Tag: سعادت حسن منٹو

  • ‘‘چراغ حسن حسرت’’  سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    ‘‘چراغ حسن حسرت’’ سے ‘‘منٹو’’ کی ٹکر

    اردو زبان میں سوانح اور آپ بیتیاں، شخصی خاکے اور ادبی تذکرے مشاہیر اور علم و ادب کی معروف ہستیوں کے درمیان نوک جھونک، چھیڑ چھاڑ، طعن و تشنیع، رنجش و مخالفت پر مبنی دل چسپ، بذلہ سنج، کچھ تکلیف دہ اور بعض ناخوش گوار واقعات سے بھرے ہوئے ہیں۔ سعادت حسن منٹو سے کون واقف نہیں‌…. وہ نہایت حساس شخصیت کے مالک اور تند خُو ہی نہیں‌ انا پرست بھی تھے۔ جس سے یارانہ ہوگیا، ہوگیا، اور جس سے نہ بَنی، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مشکل۔ اگر منٹو کی کسی وجہ سے کسی کو ناپسند کرتے تو پھر خاطر میں نہیں لاتے تھے۔

    اس پس منظر کے ساتھ یہ اقتباس پڑھیے جو آپ کو اپنے وقت کے چند بڑے ادیبوں‌ کے مابین نوک جھونک سے لطف اندوز ہونے کا موقع دے گا۔ اسے اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور مشہور خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی نے منٹو پر اپنے مضمون میں‌ رقم کیا ہے۔

    ایک دفعہ احمد شاہ بخاری نے بڑے سرپرستانہ انداز میں کہا۔ ‘‘دیکھو منٹو میں تمہیں اپنے بیٹے کے برابر سمجھتا ہوں۔’’

    منٹو نے جھلّا کر کہا: ‘‘میں آپ کو اپنا باپ نہیں سمجھتا!’’

    مزہ تو اس وقت آیا جب چراغ حسن حسرت سے منٹو کی ٹکر ہوئی۔ واقعہ دلّی ریڈیو کا ہے جہاں اتفاق سے سبھی موجود تھے اور چائے کا دَور چل رہا تھا۔ حسرت اپنی علمیت کا رعب سب پر گانٹھتے تھے۔ ذکر تھا سومرسٹ ماہم کا جو منٹو کا محبوب افسانہ نگار تھا اور مولانا جھٹ بات کاٹ کر اپنی عربی فارسی کو بیچ میں لے آئے اور لگے اپنے چڑاؤنے انداز میں کہنے، ‘‘مقاماتِ حریری میں لکھا ۔۔۔ آپ نے تو کیا پڑھی ہوگی، عربی میں ہے یہ کتاب۔’’ دیوانِ حماسہ اگر آپ نے پڑھا ہوتا۔۔۔ مگر عربی آپ کو کہاں آتی ہے اور حسرت نے تابڑ توڑ کئی عربی فارسی کتابوں کے نام گنوا دیے۔

    منٹو خاموش بیٹھا بیچ و تاب کھاتا رہا۔ بولا تو صرف اتنا بولا۔ ‘‘مولانا ہم نے عربی فارسی اتنی نہیں پڑھی تو کیا ہے؟ ہم نے اور بہت کچھ پڑھا ہے۔’’

    بات شاید کچھ بڑھ جاتی مگر کرشن چندر وغیرہ نے بیچ میں پڑ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اگلے دن جب پھر سب جمع ہوئے تو حسرت کے آتے ہی بھونچال سا آ گیا۔ منٹو کا جوابی حملہ شروع ہو گیا، ‘‘کیوں مولانا’’ آپ نے فلاں کتاب پڑھی ہے؟ مگر آپ نے کیا پڑھی ہو گی، وہ تو انگریزی میں ہے اور فلاں کتاب؟ شاید آپ نے اس جدید ترین مصنّف کا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور منٹو نے جتنے نام کتابوں کے لیے ان میں شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جس کا نام مشہور ہو۔ منٹو نے کوئی پچاس نام ایک ہی سانس میں گنوا دیے اور مولانا سے کہلوا لیا کہ ان میں سے ایک بھی کتاب نہیں پڑھی۔ ہم چشموں اور ہم نشینوں میں یوں سبکی ہوتے دیکھ کر مولانا کو پسینے آگئے۔

    منٹو نے کہا ‘‘مولانا اگر آپ نے عربی فارسی پڑھی ہے تو ہم نے انگریزی پڑھی ہے۔ آپ میں کوئی سُرخاب کا پَر لگا ہوا نہیں ہے۔ آئندہ ہم پر رعب جمانے کی کوشش نہ کیجیے۔’’

    مولانا کے جانے کے بعد کسی نے پوچھا ‘‘یار تُو نے یہ اتنے سارے نام کہاں سے یاد کر لیے؟’’

    منٹو نے مسکراکر کہا: ‘‘کل شام یہاں سے اٹھ کر سیدھا انگریزی کتب فروش جینا کے ہاں گیا تھا۔ جدید ترین مطبوعات کی فہرست اس سے لے کر میں نے رٹ ڈالی۔’’

  • اختر شیرانی: شباب، شراب اور شاعری

    اختر شیرانی: شباب، شراب اور شاعری

    عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھا کر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔

    خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ اس قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمٰن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ ’مساوات’ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لیے باری علیگ (مرحوم)اور ابو العلاء چشتی الصحافی (حاجی لق لق) بلائے گئے۔

    ان دنوں میری آوارہ گردی اپنی معراج پر تھی۔ بے مقصد سارا دن گھومتا رہتا تھا۔ دماغ بے حد منتشر تھا۔ اس وقت تو میں نے محسوس نہیں کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دماغی انتشار میرے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔

    جیجے کے ہوٹل (شیراز) میں قریب قریب ہر روز گپ بازی کی محفل جمتی تھی۔ بالا، انور پینٹر، عاشق فوٹو گرافر، فقیر حسین سلیس اور ایک صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں، باقاعدگی کے ساتھ اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ہرقسم کے موضوع زیر بحث لائے جاتے تھے۔ بالا بڑا خوش گو اور بذلہ سنج نوجوان تھا، اگر وہ غیر حاضر ہوتا تو محفل سونی رہتی۔ شعر بھی کہتا تھا۔ اس کا ایک شعر ابھی تک مجھے یاد ہے۔

    اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا
    نوک سی چبھ گئی ہے چھالے میں

    جیجے سے لے کر انور پینٹر تک سب موسیقی اور شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ وہ صاحب جن کا نام میں بھول گیا تھا کیپٹن وحید تھے۔ نیلی نیلی آنکھوں والے، لمبے تڑنگے، مضبوط جسم، آپ کا محبوب مشغلہ گوروں سے لڑنا تھا۔ چنانچہ کئی گورے ان کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ انگریزی بہت اچھی بولتے تھے اور طبلہ ماہر طبلچیوں کی طرح بجاتے تھے۔

    ان دنوں جیجے کے ہوٹل میں ایک شاعر اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ قریب قریب ہر محفل میں اس کے اشعار پڑھے یا گائے جاتے تھے۔ جیجا (عزیز) عام طور پر ‘میں اپنے عشق میں سب کچھ تباہ کرلوں گا’ ( بہت ممکن ہے کہ یہ مصرع غلط ہو) گایا کرتا تھا۔ یہ نئے قسم کا جذبہ سب کے ذہن پرمسلط ہوگیا تھا۔ معشوق کو جو دھمکی دی گئی تھی، سب کو بہت پسند آئی تھی۔

    جیجا تو اختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کر رہا ہے اور گنگنا رہا ہے، ‘اے عشق کہیں لے چل…’ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گا رہا ہے، ‘کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات۔’

    اختر صاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران میں جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی۔ جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذ پر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیوں کہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجے کے ہوٹل کی رونق غائب ہوگئی۔

    کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط و کتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ’رومان’ جاری کیا تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔

    کئی برس گزر گئے۔ ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلے حتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دوران میں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کر دیا، بہت افسوس ہوا۔

    میں عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی اس خبر کی تردید ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ وہ بخیر و عافیت لاہور پہنچ گئے۔ اس سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔

    (اقتباسات، ماخوذ گنجے فرشتے از سعادت حسن منٹو)

  • ادیبوں کے جھگڑے…

    ادیبوں کے جھگڑے…

    اردو ادب کا ایک موضوع معاصرانہ چشمک بھی ہے۔ کوئی بھی معاشرہ اور کوئی بھی زمانہ رہا ہو، اس میں اہلِ قلم اور بڑے بڑے ادیب رشک و حسد میں مبتلا نظر آتے ہیں۔

    کئی عالی دماغ اور بلند حوصلہ ایسی ادبی ہستیاں جو اپنے پڑھنے والوں میں مقبول رہی ہیں، وہ بھی باہمی چپقلش اور جھگڑوں کے لیے مشہور ہیں۔ ان میں سے بعض اپنے مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں انتہائی پست اور اکثر سوقیانہ پن کا شکار ہوگئے۔ تاہم بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے ہم عصروں سے چھیڑ چھاڑ اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے میں ایک حد قائم رکھی۔ یہاں‌ ہم اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اور منفرد خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی کے ایک مضمون سے اقتباس پیش کررہے ہیں جو قارئین کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "منٹو بڑا ذہین آدمی تھا۔ اگر ذرا کوئی اپنی حد سے بڑھتا تو وہ سمجھتا کہ یہ شخص میری توہین کر رہا ہے، مجھے احمق سمجھ رہا ہے۔ دل میں بات رکھنے کا وہ قائل نہیں تھا۔”

    "اس کام کے لیے اوپندر ناتھ اشکؔ بنا تھا۔ بڑی گٹھل طبیعت کا آدمی تھا۔ منٹو مہینے میں تیس چالیس ڈرامے اور فیچر لکھ دیتا تھا، اور اشکؔ صرف دو ڈرامے لکھتا تھا، اور وہ بھی رو رو کر۔ پھر بڑی ڈھٹائی سے کہتا پھرتا تھا کہ جتنی تنخواہ مجھے ملتی ہے اس سے زیادہ کے یہ دو ڈرامے میں نے لکھے ہیں۔”

    شاہد احمد دہلوی آگے لکھتے ہیں۔

    "منٹو اس کی بڑی درگت بناتا تھا۔ سب کے سامنے اسے فراڈ اور حرام زادہ تک کہہ دیتا تھا۔ اشکؔ اس وقت تو روکھا ہو جاتا تھا، لیکن منٹو کی باتیں دل میں رکھتا گیا، اور بعد میں بمبئی کی فلم انڈسٹری میں منٹو کی جڑ کاٹتا پھرا۔”

    "شیخی کی باتیں منٹو کو سخت ناپسند تھیں۔ اور شیخی کرکری کرنے میں اُسے لطف آتا تھا۔ ن م راشد سے میں نے کہا۔ ’’یہ آپ کی چھوٹی بڑی شاعری ہمیں تو اچھی نہیں لگتی آخر اس میں کیا بات ہے؟‘‘

    راشد نے (rhyme) اور (rythym) پر ایک مختصر لیکچر جھاڑنے کے بعد اپنی نظم ’’اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے‘‘ مجھے سنانی شروع کی اور کہا، ’’دیکھیے! میں نے اس نظم میں ڈانس کا روم رکھا ہے۔‘‘ میں بڑی سعادت مندی سے سنتا رہا، منٹو بھلا کب تاب لا سکتے تھے۔ چٹخ کر بولے کون سا ڈانس؟ والز، رمبا، کتھا کلی، کتھک، منی پوری؟…. فراڈ کہیں کا۔‘‘ بچارے راشد کھسیانی ہنسی ہنس کر رہ گئے۔”

  • ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    ‘سزا یافتہ’ ادیب کا بھائی کے نام لکھا گیا خط!

    روس کے مایہ ناز ادیب دوستوفسکی کی سزائے موت کو جب چار سال قید میں تبدیل کردیا گیا اور اسے سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں بھیج دیا گیا، تو وہاں جانے سے پہلے اس نے اپنے بھائی کو ایک خط لکھا جو اس کے جذبات اور شدّتِ احساس کی ترجمانی کرتا ہے۔ وہ قید کے دوران صرف لکھنے کی اجازت چاہتا تھا اور اس کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی۔

    پیارے بھائی!
    میں بالکل افسردہ نہیں ہوں۔ میں نے غم کو اپنے پاس پھٹکنے تک نہیں دیا۔ زندگی ہر جگہ زندگی ہے، وہی ہے جو ہمارے اندر ہے نہ کہ وہ جو باہر ہے۔

    میرے ساتھ اور بھی بہت لوگ ہوں گے۔ عوام کے درمیان معمولی انسان کی حیثیت میں رہنا، ہمیشہ اسی طرح زندگی بسر کرنا اور مصائب کی پروا نہ کرنا…. یہ ہے زندگی۔ یہی زندگی کا اصلی مقصد۔ میں اس چیز کو بخوبی سمجھ چکا ہوں۔ یہ خیال میرے گوشت پوست، رگ رگ اور نخ نخ میں سرایت کر گیا ہے اور یہ بالکل صداقت پر مبنی ہے۔

    وہ سَر، جو خیالات و افکار کی تخلیق کرتا تھا، وہ سَر، جو آرٹ کی بلندیوں میں اپنا آشیانہ بنائے تھا اور جو روح کی بلند ترین ضروریات سے آگاہ اور ان کا عادی تھا۔ وہ سَر، اب میرے شانوں سے علیحدہ ہوچکا ہے۔

    وہاں ان تخیلات کے دھندلے نقوش باقی رہ گئے ہیں، جو میں ابھی صفحۂ قرطاس پر منتقل نہیں کر سکا۔ یہ افکار ذہنی عذاب کا باعث ضرور ہوں گے لیکن یہ حقیقت ہے کہ میرے دل میں ابھی تک وہ خون اور گوشت موجود ہے جو محبّت بھی کر سکتا ہے، مصیبت بھی جھیل سکتا ہے، جو خواہش بھی کرسکتا ہے اور آخر یہی تو زندگی ہے۔

    اگر کوئی شخص میرے متعلق اپنے دل میں کدورت رکھتا ہے، میں نے کسی سے جھگڑا کیا ہے یا میں نے کسی کے دل پر برا اثر چھوڑا ہے تو اس سے ملو اور میری طرف سے التجا کرو کہ وہ مجھے معاف کر دے۔ میرے دل میں ذرّہ بھر میل نہیں ہے۔

    اس وقت میری یہی خواہش ہے کہ میں اپنے احباب میں سے کسی کے گلے ملوں۔اس سے دل کو اطمینان ہوتا ہے۔

    میرا خیال تھا کہ میری موت کی خبر تمہیں ہلاک کر دے گی لیکن اب تمہیں کوئی فکر نہیں کرنا چاہیے، میں زندہ ہوں اور اس وقت تک زندہ رہوں گا، جب ہم دونوں دوبارہ بغل گیر ہوں گے۔

    ماضی کی طرف رخ پھیر کر دیکھتا ہوں کہ بہت فضول وقت ضائع ہوا ہے۔ بیشتر ایّام خوابوں، غلط کاریوں اور بیکار مشاغل میں گزرے ہیں۔ میں نے کئی بار ضمیر کے خلاف کام کیا ہے۔ یقین مانو میرا دل خون روتا ہے۔

    زندگی نعمت ہے، زندگی مسرت ہے۔ ہر وہ لمحہ جو ضائع ہوچکا ہے شادمان عرصۂ زندگی ہونا چاہیے تھا۔ اب کہ میں اپنی زندگی بدل رہا ہوں، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری روح نئے قالب میں داخل ہو رہی ہے۔ لیکن کیا یہ صحیح ہے کہ میرے ہاتھ قلم کو ترستے رہیں گے۔ میرا خیال ہے کہ چار سال کے بعد مجھے قلم پکڑنا نصیب ہوگا۔

    اے کاش! مجھے صرف لکھنے کی اجازت دی جائے۔ کتنے افکار کتنے خیالات جو میں نے تخلیق کیے تھے، تباہ ہو جائیں گے، میرے ذہن کی یہ چنگاریاں یا تو بجھ جائیں گی یا میری رگوں میں ایک آتشیں زہر بن کر حلول کر جائیں گی۔

    (مترجم: سعادت حسن منٹو)

  • لال ٹین والی وزیر

    لال ٹین والی وزیر

    سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ وادیٔ کشمیر میں گزارے گئے ان یادگار لمحات کو بیان کرتا ہے جس میں ایک وزیر نام کی لڑکی کا کردار نہایت اہم ہے اور یہی وہ لڑکی ہے جس کی وجہ سے مصنّف کو بدنام کیا جانے لگا تھا۔ جب افسانہ نگار اپنے دوست کے ساتھ رات کو ٹہلنے نکلتا تو یہ لڑکی لالٹین لے کر انہیں راستہ دکھاتی تھی اور جس جگہ وہ بیٹھ کر باتیں‌ کرتے تھے، وہاں قریب ہی بیٹھی رہتی تھی۔ یہ سب وہ مہمان کی حفاظت کے پیشِ نظر نہایت خلوص سے کرتی تھی۔ افسانہ پڑھیے۔

    میرا قیام ’’بٹوت‘‘ میں گو مختصر تھا۔ لیکن گوناگوں روحانی مسرتوں سے پُر۔ میں نے اس کی صحت افزا فضا میں جتنے دن گزارے ہیں ان کے ہر لمحہ کی یاد میرے ذہن کا ایک جزو بن کے رہ گئی ہے۔ جو بھلائے نہ بھولے گی۔

    کیا دن تھے…. بار بار میرے دل کی گہرائیوں سے یہ آواز بلند ہوتی ہے اور میں کئی کئی گھنٹے اس کے زیرِ اثر بے خود و مدہوش رہتا ہوں۔

    کسی نے ٹھیک کہا ہے کہ انسان اپنی گزشتہ زندگی کے کھنڈروں پر مستقبل کی دیواریں استوار کرتا ہے۔ ان دنوں میں بھی یہی کر رہا ہوں یعنی بیتے ہوئے ایّام کی یاد کو اپنی مضمحل رگوں میں زندگی بخش انجکشن کے طور پر استعمال کر رہا ہوں۔

    جو کل ہوا تھا اسے اگر آج دیکھا جائے تو اس کے اور ہمارے درمیان صدیوں کا فاصلہ نظر آئے گا اور جو کل ہونا ہے اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے اور نہ جان سکتے ہیں۔ آج سے پورے چار مہینے پہلے کی طرف دیکھا جائے تو بٹوت میں میری زندگی ایک افسانہ معلوم ہوتی ہے۔ ایسا افسانہ جس کا مسودہ صاف نہ کیا گیا ہو۔ اس کھوئی ہوئی چیز کو حاصل کرنا دوسرے انسانوں کی طرح میرے بس میں بھی نہیں۔ جب میں استقبال کے آئینہ میں اپنی آنے والی زندگی کا عکس دیکھنا چاہتا ہوں تو اس میں مجھے حال ہی کی تصویر نظر آتی ہے اور کبھی کبھی اس تصویر کے پس منظر میں ماضی کے دھندلے نقوش نظر آجاتے ہیں۔ ان میں بعض نقش اس قدر تیکھے اور شوخ رنگ ہیں کہ شاید ہی انھیں زمانہ کا ہاتھ مکمل طور پر مٹا سکے۔

    زندگی کے اس کھوئے ہوئے ٹکڑے کو میں اس وقت زمانہ کے ہاتھ میں دیکھ رہا ہوں جو شریر بچّے کی طرح مجھے بار بار اس کی جھلک دکھا کر اپنی پیٹھ پیچھے چھپا لیتا ہے۔ اور میں اس کھیل ہی سے خوش ہوں۔ اسی کو غنیمت سمجھتا ہوں۔

    ایسے واقعات کو جن کی یاد میرے ذہن میں اب تک تازہ ہے، میں عام طور پر دہراتا رہتا ہوں، تاکہ ان کی تمام شدّت برقرار رہے۔ اور اس غرض کے لیے میں کئی طریقے استعمال کرتا رہتا ہوں۔ بعض اوقات میں یہ بیتے ہوئے واقعات اپنے دوستوں کو سنا کر اپنا مطلب حل کر لیتا ہوں۔

    اگر آپ کو میرے ان دوستوں سے ملنے کا اتفاق ہو تو وہ آپ سے یقیناً یہی کہیں گے کہ میں قصہ گوئی اور آپ بیتیاں سنانے کا بالکل سلیقہ نہیں رکھتا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ داستان سنانے کے دوران میں مجھے سامعین کے تیوروں سے ہمیشہ اس بات کا احساس ہوا ہے کہ میرا بیان غیر مربوط ہے اور میں جانتا ہوں کہ چونکہ میری داستان میں ہمواری کم اور جھٹکے زیادہ ہوتے ہیں اس لیے میں اپنے محسوسات کو اچھی طرح کسی کے دماغ پر منتقل نہیں کرسکتا اور مجھے اندیشہ ہے کہ میں ایسا شاید ہی کر سکوں۔

    اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ میں اکثر اوقات اپنی داستان سنانے سناتے جب ایسے مقام پر پہنچتا ہوں جس کی یاد میرے ذہن میں موجود نہ تھی اور وہ خیالات کی رو میں خود بخود بہہ کر چلی آئی تھی تو میں غیر ارادی طور پر اس نئی یاد کی گہرائیوں میں گم ہو جاتا ہوں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میرے بیان کا تسلسل یک لخت منتشر ہو جاتا ہے اور جب میں ان گہرائیوں سے نکل کر داستان کے ٹوٹے ہوئے دھاگے کو جوڑنا چاہتا ہوں تو عجلت میں وہ ٹھیک طور سے نہیں جڑتا۔

    کبھی کبھی میں یہ داستانیں رات کو سوتے وقت اپنے ذہن کی زبانی خود سنتا ہوں، لیکن اس دوران میں مجھے بہت تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ میرے ذہن کی زبان بہت تیز ہے اور اس کو قابو میں رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ خود بخود بیان ہونا شروع ہو جاتے ہیں کہ طبیعت اکتا جاتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک واقعہ کی یاد کسی دوسرے واقعہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے اور اس کا احساس کسی دوسرے احساس کو اپنے ساتھ لے آتا ہے اور پھر احساسات و افکار کی بارش زوروں پر شروع ہو جاتی ہے اور اتنا شور مچتا ہے کہ نیند حرام ہو جاتی ہے۔ جس روز صبح کو میری آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے نظر آئیں آپ سمجھ لیا کریں کہ ساری رات میں اپنے ذہن کی قصہ گوئی کا شکار بنا رہا ہوں۔

    جب مجھے کسی بیتے ہوئے واقعے کو اس کی تمام شدتوں سمیت محفوظ کرنا ہوتا ہے تو میں قلم اٹھاتا ہوں اور کسی گوشے میں بیٹھ کر کاغذ پر اپنی زندگی کے اس ٹکڑے کی تصویر کھینچ دیتا ہوں۔ یہ تصویر بھدی ہوتی ہے یا خوبصورت، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اور مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ہمارے ادبی نقاد میری ان قلمی تصویروں کے متعلق کیا رائے مرتب کرتے ہیں۔ دراصل مجھے ان لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اگر میری تصویر کشی سقیم اور خام ہے تو ہوا کرے مجھے اس سے کیا اور اگر یہ ان کے مقرر کردہ معیار پر پورا اترتی ہے تو بھی مجھے اس سے کیا سروکار ہوسکتا ہے۔ میں یہ کہانیاں صرف اس لیے لکھتا ہوں کہ مجھے کچھ لکھنا ہوتا ہے۔ جس طرح عادی شراب خور، دن ڈھلے شراب خانہ کا رخ کرتا ہے ٹھیک اسی طرح میری انگلیاں بے اختیار قلم کی طرف بڑھتی ہیں اور میں لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرا روئے سخن یا تو اپنی طرف ہوتا ہے یا ان چند افراد کی طرف جو میری تحریروں میں دل چسپی لیتے ہیں۔ میں ادب سے دور اور زندگی کے نزدیک تر ہوں۔

    زندگی۔۔۔ زندگی۔۔۔! آہ زندگی!

    میں زندگی زندگی پُکارتا ہوں مگر مجھ میں زندگی کہاں۔۔۔؟ اور شاید یہی وجہ ہے کہ میں اپنی عمر کی پٹاری کھول کر اس کی ساری چیزیں باہر نکالتا ہوں اور جھاڑ پونچھ کر بڑے قرینے سے ایک قطار میں رکھتا ہوں اور اس آدمی کی طرح جس کے گھر میں بہت تھوڑا سامان ہو ان کی نمائش کرتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اپنا یہ فعل بہت برا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن میں کیا کروں، مجبور ہوں۔ میرے پاس اگر زیادہ نہیں ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ اگر مجھ میں سفلہ پن پیدا ہوگیا ہے تو اس کا ذمہ دار میں کیسے ہوسکتا ہوں۔ میرے پاس تھوڑا بہت جو کچھ بھی ہے غنیمت ہے۔ دنیا میں تو ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کی زندگی چٹیل میدان کی طرح خشک ہے اور میری زندگی کے ریگستان پر تو ایک بار بارش ہو چکی ہے۔

    گو میرا شباب ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکا ہے، مگر میں ان دنوں کی یاد پر جی رہا ہوں جب میں جوان تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سہارا بھی کسی روز جواب دے جائے گا اور اس کے بعد جو کچھ ہوگا، میں بتا نہیں سکتا۔ لیکن اپنے موجودہ انتشار کو دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ میرا انجام چشم فلک کو بھی نم ناک کر دے گا۔ آہ! خرابۂ فکر کا انجام!

    وہ شخص جسے انجام کار اپنے وزنی افکار کے نیچے پس جانا ہے، یہ سطور لکھ رہا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایسی اور بہت سی سطریں لکھنے کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے۔

    میں ہمیشہ مغموم و ملول رہا ہوں۔ لیکن شبیر جانتا ہے کہ بٹوت میں میری آہوں کی زردی اور تپش کے ساتھ ساتھ ایک خوش گوار مسرت کی سرخی اور ٹھنڈک بھی تھی۔ وہ آب و آتش کے اس باہمی ملاپ کو دیکھ کر متعجب ہوتا تھا اور غالباً یہی چیز تھی جس نے اس کی نگاہوں میں میرے وجود کو ایک معما بنا دیا تھا۔ کبھی کبھی مجھے وہ سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور اس کوشش میں وہ میرے قریب بھی آجاتا تھا۔ مگر دفعتاً کوئی ایسا حادثہ وقوع پذیر ہوتا جس کے باعث اسے پھر پرے ہٹنا پڑتا تھا اور اس طرح وہ نئی شدت سے مجھے پراسرار اور کبھی پرتصنع انسان سمجھنے لگتا۔

    اکرام صاحب حیران تھے کہ بٹوت جیسی غیر آباد اور غیر دل چسپ دیہات میں پڑے رہنے سے میرا کیا مقصد ہے۔ وہ ایسا کیوں سوچتے تھے؟ اس کی وجہ میرے خیال میں صرف یہ ہے کہ ان کے پاس سوچنے کے لیے اور کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ وہ اسی مسئلے پر غور و فکر کرتے رہتے تھے۔

    وزیر کا گھر ان کے بنگلے کے سامنے بلند پہاڑی پر تھا اور جب انھوں نے اپنے نوکر کی زبانی یہ سنا کہ میں اس پہاڑی لڑکی کے ساتھ پہروں باتیں کرتا رہتا ہوں تو انھوں نے یہ سمجھا کہ میری دکھتی ہوئی رگ ان کے ہاتھ آگئی ہے اور انھوں نے ایک ایسا راز معلوم کرلیا ہے جس کے افشا پر تمام دنیا کے دروازے مجھ پر بند ہو جائیں گے۔ لوگوں سے جب وہ اس ’’مسئلے‘‘ پر باتیں کرتے تھے تو یہ کہا کرتے تھے کہ میں تعیش پسند ہوں اور ایک بھولی بھالی لڑکی کو پھانس رہا ہوں اور ایک بارجب انھوں نے مجھ سے بات کی تو کہا، ’’دیکھیے یہ پہاڑی لونڈیا بڑی خطرناک ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ اس کے جال میں پھنس جائیں۔‘‘

    میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں یا کسی اور کو میرے معاملات سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی۔ وزیر کا کیریکٹر بہت خراب تھا اور میرا کریکٹر بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں میری فکر میں مبتلا تھے اور پھر جو ان کے من میں تھا صاف صاف کیوں نہیں کہتے تھے۔ وزیر پر میرا کوئی حق نہیں تھا اور نہ وہ میرے دباؤ میں تھی۔ اکرام صاحب یا کوئی اور صاحب اگر اس سے دوستانہ پیدا کرنا چاہتے تو مجھے اس میں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ دراصل ہماری تہذیب و معاشرت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ عام طور پر صاف گوئی کو معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ کھل کر بات ہی نہیں کی جاتی اور کسی کے متعلق اگر اظہار خیال کیا بھی جاتا ہے تو غلاف چڑھا کر۔

    میں نے صاف گوئی سے کام لیا اور اس پہاڑی لونڈیا سے جسے بڑا خطرناک کہا جاتا تھا، اپنی دل چسپی کا اعتراف کیا۔ لیکن چونکہ یہ لوگ اپنے دل کی آواز کو دل ہی میں دبا دینے کے عادی تھے اس لیے میری سچی باتیں ان کو بالکل جھوٹی معلوم ہوئیں اور ان کا شک بدستور قائم رہا۔

    میں انھیں کیسے یقین دلاتا کہ میں اگر وزیر سے دل چسپی لیتا ہوں تو اس کا باعث یہ ہے کہ میرا ماضی و حال تاریک ہے۔ مجھے اس سے محبت نہیں تھی اسی لیے میں اس سے زیادہ وابستہ تھا۔ وزیر سے میری دل چسپی اس محبت کا ریہرسل تھی جو میرے دل میں اس عورت کے لیے موجود ہے جو ابھی میری زندگی میں نہیں آئی۔ میری زندگی کی انگوٹھی میں وزیر ایک جھوٹا نگینہ تھی لیکن یہ نگینہ مجھے عزیز تھا اس لیے کہ اس کی تراش، اس کا ماپ بالکل اس اصلی نگینہ کے مطابق تھا جس کی تلاش میں مَیں ہمیشہ ناکام رہا ہوں۔

    وزیر سے میری دل بستگی بے غرض نہیں تھی اس لیے میں غرض مند تھا۔ وہ شخص جو اپنے غم افزا ماحول کو کسی کے وجود سے رونق بخشنا چاہتا ہو، اس سے زیادہ خود غرض اور کون ہوسکتا ہے۔۔۔؟ اس لحاظ سے میں وزیر کا ممنون بھی تھا اور خدا گواہ ہے کہ میں جب کبھی اس کو یاد کرتا ہوں تو بے اختیار میرا دل اس کا شکریہ ادا کرتا ہے۔

    شہر میں مجھے صرف ایک کام تھا۔ اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے گھپ اندھیرے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے رہنا اور بس! مگر بٹوت میں اس تاریکی کے اندر روشنی کی ایک شعاع تھی۔ وزیر کی لال ٹین!

    بھٹیارے کے یہاں رات کو کھانا کھانے کے بعد میں اور شبیر، ٹہلتے ٹہلتے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ جاتے۔ یہ بنگلہ ہوٹل سے قریباً تین جریب کے فاصلے پر تھا۔ رات کی خنک اور نیم مرطوب ہوا میں اس چہل قدمی کا بہت لطف آتا تھا۔ سڑک کے دائیں بائیں پہاڑوں اور ڈھلوانوں پر مکئی کے کھیت رات کے دھندلکے میں خاکستری رنگ کے بڑے بڑے قالین معلوم ہوتے تھے۔ اور جب ہوا کے جھونکے مکئی کے پودوں میں لرزش پیدا کر دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ آسمان سے بہت سی پریاں ان قالینوں پر اتر آئی ہیں اور ہولے ہولے ناچ رہی ہیں۔

    آدھا راستہ طے کرنے پر جب ہم سڑک کے بائیں ہاتھ ایک چھوٹے سے دو منزلہ چوبی مکان کے قریب پہنچتے تو شبیر اپنی مخصوص دھن میں یہ شعر گاتا،

    ہر قدم فتنہ ہے قیامت ہے
    آسماں تیری چال کیا جانے

    یہ شعر گانے کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس چوبی مکان کے رہنے والے اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ میرے اور وزیر کے تعلقات اخلاقی نقطہ نگاہ سے ٹھیک نہیں، حالانکہ وہ اخلاق کے معانی سے بالکل ناآشنا تھے۔ یہ لوگ مجھ سے اور شبیر سے بہت دل چسپی لیتے تھے اور میری نقل و حرکت پر خاص طور پر نگرانی رکھتے تھے۔ وہ تفریح کی غرض سے بٹوت آئے ہوئے تھے اور انھیں تفریح کا کافی سامان مل گیا تھا۔ شبیر اوپر والا شعر گا کر ان کی تفریح میں مزید اضافہ کیا کرتا تھا۔ اس کو چھیڑ چھاڑ میں خاص لطف آتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی رہائش گاہ کے عین سامنے پہنچ کر اس کو یہ شعر یاد آجاتا تھا اور وہ فوراً اسے بلند آواز میں گا دیا کرتا تھا۔ رفتہ رفتہ وہ اس کا عادی ہوگیا تھا۔

    یہ شعر کسی خاص واقعے یا تاثر سے متعلق نہ تھا۔ میرا خیال ہے کہ اسے صرف یہی شعر یاد تھا، یا ہو سکتا ہے کہ وہ صرف اسی شعر کو گا سکتا تھا، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ بار بار یہی شعر دہراتا۔

    شروع شروع میں اندھیری راتوں میں سنسان سڑک پر ہماری چہل قدمی چوبی مکان کے چوبی ساکنوں پر ( وہ غیر معمولی طور پر اجڈا اور گنوار واقع ہوئے تھے) کوئی اثر پیدا نہ کرسکی۔ مگر کچھ دنوں کے بعد ان کے بالائی کمرے میں روشنی نظر آنے لگی اور وہ ہماری آمد کے منتظر رہنے لگے اور جب ایک روز ان میں سے ایک نے اندھیرے میں ہمارا رخ معلوم کرنے کے لیے بیٹری روشن کی میں نے شبیر سے کہا، ’’آج ہمارا رومان مکمل ہوگیا ہے۔‘‘ مگر میں نے دل میں ان لوگوں کی قابلِ رحم حالت پر بہت افسوس کیا، کیونکہ وہ بیکار دو دو تین تین گھنٹے تک جاگتے رہتے تھے۔

    حسبِ معمول ایک رات شبیر نے اس مکان کے پاس پہنچ کر شعر گایا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ بیٹری کی روشنی حسب معمول چمکی اور ہم باتیں کرتے ہوئے اکرام صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے، ہُو کا عالم تھا، ہر طرف تاریکی ہی تاریکی تھی، آسمان ہم پر مرتبان کے ڈھکنے کی طرح جھکا ہوا تھا اور میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ ہم کسی بند بوتل میں چل پھر رہے ہیں۔ سکوت اپنی آخری حد تک پہنچ کر متکلم ہو گیا تھا۔

    بنگلے کے باہر برآمدے میں ایک چھوٹی سی میز پر لیمپ جل رہا تھا اور پاس ہی پلنگ پر اکرام صاحب لیٹے کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھے۔ شبیر نے دور سے ان کی طرف دیکھا اور دفعتاً سادھوؤں کا مخصوص نعرۂ مستانہ ’’الکھ نرنجن بلند کیا۔‘‘ اس غیر متوقع شور نے مجھے اور اکرام صاحب دونوں کو چونکا دیا۔ شبیر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ پھر ہم دونوں برآمدے میں داخل ہو کر اکرام صاحب کے پاس بیٹھ گئے۔ میرا منہ سڑک کی جانب تھا۔ عین اس وقت جب میں نے حقہ کی نَے منہ میں دبائی۔ مجھے سامنے سڑک کے اوپر تاریکی میں روشنی کی ایک جھلک دکھائی دی۔ پھر ایک متحرک سایہ نظر آیا اور اس کے بعد روشنی ایک جگہ ساکن ہو گئی۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وزیر کا بھائی اپنے کتے کو ڈھونڈ رہا ہے۔ چنانچہ ادھر دیکھنا چھوڑ کر میں شبیر اور اکرام صاحب کے ساتھ باتیں کرنے میں مشغول ہو گیا۔

    دوسرے روز شبیر کے نعرہ بلند کرنے کےبعد پھر اخروٹ کے درخت کے عقب میں روشنی نمودار ہوئی اور سایہ حرکت کرتا ہوا نظر آیا۔ تیسرے روز بھی ایسا ہوا۔ چوتھے روز صبح کو میں اور شبیر چشمے پر غسل کو جا رہے تھے کہ اوپر سے ایک کنکر گرا، میں نے بیک وقت سڑک کے اوپر جھاڑیوں کی طرف دیکھا۔ وزیر سر پر پانی کا گھڑا اٹھائے ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔

    وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنسی اور شبیر سے کہنے لگی، ’’کیوں جناب، یہ آپ نے کیا وطیرہ اختیار کیا ہے کہ ہر روز ہماری نیند خراب کریں۔‘‘

    شبیر حیرت زدہ ہو کر میری طرف دیکھنے لگا۔ میں وزیر کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ شبیر نے اس سے کہا ’’آج آپ پہیلیوں میں بات کر رہی ہیں۔‘‘

    وزیر نے سر پر گھڑے کا توازن قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’میں اتنی اتنی دیر تک لال ٹین جلا کر اخروٹ کے نیچے بیٹھی رہتی ہوں اور آپ سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ پھوٹے منہ سے شکریہ ہی ادا کر دیں۔ بھلا آپ کی جوتی کو کیا غرض پڑی ہے۔ یہ چوکیداری تو میرے ہی ذمے ہے۔ آپ ٹہلنے کو نکلیں اور اکرام صاحب کے بنگلے میں گھنٹوں باتیں کرتے رہیں اور میں سامنے لال ٹین لیے اونگھتی رہوں۔‘‘

    شبیر نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا، ’’یہ کیا کہہ رہی ہیں۔ بھئی میں تو کچھ نہ سمجھا، یہ کس دھن میں الاپ رہی ہیں؟‘‘

    میں نے شبیر کو جواب نہ دیا اور وزیر سے کہا، ’’ہم کئی دنوں سے رات گئے اکرام صاحب کے یہاں آتے ہیں۔ دو تین مرتبہ میں نے اخروٹ کے پیچھے تمہاری لال ٹین دیکھی، پر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تم خاص ہمارے لیے آتی ہو۔ اس کی کیا ضرورت ہے، تم ناحق اپنی نیند کیوں خراب کرتی ہو؟‘‘

    وزیر نے شبیر کو مخاطب کر کے کہا،’’آپ کے دوست بڑے ہی ناشکرے ہیں، ایک تو میں ان کی حفاظت کروں اور اوپر سے یہی مجھ پر اپنا احسان جتائیں۔ ان کو اپنی جان پیاری نہ ہو پر۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی اور بات کا رخ یوں بدل دیا، ’’آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں ان کے بہت دشمن پیدا ہو گئے ہیں۔ پھر آپ انھیں کیوں نہیں سمجھاتے کہ رات کو باہر نہ نکلا کریں۔‘‘

    وزیر کو واقعی میری بہت فکر تھی۔ بعض اوقات وہ مجھے بالکل بچہ سمجھ کر میری حفاظت کی تدبیریں سوچا کرتی تھی، جیسے وہ خود محفوظ و مامون ہے اور میں بہت سی بلاؤں میں گھرا ہوا ہوں۔ میں نے اسے کبھی نہ ٹوکا تھا اس لیے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسے اس شغل سے باز رکھوں جس سے وہ لطف اٹھاتی ہے، اس کی اور میری حالت بعینہٖ ایک جیسی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی منزل کی طرف جانے والے مسافر تھے جو ایک لق و دق صحرا میں ایک دوسرے سے مل گئے تھے۔ اسے میری ضرورت تھی اور مجھے اس کی۔ تاکہ ہمارا سفر اچھی طرح کٹ سکے۔ میرا اور اس کا صرف یہ رشتہ تھا جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

    ہم ہر شب مقررہ وقت پر ٹہلنے کو نکلتے۔ شبیر چوبی مکان کے پاس پہنچ کر شعر گاتا، پھر اکرام صاحب کے بنگلے سے کچھ دور کھڑے ہو کر نعرہ بلند کرتا، وزیر لال ٹین روشن کرتی اور اس کی روشنی کو ہوا میں لہرا کر ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ جاتی۔ شبیر اور اکرام صاحب باتیں کرنے میں مشغول ہو جاتے۔ اور میں لال ٹین کی روشنی میں اس روشنی کے ذرے ڈھونڈھتا رہتا جس سے میری زندگی منور ہو سکتی تھی۔ وزیر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی رہتی؟

  • ’’چل چل رے نوجوان…‘‘

    ’’چل چل رے نوجوان…‘‘

    ’’چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی کا صدمہ ہمارے دل و دماغ سے قریب قریب مندمل ہو چکا تھا۔

    گیان مکرجی، فلمستان کے لیے ایک پروپیگنڈہ کہانی لکھنے میں ایک عرصے سے مصروف تھے۔ کہانی لکھنے لکھانے اور اسے پاس کرانے سے پیشتر نلنی جیونت اور اس کے شوہر وریندر ڈیسائی سے کنٹریکٹ ہو چکا تھا۔ غالباً پچیس ہزار روپے، ایک سال اس کی میعاد تھی۔

    مسٹر ششودھر مکرجی حسبِ عادت سوچ بچار میں دس مہینے گزار چکے تھے۔ کہانی کا ڈھانچہ تھا کہ تیار ہونے ہی میں نہیں آتا تھا۔ بصد مشکل جوں توں کرکے ایک خاکہ معرض وجود میں آیا جسے گیان مکرجی اپنی جیب میں ڈال کر روانہ ہوگئے تاکہ زبانی طور پر اس میں اور کچھ چیزیں ڈال کرحکومت سے پاس کرا لیں۔ خاکہ پاس ہوگیا۔

    جب شوٹنگ کا مرحلہ آیا تو وریندر ڈیسائی نے یہ مطالبہ کیا کہ اس کے ساتھ ایک برس کا کنٹریکٹ کیا جائے اس لیے کہ پہلے معاہدے کی میعاد ختم ہونے والی ہے۔ رائے بہادر چونی لال منیجنگ ڈائریکٹر بڑے اکھڑ قسم کے آدمی تھے۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ مقدمہ بازی ہوئی۔ فیصلہ وریندر ڈیسائی اور ان کی خوبرو بیوی نلنی کے حق میں ہوا۔ اس طرح پروپیگنڈہ فلم جس کی کہانی کا ابھی صرف غیر مکمل خاکہ ہی تیار ہوا تھا، پچیس ہزارروپوں کے بوجھ تلے آگئی۔

    رائے بہادر کو بہت عجلت تھی کہ فلم جلد تیار ہو کیونکہ بہت وقت ضائع ہو چکا تھا ،چنانچہ جلدی جلدی میں ولی صاحب کو بلا کر ان کی بیوی ممتاز شانتی سے کنٹریکٹ کرلیا گیا اور اس کو چودہ ہزار روپے بطور پیشگی ادا کردیے گئے۔ (بلیک میں یعنی بغیر رسید)

    دو دن شوٹنگ ہوئی۔ ممتاز شانتی اور اشوک کمار کے درمیان مختصر سا مکالمہ تھا جو بڑی مین میخ کے بعد فلمایا گیا مگر جب اسے پردے پر دیکھا گیا تو سب نے ممتاز شانتی کو ناپسند کیا۔ اس ناپسندیدگی میں اس بات کا بھی بڑا دخل تھا کہ ممتاز برقع پہن کر آتی تھی اور ولی صاحب نے صاف طور پر مکرجی سے کہہ دیا تھا کہ اس کے جسم کو کوئی ہاتھ واتھ نہیں لگائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ممتاز شانتی کو فلم سے علیحدہ کر دیا گیا۔ اس بہانے سے کہ جو کردار اسے اس کہانی میں ادا کرنا ہے، اس کے لیے مناسب و موزوں نہیں۔کیونکہ اس میں ایسے کئی مقام آئیں گے جہاں ہیروئن کو اپنے جسم کے بعض حصوں کی عریاں نمائش کرنا پڑے گی۔ قصہ مختصر کہ یہ چودہ ہزار بھی گئے۔

    اب کہانی کا نامکمل ڈھانچہ انتالیس ہزار روپے کے نیچے دبا پڑا تھا۔ رائے بہادر چونی لال، لال پیلے ہورہے تھے، ’’ چل چل رے نوجوان‘‘ کی ناکامی نے کمپنی کی حالت بہت پتلی کر دی تھی۔ مارواڑیوں سے قرض لے لے گزارہ بصد مشکل ہو رہا تھا۔ رائے بہادر کی خفگی اور پریشانی بجا تھی۔

    ہم لوگوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا لیکن ایس مکرجی نے اس عورت کو جس کا نام پارو تھا، پروپیگنڈہ فلم کے ایک رول کے لیے منتخب کر لیا۔ چنانچہ رائے بہادر چونی لال نے فوراً اس سے ایک فلم کا کنٹریکٹ معمولی سی ماہانہ تنخواہ پر کر لیا۔

    اب پارو ہر روز اسٹوڈیو آنے لگی۔ بہت ہنس مکھ اور گُھلو مٹھو ہو جانے والی طوائف تھی۔ میرٹھ اس کا وطن تھا جہاں وہ شہر کے قریب قریب تمام رنگین مزاج رئیسوں کی منظورِ نظر تھی۔ ہزاروں میں کھیلتی تھی، پر اسے فلموں میں آنے کا شوق تھا چنانچہ یہ شوق اسے کھینچ کر فلمستان میں لے آیا۔

    (سعادت حسن منٹو کے قلم سے)

  • مرزا نوشہ اور چودھویں

    مرزا نوشہ اور چودھویں

    مرزا غالب اپنے دوست حاتم علی مہر کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں، ’’مغل بچے بھی عجیب ہوتے ہیں کہ جس پر مرتے ہیں اس کو مار رکھتے ہیں، میں نے بھی اپنی جوانی میں ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھا تھا۔‘‘

    سنہ بارہ سو چونسٹھ ہجری میں مرزا غالب چوسر کی بدولت قید ہوئے۔ اس واقعہ کے بارے میں ایک فارسی خط میں لکھتے ہیں، ’’کوتوال دشمن تھا اور مجسٹریٹ ناواقف، فتنہ گھات میں تھا اور ستارہ گردش میں، باوجودیکہ مجسٹریٹ کوتوال کا حاکم تھا، میرے معاملے میں کوتوال کا ماتحت بن گیا۔ اور میری قید کا حکم سنا دیا۔‘‘

    افسانہ نگار کے لیے یہ چند اشارے مرزاغالب کی رومانی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کافی مدد دے سکتے ہیں۔ رومان کی پرانی مثلث تو ’’ستم پیشہ ڈومنی‘‘ اور ’’کوتوال دشمن تھا‘‘ کے مختصر الفاظ نے ہی مکمل کر دیے ہیں۔ ستم پیشہ ڈومنی سے مرزا غالب کی ملاقات کیسے ہوئی۔ آئیے ہم تصور کی مدد سے اس کی تصویر بناتے ہیں۔

    صبح کا وقت ہے، مرغ اذانیں دے رہے ہیں۔ مرزا نوشہ ہوادار میں بیٹھا ہے جسے چار کہار لیے جا رہے ہیں، مرزانوشہ کے بیٹھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سخت اداس ہے، اداسی کی وجہ یہ ہے کہ اس نے مشاعرے میں اپنی بہترین غزل سنائی مگر حاضرین نے داد نہ دی۔ ایک فقط نواب شیفتہ نے اس کے کلام کو سراہا اور صدر الدین آزردہ نے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا، لیکن بھرے ہوئے مشاعرے میں دو آدمیوں کی داد سے کیا ہوتا ہے، مرزا نوشہ کی طبیعت اور بھی زیادہ مکدر ہوگئی تھی جب لوگوں نے ذوق کے کلام کو صرف اس لیے پسند کیا کیونکہ وہ بادشاہ کا استاد تھا۔

    مشاعرہ جاری تھا مگر مرزا نوشہ اٹھ کر چلا آیا۔ وہ اور زیادہ کوفت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ مشاعرے سے باہر نکل کر وہ ہوا دار میں بیٹھا، کہاروں نے پوچھا، ’’حضور! کیا گھر چلیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ نے کہا، ’’نہیں! ہم ابھی کچھ دیر سیر کریں گے۔ ایسے بازاروں سے لے چلو جو سنسان پڑے ہوں۔‘‘ کہار بہت دیر تک مرزا نوشہ کو اٹھائے پھرتے رہے، جس بازا سے بھی گزرتے وہ سنسان تھا، چودھویں کا چاند ڈوبنے کے لیے نیچے جھک گیا تھا۔ اس کی روشنی اداس ہوگئی تھی۔ ایک بہت ہی سنسان بازار سے ہوا دار گزر رہا تھا کہ دور سے سارنگی کی آواز آئی۔ بھیرویں کے سُر تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد کسی عورت کے گانے کی تھکی ہوئی آواز سنائی دی، مرزا نوشہ چونک پڑا۔ اسی کی غزل کا ایک مطلع بھیرویں کے سروں پر تیر رہا تھا،

    نکتہ چیں ہے، غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
    کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

    آواز میں درد تھا، جوانی تھی لیکن یہ مطلع ختم ہوتے ہی آواز ڈوب گئی۔

    دور ایک کوٹھے پر ملکہ جان جماہیاں لے رہی ہے۔ چاندنی بچھی ہوئی ہے، جس کی سلوٹوں سے اور موتیا اور گلاب کی بکھری اور مسلی ہوئی پتیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ناچ کی محفل کو ختم ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔ ملکہ جان نے ایک لمبی جماہی لی اور اپنا ضعیف بدن جھٹک کر اپنی سانولی سلونی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں والی نوچی سے جو گاؤ تکیے پر سر رکھے اپنی گاودم انگلیاں چٹخا رہی تھی کہا، ’’مومن ہے، شیفتہ ہے، آزردہ ہے، استاد شاہ ذوق ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کل کے اس مبتدی شاعر غالب کے کلام میں کیا دھرا ہے کہ جب نہ تب تو اسی کی غزل گائے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں چمک پیدا ہوگئی۔ ایک سرد آہ بھر کر اس نے کہا،

    دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

    ملکہ جان نے پہلے سے بھی زیادہ لمبی جماہی لی اور کہا، ’’بھئی اب سو بھی چکو۔ بہت راہ دیکھی جمعدار حشمت خاں کی۔‘‘

    شوخ چشم نوچی نے انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر بازو اوپر لے جا کر ایک جماہی لیتے ہوئے کہا، ’’بس اب آتے ہی ہوں گے۔ میں نے تو ان سے کہا تھا مرزا غالب کے آگے سے جوں ہی شمع ہٹے وہ ان کی غزل کی نقل لے کر چلے آئیں۔‘‘ ملکہ جان نے برا سامنہ بنایا، ’’اس نگوڑے مرزا غالب کے لیے اب تو اپنی نیند بھی حرام کرے گی۔‘‘ نوچی مسکرائی۔ سامنے فدن میاں سارنگی پر ٹھوڑی ٹکائے پنک میں اونگھ رہا تھا۔ نوچی نے طنبورہ اٹھایا اور اس کے تار ہولے ہولے چھیڑنا شروع کیے، پھر اس کے حلق سے خود بخود شعر راگ بن کر نکلنے لگے۔

    نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے
    کیا بنے بات جہاں بات بنائے نے بنے

    فدن میاں ایک دم چونکا۔ آنکھیں مندی رہیں، لیکن سارنگی کے تاروں پر اس کا گز چلنے لگا۔

    میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
    اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

    گانے والی کی تسکین نہ ہوئی چنانچہ اس نے شعر کو یوں گانا شروع کیا،

    میں بلاتی تو ہوں اس کو مگر اے جذبۂ دل
    ان پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے

    ملکہ جان ایک دم چونکی۔ اس نے نوچی کو اشارہ کیا، وہ بھی چونک پڑی، سامنے دہلیز میں مرزا نوشہ تھا۔ ملکہ جان فوراً اٹھی اور تسلیمات بجائی، نوچی نے بھی اٹھ کر کھڑے قدم تعظیم دی، یہ جان کر کہ شہر کے کوئی رئیس ہیں، ملکہ استقبال کے لیے آگے بڑھی، ’’آئیے، آئیے، تشریف لائیے، زہے قسمت کہ آپ ایسے رئیس مجھ غریب کو سرفراز فرمائیں۔ آپ کے آنے سے میرا گھر روشن ہوگیا۔‘‘

    مرزا نوشہ نے حسنِ ملیح کے نادر نمونے کی طرف دیکھا، نوچی نے جھک کر کہا، ’’آئیے ادھر مسند پر تشریف رکھیے۔‘‘ مرزا نوشہ ذرا رک کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، ’’تمہارا گلا بہت سریلا ہے اور تمہاری آواز میں درد ہے، نہ جانے کیوں بے کھٹک اندر چلا آیا۔ کیا تمہارا نام پوچھ سکتا ہوں؟‘‘

    نوچی نے پاس ہی بیٹھتے ہوئے کہا، ’’جی! مجھے چودھویں کہتے ہیں۔‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’یعنی آج کی رات۔‘‘ چودھویں مسکرا دی، مرزا نوشہ نے کہا، ’’بھئی خوب گاتی ہو۔‘‘ چودھویں نے حسبِ دستور جواب دیا، آپ مجھے بنا رہے ہیں۔‘‘

    مرزا نوشہ کو مذاق سوجھا، ’’بنائی ترکاری سبزی جاتی ہے تم کو تھوڑا ہی بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ چودھویں کو کچھ جواب دینا ہی تھا، چنانچہ اس نے کہا، ’’خوب! خوب! یہ بھی خوب! میں بنی بنائی ہوں، اللہ نے مجھے بنایا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے اسی لہجے میں کہا ’’اللہ نے سبھی کو بنایا ہے، پر تم بنی ابھی، نئی بنی ہو۔‘‘

    چودھویں کے سانولے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کے چمکیلے دانت موتیوں کی طرح چمکے۔ مرزا نوشہ نے فرمائش کی، ’’ضلع جگت کی چھوڑو اور ذرا پھر وہی غزل گاؤ، نامعلوم کس کی غزل ہے۔۔۔ نکتہ چیں ہے غم دل۔۔۔ ہاں ذرا شروع کرو۔‘‘

    چودھویں کو فرمائش کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ چنانچہ اس نے ذرا تنک کر کہا، ’’یہ غزل غالب کی ہے اور غالب کا سمجھنا کوئی سہل نہیں۔‘‘ مرزا نوشہ نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’سمجھے تو کوئی پختہ کار سمجھے، آپ ایسے نوجوان کیا سمجھیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’بھاؤ بتا کر گاؤ تو کچھ بھاؤ کے انگوں سے شاید سمجھ لوں۔‘‘ اب چودھویں کو جگت سوجھی، پھلکی سی ناک چڑھا کر کہا، ’’بھاؤ کا بھاؤ مہنگا پڑ جائے گا۔‘‘ مرزا نوشہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوگیا، پھر چودھویں سے مخاطب ہوا، ’’آپ کو غالب کا کلام بہت پسند ہے۔‘‘ چودھویں نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘

    ملکہ جان جو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی مرزا نوشہ سے مخاطب ہوئی، ’’حضور! کئی بار سمجھا چکی ہوں اسے کہ ذوق ہے، مومن ہے، نصیر ہے، شیفتہ ہے۔ سب مانے ہوئے استاد ہیں، پَر نہ جانے اسے اس عطائی شاعر غالب میں کیا خاص بات نظر آتی ہے کہ آپ مومن کی فرمائش کریں گے اور یہ غالب شروع کردے گی۔‘‘

    مرزا نوشہ نے مسکرا کر چودھویں کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ایسی کوئی خاص بات ہو گی؟‘‘

    چودھویں سنجیدہ ہوگئی، ’’یہ تو وہی سمجھے جسے لگی ہو۔‘‘

    مرزا نوشہ نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا، ’’کیا میں سن سکتا ہوں وہ آپ کے دل کی لگی کیا ہے؟‘‘

    چودھویں نے سرد آہ بھری۔ ’’نہ پوچھیے کہاں میں ایک غریب ڈومنی، کہاں غالب! جانے دیجیے اس بات کو، کہیے آپ کس کی غزل سنیں گے؟‘‘ مرزا نوشہ مسکرایا، ’’غالب کی، اور کہیے تو میں آپ کو غالب کے پاس لے چلوں، چودھویں کا چاند برج اسد میں طلوع ہو جائے۔‘‘ چودھویں اس کا مطلب نہیں سمجھی، ’’مجھ ایسی کو وہ کیا پوچھیں گے۔ خاک ہو جائیں گے ہم ان کو خبر ہونے تک۔‘‘

    مشاعرے میں مرزا نوشہ کو جو کوفت ہوئی تھی اب بالکل دور ہوچکی تھی، اس کے سامنے سانولے سلونے رنگ کی موٹی موٹی آنکھوں والی ایک لڑکی بیٹھی تھی جس کو اس کے کلام سے بے حد محبت تھی۔ یہ کیوں اور کیسے پیدا ہوئی، مرزا نوشہ بہت دیر تک باتیں کرنے کے باوجود بھی نہ جان سکا۔ آخر میں مرزا نوشہ نے اس سے پوچھا، ’’کیا تم نے غالب کو کبھی دیکھا ہے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ چودھویں نے جواب دیا۔ مرزا نوشہ نے کہا، ’’میں انھیں جانتا ہوں بہت ہی بگڑے رئیس ہیں، تم چاہو تو میں انھیں لا سکتا ہوں یہاں۔‘‘ چودھویں کا چہرہ تمتما اٹھا، ’’سچ؟‘‘ مرزا نے کہا، ’’میں کوشش کروں گا۔‘‘

    اور یہ کہہ کر جیب سے ایک کاغذ نکالا، ’’میرا کلام سنو گی؟‘‘ چودھویں نے رسمی طور پر کہا، ’’سنائیے۔۔۔ ارشاد!‘‘ مرزا نوشہ نے مسکرا کر کاغذ کھولا، ’’یوں تو میں بھی شعر کہتا ہوں پر تمہیں تو غالب کے کلام سے محبت ہے، میرا کلام تمہیں کیا پسند آئے گا۔‘‘ چودھویں نے پھر رسمی طور پر کہا، ’’جی نہیں، کیوں پسند نہ آئے گا، آپ ارشاد فرمائیے۔‘‘

    مرزا نوشہ نے ابھی اس کاغذ کے دو ہی شعر سنائے ہوئے ہوں گے جو اس نے مشاعرے میں پڑھی تھی کہ چودھویں نے ٹوک کر پوچھا، ’’آپ اس مشاعرے میں شریک تھے جو مفتی صدرالدین آزردہ کے یہاں ہو رہا تھا؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا، ’’غالب تھے؟‘‘ مرزا نوشہ نے جواب دیا، ’’جی ہاں۔‘‘ چودھویں نے اور زیادہ اشتیاق سے کہا، ’’کوئی ان کی غزل کا شعر یاد ہو تو سنائیے۔‘‘ مرزا نوشہ نے افسوس ظاہر کیا اور کہا کہ ’’اس وقت کوئی یاد نہیں آرہا ہے۔‘‘

    اس نے اب مذاق کو زیادہ طول نہ دینا چاہا۔ ایک گلوری چودھویں کے ہاتھ کی بنی ہوئی لی، خاص دان میں ایک اشرفی رکھی اور رخصت چاہی۔

    کوٹھے سے نیچے اترا تو سیڑھیوں کے پاس مرزا نوشہ کی مڈ بھیڑ جمعدار حشمت خاں سے ہوئی جو مشاعرے سے واپس آ رہا تھا۔ حشمت خاں اس کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا، ’’مرزا نوشہ! آپ یہاں کہاں؟‘‘ مرزا نوشہ خاموش رہا، حشمت خاں نے معنی خیز انداز میں کہا، ’’تو یہ کہیے کہ آپ کا بھی اس وادی میں کبھی کبھی گزر ہوتا ہے۔‘‘ مرزا نوشہ نے مختصر سا جواب دیا، ’’فقط آج اور وہ بھی اتفاق سے۔ خدا حافظ۔‘‘

    یہ کہہ کر وہ ہوا دار میں بیٹھ گیا، حشمت خاں اوپر گیا تو چودھویں دیوانہ وار اس کی طرف بڑھی، ’’کہیے غالب کی غزل لائے؟‘‘

    حشمت خاں کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کہے۔ غزل کا کاغذ جیب سے نکالا اور بڑبڑایا، ’’لایا ہوں۔۔۔ لو۔‘‘ چودھویں نے پُر اشتیاق ہاتھوں سے کاغذ لیا تو حشمت خاں نے ذرا لہجے کو سخت کرتے ہوئے کہا، ’’پر غالب تو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اتر کر گئے، یہ ماجرا کیا ہے؟‘‘ چودھویں چکرا سی گئی۔

    ’’غالب؟ میرے کوٹھے پر! ابھی ابھی اتر کر گئے! مجھے دیوانہ بنا رہے ہو۔ میرا کوٹھا کہاں۔۔۔ غالب کہاں؟‘‘

    جمعدار نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر کہا، ’’واقعی! سچ کہتا ہوں وہ غالب تھے جو ابھی ابھی تمہارے کوٹھے سے اترے۔‘‘ چودھویں اور زیادہ چکرا گئی، ’’جھوٹ؟‘‘

    ’’نہیں چودھویں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘

    چودھویں نے پاگلوں کی طرح حشمت خاں کو دیکھنا شروع کیا، ’’میری جان کی قسم غالب تھے؟ جھوٹ! مجھ کو بنا رہے ہو۔ اللہ! سچ کہو غالب تھے؟‘‘ حشمت خاں بھنا گیا، ’’ارے تمہاری ہی جان کی قسم غالب تھے۔ مرزا اسد اللہ خاں غالب جو مرزا نوشہ کے نام سے مشہور ہیں اور جو اسد بھی تخلص کرتے ہیں۔‘‘ چودھویں بھاگی ہوئی کھڑکی کی طرف گئی، ’’ہائے میں مرگئی! غالب تھے!‘‘ نیچے جھانک کر دیکھا مگر بازار خالی تھا، ’’میرا ستیا ناس ہو! میں نے ان کی خاطر مدارات بھی نہ کی۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے غزل کا کاغذ کھول کر دیکھا اور سَر پیٹ لیا، ’’اللہ! یہ خواب ہے یا بیداری، سچ ہے۔ تو وہ غالب ہی تھے سو میں غالب ہزار میں غالب تھے۔ جمعدار صاحب! سچ کہا آپ نے وہ ضرور غالب تھے۔ ہائے! میں نے ان سے کہا آپ غالب کے کلام کو کیا سمجھیں گے۔ میں مر جاؤں۔۔۔ بھلا وہ کیا دل میں کہتے ہوں گے۔ ہائے کیسی میٹھی میٹھی باتیں کر رہے تھے۔ اُف! نہ معلوم کیا کیا ان سے کہہ گئی؟‘‘

    یہ کہتے کہتے اس نے غزل کا کاغذ منہ پر پھیلا لیا اور رونے لگی۔

    (از: سعادت حسن منٹو)

  • بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    بے خبری کا فائدہ (مختصر کہانی)

    اردو کے نام ور ادیب اور مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی مختصر کہانیاں (افسانچے) تقسیمِ ہند اور اس سے جڑے ان واقعات کی عکاس ہیں جو بربریت، دہشت، طاقت، جنون، وحشت، اختیار، بے حسی، سفاکی اور دوسری جانب مجبوری و بے بسی، غربت و افلاس اور خوف کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔

    یہ ایک ایسی ہی کہانی ہے جو جنون، ڈر اور خوف کے ساتھ درندہ صفت انسان کی نفسیاتی کیفیت کی عکاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    لبلبی دبی۔ پستول سے جھنجھلا کر گولی باہر نکلی۔ کھڑکی میں سے باہر جھانکنے والا آدمی اسی جگہ دہرا ہوگیا۔

    لبلبی تھوڑی دیر کے بعد پھر دبی۔ دوسری گولی بھنبھناتی ہوئی باہر نکلی۔ سڑک پر ماشکی کی مشک پھٹی۔ اوندھے منہ گرا اور اس کا لہو مشک کے پانی میں حل ہوکر بہنے لگا۔

    لبلبی تیسری بار دبی۔ نشانہ چوک گیا۔ گولی ایک گیلی دیوار میں جذب ہوگئی۔

    چوتھی گولی ایک بوڑھی عورت کی پیٹھ میں لگی۔ وہ چیخ بھی نہ سکی اور وہیں ڈھیر ہوگئی۔

    پانچویں اور چھٹی گولی بیکار ہوگئی۔ کوئی ہلاک ہوا نہ زخمی۔

    گولیاں چلانے والا بھنا گیا۔ دفعتا سڑک پر ایک چھوٹا سا بچہ دوڑتا دکھائی دیا۔

    گولیاں چلانے والے نے پستول کا منہ اس طرف موڑا۔ اس کے ساتھی نے کہا، ’’یہ کیا کرتے ہو؟‘‘

    گولیاں چلانے والے نے پوچھا، ’’کیوں؟‘‘

    ’’گولیاں تو ختم ہوچکی ہیں۔‘‘

    ’’تم خاموش رہو۔ اتنے سے بچّے کو کیا معلوم؟‘‘

  • ایکٹنگ

    ایکٹنگ

    ایکٹنگ یا کردار نگاری اس فن کا نام ہے، جس کے ذریعے سے مختلف انسانوں کے جذبات و محسوسات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    مصوّری، سنگ تراشی، شاعری، افسانہ نویسی اور موسیقی کی طرح کردار نگاری کو بھی فنونِ لطیفہ میں شمار کیا جاتا ہے، گو بعض منکر اس سے اختلاف بھی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام لوگ جو روس کے مشہور معلّمِ اخلاق مصنّف ٹالسٹائی کے مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، اسٹیج اور اسکرین کو آرٹ کی شاخ تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہوں گے۔ فنونِ لطیفہ کے متعلق ٹالسٹائی کا نظریہ قریب قریب ہر مفکر کے نظریے سے جداگانہ ہے۔

    وہ غایت درجہ حقیقت پسند تھا اور چوں کہ اسٹیج اور اسکرین پر حقیقت بہت کم نظر آتی ہے، اسی لیے اس کے نظریے کے مطابق فلم اور اسٹیج پر کھیلے ہوئے ناٹک آرٹ سے بہت دور ہیں۔ اپنا اپنا خیال ہے۔

    کردار نگاری کا فنِ افسانہ گوئی کی طرح ہبوطِ آدم سے چلا آ رہا ہے۔ دوسرے کے دل پر بیتے ہوئے واقعات بیان کرنا اور کسی دوسرے قلب کی گہرائیوں کا اظہار کرنا کردار نگاری ہے۔

    جب آپ کا چھوٹا بھائی یا کمسن بچّہ رات کو سوتے وقت آپ کو بتاتا ہے کہ کس طرح اس کی دادی امّاں چوہے سے ڈر کر غسل خانے میں چھپ گئیں اور مارے خوف کے ان کا سارا جسم کانپنے لگا تو اس وقت دراصل وہ ایک ایکٹر کے فرائض ادا کر رہا تھا، اگر اس بچّے کی قوتِ بیان کم زور نہیں اور وہ آپ پر اپنی دادی اماں پر بیتے ہوئے واقعات کو اس طرح بیان کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے کہ آپ اپنے سامنے ایک تصویر سی دیکھنے لگتے ہیں اور آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی آپ کی آنکھوں کے سامنے بچّے کی دادی اماں فرطِ خوف سے تھر تھر کانپ رہی ہیں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ بچّہ ایک کام یاب ایکٹر ہے اور اس کے اظہار میں تعدیہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

    فلموں میں یہی چیز بڑے پیمانے پر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہاں آپ کے چھوٹے بھائی یا کمسن بچّے نے صرف اپنے دل کی خواہش کی بنا پر اپنی دادی اماں کی کیفیت بیان کی تھی اور یہاں کئی بچّے، جوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد جمع ہو کر ایک کہانی سن کر کسی کے کہنے پر آپ لوگوں کو سنا دیتے ہیں۔

    یہ فرق بظاہر معمولی ہے، مگر چوں کہ آپ کو بہت سی اندرونی باتیں معلوم نہیں، ا س لیے آپ نہیں جانتے کہ جب آپ کا بچّہ یا بھائی اپنی دادی اماں کی داستان سنا رہا تھا تو اس کو اس امر کے لیے کسی اور شخص نے اکسایا نہیں تھا۔ یہ اکساہٹ خودبخود اس کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔

    اس کے برعکس فلم بنانے سے پہلے ہر ایکٹر کے ہاتھ میں اس کا پارٹ دے دیا جاتا ہے اور یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس کو بطریقِ احسن نبھائے گا۔


    (معروف ادیب اور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے مضمون ‘ہندوستانی صنعتِ فلم سازی پر ایک نظر’ سے اقتباس)

  • پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    پری چہرہ نسیم بانو جو نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُر وقار دکھائی دیتی تھی

    برصغیر پاک و ہند کی فلمی صنعت میں متعدد اداکارائوں کو ”پری چہرہ‘‘ کا خطاب دیا گیا اور انھوں نے اپنے فنِ اداکاری ہی نہیں حسن و جمال کے سبب بھی لاکھوں دلوں پر راج کیا۔ نسیم بانو بھی ایک ایسی ہی اداکارہ تھیں جنھوں نے فلم پکار میں ملکہ نور جہاں کا کردار نبھایا تھا۔

    نسیم بانو اپنے وقت کی معروف اداکارہ سائرہ بانو کی والدہ اور لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی ساس تھیں۔ اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نسیم بانو سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ان دنوں ایکٹرسوں میں ایک ایکٹرس نسیم بانو خاصی مشہور تھی۔ اس کی خوب صورتی کا بہت چرچا تھا۔ اشتہاروں میں اسے پری چہرہ نسیم کہا جاتا تھا۔ میں نے اپنے ہی اخبار میں اس کے کئی فوٹو دیکھے تھے۔ خوش شکل تھی، جوان تھی، خاص طور پر آنکھیں بڑی پُرکشش تھیں اور جب آنکھیں پرکشش ہوں تو سارا چہرہ پُرکشش بن جاتا ہے۔

    نسیم کے غالباً دو فلم تیار ہو چکے تھے جو سہراب مودی نے بنائے تھے، اور عوام میں کافی مقبول ہوئے تھے۔ یہ فلم میں نہیں دیکھ سکا، معلوم نہیں کیوں؟ عرصہ گزر گیا۔ اب منروا مودی ٹون کی طرف سے اس کے شان دار تاریخی فلم ’’پکار‘‘ کا اشتہار بڑے زوروں پر ہورہا تھا۔ پری چہرہ نسیم اس میں نور جہاں کے روپ میں پیش کی جارہی تھی اور سہراب مودی خود اس میں ایک بڑا اہم کردار ادا کررہے تھے۔

    فلم کی تیاری میں کافی وقت صرف ہوا۔ اس دوران میں اخباروں اور رسالوں میں جو’’اسٹل‘‘ شائع ہوئے بڑے شان دار تھے۔ نسیم، نور جہاں کے لباسِ فاخرہ میں بڑی پُروقار دکھائی دیتی تھی۔

    ’’پکار‘‘ کی نمائشِ عظمیٰ پر میں مدعو تھا۔ جہانگیر کے عدل و انصاف کا ایک من گھڑت قصہ تھا جو بڑے جذباتی اور تھیٹری انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ فلم میں دو باتوں پر بہت زور تھا۔ مکالموں اور ملبوسات پر۔ مکالمے گو غیر فطری اور تھیٹری تھے، لیکن بہت زور دار اور پرشکوہ تھے جو سننے والوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔ چوں کہ ایسا فلم اس سے پہلے نہیں بنا تھا، اس لیے سہراب مودی کا ’’پکار‘‘ سونے کی کان ثابت ہونے کے علاوہ ہندوستانی صنعت فلم سازی میں ایک انقلاب پیدا کرنے کا موجب ہوا۔

    نسیم کی اداکاری کم زور تھی، لیکن اس کم زوری کو اس کے خداداد حسن اور نور جہاں کے لباس نے جو اس پر خوب سجتا تھا، اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا، خیال ہے کہ’’پکار‘‘ کے بعد نسیم غالباً دو تین فلموں میں پیش ہوئی، مگر یہ فلم کام یابی کے لحاظ سے’’پکار‘‘ کا مقابلہ نہ کرسکے۔

    اس دوران میں نسیم کے متعلق طرح طرح کی افواہیں پھیل رہی تھیں۔ فلمی دنیا میں اسکینڈل عام ہوتے ہیں۔ کبھی یہ سننے میں آتا تھا کہ سہراب مودی، نسیم بانو سے شادی کرنے والا ہے۔ کبھی اخباروں میں یہ خبر شائع ہوتی تھی کہ نظام حیدر آباد کے صاحب زادے معظم جاہ صاحب نسیم بانو پر ڈورے ڈال رہے ہیں اور عنقریب اسے لے اڑیں گے۔

    میں اب فلمی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔

    اس دوران میں ایک اعلان نظروں سے گزرا کہ کوئی صاحب احسان ہیں۔ انہوں نے ایک فلم کمپنی تاج محل پکچرز کے نام سے قائم کی ہے۔ پہلا فلم ’’اجالا‘‘ ہوگا جس کی ہیروئن پری چہرہ نسیم بانو ہے۔

    کہانی معمولی تھی، موسیقی کم زور تھی، ڈائریکشن میں کوئی دم نہیں تھا۔ چناں چہ یہ فلم کام یاب نہ ہوا اور احسان صاحب کو کافی خسارہ اٹھانا پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا مگر اس کاروبار میں وہ اپنا دل نسیم بانو کو دے بیٹھے۔

    ایک دن ہم نے سنا کہ پری چہرہ نسیم نے مسٹر احسان سے دلّی میں شادی کرلی ہے اور یہ ارادہ ظاہر کیا ہے کہ وہ اب فلموں میں کام نہیں کرے گی۔

    نسیم بانو کے پرستاروں کے لیے یہ خبر بڑی افسوس ناک تھی۔ اس کے حسن کا جلوہ کیوں کہ صرف ایک آدمی کے لیے وقف ہوگیا تھا۔

    نسیم بانو کو تین چار مرتبہ میک اپ کے بغیر دیکھا تو میں نے سوچا، آرائشِ محفل کے لیے اس سے بہتر عورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ وہ جگہ، وہ کونا جہاں وہ بیٹھتی یا کھڑی ہوتی ایک دم سج جاتا۔

    لباس کے انتخاب میں وہ بہت محتاط ہے اور رنگ چننے کے معاملے میں جو سلیقہ اور قرینہ میں نے اس کے یہاں دیکھا ہے اور کہیں نہیں دیکھا۔ زرد رنگ بڑا خطرناک ہے کیوں کہ زرد رنگ کے کپڑے آدمی کو اکثر زرد مریض بنا دیتے ہیں، مگر نسیم کچھ اس بے تکلفی سے یہ رنگ استعمال کرتی تھی کہ مجھے حیرت ہوتی تھی۔ نسیم کا محبوب لباس ساڑی ہے، غرارہ بھی پہنتی ہے، مگر گاہے گاہے۔

    نسیم کو میں نے بہت محنتی پایا۔ بڑی نازک سی عورت ہے، مگر سیٹ پر برابر ڈٹی رہتی تھی۔ ‘