Tag: سعادت حسن منٹو

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

  • جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    جرمن سفیر ارتھ آور مناتے ہوئے کس اردو ادیب کا مطالعہ کر رہے ہیں؟

    اسلام آباد: پاکستان میں تعینات سیاحت کے بے حد شوقین جرمن سفیر مارٹن کوبلر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی سیاحت کے بعد اردو ادب کے بھی شائق نکل آئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن سفیر مارٹن کوبلر پاکستان کے تین صوبوں کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیاحت کر چکے ہیں، انھوں نے سیر کے دوران عام لوگوں سے تعلق رکھنے کی ایک نئی نظیر قائم کی۔

    پاکستانی کھانوں، بالخصوص بریانی، پلاؤ اور مٹن ڈشز کے شوقین مارٹن کوبلر اب اردو ادب کے بھی شوقین نکل آئے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جرمن سفیر کی پوسٹس فالو کرنے والوں کو اس وقت حیرت ہوئی جب انھوں نے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اردو فکشن کے سب سے بڑے افسانہ نگار کی کتاب کا مطالعہ کرتے دکھائی دیے۔

    یاد رہے کہ آج دنیا بھر میں ارتھ آور منایا جا رہا ہے، جس کے تحت رات کے 8:30 سے 9:30 تک ایک گھنٹے کے لیے تمام روشنیاں بھجائی جا رہی ہیں۔

    مارٹن کوبلر نے اس حوالے سے ایک تصویر شیئر کی جس میں وہ اندھیرے میں نظر آ رہے ہیں، اور اردو کے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے افسانے پڑھ رہے ہیں۔

    جرمن سفیر نے لکھا کہ انھوں نے سفارت خانے اور اپنی رہائش گاہ کی تمام غیر ضروری روشنیاں بھجا دی ہیں، کیا آپ لوگ بھی ارتھ آور منا رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان میں موسمی تبدیلی سے متعلق شعور اجاگر کیا جانا بے حد ضروری ہے، اپنی زمین، اور فطرت کے بچاؤ کے لیے لائٹس بجھا دیں، اور اس طرح توانائی، پیسا اور سیارہ بچائیں۔

    خیال رہے کہ تصویر میں منٹو کی جو کلیات دکھائی دے رہی ہے، یہ خالد حسن نے اردو سے انگریزی میں ترجمہ اور ایڈٹ کی ہے۔

  • منٹو کی پہلی جھلک

    منٹو کی پہلی جھلک

    بھارتی ہدایت کارہ نندتا داس اپنی فلم ’منٹو‘ کی شوٹنگ میں مصروف ہیں اور اس سلسلے میں سعادت حسن منٹو کا روپ دھارے بالی ووڈ اداکار نواز الدین صدیقی کی پہلی جھلک منظر عام پر آگئی ہے۔

    نواز الدین صدیقی نے اپنے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی تصویر پوسٹ کی جس میں وہ فلم کے لیے منٹو کا روپ دھارے ہوئے ہیں۔

    نندتا داس کا اس بارے میں کہنا ہے، ’ابھی تو کام جاری ہے۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ منٹو کے ظاہری حلیے کو مزید ان سے ملتا جلتا بنایا جائے گا۔ اور سب سے اہم بات منٹو کی شخصیت کو پیش کرنا ہے۔ ان کا رویہ، حساسیت، ان کے خوف اور ان کی ہمت، ان کی شخصیت میں موجود تمام تضادات کو پیش کرنے کا مرحلہ تو ابھی باقی ہے‘۔

    اس فلم کے لیے نندتا داس نے لاہور میں مقیم منٹو کی بیٹیوں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سے بھی ملاقات کی۔ منٹو کے اہل خانہ نے نندتا کو منٹو کی زندگی اور شخصیت کے ان پہلوؤں سے بھی آگاہ کیا جو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔

    نندتا کا کہنا ہے کہ وہ منٹو کے اہل خانہ کی اجازت سے ان گوشوں کو بھی فلم میں شامل کر رہی ہیں۔

    نندتا داس اس سے قبل 2008 میں اپنی فلم ’فراق‘ پیش کر چکی ہیں جس میں نصیر الدین شاہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔

    دوسری جانب نواز الدین صدیقی بھی منٹو کے کردار کو پیش کرنے کے لیے منٹو کو سمجھنے کی تگ و دو میں ہیں اور بقول ان کے یہ کام منٹو ’بننے‘ سے زیادہ مشکل ہے۔

    اس سے قبل بی بی سی کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اس کردار کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ پچھلے 22 سال سے منٹو کو پڑھ رہے ہیں، اس کے باوجود وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ منٹو کو مکمل طور پر جان چکے ہیں۔

    manto-2

    نواز الدین اپنی عملی زندگی کے آغاز میں منٹو پر بننے والے ایک ڈرامے کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا، ’منٹو کے افسانے آپ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور جب آپ ان افسانوں کی گہرائی میں اترتے ہیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘۔

    نواز الدین کا خیال ہے کہ منٹو جیسی ہمہ گیر شخصیت کا کردار ادا کرنے کے لیے انہیں بے حد محنت، مطالعہ اور کوشش کی ضرورت ہے تاہم وہ اس کی بھاری ذمہ داری خود سے زیادہ نندتا کے کاندھوں پر دیکھتے ہیں۔

    ان کا ماننا ہے کہ منٹو کو پیش کرنے کے لیے انہیں منٹو کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ منٹو کی شدت اور ان کے تاثرات کو پیش کر سکیں، تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔

    نواز الدین صدیقی نے بتایا تھا کہ جب وہ فلم کی ڈائریکٹر نندتا داس سے ملے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا، ’تم ہی میرے منٹو ہو‘۔ بقول نندتا انہوں نے پہلے ہی نواز الدین کو اس کردار کے لیے منتخب کرلیا تھا۔

    دراصل نندتا کا خیال ہے کہ نواز الدین صدیقی بھی اپنی زندگی میں کم و بیش ویسے ہی نشیب و فراز دیکھ چکے ہیں جیسے منٹو نے اپنی زندگی میں دیکھے۔ لیکن نواز الدین اس خیال سے متفق نہیں۔

    نندتا کا کہنا ہے کہ فلم پر کام جاری ہے، اور وہ کچھ نہیں کہہ سکتیں کہ یہ کب مکمل ہو کر پردہ اسکرین پر پیش کی جاسکے گی۔ ’دراصل منٹو کی شخصیت اس قدر ہمہ جہت اور نیرنگی ہے کہ اس کا احاطہ کرنا نہایت مشکل کام ہے‘۔

    manto-3

    واضح رہے کہ یہ فلم اردو کے صف اول کے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی جارہی تاہم منٹو کی زندگی کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے وقت کے کچھ مناظر پیش کیے جائیں گے۔

    اس بارے میں نواز الدین کا کہنا ہے، ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تو صرف منٹو کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے جارہے ہیں‘۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی اس سے قبل منٹو کی زندگی پر 2015 میں فلم پیش کی جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا۔ معروف پاکستانی اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔

  • ‘منٹو کو سمجھنا ان کا کردار ادا کرنے سے زیادہ مشکل’

    ‘منٹو کو سمجھنا ان کا کردار ادا کرنے سے زیادہ مشکل’

    ممبئی: بالی ووڈ اداکار نواز الدین صدیقی کا کہنا ہے کہ وہ معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے کردار کے لیے خود کو منتخب کیے جانے پر اپنے آپ کو نہایت خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ منٹو پر فلم نندتا داس کی ہدایت کاری میں بنائی جارہی ہے۔

    بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو میں نواز الدین کا کہنا تھا کہ جب وہ فلم کی ڈائریکٹر نندتا داس سے ملے تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا، ’تم ہی میرے منٹو ہو‘۔ بقول نندتا انہوں نے پہلے ہی نواز الدین کو اس کردار کے لیے منتخب کرلیا تھا۔

    نواز الدین نے بتایا کہ نندتا کا خیال ہے کہ وہ اپنی زندگی میں کم و بیش ویسے ہی نشیب وفراز دیکھ چکے ہیں جیسے منٹو نے اپنی زندگی میں دیکھے۔ ’لیکن میں نندتا کے اس خیال سے متفق نہیں‘۔

    manto-3

    انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے 22 سال سے منٹو کو پڑھ رہے ہیں، اس کے باوجود وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ منٹو کو مکمل طور پر جان چکے ہیں۔

    نواز الدین اپنی عملی زندگی کے آغاز میں منٹو پر بننے والے ایک ڈرامے کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’منٹو کے افسانے آپ کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، اور جب آپ ان افسانوں کی گہرائی میں اترتے ہیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں‘۔

    نواز الدین کا خیال ہے کہ منٹو جیسی ہمہ گیر شخصیت کا کردار ادا کرنے کے لیے انہیں بے حد محنت، مطالعہ اور کوشش کی ضرورت ہے تاہم وہ اس کی بھاری ذمہ داری خود سے زیادہ نندتا کے کاندھوں پر دیکھتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فلم انڈسٹری کا اگلا سلمان خان نواز الدین صدیقی

    ان کا ماننا ہے کہ منٹو کو پیش کرنے کے لیے انہیں منٹو کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ منٹو کی شدت اور ان کے تاثرات کو پیش کر سکیں، تاہم یہ ایک مشکل کام ہے۔

    واضح رہے کہ فلم سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی جارہی تاہم منٹو کی زندگی کے آخری چند سال اور خاص طور پر تقسیم برٖصغیر کے وقت کے کچھ مناظر پیش کیے جائیں گے۔ اس بارے میں نواز الدین کا کہنا ہے، ’آپ منٹو کو مکمل طور پر بیان کر ہی نہیں سکتے۔ یہ تو صرف منٹو کی ذرا سی جھلک ہوگی جو ہم پیش کرنے جارہے ہیں‘۔

    manto-1

    منٹو پر بننے والی فلم کی ہدایت کار نندتا داس اس سے قبل 2008 میں اپنی فلم ’فراق‘ پیش کر چکی ہیں جس میں نصیر الدین شاہ نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ فلم کی شوٹنگ رواں سال کے آخر میں ممبئی اور لاہور میں مکمل کی جائے گی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں بھی اس سے قبل منٹو کی زندگی پر 2015 میں فلم پیش کی جا چکی ہے جس میں مرکزی کردار سرمد کھوسٹ نے ادا کیا تھا۔ معروف پاکستانی اداکارہ صنم سعید بھی فلم کا حصہ تھیں۔

    سعادت حسن منٹو کو جنوبی ایشیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ افسانے لکھنے والوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں پیش کی جانے والی تلخ سچائی کی وجہ سے ان پر فحاشی کا الزام لگا اور ان پر مقدمات بھی چلے، لیکن یہ سب الزامات وقت کی دھول میں مٹ گئے لیکن منٹو زندہ رہا۔ بقول خود ان کے منٹو لوح جہاں پر حرف مکرر نہیں ہے اور اردو ادب میں دوسرا منٹو پیدا ہونا ناممکن ہے۔

  • بھارتی اداکار نواز الدین صدیقی’’ سعادت حسن منٹو‘‘ کا کردار ادا کریں گے

    بھارتی اداکار نواز الدین صدیقی’’ سعادت حسن منٹو‘‘ کا کردار ادا کریں گے

    ممبئی: بھارتی اداکار نواز الدین صدیقی سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بننے والی فلم میں منٹو کا کردار ادا کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق نندیتا داس نے اپنی نئی آنے والی فلم کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فلم سعادت حسن منٹو کی زندگی پر بنائی جائیگی۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ’’ میرے ذہن میں منٹو کے کردار کو ادا کرنے کے لئے  اداکار نواز الدین صدیقی کا نام تھا، کیونکہ نواز الدین صدیقی اس کردار اس کی گہرائی کے مطابق کرنے کے اہل ہیں‘‘۔

    شائستہ اور دھیمہ لہجے رکھنے والے فنکار نواز الدین صدیقی نے اپنی کرئیر کا آغاز حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم بجرنگی بھائی جان اور لنچ بکس سے کیا تھا۔


    یہ فلم سعادت حسن منٹو کی پوری زندگی پر نہیں بنائی جارہی تاہم منٹو کی زندگی کے آخری کچھ سال اور  خاص طور پر  تقسیمِ برٖصغیر کے وقت کے کچھ مناظر پیش کیے جائیں گے، فلم کی شوٹنگ رواں سال کے آخر میں ممبئی اور لاہور میں مکمل کی جائے گی۔

    فلم کی ہدایتکار امونندیا داس کے مطابق  منٹو بہت گہری سوچ رکھتے تھے ، انہوں نے ہر چیز کو معاشرے کے حساب سے کھل کر بیان کیا ہے اور یہی آزادی اظہار رائے ہے کہ آدمی معاشرے میں اپنی شناخت بنائے اور اپنے اردگرد رہنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے۔

    سعادت حسن منٹو کو جنوبی ایشیاء  کی تاریخ میں سب سے زیادہ افسانہ لکھنے والوں میں سے ایک تصور کیا جاتا ہے، وہ بھارت کے شہر سمارا میں پیدا ہوئے تاہم  1947 کی تقسیم کے  بعد ہجرت کر کے پاکستان کے شہر لاہور منتقل ہوگئے۔

    منٹو نے اپنی زندگی کے دوران کئی کتابیں لکھیں، ناقدین کی جانب سے تصانیف پر فحاشی کا الزام لگنے پر منٹو نے کہا کہ ’’ اگر آپ میری کتابوں میں فحاشی تلاش کرتے ہو تو یہ آپ کا مسئلہ نہیں کیونکہ آپ گندے معاشرے کا حصہ ہو، میری کہانیاں حقیقت پر مبنی ہے اور میں سچ کو بے نقاب کرتا رہوں گا۔

    منٹو شراب نوشی کے باعث 42 سال کی عمر میں 1955 میں پاکستان میں انتقال کرگئے، ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان کی جانب سے 2012 میں انہیں نشانہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

    فلم کی ہدایتکاری امور نندیا داس سرانجام دے رہی ہیں، جن کی پہلی فلم فراق 2008 میں ریلیز ہوچکی ہے، اس فلم میں نصیر الدین شاہ نے اپنی اداکاری کی صلاحتیوں سےمداحوں کے دل جیت لیے تھے۔

    فلم  کے پروڈیوسر وویک کجاریا ہیں جو ہولی بسیل پروڈکشن ہاؤس کے زیر تحت کام کرتے ہیں، ماضی میں وویک کئی مراٹھی فلمیں بنا چکے ہیں مگر یہ فلم ان کی ہندی زبان کی پہلی فلم ہوگی، اس فلم کے لئے سرمایہ کاری امریکہ کے شہری روبن رائنا کر رہے ہیں جو امریکہ میں سافٹ وئیر کمپنی کے چئیرمین بھی ہیں۔

    اس سے قبل منٹو کی زندگی پر 2015 میں فلم نشر جا چکی ہے، جس میں معروف پاکستانی اداکارہ صنم سعید نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے، فلم کی کہانی شاہد ندیم نے لکھی جبکہ اس ڈائریکٹر بابر جاوید اور ہدایتکار پاکستانی ہدایتکار سرمد سلطان کھوسٹ تھے۔

  • ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے 49 برس بیت گئے

    اردو کے منفرد و ما یہ ناز افسانہ نگار وادیب سعادت حسن منٹو کو ہم سے جدا ہو ئے اننچاس برس بیت گئے۔

    اردو افسانے میں یہ ایک بہت بڑی موضوعاتی تبدیلی ،نئی طرز کی افسانہ نگاری میں پہلی اینٹ رکھنے والے سعادت حسن منٹو , منٹو کے افسانے،ڈرامے مضامین اور خاکے اردو ادب میں لازوال حیثیت کے حامل ہیں۔ منٹو پر فحش نگا ری کا الزام لگا نے والو ں کو جواب خود منٹو نے دیا۔

    اگر آپ میرے افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ منٹو نے صرف جنسی نفسیات پر مبنی افسانے نہیں لکھے ، بلکہ غربت ، افلاس، استحصال، مزدور کی حا لت زار ، غریبی اور امیری کے درمیان کی خلیج ، سیاسی بازیگری ، ٹوٹتے بکھرتے انسانی رشتے ، فلمی دنیا کی مصنوعی چمک دمک جیسے اہم موضوعات پر بھی اچھو تے انداز سے قلم اٹھا یا ، منٹو نے لکھا کہ سعادت حسن فانی ہے لیکن منٹو رہتی دنیا تک زندہ رہے گا اور بلاشبہ ان کی تحریریں آج بھی انہیں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔