Tag: سعودی استاد

  • ڈائلاسس کے دوران طلبا کو پڑھانے والا سعودی استاد

    ڈائلاسس کے دوران طلبا کو پڑھانے والا سعودی استاد

    ریاض: سعودی استاد نے فرض شناسی کی مثال قائم کردی، گردوں کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث ڈائلاسس کے دوران بھی استاد طلبا کو لیکچر دیتے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق الاحسا شہر میں اسکول ٹیچر نے شدید بیماری کے باوجود بھی کلاس سے چھٹی نہیں کی، گردوں کے مرض میں مبتلا استاد ڈائلاسس کے سیشن کے دوران کلاس کا وقت ہونے پر طلبا کو لیپ ٹاپ پر لیکچر دیتے ہیں۔

    الاحسا کے یہ اسکول ٹیچر گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ ڈائلاسس کے لیے کڈنی سینٹر جاتے ہیں۔

    ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے استاد کا کہنا تھا کہ ہفتے میں ڈائلاسس کے لیے 3 سیشن کروانے ہوتے ہیں جبکہ اسکول میں ان کے 12 پیریڈ ہیں، جس دن مجھے ڈائلاسس کے لیے سینٹر جانا ہوتا ہے میں اپنا لیپ ٹاپ ہمراہ لے جاتا ہوں تاکہ طلبا کا نقصان نہ ہو۔

    انہوں نے کہا کہ ڈائلاسس کروانے کے دوران لیکچر بھی دیتا ہوں اور طلبا کی جانب سے سوالات کی وضاحت بھی کرتا ہوں۔

    پروگرام میں ایک سوال پر استاد نے کہا کہ طلبا کو تعلیم دینا میرا فرض ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے طلبا کا نقصان ہو اور میں اپنے فرض سے غفلت برتوں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ میرے ساتھی بھی میری مدد کرتے ہیں اس کے باوجود میری کوشش ہوتی ہے کہ میری وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو۔

    استاد نے یہ بھی کہا کہ میری بیماری کے بارے میں بیشتر طلبا کو علم نہیں کہ میں ڈائلاسس کے لیے ہفتے میں 3 دن سینٹر جاتا ہوں۔

  • سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    سعودی استاد کی اپنے ہم وطنوں کی بھلائی کے لیے قابل فخر کوشش

    ریاض: سعودی عرب میں ایک استاد نے قابل تقلید قدم اٹھا کر اپنے گھر کی بیرونی دیوار پر عوامی بک شیلف بنا دیا، شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ایک سعودی استاد حسن آل حمادہ نے اپنے گھر کی دیوار پر کتابوں کے تبادلے کے لیے بک شیلف نصب کیا ہے، مذکورہ استاد مشرقی سعودی عرب کی کمشنری القطیف کے رہتے ہیں۔

    ان کے قائم کردہ اس شیلف سے مقامی شہری کتابیں لے بھی جاتے ہیں اور وہاں نئی کتابیں رکھنے بھی لگے ہیں۔

    ایک مقامی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے حسن آل حمادہ نے اس حوالے بتایا کہ انہوں نے اپنی پہلی کتاب سنہ دراصل 1997 میں شائع کی تھی، تب سے وہ یہ سوچتے رہے کہ لوگوں میں کس طرح مطالعے کی عادت کو فروغ دیا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ 3 برس قبل مکان کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کا خیال آیا تھا مگر کئی رکاوٹیں ایسی آئیں کہ اس پر عملدر آمد نہ ہوسکا۔ اس سال سعودی عرب کے 90 ویں قومی دن کے موقع پر اپنے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا۔

    ان کے مطابق پہلے دن 90 کتابیں بک شیلف میں رکھی تھیں جو اب بڑھ کر 270 ہوچکی ہیں۔ مقامی شہری اس میں بے حد دلچسپی لے رہے ہیں۔

    آل حماد کا کہنا تھا کہ گھر کی دیوار میں بک شیلف قائم کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگ کتابیں پڑھتے ہیں اور پھر ان کے گھروں میں انہیں رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے افراد بجائے ان کتابوں کو ضائع کرنے کے یہاں بک شیلف میں لا کر رکھ سکتے ہیں۔

    اسی طرح کئی افراد مطالعہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کتاب خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، انہی تمام افراد کے لیے یہ بک شیلف تعلیم اور مطالعے کا ایک ذریعہ ثابت ہورہا ہے۔

  • علم سے محبت،سعودی استاد نے مثال قائم کر دی

    علم سے محبت،سعودی استاد نے مثال قائم کر دی

    ریاض: سعودی استاد کی ڈائلاسز کے دوران آن لائن طالب علموں کو پڑھانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی استاد خالد عکاش کو ڈائلاسز کے دوران طالب علموں کو پڑھانے پر سوشل میڈیا پر صارفین کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔

    خالد عکاش کا کہنا تھا کہ مجھے اسکول انتظامیہ نے پیشکش کی تھی کہ کلاس کا وقت تبدیل کرلوں، طلباء کو بھی علم تھا کہ گردے کی صفائی کے دوران آن لائن کلاس لینا مشکل ہے مگر مجھے اچھا نہیں لگا کہ بچوں کو نقصان ہو۔

    سعودی استاد نے بتایا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ کلاس کا تعلق قرآن کریم کی تلاوت اور قرآت سے تھا، طلبہ کو میری مشکل معلوم تھی، وہ یکے بعد دیگرے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے، میں انہیں سنتا رہا جہاں غلطی ہوتی تھی اس کی اصلاح کرتا رہا، ایک طرح سے قرآن کریم کی تلاوت اور تجوید کا درس میرے لیے روحانی سکون کا باعث بن گیا۔

    خالد عکاش کا کہنا تھا کہ کلاس لینے کا مجھے ایک فائدہ یہ ہوا کہ طلبہ میں ذمہ داری کا احساس بڑھ گیا، میں نے محسوس کیا کہ طلباء کے ساتھ میرا رشتہ اور زیادہ گہرا ہوگیا ہے، طلباء نے احساس کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر دنوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 8 سال سے گردے کی تکلیف میں مبتلا ہوں، شروع میں بے حد مشکل ہوتی تھی درد سے تڑپ جاتا تھا مگر اب مجھے عادت ہوگئی ہے، ایک سال سے ہفتے میں 3 بار گردے کی صفائی ہوتی ہے، اس میں ساڑھے 4 گھنٹے لگتے ہیں۔

  • سعودی استاد ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکار بن گیا، قہوہ کی تیاری اور کاشت شروع کر دی

    سعودی استاد ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکار بن گیا، قہوہ کی تیاری اور کاشت شروع کر دی

    ریاض : سعودی استاد نے تدریس سے ریٹائرمنٹ کے بعد کاشتکاری شروع کردی، جبران محمد المالکی کے باغات میں چھ ہزار کافی کے درخت ہیں ‘ ایک ہزار درخت پیداوار کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سعودی استاد جبران محمد المالکی نے 20 برس شعبہ تدریس میں گزار نے کے بعد اپنے شوق کے لیے ’قہوہ کی تیاری اور کاشت‘ کو مستقل پیشے کے طور پر اپنا لیا۔

    میڈیا گفتگو کرتے ہوئے جبران المالکی کا کہنا تھا کہ مجھے عربی قہوہ کی تیاری سے اسے بچپن سے ہی لگاﺅ تھا، اگر یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ شوق مجھے وراثت میں ملا تھا۔

    مقامی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 20 برس شعبہ تدریس سے منسلک رہنے کے بعد جب ریٹائر ہوئے تو اپنے شوق کی تکمیل کے لیے تمام وسائل جمع کیے۔

    جبران محمد المالکی کا کہنا تھا کہ 20 سالہ تدریسی کیریئر کے دوران بھی ہمیشہ یہ سوچا کرتا تھا کہ کیا مجھے زندگی میں کبھی یہ موقع ملے گا کہ قہوہ کی کاشت اور تیاری کرسکوں، سچی لگن اورقہوے سے جنون کی حد تک محبت نے مجھے منزل تک پہنچا دیا۔

    عرب میڈیا کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد جبران محمد المالکی نے اپنے گاﺅں سے کچھ فاصلے پر اہل قریہ سے بات کرکے متروکہ زمینوں پر جسے انہو ں نے اس وجہ سے چھوڑ دیا تھا کہ وہاں آمد ورفت کافی دشوار تھی انہیں حاصل کیا اور وہاں ’ کافی‘ کی کاشت شروع کردی۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جازان کمشنری کے پہاڑی علاقے بنی مالک کے رہائشی اور استاد اپنے شوق کی تکمیل کے لیے اب کاشتکار بن چکے تھے۔

    جبران محمد المالکی نے مزید بتایا کہ اس نے متروکہ زمین کو کافی محنت کے بعد کاشت کے لیے ہموار کر کے اسے ’قہوے کے باغات ‘ میں تبدیل کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ جازان کمشنری میں اب المالکی کے ’قہوے کے باغات‘ مشہور ہیں جہاں اعلی درجے کے کافی کے بیج دستیاب ہوتے ہیں۔

    جبران محمد المالکی کے باغات میں چھ ہزار کافی کے درخت ہیں اور ایک ہزار درخت پیداوار کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، باغ سے سال میں ایک ہی فصل تیار ہوتی ہے، ہر درخت سے تین کلو گرام کافی کے بیج حاصل ہو تے ہیں۔

    جبران محمد المالکی کہنا تھا کہ ’اج یہ لہلہاتے باغات میری ذاتی محنت کا ثمر اور میرے شوق کی تکمیل ہیں۔جو خواب میں بچپن سے دیکھاکرتا تھا آج پورا ہو گیا۔