Tag: سعدیہ راشد

  • بڑے کام کرنے والے ایک بڑے آدمی کا تذکرہ

    شروع میں ابّا جان (حکیم محمد سعید) کا غصہ بہت تیز تھا۔ سب ان سے ڈرتے تھے کہ وہ ناراض نہ ہوں، لیکن برہمی میں وہ ڈانٹتے ڈپٹتے نہیں تھے۔

    میں نے دفتر میں انھیں کبھی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ غصے میں ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا اور وہ خاموش ہو جاتے۔ جب وہ خاموش ہو جاتے، تو سب خاموش ہو جاتے، لیکن یہ صحیح نہ تھا۔ میڈم ڈی سلوا ان کے مزاج کو سمجھ گئی تھیں وہ بولتی رہتی تھیں۔ بولتے رہنے سے ابّا جان کا غصہ جلدی اتر جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ ابّا جان کا غصہ کم ہوتا گیا، وہ آخر میں تو بہت نرم ہوگئے تھے۔ میڈم کہتی تھیں ”وہ ایک چیتے کی طرح تھے، لیکن اب ایک معصوم بلّی کی طرح ہو گئے ہیں۔“

    ابّا جان کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے رفقائے کار سے مشورہ ضرور کرتے تھے۔ وہ شوریٰ کے قائل تھے۔ جو لوگ ان کے اعتماد کے تھے، وہ ان سب کی رائے سنتے، غور کرتے اور پھر فیصلہ کرتے۔ ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے، تو بس اس پر قائم رہتے۔ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے انھیں بڑی محنت کرنا پڑی۔ ایک طرف ادارہ ’ہمدرد‘ کی تعمیر و ترقی، دوسری طرف طبِ یونانی جسے ابّا جان کہتے تھے کہ یہ طبِّ اسلامی ہے۔ اس کا دنیا میں نام روشن کرنا اور اسے تسلیم کرانا اور علم کے میدان میں ان کی پیش قدمیاں۔ یہ سب بڑے کام تھے۔ ان میں بڑی جاں فشانیاں تھیں۔ ان معاملوں میں جب انھیں کوئی فکر لاحق ہوتی، وہ عموماً خاموش ہو جاتے۔ زیادہ تر اپنے اوپر ہی جھیل لیتے۔ ابتدا میں کسی سے ذکر تک نہ کرتے، لیکن اب بعد میں وہ کہنے لگے تھے۔

    آخر دنوں میں تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ مجھے اب اپنی نیند ایک گھنٹے اور کم کرنی پڑے گی۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے کریں گے۔ چار گھنٹے تو آپ سوتے ہیں۔ تین گھنٹے سو کر آپ کام کس طرح کریں گے۔ وہ کہنے لگے ’نہیں مجھے کام بہت ہے۔ مجھے اپنی نیند ایک گھنٹے کم کرنی ہی پڑے گی۔ میں اب محسوس کرتی ہوں کہ ابا جان کو جلدی کیوں تھی۔ وہ مشن کو پورا کرنا چاہتے تھے۔ جو پودے انھوں نے لگائے تھے، انھیں بار آور دیکھنے کے لیے بے چین تھے، وہ اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اپنی سوچ کو انھوں نے اپنے تک محدود نہیں رکھا۔ برملا اظہار کر دیا۔

    وہ اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے کو اپنے خیالات اپنے احساسات سب ریکارڈ کر گئے ہیں۔ ان کی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے، جو چھپا رہ گیا۔ وہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھے۔ جسے انھوں نے لوگوں کے سامنے رکھ دیا تھا کہ لو پڑھ لو، جان لو اور پرکھ لو۔

    (سعدیہ راشد کی گفتگو، انٹرویو سے ماخوذ)

  • ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ایئر ہوسٹس نے گورنر صاحب کو جوس پیش کیا!

    ہمیں پورا آئیڈیل کسی شخصیت میں مل جائے ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس کے ٹکڑے ضرور لوگوں کی شخصیت میں بکھرے مل جاتے ہیں۔ کبھی ایسی کوئی شخصیت بھی مل جاتی ہے جس کے وجود میں ہمارے آئیڈیل کے بیش تر رنگ، بیش تر ستارے زیادہ سے زیادہ نقوش چمک رہے ہوتے ہیں اور ہم غیر شعوری طور پر اس کی طرف کھنچتے چلے جاتے ہیں۔

    میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے ایک شخصیت ایسی مل گئی جس میں میرے آئیڈیل کے سارے رنگ نقوش موجود تھے۔ یہ ابا جان تھے۔ میرے آئیڈیل، وہ مکمل ایک شخصیت تھے۔

    بیٹیاں یوں بھی باپ سے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ میں اپنی امی کے مقابلے میں ابا جان سے زیادہ قریب تھی، حالاں کہ میں شروع سے ان سے بہت ڈرتی تھی، لیکن سب سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھی۔ میں وہی ہونا چاہتی تھی، جو وہ مجھے دیکھنا چاہتے تھے۔ مجھ سے یہ کسی نے نہیں کہا۔ میری امی نے بھی نہیں، لیکن مجھے یہ احساس شدت سے رہتا تھا کہ میں کوئی بات ایسی نہ کروں، جو ابا جان کے معیار عمل سے گری ہوئی ہو۔ میرے قول و عمل میں کوئی پہلو ایسا نہ ہو کہ کوئی کہے یہ حکیم محمد سعید کی بیٹی ہیں!

    مجھے ہر وقت یہ احساس رہتا تھا کہ ابا جان نے بڑی محنت، بڑی قربانیوں سے اپنا ایک مقام بنایا ہے، ایک نام پیدا کیا ہے۔ ان کی نیک نامی پر کوئی حرف نہ آئے۔ یہ احساس بچپن کے بالکل ابتدائی زمانے سے میرے لاشعور میں جاگزیں تھا اور جیسے جیسے میں بڑی ہوتی گئی یہ احساس شعوری طور پر بڑھتا گیا۔

    ابا جان نے میری تربیت اس طرح کی کہ کبھی مجھے بٹھا کر یہ نہیں کہا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا ہے۔ تربیت کا ان کا اپنا طریقہ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں عمل کر کے دکھایا کرتا ہوں مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ انھوں نے خاموشی سے میری تربیت کی اور تمام قدریں جو انہیں عزیز تھیں اپنے عمل سے بتا دیں۔ سچائی، دیانت داری، تواضع، شائستگی، رواداری، اخلاق، دین داری۔ انہوں نے مجھے سب سکھا دیا۔

    ان کا انداز یہ تھا کہ بس اب ساتھ ہیں تو انسان سیکھتا جائے۔ ہم ساتھ رہتے تھے۔ میرا خیال ہے سونے کے لیے بس چند گھنٹے ہی تھے، جس میں ہم الگ ہوتے تھے، ورنہ مستقل ساتھ ساتھ رہتے، حتیٰ کہ جب کسی پروگرام میں جاتے، تو ساتھ ہوتے کوئی استقبالیہ ہوتا، دفتر جا رہے ہیں، دفتری معاملات ہیں، ہمیشہ ساتھ ہوتے۔ وقت تو وہ اپنا بالکل بھی ضایع نہیں کرتے تھے۔ راستے میں بھی ضروری کاغذات دیکھتے جاتے۔ ہم ان کاغذات کے حوالے سے بھی بات کر لیتے۔

    گورنری کے زمانے میں بھی وہ ہماری تربیت کرتے رہتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمیں کوئی غلط احساس ہو۔ ہم کسی ’کمپلیکس‘ میں مبتلا ہوں۔ ہم نے گورنر ہاؤس تو پوری طرح دیکھا بھی نہیں۔ گورنر ہاؤس کی گاڑی تو وہ خود بہت کم استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ سندھ کے گورنر تھے، ہم ہوائی جہاز میں سفر کر رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے اکانومی کلاس میں آگے کی دو سیٹیں جو فرسٹ کلاس کیبن کے فوراً بعد تھیں، ہمیں دی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے جو فرسٹ کلاس میں میزبانی کر رہی تھی، دیکھا کہ گورنر صاحب بیٹھے ہیں، تو اورنج جوس لے کر ہماری طرف آئی اور ابا جان کو پیش کیا، انھوں نے نہیں لیا۔ جب انھوں نے ہاتھ نہیں بڑھایا، تو میں نے بھی ہاتھ نہیں بڑھایا۔

    مجھے معلوم تھا کہ ابا جان نے جوس کیوں نہیں لیا ہے اور یہ وہ سمجھ رہے تھے، لیکن اس کے باوجود جب ایئرہوسٹس چلی گئی، تو انھوں نے مجھ سے کہا، تمہیں پتا ہے، میں نے جوس کیوں نہیں لیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ یہ فرسٹ کلاس کے مسافروں کے لیے تھا، کہنے لگے ہاں، ہم اس کے مسافر نہیں ہیں، اس لیے اس پر تو ہمارا حق نہیں تھا۔ اس وقت بھی وہ چاہتے تھے کہ ہماری تربیت ہو اور ہمیں یہ معلوم ہو کہ یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ ورنہ کیا تھا جوس وہ بھی پی لیتے اور میں بھی پی لیتی۔

    (از قلم سعدیہ راشد)