے۔ آپ کو شاید اس مشورے کی قیمت معلوم نہیں۔‘‘ پاشا نے فوراً اپنے پروڈکشن منیجر کو بلایا۔ اس سے چیک بک لی اور اس پر کچھ لکھا۔ چیک پھاڑ کر بڑے خلوص سے مجھے دیا، ’’آپ یہ قبول فرمائیں۔‘‘ اس کے اصرار پر میں نے یہ چیک لے لیا جو پانچ سو روپے کا تھا۔ یہ میری زیادتی تھی۔ اگر میں آسودہ حال ہوتا تو یقیناً میں نے یہ چیک پھاڑ دیا ہوتا لیکن انسان بھی کتنا ذلیل ہے یا اس کے حالات زندگی کتنے افسوس ناک ہیں کہ وہ گراوٹ پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔!

    (فلم انڈسٹری کے بے مثل ہدایت کار، اور فلم ساز انور کمال پاشا کے شخصی خاکے سے اقتباسات جس کے مصنّف سعادت حسن منٹو ہیں اور یہ خاکہ مصنّف کی 1955ء میں شائع ہونے والی کتاب میں شامل ہے)

  • نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    نواب کاشمیری: "وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا!”

    یوں تو کہنے کو ایک ایکٹر تھا جس کی عزت اکثر لوگوں کی نظر میں کچھ نہیں ہوتی، جس طرح مجھے بھی محض افسانہ نگار سمجھا جاتا ہے یعنی ایک فضول سا آدمی۔ پَر یہ فضول سا آدمی اس فضول سے آدمی کا جتنا احترام کرتا تھا، وہ کوئی بے فضول شخصیت، کسی بے فضول شخصیت کا اتنا احترام نہیں کرسکتی۔

    وہ اپنے فن کا بادشاہ تھا۔ اس فن کے متعلق آپ کو یہاں کا کوئی وزیر کچھ بتا نہ سکے گا مگر کسی چیتھڑے پہنے ہوئے مزدور سے پوچھیں جس نے چونی دے کر نواب کاشمیری کو کسی فلم میں دیکھا ہے تو وہ اس کے گن گانے لگے گا۔ وہ آپ کو بتائے گا (اپنی خام زبان میں) کہ اس نے کیا کمال دکھائے۔

    انگلستان کی یہ رسم ہے کہ جب ان کا کوئی بادشاہ مرتا ہے تو فوراً اعلان کیا جاتا ہے، ’’بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ مر گیا ہے۔۔۔ بادشاہ کی عمر دراز ہو۔‘‘ نواب کاشمیری مر گیا ہے۔۔۔ لیکن میں کس نواب کاشمیری کی درازئ عمر کے لئے دعا مانگوں۔۔۔ مجھے اس کے مقابلے میں تمام کردار نگار پیارے معلوم ہوتے ہیں۔

    نواب کاشمیری سے میری ملاقات بمبئی میں ہوئی۔ خان کاشمیری جو ان کے قریبی رشتہ دار ہیں، ساتھ تھے۔ بمبئے کے ایک اسٹوڈیو میں ہم دیر تک بیٹھے اور باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد میں نے اس کو اپنی ایک فلمی کہانی سنائی لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے مجھ سے بلا تکلف کہہ دیا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن مجھے پسند نہیں۔‘‘

    میں اس کی بے باک تنقید سے بہت متاثرہوا۔ دوسرے روز میں نے اسے پھر ایک کہانی سنائی۔ سننے کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ جب میں نے کہانی ختم کی تو اس نے رومال سے آنسو خشک کرکے مجھ سے کہا، ’’یہ کہانی آپ کس فلم کمپنی کو دے رہے ہیں۔‘‘

    میں نے اس سے کہا، ’’یہ کہانی کوئی پروڈیوسر لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘‘

    نواب نے کہا، ’’تو لعنت بھیجو ان پر۔‘‘

    نواب مرحوم کو پہلی بار میں نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ میں دیکھا تھا۔ جس میں رتن بائی ہیروئن تھی۔ نواب غدار یہودی کا پارٹ کررہے تھے۔ میں نے اس سے پہلے یہودی کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن جب بمبئی گیا تو یہودیوں کو دیکھ کر میں نے محسوس کیا کہ نواب نے ان کا صحیح سوفیصد صحیح چربہ اتارا ہے۔ جب نواب مرحوم سے بمبئی میں ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ غدار یہودیوں کا پارٹ ادا کرنے کے لیے اس نے کلکتہ میں یہ پارٹ ادا کرنے سے پہلے کئی یہودیوں کے ساتھ ملاقات کی۔ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھا رہا اور جب اس نے محسوس کیا وہ یہ رول ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے تو اس نے مسٹر بی این سرکار مالک نیو تھیٹر سے ہامی بھر لی۔

    جن اصحاب نے ’’یہودی کی لڑکی‘‘ فلم دیکھی، ان کو نواب کاشمیری کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس نے بوڑھا بننے کے لیے اور پوپلے منہ باتیں کرنے کے لیے اپنے سارے دانت نکلوا دیے تھے تاکہ کردار نگاری پر کوئی حرف نہ آئے۔ نواب بہت بڑا کردار نگار تھا۔ وہ کسی ایسی فلم میں حصہ لینے کے لیے تیار نہیں تھا جس میں کوئی ایسا رول نہ ہو جس میں وہ سما سکتا ہو۔ چنانچہ وہ کسی فلم کمپنی سے معاہدہ کرنے سے پہلے پوری کہانی سنتا تھا۔ اس کے بعد گھر جا کر اس پر کئی دن غور کرتا۔۔۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر انپے چہرے پر مختلف جذبات پیدا کرتا تھا۔ جب اپنی طرف سے مطمئن ہو جاتا تو معاہدہ پر دستخط کردیتا۔

    اس کو آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں سے بہت محبت تھی مگر تعجب ہے کہ یہ شخص جو عرصے تک امپریل تھیٹریکل کمپنی کے ڈراموں میں اسٹیج پر آتا رہا اور دادِ تحسین وصول کرتا رہا، فلم میں آتے ہی ایک دم بدل گیا۔ اس کے لب و لہجے میں کوئی تھیٹر پن نہیں تھا۔ وہ اپنے مکالمے اسی طرح ادا کرتا تھا جس طرح کہ لوگ عام گفتگو کرتے ہیں۔جس تھیٹریکل کمپنی میں نے ذکر کیا ہے، اس میں نواب مرحوم نے ’خوب صورت بلا‘ ، ’نورِ وطن‘ اور ’باغ ایران‘ میں اپنی اداکاری کے ایسے جوہر دکھائے کہ اس کی دھاک بیٹھ گئی۔

    نواب کاشمیری لکھنؤ کے بڑے امام باڑے کے سید مفتی اعظم کے اکلوتے لڑکے تھے۔ قدرت کی یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہاں امام باڑے کا مفتی اعظم اور کہاں منڈوہ۔ لیکن بچپن ہی سے اس کو ناٹک سے لگاؤ تھا۔ لکھنؤ میں ایک ناٹک آئی جس کا مالک اگر وال تھا۔ اس کمپنی کے کھیل نواب باقاعدہ دیکھتا رہا اور اس نے محسوس کیا کہ وہ اس سلسلے کے لیے پیدا کیا گیا ہے، کھیل دیکھ کر گھر آتا تو گھنٹوں اس ڈرامے کے یاد رہے ہوئے مکالمے اپنے انداز میں بولتا۔

    اس ناٹک کمپنی میں چنانچہ ایک مرتبہ خود کو پیش کیا کہ وہ اس کا امتحان لیں۔ ڈائریکٹر نے جب نواب کی ایکٹنگ دیکھی اور مکالمے کی ادائیگی سنی تو حیران و ششدر رہ گیا۔ اس نے فوراً اسے اپنے یہاں ملازم رکھ لیا۔ یہ مجھے معلوم نہیں کہ اس کی تنخواہ کیا مقرر ہوئی۔ اس کمپنی کے ساتھ نواب کلکتہ پہنچے اور اپنے مزید جوہر دکھائے۔ کاؤس جی کھٹاؤ جی نے ان کی اداکاری دیکھی تو ان کو الفریڈ تھیٹرز کمپنی میں لے لیا۔ ان دنوں وہ کیریکٹر ایکٹر مشہور ہوگئے۔

    سیٹھ سکھ لال کرنانی جو الفریڈ تھیٹر کے مالک تھے اور پرلے درجے کے گدھے اور بے وقوف تھے۔ انہوں نے اپنے حواریوں سے سنا کہ ایک ایکٹر جس کا نام نواب ہے، کمال کررہا ہے۔ اس کا کوئی جواب ہی نہیں ہے تو انہوں نے اپنے ٹھیٹ اندازِ گفتگو میں کہا، ’’تو لے آؤ اس سانڈ کو۔‘‘

    وہ سانڈ آگیا اور وہ سانڈ نواب کاشمیری تھا۔ اس کو زیادہ تنخواہ دے کر اپنے یہاں ملازم رکھا۔ وہ دیر تک میرا مطلب ہے دو سال تک کرنانی صاحب کی کمپنی کے کھیلوں میں کام کرتے رہے۔

    مجھے یاد نہیں کون سا سن تھا۔ غالباً یہ وہ زمانہ تھا جب بمبئی کی’’امپریل فلم کمپنی‘‘ نے ہندوستان کا پہلا بولتا فلم ’’عالم آرا‘‘ بنایا تھا۔ جب بولتی فلموں کا دور شروع ہوا تو مسٹر بی این سرکار جو بڑے تعلیم یافتہ اور سوجھ بوجھ کے مالک تھے، انہوں نے جب نیو تھیٹر کی بنیاد رکھی تو نواب کاشمیری کو جس سے وہ اکثر ملتے جلتے تھے، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ تھیٹر چھوڑ کر فلمی دنیا میں آجائے۔

    بی این سرکار نواب کو اپنا ملازم نہیں محبوب سمجھتے تھے۔ ان کا ذوق بہت ارفع و اعلیٰ تھا۔ وہ آرٹ کے گرویدہ تھے۔ نواب مرحوم کا پہلا فلم ’’یہودی کی لڑکی‘‘ تھا۔ اس فلم کی ہیروئن ’’رتن بائی‘‘ تھی۔ جس کے سر کے بال اس کے ٹخنوں تک پہنچتے تھے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر ایک بنگالی مسٹر اٹھارتی تھے۔ ( جو دنیا تیاگ چکے ہیں) اس ٹیم میں حافظ جی اور میوزک ڈائریکٹر بالی تھے۔ اس تگڑم میں کیا کچھ ہوتا تھا، میرا خیال ہے اس مضمون میں جائز نہیں۔

    مسٹر اٹھارتھی نے جو بہت پڑھے لکھے اور قابل آدمی تھے، مجھ سے کہا کہ نواب ایسا ایکٹر پھر کبھی پیدا نہیں ہوگا۔ وہ اپنے رول میں ایسے دھنس جاتا ہے جیسے ہاتھ میں دستانہ۔ وہ اپنے فن کا ماسٹر ہے۔ حافظ جی بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں نے اپنی زندگی میں ایسا اچھا ایکٹر کبھی نہیں دیکھا۔ خیر! ان باتوں کو چھوڑیے۔ میں اب نواب ایکٹر کی طرف آتا ہوں۔

    ایک فلم میں جس کا عنوان غالباً ’’مایا‘‘ تھا، مرحوم کو جیب کترے کا پارٹ دیا گیا۔ اس نے جب ساری کہانی سنی تو انکار کر دیا کہ میں یہ رول ادا نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں جیب کترا نہیں ہوں۔ میں نے آج تک کسی کی جیب نہیں کاٹی لیکن وہ کلکتے کے ایک واہیات ہوٹل میں ہر روز جاتا رہا۔ وہاں اس کی کئی جیب کتروں اور اٹھائی گیروں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ سنا ہے کہ ان کے ساتھ اس نے شراب بھی پی۔ حالانکہ اسے اس کی عادت نہیں تھی۔ ایک ہفتے کے بعد وہ مطمئن ہوگیا۔ چنانچہ اس نے فلم کمپنی کے مالک سے کہہ دیا کہ وہ جیب کترے کا رول ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔

    اس نے اس دوران میں کئی بد معاشقوں اور کرداروں سے دوستی پیدا کر لی تھی۔ ان کے تمام خصائص اس نے سیکھ لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس رول میں کامیاب رہا۔

    (سعادت حسن منٹو کی کتاب لاؤڈ اسپیکر میں شامل مضمون سے اقتباس)

  • جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    جب منٹو کی مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے!

    سعادت حسن منٹو نے اپنے ہم عصر اہلِ قلم شخصیات اور فلمی دنیا سے وابستہ فن کاروں کے بارے میں‌ کئی دل چسپ واقعات اور شخصی خاکے لکھے ہیں جن میں‌ ایک نام سندر شیام چڈا کا بھی ہے۔ شیام ایک ہندوستانی اداکار تھے۔ ان کی فلمی زندگی آغاز 1942ء میں ہوا اور وہ 1951ء میں اپنی وفات تک فلموں میں اداکاری کرتے رہے۔ ان کا انتقال بھی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ہوا تھا۔ شیام، سعادت حسن منٹو کے قریبی اور اچھے دوست تھے۔

    یہاں‌ ہم اداکار شیام پر منٹو کے ایک خاکے سے اقتباسات پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنیں‌ گے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    شیام صرف بوتل اور عورت ہی کا رسیا نہیں تھا۔ زندگی میں جتنی نعمتیں موجود ہیں، وہ ان سب کا عاشق تھا۔ اچھی کتاب سے بھی وہ اسی طرح پیار کرتا تھا جس طرح ایک اچھی عورت سے کرتا تھا۔ اس کی ماں اس کے بچپن ہی میں مر گئی تھی مگر اس کو اپنی سوتیلی ماں سے بھی ویسی ہی محبت تھی، جو حقیقی ماں سے ہوسکتی ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے سوتیلے بہن بھائی تھے۔ ان سب کو وہ اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا تھا۔ باپ کی موت کے بعد صرف اس کی اکیلی جان تھی۔ جو اتنے بڑے کنبے کی دیکھ بھال کرتی تھی۔

    ایک عرصے تک وہ انتہائی خلوص کے ساتھ دولت اور شہرت حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ اس دوران میں تقدیر نے اسے کئی غچے دیے مگر وہ ہنستا رہا، ’’جانِ من ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ تو میری بغل میں ہوگی۔‘‘ اور وہ کئی برسوں کے بعد آخر وہ دن آہی گیا کہ دولت اور شہرت دونوں اس کی جیب میں تھیں۔

    موت سے پہلے اس کی آمدنی ہزاروں روپے ماہوار تھی۔ بمبے کے مضافات میں ایک خوبصورت بنگلہ اس کی ملکیت تھا اور کبھی وہ دن تھے کہ اس کے پاس سر چھپانے کو جگہ نہیں تھی، مگر مفلسی کے ان ایام میں بھی وہی ہنستا ہوا شیام تھا۔ دولت و شہرت آئی تو اس نے ان کا یوں استقبال نہ کیا جس طرح لوگ ڈپٹی کمشنر کا کرتے ہیں۔ یہ دونوں محترمائیں اس کے پاس آئیں تو اس نے ان کو اپنی لوہے کی چارپائی پر بٹھا لیا اور پٹاخ پٹاخ بوسے داغ دیے۔

    میں اور وہ جب ایک چھت کے نیچے رہتے تھے تو دونوں کی حالت پتلی تھی۔ فلم انڈسٹری ملک کی سیاسیات کی طرح ایک بڑے ہی نازک دور سے گزر رہی تھی۔ میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ اس کا وہاں ایک پکچر کا کنٹریکٹ تھا دس ہزار روپے میں۔ عرصے کی بیکاری کے بعد اس کو یہ کام ملا تھا۔ مگر وقت پر پیسے نہیں ملتے تھے۔ بہرحال ہم دونوں کا گزر کسی نہ کسی طور ہو جاتا تھا۔ میاں بیوی ہوتے تو ان میں روپے پیسے کے معاملے میں ضرور چخ چخ ہوتی، مگر شیام اور مجھے کبھی محسوس تک نہ ہوا۔ ہم میں سے کون خرچ کررہا ہے اور کتنا کررہا ہے۔

    ایک دن اسے بڑی کوششوں کے بعد موٹی سی رقم ملی (غالباً پانچ سو روپے تھے) میری جیب خالی تھی۔ ہم ملاڈ سے گھر آرہے تھے۔ راستے میں شیام کا یہ پروگرام بن گیا کہ وہ چرچ گیٹ کسی دوست سے ملنے جائے گا۔ میرا اسٹیشن آیا تو اس نے جیب سے دس دس روپے کے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ آنکھیں بند کر کے اس کے دو حصے کیے اور مجھ سے کہا، ’’جلدی کرو منٹو۔۔۔ ان میں سے ایک لے لو۔‘‘

    میں نے گڈی کا ایک حصہ پکڑ کر جیب میں ڈال لیا۔ اور پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ شیام نے مجھے’’ٹاٹا‘‘ کہا اور کچھ نوٹ جیب سے نکال کر لہرائے، ’’تم بھی کیا یاد رکھو گے سیفٹی کی خاطر میں نے یہ نوٹ علیحدہ رکھ لیے تھے۔۔۔ ہیپ ٹلا!‘‘ شام کو جب وہ اپنے دوست سے مل آیا تو کباب ہورہا تھا۔ مشہور فلم اسٹار’’کے کے‘‘ نے اس کو بلایا تھا کہ وہ اس سے ایک پرائیویٹ بات کرنا چاہتی ہے۔ شیام نے برانڈی کی بوتلیں بغل میں سے نکال کر اور گلاس میں ایک بڑا پیگ ڈال کر مجھ سے کہا، ’’پرائیویٹ بات یہ تھی۔ میں نے لاہور میں ایک دفعہ کسی سے کہا تھا کہ ’’کے کے‘‘ مجھ پر مرتی ہے۔ خدا کی قسم بہت بری طرح مرتی تھی۔ لیکن ان دنوں میرے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ آج اس نے مجھے اپنے گھر بلا کر کہا کہ تم نے بکواس کی تھی۔ میں تم پر کبھی نہیں مری۔ میں نے کہا تو آج مر جاؤ۔ مگر اس نے ہٹ دھرمی سے کام لیا اور مجھے غصے میں آکر اس کے ایک گھونسہ مارنا پڑا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے ایک عورت پر ہاتھ اٹھایا؟‘‘ شیام نے مجھے اپنا ہاتھ دکھایا جو زخمی ہو رہا تھا، ’’کم بخت آگے سے ہٹ گئی۔ نشانہ چوکا اور میرا گھونسہ دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسا، ’’سالی بیکار تنگ کررہی ہے۔‘‘

    میں نے اوپر روپے پیسے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً دو برس پیچھے کی بات ہے۔ میں یہاں لاہور میں فلمی صنعت کی زبوں حالی اور اپنے افسانے’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے مقدمے کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ عدالتِ ماتحت نے مجھے مجرم قرار دے کر تین مہینے قیدِ بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ میرا دل اس قدر کھٹا ہوگیا تھا کہ جی چاہتا تھا، اپنی تمام تصانیف کو آگ میں جھونک کر کوئی اور کام شروع کردوں جس کا تخلیق سے کوئی علاقہ نہ ہو۔ چنگی کے محکمے میں ملازم ہو جاؤں اور رشوت کھا کر اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالا کروں، کسی پر نکتہ چینی کروں نہ کسی معاملے میں اپنی رائے دوں۔
    ایک عجیب و غریب دور سے میرا دل و دماغ گزر رہا تھا۔ بعض لوگ سمجھتے تھے کہ افسانے لکھ کر ان پر مقدمے چلوانا میرا پیشہ ہے۔ بعض کہتے تھے کہ میں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ سستی شہرت کا دلدادہ ہوں اور لوگوں کے سفلی جذبات مشتعل کر کے اپنا الو سیدھا کرتا ہوں۔ مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں۔ ان چار الوؤں کو سیدھا کرنے میں جو خم میری کمر میں پیدا ہوا، اس کو کچھ میں ہی جانتا ہوں۔

    مالی حالت کچھ پہلے ہی کمزور تھی۔ آس پاس کے ماحول نے جب نکما کردیا تو آمدنی کے محدود ذرائع اور بھی سکڑ گئے۔ ایک صرف مکتبہ جدید، لاہور کے چودھری برادران تھے جو مقدور بھر میری امداد کررہے تھے۔ غم غلط کرنے کے لیے جب میں نے کثرت سے شراب نوشی شروع کی تو انہوں نے چاہا کہ اپنا ہاتھ روک لیں۔ مگر وہ اتنے مخلص تھے کہ مجھے ناراض کرنا نہیں چاہتے تھے۔

    اس زمانے میں میری کسی سے خط کتابت نہیں تھی۔ دراصل میرا دل بالکل اچاٹ ہو چکا تھا۔ اکثر گھر سے باہر رہتا اور اپنے شرابی دوستوں کے گھر پڑا رہتا، جن کا ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی صحبت میں رہ کر جسمانی و روحانی خود کشی کی کوشش میں مصروف تھا۔ ایک دن مجھے کسی اور کے گھر کے پتے سے ایک خط ملا۔ تحسین پکچرز کے مالک کی طرف سے تھا۔ لکھا تھا کہ میں فوراً ملوں۔ بمبے سے انہیں میرے بارے میں کوئی ہدایات موصول ہوئی ہے۔ صرف یہ معلوم کرنے کے لیے یہ ہدایت بھیجنے والا کون ہے۔ میں تحسین پکچرز والوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ بمبے سے شیام کے پے در پے انہیں کئی تار ملے ہیں کہ مجھے ڈھونڈ کر 500 روپے دے دیے جائیں۔ میں جب دفتر میں پہنچا تو وہ شیام کے تازہ تاکیدی تار کا جواب دے رہے تھے کہ تلاشِ بسیار کے باوجود انہیں منٹو نہیں مل سکا۔ میں نے 500 روپے لے لیے اور میری مخمور آنکھوں میں آنسو آگئے۔

    میں نے بہت کوشش کی کہ شیام کو خط لکھ کر اس کا شکریہ ادا کروں اور پوچھوں کہ اس نے مجھے یہ 500 روپے کیوں بھیجے تھے، کیا اس کو علم تھا کہ میری مالی حالت کمزور ہے۔ اس غرض سے میں نے کئی خط لکھے اور پھاڑ ڈالے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ میرے لکھے ہوئے الفاظ شیام کے اس جذبے کا منہ چڑا رہے ہیں جس کے زیرِ اثر اس نے مجھے یہ روپے روانہ کیے تھے۔

  • "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    "نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    اردو کے ممتاز ادیبوں، شعرا اور نام وَر اہلِ‌ قلم سے متعلق کتابوں میں مختلف واقعات، دل چسپ قصّے درج ہیں‌۔ ان شخصیات نے اپنی خودنوشت یا آپ بیتی میں بھی اپنی یادیں محفوظ کی ہیں اور اپنے ہم عصروں کی پُرلطف باتیں ہم تک پہنچائی ہیں۔

    یہ ایک ایسا ہی واقعہ ہے سعادت حسن منٹو کی کتاب اندھیر نگری سے لیا گیا ہے۔

    ایک دفعہ عبدالمجید سالک کسی کام کے سلسلے میں حکیم فقیر محمّد چشتی صاحب کے مطب پر گئے۔

    وہاں ایک مشہور طوائف نجو بھی دوا لینے آئی ہوئی تھی۔ کِھلا ہوا چمپئی رنگ، سر پر ایک سفید ریشمی دوپٹہ جس کے کنارے چوڑا نقرئی لپہ لگا ہوا تھا۔

    سالک جو پہنچے تو حکیم صاحب نے نجو سے کہا: "یہ تمہارے شہر کے بہت بڑے شاعر اور ادیب سالک صاحب ہیں۔ آداب بجا لاؤ۔”

    وہ سَر و قد اُٹھ کھڑی ہوئی اور جھک کر آداب بجا لائی۔ پھر سالک سے کہا، "یہ لاہور کی مشہور طوائف نجو ہیں۔ آپ اُس کوچے سے نابلد سہی لیکن نام تو سنا ہو گا؟”

    سالک بولے: "جی ہاں نام تو سنا ہے لیکن نجو بھلا کیا نام ہوا؟”

    حکیم صاحب فرمانے لگے، "لوگ نجو نجو کہہ کے پکارتے ہیں۔ اِس کا پورا نام تو نجاتُ المومنین ہے۔”

  • لال ٹین والی وزیر

    لال ٹین والی وزیر

    سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ وادیٔ کشمیر میں گزارے گئے ان یادگار لمحات کو بیان کرتا ہے جس میں ایک وزیر نام کی لڑکی کا کردار نہایت اہم ہے اور یہی وہ لڑکی ہے جس کی وجہ سے مصنّف کو بدنام کیا جانے لگا تھا۔ جب افسانہ نگار اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تو یہ لڑکی لالٹین لے کر انہیں راستہ دکھاتی تھی اور جس جگہ وہ بیٹھ کر باتیں‌ کرتے تھے، وہاں قریب ہی بیٹھی رہتی تھی۔ یہ سب وہ مہمان کی حفاظت کے پیشِ نظر نہایت خلوص سے کرتی تھی۔ افسانہ پڑھیے۔

    میرا قیام ’’بٹوت‘‘ میں گو مختصر تھا۔ لیکن گوناگوں روحانی مسرتوں سے پُر۔ میں نے اس کی صحت افزا فضا میں جتنے دن گزارے ہیں ان کے ہر لمحہ کی یاد میرے ذہن کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ جو بھلائے نہ بھولے گی۔

    کیا دن تھے…. بار بار میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز بلند ہوتی ہے اور میں کئی کئی گھنٹے اس کے زیرِ اثر بے خود و مدہوش رہتا ہوں۔

    کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کے کھنڈروں پر مستقبل کی دیواریں استوار کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی یہی کر رہا ہوں یعنی بیتے ہوئے ایّام کی یاد کو اپنی مضمحل رگوں میں زندگی بخش انجکشن کے طور پر استعمال کر رہا ہوں۔

    جو کل ہوا تھا اسے اگر آج دیکھا جائے تو اس کے اور ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ نظر آئے گا اور جو کل ہونا ہے اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں۔ آج سے پورے چار مہینے پہلے کی طرف دیکھا جائے تو بٹوت میں میری زندگی ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسا افسانہ جس کا مسودہ صاف نہ کیا گیا ہو۔ اس کھوئی ہوئی چیز کو حاصل کرنا دوسرے انسانوں کی طرح میرے بس میں بھی نہیں۔ جب میں استقبال کے آئینہ میں اپنی آنے والی زندگی کا عکس دیکھنا چاہتا ہوں تو اس میں مجھے حال ہی کی تصویر نظر آتی ہے اور کبھی کبھی اس تصویر کے پس منظر میں ماضی کے دھندلے نقوش نظر آجاتے ہیں۔ ان میں بعض نقش اس قدر تیکھے اور شوخ رنگ ہیں کہ شاید ہی انھیں زمانہ کا ہاتھ مکمل طور پر مٹا سکے۔

    زندگی کے اس کھوئے ہوئے ٹکڑے کو میں اس وقت زمانہ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں جو شریر بچّے کی طرح مجھے بار بار اس کی جھلک دکھا کر اپنی پیٹھ پیچھے چھپا لیتا ہے۔ اور میں اس کھیل ہی سے خوش ہوں۔ اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں۔

    ایسے واقعات کو جن کی یاد میرے ذہن میں اب تک تازہ ہے، میں عام طور پر دہراتا رہتا ہوں، تاکہ ان کی تمام شدّت برقرار رہے۔ اور اس غرض کے لیے میں کئی طریقے استعمال کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں یہ بیتے ہوئے واقعات اپنے دوستوں کو سنا کر اپنا مطلب حل کر لیتا ہوں۔

    اگر آپ کو میرے ان دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہو تو وہ آپ سے یقیناً یہی کہیں گے کہ میں قصہ گوئی اور آپ بیتیاں سنانے کا بالکل سلیقہ نہیں رکھتا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ داستان سنانے کے دوران میں مجھے سامعین کے تیوروں سے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوا ہے کہ میرا بیان غیر مربوط ہے اور میں جانتا ہوں کہ چونکہ میری داستان میں ہمواری کم اور جھٹکے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے محسوسات کو اچھی طرح کسی کے دماغ پر منتقل نہیں کرسکتا اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں ایسا شاید ہی کر سکوں۔

    اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ میں اکثر اوقات اپنی داستان سنانے سناتے جب ایسے مقام پر پہنچتا ہوں جس کی یاد میرے ذہن میں موجود نہ تھی اور وہ خیالات کی رو میں خود بخود بہہ کر چلی آئی تھی تو میں غیر ارادی طور پر اس نئی یاد کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرے بیان کا تسلسل یک لخت منتشر ہو جاتا ہے اور جب میں ان گہرائیوں سے نکل کر داستان کے ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنا چاہتا ہوں تو عجلت میں وہ ٹھیک طور سے نہیں جڑتا۔

    کبھی کبھی میں یہ داستانیں رات کو سوتے وقت اپنے ذہن کی زبانی خود سنتا ہوں، لیکن اس دوران میں مجھے بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ میرے ذہن کی زبان بہت تیز ہے اور اس کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ خود بخود بیان ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ طبیعت اکتا جاتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ کی یاد کسی دوسرے واقعہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور اس کا احساس کسی دوسرے احساس کو اپنے ساتھ لے آتا ہے اور پھر احساسات و افکار کی بارش زوروں پر شروع ہو جاتی ہے اور اتنا شور مچتا ہے کہ نیند حرام ہو جاتی ہے۔ جس روز صبح کو میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نظر آئیں آپ سمجھ لیا کریں کہ ساری رات میں اپنے ذہن کی قصہ گوئی کا شکار بنا رہا ہوں۔

    جب مجھے کسی بیتے ہوئے واقعے کو اس کی تمام شدتوں سمیت محفوظ کرنا ہوتا ہے تو میں قلم اٹھاتا ہوں اور کسی گوشے میں بیٹھ کر کاغذ پر اپنی زندگی کے اس ٹکڑے کی تصویر کھینچ دیتا ہوں۔ یہ تصویر بھدی ہوتی ہے یا خوبصورت، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ادبی نقاد میری ان قلمی تصویروں کے متعلق کیا رائے مرتب کرتے ہیں۔ دراصل مجھے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اگر میری تصویر کشی سقیم اور خام ہے تو ہوا کرے مجھے اس سے کیا اور اگر یہ ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے تو بھی مجھے اس سے کیا سروکار ہوسکتا ہے۔ میں یہ کہانیاں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ لکھنا ہوتا ہے۔ جس طرح عادی شراب خور، دن ڈھلے شراب خانہ کا رخ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح میری انگلیاں بے اختیار قلم کی طرف بڑھتی ہیں اور میں لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرا روئے سخن یا تو اپنی طرف ہوتا ہے یا ان چند افراد کی طرف جو میری تحریروں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ میں ادب سے دور اور زندگی کے نزدیک تر ہوں۔

    زندگی۔۔۔ زندگی۔۔۔! آہ زندگی!

    میں زندگی زندگی پُکارتا ہوں مگر مجھ میں زندگی کہاں۔۔۔؟ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی عمر کی پٹاری کھول کر اس کی ساری چیزیں باہر نکالتا ہوں اور جھاڑ پونچھ کر بڑے قرینے سے ایک قطار میں رکھتا ہوں اور اس آدمی کی طرح جس کے گھر میں بہت تھوڑا سامان ہو ان کی نمائش کرتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اپنا یہ فعل بہت برا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں، مجبور ہوں۔ میرے پاس اگر زیادہ نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر مجھ میں سفلہ پن پیدا ہوگیا ہے تو اس کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتا ہوں۔ میرے پاس تھوڑا بہت جو کچھ بھی ہے غنیمت ہے۔ دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی زندگی چٹیل میدان کی طرح خشک ہے اور میری زندگی کے ریگستان پر تو ایک بار بارش ہو چکی ہے۔

    گو میرا شباب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے، مگر میں ان دنوں کی یاد پر جی رہا ہوں جب میں جوان تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سہارا بھی کسی روز جواب دے جائے گا اور اس کے بعد جو کچھ ہوگا، میں بتا نہیں سکتا۔ لیکن اپنے موجودہ انتشار کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میرا انجام چشم فلک کو بھی نم ناک کر دے گا۔ آہ! خرابۂ فکر کا انجام!

    وہ شخص جسے انجام کار اپنے وزنی افکار کے نیچے پس جانا ہے، یہ سطور لکھ رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایسی اور بہت سی سطریں لکھنے کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے۔

    میں ہمیشہ مغموم و ملول رہا ہوں۔ لیکن شبیر جانتا ہے کہ بٹوت میں میری آہوں کی زردی اور تپش کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوار مسرت کی سرخی اور ٹھنڈک بھی تھی۔ وہ آب و آتش کے اس باہمی ملاپ کو دیکھ کر متعجب ہوتا تھا اور غالباً یہی چیز تھی جس نے اس کی نگاہوں میں میرے وجود کو ایک معما بنا دیا تھا۔ کبھی کبھی مجھے وہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور اس کوشش میں وہ میرے قریب بھی آجاتا تھا۔ مگر دفعتاً کوئی ایسا حادثہ وقوع پذیر ہوتا جس کے باعث اسے پھر پرے ہٹنا پڑتا تھا اور اس طرح وہ نئی شدت سے مجھے پراسرار اور کبھی پرتصنع انسان سمجھنے لگتا۔

    اکرام صاحب حیران تھے کہ بٹوت جیسی غیر آباد اور غیر دل چسپ دیہات میں پڑے رہنے سے میرا کیا مقصد ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ اس کی وجہ میرے خیال میں صرف یہ ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے اور کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ اسی مسئلے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔

    وزیر کا گھر ان کے بنگلے کے سامنے بلند پہاڑی پر تھا اور جب انھوں نے اپنے نوکر کی زبانی یہ سنا کہ میں اس پہاڑی لڑکی کے ساتھ پہروں باتیں کرتا رہتا ہوں تو انھوں نے یہ سمجھا کہ میری دکھتی ہوئی رگ ان کے ہاتھ آگئی ہے اور انھوں نے ایک ایسا راز معلوم کرلیا ہے جس کے افشا پر تمام دنیا کے دروازے مجھ پر بند ہو جائیں گے۔ لوگوں سے جب وہ اس ’’مسئلے‘‘ پر باتیں کرتے تھے تو یہ کہا کرتے تھے کہ میں تعیش پسند ہوں اور ایک بھولی بھالی لڑکی کو پھانس رہا ہوں اور ایک بارجب انھوں نے مجھ سے بات کی تو کہا، ’’دیکھیے یہ پہاڑی لونڈیا بڑی خطرناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس کے جال میں پھنس جائیں۔‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں یا کسی اور کو میرے معاملات سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی۔ وزیر کا کیریکٹر بہت خراب تھا اور میرا کریکٹر بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں میری فکر میں مبتلا تھے اور پھر جو ان کے من میں تھا صاف صاف کیوں نہیں کہتے تھے۔ وزیر پر میرا کوئی حق نہیں تھا اور نہ وہ میرے دباؤ میں تھی۔ اکرام صاحب یا کوئی اور صاحب اگر اس سے دوستانہ پیدا کرنا چاہتے تو مجھے اس میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دراصل ہماری تہذیب و معاشرت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ عام طور پر صاف گوئی کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کھل کر بات ہی نہیں کی جاتی اور کسی کے متعلق اگر اظہار خیال کیا بھی جاتا ہے تو غلاف چڑھا کر۔

    میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور اس پہاڑی لونڈیا سے جسے بڑا خطرناک کہا جاتا تھا، اپنی دل چسپی کا اعتراف کیا۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے دل کی آواز کو دل ہی میں دبا دینے کے عادی تھے اس لیے میری سچی باتیں ان کو بالکل جھوٹی معلوم ہوئیں اور ان کا شک بدستور قائم رہا۔

    میں انھیں کیسے یقین دلاتا کہ میں اگر وزیر سے دل چسپی لیتا ہوں تو اس کا باعث یہ ہے کہ میرا ماضی و حال تاریک ہے۔ مجھے اس سے محبت نہیں تھی اسی لیے میں اس سے زیادہ وابستہ تھا۔ وزیر سے میری دل چسپی اس محبت کا ریہرسل تھی جو میرے دل میں اس عورت کے لیے موجود ہے جو ابھی میری زندگی میں نہیں آئی۔ میری زندگی کی انگوٹھی میں وزیر ایک جھوٹا نگینہ تھی لیکن یہ نگینہ مجھے عزیز تھا اس لیے کہ اس کی تراش، اس کا ماپ بالکل اس اصلی نگینہ کے مطابق تھا جس کی تلاش میں مَیں ہمیشہ ناکام رہا ہوں۔

    وزیر سے میری دل بستگی بے غرض نہیں تھی اس لیے میں غرض مند تھا۔ وہ شخص جو اپنے غم افزا ماحول کو کسی کے وجود سے رونق بخشنا چاہتا ہو، اس سے زیادہ خود غرض اور کون ہوسکتا ہے۔۔۔؟ اس لحاظ سے میں وزیر کا ممنون بھی تھا اور خدا گواہ ہے کہ میں جب کبھی اس کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار میرا دل اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

    شہر میں مجھے صرف ایک کام تھا۔ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے گھپ اندھیرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہنا اور بس! مگر بٹوت میں اس تاریکی کے اندر روشنی کی ایک شعاع تھی۔ وزیر کی لال ٹین!

    بھٹیارے کے یہاں رات کو کھانا کھانے کے بعد میں اور شبیر، ٹہلتے ٹہلتے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ جاتے۔ یہ بنگلہ ہوٹل سے قریباً تین جریب کے فاصلے پر تھا۔ رات کی خنک اور نیم مرطوب ہوا میں اس چہل قدمی کا بہت لطف آتا تھا۔ سڑک کے دائیں بائیں پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر مکئی کے کھیت رات کے دھندلکے میں خاکستری رنگ کے بڑے بڑے قالین معلوم ہوتے تھے۔ اور جب ہوا کے جھونکے مکئی کے پودوں میں لرزش پیدا کر دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان سے بہت سی پریاں ان قالینوں پر اتر آئی ہیں اور ہولے ہولے ناچ رہی ہیں۔

    آدھا راستہ طے کرنے پر جب ہم سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے دو منزلہ چوبی مکان کے قریب پہنچتے تو شبیر اپنی مخصوص دھن میں یہ شعر گاتا،

    ہر قدم فتنہ ہے قیامت ہے
    آسماں تیری چال کیا جانے

    یہ شعر گانے کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس چوبی مکان کے رہنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ میرے اور وزیر کے تعلقات اخلاقی نقطہ نگاہ سے ٹھیک نہیں، حالانکہ وہ اخلاق کے معانی سے بالکل ناآشنا تھے۔ یہ لوگ مجھ سے اور شبیر سے بہت دل چسپی لیتے تھے اور میری نقل و حرکت پر خاص طور پر نگرانی رکھتے تھے۔ وہ تفریح کی غرض سے بٹوت آئے ہوئے تھے اور انھیں تفریح کا کافی سامان مل گیا تھا۔ شبیر اوپر والا شعر گا کر ان کی تفریح میں مزید اضافہ کیا کرتا تھا۔ اس کو چھیڑ چھاڑ میں خاص لطف آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی رہائش گاہ کے عین سامنے پہنچ کر اس کو یہ شعر یاد آجاتا تھا اور وہ فوراً اسے بلند آواز میں گا دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کا عادی ہوگیا تھا۔

    یہ شعر کسی خاص واقعے یا تاثر سے متعلق نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسے صرف یہی شعر یاد تھا، یا ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اسی شعر کو گا سکتا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ بار بار یہی شعر دہراتا۔

    شروع شروع میں اندھیری راتوں میں سنسان سڑک پر ہماری چہل قدمی چوبی مکان کے چوبی ساکنوں پر ( وہ غیر معمولی طور پر اجڈا اور گنوار واقع ہوئے تھے) کوئی اثر پیدا نہ کرسکی۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ان کے بالائی کمرے میں روشنی نظر آنے لگی اور وہ ہماری آمد کے منتظر رہنے لگے اور جب ایک روز ان میں سے ایک نے اندھیرے میں ہمارا رخ معلوم کرنے کے لیے بیٹری روشن کی میں نے شبیر سے کہا، ’’آج ہمارا رومان مکمل ہوگیا ہے۔‘‘ مگر میں نے دل میں ان لوگوں کی قابلِ رحم حالت پر بہت افسوس کیا، کیونکہ وہ بیکار دو دو تین تین گھنٹے تک جاگتے رہتے تھے۔

    حسبِ معمول ایک رات شبیر نے اس مکان کے پاس پہنچ کر شعر گایا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ بیٹری کی روشنی حسب معمول چمکی اور ہم باتیں کرتے ہوئے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے، ہُو کا عالم تھا، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی، آسمان ہم پر مرتبان کے ڈھکنے کی طرح جھکا ہوا تھا اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہم کسی بند بوتل میں چل پھر رہے ہیں۔ سکوت اپنی آخری حد تک پہنچ کر متکلم ہو گیا تھا۔

    بنگلے کے باہر برآمدے میں ایک چھوٹی سی میز پر لیمپ جل رہا تھا اور پاس ہی پلنگ پر اکرام صاحب لیٹے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ شبیر نے دور سے ان کی طرف دیکھا اور دفعتاً سادھوؤں کا مخصوص نعرۂ مستانہ ’’الکھ نرنجن بلند کیا۔‘‘ اس غیر متوقع شور نے مجھے اور اکرام صاحب دونوں کو چونکا دیا۔ شبیر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ پھر ہم دونوں برآمدے میں داخل ہو کر اکرام صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ میرا منہ سڑک کی جانب تھا۔ عین اس وقت جب میں نے حقہ کی نَے منہ میں دبائی۔ مجھے سامنے سڑک کے اوپر تاریکی میں روشنی کی ایک جھلک دکھائی دی۔ پھر ایک متحرک سایہ نظر آیا اور اس کے بعد روشنی ایک جگہ ساکن ہو گئی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وزیر کا بھائی اپنے کتے کو ڈھونڈ رہا ہے۔ چنانچہ ادھر دیکھنا چھوڑ کر میں شبیر اور اکرام صاحب کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہو گیا۔

    دوسرے روز شبیر کے نعرہ بلند کرنے کےبعد پھر اخروٹ کے درخت کے عقب میں روشنی نمودار ہوئی اور سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ تیسرے روز بھی ایسا ہوا۔ چوتھے روز صبح کو میں اور شبیر چشمے پر غسل کو جا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کنکر گرا، میں نے بیک وقت سڑک کے اوپر جھاڑیوں کی طرف دیکھا۔ وزیر سر پر پانی کا گھڑا اٹھائے ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

    وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور شبیر سے کہنے لگی، ’’کیوں جناب، یہ آپ نے کیا وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ہر روز ہماری نیند خراب کریں۔‘‘

    شبیر حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔ میں وزیر کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ شبیر نے اس سے کہا ’’آج آپ پہیلیوں میں بات کر رہی ہیں۔‘‘

    وزیر نے سر پر گھڑے کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’میں اتنی اتنی دیر تک لال ٹین جلا کر اخروٹ کے نیچے بیٹھی رہتی ہوں اور آپ سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ پھوٹے منہ سے شکریہ ہی ادا کر دیں۔ بھلا آپ کی جوتی کو کیا غرض پڑی ہے۔ یہ چوکیداری تو میرے ہی ذمے ہے۔ آپ ٹہلنے کو نکلیں اور اکرام صاحب کے بنگلے میں گھنٹوں باتیں کرتے رہیں اور میں سامنے لال ٹین لیے اونگھتی رہوں۔‘‘

    شبیر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ بھئی میں تو کچھ نہ سمجھا، یہ کس دھن میں الاپ رہی ہیں؟‘‘

    میں نے شبیر کو جواب نہ دیا اور وزیر سے کہا، ’’ہم کئی دنوں سے رات گئے اکرام صاحب کے یہاں آتے ہیں۔ دو تین مرتبہ میں نے اخروٹ کے پیچھے تمہاری لال ٹین دیکھی، پر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم خاص ہمارے لیے آتی ہو۔ اس کی کیا ضرورت ہے، تم ناحق اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہو؟‘‘

    وزیر نے شبیر کو مخاطب کر کے کہا،’’آپ کے دوست بڑے ہی ناشکرے ہیں، ایک تو میں ان کی حفاظت کروں اور اوپر سے یہی مجھ پر اپنا احسان جتائیں۔ ان کو اپنی جان پیاری نہ ہو پر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی اور بات کا رخ یوں بدل دیا، ’’آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں ان کے بہت دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر آپ انھیں کیوں نہیں سمجھاتے کہ رات کو باہر نہ نکلا کریں۔‘‘

    وزیر کو واقعی میری بہت فکر تھی۔ بعض اوقات وہ مجھے بالکل بچہ سمجھ کر میری حفاظت کی تدبیریں سوچا کرتی تھی، جیسے وہ خود محفوظ و مامون ہے اور میں بہت سی بلاؤں میں گھرا ہوا ہوں۔ میں نے اسے کبھی نہ ٹوکا تھا اس لیے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے اس شغل سے باز رکھوں جس سے وہ لطف اٹھاتی ہے، اس کی اور میری حالت بعینہٖ ایک جیسی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی منزل کی طرف جانے والے مسافر تھے جو ایک لق و دق صحرا میں ایک دوسرے سے مل گئے تھے۔ اسے میری ضرورت تھی اور مجھے اس کی۔ تاکہ ہمارا سفر اچھی طرح کٹ سکے۔ میرا اور اس کا صرف یہ رشتہ تھا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

    ہم ہر شب مقررہ وقت پر ٹہلنے کو نکلتے۔ شبیر چوبی مکان کے پاس پہنچ کر شعر گاتا، پھر اکرام صاحب کے بنگلے سے کچھ دور کھڑے ہو کر نعرہ بلند کرتا، وزیر لال ٹین روشن کرتی اور اس کی روشنی کو ہوا میں لہرا کر ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتی۔ شبیر اور اکرام صاحب باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتے۔ اور میں لال ٹین کی روشنی میں اس روشنی کے ذرے ڈھونڈھتا رہتا جس سے میری زندگی منور ہو سکتی تھی۔ وزیر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی رہتی؟

  • ’’چل چل رے نوجوان…‘‘

    ’’چل چل رے نوجوان…‘‘

    ’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی کا صدمہ ہمارے دل و دماغ سے قریب قریب مندمل ہو چکا تھا۔

    گیان مکرجی، فلمستان کے لیے ایک پروپیگنڈہ کہانی لکھنے میں ایک عرصے سے مصروف تھے۔ کہانی لکھنے لکھانے اور اسے پاس کرانے سے پیشتر نلنی جیونت اور اس کے شوہر وریندر ڈیسائی سے کنٹریکٹ ہو چکا تھا۔ غالباً پچیس ہزار روپے، ایک سال اس کی میعاد تھی۔

    مسٹر ششودھر مکرجی حسبِ عادت سوچ بچار میں دس مہینے گزار چکے تھے۔ کہانی کا ڈھانچہ تھا کہ تیار ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ بصد مشکل جوں توں کرکے ایک خاکہ معرض وجود میں آیا جسے گیان مکرجی اپنی جیب میں ڈال کر روانہ ہوگئے تاکہ زبانی طور پر اس میں اور کچھ چیزیں ڈال کرحکومت سے پاس کرا لیں۔ خاکہ پاس ہوگیا۔

    جب شوٹنگ کا مرحلہ آیا تو وریندر ڈیسائی نے یہ مطالبہ کیا کہ اس کے ساتھ ایک برس کا کنٹریکٹ کیا جائے اس لیے کہ پہلے معاہدے کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ رائے بہادر چونی لال منیجنگ ڈائریکٹر بڑے اکھڑ قسم کے آدمی تھے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ مقدمہ بازی ہوئی۔ فیصلہ وریندر ڈیسائی اور ان کی خوبرو بیوی نلنی کے حق میں ہوا۔ اس طرح پروپیگنڈہ فلم جس کی کہانی کا ابھی صرف غیر مکمل خاکہ ہی تیار ہوا تھا، پچیس ہزارروپوں کے بوجھ تلے آگئی۔

    رائے بہادر کو بہت عجلت تھی کہ فلم جلد تیار ہو کیونکہ بہت وقت ضائع ہو چکا تھا ،چنانچہ جلدی جلدی میں ولی صاحب کو بلا کر ان کی بیوی ممتاز شانتی سے کنٹریکٹ کرلیا گیا اور اس کو چودہ ہزار روپے بطور پیشگی ادا کردیے گئے۔ (بلیک میں یعنی بغیر رسید)

    دو دن شوٹنگ ہوئی۔ ممتاز شانتی اور اشوک کمار کے درمیان مختصر سا مکالمہ تھا جو بڑی مین میخ کے بعد فلمایا گیا مگر جب اسے پردے پر دیکھا گیا تو سب نے ممتاز شانتی کو ناپسند کیا۔ اس ناپسندیدگی میں اس بات کا بھی بڑا دخل تھا کہ ممتاز برقع پہن کر آتی تھی اور ولی صاحب نے صاف طور پر مکرجی سے کہہ دیا تھا کہ اس کے جسم کو کوئی ہاتھ واتھ نہیں لگائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ممتاز شانتی کو فلم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اس بہانے سے کہ جو کردار اسے اس کہانی میں ادا کرنا ہے، اس کے لیے مناسب و موزوں نہیں۔کیونکہ اس میں ایسے کئی مقام آئیں گے جہاں ہیروئن کو اپنے جسم کے بعض حصوں کی عریاں نمائش کرنا پڑے گی۔ قصہ مختصر کہ یہ چودہ ہزار بھی گئے۔

    اب کہانی کا نامکمل ڈھانچہ انتالیس ہزار روپے کے نیچے دبا پڑا تھا۔ رائے بہادر چونی لال، لال پیلے ہورہے تھے، ’’ چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی نے کمپنی کی حالت بہت پتلی کر دی تھی۔ مارواڑیوں سے قرض لے لے گزارہ بصد مشکل ہو رہا تھا۔ رائے بہادر کی خفگی اور پریشانی بجا تھی۔

    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا لیکن ایس مکرجی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پروپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا۔ چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔

    اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گُھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب تمام رنگین مزاج رئیسوں کی منظورِ نظر تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی، پر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا چنانچہ یہ شوق اسے کھینچ کر فلمستان میں لے آیا۔

    (سعادت حسن منٹو کے قلم سے)

  • گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    گڑیا جیسی دیوکا رانی اور بڑے ہی بے ضرر اشوک کمار!

    اردو کے نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی یہ تحریر اداکار اشوک کمار کے فلمی سفر اور ان کی شہرت و مقبولیت سے متعلق ہے۔ ہندوستان کی فلم نگری میں بہ طور اداکار اشوک کمار نے اپنی صلاحیتوں کو منوا کر متعدد اہم اور معتبر فلمی ایوارڈ اور حکومتی سطح پر بھی اعزازات اپنے نام کیے تھے۔

    اشوک کمار 13 اکتوبر، 1911ء کو بنگال میں پیدا ہوئے۔ انھیں دادا منی کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اشوک کمار نے کئی فلموں اور بنگالی ڈراموں میں فنِ اداکاری کے جوہر دکھائے اور کام یابیاں‌ سمیٹیں۔ وہ 10 دسمبر 2001ء کو چل بسے تھے۔ ان کا انتقال ممبئی میں ہوا۔ سعادت حسن منٹو لکھتے ہیں:

    نجمُ الحسن جب دیوکا رانی کو لے اڑا تو بومبے ٹاکیز میں افراتفری پھیل گئی۔ فلم کا آغاز ہو چکا تھا۔ چند مناظر کی شوٹنگ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی تھی کہ نجمُ الحسن اپنی ہیروئن کو سلولائڈ کی دنیا سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے گیا۔

    بومبے ٹاکیز میں سب سے زیادہ پریشان اور متفکر شخص ہمانسو رائے تھا۔ دیوکا رانی کا شوہر اور بمبے ٹاکیز کا ’’دل و دماغِ پس پردہ۔‘‘

    ایس مکر جی مشہور جوبلی میکر فلم ساز (اشوک کمار کے بہنوئی) ان دنوں بمبے ٹاکیز میں مسٹر ساوک واچا ساؤنڈ انجینئر کے اسسٹنٹ تھے۔ صرف بنگالی ہونے کی وجہ سے انہیں ہمانسو رائے سے ہمدردی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح دیوکا رانی واپس آجائے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے آقا ہمانسو رائے سے مشورہ کیے بغیر اپنے طور پر کوشش کی اور اپنی مخصوص حکمتِ عملی سے دیوکا رانی کو آمادہ کرلیا کہ وہ کلکتے میں اپنے عاشق نجمُ الحسن کی آغوش چھوڑ کر واپس بمبے ٹاکیز کی آغوش میں چلی آئے۔ جس میں اس کے جواہر کے پنپنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

    دیوکا رانی واپس آگئی۔ ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا ہمانسو رائے کو بھی اپنی حکمتِ عملی سے آمادہ کرلیا کہ وہ اسے قبول کر لیں، اور بے چارہ نجمُ الحسن ان عاشقوں کی فہرست میں داخل ہوگیا جن کو سیاسی، مذہبی اور سرمایہ دارانہ حکمتِ عملیوں نے اپنی محبوباؤں سے جدا کر دیا تھا۔ زیرِ تکمیل فلم سے نجمُ الحسن کو قینچی سے کاٹ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک تو دیا گیا مگر اب یہ سوال درپیش تھا کہ عشق آشنا دیوکا رانی کے لیے سیلو لائڈ کا ہیرو کون ہو۔

    ہمانسو رائے ایک بے حد محنتی اور دوسروں سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنے کام میں شب و روز منہمک رہنے والے فلم ساز تھے۔ انہوں نے بمبے ٹاکیز کی نیو کچھ اس طرح ڈالی تھی کہ وہ ایک باوقار درس گاہ معلوم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بمبئی شہر سے دور مضافات میں ایک گاؤں کو جس کا نام ’’ملاڈ‘‘ ہے اپنی فلم کمپنی کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ باہر کا آدمی نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے کہ باہر کے آدمیوں کے متعلق ان کی رائے اچھی نہیں تھی۔ (نجمُ الحسن بھی باہر کا آدمی تھا)

    یہاں پھر ایس مکر جی نے اپنے جذباتی آقا کی مدد کی۔ ان کا سالا اشوک کمار بی ایس سی پاس کر کے ایک برس کلکتے میں وکالت پڑھنے کے بعد بمبے ٹاکیز کی لیبارٹری میں بغیر تنخواہ کے کام سیکھ رہا تھا۔ ناک نقشہ اچھا تھا۔ تھوڑا بہت گا بجا بھی لیتا تھا۔ مکر جی نے چنانچہ برسبیلِ تذکرہ ہیرو کے لیے اس کا نام لیا۔ ہمانسو رائے کی ساری زندگی تجربوں سے دو چار رہی تھی۔ انہوں نے کہا دیکھ لیتے ہیں۔

    جرمن کیمرہ مین درشنگ نے اشوک کا ٹیسٹ لیا۔ ہمانسو رائے نے دیکھا اور پاس کردیا۔ جرمن فلم ڈائریکٹر فرانزاوسٹن کی رائے ان کے برعکس تھی۔ مگر بمبے ٹاکیز میں کس کی مجال کہ ہمانسو رائے کی رائے کے خلاف اظہارِ خیال کرسکے۔ چنانچہ اشوک کمار گانگولی جو ان دنوں بمشکل بائیس برس کا ہوگا، دیوکا رانی کا ہیرو منتخب ہوگیا۔

    ایک فلم بنا۔ دو فلم بنے۔ کئی فلم بنے اور دیوکا رانی اور اشوک کمار کا نہ جدا ہونے والا فلمی جوڑا بن گیا۔ ان فلموں میں سے اکثر بہت کام یاب ہوئے۔ گڑیا سی دیوکا رانی، اور بڑا ہی بے ضرر اشوک کمار، دونوں سیلو لائڈ پر شیر و شکر ہو کر آتے تو بہت ہی پیارے لگتے۔ معصوم ادائیں، الہڑ غمزے۔ بڑا ہنسائی قسم کا عشق۔

    لوگوں کو جارحانہ عشق کرنے اور دیکھنے کے شوق تھے۔ یہ نرم و نازک اور لچکیلا عشق بہت پسند آیا۔ خاص طور پر اس نئے فلمی جوڑے کے گرویدہ ہوگئے۔ اسکولوں اور کالجوں میں طالبات کا ( خصوصاً ان دنوں) آئیڈیل ہیرو اشوک کمار تھا اور کالجوں کے لڑکے لمبی اور کھلی آستینوں والے بنگالی کرتے پہن کر گاتے پھرتے تھے۔

    تُو بَن کی چڑیا، میں بَن کا پنچھی…. بَن بن بولوں رے