Tag: سعادت حسن منٹو

  • ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے، کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    میں بمبئی ٹاکیز میں ملازم تھا۔ ان دنوں کمال امروہی کی فلمی کہانی’حویلی‘ ( جو ’محل‘ کے نام سے فلمائی گئی) کی تشکیل و تکمیل ہو رہی تھی۔ اشوک، واچا، حسرت (لکھنوی) اور میں سب ہر روز بحث و تمحیص میں شامل ہوتے تھے۔ ان نشستوں میں کام کے علاوہ کبھی کبھی خوب زوروں پر گپ بھی چلتی تھی، ایک دوسرے سے مذاق ہوتے۔

    شیام کو جب فلم’مجبور‘ کی شوٹنگ سے فراغت ہوتی تو وہ بھی ہماری محفل میں شریک ہو جاتا۔ کمال امروہی کو عام گفتگو میں بھی ٹھیٹھ قسم کے ادبی الفاظ استعمال کرنے کی عادت ہے۔ میرے لیے یہ ایک مصیبت ہو گئی تھی، اس لیے اگر میں عام فہم انداز میں کہانی کے متعلق اپنا کوئی نیا خیال پیش کرتا تو اس کا اثر کمال پر پوری طرح نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس اگر میں زور دار الفاظ میں اپنا عندیہ بیان کرتا تو اشوک اور واچا کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ چناں چہ میں ایک عجیب قسم کی ملی جلی زبان استعمال کرنے لگا۔

    ایک روز صبح گھر سے بمبئی ٹاکیز آتے ہوئے میں نے اخبار کا اسپورٹس کالم کھولا۔ بڑے برن اسٹیڈیم میں کرکٹ میچ ہورہے تھے۔ ایک کھلاڑی کا نام عجیب و غریب تھا، ’’ہیپ ٹلا۔۔۔‘‘ ایچ، ای، پی، ٹی، یو، ایل، ایل، ایچ، اے۔۔۔ ہیپ ٹلا۔۔۔ میں نے بہت سوچاکہ آخر یہ کیا ہو سکتا ہے مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ شاید ہیبت اللہ کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔

    اسٹوڈیو پہنچا تو کمال کی کہانی کی فلمی تشکیل کا کام شروع ہوا۔ کمال نے اپنے مخصوص ادیبانہ اور اثر پیدا کرنے والے انداز میں کہانی کا ایک باب سنایا۔ مجھ سے اشوک نے رائے طلب کی، ’’کیوں منٹو؟‘‘

    معلوم نہیں کیوں، میرے منہ سے نکلا، ’’ٹھیک ہے، مگر ہیپ ٹلا نہیں!‘‘

    بات کچھ بن ہی گئی، ’’ہیپ ٹلا‘‘ میرا مطلب بیان کر گیا۔ میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ سیکونس زور دار نہیں ہے۔

    کچھ عرصے کے بعد حسرت نے اسی باب کو ایک نئے طریقے سے پیش کیا۔ میری رائے پوچھی گئی تو میں نے اب کی دفعہ ارادی طور پر کہا، ’’بھئی حسرت بات نہیں بنی۔ کوئی ہیپ ٹلا چیز پیش کرو، ہیپ ٹلا۔‘‘ دوسری مرتبہ ہیپ ٹلا کہہ کر میں نے سب کی طرف رد عمل معلوم کرنے کے لیےدیکھا۔ یہ لفظ اب معنی اختیار کر چکا تھا۔

    چناں چہ اس نشست میں بلاتکلف میں نے اسے استعمال کیا۔ ہپ ٹلیٹی نہیں۔ ہپ ٹولائز کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اچانک اس بار اشوک مجھ سے مخاطب ہوا، ’’ہیپ ٹلا کا اصل مطلب کیا ہے؟ کس زبان کا لفظ ہے؟‘‘

    شیام اس وقت موجود تھا۔ جب اشوک نے مجھ سے یہ سوال کیا، اس نے زور کا قہقہہ لگایا، اس کی آنکھیں سکڑ گئیں۔ ٹرین میں وہ میرے ساتھ تھا جب میں نے کرکٹ کے کھلاڑی کے اس عجیب و غریب نام کی طرف اس کو متوجہ کیا تھا، ہنس ہنس کے دہرا ہوتے ہوئے اس نے سب کو بتایا کہ یہ منٹو کی نئی منٹویت ہے۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہیپ ٹلا کو کھینچ کر فلمی دنیا میں لے آیا، مگر کھینچا تانی کے بغیر یہ لفظ بمبے کے فلمی حلقوں میں رائج ہوگیا۔

  • نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ہم عصروں میں کئی نام وَر ہوئے، نہایت قابل اور باصلاحیت، تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب و شاعر منٹو کے رفیق اور ہم کار بھی رہے، مگر منٹو نے اپنی الگ راہ نکالی اور اپنی تخلیقات کے سبب پہچانے گئے۔

    منٹو کے افسانے، مضامین، ان کے خاکے صرف پڑھے نہیں جاتے بلکہ آج بھی ان کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ منٹو نے حقیقتوں، سچائیوں اور تلخیوں کو بیان کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی۔ سماج کے ہر روپ کو قارئین کے سامنے لانے سے گریز نہیں‌ کیا۔

    آج اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا یوم وفات ہے۔ منٹو 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی اور قلمی سفر کا آغاز لاہور کے رسائل سے وابستہ ہوکر کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں ڈرامے اور فیچر لکھے جو کام یاب ہوئے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسائل کی ادارت کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھنے کا آغاز کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے جہاں 18 جنوری 1955ء کو جگر کے عارضے کے باعث انتقال کیا۔

    منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھیں جنس نگاری اور تقسیم کے وقت کے فسادات کو اپنے افسانوں میں‌ ڈھالنے کی وجہ سے خوب شہرت ملی اور جہاں ان کی کہانیاں پسند کی گئیں، وہیں فحش نگاری کا الزام بھی لگا۔ لیکن منٹو کی حقیقت پسندی، جرأت و بے باکی ادیبوں کے لیے مثال بھی بنی۔

    منٹو کی چند تصاویر دیکھیے۔افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    بات بات پر اڑنے اور لڑنے والا ادیب

    منٹو کی باتیں بڑی دل چسپ ہوتی تھیں۔ انھیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں، اس لیے وہ اپنے آگے کسی کو گردانتے نہ تھے۔

    ذرا کسی نے دُون کی لی اور منٹو نے اڑ لگایا، خرابیِ صحّت کی وجہ سے منٹو کی طبیعت کچھ چڑچڑی ہو گئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے جو لوگ ان کے مزاج کو سمجھ گئے تھے، وہ ان سے بات کرنے میں احتیاط برتا کرتے تھے۔

    اُن کا مرض بقول ان کے کسی ڈاکٹر سے تشخیص نہ ہو سکا۔ کوئی کہتا دق ہے، کوئی کہتا معدے کی خرابی ہے، کوئی کہتا جگر کا فعل کم ہو گیا ہے، اور ایک ستم ظریف نے کہا کہ تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اور انتٹریاں بڑی ہیں، مگر منٹو ان سب بیماریوں سے بے پروا ہو کر ساری بد پرہیزیاں کرتا رہا۔

    منٹو کی زبان پر ’’فراڈ‘‘ کا لفظ بہت چڑھا ہوا تھا۔ میرا جی کے ہاتھ میں دو لوہے کے گولے رہتے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ان کا مصرف کیا ہے؟ منٹو نے کہا، فراڈ ہے۔ میرا جی نے سیویوں کے مزعفر میں سالن ڈال کر کھانا شروع کر دیا۔ میں نے کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ منٹو نے کہا ’’فراڈ‘‘۔ اوپندر ناتھ اشکؔ نے کوئی چیز لکھی، منٹو نے کہا فراڈ ہے۔ اُس نے کچھ چیں چیں کی تو کہا ’’تُو خود ایک فراڈ ہے۔‘‘

    ("سعادت حسن منٹو کی یاد میں” از شاہد احمد دہلوی)

  • منٹو  کی "بکواس” پر حسرت کی برہمی

    منٹو کی "بکواس” پر حسرت کی برہمی

    میں نے صبح اخباروں میں دیکھا کہ حسرت صاحب (چراغ حسن حسرت) کے صحت یاب ہونے کی خوشی میں اردو ادب کے اور مولانا کے دوست وائی۔ ایم۔ سی۔ اے میں ایک جلسہ کررہے تھے۔ حسرت صاحب سے چوں کہ مجھے عقیدت ہے اور میں جانتا ہوں کہ وہ مجھے اپنا عزیز سمجھتے ہیں، اس لیے میں نے اپنا فرض سمجھا کہ ان کے بارے میں جو میرے احساسات ہیں، قلم بند کروں اور اس جلسے میں حاضرین کو پڑھ کر سناؤں۔

    ریڈیو اسٹیشن سے میں سیدھا وائی، ایم، سی، اے پہنچا۔ ہال میں سو ڈیڑھ سو آدمی تھے۔

    میں نے ایک نظر حسرت صاحب کی طرف دیکھا۔ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ویسی کی ویسی تھیں، مگر بے حد لاغر تھے۔ پھولوں کے ہاروں سے لدے پھندے ایک ایسے بوڑھے دولھا دکھائی دے رہے تھے جنہیں پانچویں، چھٹی شادی کرانے کا شوق چڑھ آیا ہو۔

    بہرحال میں نے دل ہی دل میں اس بات کا افسوس کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کی شدید علالت کے دوران میں عیادت کے لیے نہ گیا، اپنا مضمون پڑھنا شروع کیا۔

    حسرت صاحب اپنے موڈ میں نہیں تھے، شاید تعریفوں کی بھرمار اور پھولوں کے بوجھ سے ان کی طبیعت مکدر ہو چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس سعادت مند کے احساسات کو بھی جو کافی بے تکلف تھے، گوارا نہ کیا۔ جب میں ایک صفحہ پڑھ چکا تھا تو انہوں نے مجھے اور صاحبِ صدر کو مخاطب کرکے کہنا شروع کیا کہ یہ کیا بکواس ہے؟؟؟

    بکواس تو میں عام کرتا ہوں، لیکن جہاں تک حسرت صاحب کا تعلق ہے، ان کے متعلق میں کبھی بکواس نہیں کرتا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ میں نے ان کے کردار و اطوار کے متعلق چند ایسی باتیں اپنے ٹھیٹ افسانوی مگر صاف گو انداز میں بیان کردی ہیں جو ان کی طبعِ نازک پر بار گزری ہوں لیکن میرے پھکڑ پن کے پیشِ نظر اور اس محبت کو سامنے رکھتے ہوئے جو مجھے ان سے ہے اور یقیناً ان کو بھی ہے، مجھے معاف کر دینا چاہیے تھا۔

    جب میں نے دیکھا کہ ان کی خفگی زیادہ شدت اختیار کر گئی ہے تو میں نے صاحبِ صدر سے کہا۔

    ’’اگر حسرت صاحب چاہیں تو اپنا مضمون پڑھنا بند کر دیتا ہوں۔‘‘ مگر انہوں نے ارشاد فرمایا کہ’’نہیں مضمون پڑھنا جاری رکھو۔‘‘

    سخت گرمی تھی، کچھ حسرت صاحب کے مزاج کی بھی۔ میں پسینے میں شرابور تھا۔ مضمون ختم ہوا تو میں نے حسرت صاحب کے پاس فرش پر بیٹھ کر معذرت چاہی، لیکن اس وقت وہ در گزر کرنے یا میرے احساسات کے خلوص کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ میں نے کہا، ہٹاؤ یہ شخص اگر نہیں مانتا تو نہ مانے اور اسٹیج سے اتر کر مصور پاکستان جناب عبدالرحمن چغتائی صاحب کے پاس بیٹھ گیا۔ انہوں نے کمال شفقت سے میرا تکدر دور کیا۔ اس کے بعد میں وہاں سے چلا گیا۔

    دوسرے روز سننے میں آیا کہ سعادت حسن منٹو کی وائی، ایم سی، اے میں حجامت ہوتے ہوتے رہ گئی کیوں کہ حسرت صاحب کے مداحوں کو میری ہرزہ سرائی بالکل پسند نہیں آئی تھی۔ ایک بیان یہ بھی ہے کہ وہاں کچھ مداح میرے بھی تھے جو ہر اس شخص کی حجامت کرنے کے لیے تھے جو میری حجامت پر آمادہ ہوتا۔ اگر یہ دونوں باتیں درست ہیں تو مزہ آجاتا ہے۔ اس جلسے میں جتنے بھی اصحاب تھے، ان کی مفت میں حجامت ہو جاتی اور میں تو چچا غالب کا یہ شعر پڑھ کر ان تمام حجاموں کو سناتا۔

    ہوسِ گل کا تصور میں بھی کھٹکا نہ رہا
    عجب آرام دیا اس بے پر و بالی نے مجھے

    یہ ایک ایسی بات ہے جس کے متعلق بہت کچھ کہا سُنا جاسکتا ہے۔ حسرت صاحب کی تقدیس کسی ولی یا پیغمیر کی تقدیس نہیں ہوسکتی۔ ان کی شخصیت سے ان کی صحافت نگاری اور مزاح نویسی ہی سے کسی کو عقیدت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس طرح مجھے کئی لوگ محض باتیں بنانے والا سمجھتے ہیں اور افسانہ نگار نہیں مانتے، ان کو بھی چند لوگ محض ایک کالم نگار سمجھتے ہوں مگر اس میں خفا ہونے کیا بات ہے۔

    (سعادت حسن منٹو کے مضمون سے اقتباس)

  • ہجرت اور فسادات کے موضوع پر مشہور ادیبوں کی پُراثر تخلیقات

    ہجرت اور فسادات کے موضوع پر مشہور ادیبوں کی پُراثر تخلیقات

    تقسیمِ ہند اور اس موقع پر لاکھوں انسانوں کی ہجرت ایک ایسا موضوع ہے جس پر اردو ادب میں‌ کئی ایسی تخلیقات سامنے آئیں جو اُس دور کی سیاسی، معاشی اور سماجی تاریخ کے ساتھ اُس وقت کے حالات کی لفظی جھلکیاں اور عکس ہیں۔

    پاک و ہند کے ادیبوں نے تقسیم اور ہجرت کے موضوع پر کئی افسانے، کہانیاں اور ناول لکھے اور یہ تخلیقات نہایت پُراثر اور درد ناک ہیں۔ برصغیر کی تاریخ اور خاص طور پر تقسیم اور ہجرت کے موضوع میں‌ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے اس حوالے سے چند ادیبوں‌ اور ان کی تخلیقات کا تذکرہ پیش ہے۔

    اردو ادب میں اگر اس دور سے جڑے انسانی المیوں کی حقیقی لفظی جھلکیاں‌ کسی نے پیش کی ہیں‌ تو وہ سعادت حسن منٹو ہیں۔

    اردو کے اس مشہور ادیب کی تحریروں کا مجموعہ ’سیاہ حاشیے‘ ان مختصر کہانیوں پر مشتمل ہے جو ظلم اور ناانصافی کے ماحول کی مؤثر تصویر کشی کرتی ہیں۔

    تقسیم کے پس منظر میں انھوں‌ نے ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جیسا افسانہ لکھا جسے کلاسیک کا درجہ حاصل ہے۔

    پاکستان کے نام ور ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی اس دور کے فسادات کو موضوع بنایا۔

    اسی طرح شوکت صدیقی، ڈاکٹر انور سجاد، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد نے بھی افسانے، کہانیاں اور ناولوں میں‌ تقسیم اور ہجرت کے المیوں، خوشی اور دکھ کی مختلف کہانیاں ہمارے سامنے رکھی ہیں۔

    متحدہ ہندوستان اور اُس سماج کی مختلف شکلیں‌ عبداللہ حسین کے ناول ’اداس نسلیں‘ اور قرۃ العین حیدر کے ’آگ کا دریا‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں جو دراصل ہندوستان کی قدیم تاریخ کے ساتھ ساتھ کئی انسانی المیوں کی داستان ہے۔

    اُس زمانے کے سیاسی اور سماجی حالات کی لفظی عکاسی کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کو ہمارے سامنے پیش کرتی تخلیقات میں ’کفن دفن، فساد، اندھیرا اور اندھیرا، ہفتے کی شام، لاجونتی، پشاور ایکسپریس، امرتسر اور لال باغ‘ بھی شامل ہیں۔

  • منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی کا بنیادی حوالہ ان کی افسانہ نگاری ہے، لیکن مختلف موضوعات پر ان دونوں ادیبوں کے علمی و تحقیقی مضامین، کالم اور خاکے بھی اس دور کے قارئین میں مقبول ہوئے۔

    سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہم عصر تخلیق کار ہی نہیں دوست بھی تھے۔ ان دونوں ادیبوں میں شناسائی کی وجہ اور ان دس دنوں کی روداد پڑھیے جنھوں اپنے وقت کے ان عظیم لکھاریوں کو دوستی کے تعلق میں باندھ دیا۔

    1931 میں تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھاکہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان واپس نہیں جائیں گے۔

    آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی اس خواہش کا احترام کیا گیا اور انہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ممتاز افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے نکلنے والے اخبار ’سیاست‘ میں شایع ہوئی۔ اس نظم کو قاسمی صاحب اپنے شعری سفر کا آغاز کہتے تھے۔

    اسی دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے۔ ان کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شایع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔

    قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد ان کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں دس دن تک منٹو کے ساتھ رہے۔ یہی دس دن ان دنوں کے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنے۔

    اردو زبان کے ان دو نام ور افسانہ نگاروں کے درمیان مراسم منٹو کے انتقال تک قائم رہے۔

  • سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    سعادت حسن منٹو کی زندگی کی کہانی (تصاویر)

    اپنے معاصرین میں منٹو کیوں ممتاز ہوئے، اور کیا وجہ ہے کہ آج بھی انھیں پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے؟

     


    یوں تو کئی قابل، نہایت باصلاحیت لکھاری اور تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب منٹو کے ہم عصر اور اس دور کے اہم نام شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے نثر کی متعدد اصناف میں اردو ادب کے لیے بہت کچھ لکھا، مگر منٹو سب پر سبقت لے گئے۔

     
    منٹو کا تذکرہ آج بھی ہوتا ہے، اس ادیب کو صرف پڑھا ہی نہیں جاتا بلکہ اس کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔

     

     

    شاید ایسا اس لیے ہے کہ سعادت حسن منٹو نے سماجی حقیقتوں، سچائیوں، تلخیوں کو بیان کیا اور اس حوالے سے کوئی رعایت نہیں کی۔ آج اسی ادیب کا یومِ پیدائش منایا جارہا ہے۔

     

     

    گوگل نے اپنے ڈوڈل پر منٹو کو نمایاں کیا ہے جس کا مقصد انھیں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے۔

     

     

    منٹو کی یہ تصاویر ان کی زندگی کے مختلف برسوں کی ہیں۔

     

     

    منٹو بھی دنیا کے اسٹیج کا ایک کردار تھے، اور ہر کردار کی طرح ان کی زندگی کی کہانی بھی موت کے ساتھ مکمل ہوئی۔ 1955 ان کی وفات کا سال ہے۔

     

     

    افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘

  • طاقت کا امتحان

    طاقت کا امتحان

    کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔ مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کون سی چیز ایسی قابلِ دید تھی جس کی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

    ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہوگیا۔
    مثلاً….!
    مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔
    یہ تو آج کل بچے بھی کر سکتے ہیں۔
    چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔
    میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔
    مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمہیں بھی ماننا پڑے گا۔
    بھلے آدمی یہ کون سا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔
    کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟
    اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔
    بالکل غلط ۔
    وہ کیوں؟
    غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہوسکتی۔ طاقت کے لیے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور… کیسی باتیں کر رہے ہو۔
    غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں، مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بل کہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں، کہو تو اسے ثابت کر دوں؟

    یہ گفت گو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پُر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    میں اسے ہرگز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کم بخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقت ور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔

    چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ان کی طاقت۔ سنائو آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

    تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفت گو سے تنگ آکر برابر اپنی ٹک ٹک کیے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں ان کے منہ سے آزاد ہوکر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔

    دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سال ہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے ناامید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتش دان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفت گو سن کر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔
    باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمہارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔

    پھر وہی بحث۔
    تم بتائو تو سہی۔
    پانچ چھے من کے قریب ہوگا۔
    یہ وزن تو تمہاری نظر میں کافی ہے نا؟
    یعنی تمہارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمہارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔ گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اس کے ساتھ ۔

    یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔ مگر تمہیں کیا پتا ہوسکتا ہے۔ کہو تو، تمہارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھائوں۔
    اگر تمہارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔
    تمہاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاک دان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہوگئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشت ناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہ گزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر ان کا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پائوں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکان دار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکان داروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کردیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔ بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان کی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نان بائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اس کے پیٹ میں نوک دار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اس کے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ”مزدور“ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    دو تین دن سے روٹی بہ مشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔ کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے بھیک؟ نہیں خدا کارساز ہے۔

    اس نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چناں چہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    مزدور…. یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    جی حضور؟
    دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟
    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لیے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    جو حضور فرمائیں؟
    یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لوگے؟ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔
    بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔
    کہاں تک جانا ہوگا حضور؟
    بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔
    وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دے دیجیے۔
    تین آنے؟
    جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
    دو آنے مناسب ہے بھئی۔
    دو آنے آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لیے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہوگیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اس کی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سن کر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لیے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    آئیے۔ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیے، وہ بہت مسرور تھے۔

    چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھائو، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔
    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اس کے کاندھوں پر سوار ہے۔

    کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمہارا کل والا سینڈو؟
    کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔
    تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔
    مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقت ور نہیں ہیں۔
    ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔
    واقعی درست ہے۔
    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اس کی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اس کا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔
    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بھوک کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔

    دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    چلو آئو چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔
    میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا لالچ!

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلی فون کا چونگا ہاتھ میں لیے غالباً گندم کا بھائو طے کرنے والا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلی فون کا سلسلہ گفت گو منقطع کردیا۔

    کم بخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔ بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے!
    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عمل جراحی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ ان آنسوئوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

    مصنف: سعادت حسن منٹو

  • دو ادیبوں‌ میں‌ اختلافات جو منٹو کے قلم سے رقم ہوئے

    دو ادیبوں‌ میں‌ اختلافات جو منٹو کے قلم سے رقم ہوئے

    خواجہ حسن نظامی ایک متنوع اور متحرک شخصیت کے مالک تھے۔ ادیب، مصنف، مؤرخ اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک صوفی اور پیر بھی تھے. کہتے ہیں ان کے مرید بھی ہزاروں کی تعداد میں تھے۔

    اسی زمانے میں‌ دیوان سنگھ مفتون نے بھی اپنے قلم اور کھری صحافت کی وجہ سے خوب نام بنا لیا تھا۔ وہ خواجہ حسن نظامی سے صحافت کے گُر سیکھنے والوں‌ میں‌ سے ایک تھے۔ انھوں‌ نے بعد میں‌ اپنی لگن اور تگ و دو سے اردو صحافت میں نام کمایا اور ایک زبردست لکھاری بن کر ابھرے۔ لیکن انہی دو نام وروں‌ کے مابین کچھ اختلاف اور ایسے جھگڑے بھی تھے کہ اس حوالے سے ایسے مضامین لکھے گئے جو کسی کی بھی شہرت خراب کرسکتے تھے۔

    مذکورہ شخصیات سے متعلق مشہور ادیب سعادت حسن منٹو کی زبانی ایک دل چسپ واقعہ سنیے۔ وہ لکھتے ہیں:

    سردار صاحب (دیوان سنگھ مفتون) نے ایک دن زچ ہو کر مجھ سے کہا: میں نے بڑی بڑی قطب صاحب کی لاٹھوں کو جھکا دیا، مگر یہ حسن نظامی مجھ سے نہیں جھکایا جاسکا۔

    منٹو صاحب! میں نے اس شخص کے خلاف اتنا لکھا ہے، اتنا لکھا ہے کہ اگر ریاست کے وہ تمام پرچے جن میں یہ مضامین چھپتے رہے ہیں، اس پر رکھ دیے جائیں، تو ان کے وزن ہی سے اس کا کچومر نکل جائے، لیکن الٹا کچومر میرا نکل گیا۔

    میں نے اس کے خلاف اس قدر زیادہ اس لیے لکھا کہ میں چاہتا تھا کہ وہ بھنا کر قانون کو پکارے، کھلی عدالت میں مقدمہ پیش ہو، اور میں وہاں اس کے ڈھول کا پول کھول کر رکھ دوں … لیکن اس نے کبھی مجھے ایسا موقع نہیں دیا اور نہ دے گا۔